کولیسٹرول، چربی یا چکنائی کی ایک قسم ہے جو ہر جانور میں پائی جاتی ہے، اور جانوروں کے جسم کے بہت سارے افعال میں کام آتا ہے جیسے سیل ممبرین بنانا، جسم کو توانائی فراہم کرنا، وٹامن ڈی بنانا، نظامِ ہضم میں مدد دینا وغیرہ۔
انسان میں، جگر ہر روز ایک مخصوص مقدار میں کولیسٹرول بناتا ہے اور اسےخون میں چھوڑتا ہے، جو اپنی ضروری افعال سرانجام دیتا ہے، لہذا اگر انسان کی خوراک میں کولیسٹرول نہ بھی شامل ہو تو کوئی مسئلہ نہیں۔
مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان کی خوراک میں زیادہ کولیسٹرول شامل ہو جاتا ہے، اور نتیجے میں خون میں کولیسٹرول کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ ہر وہ خوراک جو انسان جانوروں سے حاصل کرتا ہے اس میں کولیسٹرول شامل ہوتا ہے، جیسے گوشت (کسی بھی جانور کا)، دودھ اور دودھ سے بننے والی تمام مصنوعات جیسے پنیر، مکھن، دہی گھی وغیرہ انڈے اور بیکری کی تمام مصنوعات وغیرہ۔ اور ہر وہ خوراک جو پودوں سے حاصل کی جاتی ہے ان میں کولیسٹرول نہیں ہوتا جیسے سبزیاں اور پھل وغیرہ۔
خون میں کولیسٹرول کی زیادہ مقدار کا مطلب ہے کہ زائد کولیسٹرول جگر میں واپس نہیں جائے گا بلکہ شریانوں میں جم جائے گا، اسکی مثال ایسے ہے جیسے برتن میں چکنائی لگی ہو تو اسے خالی پانی سے جتنا چاہیں دھوئیں وہ نہیں ہٹے گی بلکہ اس کو دور کرنے کیلیے کسی ڈیٹرجنٹ کی ضرورت ہوگی، اسی طرح کولیسٹرول جو کہ چکنائی ہے خون میں موجود پانی سے نہیں ہلتی بلکہ اس کیلیے بھی ایک "ڈیٹرجنٹ" کی ضرورت ہے۔
اور یہ ڈیٹرجنٹ کولیٹرول کی ہی ایک قسم ہے، دراصل کولیسٹرول کی تین چار قسمیں ہیں، ایل ڈی ایل (لو ڈینسٹی لیپی پروٹین کولیسٹرول)، وی ایل ڈی ایل، ایچ ڈی ایل وغیرہ۔ ان میں سے دو اہم ہیں، ایل ڈی ایل اور ایچ ڈی ایل۔ ایل ڈی ایل اصل برائی کی جڑ ہے، کہ یہ اگر زیادہ ہو تو شریانوں میں جم کر خون کا راستہ روک دے گا جس سے دل کی بیماری جنم لیتی ہے۔ اور ایچ ڈی ایل اچھا کولیسٹرول ہے یعنی ڈیٹرجنٹ ہے جو خون میں موجود زائد کولیسٹرول کو جڑوں سے اکھیڑ کر واپس جگر میں بھیج دیتا ہے۔
ایل ڈی ایل خون میں جتنا کم ہو اتنا ہی اچھا ہے، اس کی مقدار کسی بھی وقت خون میں 130 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر (یعنی ایک لیٹر خون میں ایک اعشاریہ تیس گرام) سے زائد نہیں ہونی چاہیئے۔
ایچ ڈی ایل خون میں جتنا زیادہ ہو اتنا ہی اچھا ہے، اسکی مقدار کسی بھی وقت خون میں 40 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر سے کم نہیں ہونی چاہیئے، 60 سے زائد ہو تو آپ خوش قسمت ہیں۔
ٹوٹل کولیسٹرول کی مقدار 200 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر سے زائد نہیں ہونی چاہیئے۔
اگر آپ کے خون میں یہ مقداریں زیادہ یا کم ہیں تو دل کی بیماری لگنے کا خدشہ ہے، ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ ہر صحت مند انسان کو پانچ سال میں کم از کم ایک دفعہ مکمل کولیسٹرول ٹیسٹ ضرور کروانا چاہیئے، اس ٹیسٹ کا نام "لیپیڈ پروفائل" lipid profile ہے۔
کولیسٹرول کو خون میں کم کرنے کے دو طریقے بہت موثر ہیں:
روزانہ، کم از کم آدھ گھنٹہ ورزش، اس سے نہ صرف مجموعی کولیسٹرول اور ایل ڈی ایل کم ہوتا ہے بلکہ ایچ ڈی ایل زیادہ ہوتا ہے اور بلڈ پریشر بھی کنٹرول میں رہتا ہے۔
خوراک میں احتیاط، آپ کو علم ہونا چاہیئے کہ جو چیز آپ کھا رہے ہیں اس میں کولیسٹرول کتنا ہے، انسان کے روزانہ کولیسٹرول خوراک کی زیادہ سے زیادہ مقدار 300 ملی گرام ہے اور ایک انڈے کے زردی میں 260 ملی گرام کولیسٹرول ہوتا ہے، اسی طرح ایک پاؤ گوشت میں تقریباً 150 ملی گرام کولیسٹرول ہوتا ہے، سو کوشش یہی ہونی چاہیئے کہ سبزیوں اور پھلوں کا استعمال زیادہ کرنا چاہیئے۔
لیکن کسی بھی صورت میں روزانہ ورزش بہت ضروری ہے اور دوا کے بغیر کولیسٹرول کم رکھنے کا یہ سب سے اہم اور مؤثر طریقہ ہے۔
انسان میں، جگر ہر روز ایک مخصوص مقدار میں کولیسٹرول بناتا ہے اور اسےخون میں چھوڑتا ہے، جو اپنی ضروری افعال سرانجام دیتا ہے، لہذا اگر انسان کی خوراک میں کولیسٹرول نہ بھی شامل ہو تو کوئی مسئلہ نہیں۔
مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان کی خوراک میں زیادہ کولیسٹرول شامل ہو جاتا ہے، اور نتیجے میں خون میں کولیسٹرول کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ ہر وہ خوراک جو انسان جانوروں سے حاصل کرتا ہے اس میں کولیسٹرول شامل ہوتا ہے، جیسے گوشت (کسی بھی جانور کا)، دودھ اور دودھ سے بننے والی تمام مصنوعات جیسے پنیر، مکھن، دہی گھی وغیرہ انڈے اور بیکری کی تمام مصنوعات وغیرہ۔ اور ہر وہ خوراک جو پودوں سے حاصل کی جاتی ہے ان میں کولیسٹرول نہیں ہوتا جیسے سبزیاں اور پھل وغیرہ۔
خون میں کولیسٹرول کی زیادہ مقدار کا مطلب ہے کہ زائد کولیسٹرول جگر میں واپس نہیں جائے گا بلکہ شریانوں میں جم جائے گا، اسکی مثال ایسے ہے جیسے برتن میں چکنائی لگی ہو تو اسے خالی پانی سے جتنا چاہیں دھوئیں وہ نہیں ہٹے گی بلکہ اس کو دور کرنے کیلیے کسی ڈیٹرجنٹ کی ضرورت ہوگی، اسی طرح کولیسٹرول جو کہ چکنائی ہے خون میں موجود پانی سے نہیں ہلتی بلکہ اس کیلیے بھی ایک "ڈیٹرجنٹ" کی ضرورت ہے۔
اور یہ ڈیٹرجنٹ کولیٹرول کی ہی ایک قسم ہے، دراصل کولیسٹرول کی تین چار قسمیں ہیں، ایل ڈی ایل (لو ڈینسٹی لیپی پروٹین کولیسٹرول)، وی ایل ڈی ایل، ایچ ڈی ایل وغیرہ۔ ان میں سے دو اہم ہیں، ایل ڈی ایل اور ایچ ڈی ایل۔ ایل ڈی ایل اصل برائی کی جڑ ہے، کہ یہ اگر زیادہ ہو تو شریانوں میں جم کر خون کا راستہ روک دے گا جس سے دل کی بیماری جنم لیتی ہے۔ اور ایچ ڈی ایل اچھا کولیسٹرول ہے یعنی ڈیٹرجنٹ ہے جو خون میں موجود زائد کولیسٹرول کو جڑوں سے اکھیڑ کر واپس جگر میں بھیج دیتا ہے۔
ایل ڈی ایل خون میں جتنا کم ہو اتنا ہی اچھا ہے، اس کی مقدار کسی بھی وقت خون میں 130 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر (یعنی ایک لیٹر خون میں ایک اعشاریہ تیس گرام) سے زائد نہیں ہونی چاہیئے۔
ایچ ڈی ایل خون میں جتنا زیادہ ہو اتنا ہی اچھا ہے، اسکی مقدار کسی بھی وقت خون میں 40 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر سے کم نہیں ہونی چاہیئے، 60 سے زائد ہو تو آپ خوش قسمت ہیں۔
ٹوٹل کولیسٹرول کی مقدار 200 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر سے زائد نہیں ہونی چاہیئے۔
اگر آپ کے خون میں یہ مقداریں زیادہ یا کم ہیں تو دل کی بیماری لگنے کا خدشہ ہے، ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ ہر صحت مند انسان کو پانچ سال میں کم از کم ایک دفعہ مکمل کولیسٹرول ٹیسٹ ضرور کروانا چاہیئے، اس ٹیسٹ کا نام "لیپیڈ پروفائل" lipid profile ہے۔
کولیسٹرول کو خون میں کم کرنے کے دو طریقے بہت موثر ہیں:
روزانہ، کم از کم آدھ گھنٹہ ورزش، اس سے نہ صرف مجموعی کولیسٹرول اور ایل ڈی ایل کم ہوتا ہے بلکہ ایچ ڈی ایل زیادہ ہوتا ہے اور بلڈ پریشر بھی کنٹرول میں رہتا ہے۔
خوراک میں احتیاط، آپ کو علم ہونا چاہیئے کہ جو چیز آپ کھا رہے ہیں اس میں کولیسٹرول کتنا ہے، انسان کے روزانہ کولیسٹرول خوراک کی زیادہ سے زیادہ مقدار 300 ملی گرام ہے اور ایک انڈے کے زردی میں 260 ملی گرام کولیسٹرول ہوتا ہے، اسی طرح ایک پاؤ گوشت میں تقریباً 150 ملی گرام کولیسٹرول ہوتا ہے، سو کوشش یہی ہونی چاہیئے کہ سبزیوں اور پھلوں کا استعمال زیادہ کرنا چاہیئے۔
لیکن کسی بھی صورت میں روزانہ ورزش بہت ضروری ہے اور دوا کے بغیر کولیسٹرول کم رکھنے کا یہ سب سے اہم اور مؤثر طریقہ ہے۔