والدین کا پیغام زوجین کے نام

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
نوٹ : مؤرخہ ؂ ۲۸مارچ ۲۰۱۵ ؁ ،دن منگل صدف سلمھا با ہمرا ہ عامر سلمہ نکاح خوانی کے موقع پر عالم اسلام کے مایہ ناز مفکر ومحدث حبیب الامت مفتی حبیب اللہ قاسمی دامت برکاتہم نے ایک کتابچہ بعنوان cحاضرین میں تقسیم فر مایا ۔ری ٹائپنگ قارئین الغزالی کی خدمت میں بشکریہ مٖفتی صاحب پیش خدمت ہے ۔
تعارف
والدین کا پیغام زوجین کے نام یہ حضوروالا کے کلام کامجموعہ ہے ،جس کی وجہ سے یہ رسالہ قابل ستایش ومحمود ہے، اس میں والدین کے ارمان،اور مکارم اخلاق نوشہ کا وقت امتحان ،ار نظر اسلام میں دونوں کی شان کا تذملاکرہ ہے ، ماضی کی بندگی اور سسرالی زندگی پر ایک تبصرہ ہے ۔
اس میں مکارم اخلاق کی ایک جھلک جس کو پڑھتے جایئے نہ جھپکے پلک ، بھی ہے اس میں بتلایا گیا ہے کہ شادی کا وقت غفلت کے قہقہوں کا ، عیش ومسرت کی تا لیوں کا نہیں بلکہ پروردگار علیم کے خوف سے قلب سلیم کے ڈرنے اور لرزنے کا ہے کہ ایک عظیم الشان امانت ہمارے مکان میں آنے کو ہے۔
یہ گرانقدر تحفہ اس قابل ہے کہ بوقت شادی سارے مہمان ونوشہ کو پیش خودپڑھیں دوسروں کو سنایا جائے۔
مبتداء نکاح
ذرا غور تو فر مائیں ،جنت الٰہی ہے اور اس کی یہی دلآویزیاں ، ملائکہ قدس اور ان کی یہی زمزمہ سنجیاں،باغ بہشت کا چپہ چپہ انوار الٰہی سے معمور ،الطاف کبرپر یائی کا قدم قدم ظہور ،تخلیق ابو البشرکی ہو تی ہے ،تشریف آوری رونق بزم کا ئنات حضرت خلیفۃ اللہ کی ہو تی ہے،جنت میں کس لطف ومسرت کی کمی ،ہر سو نعمتوں کی بارش،ہر طرف انوار کی تابش،اس کے باوجود اپنے دل کا ایک گوشہ خالی پا تے ہیں ،محسوس ایسا ہوتا ہے کہ جیسے اب بھی کوئی خلاء ہے ،اتمام نعمت کیلئے یہ نہیں ہوتا کہ جنت کیلذت مادی میں کچھ اضافہ کر دیا جائے ،سرورِ روحانی کے سامان میں کچھ اضافہ کر دیا جائے ، بلکہ تخلیق ہوتی ہے آدم ہی سے ملتی جلتی لیکن پھر بھی اس سے ذرا الگ ایک مخلوق کی .خلق منھا زوجھا: آدم کا دل تسکین اب جاکر پاتا ہے ،اپنے وجود کی تکمیل اب محسوس کر تا ہے :لیسکن الیھا: سوچئے جنت میں کمی کس چیزکی ہو سکتی تھی؟ہر ممکن لذت خدمت کو حاضر ، ہر ممکن مسرت چاکری کو کمر بستہ ، لیکن نوازشوں اور بخششوں کی تکمیل جبھی جا کر ہو ئی ۔آدم کے حق میں جنت جبھی حقیقی معنیٰ میں جنت ثابت ہو ئی ، جب مرد کے لئے عورت شوہر کے لئے بیوی وجود میں آئی!
یہ انسان آج اس دنیا میں اپنی آرزؤں کی جنت کی یعمیر کس چیز سے کر نا چاہتا ہے ؟ مال ودولت ہو ، جاہ وحکومت ہو ،زہد وعبادت ہو ، جو کچھ بھی انسان کو دل وجان سے مرغوب ومقصود ہو تا ہے جس کے چکر میں رات ودن ایک کرتا ہے گور کر کے دیکھئے ان سب کے عقب میں اور ان سب کی تہہ میں آخری چیز کیا ہو تی ہے ؟ یہی نہ کہ دل کو جمعیت اور طبیعت کو سکون وتسلی ہو ؟ لیکن بیعینہ یہی مقصود تو عورت کی بھی تخلیق سے ہے : خلق لکم من انفسکم من ازواجا لتسکنوا الیھا : یہ عورت انسان کیلئے مایہ رحمر وسرمایہ تسکین ہے ،اس کی متمم ومکمل ہے ۔
خبر نکاح
عالم انسانیت جہل اور نا دانیوں میں گرفتار ،اور قضائے کائنات شرک اور وہم پرستیوں سے تیرہ وتار ۔رحمت حق کو حرکت ہو تی ہے اور حراکے خلوت نشیں کے لوح قلب پر عالم قدس سے نشر شروع ہو تا ہے ،صاحب وحی علیہ الصلوۃ والسلام ہمت کے پہلوان ، تحمل کے مرد میدان لیکن بحر حال انسان، وحی اول کے تجربہ اور فرشتہ سے پہلے پہل سابقہ کے بعد،جب کا شانہ مبارک پر تشریف لاتے ہیں تو اس حال میں کہ قلب انوار ہیبت وحی سے قدرۃً گراں بار ،اور جسم اقدس پر خشیت کے مادی آثار ، تسکین وتشفی عین اس وقت جو دیتی ہے اور پیشانی مبارک سے اندیشہ کا پسینہ جو پو نچھتی ہے ،آپ کو یاد ہے وہ کون سی ہستی تھی ۔رفیقہ زندگی شریک شادی وغم ، مونس راحت والم ، حجرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔
عورت کی قدر اسلام کی تاریخ میں آپ نے دیکھی ؟ بیوی کا مرتبہ رسول کے ما بین آپنے پہچانا ؟ ہے کو ئی اس کے مقابل کی چیز عورت کے لفظی ہمدردوں کے دفتر عمل میں ؟
نسائیت کے رجز خوانوں کے نعرہ ہائے بے محل میں ؟اس کے بعد اب زندگی کے آخری لمحات کا مطالعہ کیجئے ، رسول اکرمﷺ دنیا سے تشریف لے جا رہے ہیں ، عالم ناسوت میں یہ شمع جمال
ہمیشہ گل ہو نے کو ہے ،امت ہر اس سے بڑھ کر قیامت خیز گھڑی اور کو نسی آسکتی ہے ؟صحابہ کرام ایک سے ایک بڑھ کر ،شیدائے رسولِ انام صدہاکی تعداد میں لیکن تاریخ وسیرت کی زبان شہادت لیجئے کہ انتزاعِ روح سے قبل اور عین مفارقتِ روح کے وقت سر مبارک کس کے زانو پر ہے ؟عین لقاءِ حق کے وقت کس خوش نصیب کے نصیب میں ہے کہ جسدِ اقدس کے سہارے اور تکیہ کا کام دے ؟نہ ابو بکرؓ کے نہ عمرؓ کے نہ عثمانؓ کے نہ علیؓ کے نہ جاں باز رفیقوں کے ، نہ محبوب عزیزوں کے ، بلکہ شریکِ حیات عائشہؓ صدیقہ کے ۔
نوشہ کا وقت امتحان
لڑکوں کومبارک باد اس وقت نہیں دی جاتی ، جب وہ امتحان کے کمرہ میں پر چہ حل کر نے کو داخل ہو تے ہیں ، مبارک بادی کا وقت ہو ہوتا ہے جب کا میابی کا گزٹ چھپ چکتا ہے ، آج کی محفل کا نو شہسن لے کہ یہ وقت عملی زندگی کے سب سے بڑے امتحان میں داخلہ کا وقت ہے ، نکاح کا وقت بلوغ کے بعد ٹہرایا گیا ہے ،اور رضا مندی صرف بالغ ہی کی معتبر ہو تی ہے ،لیکن خود بلوغ کے معنیٰ کیا ہیں ، یہی نہ کی ذمہ داری کا احساس پیدا ہو گیا، اور روح وجسم اور قلب ایک عظیم الشان ذمہ داری کے اٹھانے کو تیار ہو گیا ، لیکن نفس خوش نہ ہو کہ عمر بھر کیلئے خدمت کو ایک با ندی ہا تھ آگئی ،یہ تخیل اور جہاں کہیں کا ہو ،اسلام کا تخیل یقیناً نہیں ، وقت غفلت کے کی قہقہوں کا عیش ومسرت کی تا لیوں کا نہیں مقام قلب سلیم کے ڈرنے جا اور لرز جانے کا ہے ، ایک عظیم الشان امانت جارہی ہے ،اور ایک اپنے برابر کی انسانی ہستی کی خبر گیری کا بار سر پر آپڑنے کو ہے ۔ع:امتحان گاہ کو تو عیش کی مجلس نہ سمجھ۔
ماضی ومستقبل کا تقابل
اب تک صرف کھانا تھا اب کھلانا بھی ہوگا ،جیسا خود کھایا ویسا ہی کھلانا ہو گاان تطعمھا اذا طمعت،اب تک صرف پہننا تھا اب پہنانا بھی ہو گا وتکسوھا اذا اکتسئت ،عیب جوئی نکتہ چینی ،دل شکنی سے زبان رو کنی ہو گی،ولا تقبح ،جو کچھ بھی ہو خیرات کی مدد میں نہ ہو ،بھک منگی جھولی میں ٹکڑا ڈال دینے کی حیثیت سے نہ ہو ،معاملات کے برتنے کا طریقہ بہتر سے بہتر اور شائستہ سے شائستہ ہو ،آئیے آقا مدنی کے اصل الفاظ سناؤں۔ الا وحقھن علیکم ان تحسنوا الیھن فی کسوتھن وطعامھن (ترمذی) ان آداب کے ساتھ انسان کے شرف وبزرگی کا معیار بھی ہاتھ میں دیا ہے ۔
ان من اکمل الماؤمنین ایماناً احسنھم خلقا والطفھم باھلہ ( تر مذی)مو۔منین میں کامل ترین ایمان والا وہ ہے جو اخلاق کے اعتبار سے بہترین ہو ،اور اپنے اہل کے حق میں نرم ترین ہو ، یہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی روایت ہے ۔حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت میں بجائے الطفھم با ھلہ کے خیارکم خیارکم لنساءھم کے الفاظ آئے ہیں ،تم میں بہتروہ ہے جو بہتر ہو اپنی عورتوں کے حق میں۔جاری
ہے۔
 
Last edited:

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قسط 2​
مقارم اخلاق کی ایک جھلک​
ایک مرتبہ شب میں بستر مبارک سے اٹھ کر مر حومین کے حق میں دعائے مغفرت کا خیال آتا ہے ،حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ آپ آہستہ سے اٹھے ردائے مبارک آہستہ سے ہٹائی ،حجرے کا دروازہ آہستہ سے کھولا،ہر ہر جنبش میں آخر آہستگی کا اہتمام کیوں؟اس لئے کہ پاس ہی آرام فر مانے والی ایک خاتوعائشہ صدیقہؓ کی کنیز ں کی راحت وآسائش میں بلا ضرورت خلل نہ پڑے ،لیکن افسوس آج کا مسلمان بیوی کو بن داموں کی کنیز سمجھتاہے ،حالانکہ سرور کائنات ﷺ نے ایک نعمت قرار دی ہے ،خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحہ ( مشکوٰۃ)دنیا کے سازوسامان میں بہترین چیز نیک بیوی ہے ایک مقام پر دوسرے الفاظ میں یہ فر مایا خیرکم خیرکم لاھلہ وانا خیرکم لاھلی (تر مذی) تم میں بہترین انسان وہ ہے جو اپنے اہل کے حق میں بہتر ہو اور میں تم سے بہتر ہوں اپنے اہل کے حق میں۔
نکاح اسلام کی نظر میں :
نکاح اسلام کی نظر میں ایک معاہدہ ہے ایک طرف سے اطاعت وخدمت کا دوسری طرف سے حفاظت وکفالت کا اور دونوں طرف سے محبت وامانت کا رفاقت کا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ ایک نسبتاً ضعیف ونازک زبان ہار رہی ہے کہ اپنے کو دوسرے کے سپرد کر رہی ہوں ،دوسری نسبتاً قوی اور صاحبِ اقتدارقول دے رہاہے کہ میں دوسرے کی ذمہ داری قبول کر رہا ہوں ،اور دونوں اس قول وقرار پر گواہ ٹہرارہے ہیں ۔
گرہ لگالیں،یاد رکھیں کہ یہ کہ معاہدہ دو چار یوم کا نہیں پوری زندگی کا ہے،ایسا نہو کہ عمر کے کسی مر حلہ میں ، حیات منزل کے کسی شعبے میں،غفلت کے کسی لمحہ نگاہ استقام بھٹک جائے،مرد چونکہ ٹیم کاکپتان ہے،قوام ہے ،با اختیار ہے،الرجال قوامون علیٰ النساء وللرجال علیھن درجۃ،اس لئے سرورکا ئنات فخررسل نے مردوں ہی کو خطاب فر مایا اتقواللہ فی النساء اللہ سے عورتوں کے حقوق میں ڈرتے رہو۔
پر ہیز کی تا کید اسی کو کی جاتی ہے جس سے بد پرہیزی کا خطرہ زیادہ ہو ،اور اختیارات محدود اسی کے کئے جاتے ہیں جیسے حکمرانی کا اختیار ہو ،اسی وجہ سے حدیث کی ہر کتاب میں کتاب النکاح کے ماتحت ایک باب عشیر ۃ النساء یا اس کے مثل ملے گا ، جس میں بیوی کے ساتھ وعاشروھن با لمعروف حسن معاشرت رفق وملاطفت کی تفصیل وتا کید ملے گی۔اور سب کی تفسیر ہو گی ۔ وعاشروھن با لمعروف
لڑکی اور ماضی کی ایک جھلک
اے میری بیٹی!
آج تو اپنی آزادی کو قید میں تبدیل ہو تے دیکھ رہی ہے ،اپنا گھر اجاڑ کر دوسرے کا گھر آباد کر نے جا رہی ہے ، یہ صحیح ہے کہ بے فکری کی جو نیدیں اب تک سوئی وہ آج ختم ہو رہی ہے اس گھر سے بے گھر ہو رہی ہے جسے آنکھ کھول کر اپنا گھر سمجھا تھا ،وہ درو دیوار چھوٹ رہے ہیں جہاں پیدا ہوئی ، پلی بڑھی ،الگ ہو رہا ہے وہ مکان جہاں عمر کی اتنی منزلیں گذریں ہنس ہنس کر اور کھیل کھیل کر، جدا ہو رہا ہے وہ گھرونداجسے گر میوں چھاؤں اور جاڑوں کی دھوپ میں سینکڑوں بار سنوار سجایا ، جہاں بیٹھ کر با رہا اپنی گڑیوں کو پہنایا اور بیا ہا ، پرایا ہو رہا ہے وہ صحن جس میں مدتوں دوڑی ، کھیلی ، گری ،اٹھی ، بے وفا نکل رہے ہیں۔
وہ دلان جن میں بارہا ضدیں کیں ، روئی ، مچلی چھوٹ رہا ہے گھر کا وہ کونا جہاں بھائیوں سے لڑی ، بہنوں سے بگڑی ،ماں سے روٹھی ،آنکھیں تر سیں گی ساری عمر ساتھ کی جھولا جھولنے والیوں کو دل دحونڈھے گا زندگی بھر پاس بیٹھ کر لیٹ کر کہا نی سنانے والیوں کو ۔
اے بچھڑنے والی اللہ کی بندی ،خود رو رو کر گھر بھرکو رلانے والی امانت الٰہی سن اور سمجھ اس وقت سے بچنے کی صورت اگر ممکن ہو تی تو امت کی لڑکیوں میں اس کی حقدار سب سے بڑھ کر ابو بکرؓ ہی کی بیٹی ہو سکتی تھی یا پھر ان سے بھی بڑھ کروآقائے ابو بکرؓ کی صاحبزادی ، جب عائشہؓ اور فا طمہؓ کو اسی راہ پر چلنا پڑا ،اور اسی منزل سے گزرنا پڑا تو دنیا کسی اور لڑکی کیا بساط کیا ہے ان کی کنیزی ترے لئے باعثِ فخر اور جو قدم بھی ان کی پیروی میں اٹھ سکے تیرے لئے سرمایہ نجات ،آنسو رنج کے نہیں خوشی کے بہا کہ آج پیروی کس کی نصیب ہورہی ہے ۔
خوش نصیب لڑکی !
نکاح کوئی مصیبت نہیں ، نہ دنیا والوں کا نکالاہوا کوئی نیا دستور ۔یہ تو ایک عبادت ہے پروردگار کی رضا جوئی کا ،مالک سے ربط قائم کرنے کا آقا ومولا فر ماتے ہیں النکاح سنۃ الانبیاء۔نکاح انبیاء کا طریقہ ہے۔
سسرالی زندگیسسرال کی زندگی یقیناًسخت ،اور سسرال والوں کی اطاعت کی منزل بلا شبہ کٹھن ،ساس کے طعنے ایسے کہ پتھر کے جگر میں ناسور ڈال دیں ،اور بد مزاج شوہر کی سخت گیریاں تو وہ عذاب ہیں کہ شاداب سے شاداب پھول کو دم بھر میں سوکھا کر کانٹا بنا کر رکھ دیں ، لیکن مسلمان لڑکیوں کو یہ تعلیم ملی ہے کہ کڑوے عرق کے ہر قطرے کو شربت کا گھونٹ سمجھے ،بچپن ہی میں یہ آوازکان میں آئی ہو گی کہ سجدہ اگر مخلوق میں کسی کے لئے جائز ہوتا تو شوہر کے لئے ۔عن عائشہ ان رسول اللہ ﷺ قال لو امرت احدا ان یسجد لاحد لامرت المرأۃ ان تسجد لزوجھا ولو ان رجلا امر امرأتہ لن تنقل من جبل احمرالیٰ جبل اسودو الیٰ جبل احمر لکان لھا ان تفعل ( ابن ماجہ)
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ میں اگر کسی کو کسی کے سجدہ کر نے کا حکم دیتا تو عورت ہی کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ، اور مرد اگر اپنی بیوی کو حکم دے پتھر منتقل کر نے کا لال پہاڑ کی طرف سے سیاہ پہاڑ کی طرف اور سیاہ پہاڑ کی طرف سے لال پہاڑ کی طرف جب بھی عورت پر حق ہے کہ اس کام کو بجا لائے ،اور یہ مشقتیں رائیگاں نہیں جاتیں ۔جس نے شوہر کا یہ درجہ بنایا ہے اسی نے یہ بشارت بھی دی ہے کہ ایسی اطاعت گذاربیوی اور جنت کے درمیان کو ئی روک نہیں۔
عن ام سلمہؓ تقول سمعت رسول اللہ ﷺ یقول ایما امرأۃ ماتت وشوجھا عنھا راض دخلت الجنۃ (ابن ماجہ)
ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہو ئے سنا کہ جس کسی عورت کی وفات اس حال میں ہوئی کہ اس کا شوہر اس سے خوش ہے تو بس وہ جنت میں داخل ہو گئی ۔اے جدا ہو نے والی صبر وشکر کی پتلی : ! شریف بچیوں کو پہلا سبق اطاعت کا ملتا ہے ، خدمت گزاری کا ملتا ہے ،اپنے دل کو مار کر ، کچل کر ،دوسرے کا جی خوش کر نے کا ملتا ہے ، خوب سمجھ لے آج اپنی زندگی ،خدمت کے لئے ،اطاعت کے لئے ، صبر کے لئے ،زہر میں قند کا مزا حاصل کرنا سیکھ ، سوکھی روٹی کے ٹکڑے ملیں تو جنت کے خوان سمجھ،پھٹے پرانے کپڑے پہننے میں آئیں تو زرو جواہر خیال کر ،زبان درازیاں ہوں تو کانوں کو بہرہ بنالے آوازیں کسی جائیں تو اپنی زبان پر مہر لگالے ، کلیجہ میں نشتر بن کر ہر چھبنے والے طعنے کو ماں کا لا ڈ وپیار سمجھ، صبر وضبط کے ساتھ شکر واطمینان کے ساتھ زندگی ساری کی ساری گزار دے اور دنیا کو دکھا جا کہ اپنے بڑوں کے نام کی لاج رکھنے والیاں ، خدائے واحد کی کی بندیا ، رسولِ برحق کی باندیاں ،عائشہؓ وفاطمہؓ کے قدموں پر نثار ہو جانے والیاں، اس پندرہویں صدی میں کیسی ہو تی ہیں۔
ہم سب دل سے دعا گو ہیں ، پوری زندگی ، سدا بہار ہے پھولو، پھلو ، بڑھو ،چڑھو ،خدا وند قدوس نصرت فر مائے ،آمین یا رب العالمین۔
 
Top