مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہ
حرم کی مقدس فضاؤں میں گم ہوں
میں جنت کی ٹھنڈی ہواؤں میں گم ہوں
میں بے گانہ ہوکر ہر اک ماسوا سے
بس اک آشنا کی وفاؤں میں گم ہوں
زبانیں جہاں گنگ ہیں ، لفظ ششدر
تحیر کی ایسی فضاؤں میں گم ہوں
میں کعبے کے بے آب و رنگ پتھروں سے
کرم کی امڈتی گھٹاؤں میں گم ہوں
کبھی سنگِ اسود کی کرنوں سے حیراں
کبھی ملتزم کی دعاؤں میں گم ہوں
مقفل ہے در ، لٹ رہے ہیں خزانے
عطا کی نرالی اداؤں میں گم ہوں
ہر اک دل سے ظلمت کے دل چھٹ رہے ہیں
غلافِ سیہ کی ضیاؤں میں گم ہوں
جو میرے گناہوں کو بھی دھو رہی ہے
میں رحمت کی ان انتہاؤں میں گم ہوں
یہ میزابِ رحمت پہ پُر درد نالے
فلک سے برستی عطاؤں میں گم ہوں
یہ زمزم کے چشمے ، یہ پیاسوں کے جمگھٹ
زمیں سے ابلتی شفاؤں میں گم ہوں
جو اس آستاں کے لگاتے ہیں پھیرے
میں ان کے جنوں کی اداؤں میں گم ہوں
کھڑے ہیں بھکاری ترے در کو تھامے
میں ان کی بلکتی صداؤں میں گم ہوں
یہ سینے سے اٹھتی ندامت کی آہیں
میں ان دردِ دل کی دواؤں میں گم ہوں
یہ کعبے کے درباں ، یہ نازوں کے پالے
میں ان کی پیاری جفاؤں میں گم ہوں
تصور میں یادوں کی محفل سجی ہے
تخیل کی دلکش خلاؤں میں گم ہوں
ابھی شرحِ الفت کی منزل کہاں ہے
ابھی تو تقی! ابتداؤں میں گم ہوں
حرم کی مقدس فضاؤں میں گم ہوں
میں جنت کی ٹھنڈی ہواؤں میں گم ہوں
میں بے گانہ ہوکر ہر اک ماسوا سے
بس اک آشنا کی وفاؤں میں گم ہوں
زبانیں جہاں گنگ ہیں ، لفظ ششدر
تحیر کی ایسی فضاؤں میں گم ہوں
میں کعبے کے بے آب و رنگ پتھروں سے
کرم کی امڈتی گھٹاؤں میں گم ہوں
کبھی سنگِ اسود کی کرنوں سے حیراں
کبھی ملتزم کی دعاؤں میں گم ہوں
مقفل ہے در ، لٹ رہے ہیں خزانے
عطا کی نرالی اداؤں میں گم ہوں
ہر اک دل سے ظلمت کے دل چھٹ رہے ہیں
غلافِ سیہ کی ضیاؤں میں گم ہوں
جو میرے گناہوں کو بھی دھو رہی ہے
میں رحمت کی ان انتہاؤں میں گم ہوں
یہ میزابِ رحمت پہ پُر درد نالے
فلک سے برستی عطاؤں میں گم ہوں
یہ زمزم کے چشمے ، یہ پیاسوں کے جمگھٹ
زمیں سے ابلتی شفاؤں میں گم ہوں
جو اس آستاں کے لگاتے ہیں پھیرے
میں ان کے جنوں کی اداؤں میں گم ہوں
کھڑے ہیں بھکاری ترے در کو تھامے
میں ان کی بلکتی صداؤں میں گم ہوں
یہ سینے سے اٹھتی ندامت کی آہیں
میں ان دردِ دل کی دواؤں میں گم ہوں
یہ کعبے کے درباں ، یہ نازوں کے پالے
میں ان کی پیاری جفاؤں میں گم ہوں
تصور میں یادوں کی محفل سجی ہے
تخیل کی دلکش خلاؤں میں گم ہوں
ابھی شرحِ الفت کی منزل کہاں ہے
ابھی تو تقی! ابتداؤں میں گم ہوں