نومولود کے احکام ومسائل
مرتب
الشیخ محمد محمود السیلاوی
مترجم
مبصرالرحمن قاسمی
مرتب
الشیخ محمد محمود السیلاوی
مترجم
مبصرالرحمن قاسمی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام وبعد !
عزیز قاری ! اولاد کی نعمت ایک عظیم نعمت ہے، جس پر بندے کو اللہ رب العزت کا شکر بجالانا ضروری ہے، جو شکر کرتا ہے اللہ تعالی اس کے شکر کی قدر فرماتے ہیں، شکر یہی ہے کہ بندہ ؛اللہ تعالی نے جو اولاد عطا کی ہے اس کے تئیں اللہ تعالی کے بتائے گئے احکامات کا لحاظ رکھے، اس رسالے میں نومولود سے متعلق شرعی احکام اورمسائل کو بڑے اختصار کے ساتھ بیا ن کیا گیا ہے، امید ہے کہ اس مختصر رسالے سے قارئین کو فائدہ ہوگا، جن حضرات کو اللہ تعالی نئی اولاد عطا فرمائے وہ اس رسالے سے ضروری استفادہ کریں۔
۱- نومولود کی مبارکباد دینا
نومولود کے والدین، رشتہ دار اور اقاریب کو مبارکباد دینا مستحب ہے، اللہ تعالی نے اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش سے قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان الفاظ میں خوش خبری دی :
"فبشرناه بغلم حليم" (الصافات:101)
" پس ہم نے انھیں ایک بردبار بچے کی بشارت دی"۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے ایک مجلسی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو ایک شخص نے اسے ان الفاظ سے مبارکباد دی کہ تجھے شہ سوار بیٹا مبارک ہو، اس پر حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا تجھے کیا معلوم کہ وہ شہ سوار ہوگا ؟ ممکن ہے وہ بڑھی یا درزی ہو، اس شخص نے عرض کیا : پھر میں کن کلمات سے مبارکباد کہوں؟ انھوں نے کہا : یہ کلمات کہو :
"شكرتَ الواهِبَ ، وبُورِكَ لكَ فِي المَوهُوبِ، وَبلَغَ أَشُدَّهُ ، وَرُزِقتَ بِرَّهُ"
تو عطا کرنے والے کا شکر کرے، عطا کردہ بچے میں تیرے لیے برکت ہو، یہ اپنی جوانی کو پہنچے اور تجھے اس کا حسن سلوک نصیب ہو (ورد بسند صحيح عن الحسين رضي الله عنه)
ایوب سختیانی رحمہ اللہ جب کسی نومولود کی ولادت پر مبارکباد دیتے تو یہ کلمات کہتے :
"جَعَلَهُ اللهُ مُبَارَكاً عَلَيكَ وَعَلى أُمَّةِ مُحَمّدٍ ٍصَلّى اللهُ عَليهِ وَسَلّم"
"اللہ تعالی اسے تیرے لیے اور امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خیر وبرکت کا ذریعہ بنائے"
۲- نومولود کے کان میں اذان دینا
نومولود کے کان میں اذان دینا سنت ہے ، ابورافع سے مروی ہے وہ کہتے ہیں :
رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم , أذن فى أذن الحسن حين ولدته فاطمة "
"میں نے رسول اللہ eکو دیکھا کہ جب حضرت حسن کی فاطمہ کے ہاں پیدائش ہوئی تو آپ نے حضرت حسن کے کان میں اذان دی"-رواه أحمد وأبو داود والترمذي وحسنه الألباني في الإرواء-
جہاں تک دوسرے کان میں اقامت کہنے کے سلسلے احادیث ملتی ہیں ان کے سلسلے میں محدثین نے کہا ہے کہ وہ غیر صحیح ہیں۔
۳- نومولود کو گھٹی دینا اور اس کے لیے خیر وبرکت کی دعا ء کرنا
نومولود کی ولادت کے بعد بچے کو گھٹی (تحنیک) دینا اور اس کے لیے دعاء کرنا سنت اور مستحب عمل ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
"أن رسول الله ٍصلى الله عليه وسلم كان يؤتى بالصبيان فيبرك عليهم ويحنكهم " (رواه مسلم)
رسول اللہ کے پاس(نومولود) بچے لائے جاتے تو آپ ان کے لیے برکت کی دعاء کرتے اور انھیں گھٹی دیتے تھے۔
بخاری ومسلم میں مروی ہے کہ حضرت اسماءبنت ابوبکر بیان کرتی ہیں کہ جب انھوں نے عبداللہ بن زبیر کو جنم دیا تو وہ انھیں لے کر آپ eکے پاس آئی اور انھیں آپ eکی گود میں رکھا، آپ eنے کھجور منگوائی، اسے چبایا، پھر بچے کے منہ میں لعاب ڈالا، چنانچہ سب سے پہلی چیز جو ان کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ آپ eکا لعاب تھا، بعد ازاں آپ eنے انھیں کھجور کی گھٹی دی اور ان کے لیے برکت کی دعا دی۔ (بخاری ومسلم)
۴- نومولود کا عقیقہ کرنا
تمام محدثین، فقہاء امت اور جمہور اہل سنت کے نزدیک عقیقہ رسول اللہ eکی سنت ہے۔
سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ eنے فرمایا:
"مع الغلام عقيقة فأهريقو عنه دما وأميطوا عنه الأذى" (رواه البخاري معلقا وغيره)
" ہر بچے کے ساتھ عقیقہ ہے، تو اس کی طرف سے خون بہاو (عقیقہ کرو) اور اس سے میل کچیل دور کرو (یعنی سر کے بال مونڈ دو) "
سمرہ بن جندب سے مرفوعا روایت ہے کہ نبی کریم eنے فرمایا :
"كل غلام رهينة بعقيقته ، تذبح عنه يوم سابعه، ويحلق ويسمى" (أخرجه أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه)
"ہر بچہ اپنے ءعقیقہ کے ساتھ گروی ہے، ساتویں دن اس کی طرف سے (جانور) ذبح کیا،اس کا ( بچہ کا) سر منڈایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے"
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ نبی کریم eنے ارشاد فرمایا:
"يعق عن الغلام شاتان متكافئتان وعن الجارية شاة" (رواه أحمد وأبوداودوالترمذي والنسائي وصححه الألباني)
"لڑکے کی طرف سے دو ہم مثل بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے"
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: نبی کریم eنے حسن اور حسین کی طرف سے ساتویں دن دو بکریاں ذبح کی اور ان دونوں کا نام رکھا، اور ان دونوں کے سر سے میل کچیل دور کرنے (سرمنڈوانے)کا حکم دیا، وہ فرماتی ہیں: نبی کریم e نے فرمایا: اس کے نام سے ذبح کرو اور کہو :
"بسم الله اللهم منك وإليك ، هذه عقيقة فلان"
فرماتی ہیں: جاہلیت میں لوگ عقیقہ کے جانور کے خون کو ایک کپڑے میں بھگوتے تھے اور بچے کا سرمنڈانے کے بعد اسے اس کے سر پر رکھا کرتے تھے تو آپ e نے خون کی جگہ بچے کے سر پر خوشبو رکھنے کا حکم دیا "
(رواه البيهقي في الكبرى وعبد الرزاق في المصنف ورواه ابن ماجه وأحمد مختصرا وسنده حسن)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ eنے حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) کی طرف سے ایک ایک مینڈھا عقیقہ کیا (رواه أبو داود والنسائي) یہ الفاظ ابوداود کے ہیں۔
لیکن نسائی کے الفاظ اس طرح ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ eنے حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) کی طرف سے دو دو مینڈھے عقیقہ کیے۔
یعنی دو مینڈھوں کا ذکر ہے۔ ( شیخ البانی نے نسائی کے ان الفاظ کو صحیح کہا ہے۔)
یہ شریعت کا اصول بھی ہے کہ اللہ تعالی نے مرد وعورت میں ایک دوسرے کو فضیلت بخشی ہے، عورت کو مرد کے مقابلے میراث ، دیات، گواہی وشہادت وغیرہ میں نصف حصہ رکھا ہےلہذا عقیقے میں بھی یہی فرق رکھا ہے، لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری پیدائش کے ساتویں دن اگر آسانی سے فراہم ہوتو ذبح کی جائے، اگر ساتویں دن ممکن نہ ہوتو چودہویں دن اور تب بھی ممکن نہ ہوتو 21 ویں دن ذبح کی جائے۔
وقت کی تعیین کے سلسلے میں حضرت بریدہ اور حضرت عائشہ سے روایات منقول ہیں لیکن یہ مستحب ہے، پیدائش کے چوتھے، آٹھویں، دسویں یا کسی اور دن بھی عقیقہ کیا جاسکتا ہے۔
البتہ ساتویں دن عقیقہ کرنے کی حکمت کو شاہ ولی اللہ دہلوی نے اس طرح بیان کیا ہے: ساتویں دن کو اس لیے مخصوص کیا گیا ہے کیونکہ ولادت کے بعد ساتویں دن تک گھر کے افراد بچے اور بچے کی ماں کی مصروفیت سے فارغ ہوجاتے ہیں، ان دنوں میں وہ لوگ اس کام کو انجام دینے سے قاصر رہتے ہیں، اسی طرح بسا اوقات کوئی انسان پہلے ہی دن بکری کا نظم کرنے پر طاقت نہیں رکھ سکتا، لہذا ساتواں دن گھر والوں کے لیے سارے انتظامات کرنے کے لیے مناسب ہے۔
ابن سیرین رحمہ اللہ کے بقول : عقیقہ کے گوشت کو جیسا چاہو استعمال کرو، دریافت کیا گیا وہ کیسے؟ کیا پورا خود ہی کھالیا جائے ؟ فرمایا : کھائیں بھی اور کھلائیں بھی۔
کیا ذبح کریں نر یا مادہ ؟
اس سلسلے میں صریح حدیث وارد ہے ، ام کرز الکعبیہ نے رسول اللہ eسے عقیقہ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا :
"نعم ، عن الغلام شاتان وعن الأنثى واحدة ، لا يضركم ذكرانا كن أم اناثا" (رواه أحمد وأبوداود وصححه الألباني)
" ہاں لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری، بکریوں کا مذکر ومونث ہونا تمہارے لیے نقصان دہ نہیں "۔
جمہور علماء کے مطابق عقیقہ میں ان تمام آٹھ نوع کے جانوروں کو ذبح کرنا جائز ہے جنھیں قربانی میں ذبح کیا جاتا ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا کہنا ہے : عقیقہ ایک واجب سنت ہے، لہذا عقیقہ کے جانور میں بھی عیوب کے سلسلے میں وہی شرائط ہیں جو قربانی کے جانور وں کے لیے ہیں۔
۵-نومولود کے سر کے بال مونڈوانا
بچے کی ولادت کے ساتویں دن بچے کے بال مونڈنا ایک مستحب عمل ہے۔ اس سلسلے میں متعدد احادیث وارد ہیں:
سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ eنے ارشاد فرمایا :
"مع الغلام عقيقة فأهريقوا عنه دما، وأميطوا عنه الأذى"
"بچے کے ساتھ عقیقہ ہے ، لہذا اس کی طرف سے خون بہاو اور اس سے میل کچیل دور کرو(یعنی سرمنڈاو)" ۔ (رواه البخاري معلقا مجزوما به، وأحمد وأبوداود وغيرهما)
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ eنے حسن رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کی اور فرمایا :
"يا فاطمة احلقي رأسه وتصدقي بزنة شعره فضة فوزناه فكان وزنه درهما أو بعض درهم"
" اے فاطمہ ! اس کا سرمنڈواو اور اس کے بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرو، پھر انھوں نے اس کا وزن کیا تو اس کا وزن درہم یا درہم کا کچھ حصہ ہوا"
(رواه الترمذي والحاكم ، وصححه الألباني في صحيح الجامع)
نومولود کے بال کتروانے کے سلسلے میں جمہور فقہاء کے نزدیک شرعی حکم یہی ہے کہ ساتویں دن نومولود کے بال کترواکر ان بالوں کے وزن کی چاندی صدقہ کرنا مستحب ہے۔
حضرت ابورافع کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت حسن کی ولادت ہوئی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا :
"احلقي رأسه وتصدقي بوزن شعره فضة على المساكين والأوفاض "
"اس کا سرمنڈواو اور اس کے بالوں کے وزن کی چاندی مساکین اور فقراء کو صدقہ کرو۔
۶- ختنہ کرنا
نومولود کی ختنہ کرانا ایک سنت عمل ہے، اس سلسلے میں حضرت ابوہرہ رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع حدیث ملتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"الفطرة خمس : الختان، والاستحداد، وقص الشارب، وتقليم الأظافر ونتف الإبط"
"پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں : ختنہ کرانا، زیر ناف بال مونڈنا، بغلوں کے بال اکھاڑنا ، مونچھیں کم کرنا اور ناخن تراشنا " (متفق عليه)
حضرت قتادہ الرہاوی سے ایک روایت مروی ہے کہ نبی کریم eجب کوئی مسلمان ہوتا تو اسے ختنہ کرانے کا حکم دیتے تھے۔ (رواه الطبراني وصححه الألباني في صحيح الجامع)
ختنہ کروانے کی عمر کیا ہے؟:
اس سلسلے میں علماء نے بلوغت سے پہلے تک ختنہ کرنے کی اجازت دی ہے، اور بلوغت کے قریب کے وقت ختنہ کرنے کو افضل ومستحب بتایا ہے۔
سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سےپوچھا گیا کہ جب نبی کریم eکی وفات ہوئی تو آپ کی کیا عمر تھی؟ انھوں نے کہا :
"أنا يومئذ مختون ، قال : وكانوا لايختنون الرجل حتى يدرك"
اس وقت میری ختنہ ہوچکی تھی، (اور اس زمانے میں صحابہ) اس وقت تک آدمی کی ختنہ نہیں کرواتے تھے جب تک کہ وہ بلوغت کے قریب نہ پہنچ جاتا"۔ (صحيح بخاري)
۷- نومولود کا نام رکھنا
یہ مستحب ہے کہ بچے کی پیدائش کے ساتویں دن اس کا اچھا نام رکھا جائے، کیونکہ ساتویں دن تک ماں باپ کو یا بچے کے دیگر سرپرست حضرات کو نام پر غوروفکر کرنے کا موقع مل جاتا ہے، حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم eنے فرمایا:
"كل غلام رهينة بعقيقته، تذبح عنه يوم سابعه ويحلق ويسمى"
"ہر بچہ اپنے عقیقہ کے عوض گروی ہے، ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے ، اس کا سرمونڈھا جائے اور اس کا نام رکھا جائے" (رواه أهل السنن وصححه الألباني في الإرواء)
البتہ پہلے دن یا ساتویں دن تک کسی بھی دن رکھا جاسکتا ہے، نبی کریم eکا فرمان ہے:
"ولد لي الليلة غلام فسميته باسم أبي إبراهيم" (رواه مسلم)
"رات میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا میں نے اس کا نام میرے والد ابراہیم کے نام پر رکھا"۔
والد کے لیے ضروری ہے کہ بچےکا اچھے سے اچھا نام تجویز کرے، بعض نام رکھنا مستحب ہے جیسے :
۱- حدیث ہے:
"افضل الأسماء عبد الله وعبد الرحمن وأصدقها حارث وهمام " (أبوداود والنسائي وصححه الألباني)
" سب سے افضل نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہے اور وفا شعار نام حارث اور ہمام ہے "
اور حدیث میں ہے:
”تسموا باسمي ولا تكنوا بكنيتي “
"میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کنیت پر کنیت نہ رکھو " (متفق عليه)
۲- نیک باپ کے نام پر نام رکھنا : حدیث میں ہے :
"ولد لي الليلة غلام فسميته باسم أبي إبراهيم" (رواه مسلم)
"رات میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا میں نے اس کا نام میرے والد ابراہیم کے نام پر رکھا"۔
۳-انبیاء علیہم السلام اور نیک لوگوں کے نام پر نام رکھنا :
ابوموسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں : میرے ہاں ایک لڑا پیدا ہوا، میں اسے نبی کریم eکے پاس لے آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ابراہیم رکھا، پھر اسے کھجور کی گھٹی دی اور اس کے لیے برکت کی دعا دی اور میرے سپرد فرمایا، ابوموسی رضی اللہ عنہ کے یہ سب سے بڑے بیٹے تھے۔ (رواه البخاري)
مسلم میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں جب نجران گیا تو انھوں نے مجھ سے سوال کیا کہ تم یہ آیت :
"يا أخت هارون" (مريم : ۲۸)
تلاوت کرتے ہو، جب کہ موسی علیہ السلام کا زمانہ عیسی علیہ السلام سے بہت پہلے کا ہے، پھر جب میں رسول اللہeکے پاس حاضر ہوا اور میں نے آپ eسے اس کے متعلق پوچھا تو آپ eنے فرمایا :
"إنهم كانوا يسمون بأنبيائهم والصالحين قبلهم "
"بیشک وہ لوگ اپنے انبیاء اور اپنے سے پہلے کے نیک لوگوں کے ناموں پر نام رکھتے تھے ۔ "
اس حدیث سے استدلال کرتےہوئے علماء کا کہنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے ناموں پر نام رکھنا جائز ہے اور اس کے جواز پر علماء کا اجماع ہے، اسی طرح صحابہ وتابعین، تبع تابعین، محدثین، علماء کرام ، شہداء اور امت کے نیک افراد کے ناموں پر نام رکھنا جائز ہے۔