مقروض

جیسمین

وفقہ اللہ
رکن
مقروض

آج وہ سرخ جوڑے میں سجی نازک سی گڑیا نئے خواب بُننے والی جانے کن خیالوں میں ڈوبی ہوئی تھی
ایک نیئ دنیا کے خواب اُسے مخمور کئے جا رہے تھے۔
کہ اُس کا جیون ساتھی آئے گا اور اس کا گھونگٹ اُٹھا کر بڑے پیار سے کہے گا کہ
تم میری زندگی ہو
میرے سپنوں کی رانی ہو
میں تمہارے ہر خواب کی تعبیر بنوں گا
تمہارے قدموں میں پھول رکھ دوں گا
ایک آنسو بھی آنکھ میں آیا تو میں سہہ نہ پاؤں گا ۔۔۔
اور میں ہر جہاں میں تمہارا رہوں گا۔۔
اور تم میری۔ ۔
وہ اسے اپنی بانہوں میں بھر کر ایک اسی دنیا میں لے جائے گا جہاں سوائے خوشیوں کے کچھ نہ ہو گا
وہ انہی خیالوں کی وادی میں کھوئی نیندوں کے سفر پر کب چلی گئی اسے خبر نہ ہوئی
اچانک کمرے کا دروازہ کھلا ۔ کواڑ کھلنے کی آواز اتنی زوردار تھی کہ مردے بھی نیند سے جاگ جاتے
دلہن کے لباس میں ملبوس وہ سمٹ کر بیٹھ گئی ۔ ۔
وہ آج پہلی بار اپنے سہاگ کو دیکھے گی ۔۔۔
وہ جو اتنی خوبصورت کے دیکھنے سے میلی ہو جائے اس کے خوابوں کا شہزادہ آج اسے ملنے والا تھا ۔ ۔
وہ گھونگھٹ میں سر جھکائے ان لمحوں کا انتظار کر رہی تھی جن کا خیال اسے مزید سمٹائے جا رہا تھا ۔
کہ
یک لخت اس کا سُرخ ڈوپٹہ ایک جھٹکے سے کھینچ کر زمیں کو اوڑھا دیا گیا
اس نے سٹپٹا کر نظریں بلند کیں تو سامنے ایک ادھیڑ عمر پکے رنگ کا مرد کھڑا تھا پان کی پیک اس کے منہ سے کسی خون چوسنے والے جانور کی ماند گر رہی تھی ۔ ۔
اس سے پہلے کہ وہ آواز نکالتی اس کی نظریں دروازے پر لگ گئی کی شاید یہ اس کے سہاگ کا باپ یا دادا ہو ۔ ۔ اور اپنا رعب دار تعارف کرانے آیا ہو ۔ ۔
اس سوچ میں اس کے کانوں میں آواز آئی ۔
تیری ماں نے کیا کھا کے جنا ہے تجھے
مولا قسم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس کی آنکھوں سے وحشت و ہوس ٹپک رہی تھی ۔ ۔
آگے بڑھتے ہوے اس نے معلومات میں مزید اضافہ کیا کہ تیرے باپ سے میرا قرض نا اترا تو تیرا سودا کر ڈالا ۔ ۔
اس کے بعد کئی گھنٹوں تک بھی اس کی نظر دروازے سے نہ ہٹی ۔
جیسے ہی وہ اپنے قرض کی وصولی کے لیے آگے بڑھا ۔ ۔ ۔اور چھونے کی دیر تھی کہ وہ وہیں ڈھیر ہو گئی اور اپنے باپ کو مقروض ہی چھوڑ گئی۔
 
Top