السلام علیکم ا حباب ! میرا نام محمد کاشف اختر ،تعلق صوبۂ جھارکھنڈ سے ہے ، انگلش میڈیم اسکول سے ۳ کلاس پاس کی ہے ،پھر حفظ ِ قرآن مجید کیلئے مدرسے میں داخل کیا گیا ، والدین کی مسلسل سخت نگرانی ،فرطِ شوق ،اور سحرگاہی دعاؤں کے باعث اللہ تعالیٰ نے حفظ ِ قرآن کی لازوال دولت سے سرفراز فرمایا ،ورنہ تکمیلِ حفظ کے امکانات بہت ہی کم نظر آرہے تھے ،خیر ! تکمیلِ قرآن کے بعد والد ِ محترم کا ارادہ کسی اچھے سے اسکول میں دوبارہ داخل کرنے کا تھا ، مجھے اسی ارادے سے کسی ایسے مدرسے کے حوالہ کیا گیا جہاں عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں ، ایک ، دو سال مدرسے میں رکھ کر وہاں کے ماحول سے مانوس کرنا ، اور میرے تعلیمی ذوق کو بیدار کرنا اورپھر اسکولی تعلیم کا باقاعدہ آغاز کیا جانا تھا ، مگر ہوا وہی جو مالکِ حقیقی نے طے کر رکھا تھا ،چناں چہ ایک دو سال تک میرا کامیاب رزلٹ ، تعلیمی بیداری دیکھ کر والد صاحب نے اہلِ خیر حضرات کے مشوروں اور مسلسل اصرار کے سبب اپنا سابقہ ارادہ تبدیل کردیا اور مجھے شعبۂ عالمیت میں عربی درجات کی تکمیل کیلئے برقرار رکھا ، پھر بفضلِ خدا میں نے عربی درجات کی تکمیل کی ، میری فراغت گذشتہ سال ۱۴۳۶ھج میں دارالعلوم دیوبند سے ہوئی ،
مجھے ادب سے ہلکا سا لگاؤ ہے ، اس کا سبب یہ ہوا کہ سالِ سوم میں شاعرِ اسلام مولانا ولی اللہ ولیؔ قاسمی بستوی کی رفاقت میسر آئی ، حضرت کے شاعرانہ ذوق نے مجھے بے حد متأثر کیا اورساتھ ساتھ شاعری کا شوق بھی فراہم کیا ، ادب کے بارے میں میرا ذوق کچھ دنوں سے حساس رہنے لگا ہے ،اول اول میرا رجحان ایسی تحاریر کی طرف تھا جو خاص ادبی رنگ میں رنگے ہوں ،مگر اب جبکہ اس کے نقصانات اور تخریبی پہلو نگاہِ نارسا میں عیاں ہوئے تو اپنے اساتذۂ کرام کی نصیحتیں یاد آئیں ، اور اسی نتیجے پر جہاں اکابر بہت پہلے پہنچ چکے تھے ،حالات کی کشمکش نے پہونچا دیا ،فی الوقت مذہبی و معاشرتی تحاریر سے لگاؤ ہے ،اپنی نااہلیت کے سبب گو میں ادب کی ترویج و ترقی کیلئے کچھ کر نہ سکا تاہم میرے دل میں راہِ ادب کیلئے لہو جلانے کا حوصلہ موجود ہے اور گردشِ ایام کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے ،
بقولِ فقیر :
راہِ اردو میں جلا کر ہم چراغِ خونِ دل
رہروِ اردو کی خاطر راستہ ہوجائیں گے
کچھ سیکھنے کا جذبہ اس پیج تک رسائی کا باعث ہوا ،بطورِ خاص اس پیج پر مذہبی و معاشرتی رنگ( بمقابلہ ہذیان گوئی ، جسے غلط فہمی سے ادب کا نام دیا جاتا ہے )غالب دیکھا تو دل فرطِ مسرت سے جھوم اٹھا ، اور بس لاگ ان کرنے میں ذرہ تاخیر نہ کی ۔امید ہے احباب کی کرم فرمائیوں کا کچھ حصہ مجھے بھی ملے گا ، اور ہر طرح سے لکھنے پڑھنی میں میری رہنمائی کی جائے گی ۔
مجھے ادب سے ہلکا سا لگاؤ ہے ، اس کا سبب یہ ہوا کہ سالِ سوم میں شاعرِ اسلام مولانا ولی اللہ ولیؔ قاسمی بستوی کی رفاقت میسر آئی ، حضرت کے شاعرانہ ذوق نے مجھے بے حد متأثر کیا اورساتھ ساتھ شاعری کا شوق بھی فراہم کیا ، ادب کے بارے میں میرا ذوق کچھ دنوں سے حساس رہنے لگا ہے ،اول اول میرا رجحان ایسی تحاریر کی طرف تھا جو خاص ادبی رنگ میں رنگے ہوں ،مگر اب جبکہ اس کے نقصانات اور تخریبی پہلو نگاہِ نارسا میں عیاں ہوئے تو اپنے اساتذۂ کرام کی نصیحتیں یاد آئیں ، اور اسی نتیجے پر جہاں اکابر بہت پہلے پہنچ چکے تھے ،حالات کی کشمکش نے پہونچا دیا ،فی الوقت مذہبی و معاشرتی تحاریر سے لگاؤ ہے ،اپنی نااہلیت کے سبب گو میں ادب کی ترویج و ترقی کیلئے کچھ کر نہ سکا تاہم میرے دل میں راہِ ادب کیلئے لہو جلانے کا حوصلہ موجود ہے اور گردشِ ایام کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے ،
بقولِ فقیر :
راہِ اردو میں جلا کر ہم چراغِ خونِ دل
رہروِ اردو کی خاطر راستہ ہوجائیں گے
کچھ سیکھنے کا جذبہ اس پیج تک رسائی کا باعث ہوا ،بطورِ خاص اس پیج پر مذہبی و معاشرتی رنگ( بمقابلہ ہذیان گوئی ، جسے غلط فہمی سے ادب کا نام دیا جاتا ہے )غالب دیکھا تو دل فرطِ مسرت سے جھوم اٹھا ، اور بس لاگ ان کرنے میں ذرہ تاخیر نہ کی ۔امید ہے احباب کی کرم فرمائیوں کا کچھ حصہ مجھے بھی ملے گا ، اور ہر طرح سے لکھنے پڑھنی میں میری رہنمائی کی جائے گی ۔