شاعر ختم نبوت حضرت امین گیلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں 1953 کی تحریک ختم نبوت میں، میں شیخورہ جیل میں قید تھا۔ فرماتے ہیں میری والدہ محترمہ مجھے جیل میں ملنے آئیں۔ تو ساتھ میں میرے لیے کچھ کھانے کے لیے لائیں۔ جو اُنہوں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا۔ تو جیل کی سپریڈنٹ نے مجھے اپنے کمرہ میں طلب کیا۔فرماتے ہیں جب میں نے اپنی والدہ محترمہ کو دیکھا اور والدہ محترمہ نے مجھے دیکھا تو جزبات کی وجہ سے ہمارے آنکھوں میں آنسو آگئے۔ جیل کے سپریڈنٹ نے موقع جانتے ہوئے۔ میری والدہ محترمہ کو ایک کاغز دیااور کہا:
"اماں جان یہ معافی نامہ ہے۔اگر آپ اس پر دستخط کردیں،کہ آپ کا بیٹا تحریک ختم نبوت میں کسی قسم کا حصہ نہیں لے گا۔ تو میں آپ کے بیٹے کو ابھی آپ کے ساتھ گھر بھیج دیتا ہوں"
حضرت امین گیلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ڈر گیا۔ کہ والدہ ہیں کہیں بیٹے کا پیار غالب نہ آجائے۔ اور والدہ کے قدم ڈگمگا نہ جائیں۔فرماتے ہیں کہ میری حیرت کی اس وقت انتہاء نہ رہی جب والدہ محترمہ نے اُسی لہجہ میں سپریڈنٹ کو جواب دیا:
" جو آنسو تجھے نظر آرہے ہیں۔ یہ مادرانہ شفقت ہے۔ورنہ اس جیسے دس بیٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت و آبرو پر قربان کردوں"
ختم نبوت زندہ باد
"اماں جان یہ معافی نامہ ہے۔اگر آپ اس پر دستخط کردیں،کہ آپ کا بیٹا تحریک ختم نبوت میں کسی قسم کا حصہ نہیں لے گا۔ تو میں آپ کے بیٹے کو ابھی آپ کے ساتھ گھر بھیج دیتا ہوں"
حضرت امین گیلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ڈر گیا۔ کہ والدہ ہیں کہیں بیٹے کا پیار غالب نہ آجائے۔ اور والدہ کے قدم ڈگمگا نہ جائیں۔فرماتے ہیں کہ میری حیرت کی اس وقت انتہاء نہ رہی جب والدہ محترمہ نے اُسی لہجہ میں سپریڈنٹ کو جواب دیا:
" جو آنسو تجھے نظر آرہے ہیں۔ یہ مادرانہ شفقت ہے۔ورنہ اس جیسے دس بیٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت و آبرو پر قربان کردوں"
ختم نبوت زندہ باد