افسانہ:
"شرافت"
مصنفہ:
"جیسمین "
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
ہر طرف سے گانے بجانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔
کوئی اونچی آواز میں ریڈیو بجا رہا تھا تو کوئی ٹیپ ریکارڈر پر گانے سُن رہا تھا۔ ۔ وہاں ایک آوازوں کا شور برپا تھا کچھ سُنائی نہی دیتا تھا۔
اگر کچھ دکھائی دے رہا تھا تو وہ بالکنی سے جھانکتے ہوئے چہرے جن پے میک اپ کی رنگینیاں پوست کر کے ان کی ڈھلتی عمروں اور جھُریوں کے نقوش کو چُھپایا ہوا تھا۔
اس بالکنی کے نیچے ہی کچھ پان سے بھرے منہ والے پچکاریاں اُگلتے مرد (دلال) بھوکی نظروں سے گاہکوں کو تاڑ رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔
ارے آؤ نا بابو جی ۔ ۔ آج تو خوش کر دوں گی ۔ ۔ بالکنی سے ایک آواز سنائی دی اور ساتھ ہی باقی حسیناؤں کے قہقے گھونج اُٹھے۔ ۔ ۔گویا وہ خود پر ہنس رہی ہوں ۔ ۔ ۔ اور اپنا ہی مذاق اڑا رہی ہوں کہ کاوئی تو اُن پر نظر ڈال لے۔
یہ جسم فروشوں کا بازار تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جسے عرفِ عام میں
"بازارِ حسن کہا جاتا ہے ۔"
ہر عمر کی عورت یہاں مل جاتی ہےاور ہر دام پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
ہزاروں سے لیکر چند روپوں تک میں بھی سودا ہو جاتا ہے یہاں تو ۔ ۔ ۔
اور ایک سڑک چھاپ نشئی سے لے کر نامی گرامی شخصیات تک اپنی نشانیاں یہاں چھوڑ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
اس بازار کا
ہر چہرہ ایک الگ داستان چُھپائے بیٹھا ہے
کسی بچی کو سکول سے چُھٹی کے وقت اغوا کر لیا گیا تھا ۔ ۔ ۔
کسی کو بازار میں خریداری کرتی ماں سے نظریں بچا کر ہمیشہ کے لیے اُس کی نظروں سے اُوجھل کر دیا گیا
کسی کو ہسپتال کے بستر سے گھر جانا تک نصیب نہ ہوا
تو کوئی ننھی منی گڑیا گلی میں کھیلنے نکلی تو آج لوگوں کے لیے کھلونا بن گئی۔ ۔
تو کوئی گھر سے دال سبزی لینے کیا گئی کہ آج تک اپنی دال سبزی پورا کرنے کے لیے جسم بیچ رہی ہے۔ ۔
ایسی ہزاروں کہانیاں ہیں ان سب چہروں کے پیچھے جو کوئی جاننے کی کوشش بھی نہی کرتا ۔ ۔ اور پھر اِن ہوس پرستوں کو ان کی کہانیوں سے کا لینا دینا
اُن کو تو بس اپنی ناجائزخواہشوں کی تکمیل سے غرض ہوتی ہے۔
ایک پانچ منٹ کا کھیل اور بس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی پانچ منٹ کا کھیل اگر زبردستی کہیں ہو تو گنہگار بنا دیتے
پیسہ اسی حرام کام میں خرچ کیا تو شرفا کا خطاب بھی قائم رہتا اور شرافت بھی۔ ۔ ۔ ۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ ۔ ۔ کسی کے فاقے کا روزہ ٹوٹتا ہے تو کہیں پر ۔ ۔ ۔
کسی ننھے پیٹ کی آنتوں میں جو سکڑاؤ آ گیا تھا وہ قدرے کم ہوا ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واہ رے مولا تو نے بھی گناہ و ثواب کو ایک ترازو میں تولنے کا وعدہ کیوں کر دیا ہماری مجبوریاں بھی تو دیکھی ہوتی ۔ ۔
گُڈی نے خود کو آئینے میں حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا ۔ ۔
اماں آج روٹی پکے گی نا ؟
بارہ سالہ شینا نے تھکی ہوئی آواز میں ایک امید بھری نظر ماں (گُڈی) پے ڈالتے ہوے پوچھا ۔ ۔ ۔
گڈی نے آئینے سے دیھان ہٹاتے ہوئے اس کی طرف دیکھے بنا اثبات میں سر کو ہلکی سی جنبش دی ۔ ۔
شینا کے لیے تو یہ آس ہی بہت تھی وہ اکثر سوچتی کہ اللہ نے اُسے اِس گند میں کیوں پیدا کیا ، اُس کو کسی شریف گھر کی زینت کیوں نا بنایا ۔ جہاں سب رشتے ناتے ہوتے ہیں عزت کی نگاہیں ہوتی ہیں بھائی کی حفاظت میں پرواں چڑھتی بہنوں کی جوانیاں ہر بُری نظر سے محفوظ رہتی ہیں بس ایک اِسی سوال کا جواب اُسے اللہ سے درکار تھا ۔ ۔ ۔
آج تین روز سے ماں بیٹی پانی پر ہی گزارا کر کے خود کو توانا لگنے کا ڈراما ایک دوسرے سے کر رہی تھیں ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یک لخت بالکنی سے ایک شور بلند ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گُڈی بھی اُسی جانب لپکی کہ شائد آج اس پر اوپر والا مہربان ہو ہی جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کوٹھوں کی رونق تو اِن حسیِناؤں سے ہے ہی یہ جو اُس باسی گوشت کی طرح ہو چکی تھیں جس کو کوّر چڑھا کر محفوظ اور تازہ دکھایا جاتا ہے اور اِرد گِرد کی سجاوٹ سے گاہک کو اپنی طرف کھینچا جاتا ہے۔ ۔
ہر جسم گاہک کو اپنی طرف مدعوع کرنے کے لیے کیا کیا ادایئں نہ دکھا رہا تھا ۔ ۔ ۔ کہ آو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آؤ ۔ ۔ ۔ ۔آو اور مجھے نوچو تاکہ میں پیٹ کا دوزخ بھر سکوں
یہاں ایک جسم دوسرے جسم کے لیے قربانی دیتا ہے ۔ ۔
بازارِ حُسن ہے تو کیا ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ماں تو یہاں بھی ماں ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ماں کبھی اپنے بچے کو بِلکتا نہی دیکھ سکتی ۔ ۔ ۔
چاہے اُس کو اپنا آپ گِدھوں کے سامنے کیوں نا رکھنا پڑ جائے۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔
ایک گاڑی جس کی ہیڈ لائٹ بند تھی اُسی گلی میں رُکی ہوئی تھی اور چند مرد ایسے اُس کو چاروں طرف سے چپکے ہوئے تھے گویا ایک روٹی پر برسوں بعد سینکڑوں بھوکے ٹوٹ پڑے ہوں ۔ ۔
گاڑی میں بیٹھے ہوس پرست شیشوں سے بالکنی کی جانب دیکھ رہے تھے
اور اُن عورتوں کی اداوؤں سے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کو تمسخر اُڑانے والی نظروں سے دیکھ رہے تھے گویا آج وہ اُن پر احسان ِعظیم کریں گے ۔ ۔ ۔
اور احسان بھی کیوں نہ ہو آخر جب یہ اپنی ہوس کی آگ بجھایئں گے تو ہی اِن میں سے کسی کے ہاں چولہے کی آگ جلے گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گاڑی سے بلآخر تین افراد باہر نکل آئے اُن کے کانوں میں جو آوازیں گونج رہی تھیں وہ کچھ وں تھیں
صاحب ماری کھولی ماں پانچ سو میں آجاؤ ،دام بلکل مناسب ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایک اور آواز آئی
صاحب مست مال ہے تین سو میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہتینوں سیڑھیاں چڑھنے لگے کہ خود ہی پسند کریں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ایک غرور تھا سب میں کہ آج وہ کسی نا کسی پر۔احسان کریں گے ۔ ۔ ۔
صاحب ہمارے ساتھ آ جاؤ جتنا دو گے ے لوں گی ایک بار آ جاؤ ۔ ۔ ۔ ۔
گُڈی نے ایک مرد کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔ ۔
شینا یہ سب نظارہ کر رہی تھی ۔ ۔ ۔اور من ہی من میں سوچ رہی تھی کہ یہ کیسا اندھیر نگر ہے اپنی عصمت لُٹانے کے لئے بھی لوٹنے والوں کے سامنے ہاتھ جوڑنے پڑتے ہیں ۔ ۔ ہت تیری قسمت کی ۔ ۔ وہ خود پر بُڑبُڑا رہی تھی ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔خدا خدا کر کے گڈی نے ایک مرد کو راضی کر لیا اور جھٹ سے کمرے میں لے گئی۔ ۔ ۔
شیبا اب باشعور ہو چُکی تھی۔ ۔ ۔اور اسی ماحول کہ پیدا وار تھی ۔ ۔ ۔
ننگے جملے ، گندی نظریں، دل لبھانے والی ادایئں اُس کے لیے نئی بات نہ تھی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اور بارہ برس کی عمر میں ہی وہ بہت پُر کشش لگتی تھی۔ ۔ ۔ پر ماں اُسے مردوں سے چُھپائے رکھتے تھی ۔ ۔ ۔ وہ۔اُسے اِس ماحول سے دُور رکھنا چاہتی تھی۔
وہ دوسرے کمرے میں ان سب باتوں پر سوچ رہی تھی کہ کب اس کی آنکھ میں نیند آن بسی اور رات گزرنے کا پتا نہ ہی۔نا چلا ۔ ۔ ۔ ۔
صبح بیدار ہوئی تو اُس کے لیے عید سے کم سما نہ تھا آج تو ناشتہ بن رہا تھا
ماں نے چائے بنائی ہوئی تھی اور ساتھ میں رسک تھے ۔ ۔ ۔اُس کی بھوک نے اُسے منہ تک دھونے نا دیا اور وہ رسک کا شاپر کھولنے لگی اور خشک ہی کھانے لگی۔ ۔ ۔
ماں کا چہرہ بھی دمک اُٹھا بیٹی کی خوشی دیکھ کر ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دونوں ناشتہ کر رہی تھیں کہ کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میری بیٹی بھی بھوکی ہے گڈی بس دو رسک ہی دے دو ۔۔ ۔ مجھے پتا ہے رات تیرے ہاں رزق آیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔دروازے میں کھڑی اُلفت نے کہا ۔ ۔
شیبا نے یکایک رسک کا پیکٹ بیڈ کے نیچے دھکیل دیا جس پراُس کا اور اسکی ماں کا۔حق تھا
گڈی بیٹی ک اس حرکت پر حیران ہوئی ۔ ۔ وہ ایسی خود غرض کبھی نا تھی اور ان میں تو حرام بھی مل بانٹ کے کھانے کا روج تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جا جا نہی ہے کچھ ۔ ۔ ۔ ۔ شیبا نے کرخت لہجے میں کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اُلفت نے آنسو بھری آنکھوں سے گڈی کی جانب دیکھا ۔ ۔ ۔
گڈی نے شینا کی طرف دیکھا مگر وہ گویا اندھے و بہرے پن کا مظاہرہ کر رہی ہو۔ ۔ ۔
بیٹی کوئی بات نہی دے دو آخر وہ بھی تو بھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اتنا کہنا تھا کہ شینا نے پیکٹ اُٹھا کر درواذے کی طرف دے مارا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اُلفت نے جُھک اُس میں سے دو گول رسک نکالی اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور حالت ِقیام میں ایسی آئی کہ لگتا تھا رب کے سامنے شکر گزار ہو رہی ہو ۔ ۔ ۔ اُ س نے رسک پکڑے ہوئے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے ۔
آدھ بہے آنسوؤں کے ساتھ وہ پلٹ گئی۔ ۔
گڈی نے آگے بڑھ کر وہ شاپر اُٹھایا اور دروازہ بند کر دیا ۔ ۔ ۔ اور کمرے میں ایک سکوت طاری ہو گیا۔ ۔ ۔
یہ روز کی کہانی تھی ۔ ۔ کوئی احسان کرتا تو کوئی چُکاتا۔ ۔ ۔
اِسی دن رات کی باری میں ایک سال اور بیت گیا ۔ ۔ ۔
اب گڈی کافی بیمار پڑ چکی تھی۔ ۔
ایک جسم خوراک کا ترسا ہوا دوسرا بیماریوں کا گھراؤ ۔
کوئی گاہک بھی کھٹارا ٹیکسی میں نہی بیٹھتا ۔ ۔ ۔ یہ تو پھر رات بھر کا پُرسکون سفر تھا ۔ ۔ ۔ جس میں دام کھرے کرنا ہوتا ہے گُڈی دل میں سوچ رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔
آج مہینوں بیت گئے تھے ۔ ۔ اُسے بیمار پڑے
کچھ مانگ تانگ کر ہفتے میں دو تین بار پیٹ کی آگ ٹھنڈی ہو جاتی تو کبھی کوئی گاہک اپنے ساتھ لایا ہوا کچھ بچا کچا چھوڑ جاتا تو ۔ ۔ ۔اُس کو غنیمت جان لیتیں ۔ ۔ ۔
آج وہ درد کی دوا لینےگئی تھی
ار واپسی پر ا
گڈی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی کہ اپنے ہی کمرے سے ایک نوجوان کو نکلتے دیکھا ۔ ۔ ۔ وہ سب درد تکلیف بھول کر کمرے کی جانب لپکی ۔ ۔ ۔ ۔
بستر کی سلوٹیں اور شینا کی بِکھری زلفیں ساری کہانی بیان کر رہی تھیں گڈی دروازے پر ہی گِر پڑی ۔ ۔ گرنے کی آواز سُن کر شینا پلٹی تو ۔ ۔ ۔ ماں کو دیکھ کر چونک گئی ۔ ۔ ۔اُس کے ہاتھ سے کڑکڑاتے نوٹ چھوٹ گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اُس کو کچھ کہنے کی ضرورت بھی نہی تھی۔ ۔ ۔
کیوں کے نوٹ اپنی آمد کی وجہ بیان کر چکے تھے ۔ ۔ ۔ ۔
اُس نے آگے بڑھ کر ماں کو اُٹھایا ماں جیسے منوں وزنی لگ رہی تھی اُسے جو کے ہڈیوں کا ڈھانچہ تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ماں وہ میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماں مجھ سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گڈی نے اُس کو بِنا دیکھے اشارے سے کچھ بھی کہنے سے روک دیا ۔ ۔ ۔
اور وہ بھی زمین پر بہٹھ گئی ۔ ۔ ۔ دونوں زمیں پر بیٹھی اک دوجے کے گلے سے لگی ہچکیاں لینے لگیں ۔ ۔
گویا دو بچھڑے برسوں بعد ملے ہوں۔ ۔
اب وہ ایک دوسرے کا عکس ہی تو تھیں ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ دیر بعد شینا نے حوصلہ پکڑا اور کھڑی ہو کر بولی ۔ ۔ ۔ ۔ ماں اب تیری جگہ میں ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ آخر کل کو بھی تو مجھے ہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر آج سے کیوں نہی۔ ۔ ۔
بول نا اماں ۔ ۔ ۔ اب تُو آرام کرنا میں تیری جگہ لوں گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ماں کیا بولتی ۔ ۔ ۔ ۔ماں تو بیٹی کے گلے لگتے ہی دل کا غبار نکال کے اُس پر بوجھ تک بنے بنا ہی چل بسی ۔ ۔ ۔ اور شینا اس سے بےخبر ماں کو تسلیاں دے رہی تھی ۔ ۔ ۔
ماں کو جھنجھوڑنے پر اُس کی چیخ حلق میں ہی دب گئی تھی۔ ۔ ۔
آج اُس کو دفنا دیا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گڈی چل بسی 33 برس کی عمر میں وہ پچاس سال کی گڈی نہی بڈھی لگنے لگی تھی۔ ۔ ۔
دو دن تک شینا اپنے کمرے سے نہ نکلی تھی ۔ ۔ ۔
پورے کوٹھے میں سب سے خوبصورت لڑکی تھی وہ ۔بھرا ہوا سیڈول جسم اُس پر چُست لباس قیامت ڈھانے کے لئے ایک جھلک ہی کافی تھی اُس کی ۔ ۔ ۔ مزاج کی بہت کڑوی تھی وہ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ایک ہی ہنر جانتی تھی
جب سب عورتیں بالکنی میں کھڑی ہوتیں تو وہ اپنے کمرے میں رہتی آئینہ اُس کو تکتا رہتا ۔ ۔ ۔ ۔
جب کوئی گاہک اُس کے کمرے کے سامنے سے گزرتا تو اور اُس کو دیکھ لیتا تو سودا بدل لیتا ۔ ۔ ۔
شینا سے سب کوٹھے والیاں تنگ تھیں کہ یہ بنا ہلے جلے گاہک کیسے اُچک لیتی ہے اُن کا ۔
سب اُس سے قطعہ تعلق کئے ہوئے تھیں ۔ ۔ ۔
وقت گزرنے لگا اور لگ بھگ دو مہینے میں شینا نے اپنی پہچان بنا لی تھی اب تو اکثر مرد آتے ہی اُس کا نام لے کر پوچھتے ۔ ۔ ۔ دام بھی اُس کے سب سے زیادہ تھے ۔ ۔ ۔ اور کیوں نا ہوں وہ کہتے ہیں نا کہ
خدا جب حُسن دیتا ہے
نزاکت آہی جاتی ہے
آج ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی کہ ایک بہت بڑی اور بیش قیمت گاڑی بالکنی کے نیچے آ کر رُکی اور اُس میں سے ایک جانی پہچانی شخصیت باہر نکلی ۔ ۔ ۔ سب دیکھ رہے تھے کہ کس کی قسمت کا قرعہ نکلنے والا ہے ۔ ۔ ۔
شینا کے کمرے میں پہنچ کر اُس کے قدم رُک گئے
ُ
شینا نے اس کو خوش کرنے میں کوئی کمی نہ چھوڑی تھی۔ ۔ اُس نے بھی بٹوے کا منہ کھول دیا تھا ۔ ۔ ۔
جانے سے قبل اُس نے شینا کو باہنوں میں بھرا اور بولا رنڈی کی اولاد تیری ماں نے کِتنے مردوں کے بعد تجھے جنّا تھا۔
وہ اب بھی شراب کے نشے میں دھت لگ رہا تھا ۔ ۔
کُتیا کس نسل کی ہے تُو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہا ہا ہا ہا ۔ ۔ ۔ شینا جو ۔۔۔ اب تک کھڑی سُن رہی تھی اُس نے بھی دھیرے سے اُس کے کان میں سرگوشی کی کہ "تیری نسل ہوں ۔تیرا خون "
اس بات کو سُنتے ہی اس مرد کا خون کھول اُٹھا اور زناٹے دار طماچہ شینا کے دے مارا۔ ۔ ۔
شینا نے بھی کسر نہ چھوڑی اور اُس کا کلف لگا کُرتا کھینچ کر تار تار کر دیا ۔ ۔ ۔
وہ شخص شینا کو بالوں سے پکڑتا سیڑھیوں سے نیچے گھسیٹ لایا۔ ۔ ۔وہ بھی بڑبڑا رہی تھی ۔ ۔ ۔دیکھتے ہی دیکھتے ایک مجمع وہاں لگ گیا تھا کہ آخر ہوا کیا شینا کو کوئی ایسے کر نہیں سکتا ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس پر تو دولت لٹائی جاتی ہے آج اتنی عزت کیوں ۔ ۔ ۔ ۔
صاحب کیا ہو ا ۔ ۔ ۔ ۔ صاحب جی بتاؤ
ہم معافی مانگتے کیا ہوا ۔ ۔ ۔
صاحب جی بولو نا ۔ ۔ اس کوٹھے کا ایک باسی بول پڑا
یہ رنڈی۔ ۔ ۔سالی گٹر کی اولاد مجھے کہتی میرا خون ہے میری نسل ہے ۔ ۔ ۔ اس کی ہمت ۔ ۔ ۔وہ غصے میں بِپھرا ہوا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
ہاں ہاں ہم گندے لوگ ہیں
ہم گٹر کی اولاد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیں
لیکن کبھی سوچا وہ گٹر کون ہے ۔ ۔ ۔تم ہو تم ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں تم ہو وہ گٹر ۔ ۔
تم ۔ ۔ ۔ ۔
جو اپنی گندگی ہم میں انڈیل جاتے اور خود پاک صاف ہو کر چلے جاتے
اور ہم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم اُس گندگی کو اپنے اندر سمیٹ لیتے ۔ ۔ ۔تاکہ تم جیسوں کی شرافت کا بھرم قائم رہ سکے ۔ ۔ ۔
بات کرتا ہے سالہ کتا ۔ ۔ ۔ آ ۔ ۔ ۔ ۔ ُتھو ۔ ۔ ۔ ۔
شینا نے اُس کی طرف تھوکتے ہوئے جنگلی بلی کی طرح سب بول دیا ۔
ہم جو بھی کرتے کُھلے عام کرتے مُکرتے نہی
اور تم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم تو رات کے اندھیروں میں چوروں کی طرح آتے لٹیروں کی طرح جاتے
اور اپنی نشانیاں چھوڑ جاتے ۔ ۔ ۔
جو یہں پلتی ہیں
اُس نے تمام کوٹھے والیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
دیکھو ان میں سے کئی تمہاری بہنیں ۔۔۔۔۔کئی بیٹیاں ہوں گی ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔
ہم بھی شرفا کی اولاد ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ہماری رگوں میں بھی وڈیروں ، جاگیرداروں ۔ سیاستدانوں ۔اور تم جیسے بڑے آدمی کا خون شامل ہے ۔ ۔ اُس نے سینے پر زور دار ہاتھ مارتے ہوے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک لڑکھڑاتے قدموں والی عورت آگے بڑھی اور اُس شخص کو۔مخاطب کرکے بولی وڈے صاب جی نکلو ساڈی تھاں ہور پلیط نا کرو ۔ ۔ ۔ ۔(بڑے صاحب جی یہاں سے نکلیں ہماری جگہ اور ناپاک نا کریں)
وہ مرد ۔ ۔ ۔ نامردوں کی طرح بُڑبُڑاتا ہوا گاڑی میں بیٹھا اور چل دیا
سب شینا کی طرف بڑھے اور اُس کو گھیر لیا ، آج پہلی بار اس کو لگا کہ وہ اکیلی نہی ہے
اُس نے۔آسمان کی طرف دیکھا اور بولی شکر ہے اللہ تو نے مجھے اِن شرفا کے گھر پیدا نہی کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ایسی جھوٹی اور مکار شرافت سے سامنے پڑی کھلی گندگی بھلی ۔ ۔ ۔
آج اُس کو رب سے کوئی گِلہ نا رہا تھا
:::::::::::::::ختم شُد ::::::::::::::
"شرافت"
مصنفہ:
"جیسمین "
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
ہر طرف سے گانے بجانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔
کوئی اونچی آواز میں ریڈیو بجا رہا تھا تو کوئی ٹیپ ریکارڈر پر گانے سُن رہا تھا۔ ۔ وہاں ایک آوازوں کا شور برپا تھا کچھ سُنائی نہی دیتا تھا۔
اگر کچھ دکھائی دے رہا تھا تو وہ بالکنی سے جھانکتے ہوئے چہرے جن پے میک اپ کی رنگینیاں پوست کر کے ان کی ڈھلتی عمروں اور جھُریوں کے نقوش کو چُھپایا ہوا تھا۔
اس بالکنی کے نیچے ہی کچھ پان سے بھرے منہ والے پچکاریاں اُگلتے مرد (دلال) بھوکی نظروں سے گاہکوں کو تاڑ رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔
ارے آؤ نا بابو جی ۔ ۔ آج تو خوش کر دوں گی ۔ ۔ بالکنی سے ایک آواز سنائی دی اور ساتھ ہی باقی حسیناؤں کے قہقے گھونج اُٹھے۔ ۔ ۔گویا وہ خود پر ہنس رہی ہوں ۔ ۔ ۔ اور اپنا ہی مذاق اڑا رہی ہوں کہ کاوئی تو اُن پر نظر ڈال لے۔
یہ جسم فروشوں کا بازار تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جسے عرفِ عام میں
"بازارِ حسن کہا جاتا ہے ۔"
ہر عمر کی عورت یہاں مل جاتی ہےاور ہر دام پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
ہزاروں سے لیکر چند روپوں تک میں بھی سودا ہو جاتا ہے یہاں تو ۔ ۔ ۔
اور ایک سڑک چھاپ نشئی سے لے کر نامی گرامی شخصیات تک اپنی نشانیاں یہاں چھوڑ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
اس بازار کا
ہر چہرہ ایک الگ داستان چُھپائے بیٹھا ہے
کسی بچی کو سکول سے چُھٹی کے وقت اغوا کر لیا گیا تھا ۔ ۔ ۔
کسی کو بازار میں خریداری کرتی ماں سے نظریں بچا کر ہمیشہ کے لیے اُس کی نظروں سے اُوجھل کر دیا گیا
کسی کو ہسپتال کے بستر سے گھر جانا تک نصیب نہ ہوا
تو کوئی ننھی منی گڑیا گلی میں کھیلنے نکلی تو آج لوگوں کے لیے کھلونا بن گئی۔ ۔
تو کوئی گھر سے دال سبزی لینے کیا گئی کہ آج تک اپنی دال سبزی پورا کرنے کے لیے جسم بیچ رہی ہے۔ ۔
ایسی ہزاروں کہانیاں ہیں ان سب چہروں کے پیچھے جو کوئی جاننے کی کوشش بھی نہی کرتا ۔ ۔ اور پھر اِن ہوس پرستوں کو ان کی کہانیوں سے کا لینا دینا
اُن کو تو بس اپنی ناجائزخواہشوں کی تکمیل سے غرض ہوتی ہے۔
ایک پانچ منٹ کا کھیل اور بس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی پانچ منٹ کا کھیل اگر زبردستی کہیں ہو تو گنہگار بنا دیتے
پیسہ اسی حرام کام میں خرچ کیا تو شرفا کا خطاب بھی قائم رہتا اور شرافت بھی۔ ۔ ۔ ۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ ۔ ۔ کسی کے فاقے کا روزہ ٹوٹتا ہے تو کہیں پر ۔ ۔ ۔
کسی ننھے پیٹ کی آنتوں میں جو سکڑاؤ آ گیا تھا وہ قدرے کم ہوا ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واہ رے مولا تو نے بھی گناہ و ثواب کو ایک ترازو میں تولنے کا وعدہ کیوں کر دیا ہماری مجبوریاں بھی تو دیکھی ہوتی ۔ ۔
گُڈی نے خود کو آئینے میں حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا ۔ ۔
اماں آج روٹی پکے گی نا ؟
بارہ سالہ شینا نے تھکی ہوئی آواز میں ایک امید بھری نظر ماں (گُڈی) پے ڈالتے ہوے پوچھا ۔ ۔ ۔
گڈی نے آئینے سے دیھان ہٹاتے ہوئے اس کی طرف دیکھے بنا اثبات میں سر کو ہلکی سی جنبش دی ۔ ۔
شینا کے لیے تو یہ آس ہی بہت تھی وہ اکثر سوچتی کہ اللہ نے اُسے اِس گند میں کیوں پیدا کیا ، اُس کو کسی شریف گھر کی زینت کیوں نا بنایا ۔ جہاں سب رشتے ناتے ہوتے ہیں عزت کی نگاہیں ہوتی ہیں بھائی کی حفاظت میں پرواں چڑھتی بہنوں کی جوانیاں ہر بُری نظر سے محفوظ رہتی ہیں بس ایک اِسی سوال کا جواب اُسے اللہ سے درکار تھا ۔ ۔ ۔
آج تین روز سے ماں بیٹی پانی پر ہی گزارا کر کے خود کو توانا لگنے کا ڈراما ایک دوسرے سے کر رہی تھیں ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یک لخت بالکنی سے ایک شور بلند ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گُڈی بھی اُسی جانب لپکی کہ شائد آج اس پر اوپر والا مہربان ہو ہی جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کوٹھوں کی رونق تو اِن حسیِناؤں سے ہے ہی یہ جو اُس باسی گوشت کی طرح ہو چکی تھیں جس کو کوّر چڑھا کر محفوظ اور تازہ دکھایا جاتا ہے اور اِرد گِرد کی سجاوٹ سے گاہک کو اپنی طرف کھینچا جاتا ہے۔ ۔
ہر جسم گاہک کو اپنی طرف مدعوع کرنے کے لیے کیا کیا ادایئں نہ دکھا رہا تھا ۔ ۔ ۔ کہ آو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آؤ ۔ ۔ ۔ ۔آو اور مجھے نوچو تاکہ میں پیٹ کا دوزخ بھر سکوں
یہاں ایک جسم دوسرے جسم کے لیے قربانی دیتا ہے ۔ ۔
بازارِ حُسن ہے تو کیا ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ماں تو یہاں بھی ماں ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ماں کبھی اپنے بچے کو بِلکتا نہی دیکھ سکتی ۔ ۔ ۔
چاہے اُس کو اپنا آپ گِدھوں کے سامنے کیوں نا رکھنا پڑ جائے۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔
ایک گاڑی جس کی ہیڈ لائٹ بند تھی اُسی گلی میں رُکی ہوئی تھی اور چند مرد ایسے اُس کو چاروں طرف سے چپکے ہوئے تھے گویا ایک روٹی پر برسوں بعد سینکڑوں بھوکے ٹوٹ پڑے ہوں ۔ ۔
گاڑی میں بیٹھے ہوس پرست شیشوں سے بالکنی کی جانب دیکھ رہے تھے
اور اُن عورتوں کی اداوؤں سے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کو تمسخر اُڑانے والی نظروں سے دیکھ رہے تھے گویا آج وہ اُن پر احسان ِعظیم کریں گے ۔ ۔ ۔
اور احسان بھی کیوں نہ ہو آخر جب یہ اپنی ہوس کی آگ بجھایئں گے تو ہی اِن میں سے کسی کے ہاں چولہے کی آگ جلے گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گاڑی سے بلآخر تین افراد باہر نکل آئے اُن کے کانوں میں جو آوازیں گونج رہی تھیں وہ کچھ وں تھیں
صاحب ماری کھولی ماں پانچ سو میں آجاؤ ،دام بلکل مناسب ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایک اور آواز آئی
صاحب مست مال ہے تین سو میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہتینوں سیڑھیاں چڑھنے لگے کہ خود ہی پسند کریں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ایک غرور تھا سب میں کہ آج وہ کسی نا کسی پر۔احسان کریں گے ۔ ۔ ۔
صاحب ہمارے ساتھ آ جاؤ جتنا دو گے ے لوں گی ایک بار آ جاؤ ۔ ۔ ۔ ۔
گُڈی نے ایک مرد کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔ ۔
شینا یہ سب نظارہ کر رہی تھی ۔ ۔ ۔اور من ہی من میں سوچ رہی تھی کہ یہ کیسا اندھیر نگر ہے اپنی عصمت لُٹانے کے لئے بھی لوٹنے والوں کے سامنے ہاتھ جوڑنے پڑتے ہیں ۔ ۔ ہت تیری قسمت کی ۔ ۔ وہ خود پر بُڑبُڑا رہی تھی ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔خدا خدا کر کے گڈی نے ایک مرد کو راضی کر لیا اور جھٹ سے کمرے میں لے گئی۔ ۔ ۔
شیبا اب باشعور ہو چُکی تھی۔ ۔ ۔اور اسی ماحول کہ پیدا وار تھی ۔ ۔ ۔
ننگے جملے ، گندی نظریں، دل لبھانے والی ادایئں اُس کے لیے نئی بات نہ تھی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اور بارہ برس کی عمر میں ہی وہ بہت پُر کشش لگتی تھی۔ ۔ ۔ پر ماں اُسے مردوں سے چُھپائے رکھتے تھی ۔ ۔ ۔ وہ۔اُسے اِس ماحول سے دُور رکھنا چاہتی تھی۔
وہ دوسرے کمرے میں ان سب باتوں پر سوچ رہی تھی کہ کب اس کی آنکھ میں نیند آن بسی اور رات گزرنے کا پتا نہ ہی۔نا چلا ۔ ۔ ۔ ۔
صبح بیدار ہوئی تو اُس کے لیے عید سے کم سما نہ تھا آج تو ناشتہ بن رہا تھا
ماں نے چائے بنائی ہوئی تھی اور ساتھ میں رسک تھے ۔ ۔ ۔اُس کی بھوک نے اُسے منہ تک دھونے نا دیا اور وہ رسک کا شاپر کھولنے لگی اور خشک ہی کھانے لگی۔ ۔ ۔
ماں کا چہرہ بھی دمک اُٹھا بیٹی کی خوشی دیکھ کر ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دونوں ناشتہ کر رہی تھیں کہ کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میری بیٹی بھی بھوکی ہے گڈی بس دو رسک ہی دے دو ۔۔ ۔ مجھے پتا ہے رات تیرے ہاں رزق آیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔دروازے میں کھڑی اُلفت نے کہا ۔ ۔
شیبا نے یکایک رسک کا پیکٹ بیڈ کے نیچے دھکیل دیا جس پراُس کا اور اسکی ماں کا۔حق تھا
گڈی بیٹی ک اس حرکت پر حیران ہوئی ۔ ۔ وہ ایسی خود غرض کبھی نا تھی اور ان میں تو حرام بھی مل بانٹ کے کھانے کا روج تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جا جا نہی ہے کچھ ۔ ۔ ۔ ۔ شیبا نے کرخت لہجے میں کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اُلفت نے آنسو بھری آنکھوں سے گڈی کی جانب دیکھا ۔ ۔ ۔
گڈی نے شینا کی طرف دیکھا مگر وہ گویا اندھے و بہرے پن کا مظاہرہ کر رہی ہو۔ ۔ ۔
بیٹی کوئی بات نہی دے دو آخر وہ بھی تو بھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اتنا کہنا تھا کہ شینا نے پیکٹ اُٹھا کر درواذے کی طرف دے مارا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اُلفت نے جُھک اُس میں سے دو گول رسک نکالی اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور حالت ِقیام میں ایسی آئی کہ لگتا تھا رب کے سامنے شکر گزار ہو رہی ہو ۔ ۔ ۔ اُ س نے رسک پکڑے ہوئے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے ۔
آدھ بہے آنسوؤں کے ساتھ وہ پلٹ گئی۔ ۔
گڈی نے آگے بڑھ کر وہ شاپر اُٹھایا اور دروازہ بند کر دیا ۔ ۔ ۔ اور کمرے میں ایک سکوت طاری ہو گیا۔ ۔ ۔
یہ روز کی کہانی تھی ۔ ۔ کوئی احسان کرتا تو کوئی چُکاتا۔ ۔ ۔
اِسی دن رات کی باری میں ایک سال اور بیت گیا ۔ ۔ ۔
اب گڈی کافی بیمار پڑ چکی تھی۔ ۔
ایک جسم خوراک کا ترسا ہوا دوسرا بیماریوں کا گھراؤ ۔
کوئی گاہک بھی کھٹارا ٹیکسی میں نہی بیٹھتا ۔ ۔ ۔ یہ تو پھر رات بھر کا پُرسکون سفر تھا ۔ ۔ ۔ جس میں دام کھرے کرنا ہوتا ہے گُڈی دل میں سوچ رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔
آج مہینوں بیت گئے تھے ۔ ۔ اُسے بیمار پڑے
کچھ مانگ تانگ کر ہفتے میں دو تین بار پیٹ کی آگ ٹھنڈی ہو جاتی تو کبھی کوئی گاہک اپنے ساتھ لایا ہوا کچھ بچا کچا چھوڑ جاتا تو ۔ ۔ ۔اُس کو غنیمت جان لیتیں ۔ ۔ ۔
آج وہ درد کی دوا لینےگئی تھی
ار واپسی پر ا
گڈی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی کہ اپنے ہی کمرے سے ایک نوجوان کو نکلتے دیکھا ۔ ۔ ۔ وہ سب درد تکلیف بھول کر کمرے کی جانب لپکی ۔ ۔ ۔ ۔
بستر کی سلوٹیں اور شینا کی بِکھری زلفیں ساری کہانی بیان کر رہی تھیں گڈی دروازے پر ہی گِر پڑی ۔ ۔ گرنے کی آواز سُن کر شینا پلٹی تو ۔ ۔ ۔ ماں کو دیکھ کر چونک گئی ۔ ۔ ۔اُس کے ہاتھ سے کڑکڑاتے نوٹ چھوٹ گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اُس کو کچھ کہنے کی ضرورت بھی نہی تھی۔ ۔ ۔
کیوں کے نوٹ اپنی آمد کی وجہ بیان کر چکے تھے ۔ ۔ ۔ ۔
اُس نے آگے بڑھ کر ماں کو اُٹھایا ماں جیسے منوں وزنی لگ رہی تھی اُسے جو کے ہڈیوں کا ڈھانچہ تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ماں وہ میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماں مجھ سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گڈی نے اُس کو بِنا دیکھے اشارے سے کچھ بھی کہنے سے روک دیا ۔ ۔ ۔
اور وہ بھی زمین پر بہٹھ گئی ۔ ۔ ۔ دونوں زمیں پر بیٹھی اک دوجے کے گلے سے لگی ہچکیاں لینے لگیں ۔ ۔
گویا دو بچھڑے برسوں بعد ملے ہوں۔ ۔
اب وہ ایک دوسرے کا عکس ہی تو تھیں ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ دیر بعد شینا نے حوصلہ پکڑا اور کھڑی ہو کر بولی ۔ ۔ ۔ ۔ ماں اب تیری جگہ میں ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ آخر کل کو بھی تو مجھے ہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر آج سے کیوں نہی۔ ۔ ۔
بول نا اماں ۔ ۔ ۔ اب تُو آرام کرنا میں تیری جگہ لوں گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ماں کیا بولتی ۔ ۔ ۔ ۔ماں تو بیٹی کے گلے لگتے ہی دل کا غبار نکال کے اُس پر بوجھ تک بنے بنا ہی چل بسی ۔ ۔ ۔ اور شینا اس سے بےخبر ماں کو تسلیاں دے رہی تھی ۔ ۔ ۔
ماں کو جھنجھوڑنے پر اُس کی چیخ حلق میں ہی دب گئی تھی۔ ۔ ۔
آج اُس کو دفنا دیا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گڈی چل بسی 33 برس کی عمر میں وہ پچاس سال کی گڈی نہی بڈھی لگنے لگی تھی۔ ۔ ۔
دو دن تک شینا اپنے کمرے سے نہ نکلی تھی ۔ ۔ ۔
پورے کوٹھے میں سب سے خوبصورت لڑکی تھی وہ ۔بھرا ہوا سیڈول جسم اُس پر چُست لباس قیامت ڈھانے کے لئے ایک جھلک ہی کافی تھی اُس کی ۔ ۔ ۔ مزاج کی بہت کڑوی تھی وہ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ایک ہی ہنر جانتی تھی
جب سب عورتیں بالکنی میں کھڑی ہوتیں تو وہ اپنے کمرے میں رہتی آئینہ اُس کو تکتا رہتا ۔ ۔ ۔ ۔
جب کوئی گاہک اُس کے کمرے کے سامنے سے گزرتا تو اور اُس کو دیکھ لیتا تو سودا بدل لیتا ۔ ۔ ۔
شینا سے سب کوٹھے والیاں تنگ تھیں کہ یہ بنا ہلے جلے گاہک کیسے اُچک لیتی ہے اُن کا ۔
سب اُس سے قطعہ تعلق کئے ہوئے تھیں ۔ ۔ ۔
وقت گزرنے لگا اور لگ بھگ دو مہینے میں شینا نے اپنی پہچان بنا لی تھی اب تو اکثر مرد آتے ہی اُس کا نام لے کر پوچھتے ۔ ۔ ۔ دام بھی اُس کے سب سے زیادہ تھے ۔ ۔ ۔ اور کیوں نا ہوں وہ کہتے ہیں نا کہ
خدا جب حُسن دیتا ہے
نزاکت آہی جاتی ہے
آج ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی کہ ایک بہت بڑی اور بیش قیمت گاڑی بالکنی کے نیچے آ کر رُکی اور اُس میں سے ایک جانی پہچانی شخصیت باہر نکلی ۔ ۔ ۔ سب دیکھ رہے تھے کہ کس کی قسمت کا قرعہ نکلنے والا ہے ۔ ۔ ۔
شینا کے کمرے میں پہنچ کر اُس کے قدم رُک گئے
ُ
شینا نے اس کو خوش کرنے میں کوئی کمی نہ چھوڑی تھی۔ ۔ اُس نے بھی بٹوے کا منہ کھول دیا تھا ۔ ۔ ۔
جانے سے قبل اُس نے شینا کو باہنوں میں بھرا اور بولا رنڈی کی اولاد تیری ماں نے کِتنے مردوں کے بعد تجھے جنّا تھا۔
وہ اب بھی شراب کے نشے میں دھت لگ رہا تھا ۔ ۔
کُتیا کس نسل کی ہے تُو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہا ہا ہا ہا ۔ ۔ ۔ شینا جو ۔۔۔ اب تک کھڑی سُن رہی تھی اُس نے بھی دھیرے سے اُس کے کان میں سرگوشی کی کہ "تیری نسل ہوں ۔تیرا خون "
اس بات کو سُنتے ہی اس مرد کا خون کھول اُٹھا اور زناٹے دار طماچہ شینا کے دے مارا۔ ۔ ۔
شینا نے بھی کسر نہ چھوڑی اور اُس کا کلف لگا کُرتا کھینچ کر تار تار کر دیا ۔ ۔ ۔
وہ شخص شینا کو بالوں سے پکڑتا سیڑھیوں سے نیچے گھسیٹ لایا۔ ۔ ۔وہ بھی بڑبڑا رہی تھی ۔ ۔ ۔دیکھتے ہی دیکھتے ایک مجمع وہاں لگ گیا تھا کہ آخر ہوا کیا شینا کو کوئی ایسے کر نہیں سکتا ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس پر تو دولت لٹائی جاتی ہے آج اتنی عزت کیوں ۔ ۔ ۔ ۔
صاحب کیا ہو ا ۔ ۔ ۔ ۔ صاحب جی بتاؤ
ہم معافی مانگتے کیا ہوا ۔ ۔ ۔
صاحب جی بولو نا ۔ ۔ اس کوٹھے کا ایک باسی بول پڑا
یہ رنڈی۔ ۔ ۔سالی گٹر کی اولاد مجھے کہتی میرا خون ہے میری نسل ہے ۔ ۔ ۔ اس کی ہمت ۔ ۔ ۔وہ غصے میں بِپھرا ہوا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
ہاں ہاں ہم گندے لوگ ہیں
ہم گٹر کی اولاد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیں
لیکن کبھی سوچا وہ گٹر کون ہے ۔ ۔ ۔تم ہو تم ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں تم ہو وہ گٹر ۔ ۔
تم ۔ ۔ ۔ ۔
جو اپنی گندگی ہم میں انڈیل جاتے اور خود پاک صاف ہو کر چلے جاتے
اور ہم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم اُس گندگی کو اپنے اندر سمیٹ لیتے ۔ ۔ ۔تاکہ تم جیسوں کی شرافت کا بھرم قائم رہ سکے ۔ ۔ ۔
بات کرتا ہے سالہ کتا ۔ ۔ ۔ آ ۔ ۔ ۔ ۔ ُتھو ۔ ۔ ۔ ۔
شینا نے اُس کی طرف تھوکتے ہوئے جنگلی بلی کی طرح سب بول دیا ۔
ہم جو بھی کرتے کُھلے عام کرتے مُکرتے نہی
اور تم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم تو رات کے اندھیروں میں چوروں کی طرح آتے لٹیروں کی طرح جاتے
اور اپنی نشانیاں چھوڑ جاتے ۔ ۔ ۔
جو یہں پلتی ہیں
اُس نے تمام کوٹھے والیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
دیکھو ان میں سے کئی تمہاری بہنیں ۔۔۔۔۔کئی بیٹیاں ہوں گی ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔
ہم بھی شرفا کی اولاد ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ہماری رگوں میں بھی وڈیروں ، جاگیرداروں ۔ سیاستدانوں ۔اور تم جیسے بڑے آدمی کا خون شامل ہے ۔ ۔ اُس نے سینے پر زور دار ہاتھ مارتے ہوے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک لڑکھڑاتے قدموں والی عورت آگے بڑھی اور اُس شخص کو۔مخاطب کرکے بولی وڈے صاب جی نکلو ساڈی تھاں ہور پلیط نا کرو ۔ ۔ ۔ ۔(بڑے صاحب جی یہاں سے نکلیں ہماری جگہ اور ناپاک نا کریں)
وہ مرد ۔ ۔ ۔ نامردوں کی طرح بُڑبُڑاتا ہوا گاڑی میں بیٹھا اور چل دیا
سب شینا کی طرف بڑھے اور اُس کو گھیر لیا ، آج پہلی بار اس کو لگا کہ وہ اکیلی نہی ہے
اُس نے۔آسمان کی طرف دیکھا اور بولی شکر ہے اللہ تو نے مجھے اِن شرفا کے گھر پیدا نہی کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ایسی جھوٹی اور مکار شرافت سے سامنے پڑی کھلی گندگی بھلی ۔ ۔ ۔
آج اُس کو رب سے کوئی گِلہ نا رہا تھا
:::::::::::::::ختم شُد ::::::::::::::