یہ کتاب تعصب کی عینک لگا کر لکھی گئی ہے۔ولی کامل سید عنایت اللہ شاہ صاحب بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ "خطبات حکیم الاسلام" میں پڑھ لیا جائے تو بہتر ہوگا۔62 کی "مصالحت" کے ذکر میں حضرت قاری صاحب نے شاہ صاحب کو اہل سنت اور دیوبندی تسلیم کیا ہے اور ان کے نظریہ کو حجت کے ساتھ ثابت ہونا بھی مانا ہے۔اب آپ لوگوں کی مرضی ہے جناب الیاس گھمن صاحب کی مانیں یا حکیم الاسلام کی؟؟؟
بعض متعصب قسم کے لوگ "جمعیت اشاعت التوحید والسنۃ" کے علمائے کرام کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ"حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم" کے منکر ہیں ،حالانکہ ایسا بلکل نہیں ہے آج میں اس پوسٹ میں اکابرین اشاعت التوحید کا "متفقہ" مسلک ومشرب نقل کرتا ہوں اور نقل بھی اُس شخصیت کے قلم سے جسے سب سے زیادہ موردِ الزام بنایا جاتا ہے ،اور انہیں اول نمبرحیات النبی کا" منکر" کہا جاتا ہے،میری مراد ہے"پیر طریقت ولی کامل علامہ سید عنایت اللہ شاہ صاحب بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ"
"حضرت نبی کریم خاتم النبین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر وعدہ الٰہی انک میت و انھم میتون کے مطابق حقیقۃ موت وقع ہوئی آپ کی روح اقدس جسد اطہر سے منقطع ہو کر جنت الفردوس میں رفیق اعلی کے ساتھ شامل ہوگئی۔ اور حضرات صحابہ کبار رضی اللہ عنھم نے آپ کے جسدِ اطہر کو واقعی میت سمجھ کر قبر میں دفن کیا۔اور اس عالمِ دنیا سے انتقال کے بعد آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو عالمِ برزخ میں مثل شھداء بلکہ شھداء سے اعلی و ارفع حیاتِ برزخیہ عطا فرمائی گئی وہ حیات ِ دنیویہ نہیں بلکہ اس سے بدرجہا اعلی و ارفع وافضل حیاتِ برزخیہ ہے نہ کہ حیات دنیویہ لیکن اگر کوئی اس(برزخی حیات ناقل) حیات کو دنیوی کے نام سے تعبیر کرے اور آپ کی حیات برزخیہ سے بھی انکار نہ کرے تو اُس کو جماعت اہل السنت سے خارج نہیں کرنا چاہئیے ،حضرات انبیاء کرام علیہم الصلاۃ و السلام اور خصوصا سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بعد الموت سب سے اعلیٰ وارفع واجمل وافضل حیاتِ برزخیہ عطا فرمائی گئی ہے یہ جمہور اہل السنت والجماعت کا مسلک ہے اس پر کتاب اللہ احادیث صحیحہ اور ارشادات صحابہ رضوان اللہ علیہم شاہد ہیں"(عنایت اللہ بخاری عفی عنہ مسجد جامع گجرات)
(ماہ نامہ تعلیم القرآن ،جولائی اگست 1960 ص 33 ۔۔۔و تسکین الصدور ص 283۔284)
اس فتوی کی تصدیق اشاعت التوحید کے جلیل القدر پچاس اکابرین نے فرمائی تھی۔ اُن میں سے چند کے نام نقل کرتا ہوں
(1) شیخ الحدیث مولانا نصیر الدین صاحب غور غشتوی رحمہ اللہ تعالیٰ(2)شیخ الحدیث مولانا عبد الرحمن صاحب بہبودی رحمہ اللہ تعالیٰ
(3)جامع المعقول و المنقول مولانا ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ، انہی والے)(4)شیخ الحدیث مولانا قاضی شمس الدین صاحب رحمہ اللہ
(5)شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ(6) شیخ الحدیث مولانا قاضی نور محمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ قلعہ دیدار سنگھ
(7)شیخ الادب مولانا قاضی غلام مصطفی صاحب مرجانوی رحمہ اللہ تعالیٰ(8)شیخ القرآن مولانا محمد طاہر صاحب پنج پیری رحمہ اللہ تعالیٰ
(9)شیخ التفسیر مولانا محمد امیر صاحب بندیالوی رحمہ اللہ تعالیٰ (10)شیخ الحدیث مولانا احمد حسین صاحب سجاد بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ
(11)شیخ الحدیث مولانا قاضی عصمت اللہ صاحب ابن قاضی نور محمد رحمہ اللہ تعالیٰ
اس فتوی کے بعد میں علمائے کرام سے بالخصوص اور عوام الناس سے بالعموم یہ درخواست کرونگا کہ کسی کی طرف کوئی بات ،مسلک عقیدہ منسوب کرنے سے پہلے اس کا اُس کی جماعت کا مسلک و مشرب معلوم کر لینا چاہئیے پھر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہئیے ورنہ نہیں
کیا اب بھی اشاعت التوحید والوں کو "مماتی" کہا جائے گا؟؟؟
اللہ تعالی ہم سب کا حامی وناصر ہو