توحید و شرک
توحید دین اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سب سے پہلا اور سب سے زیادہ اہم ہے۔ عقیدہ توحید کے ساتھ معمولی عمل بھی پہاڑ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے بغیر پہاڑ کے برابر عمل بھی اللہ کے دربار میں قبول نہیں ہے۔حقیقت یہ کہ اصل مقصد تمام قرآن کریم کا اور تمام دین کا توحید ہی ہے۔ توحید ہی کی تعلیم کے لیے مختلف زمانوں میں انبیائے کرام آئے۔حضرت شیخ کی تعلیمات میں بھی جس عقیدے اور جس نکتے پر سب سے زیادہ زور ملتا ہے وہ عقیدہ توحید ہی ہے۔شاید ہی کوئی وعظ ایسا ہوگا جس میں کسی نہ کسی انداز میں اس عقیدہ کی وضاحت نہ کی گئی ہو۔ یہاں تک کہ اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے بیٹے عبدالوہاب کو جو نصیحت فرمائی اس میں بھی توحید کو لازم پکڑنے کی تلقین فرمائی:
’’ اللہ کا تقوی اور اس کی اطاعت کو لازم کر لو او ر اس کے سوا نہ کسی سے خوف رکھو اور نہ امید، اور اپنی ساری حاجتیں اللہ کے حوالے کرو، حاجتیں اسی سے طلب کرو اور حق تعالی کے سوا کسی پر بھروسہ رکھو نہ اعتماد۔ توحید کو لازم پکڑو، توحید کو لازم پکڑو، توحید کو لازم پکڑو۔ سارے دین کا خلاصہ توحید ہے۔‘‘ ( حضرت شیخ کی وصیت)
دین اسلام میں عقیدہ توحید ذات باری تعالیٰ کو ایک ماننے اور جاننے پر ختم نہیں ہوجاتا۔ اتنی توحید تو کفار قریش بھی مانتے تھے۔قرآن پاک میں آتا ہے:
وَ لَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلَنَّ اللّٰہُo (لقمان-۲۵)
ترجمہ:اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے بنایا تو بول اٹھیں گے کہ اللہ نے۔
بلکہ ایک مسلمان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس بات کو بھی مانے اور دل سے اس کا یقین رکھے کہ جس طرح وہ اپنی ذات میں یکتا ہے اسی طرح اپنی صفات میں بھی یکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام کا عقیدہ توحید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں نہ اس کی ذات میں نہ صفات میں۔ اور صرف یہ زبان سے ہی نہیں کہنا بلکہ دل سے اس کا یقین رکھنا بھی ضروری ہے۔حضرت شیخ کے الفاظ میں:
’’کامل دوا تو دل سے اللہ تعالیٰ کو ایک جاننے میں ہے نہ کہ صرف زبان سے اقرار کرنے سے۔توحید اور زہد بدن اور زبان پر نہیں ہوتے، توحید بھی قلب میں ہوتی ہے اور زہد بھی قلب میں اور تقوی بھی قلب میں اور اللہ تعالیٰ کی محبت بھی قلب میں اور اس کا قرب بھی قلب میں۔‘‘(الفتح الربانی، مجلس ۱۳)
اللہ تعالیٰ کی صفات بے شمار ہیں۔ اس کی بعض اہم صفات یہ ہیں: وہ حی ہے یعنی زندہ ہے۔ وہ قادر مطلق ہے یعنی ہر طرح کی قدرت والا ہے۔ کوئی شے اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔وہ علیم یعنی علم والا ہے۔ آسمانوں اور زمینوں کا کوئی ذرہ اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ متکلم ہے یعنی کلام بھی اس کی صفت ہے۔ وہ سمیع ہے یعنی سننا بھی اس کی صفت ہے۔ وہ تمام مخلوق کی دعاؤں کو بیک وقت سنتا ہے۔ وہ بصیر ہے یعنی وہ ہر چیز کو دیکھتا ہے۔ اندھیرا اجالا اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔کسی وقت کوئی شے اس سے چھپی نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کی ایک صفت اس کا ارادہ ہے۔ وہ جو چاہتا ہے وہ ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔ وہ جس چیز کا ارادہ کرلیتا ہے وہ ہوجاتی ہے۔ وہ فعال لما یرید ہے۔ اللہ تعالیٰ خالق ہے، پیدا کرنا بھی اس کی صفت ہے۔ وہی تمام کائنات کا پیدا کرنے والا ہے۔ وہ رزاق ہے، رزق دینا اور اس کو پیدا کرنا بھی اسی کا کام ہے۔ حضرت شیخ نے مختلف وعظوں میں ان صفات کا تذکرہ فرمایا ہے:
’’(بندہ) جب صاحب یقین اور موحد (اللہ کو ہر لحاظ سے ایک ماننے والا) بن جاتا ہے اور پھر وہ یقین کرتا ہے کہ حقیقت میں اللہ کے سوا کوئی فاعل حقیقی نہیں اور حرکت و سکون، بھلائی اور برائی، نفع اور نقصان، دینا اور نہ دینا، کھولنا اور بند کرنا، موت و حیات، عزت و ذلت اور تونگری اور محتاجی، اللہ کے سوا کسی کے قبضے میں نہیں۔‘‘ (فتوح الغیب وعظ ۳)
الفتح الربانی مجلس ۲ میں فرماتے ہیں:
’’اس بات کا یقین رکھ کہ کوئی نقصان پہنچانے والا نہیں، کوئی نفع پہنچانے والا نہیں، کوئی عطا کرنے والا نہیں اور کوئی روکنے والا نہیں مگر صرف اللہ!‘‘
الفتح الربانی مجلس ۱۳ میں مزید فرماتے ہیں:
’’بادشاہ ایک ہی ہے، نقصان پہنچانے والا ایک ہی ہے، حرکت و سکون دینے والا ایک ہی ہے، مسلط کرنے والا ایک ہی ہے، مسخر بنانے والا وہی ایک، دینے والا اور روکنے والا وہی ایک، خالق اور روزی دینے والا وہی ایک یعنی اللہ عز وجل۔ وہی قدیم اور ازلی ابدی ہے۔وہی موجود تھا مخلوق سے پہلے، تمہارے ماں باپ سے پہلے، تمہارے دولتمندوں سے پہلے۔وہی پیدا کرنے والا ہے آسمانوں اور زمینوں کا اور ان چیزوںکا جو ان کے اندر ہیں اور ان چیزوں کا جو ان کے درمیان ہیں۔اس کی مثل کوئی نہیں، اور وہ سمیع و بصیر ہے۔‘‘
حضرت شیخ کے مطابق بعض چیزیں بعض کی ضد ہوتی ہیں، (جلا الخواطر مجلس ۴۰)۔ توحید کی ضد شرک ہے۔ شرک دوسرا موضوع ہے جس پر حضرت شیخ کے مواعظ میں جگہ جگہ تنبیہ ملتی ہے۔ بلکہ جہاں جہاں آپ نے توحید کی وضاحت فرمائی ہے ساتھ ہی ساتھ شرک کی وضاحت بھی فرماتے جاتے ہیں۔
دین اسلام میں شرک کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی صفات، اس کی عبادت اور اس کی عظمت میں کسی اور کو شریک بنا لینا۔ شرک کی حقیقت یہ کہ جو معاملہ اللہ کے ساتھ کرنا چاہیے وہ غیراللہ کے ساتھ کیا جائے۔الفتح الربانی مجلس ۶۲ میں حضرت شیخ فرماتے ہیں:
’’تجھ کو تو توقع بھی مخلوق ہی سے ہے اور خوف بھی انہیں سے۔اور یہ پروردگار کے ساتھ شریک ٹھہرانا ہے کہ جو حق تعالیٰ کے مناسب تھا وہ مخلوق کے لیے تجویز کیا۔ ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
جس شخص نے لا الہ اِلَّا اللّٰہ کا اقرار کر لیا اوراللہ تعالیٰ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی ہے ان کا انکار کیا تو اس کا مال اور خون محفوظ ہوگیا اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد۔ (صحیح مسلم)
اس مضمون کو جلاء الخواطر مجلس ۴۳ میں حضرت شیخ نے اس طرح سمجھایا ہے:
’’تم میں توحید کتنی کم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضامندگی کتنی کم ہے تمہارا اسباب اور مخلوق سے شرک کتنا زیادہ ہے۔تم نے فلاں اور فلاں کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ رب بنا رکھا ہے جن کی طرف نقصان و نفع اور دینے اور روکنے کو منسوب کرتے ہو۔‘‘
اللہ کی صفتوں میں کسی کو شریک ماننا یعنی جو صفات اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں مخلوق میں ان کو ثابت کرنا شرک ہے۔ مثلا اللہ تعالیٰ قدرت و اختیار والا ہے، دستگیری فرمانے والا ہے، مرادیں بر لانے والا ہے، فراخی تنگدستی دینے والا ہے۔ مخلوق میں یہ وصف ماننا شرک ہے۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے۔ ساری بھلائیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ دینا اس کے ہاتھ میں ہے منع کرنا اس کے ہاتھ میں ہے۔ امیری فقیری اس کے ہاتھ میں ہے۔ عزت و ذلت بھی اس کے ہاتھ میںہے۔ اس کے علاوہ کسی کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔پس عقلمند وہی ہے جو اس کے در کو پکڑ لے اور اس کے غیر سے اپنا رخ پھیر لے۔‘‘ (الفتح الربانی مجلس۳)
اسی طرح یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ اپنے علم سے ہر جگہ موجود ہے۔ کائنات کی کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ مخلوق میں سے کسی کے متعلق یہ ماننا کہ اس کو بھی ہماری ہر بات کا علم ہے تو یہ بھی شرک ہے۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں:
’’اور اس علم سابق سے تجھے کیا غرض۔ یہ وہ علم ہے جس کو نہ تو جانتا ہے نہ کوئی دوسرا، یہ علم غیب میں سے ہے۔‘‘ (الفتح الربانی مجلس۲۹)
فتوح الغیب وعظ نمبر ۶۹ میں اس بات کو اس طرح سمجھایا ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے تجھ سے حقیقت اشیا کا علم روک لیا ہے اور تمام اشیا کے مصالح و مفسدات کے جاننے میں وہ ہمیشہ تنہا اور اکیلا رہا ہے۔‘‘
شرک اتنی خطرناک چیز ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے پاک کلام میں فرما دیا:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَائُo( نساء-۱۱۶)
ترجمہ:بے شک اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے گا بخش دے گا۔
اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو یوں فرمایا:
جو اس حال میں مرا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں مانتا وہ جنت میں جائے گا۔(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
صحیح مسلم کی ایک حدیث میں یوں آتا ہے:
اور جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک مانتا تھا وہ دوزخ میں جائے گا۔
یہاں تک کہ مشرک کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت بھی نہ فر مائیں گے۔چنانچہ ایک روایت میں یوں آتا ہے کہ روز قیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ہر اس شخص کے لیے ہوکر رہے گی جو اس حالت میں مرا کہ کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہرایا ہو۔(ترمذی، ابن ماجہ)
حضرت شیخ نے اپنے وعظوں میں شرک کی دو قسمیں بتائی ایک ظاہر کا شرک اور دوسرا باطن کا شرک فرماتے ہیں:
’’ظاہر و باطن دونوں طرح کے شرک کو چھوڑنے والوں میں سے ہوجا۔ بتوں کی پرستش کرنا تو ظاہری شرک ہے اور مخلوق پر بھروسہ رکھنا اور نفع نقصان میں ان پر نگاہ ڈالنا ہے یہ باطن کا شرک ہے۔‘‘ (الفتح الربانی مجلس ۳۴)
فتوح الغیب میں فرماتے ہیں:
’’صرف بت پرستی ہی شرک نہیں بلکہ اپنی خواہش نفس کی پیروی کرنا اور خدائے عز وجل کے ساتھ دنیا اور آخرت اور وہاں کی کسی چیز کو اختیار کرنا بھی شرک ہے پس جو اللہ تعالیٰ کے سوا ہے وہ غیر اللہ ہے۔ بس جب تو اس کے سوا اس کے غیر کی طرف مائل ہوا تو بے شک تو نے غیر خدا کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا۔‘‘ ( فتوح الغیب وعظ ۷ )
توحید دین اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سب سے پہلا اور سب سے زیادہ اہم ہے۔ عقیدہ توحید کے ساتھ معمولی عمل بھی پہاڑ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے بغیر پہاڑ کے برابر عمل بھی اللہ کے دربار میں قبول نہیں ہے۔حقیقت یہ کہ اصل مقصد تمام قرآن کریم کا اور تمام دین کا توحید ہی ہے۔ توحید ہی کی تعلیم کے لیے مختلف زمانوں میں انبیائے کرام آئے۔حضرت شیخ کی تعلیمات میں بھی جس عقیدے اور جس نکتے پر سب سے زیادہ زور ملتا ہے وہ عقیدہ توحید ہی ہے۔شاید ہی کوئی وعظ ایسا ہوگا جس میں کسی نہ کسی انداز میں اس عقیدہ کی وضاحت نہ کی گئی ہو۔ یہاں تک کہ اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے بیٹے عبدالوہاب کو جو نصیحت فرمائی اس میں بھی توحید کو لازم پکڑنے کی تلقین فرمائی:
’’ اللہ کا تقوی اور اس کی اطاعت کو لازم کر لو او ر اس کے سوا نہ کسی سے خوف رکھو اور نہ امید، اور اپنی ساری حاجتیں اللہ کے حوالے کرو، حاجتیں اسی سے طلب کرو اور حق تعالی کے سوا کسی پر بھروسہ رکھو نہ اعتماد۔ توحید کو لازم پکڑو، توحید کو لازم پکڑو، توحید کو لازم پکڑو۔ سارے دین کا خلاصہ توحید ہے۔‘‘ ( حضرت شیخ کی وصیت)
دین اسلام میں عقیدہ توحید ذات باری تعالیٰ کو ایک ماننے اور جاننے پر ختم نہیں ہوجاتا۔ اتنی توحید تو کفار قریش بھی مانتے تھے۔قرآن پاک میں آتا ہے:
وَ لَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلَنَّ اللّٰہُo (لقمان-۲۵)
ترجمہ:اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے بنایا تو بول اٹھیں گے کہ اللہ نے۔
بلکہ ایک مسلمان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس بات کو بھی مانے اور دل سے اس کا یقین رکھے کہ جس طرح وہ اپنی ذات میں یکتا ہے اسی طرح اپنی صفات میں بھی یکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام کا عقیدہ توحید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں نہ اس کی ذات میں نہ صفات میں۔ اور صرف یہ زبان سے ہی نہیں کہنا بلکہ دل سے اس کا یقین رکھنا بھی ضروری ہے۔حضرت شیخ کے الفاظ میں:
’’کامل دوا تو دل سے اللہ تعالیٰ کو ایک جاننے میں ہے نہ کہ صرف زبان سے اقرار کرنے سے۔توحید اور زہد بدن اور زبان پر نہیں ہوتے، توحید بھی قلب میں ہوتی ہے اور زہد بھی قلب میں اور تقوی بھی قلب میں اور اللہ تعالیٰ کی محبت بھی قلب میں اور اس کا قرب بھی قلب میں۔‘‘(الفتح الربانی، مجلس ۱۳)
اللہ تعالیٰ کی صفات بے شمار ہیں۔ اس کی بعض اہم صفات یہ ہیں: وہ حی ہے یعنی زندہ ہے۔ وہ قادر مطلق ہے یعنی ہر طرح کی قدرت والا ہے۔ کوئی شے اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔وہ علیم یعنی علم والا ہے۔ آسمانوں اور زمینوں کا کوئی ذرہ اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ متکلم ہے یعنی کلام بھی اس کی صفت ہے۔ وہ سمیع ہے یعنی سننا بھی اس کی صفت ہے۔ وہ تمام مخلوق کی دعاؤں کو بیک وقت سنتا ہے۔ وہ بصیر ہے یعنی وہ ہر چیز کو دیکھتا ہے۔ اندھیرا اجالا اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔کسی وقت کوئی شے اس سے چھپی نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کی ایک صفت اس کا ارادہ ہے۔ وہ جو چاہتا ہے وہ ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔ وہ جس چیز کا ارادہ کرلیتا ہے وہ ہوجاتی ہے۔ وہ فعال لما یرید ہے۔ اللہ تعالیٰ خالق ہے، پیدا کرنا بھی اس کی صفت ہے۔ وہی تمام کائنات کا پیدا کرنے والا ہے۔ وہ رزاق ہے، رزق دینا اور اس کو پیدا کرنا بھی اسی کا کام ہے۔ حضرت شیخ نے مختلف وعظوں میں ان صفات کا تذکرہ فرمایا ہے:
’’(بندہ) جب صاحب یقین اور موحد (اللہ کو ہر لحاظ سے ایک ماننے والا) بن جاتا ہے اور پھر وہ یقین کرتا ہے کہ حقیقت میں اللہ کے سوا کوئی فاعل حقیقی نہیں اور حرکت و سکون، بھلائی اور برائی، نفع اور نقصان، دینا اور نہ دینا، کھولنا اور بند کرنا، موت و حیات، عزت و ذلت اور تونگری اور محتاجی، اللہ کے سوا کسی کے قبضے میں نہیں۔‘‘ (فتوح الغیب وعظ ۳)
الفتح الربانی مجلس ۲ میں فرماتے ہیں:
’’اس بات کا یقین رکھ کہ کوئی نقصان پہنچانے والا نہیں، کوئی نفع پہنچانے والا نہیں، کوئی عطا کرنے والا نہیں اور کوئی روکنے والا نہیں مگر صرف اللہ!‘‘
الفتح الربانی مجلس ۱۳ میں مزید فرماتے ہیں:
’’بادشاہ ایک ہی ہے، نقصان پہنچانے والا ایک ہی ہے، حرکت و سکون دینے والا ایک ہی ہے، مسلط کرنے والا ایک ہی ہے، مسخر بنانے والا وہی ایک، دینے والا اور روکنے والا وہی ایک، خالق اور روزی دینے والا وہی ایک یعنی اللہ عز وجل۔ وہی قدیم اور ازلی ابدی ہے۔وہی موجود تھا مخلوق سے پہلے، تمہارے ماں باپ سے پہلے، تمہارے دولتمندوں سے پہلے۔وہی پیدا کرنے والا ہے آسمانوں اور زمینوں کا اور ان چیزوںکا جو ان کے اندر ہیں اور ان چیزوں کا جو ان کے درمیان ہیں۔اس کی مثل کوئی نہیں، اور وہ سمیع و بصیر ہے۔‘‘
حضرت شیخ کے مطابق بعض چیزیں بعض کی ضد ہوتی ہیں، (جلا الخواطر مجلس ۴۰)۔ توحید کی ضد شرک ہے۔ شرک دوسرا موضوع ہے جس پر حضرت شیخ کے مواعظ میں جگہ جگہ تنبیہ ملتی ہے۔ بلکہ جہاں جہاں آپ نے توحید کی وضاحت فرمائی ہے ساتھ ہی ساتھ شرک کی وضاحت بھی فرماتے جاتے ہیں۔
دین اسلام میں شرک کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی صفات، اس کی عبادت اور اس کی عظمت میں کسی اور کو شریک بنا لینا۔ شرک کی حقیقت یہ کہ جو معاملہ اللہ کے ساتھ کرنا چاہیے وہ غیراللہ کے ساتھ کیا جائے۔الفتح الربانی مجلس ۶۲ میں حضرت شیخ فرماتے ہیں:
’’تجھ کو تو توقع بھی مخلوق ہی سے ہے اور خوف بھی انہیں سے۔اور یہ پروردگار کے ساتھ شریک ٹھہرانا ہے کہ جو حق تعالیٰ کے مناسب تھا وہ مخلوق کے لیے تجویز کیا۔ ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
جس شخص نے لا الہ اِلَّا اللّٰہ کا اقرار کر لیا اوراللہ تعالیٰ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی ہے ان کا انکار کیا تو اس کا مال اور خون محفوظ ہوگیا اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد۔ (صحیح مسلم)
اس مضمون کو جلاء الخواطر مجلس ۴۳ میں حضرت شیخ نے اس طرح سمجھایا ہے:
’’تم میں توحید کتنی کم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضامندگی کتنی کم ہے تمہارا اسباب اور مخلوق سے شرک کتنا زیادہ ہے۔تم نے فلاں اور فلاں کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ رب بنا رکھا ہے جن کی طرف نقصان و نفع اور دینے اور روکنے کو منسوب کرتے ہو۔‘‘
اللہ کی صفتوں میں کسی کو شریک ماننا یعنی جو صفات اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں مخلوق میں ان کو ثابت کرنا شرک ہے۔ مثلا اللہ تعالیٰ قدرت و اختیار والا ہے، دستگیری فرمانے والا ہے، مرادیں بر لانے والا ہے، فراخی تنگدستی دینے والا ہے۔ مخلوق میں یہ وصف ماننا شرک ہے۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے۔ ساری بھلائیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ دینا اس کے ہاتھ میں ہے منع کرنا اس کے ہاتھ میں ہے۔ امیری فقیری اس کے ہاتھ میں ہے۔ عزت و ذلت بھی اس کے ہاتھ میںہے۔ اس کے علاوہ کسی کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔پس عقلمند وہی ہے جو اس کے در کو پکڑ لے اور اس کے غیر سے اپنا رخ پھیر لے۔‘‘ (الفتح الربانی مجلس۳)
اسی طرح یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ اپنے علم سے ہر جگہ موجود ہے۔ کائنات کی کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ مخلوق میں سے کسی کے متعلق یہ ماننا کہ اس کو بھی ہماری ہر بات کا علم ہے تو یہ بھی شرک ہے۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں:
’’اور اس علم سابق سے تجھے کیا غرض۔ یہ وہ علم ہے جس کو نہ تو جانتا ہے نہ کوئی دوسرا، یہ علم غیب میں سے ہے۔‘‘ (الفتح الربانی مجلس۲۹)
فتوح الغیب وعظ نمبر ۶۹ میں اس بات کو اس طرح سمجھایا ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے تجھ سے حقیقت اشیا کا علم روک لیا ہے اور تمام اشیا کے مصالح و مفسدات کے جاننے میں وہ ہمیشہ تنہا اور اکیلا رہا ہے۔‘‘
شرک اتنی خطرناک چیز ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے پاک کلام میں فرما دیا:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَائُo( نساء-۱۱۶)
ترجمہ:بے شک اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے گا بخش دے گا۔
اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو یوں فرمایا:
جو اس حال میں مرا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں مانتا وہ جنت میں جائے گا۔(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
صحیح مسلم کی ایک حدیث میں یوں آتا ہے:
اور جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک مانتا تھا وہ دوزخ میں جائے گا۔
یہاں تک کہ مشرک کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت بھی نہ فر مائیں گے۔چنانچہ ایک روایت میں یوں آتا ہے کہ روز قیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ہر اس شخص کے لیے ہوکر رہے گی جو اس حالت میں مرا کہ کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہرایا ہو۔(ترمذی، ابن ماجہ)
حضرت شیخ نے اپنے وعظوں میں شرک کی دو قسمیں بتائی ایک ظاہر کا شرک اور دوسرا باطن کا شرک فرماتے ہیں:
’’ظاہر و باطن دونوں طرح کے شرک کو چھوڑنے والوں میں سے ہوجا۔ بتوں کی پرستش کرنا تو ظاہری شرک ہے اور مخلوق پر بھروسہ رکھنا اور نفع نقصان میں ان پر نگاہ ڈالنا ہے یہ باطن کا شرک ہے۔‘‘ (الفتح الربانی مجلس ۳۴)
فتوح الغیب میں فرماتے ہیں:
’’صرف بت پرستی ہی شرک نہیں بلکہ اپنی خواہش نفس کی پیروی کرنا اور خدائے عز وجل کے ساتھ دنیا اور آخرت اور وہاں کی کسی چیز کو اختیار کرنا بھی شرک ہے پس جو اللہ تعالیٰ کے سوا ہے وہ غیر اللہ ہے۔ بس جب تو اس کے سوا اس کے غیر کی طرف مائل ہوا تو بے شک تو نے غیر خدا کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا۔‘‘ ( فتوح الغیب وعظ ۷ )
(جاری ہے)