خلیفہ منصور نے ایک مرتبہ حج کے موقعہ پرامام مالکؒ سے کہا کہ:
"میں چاہتا ہوں کہ ملک کے تمام شہروں میں آپ کی کتاب کا ایک نسخہ روانہ کروں اور تمام لوگوں کوحکم دوں کہ اس پرعمل کریں"۔
اس پر امام مالکؒ نے فرمایا کہ:
"امیرالمؤمنین! خدا را ایسا نہ کیجئے، اس لیے کہ تمام لوگوں تک آثار وروایات پہونچ چکی ہیں اور ہرقوم اپنی مرویات کے مطابق عمل پیرا ہے، لوگوں کواسی حال پرچھوڑ دیجئے"۔
(دراسات فی الاختلافات الفقہیہ:۹۲)
ہارون رشید کے بارے میں بھی یہ قصہ مشہور ہے کہ انہوں نے امام مالکؒ سے مشورہ کیا کہ "مؤطا" کوکعبہ میں رکھا جائے اور لوگوں کواس پرعمل کرنے کا حکم دیا جائے، امام مالکؒ نے کہا:
"لاتفعل فان اصحاب رسول اللہ اختلفوا فی الفروع، وتفرقوا فی البلد ان وکل سنۃ مصنت، قال:وفقک اللہ یاابا عبداللہ"۔
(حکاہ السیوطی۔ الانصاف فی بیان سبب الاختلاف:۲۳)
ترجمہ:ایسا نہ کیجئے، اس لیے کہ مختلف فروع مسائل میں اصحاب رسول اللہﷺ کے درمیان اختلاف ہے اور تمام صحابہؓ مختلف شہروں میں منتشر ہوگئے ہیں اور ان کے ساتھ تمام حدیثیں بھی پھیل گئی ہیں۔
خلاصہ یہ کہ فقہائے امت کے درمیان مسائل فقہ میں اختلاف بھی اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ کے تحت ہے، یہ اختلاف محمود بھی ہے اور مطلوب بھی اور بہت سی دینی مصلحتیں اس سے وابستہ ہیں، اس لیے اس سے انکار کی گنجائش ہے نہ اس سے مفر۔
اب ہم مسائل فقہ میں اختلاف کے چند بنیادی اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہیں، یوں تواحکام ومسائل میں اختلاف کے بہت سے اسباب ہیں؛ لیکن ان میں سب سے بنیادی سبب دو ہیں:
(۱)نصوصِ شرعیہ میں احتمال کا امکان۔
(۲)عقل وفہم اور ذوق کا اختلاف۔
عربی زبان کویہ امتیاز ہے کہ اس میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جو ایک سے زائد معانی پردلالت کرتے ہیں اور چونکہ قرآن وحدیث کے لیے اللہ تعالیٰ نے عربی زبان کا انتخاب کیا ہے "بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ" (الشعراء:۱۹۵) اس لیے اس کی بہت سی نصوص میں ایک سے زائد معانی کا احتمال ہے، دوسرے خالقِ کائنات نے انسانوں کی عقل وفہم میں ایک دوسرے کے درمیان فرق اور تفاوت رکھا ہے، ظاہر ہے یہ دوبنیادی اسباب وہ ہیں جن سے آراء واحکام میں اختلاف وتبدیلی یقینی ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن مجید میں ایک آیت ہے "وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ" (البقرۃ:۲۲۸) اور ایک آیت ہے "لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ" (البقرۃ:۲۲۶) ان میں "ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ" اور "أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ" پرغور کیا جائے "ثَلَاثَةَ" اور "أَرْبَعَةِ" نص قطعی ہے اور معنی اور عدد بھی متعین، اس کے مقابلہ میں لفظ "قُرُوءٍ" لغوی اعتبار سے ایک سے زائد معنی پراس کا اطلاق ہوتا ہے، اس لیے احتمال ہے؛ جب کہ "أَشْهُرٍ" کے معنی قطعی اور متعین ہیں، ظاہر ہے کہ اس صورت میں اوّل الذکر
(ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ) کے فہم میں اختلاف ہوگا اور مؤخرالذکر کے فہم میں اتفاق ۔
یاد رہے کہ حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ اہلِ کوفہ نے "ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ" سے حیض مراد لیا ہے اور حضرت عائشہؓ، ابن عمرؓ اور زید بن ثابتؓ وغیرہ اہلِ حجاز نے "طہر" مراد لیا۔
کبھی کسی نص کے ثبوت وعدم ثبوت میں اختلاف بھی فقہی آراء میں تبدیلی کا سبب ہوتا ہے، یعنی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نص کسی امام ومحدث تک پہونچتی ہے اور کسی کے یہاں نہیں، کسی کے یہاں پایہ ثبوت اور درجہ استخراجِ مسائل وغیرہ سے متعلق ہرمحدث کے اپنے اصول وضوابط ہوتے ہیں توممکن ہے کہ ایک محدث اپنے اصول کے لحاظ سے کسی راوی کی توثیق کردے اور دوسرا اپنے اصول کے اعتبار سے نقد وتحقیق کے بعد اسی راوی کی تضعیف کردے؛ اسی طرح اصولِ حدیث کی بعض اصطلاحات میں محدثین کے درمیان اختلاف بھی نص کے ثبوت وعدم ثبوت پراثرانداز ہوسکتا ہے؛ اسی لیے نصوصِ شرعیہ کی تحقیق ونقد میں حددرجہ احتیاط کی جاتی ہے کہ مجتہدین کا مرجع اوّل یہی ہے اور احکامِ شرعیہ کے استنباط میں انہی کواوّلین ترجیح حاصل ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ، عبدالوارث بن سعید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مکہ میں میری ملاقات امام ابوحنیفہؒ سے ہوئی میں نے پوچھا: آپ کیا فرماتے ہیں اس شخص کے بارے میں جوایک چیز فروخت کرتا ہے اور اس کے ساتھ شرط بھی لگاتا ہے؟ امام صاحبؒ نے کہا: بیع بھی باطل اور شرط بھی باطل؛ پھرمیں نے ابنِ ابی لیلی سے دریافت کیا توانہوں نے کہا: بیع جائز اور شرط باطل؛ پھرمیں نے ابنِ شبرمۃ سے یہی سوال کیا توانہوں نے کہا: بیع بھی جائز اور شرط بھی جائز؛ اس پرمیں اپنے دل میں کہنے لگا، یا اللہ! عراق کے تین فقہاء ایک مسئلہ پربھی متفق نہیں؟؟ پھرمیں نے امام ابوحنیفہؒ سے ملاقات کی اور ابنِ ابی لیلی اور ابنِ شیرمۃ کے فتویٰ سے آگاہ کیا توامام صاحبؒ نے کہا:
"حدثنی عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ قال: نہیٰ رسول اللہﷺ عن بیع وشرط"۔
پھرمیں ابنِ ابی لیلیٰ کے یہاں آیا اور ان سے دونوں کے فتوےٰ بیان کیا توانہوں نے کہا: خدا جانے ان لوگوں نے تم سے کیا کہا؟ لیکن میرے پاس ہشام بن عروہ کے واسطے سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث آئی ہے:
"امرنی رسول اللہ أن اشتری لجریرۃ فاعتقہا فاشترط اھلھا بالولاء لانفسہم فقال رسول اللہ: مَاكَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ"۔
اس لیے بیع جائز اور شرط باطل؛ پھرمیں نے ابنِ شیرمۃ سے دونوں کے فیصلے بیان کئے، توانہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث سنائی کہ:
"بعث النبیﷺ بعیرا وشرط لی حملانہ الی المدینۃ"۔
اس لیے بیع جائز اور شرط بھی جائز۔
(ضحی الاسلام، احمد امین:۲/۱۶۷)
کبھی نص شرعی کے فہم اور اس کی تفسیر وتوضیح میں اختلاف فقہی اختلاف کا باعث ہوتا ہے؛ اس طرح کہ مجتہد نص کی نوعیت واضح طور پر سمجھ نہ پائے، یانص میں کوئی متحمل لفظ ہو یااس قدر مجمل ہوکہ مراد واضح نہ ہوتی ہو، کبھی مجتہدین کے فہم وفراست میں فرق وتفاوت سے بھی مسائل میں اختلاف ممکن ہے اور اس کی واضح مثال وہ حدیث ہے، جسے صحیحین نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کیا ہے، غزوۂ بنوقریظہ کے موقع پرآپﷺ نے تمام مسلمانوں کوبنوقریظہ میں عصر کی نماز ادا کرنے کاحکم فرمایا: "لَايُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّافِي بَنِي قُرَيْظَةَ" چنانچہ جب سفرشروع ہوا توعصر کی نماز کا وقت راستہ میں شروع ہوگیا، اب یہاں نص کے فہم میں اختلاف ہوا، بعض نے کہا کہ چاہے وقت شروع ہوجائے ہم بنوقریظہ ہی میں نماز پڑھیں گے اور بعض نے کہا کہ حضوراکرمﷺ کے ارشاد کا یہ مفہوم نہیں اور انہوں نے نماز ادا کرلی، جب حضورﷺ تشریف لائے اور واقعہ سے آگا کیا گیا تو آپﷺ نے دونوں کی تصویب فرمادی۔
(بخاری، كِتَاب الْمَغَازِي،بَاب مَرْجِعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْأَحْزَابِ وَمَخْرَجِهِ،حدیث نمبر:۳۸۱۰، شاملہ، موقع الإسلام)
اسی طرح رسول اللہﷺ نے چونکہ صرف ایک حج فرمایا، اس موقع پرتمام صحابہؓ مناسکِ حج کا بغور مشاہدہ کررہے تھے، آثار وقرائن کے تحت کسی نے کسی عمل کووجوب پرمحمول کیا، کسی نے استحباب پر؛ اسی طرح روایات کا اختلاف اور ہرصحابی کے فہم وادراک میں اختلاف نے مختلف ومتضاد روایات کا ایک ذخیرہ جمع کردیا؛ چنانچہ ہماری فقہ کی کتابوں میں فقہاء وعلماء کے درمیان اس باب میں جوعلمی وفقہی اختلاف ہے وہ اہلِ علم سے مخفی نہیں؛ اسی طرح مختلف متعارض نصوص کے درمیان جمع وتطبیق اور طرق ترجیح میں اختلاف بھی فقہی اختلاف کا سبب ہےـــــــ استنجاء میں استقبالِ قبلہ اور استدبار کی بحث مشہور اور اس کا اختلاف معروف ہے، ایک جماعت کا خیال ہے کہ استقبال واستدبار دونوں جائز ہے، ایک جماعت مطلقاً جواز کی قائل ہے اور بعض نے فرق کیا ہے کہ صحرا وجنگل میں ناجائز اور آبادی میں جائز، یہ اختلاف بھی دراصل روایات کے اختلاف پرمبنی ہے، علامہ ابن رشد قرطبی نے لکھا ہے کہ اس سلسلہ میں تین مذاہب ہوئے، بعض نے جمع وتطبیق کی راہ اختیار کی اور حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کی حدیث کوجنگل وصحراء اور ابن عمرؓ کی روایت کوسترہ پرمحمول کیا، امام شافعیؒ وامام مالکؒ کا مذہب بھی یہی ہے، بعض نے ترجیح کی راہ اختیار کی اور حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث کوراجح قرار دیا، حضرت عمرؓ، حضرت ابوایوبؓ، امام ابوحنیفہؒ اور دیگر علماء احناف نے یہی مسلک اختیار کیا، بعض نے تعارض کی بناپراصل کی طرف رجوع کیا اور مطلق جواز کا فتویٰ دیا، یہ مسلک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، عروہ بن زبیرؓ، داؤدظاہری اور ربیعۃ الرائےکا ہے۔
(بدایۃ المجتہد:۱/۸۷)
اصولی قواعد اور بعض مصادر استنباط میں اختلاف بھی فقہی اختلاف کا ذریعہ بنتا ہے اور ہم یہ ذکرکرچکے ہیں کہ ہرامام ومحدث کے یہاں احادیث کے قبول ورد میں مختلف اصول ہیں اور ہرایک کا اپنا نقطۂ نظر اور طریقہ کار ہے؛ نیز اجتہادی اصول اور بعض مصادرِ استنباط کی حجیت میں بھی علماء کے درمیان اختلاف ہے، جیسے امام مالکؒ کے یہاں تعامل اہلِ مدینہ حجت اور دلیلِ شرعی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اجتہادی اصول وقواعد اور استخراج کے مصادر میں اختلاف کی یہ کڑی فقہ اسلامی میں اختلاف کی اہم ترین وجہ ہے اور اختلافِ فقہا پر اس کے گہرے اثرات ہیں، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ امام مالکؒ نے اپنے اصول "حجیت تعامل اہلِ مدینہ" کی روشنی میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ صلوٰۃ عیدین میں گیارہ تکبیرات ہیں، چھ پہلی رکعت میں (تکبیرِتحریمہ کے سوا) اور پانچ دوسری رکعت میں اس سلسلہ میں احناف کی رائے الگ ہے۔
(بدایۃ المجتہد:۱/۲۱۷)
اصولی قواعد اور مصادر استنباط میں اختلاف کی بھی بہت سی نظیریں ہیں، جن کے تذکرہ کی یہاں گنجائش نہیں، تعارض دلائل میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف کا ایک سبب ہےــــــ ہمارے فقہاء ومحدثین کے درمیان ایک معرکۃ الآراء مسئلہ"وضوء بمس الذکر" ہے، شوافع وحنابلہ وغیرہ کے یہاں حضرت بسرہ بنتِ صفوان کی روایت اور حضرت عبداللہ ابن عمرؓ، حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وغیرہ کے مسلک کی روشنی میں مس ذکر ناقضِ وضو ہے، جب کہ احناف حضرت طلق بن علی کی روایت اور حضرت علیؓ اور ابنِ مسعودؓ وغیرہ کے مسلک کی روشنی میں اسے ناقضِ وضو نہیں سمجھتے اور دونوں فریق کے یہاں دلائل اور کبار صحابہؓ کی آراء موجود ہیں؛ لیکن فقہاء کے درمیان اختلاف ونزاع کی بنیاد محض دلائل کا تعارض واختلاف ہے۔
(اثرالاختلاف فی القواعد الأصولیۃ:۱۰۲، ڈاکٹرمصطفی سعید الخن)
یہ اور ان کے علاوہ اور بھی اسباب ووجوہ ہوسکتے ہیں، مثلاً :اختلافِ قرأت، یعنی قرآن مجید کی تلاوت میں رسول اللہﷺسے مختلف قرأتیں تواتراً ثابت ہیں، ان قرأت کے اختلاف سے بھی احکام ومسائل کے استنباط میں اختلاف ہوسکتا ہے اور قرأت کے اسی معمولی اختلاف کا فقہی احکام پراثر یہ ہوا کہ وضو میں غسل رجلین کے مسئلہ میں جمہور فقہاء کے مقابلہ میں ایک طبقہ نے مسح رجلین کوکافی قرار دیا۔
(اثرالاختلاف فی القواعد الأصولیۃ:۴۱)
اسی طرح اختلافِ ضبط، اختلافِ سہو ونسیان وغیرہ اسباب بھی اختلاف کا باعث ہوتے ہیں۔
(تفصیل کے لیے دیکھئے "الانصاف" شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ)
جوکتب فقہ کے ذخیرہ میں تلاش وجستجو سے حاصل ہوسکتے ہیں اور اُمت کے علماء نے عرق ریزی وجانفشانی ودیدہ وری کے ساتھ اس موضوع پرقلم اٹھایا ہے، جن میں علامہ ابن تیمیہ "رفع الملام عن ائمۃ الأعلام" اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ "" خصوصیت سے قابل ذکر ہیں اوردیگرعلماء متقدمین ومتأخرین کی بھی تشفی بخش کتابیں اس موضوع پر ہیں، ہم نے بطور "مشتے نمونہ ازخروارے"ــــــــــــ اِن چند اسباب کی طرف اشارہ کیا ہے، واللہ ولی التوفیق۔
فیس بک سے ایک اقتباس(ابتسامہ)
"میں چاہتا ہوں کہ ملک کے تمام شہروں میں آپ کی کتاب کا ایک نسخہ روانہ کروں اور تمام لوگوں کوحکم دوں کہ اس پرعمل کریں"۔
اس پر امام مالکؒ نے فرمایا کہ:
"امیرالمؤمنین! خدا را ایسا نہ کیجئے، اس لیے کہ تمام لوگوں تک آثار وروایات پہونچ چکی ہیں اور ہرقوم اپنی مرویات کے مطابق عمل پیرا ہے، لوگوں کواسی حال پرچھوڑ دیجئے"۔
(دراسات فی الاختلافات الفقہیہ:۹۲)
ہارون رشید کے بارے میں بھی یہ قصہ مشہور ہے کہ انہوں نے امام مالکؒ سے مشورہ کیا کہ "مؤطا" کوکعبہ میں رکھا جائے اور لوگوں کواس پرعمل کرنے کا حکم دیا جائے، امام مالکؒ نے کہا:
"لاتفعل فان اصحاب رسول اللہ اختلفوا فی الفروع، وتفرقوا فی البلد ان وکل سنۃ مصنت، قال:وفقک اللہ یاابا عبداللہ"۔
(حکاہ السیوطی۔ الانصاف فی بیان سبب الاختلاف:۲۳)
ترجمہ:ایسا نہ کیجئے، اس لیے کہ مختلف فروع مسائل میں اصحاب رسول اللہﷺ کے درمیان اختلاف ہے اور تمام صحابہؓ مختلف شہروں میں منتشر ہوگئے ہیں اور ان کے ساتھ تمام حدیثیں بھی پھیل گئی ہیں۔
خلاصہ یہ کہ فقہائے امت کے درمیان مسائل فقہ میں اختلاف بھی اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ کے تحت ہے، یہ اختلاف محمود بھی ہے اور مطلوب بھی اور بہت سی دینی مصلحتیں اس سے وابستہ ہیں، اس لیے اس سے انکار کی گنجائش ہے نہ اس سے مفر۔
اب ہم مسائل فقہ میں اختلاف کے چند بنیادی اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہیں، یوں تواحکام ومسائل میں اختلاف کے بہت سے اسباب ہیں؛ لیکن ان میں سب سے بنیادی سبب دو ہیں:
(۱)نصوصِ شرعیہ میں احتمال کا امکان۔
(۲)عقل وفہم اور ذوق کا اختلاف۔
عربی زبان کویہ امتیاز ہے کہ اس میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جو ایک سے زائد معانی پردلالت کرتے ہیں اور چونکہ قرآن وحدیث کے لیے اللہ تعالیٰ نے عربی زبان کا انتخاب کیا ہے "بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ" (الشعراء:۱۹۵) اس لیے اس کی بہت سی نصوص میں ایک سے زائد معانی کا احتمال ہے، دوسرے خالقِ کائنات نے انسانوں کی عقل وفہم میں ایک دوسرے کے درمیان فرق اور تفاوت رکھا ہے، ظاہر ہے یہ دوبنیادی اسباب وہ ہیں جن سے آراء واحکام میں اختلاف وتبدیلی یقینی ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن مجید میں ایک آیت ہے "وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ" (البقرۃ:۲۲۸) اور ایک آیت ہے "لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ" (البقرۃ:۲۲۶) ان میں "ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ" اور "أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ" پرغور کیا جائے "ثَلَاثَةَ" اور "أَرْبَعَةِ" نص قطعی ہے اور معنی اور عدد بھی متعین، اس کے مقابلہ میں لفظ "قُرُوءٍ" لغوی اعتبار سے ایک سے زائد معنی پراس کا اطلاق ہوتا ہے، اس لیے احتمال ہے؛ جب کہ "أَشْهُرٍ" کے معنی قطعی اور متعین ہیں، ظاہر ہے کہ اس صورت میں اوّل الذکر
(ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ) کے فہم میں اختلاف ہوگا اور مؤخرالذکر کے فہم میں اتفاق ۔
یاد رہے کہ حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ اہلِ کوفہ نے "ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ" سے حیض مراد لیا ہے اور حضرت عائشہؓ، ابن عمرؓ اور زید بن ثابتؓ وغیرہ اہلِ حجاز نے "طہر" مراد لیا۔
کبھی کسی نص کے ثبوت وعدم ثبوت میں اختلاف بھی فقہی آراء میں تبدیلی کا سبب ہوتا ہے، یعنی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نص کسی امام ومحدث تک پہونچتی ہے اور کسی کے یہاں نہیں، کسی کے یہاں پایہ ثبوت اور درجہ استخراجِ مسائل وغیرہ سے متعلق ہرمحدث کے اپنے اصول وضوابط ہوتے ہیں توممکن ہے کہ ایک محدث اپنے اصول کے لحاظ سے کسی راوی کی توثیق کردے اور دوسرا اپنے اصول کے اعتبار سے نقد وتحقیق کے بعد اسی راوی کی تضعیف کردے؛ اسی طرح اصولِ حدیث کی بعض اصطلاحات میں محدثین کے درمیان اختلاف بھی نص کے ثبوت وعدم ثبوت پراثرانداز ہوسکتا ہے؛ اسی لیے نصوصِ شرعیہ کی تحقیق ونقد میں حددرجہ احتیاط کی جاتی ہے کہ مجتہدین کا مرجع اوّل یہی ہے اور احکامِ شرعیہ کے استنباط میں انہی کواوّلین ترجیح حاصل ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ، عبدالوارث بن سعید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مکہ میں میری ملاقات امام ابوحنیفہؒ سے ہوئی میں نے پوچھا: آپ کیا فرماتے ہیں اس شخص کے بارے میں جوایک چیز فروخت کرتا ہے اور اس کے ساتھ شرط بھی لگاتا ہے؟ امام صاحبؒ نے کہا: بیع بھی باطل اور شرط بھی باطل؛ پھرمیں نے ابنِ ابی لیلی سے دریافت کیا توانہوں نے کہا: بیع جائز اور شرط باطل؛ پھرمیں نے ابنِ شبرمۃ سے یہی سوال کیا توانہوں نے کہا: بیع بھی جائز اور شرط بھی جائز؛ اس پرمیں اپنے دل میں کہنے لگا، یا اللہ! عراق کے تین فقہاء ایک مسئلہ پربھی متفق نہیں؟؟ پھرمیں نے امام ابوحنیفہؒ سے ملاقات کی اور ابنِ ابی لیلی اور ابنِ شیرمۃ کے فتویٰ سے آگاہ کیا توامام صاحبؒ نے کہا:
"حدثنی عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ قال: نہیٰ رسول اللہﷺ عن بیع وشرط"۔
پھرمیں ابنِ ابی لیلیٰ کے یہاں آیا اور ان سے دونوں کے فتوےٰ بیان کیا توانہوں نے کہا: خدا جانے ان لوگوں نے تم سے کیا کہا؟ لیکن میرے پاس ہشام بن عروہ کے واسطے سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث آئی ہے:
"امرنی رسول اللہ أن اشتری لجریرۃ فاعتقہا فاشترط اھلھا بالولاء لانفسہم فقال رسول اللہ: مَاكَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ"۔
اس لیے بیع جائز اور شرط باطل؛ پھرمیں نے ابنِ شیرمۃ سے دونوں کے فیصلے بیان کئے، توانہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث سنائی کہ:
"بعث النبیﷺ بعیرا وشرط لی حملانہ الی المدینۃ"۔
اس لیے بیع جائز اور شرط بھی جائز۔
(ضحی الاسلام، احمد امین:۲/۱۶۷)
کبھی نص شرعی کے فہم اور اس کی تفسیر وتوضیح میں اختلاف فقہی اختلاف کا باعث ہوتا ہے؛ اس طرح کہ مجتہد نص کی نوعیت واضح طور پر سمجھ نہ پائے، یانص میں کوئی متحمل لفظ ہو یااس قدر مجمل ہوکہ مراد واضح نہ ہوتی ہو، کبھی مجتہدین کے فہم وفراست میں فرق وتفاوت سے بھی مسائل میں اختلاف ممکن ہے اور اس کی واضح مثال وہ حدیث ہے، جسے صحیحین نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کیا ہے، غزوۂ بنوقریظہ کے موقع پرآپﷺ نے تمام مسلمانوں کوبنوقریظہ میں عصر کی نماز ادا کرنے کاحکم فرمایا: "لَايُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّافِي بَنِي قُرَيْظَةَ" چنانچہ جب سفرشروع ہوا توعصر کی نماز کا وقت راستہ میں شروع ہوگیا، اب یہاں نص کے فہم میں اختلاف ہوا، بعض نے کہا کہ چاہے وقت شروع ہوجائے ہم بنوقریظہ ہی میں نماز پڑھیں گے اور بعض نے کہا کہ حضوراکرمﷺ کے ارشاد کا یہ مفہوم نہیں اور انہوں نے نماز ادا کرلی، جب حضورﷺ تشریف لائے اور واقعہ سے آگا کیا گیا تو آپﷺ نے دونوں کی تصویب فرمادی۔
(بخاری، كِتَاب الْمَغَازِي،بَاب مَرْجِعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْأَحْزَابِ وَمَخْرَجِهِ،حدیث نمبر:۳۸۱۰، شاملہ، موقع الإسلام)
اسی طرح رسول اللہﷺ نے چونکہ صرف ایک حج فرمایا، اس موقع پرتمام صحابہؓ مناسکِ حج کا بغور مشاہدہ کررہے تھے، آثار وقرائن کے تحت کسی نے کسی عمل کووجوب پرمحمول کیا، کسی نے استحباب پر؛ اسی طرح روایات کا اختلاف اور ہرصحابی کے فہم وادراک میں اختلاف نے مختلف ومتضاد روایات کا ایک ذخیرہ جمع کردیا؛ چنانچہ ہماری فقہ کی کتابوں میں فقہاء وعلماء کے درمیان اس باب میں جوعلمی وفقہی اختلاف ہے وہ اہلِ علم سے مخفی نہیں؛ اسی طرح مختلف متعارض نصوص کے درمیان جمع وتطبیق اور طرق ترجیح میں اختلاف بھی فقہی اختلاف کا سبب ہےـــــــ استنجاء میں استقبالِ قبلہ اور استدبار کی بحث مشہور اور اس کا اختلاف معروف ہے، ایک جماعت کا خیال ہے کہ استقبال واستدبار دونوں جائز ہے، ایک جماعت مطلقاً جواز کی قائل ہے اور بعض نے فرق کیا ہے کہ صحرا وجنگل میں ناجائز اور آبادی میں جائز، یہ اختلاف بھی دراصل روایات کے اختلاف پرمبنی ہے، علامہ ابن رشد قرطبی نے لکھا ہے کہ اس سلسلہ میں تین مذاہب ہوئے، بعض نے جمع وتطبیق کی راہ اختیار کی اور حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کی حدیث کوجنگل وصحراء اور ابن عمرؓ کی روایت کوسترہ پرمحمول کیا، امام شافعیؒ وامام مالکؒ کا مذہب بھی یہی ہے، بعض نے ترجیح کی راہ اختیار کی اور حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث کوراجح قرار دیا، حضرت عمرؓ، حضرت ابوایوبؓ، امام ابوحنیفہؒ اور دیگر علماء احناف نے یہی مسلک اختیار کیا، بعض نے تعارض کی بناپراصل کی طرف رجوع کیا اور مطلق جواز کا فتویٰ دیا، یہ مسلک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، عروہ بن زبیرؓ، داؤدظاہری اور ربیعۃ الرائےکا ہے۔
(بدایۃ المجتہد:۱/۸۷)
اصولی قواعد اور بعض مصادر استنباط میں اختلاف بھی فقہی اختلاف کا ذریعہ بنتا ہے اور ہم یہ ذکرکرچکے ہیں کہ ہرامام ومحدث کے یہاں احادیث کے قبول ورد میں مختلف اصول ہیں اور ہرایک کا اپنا نقطۂ نظر اور طریقہ کار ہے؛ نیز اجتہادی اصول اور بعض مصادرِ استنباط کی حجیت میں بھی علماء کے درمیان اختلاف ہے، جیسے امام مالکؒ کے یہاں تعامل اہلِ مدینہ حجت اور دلیلِ شرعی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اجتہادی اصول وقواعد اور استخراج کے مصادر میں اختلاف کی یہ کڑی فقہ اسلامی میں اختلاف کی اہم ترین وجہ ہے اور اختلافِ فقہا پر اس کے گہرے اثرات ہیں، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ امام مالکؒ نے اپنے اصول "حجیت تعامل اہلِ مدینہ" کی روشنی میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ صلوٰۃ عیدین میں گیارہ تکبیرات ہیں، چھ پہلی رکعت میں (تکبیرِتحریمہ کے سوا) اور پانچ دوسری رکعت میں اس سلسلہ میں احناف کی رائے الگ ہے۔
(بدایۃ المجتہد:۱/۲۱۷)
اصولی قواعد اور مصادر استنباط میں اختلاف کی بھی بہت سی نظیریں ہیں، جن کے تذکرہ کی یہاں گنجائش نہیں، تعارض دلائل میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف کا ایک سبب ہےــــــ ہمارے فقہاء ومحدثین کے درمیان ایک معرکۃ الآراء مسئلہ"وضوء بمس الذکر" ہے، شوافع وحنابلہ وغیرہ کے یہاں حضرت بسرہ بنتِ صفوان کی روایت اور حضرت عبداللہ ابن عمرؓ، حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وغیرہ کے مسلک کی روشنی میں مس ذکر ناقضِ وضو ہے، جب کہ احناف حضرت طلق بن علی کی روایت اور حضرت علیؓ اور ابنِ مسعودؓ وغیرہ کے مسلک کی روشنی میں اسے ناقضِ وضو نہیں سمجھتے اور دونوں فریق کے یہاں دلائل اور کبار صحابہؓ کی آراء موجود ہیں؛ لیکن فقہاء کے درمیان اختلاف ونزاع کی بنیاد محض دلائل کا تعارض واختلاف ہے۔
(اثرالاختلاف فی القواعد الأصولیۃ:۱۰۲، ڈاکٹرمصطفی سعید الخن)
یہ اور ان کے علاوہ اور بھی اسباب ووجوہ ہوسکتے ہیں، مثلاً :اختلافِ قرأت، یعنی قرآن مجید کی تلاوت میں رسول اللہﷺسے مختلف قرأتیں تواتراً ثابت ہیں، ان قرأت کے اختلاف سے بھی احکام ومسائل کے استنباط میں اختلاف ہوسکتا ہے اور قرأت کے اسی معمولی اختلاف کا فقہی احکام پراثر یہ ہوا کہ وضو میں غسل رجلین کے مسئلہ میں جمہور فقہاء کے مقابلہ میں ایک طبقہ نے مسح رجلین کوکافی قرار دیا۔
(اثرالاختلاف فی القواعد الأصولیۃ:۴۱)
اسی طرح اختلافِ ضبط، اختلافِ سہو ونسیان وغیرہ اسباب بھی اختلاف کا باعث ہوتے ہیں۔
(تفصیل کے لیے دیکھئے "الانصاف" شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ)
جوکتب فقہ کے ذخیرہ میں تلاش وجستجو سے حاصل ہوسکتے ہیں اور اُمت کے علماء نے عرق ریزی وجانفشانی ودیدہ وری کے ساتھ اس موضوع پرقلم اٹھایا ہے، جن میں علامہ ابن تیمیہ "رفع الملام عن ائمۃ الأعلام" اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ "" خصوصیت سے قابل ذکر ہیں اوردیگرعلماء متقدمین ومتأخرین کی بھی تشفی بخش کتابیں اس موضوع پر ہیں، ہم نے بطور "مشتے نمونہ ازخروارے"ــــــــــــ اِن چند اسباب کی طرف اشارہ کیا ہے، واللہ ولی التوفیق۔
فیس بک سے ایک اقتباس(ابتسامہ)