نوٹ : مؤرخہ ۲۸مارچ ۲۰۱۵ ،دن منگل صدف سلمھا با ہمرا ہ عامر سلمہ نکاح خوانی کے موقع پر عالم اسلام کے مایہ ناز مفکر ومحدث حبیب الامت مفتی حبیب اللہ قاسمی دامت برکاتہم نے ایک کتابچہ بعنوان cحاضرین میں تقسیم فر مایا ۔ری ٹائپنگ قارئین الغزالی کی خدمت میں بشکریہ مٖفتی صاحب پیش خدمت ہے ۔
تعارف
والدین کا پیغام زوجین کے نام یہ حضوروالا کے کلام کامجموعہ ہے ،جس کی وجہ سے یہ رسالہ قابل ستایش ومحمود ہے، اس میں والدین کے ارمان،اور مکارم اخلاق نوشہ کا وقت امتحان ،ار نظر اسلام میں دونوں کی شان کا تذملاکرہ ہے ، ماضی کی بندگی اور سسرالی زندگی پر ایک تبصرہ ہے ۔
اس میں مکارم اخلاق کی ایک جھلک جس کو پڑھتے جایئے نہ جھپکے پلک ، بھی ہے اس میں بتلایا گیا ہے کہ شادی کا وقت غفلت کے قہقہوں کا ، عیش ومسرت کی تا لیوں کا نہیں بلکہ پروردگار علیم کے خوف سے قلب سلیم کے ڈرنے اور لرزنے کا ہے کہ ایک عظیم الشان امانت ہمارے مکان میں آنے کو ہے۔
یہ گرانقدر تحفہ اس قابل ہے کہ بوقت شادی سارے مہمان ونوشہ کو پیش خودپڑھیں دوسروں کو سنایا جائے۔
مبتداء نکاح
ذرا غور تو فر مائیں ،جنت الٰہی ہے اور اس کی یہی دلآویزیاں ، ملائکہ قدس اور ان کی یہی زمزمہ سنجیاں،باغ بہشت کا چپہ چپہ انوار الٰہی سے معمور ،الطاف کبرپر یائی کا قدم قدم ظہور ،تخلیق ابو البشرکی ہو تی ہے ،تشریف آوری رونق بزم کا ئنات حضرت خلیفۃ اللہ کی ہو تی ہے،جنت میں کس لطف ومسرت کی کمی ،ہر سو نعمتوں کی بارش،ہر طرف انوار کی تابش،اس کے باوجود اپنے دل کا ایک گوشہ خالی پا تے ہیں ،محسوس ایسا ہوتا ہے کہ جیسے اب بھی کوئی خلاء ہے ،اتمام نعمت کیلئے یہ نہیں ہوتا کہ جنت کیلذت مادی میں کچھ اضافہ کر دیا جائے ،سرورِ روحانی کے سامان میں کچھ اضافہ کر دیا جائے ، بلکہ تخلیق ہوتی ہے آدم ہی سے ملتی جلتی لیکن پھر بھی اس سے ذرا الگ ایک مخلوق کی .خلق منھا زوجھا: آدم کا دل تسکین اب جاکر پاتا ہے ،اپنے وجود کی تکمیل اب محسوس کر تا ہے :لیسکن الیھا: سوچئے جنت میں کمی کس چیزکی ہو سکتی تھی؟ہر ممکن لذت خدمت کو حاضر ، ہر ممکن مسرت چاکری کو کمر بستہ ، لیکن نوازشوں اور بخششوں کی تکمیل جبھی جا کر ہو ئی ۔آدم کے حق میں جنت جبھی حقیقی معنیٰ میں جنت ثابت ہو ئی ، جب مرد کے لئے عورت شوہر کے لئے بیوی وجود میں آئی!
یہ انسان آج اس دنیا میں اپنی آرزؤں کی جنت کی یعمیر کس چیز سے کر نا چاہتا ہے ؟ مال ودولت ہو ، جاہ وحکومت ہو ،زہد وعبادت ہو ، جو کچھ بھی انسان کو دل وجان سے مرغوب ومقصود ہو تا ہے جس کے چکر میں رات ودن ایک کرتا ہے گور کر کے دیکھئے ان سب کے عقب میں اور ان سب کی تہہ میں آخری چیز کیا ہو تی ہے ؟ یہی نہ کہ دل کو جمعیت اور طبیعت کو سکون وتسلی ہو ؟ لیکن بیعینہ یہی مقصود تو عورت کی بھی تخلیق سے ہے : خلق لکم من انفسکم من ازواجا لتسکنوا الیھا : یہ عورت انسان کیلئے مایہ رحمر وسرمایہ تسکین ہے ،اس کی متمم ومکمل ہے ۔
خبر نکاح
عالم انسانیت جہل اور نا دانیوں میں گرفتار ،اور قضائے کائنات شرک اور وہم پرستیوں سے تیرہ وتار ۔رحمت حق کو حرکت ہو تی ہے اور حراکے خلوت نشیں کے لوح قلب پر عالم قدس سے نشر شروع ہو تا ہے ،صاحب وحی علیہ الصلوۃ والسلام ہمت کے پہلوان ، تحمل کے مرد میدان لیکن بحر حال انسان، وحی اول کے تجربہ اور فرشتہ سے پہلے پہل سابقہ کے بعد،جب کا شانہ مبارک پر تشریف لاتے ہیں تو اس حال میں کہ قلب انوار ہیبت وحی سے قدرۃً گراں بار ،اور جسم اقدس پر خشیت کے مادی آثار ، تسکین وتشفی عین اس وقت جو دیتی ہے اور پیشانی مبارک سے اندیشہ کا پسینہ جو پو نچھتی ہے ،آپ کو یاد ہے وہ کون سی ہستی تھی ۔رفیقہ زندگی شریک شادی وغم ، مونس راحت والم ، حجرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔
عورت کی قدر اسلام کی تاریخ میں آپ نے دیکھی ؟ بیوی کا مرتبہ رسول کے ما بین آپنے پہچانا ؟ ہے کو ئی اس کے مقابل کی چیز عورت کے لفظی ہمدردوں کے دفتر عمل میں ؟
نسائیت کے رجز خوانوں کے نعرہ ہائے بے محل میں ؟اس کے بعد اب زندگی کے آخری لمحات کا مطالعہ کیجئے ، رسول اکرمﷺ دنیا سے تشریف لے جا رہے ہیں ، عالم ناسوت میں یہ شمع جمال
ہمیشہ گل ہو نے کو ہے ،امت ہر اس سے بڑھ کر قیامت خیز گھڑی اور کو نسی آسکتی ہے ؟صحابہ کرام ایک سے ایک بڑھ کر ،شیدائے رسولِ انام صدہاکی تعداد میں لیکن تاریخ وسیرت کی زبان شہادت لیجئے کہ انتزاعِ روح سے قبل اور عین مفارقتِ روح کے وقت سر مبارک کس کے زانو پر ہے ؟عین لقاءِ حق کے وقت کس خوش نصیب کے نصیب میں ہے کہ جسدِ اقدس کے سہارے اور تکیہ کا کام دے ؟نہ ابو بکرؓ کے نہ عمرؓ کے نہ عثمانؓ کے نہ علیؓ کے نہ جاں باز رفیقوں کے ، نہ محبوب عزیزوں کے ، بلکہ شریکِ حیات عائشہؓ صدیقہ کے ۔
نوشہ کا وقت امتحان
لڑکوں کومبارک باد اس وقت نہیں دی جاتی ، جب وہ امتحان کے کمرہ میں پر چہ حل کر نے کو داخل ہو تے ہیں ، مبارک بادی کا وقت ہو ہوتا ہے جب کا میابی کا گزٹ چھپ چکتا ہے ، آج کی محفل کا نو شہسن لے کہ یہ وقت عملی زندگی کے سب سے بڑے امتحان میں داخلہ کا وقت ہے ، نکاح کا وقت بلوغ کے بعد ٹہرایا گیا ہے ،اور رضا مندی صرف بالغ ہی کی معتبر ہو تی ہے ،لیکن خود بلوغ کے معنیٰ کیا ہیں ، یہی نہ کی ذمہ داری کا احساس پیدا ہو گیا، اور روح وجسم اور قلب ایک عظیم الشان ذمہ داری کے اٹھانے کو تیار ہو گیا ، لیکن نفس خوش نہ ہو کہ عمر بھر کیلئے خدمت کو ایک با ندی ہا تھ آگئی ،یہ تخیل اور جہاں کہیں کا ہو ،اسلام کا تخیل یقیناً نہیں ، وقت غفلت کے کی قہقہوں کا عیش ومسرت کی تا لیوں کا نہیں مقام قلب سلیم کے ڈرنے جا اور لرز جانے کا ہے ، ایک عظیم الشان امانت جارہی ہے ،اور ایک اپنے برابر کی انسانی ہستی کی خبر گیری کا بار سر پر آپڑنے کو ہے ۔ع:امتحان گاہ کو تو عیش کی مجلس نہ سمجھ۔
ماضی ومستقبل کا تقابل
اب تک صرف کھانا تھا اب کھلانا بھی ہوگا ،جیسا خود کھایا ویسا ہی کھلانا ہو گاان تطعمھا اذا طمعت،اب تک صرف پہننا تھا اب پہنانا بھی ہو گا وتکسوھا اذا اکتسئت ،عیب جوئی نکتہ چینی ،دل شکنی سے زبان رو کنی ہو گی،ولا تقبح ،جو کچھ بھی ہو خیرات کی مدد میں نہ ہو ،بھک منگی جھولی میں ٹکڑا ڈال دینے کی حیثیت سے نہ ہو ،معاملات کے برتنے کا طریقہ بہتر سے بہتر اور شائستہ سے شائستہ ہو ،آئیے آقا مدنی کے اصل الفاظ سناؤں۔ الا وحقھن علیکم ان تحسنوا الیھن فی کسوتھن وطعامھن (ترمذی) ان آداب کے ساتھ انسان کے شرف وبزرگی کا معیار بھی ہاتھ میں دیا ہے ۔
ان من اکمل الماؤمنین ایماناً احسنھم خلقا والطفھم باھلہ ( تر مذی)مو۔منین میں کامل ترین ایمان والا وہ ہے جو اخلاق کے اعتبار سے بہترین ہو ،اور اپنے اہل کے حق میں نرم ترین ہو ، یہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی روایت ہے ۔حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت میں بجائے الطفھم با ھلہ کے خیارکم خیارکم لنساءھم کے الفاظ آئے ہیں ،تم میں بہتروہ ہے جو بہتر ہو اپنی عورتوں کے حق میں۔جاری ہے۔
تعارف
والدین کا پیغام زوجین کے نام یہ حضوروالا کے کلام کامجموعہ ہے ،جس کی وجہ سے یہ رسالہ قابل ستایش ومحمود ہے، اس میں والدین کے ارمان،اور مکارم اخلاق نوشہ کا وقت امتحان ،ار نظر اسلام میں دونوں کی شان کا تذملاکرہ ہے ، ماضی کی بندگی اور سسرالی زندگی پر ایک تبصرہ ہے ۔
اس میں مکارم اخلاق کی ایک جھلک جس کو پڑھتے جایئے نہ جھپکے پلک ، بھی ہے اس میں بتلایا گیا ہے کہ شادی کا وقت غفلت کے قہقہوں کا ، عیش ومسرت کی تا لیوں کا نہیں بلکہ پروردگار علیم کے خوف سے قلب سلیم کے ڈرنے اور لرزنے کا ہے کہ ایک عظیم الشان امانت ہمارے مکان میں آنے کو ہے۔
یہ گرانقدر تحفہ اس قابل ہے کہ بوقت شادی سارے مہمان ونوشہ کو پیش خودپڑھیں دوسروں کو سنایا جائے۔
مبتداء نکاح
ذرا غور تو فر مائیں ،جنت الٰہی ہے اور اس کی یہی دلآویزیاں ، ملائکہ قدس اور ان کی یہی زمزمہ سنجیاں،باغ بہشت کا چپہ چپہ انوار الٰہی سے معمور ،الطاف کبرپر یائی کا قدم قدم ظہور ،تخلیق ابو البشرکی ہو تی ہے ،تشریف آوری رونق بزم کا ئنات حضرت خلیفۃ اللہ کی ہو تی ہے،جنت میں کس لطف ومسرت کی کمی ،ہر سو نعمتوں کی بارش،ہر طرف انوار کی تابش،اس کے باوجود اپنے دل کا ایک گوشہ خالی پا تے ہیں ،محسوس ایسا ہوتا ہے کہ جیسے اب بھی کوئی خلاء ہے ،اتمام نعمت کیلئے یہ نہیں ہوتا کہ جنت کیلذت مادی میں کچھ اضافہ کر دیا جائے ،سرورِ روحانی کے سامان میں کچھ اضافہ کر دیا جائے ، بلکہ تخلیق ہوتی ہے آدم ہی سے ملتی جلتی لیکن پھر بھی اس سے ذرا الگ ایک مخلوق کی .خلق منھا زوجھا: آدم کا دل تسکین اب جاکر پاتا ہے ،اپنے وجود کی تکمیل اب محسوس کر تا ہے :لیسکن الیھا: سوچئے جنت میں کمی کس چیزکی ہو سکتی تھی؟ہر ممکن لذت خدمت کو حاضر ، ہر ممکن مسرت چاکری کو کمر بستہ ، لیکن نوازشوں اور بخششوں کی تکمیل جبھی جا کر ہو ئی ۔آدم کے حق میں جنت جبھی حقیقی معنیٰ میں جنت ثابت ہو ئی ، جب مرد کے لئے عورت شوہر کے لئے بیوی وجود میں آئی!
یہ انسان آج اس دنیا میں اپنی آرزؤں کی جنت کی یعمیر کس چیز سے کر نا چاہتا ہے ؟ مال ودولت ہو ، جاہ وحکومت ہو ،زہد وعبادت ہو ، جو کچھ بھی انسان کو دل وجان سے مرغوب ومقصود ہو تا ہے جس کے چکر میں رات ودن ایک کرتا ہے گور کر کے دیکھئے ان سب کے عقب میں اور ان سب کی تہہ میں آخری چیز کیا ہو تی ہے ؟ یہی نہ کہ دل کو جمعیت اور طبیعت کو سکون وتسلی ہو ؟ لیکن بیعینہ یہی مقصود تو عورت کی بھی تخلیق سے ہے : خلق لکم من انفسکم من ازواجا لتسکنوا الیھا : یہ عورت انسان کیلئے مایہ رحمر وسرمایہ تسکین ہے ،اس کی متمم ومکمل ہے ۔
خبر نکاح
عالم انسانیت جہل اور نا دانیوں میں گرفتار ،اور قضائے کائنات شرک اور وہم پرستیوں سے تیرہ وتار ۔رحمت حق کو حرکت ہو تی ہے اور حراکے خلوت نشیں کے لوح قلب پر عالم قدس سے نشر شروع ہو تا ہے ،صاحب وحی علیہ الصلوۃ والسلام ہمت کے پہلوان ، تحمل کے مرد میدان لیکن بحر حال انسان، وحی اول کے تجربہ اور فرشتہ سے پہلے پہل سابقہ کے بعد،جب کا شانہ مبارک پر تشریف لاتے ہیں تو اس حال میں کہ قلب انوار ہیبت وحی سے قدرۃً گراں بار ،اور جسم اقدس پر خشیت کے مادی آثار ، تسکین وتشفی عین اس وقت جو دیتی ہے اور پیشانی مبارک سے اندیشہ کا پسینہ جو پو نچھتی ہے ،آپ کو یاد ہے وہ کون سی ہستی تھی ۔رفیقہ زندگی شریک شادی وغم ، مونس راحت والم ، حجرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔
عورت کی قدر اسلام کی تاریخ میں آپ نے دیکھی ؟ بیوی کا مرتبہ رسول کے ما بین آپنے پہچانا ؟ ہے کو ئی اس کے مقابل کی چیز عورت کے لفظی ہمدردوں کے دفتر عمل میں ؟
نسائیت کے رجز خوانوں کے نعرہ ہائے بے محل میں ؟اس کے بعد اب زندگی کے آخری لمحات کا مطالعہ کیجئے ، رسول اکرمﷺ دنیا سے تشریف لے جا رہے ہیں ، عالم ناسوت میں یہ شمع جمال
ہمیشہ گل ہو نے کو ہے ،امت ہر اس سے بڑھ کر قیامت خیز گھڑی اور کو نسی آسکتی ہے ؟صحابہ کرام ایک سے ایک بڑھ کر ،شیدائے رسولِ انام صدہاکی تعداد میں لیکن تاریخ وسیرت کی زبان شہادت لیجئے کہ انتزاعِ روح سے قبل اور عین مفارقتِ روح کے وقت سر مبارک کس کے زانو پر ہے ؟عین لقاءِ حق کے وقت کس خوش نصیب کے نصیب میں ہے کہ جسدِ اقدس کے سہارے اور تکیہ کا کام دے ؟نہ ابو بکرؓ کے نہ عمرؓ کے نہ عثمانؓ کے نہ علیؓ کے نہ جاں باز رفیقوں کے ، نہ محبوب عزیزوں کے ، بلکہ شریکِ حیات عائشہؓ صدیقہ کے ۔
نوشہ کا وقت امتحان
لڑکوں کومبارک باد اس وقت نہیں دی جاتی ، جب وہ امتحان کے کمرہ میں پر چہ حل کر نے کو داخل ہو تے ہیں ، مبارک بادی کا وقت ہو ہوتا ہے جب کا میابی کا گزٹ چھپ چکتا ہے ، آج کی محفل کا نو شہسن لے کہ یہ وقت عملی زندگی کے سب سے بڑے امتحان میں داخلہ کا وقت ہے ، نکاح کا وقت بلوغ کے بعد ٹہرایا گیا ہے ،اور رضا مندی صرف بالغ ہی کی معتبر ہو تی ہے ،لیکن خود بلوغ کے معنیٰ کیا ہیں ، یہی نہ کی ذمہ داری کا احساس پیدا ہو گیا، اور روح وجسم اور قلب ایک عظیم الشان ذمہ داری کے اٹھانے کو تیار ہو گیا ، لیکن نفس خوش نہ ہو کہ عمر بھر کیلئے خدمت کو ایک با ندی ہا تھ آگئی ،یہ تخیل اور جہاں کہیں کا ہو ،اسلام کا تخیل یقیناً نہیں ، وقت غفلت کے کی قہقہوں کا عیش ومسرت کی تا لیوں کا نہیں مقام قلب سلیم کے ڈرنے جا اور لرز جانے کا ہے ، ایک عظیم الشان امانت جارہی ہے ،اور ایک اپنے برابر کی انسانی ہستی کی خبر گیری کا بار سر پر آپڑنے کو ہے ۔ع:امتحان گاہ کو تو عیش کی مجلس نہ سمجھ۔
ماضی ومستقبل کا تقابل
اب تک صرف کھانا تھا اب کھلانا بھی ہوگا ،جیسا خود کھایا ویسا ہی کھلانا ہو گاان تطعمھا اذا طمعت،اب تک صرف پہننا تھا اب پہنانا بھی ہو گا وتکسوھا اذا اکتسئت ،عیب جوئی نکتہ چینی ،دل شکنی سے زبان رو کنی ہو گی،ولا تقبح ،جو کچھ بھی ہو خیرات کی مدد میں نہ ہو ،بھک منگی جھولی میں ٹکڑا ڈال دینے کی حیثیت سے نہ ہو ،معاملات کے برتنے کا طریقہ بہتر سے بہتر اور شائستہ سے شائستہ ہو ،آئیے آقا مدنی کے اصل الفاظ سناؤں۔ الا وحقھن علیکم ان تحسنوا الیھن فی کسوتھن وطعامھن (ترمذی) ان آداب کے ساتھ انسان کے شرف وبزرگی کا معیار بھی ہاتھ میں دیا ہے ۔
ان من اکمل الماؤمنین ایماناً احسنھم خلقا والطفھم باھلہ ( تر مذی)مو۔منین میں کامل ترین ایمان والا وہ ہے جو اخلاق کے اعتبار سے بہترین ہو ،اور اپنے اہل کے حق میں نرم ترین ہو ، یہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی روایت ہے ۔حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت میں بجائے الطفھم با ھلہ کے خیارکم خیارکم لنساءھم کے الفاظ آئے ہیں ،تم میں بہتروہ ہے جو بہتر ہو اپنی عورتوں کے حق میں۔جاری ہے۔
Last edited: