ایک نظم اُس ہستی کے نام

محمد یوسف

وفقہ اللہ
رکن
ایک نظم اُس ہستی کے نام
---------------------------------
ماں کے لئے تو بہت کچھ لکھا جاتا ہے لیکن ایک ایسی ہستی اور بھی ہے جو ماں کی طرح ہی ہم سے پیار کرتی ہے لیکن اس ہستی کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے تو ایک نظم اُس ہستی کے نام

عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگ و جان سے
یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے !

وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پر رکھتا ہے
یہ ہی وجہ ہے کہ وہ مجھے چومتے ہوئے جھجکتا ہے !
وہ آشنا میرے ہر کرب سے رہا ہر دم
جو کھل کے رو نہیں پایا مگر سسکتا ہے !
جڑی ہے اس کی ہر اک ہاں میری ہاں سے
یہ بات سچ ھے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے !

ہر اک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا ہے
تمام عمر سوائے میرے وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا ہے !
وہ لوٹتا ہے کہیں رات کو دیر گئے، دن بھر
وجود اس کا پسینہ میں ڈھل کر بہتا ہے !
گلے رہتے ہیں پھر بھی مجھے ایسے چاک گریبان سے
یہ بات سچ ھے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے !

پرانا سوٹ پہنتا ہے کم وہ کھاتا ہے
،،، مگر کھلونے میرے سب وہ خرید کے لاتا ہے !
وہ مجھے سوئے ہوئے دیکھتا رہتا ہے جی بھر کے
نجانے کیا کیا سوچ کر وہ مسکراتا رہتا ہے !
میرے بغیر تھے سب خواب اس کے ویران سے
یہ بات سچ ھے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے !

(شاعر کا نام معلوم نہیں ہے ۔اللہ اسکو جزاء خیر دے)
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شاعر کا تجزیہ زبردست ہے۔واقعی باپ سے متعلق کچھ کم لکھا گیا ہے جب کہ حقیقت یہی ہے

وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پر رکھتا ہے
یہ ہی وجہ ہے کہ وہ مجھے چومتے ہوئے جھجکتا ہے !
وہ آشنا میرے ہر کرب سے رہا ہر دم
جو کھل کے رو نہیں پایا مگر سسکتا ہے !
جڑی ہے اس کی ہر اک ہاں میری ہاں سے
یہ بات سچ ھے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے !

شکریہ مولانا یوسف قاسمی صاحب
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
ماشاء اللہ۔۔۔ عمدہ ہے، پڑھ کر دل میں کچھ کچھ ہوتا ہے، ماں باپ کا رشتہ ہی اللہ تعالیٰ نے ایسا انمول بنایا ہے۔
رب ارحمھما کما ربیا صغیرا
 
Top