اسلام میں عورت کا مقام یورپی اور مغربی مؤرخین کی نظر میں
( مفتی محمد عمیر)
قبل از اسلام عورت دنیا میں اخلاقی پستیوں کا شکار تھی۔ اس کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کیا جاتا اور عورت کی کوئی قدر ومنزلت نہ تھی اسلام نے آکر عورت کو وہ مقام عطا کیا جوچودہ سوسال گذرنے کے باوجود کسی اور مذہب یا تنظیم نے نہیں دیا۔ اس کے باوجود مغرب نے جو شور مچا رکھا ہے کہ ہم نے عورتوں کو آزادی دی ہے اور عورت کو مرد کے برابر کھڑا کر دیا ہے اس کا پس ِ منظر کیا ہے؟ آیئے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں۔
اس بات کا بھانڈا روس کے ایک سابق وزیر اعظم گوربا چوف نے اپنے پروسٹرائیکا میں پھوڑا کہ اصل بات یہ ہوئی کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں قتلِ عام ہوا ، لاکھوں کروڑوں افراد مارے گئے۔ افرادی قوت کا خلا پیدا ہوگیا۔ فیکٹریاں بند ہو گئی۔ دفتر خالی ہو گئے۔ سکول ویران ہو گئے، گوربا چوف کے الفاظ ہیں کہ ہم نے اپنی افرادی قوت کے خلا کو پر کرنے کے لیے عورت سے یہ کہا کہ تمہیں ہم برابر کے حقوق دیتے ہیں تم گھر سے باہر نکلو اور فیکٹری، دفتر اور سکولوں میں آئو اور ہمارے لیے کام کرو یعنی گھر کا کام بھی کرو اور باہر کا بھی ۔ ہم عورت کو ورغلا کر گھر سے باہر لائے، ہم نے یہ کام کرکے اپنی افرادی قوت کے خلا کو تو پر کر لیا مگر ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہو گیا۔ گورباچوف کہتا ہے کہ اب ہم چاہتے ہیں وہ واپس گھر چلی جائے اور اپنے گھر کا نظام سنبھالے لیکن ہمیں کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔
مغرب نے بیچاری عورت کے ساتھ کیا کیا؟ یہ ایک بہت سنجیدہ سوال ہے۔ عورت کے جو فطری فرائض ہیں وہ تو اس کے کھاتے میں ہیں، بچہ جننابھی عورت نے ہے، پالنا بھی اس نے ہے، ایک خاص عمر تک بچے کی عورت ہی نے پرورش کرنی ہے۔ مرد یہ کام نہیں کرسکتا یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ قدرت کی تقسیم تو بالکل فطری ہے کہ گھر کا نظام عورت سنبھالے اور باہر کے معاملات کا نظام مرد کے سپرد ہے لیکن مغرب نے عورت کو کارخانے اور دفتر میں لا کر اس کے حقوق میں اضافہ کیا یا فرائض میں؟ اس کی کسی ڈیوٹی کو شیئر کیے بغیر اسے اپنے ساتھ ڈیوٹی میں شامل کر لیا ہے۔ افسوس یہ کہ عورت بجائے اس بات کو سمجھنے پر کہ دونوں طرف سے ڈیوٹی میرے کھاتے میں پڑ گئی ہے اس عنوان پر خوش ہے کہ ہمارے حقوق برابر ہو گئے ہیں حالانکہ سوچنا یہ چاہیے کہ کیا یہی آزادی ہے کہ عورت کو جو کہ ملکہ تھی اسے ائیر ہوسٹس، بس ہوسٹس اور ہوٹلوں میں ہر ایک شخص کی خدمت میں لگا دیا گیا۔ ارے! جب اللہ نے عورت کا نان نفقہ مرد کے ذمہ لگا دیا تو اسے معاش کی فکر کیوں ہے؟
گرامی قدر قارئین! اب نام نہاد آزادیٔ نسواں اور حقوق نسواں کے علمبرداروں اور مغرب پرست حلقوں اور دین اسلام کے نکتہ چینوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیں کہ خود مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم فلسفیوں، مؤرخوں، مفکروں، ادیبوں، راہبانِ کلیسا، غیر مسلم اربابِ فکر ونظر، دانایان فرنگ اور دانشورانِ عالم نے اعتراف حقیقت کرتے ہوئے دین اسلام کو علمبردار حقوق نسواں اور نجات دہندہ قرار دیا۔
(1)معروف فرانسیسی محقق ڈاکٹر گستائولی با ن ’’اسلام کا اثر مشرقی عورتوں کی حالت پر ‘‘ کے عنوان کے تحت رقمطراز ہیں: اسلام نے مسلمان عورتوں کی تمدنی حالت پر نہایت مفید اور گہرا اثر ڈالا۔ انہیں ذلت کی بجائے عزت و رفعت سے سرفراز کیا اور کم و بیش ہر میدان میں ترقی سے ہمکنار کیا چنانچہ قرآن کا قانون وراثت و حقوق نسواں یورپ کے قانون وراثت وحقوق نسواں کے مقابلے میں بہت زیادہ مفید اور زیادہ وسیع اور فطرت نسواں سے زیادہ قریب ہے۔
(2)ممتاز یورپی مصنف پروفیسر ڈی ایس مار گولیوتھ جو اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کے ساتھ دشمنی، بہتان تراشی، اعتراضات اور الزامات کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، اس نے پیغمبر اسلامﷺ کی سیرت طیبہ میں جو کتاب Lief of Muhammad (p.b.u.h)کے نام سے تصنیف کی اس میں من گھڑت اعتراضات کا طوفان بپا ہے باایں ہمہ نیش زنی ایک موقع پر حقیقت کا اعتراف اس طرح کیا ہے کہ دور جاہلیت میں عرب تو ایک طرف رہے عیسائیت اور ہندومت میں بھی یہ تصور نہ کیا جا سکتا تھا کہ عورت بھی صاحب حیثیت اور صاحب جائیداد ہو سکتی ہے، یہ مذاہب عورت کو اس بات کی اجازت ہی نہ دیتے تھے کہ وہ مرد کی طرح معاشی اعتبار سے خوشحال ہوسکے۔ عورت کی حقیقی حیثیت ان مذاہب اور ثقافتوں اور معاشروں میںایک باندی کی سی تھی جو مرد کے رحم و کرم پر اپنی زندگی بسر کرتی تھی، محمدﷺ نے عورت کو آزادی عطا کی، خود مختاری دی اور اسے خود اعتمادی سے جینے کا حق دیا۔
(3) ممتاز اسکالر مانسیوریفل (Mansuriffle) کہتے ہیں اگر ہم پیغمبر اسلامﷺ کے زمانے کی طرف رجوع کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے لیے جو مفید احکام پیغمبر اسلامﷺ نے صادر کیے ہیں کسی نے نہیں کئے۔ عورتوں پر آپﷺ کے بہت احسانات ہیں۔ قرآن میں عورتوں کے حقوق کے متعلق بہت سی مہتم بالشان آیات ہیں، بعض آیتوں میں یہ بیان ہے کہ عورت سے کس قسم کے تعلقات ناجائز ہیں؟ بعض میں یہ تفصیل ہے کہ کس حشمت وقار کے ساتھ اس سے معاملہ کرنا چاہیے؟ (مقالات شبلی: 164/1)
(4) The Life of Muhammad(p.b.u.h)1930میں ای ڈر منگھم لکھتا ہے: اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ محمدﷺ کی تعلیمات نے عربوں کی زندگی بدل دی تھی۔ اس سے پہلے طبقہ نسواں کو کبھی وہ احترام حاصل نہیں ہو سکا تھا جو محمدﷺ کی تعلیمات سے انہیں ہوا۔ جسم فروشی، عارضی شادیاں اور آزادانہ محبت ممنوع قرار دے دی گئیں۔ لونڈیاں اور کنیزیں جنہیں اس سے قبل محض اپنے آقائوں کی دل بستگی کا سامان سمجھا جاتا تھا وہ حقوق و مراعات سے نوازی گئیں۔
(5) ای بلائیڈن کا بیان ہے: سچا اور اصل اسلام جو محمدﷺ لے کر آئے اس نے طبقہ نسواں کو وہ حقوق عطا کیے جو اس سے پہلے اس طبقہ کو انسانی تاریخ میں نصیب نہیں ہوئے تھے۔
(6) WWkashلکھتا ہے: اسلام نے عورتوں کو پہلی بار انسانی حقوق دیے اور انہیں طلاق کا حق دیا۔ (ملاحظہ ہو: The expension of islam 1928)
(7) ڈبلیو لائٹرز رقمطراز ہے: عورت کو جو تکریم اور عزت محمدﷺ نے دی وہ مغربی معاشرے اور دوسرے مذاہب اسے کبھی نہ دے سکے تھے۔ (Muhammad anirsm religious systems of the world)
(8) پروفیسر کرشنارائو نے محسن انسانیتﷺ کی سیرت طیبہ پر ایک کتاب تصنیف کی۔ اسلام اور جدید تہذیب کا مطالعہ کرنے کے بعد پروفیسر موصوف اپنی کتاب (Muhammad the prophet of islam) میں لکھتے ہیں: اسلام کی یہ جمہوری روح ہے جس نے عورت کو مردوں کی غلامی سے نجات دلائی۔ موصوف مزید لکھتے ہیں کہ عربوں کی ایک مضبوط روایت تھی کہ وارث وہ ہو سکتا ہے جو برچھے سے کھیل سکے اور تلوار استعمال کر سکے لیکن اسلام کمزور جنس کا دفاع کرتا ہے اور عورت کو ماں باپ کے ورثہ میں سے حصہ دیتا ہے۔ اسلام نے صدیوں قبل ہی عورت کو جائیداد رکھنے کا حق دیا لیکن تیرہ صدیاں گذرنے کے بعد 1881ء میں انگلستان نے جو جمہوریت کا بانی سمجھا جاتا ہے اسلام کے اس اصول کو اپنایا اور ایک قانون بنایا جسے شادی شدہ عورت کا قانون کا نام دیا گیا ہے لیکن صدیوں قبل پیغمبر اسلامﷺ نے اعلان کیا تھا کہ خواتین مردوں کی جڑواں نصف حصہ ہیں۔ خواتین کے حقوق مقدس ہیں اور اس بات کا خیال رکھا جائے کہ عورتیں اپنے تسلیم شدہ حقوق سے محروم نہ رہنے پائیں۔
(9)مسز اینی بیسنٹ (The life and the teaching ) میں اسلام میں عورت کی حیثیت، مقام اور حقوق پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں: یاد رکھیے! اسلام کا قانون موجودہ زمانہ تک جب کہ اس کے اجزاء پر انگلینڈ میں بھی عملدرآمد شروع ہو گیا ہے سب سے زیادہ منصفانہ قانون ہے۔ اس قانون میں جہاں تک جائیداد کا تعلق ہے یا طلاق کے معاملات طے کرنا ہے یہ مغربی قوانین سے بہت سبقت لے جا چکا ہے۔ اسلامی قانون کے تحت عورتوں کے عام حقوق کو وسیع تر کر دیا گیا ہے بہ نسبت ان قوانین کے جنہیں آج ہم قانون خیال کرتے ہیں۔
(10) مشہور غیر مسلم سیرت نگار آر وی سی باڈلے اسلام میں عورت اور جدید تہذیب اور مذہب میں اس کی حیثیت اور مقام کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے: اس طرح ان قوانین نے عرب میں عورت کی وقعت و عزت اس وقت کے مغربی ممالک کے مقابلہ میں زیادہ بلند کردی۔ درحقیقت آج بھی ایک مسلمان مرد کو اپنی بیوی کی جائیداد پر اتنے حقوق نہیں ہیں جتنے اکثر یورپین ممالک میں شوہر کو ہیں۔ اسلام نے آج سے 13سو برس پہلے عورت کو اپنی ملکیت کے حقوق میں شوہر سے قطعی آزاد اور خود مختار بنا دیا تھا۔ باڈلے مزید لکھتا ہے: جب کوئی شخص ان احکام کو اور اسی قبیل کے بہت سے احکام کو پڑھتا ہے جو حضرت محمدﷺ نے اپنی زندگی میں وضع کئے تو اس ضمن میں آپﷺ کو بدنام کرنے والوں کی بے انصافی پر حیران رہ جاتا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ عورت کے متعلق اسلامی تعلیمات کی دل کھول کر بد گوئی کرکے اور مسلمان عورت کو دنیا کی دوسری عورتوں کی نظروں میں ذلیل اور بے عزت کر کے خوش ہوتے ہیں۔ (The Messenger P:38)
(11) آئر ینا ایڈلکس رقمطراز ہے: محمدﷺ نے تین چیزوں کو اپنی پسندیدہ قرار دیا ، نمازو روزہ، خوشبو اور عورت، عورت آپﷺ کے لیے قابل احترام تھی اس معاشرے میں جہاں مرد اپنی بیٹیوں کو پیدائش کے وقت زندہ دفن کر دیتے تھے محمدﷺ نے وہاں عورت کو جینے کا حق دیا۔
(12) ریونڈ جی ایم راڈویل انتہائی متعصب عیسائی ہے مگر اس حقیقت کے اعتراف سے باز نہیں رہ سکا کہ قرآنی تعلیم سے سیدھے سادے خانہ بدوش ایسے بدل گئے کہ جیسے کسی نے ان پر سحر کر دیا ہو۔ بت پرستی کو مٹا دینا، جنوں اور دوسری مادی اشیاء کی شرکت کی جگہ اللہ کی عبادت کو قائم کرنا، اولاد کشی کو ختم کرنا، توہمات کو دور کرنا، بیویوں کی تعداد گھٹا کر ایک حد مقرر کرنا وغیرہ وہ چیزیں ہیں جو عربوں کے لیے بلا شبہ برکت اور نزول حق تھیں گو عیسائی ذوق اسے تسلیم نہ کرے۔
بطور نمونہ چند اقوال غیر مسلم مؤرخین اور سیرت نگاروں کے آپ کے سامنے پیش کئے گئے جن سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جو عزت و مقام اور حقوق اسلام نے عورتوں کو دیئے وہ کوئی اور مذہب یا سماجی طاقت اسے نہ دے سکی۔
( مفتی محمد عمیر)
قبل از اسلام عورت دنیا میں اخلاقی پستیوں کا شکار تھی۔ اس کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کیا جاتا اور عورت کی کوئی قدر ومنزلت نہ تھی اسلام نے آکر عورت کو وہ مقام عطا کیا جوچودہ سوسال گذرنے کے باوجود کسی اور مذہب یا تنظیم نے نہیں دیا۔ اس کے باوجود مغرب نے جو شور مچا رکھا ہے کہ ہم نے عورتوں کو آزادی دی ہے اور عورت کو مرد کے برابر کھڑا کر دیا ہے اس کا پس ِ منظر کیا ہے؟ آیئے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں۔
اس بات کا بھانڈا روس کے ایک سابق وزیر اعظم گوربا چوف نے اپنے پروسٹرائیکا میں پھوڑا کہ اصل بات یہ ہوئی کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں قتلِ عام ہوا ، لاکھوں کروڑوں افراد مارے گئے۔ افرادی قوت کا خلا پیدا ہوگیا۔ فیکٹریاں بند ہو گئی۔ دفتر خالی ہو گئے۔ سکول ویران ہو گئے، گوربا چوف کے الفاظ ہیں کہ ہم نے اپنی افرادی قوت کے خلا کو پر کرنے کے لیے عورت سے یہ کہا کہ تمہیں ہم برابر کے حقوق دیتے ہیں تم گھر سے باہر نکلو اور فیکٹری، دفتر اور سکولوں میں آئو اور ہمارے لیے کام کرو یعنی گھر کا کام بھی کرو اور باہر کا بھی ۔ ہم عورت کو ورغلا کر گھر سے باہر لائے، ہم نے یہ کام کرکے اپنی افرادی قوت کے خلا کو تو پر کر لیا مگر ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہو گیا۔ گورباچوف کہتا ہے کہ اب ہم چاہتے ہیں وہ واپس گھر چلی جائے اور اپنے گھر کا نظام سنبھالے لیکن ہمیں کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔
مغرب نے بیچاری عورت کے ساتھ کیا کیا؟ یہ ایک بہت سنجیدہ سوال ہے۔ عورت کے جو فطری فرائض ہیں وہ تو اس کے کھاتے میں ہیں، بچہ جننابھی عورت نے ہے، پالنا بھی اس نے ہے، ایک خاص عمر تک بچے کی عورت ہی نے پرورش کرنی ہے۔ مرد یہ کام نہیں کرسکتا یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ قدرت کی تقسیم تو بالکل فطری ہے کہ گھر کا نظام عورت سنبھالے اور باہر کے معاملات کا نظام مرد کے سپرد ہے لیکن مغرب نے عورت کو کارخانے اور دفتر میں لا کر اس کے حقوق میں اضافہ کیا یا فرائض میں؟ اس کی کسی ڈیوٹی کو شیئر کیے بغیر اسے اپنے ساتھ ڈیوٹی میں شامل کر لیا ہے۔ افسوس یہ کہ عورت بجائے اس بات کو سمجھنے پر کہ دونوں طرف سے ڈیوٹی میرے کھاتے میں پڑ گئی ہے اس عنوان پر خوش ہے کہ ہمارے حقوق برابر ہو گئے ہیں حالانکہ سوچنا یہ چاہیے کہ کیا یہی آزادی ہے کہ عورت کو جو کہ ملکہ تھی اسے ائیر ہوسٹس، بس ہوسٹس اور ہوٹلوں میں ہر ایک شخص کی خدمت میں لگا دیا گیا۔ ارے! جب اللہ نے عورت کا نان نفقہ مرد کے ذمہ لگا دیا تو اسے معاش کی فکر کیوں ہے؟
گرامی قدر قارئین! اب نام نہاد آزادیٔ نسواں اور حقوق نسواں کے علمبرداروں اور مغرب پرست حلقوں اور دین اسلام کے نکتہ چینوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیں کہ خود مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم فلسفیوں، مؤرخوں، مفکروں، ادیبوں، راہبانِ کلیسا، غیر مسلم اربابِ فکر ونظر، دانایان فرنگ اور دانشورانِ عالم نے اعتراف حقیقت کرتے ہوئے دین اسلام کو علمبردار حقوق نسواں اور نجات دہندہ قرار دیا۔
(1)معروف فرانسیسی محقق ڈاکٹر گستائولی با ن ’’اسلام کا اثر مشرقی عورتوں کی حالت پر ‘‘ کے عنوان کے تحت رقمطراز ہیں: اسلام نے مسلمان عورتوں کی تمدنی حالت پر نہایت مفید اور گہرا اثر ڈالا۔ انہیں ذلت کی بجائے عزت و رفعت سے سرفراز کیا اور کم و بیش ہر میدان میں ترقی سے ہمکنار کیا چنانچہ قرآن کا قانون وراثت و حقوق نسواں یورپ کے قانون وراثت وحقوق نسواں کے مقابلے میں بہت زیادہ مفید اور زیادہ وسیع اور فطرت نسواں سے زیادہ قریب ہے۔
(2)ممتاز یورپی مصنف پروفیسر ڈی ایس مار گولیوتھ جو اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کے ساتھ دشمنی، بہتان تراشی، اعتراضات اور الزامات کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، اس نے پیغمبر اسلامﷺ کی سیرت طیبہ میں جو کتاب Lief of Muhammad (p.b.u.h)کے نام سے تصنیف کی اس میں من گھڑت اعتراضات کا طوفان بپا ہے باایں ہمہ نیش زنی ایک موقع پر حقیقت کا اعتراف اس طرح کیا ہے کہ دور جاہلیت میں عرب تو ایک طرف رہے عیسائیت اور ہندومت میں بھی یہ تصور نہ کیا جا سکتا تھا کہ عورت بھی صاحب حیثیت اور صاحب جائیداد ہو سکتی ہے، یہ مذاہب عورت کو اس بات کی اجازت ہی نہ دیتے تھے کہ وہ مرد کی طرح معاشی اعتبار سے خوشحال ہوسکے۔ عورت کی حقیقی حیثیت ان مذاہب اور ثقافتوں اور معاشروں میںایک باندی کی سی تھی جو مرد کے رحم و کرم پر اپنی زندگی بسر کرتی تھی، محمدﷺ نے عورت کو آزادی عطا کی، خود مختاری دی اور اسے خود اعتمادی سے جینے کا حق دیا۔
(3) ممتاز اسکالر مانسیوریفل (Mansuriffle) کہتے ہیں اگر ہم پیغمبر اسلامﷺ کے زمانے کی طرف رجوع کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے لیے جو مفید احکام پیغمبر اسلامﷺ نے صادر کیے ہیں کسی نے نہیں کئے۔ عورتوں پر آپﷺ کے بہت احسانات ہیں۔ قرآن میں عورتوں کے حقوق کے متعلق بہت سی مہتم بالشان آیات ہیں، بعض آیتوں میں یہ بیان ہے کہ عورت سے کس قسم کے تعلقات ناجائز ہیں؟ بعض میں یہ تفصیل ہے کہ کس حشمت وقار کے ساتھ اس سے معاملہ کرنا چاہیے؟ (مقالات شبلی: 164/1)
(4) The Life of Muhammad(p.b.u.h)1930میں ای ڈر منگھم لکھتا ہے: اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ محمدﷺ کی تعلیمات نے عربوں کی زندگی بدل دی تھی۔ اس سے پہلے طبقہ نسواں کو کبھی وہ احترام حاصل نہیں ہو سکا تھا جو محمدﷺ کی تعلیمات سے انہیں ہوا۔ جسم فروشی، عارضی شادیاں اور آزادانہ محبت ممنوع قرار دے دی گئیں۔ لونڈیاں اور کنیزیں جنہیں اس سے قبل محض اپنے آقائوں کی دل بستگی کا سامان سمجھا جاتا تھا وہ حقوق و مراعات سے نوازی گئیں۔
(5) ای بلائیڈن کا بیان ہے: سچا اور اصل اسلام جو محمدﷺ لے کر آئے اس نے طبقہ نسواں کو وہ حقوق عطا کیے جو اس سے پہلے اس طبقہ کو انسانی تاریخ میں نصیب نہیں ہوئے تھے۔
(6) WWkashلکھتا ہے: اسلام نے عورتوں کو پہلی بار انسانی حقوق دیے اور انہیں طلاق کا حق دیا۔ (ملاحظہ ہو: The expension of islam 1928)
(7) ڈبلیو لائٹرز رقمطراز ہے: عورت کو جو تکریم اور عزت محمدﷺ نے دی وہ مغربی معاشرے اور دوسرے مذاہب اسے کبھی نہ دے سکے تھے۔ (Muhammad anirsm religious systems of the world)
(8) پروفیسر کرشنارائو نے محسن انسانیتﷺ کی سیرت طیبہ پر ایک کتاب تصنیف کی۔ اسلام اور جدید تہذیب کا مطالعہ کرنے کے بعد پروفیسر موصوف اپنی کتاب (Muhammad the prophet of islam) میں لکھتے ہیں: اسلام کی یہ جمہوری روح ہے جس نے عورت کو مردوں کی غلامی سے نجات دلائی۔ موصوف مزید لکھتے ہیں کہ عربوں کی ایک مضبوط روایت تھی کہ وارث وہ ہو سکتا ہے جو برچھے سے کھیل سکے اور تلوار استعمال کر سکے لیکن اسلام کمزور جنس کا دفاع کرتا ہے اور عورت کو ماں باپ کے ورثہ میں سے حصہ دیتا ہے۔ اسلام نے صدیوں قبل ہی عورت کو جائیداد رکھنے کا حق دیا لیکن تیرہ صدیاں گذرنے کے بعد 1881ء میں انگلستان نے جو جمہوریت کا بانی سمجھا جاتا ہے اسلام کے اس اصول کو اپنایا اور ایک قانون بنایا جسے شادی شدہ عورت کا قانون کا نام دیا گیا ہے لیکن صدیوں قبل پیغمبر اسلامﷺ نے اعلان کیا تھا کہ خواتین مردوں کی جڑواں نصف حصہ ہیں۔ خواتین کے حقوق مقدس ہیں اور اس بات کا خیال رکھا جائے کہ عورتیں اپنے تسلیم شدہ حقوق سے محروم نہ رہنے پائیں۔
(9)مسز اینی بیسنٹ (The life and the teaching ) میں اسلام میں عورت کی حیثیت، مقام اور حقوق پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں: یاد رکھیے! اسلام کا قانون موجودہ زمانہ تک جب کہ اس کے اجزاء پر انگلینڈ میں بھی عملدرآمد شروع ہو گیا ہے سب سے زیادہ منصفانہ قانون ہے۔ اس قانون میں جہاں تک جائیداد کا تعلق ہے یا طلاق کے معاملات طے کرنا ہے یہ مغربی قوانین سے بہت سبقت لے جا چکا ہے۔ اسلامی قانون کے تحت عورتوں کے عام حقوق کو وسیع تر کر دیا گیا ہے بہ نسبت ان قوانین کے جنہیں آج ہم قانون خیال کرتے ہیں۔
(10) مشہور غیر مسلم سیرت نگار آر وی سی باڈلے اسلام میں عورت اور جدید تہذیب اور مذہب میں اس کی حیثیت اور مقام کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے: اس طرح ان قوانین نے عرب میں عورت کی وقعت و عزت اس وقت کے مغربی ممالک کے مقابلہ میں زیادہ بلند کردی۔ درحقیقت آج بھی ایک مسلمان مرد کو اپنی بیوی کی جائیداد پر اتنے حقوق نہیں ہیں جتنے اکثر یورپین ممالک میں شوہر کو ہیں۔ اسلام نے آج سے 13سو برس پہلے عورت کو اپنی ملکیت کے حقوق میں شوہر سے قطعی آزاد اور خود مختار بنا دیا تھا۔ باڈلے مزید لکھتا ہے: جب کوئی شخص ان احکام کو اور اسی قبیل کے بہت سے احکام کو پڑھتا ہے جو حضرت محمدﷺ نے اپنی زندگی میں وضع کئے تو اس ضمن میں آپﷺ کو بدنام کرنے والوں کی بے انصافی پر حیران رہ جاتا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ عورت کے متعلق اسلامی تعلیمات کی دل کھول کر بد گوئی کرکے اور مسلمان عورت کو دنیا کی دوسری عورتوں کی نظروں میں ذلیل اور بے عزت کر کے خوش ہوتے ہیں۔ (The Messenger P:38)
(11) آئر ینا ایڈلکس رقمطراز ہے: محمدﷺ نے تین چیزوں کو اپنی پسندیدہ قرار دیا ، نمازو روزہ، خوشبو اور عورت، عورت آپﷺ کے لیے قابل احترام تھی اس معاشرے میں جہاں مرد اپنی بیٹیوں کو پیدائش کے وقت زندہ دفن کر دیتے تھے محمدﷺ نے وہاں عورت کو جینے کا حق دیا۔
(12) ریونڈ جی ایم راڈویل انتہائی متعصب عیسائی ہے مگر اس حقیقت کے اعتراف سے باز نہیں رہ سکا کہ قرآنی تعلیم سے سیدھے سادے خانہ بدوش ایسے بدل گئے کہ جیسے کسی نے ان پر سحر کر دیا ہو۔ بت پرستی کو مٹا دینا، جنوں اور دوسری مادی اشیاء کی شرکت کی جگہ اللہ کی عبادت کو قائم کرنا، اولاد کشی کو ختم کرنا، توہمات کو دور کرنا، بیویوں کی تعداد گھٹا کر ایک حد مقرر کرنا وغیرہ وہ چیزیں ہیں جو عربوں کے لیے بلا شبہ برکت اور نزول حق تھیں گو عیسائی ذوق اسے تسلیم نہ کرے۔
بطور نمونہ چند اقوال غیر مسلم مؤرخین اور سیرت نگاروں کے آپ کے سامنے پیش کئے گئے جن سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جو عزت و مقام اور حقوق اسلام نے عورتوں کو دیئے وہ کوئی اور مذہب یا سماجی طاقت اسے نہ دے سکی۔