عورت کی بھلائی ومصلحت

تانیہ

وفقہ اللہ
رکن
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں ایک دن ایک جماعت کے ساتھ جناب رسول خدا (ص) کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا آنحضرت (ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا: کہ عورت کی مصلحت کس میں ہے ؟ آپ (ص) کو کوئی صحیح جواب نہ دے سکا ،جب اصحاب چلے گئے اور میں بھی گھر گیا تو میں نے، پیغمبراسلام (ص) کے سوٴال کو جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے سامنے پیش کیا ،جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا:کہ میں اس کا جواب جانتی ہوں ،عورت کی مصلحت اس میں ہے کہ وہ اجنبی مرد کو نہ دیکھے اور اسے اجنبی مرد نہ دیکھے میں جب جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کی کہ آپ (ص) کے سوٴال کے جواب میں جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے یہ فرمایا ہے۔پیغمبر (ص) نے آپ سلام اللہ علیہا کے اس جواب سے تعجب کیا اور فرمایا:کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا میرے جسم کا ٹکڑا ہے ۔ ” فٰاطِمَۃُ بَضْعَۃُ مِنّیٖ“(کشف الغمہ ،ج/۲ص/۹۲ )
اس میں کوئی شک نہیں کہ دین مقدس اسلام نے عورتوں کی ترقی اور پیشرفت کے لئے بہت صحیح و مناسب اقدامات کئے ہیں اور ان کے حقوق پورا کرنے کے لئے ان کے لئے عادلانہ قوانین اور احکام وضع کئے ہیں ، اسلام نے عورت کو علم حاصل کرنے کی آزادی دی ہے ،اس کے مال اور کام کو محترم قرار دیا ہے ،اجتماعی قوانین وضع کرتے وقت عورتوں کے واقعی منافع اور مصالح کی پورا خیال رکھاہے ۔
لیکن یہ بات قابل بحث ہے کہ آیا عورت کی مصلحت سماج اور معاشرے میں اجنبی مردوں کے ساتھ مخلوط رہنے میں ہے یا عورت کی مصلحت اس میں ہے کہ وہ بھی مردوں کی طرح عمومی مجالس اور محافل میں نامحرموں کے ساتھ گھل مل کر پھرتی رہے ؟ کیا یہ مطلب واقعا ًعورتوں کے فائدے میں ہے کہ وہ زینت کر کے بغیر کسی روک ٹوک کے مردوں کی مجالس میں شریک ہو اور اپنے آپ کوکھلے عام رکھے ؟ کیا یہ عورتوں کے لئے مصلحت ہے کہ وہ بیگانوں کے لئے آنکھ مچولی کرنے کا موقع فراہم کرے اور مردوں کے لئے ایسے مواقع فراہم کرے کہ جس سے دیدنی لذت جو مفت کی گناہ بے لذت حاصل کرتے رہےں ؟ کیا یہ عورتوں کی منفعت میں ہے کہ کسی پابندی کو اپنے لئے جائز قرار نہ دیں اور پوری طرح اجنبی مردوں کے ساتھ گھل مل کر رہیں اور آزادانہ طور سے ایک دوسرے کو دیکھیں ؟ کیا عورتوں کی مصلحت اسی میں ہے کہ وہ گھر سے اس طرح نکلے کہ اس کا تعاقب اجنبی لوگوں کی نگاہیں کر رہی ہوں یا نہ ؟؟۔
بلکہ عورتوں کی مصلحت معاشرے میں اس میں ہے کہ اپنے آپ کو مستور کرکے سادہ طریقے سے گھر سے باہر آئیں اور اجنبی مردوں کے لئے زینت ظاہر نہ کریں نہ خود بیگانوں کو دیکھیں اور نہ کوئی بیگانہ انھیں دیکھے۔
آیا پہلی کیفیت میں تمام عورتوں کی مصلحت ہے اور وہ ان کے منافع کو بہتر طور پر محفوظ کرسکتی ہے یا دوسری کیفیت میں ؟ آیا پہلی کیفیت عورتوں کی روح اور ترقی اور پیشرفت کے بہتر اسباب فراہم کر سکتی ہے یا دوسری کیفیت ؟ پیغمبر اکرم (ص) نے اس اہمیت کے ساتھ اجتماع اور معاشرے کے اساسی مسئلہ کو اپنے اصحاب کے افکار عمومی کے سامنے پیش کیا اور ان کی اس میں رائے طلب کی لیکن اصحاب میں سے کوئی بھی اس کا پسندیدہ جواب نہ دے سکا جب اس کی اطلاع حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کو ہوئی تو آپ سلام اللہ علیہانے اس مشکل موضوع میں اس طرح اپنا نظریہ بیان کیا کہ عورتوں کی معاشرے میں مصلحت اس میں ہے کہ نہ وہ اجنبی مردوں کو دیکھیں اور نہ اجنبی مرد انھیں دیکھیں وہ زہرا سلام اللہ علیہا جو وحی اور ولایت کے گھر میں تربیت پاچکی تھیں اس کا اتنا ٹھوس اور قیمتی جواب دیا اور اجتماعی موضوع میں سے ایک حساس اور مہم موضوع میں اپنے نظرئے اور عقیدے کا اظہار کیا کہ جس سے رسول خدا (ص) نے تعجب کیا اور فرمایا: فاطمہ سلام اللہ علیہا میرا ایک ٹکڑا ہے ۔” فاطمۃ بضعۃ منی“
اگر انسان اپنے ناپختہ احساسات کو دور رکھ کر غیر جانبدارانہ اس مسئلے کو سوچے اور اس کے نتائج اور انجام پر خوب غورو فکر کرے تو اس بات کی تصدیق کرے گا کہ جو جواب جناب سیدہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے دیا ہے وہ ایسا بہترین دستور العمل ہو سکتا ہے جو عورتوں کے منافع کا ضامن ہو ۔اور اس کے مقام اورمرتبے کو معاشرے میں محفوظ کر ے گا کیوں کہ اگر عورتیں گھر سے اس طرح نکلیں اور اجنبیوں کے ساتھ اس طرح میل جول رکھیں کہ مرد ان سے ہر قسم کی تمتعات حاصل کر سکیں اور عورتیں ہر جگہ مردوں کے لئے آنکھ مچولی کے اسباب فراہم کریں تو پھر جوان دیر سے شادی کریں گے اور وہ اپنے گھر بسانے کی ذمہ داری محسوس نہیں کریں گے ہر روز لڑکیوں اور عورتوں کی تعداد میں جو بے شوہر ہوں گی اضافہ ہوتا جائے گا اور یہ بات معاشرے کے لئے مضر ہے اور ماں ، باپ کے لئے مشکلات اوربدنامی کا سبب ہوگا خود عام عورتوں کے سماجی زندگی کے لئے بھی ضرر رساں ہوگا اور اگر عورتیں اپنی خوبصورتی کو تمام نگاہوں کے لئے عام قرار دے دیں اور اجنبیوں میں دلربائی کرتی رہیں تو ایک بہت بڑے گروہ کا دل اپنے ساتھ لئے پھریں گی اور چوں کہ مرد محرومیت سے دو چار ہوں گے اور ان تک رسائی اورمیل جول بلا قید و شرط کے حاصل نہ کر سکیں گے یقینااً ان میں نفسیاتی بیماریاں اور ضعف اعصاب اور خود کشی اور زندگی سے مایوسی عام ہو جائے گی۔
اس کا نتیجہ بلا واسطہ خود عورتوں کی طرف لوٹے گایہی عام لطف نگاہ ہے کہ بعض مرد مختلف حیلے اور فریب کرتے ہیں اور معصوم اور سادہ لوح کو دھوکا دیتے ہیں ان کی عفت و آبرو کے سرمائے کو برباد کردیتے ہیں اور انھیں بدکاری تباہی کی وادی میں ڈھکیل دیتے ہیں ۔
جب شوہر دار عورت دیکھے کہ اس کا شوہر دوسری عورتوں کے ساتھ آتا جاتا ہے اور عمومی مجالس اور محافل میں ان سے ارتباط رکھتا ہے تو غالبا عورت کے غیرت کی حس اسے اکساتی ہے کہ اس میں بدگمانی اور سوء ظن پیدا ہوجائے اور وہ بات بات پر اعتراض شروع کردے ،بلا کسی وجہ عمدہ اورخوشحال زندگی کو خر اب و برباد بناکر رکھ دے گی اور نتیجہ ،جدائی اور طلاق کی صورت میں ظاہر ہوگا یا اسی نا گوار حالت میں گھر کے سخت قید خانہ میں زندگی گزار تے رہے گی اور قید خانہ کی مدت کے خاتمہ کا انتظار کرنے میں زندگی کے دن شمار کرتی رہے گی اور میاں ،بیوی دو سیپاہیوں کی طرح ایک دوسرے کی مراقبت میں لگے رہیں گے ۔
اگر مرد اجنبی عورتوں کو آزادانہ دیکھ سکتا ہو تو قہر اً ان میں ایسی عورتیں دیکھ لے گا جو اس کی بیوی سے خوبصورت اور جاذب نظر ہوں گی اور بسا اوقات زبان کے زخم اور سرزنش سے اپنی بیوی کے لئے ناراضگی کے اسباب فراہم کرے گا اور مختلف اعتراضات اور بہانوں سے خوشحال و لطیف زندگی کو جلانے والی جہنم میں تبدیل کر دے گا ۔
جس مرد کو آزاد فکری سے کارو بار اور اقتصادی فعالیت میں مشغول ہونا چاہئے جب آنے جانے میں یا کام کی جگہ نیم عریاں اور آرائش کی ہوئی عورتوں سے ملے گا تو قہراً غریزہٴ جنسی سے مغلوب ہو جائے گا اور اپنے دل کو کسی دل ربا کے سپرد کر دے گا ،ایسا آدمی کبھی آزاد فکری سے کارو بار میں یا تحصیل علم میں مشغول نہیں ہو سکتا اور اقتصادی فعالیت میں پیچھے رہ جائے گا اس قسم کے ضرر میں خود عورتیں بھی شریک ہوگی اور یہ ضرر ان پر بھی وارد ہوگا ۔
اگر عورت پردہ نشیں ہو تو وہ اپنی قدر و قیمت کو اچھی طرح مرد کے دل میں بسا سکتی ہے اور عورتوں کے عمومی فوائد کو سماج کے لئے محفوظ کر سکتی ہے اور معاشرے کے نفع کے لئے قدم اٹھا سکتی ہے ۔
اسلام چوں کہ عورت کو معاشرے کا ایک اہم جزو جانتا ہے اور اس کی روش و سرگرمی کو معاشرے میں موثر جانتا ہے لہٰذا اس سے یہ بڑی ذمہ داری لی گئی ہے کہ وہ پردے کے ذریعہ بدکاری اور بد چلن ہونے کے اسباب کو روک سکے اور قومی ترقی کے ساتھ عوامی صحت و سلامتی کے باقی رکھنے میں مدد گار ثابت ہو۔ اسی لئے اسلام کی نمونہ اور مثالی خاتون نے جو وحی کے گھر کی تربیت یافتہ تھیں ۔عورتوں کے معاشرے کے متعلق اس قسم کے عقیدہ کا اظہار کیا ہے کہ عورت کی مصلحت اس میں ہے کی وہ اس طرح سے زندگی بسر کریں کہ نہ انھیں اجنبی مرد دیکھ سکیں اور نہ وہ اجنبی مردوں کو دیکھیں۔
 
Top