مصنف ابن ابی شیبہ میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی ایک حدیث مروی ہے۔ لیکن اس حدیث پر کچھ اشکالات اٹھائے جاتے ہیں اور اسے بعض متعصب حضرات تحریف بھی قرار دیتے ہیں۔ اس پر بندہ کی بعض اہل حدیث علماء سے ایک بحث ہوئی تھی جسے بعد ازاں بندہ نے ایک مضمون کی صورت دے دی۔ وہ مضمون پیش خدمت ہے۔
حدیث تحت السرۃ فی مصنف ابن ابی شیبہ
حدثنا وكيع، عن موسى بن عمير، عن علقمة بن وائل بن حجر، عن أبيه قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم وضع يمينه على شماله في الصلاة تحت السرة
ابن ابی شیبہ کہتے ہیں:۔ ہم سے وکیع نے بیان کیا، انہوں نے موسی بن عمیر سے، انہوں نے علقمہ بن وائل بن حجر سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا ناف کے نیچے۔
یہ حدیث مصنف ابن ابی شیبہ کے بعض نسخوں میں پائی جاتی ہے اور بعض میں نہیں۔ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ اس کے روات کی تفصیل کچھ یوں ہے:۔
ابو بکر ابن ابی شیبہ صاحب مصنف:۔
عبد الله بن محمد بن أبي شيبة الحافظ الكبير الحجة، أبو بكر (میزان الاعتدال ۲۔۴۹۰ ط دار المعرفۃ)
كان متقنا حافظا دينا ممن كتب وجمع وصنف وذاكر وكان أحفظ أهل زمانة بالمقاطيع (الثقات لابن حبان ۸۔۳۵۸ ط دائرۃ المعارف)
وکیع ابن الجراح:۔
الإمام، الحافظ، محدث العراق (سیر اعلام النبلاء ۹۔۱۴۱ ط الرسالۃ)
من الرفعاء الثقات (سنن الدارقطنی ۱۔۳۱۵ ط الرسالۃ)
موسی بن عمیر:۔
موسى بن عمير كوفي ثقة (المعرفۃ و التاریخ ۳۔۱۲۱ ط الرسالۃ)
نا عبد الرحمن نا علي بن الحسين بن الجنيد قال سمعت ابن نمير يقول: موسى بن عمير اثنان بالكوفة فالذي روى عنه وكيع [هو] ثقة.
نا عبد الرحمن قال سألت ابى عن موسى بن عمير العنبري فقال: ثقة.
نا عبد الرحمن قال سئل أبو زرعة عن موسى بن عمير فقال: لا بأس به. (الجرح والتعدیل ۸۔۱۵۵ ط دار احیاء التراث)
علقمۃ بن وائل بن حجر:۔
كان ثقة قليل الحديث (الطبقات الكبری لابن سعد ۶۔ ۳۱۱ ط العلمیۃ)
سألت محمدا عن علقمة بن وائل هل سمع من أبيه؟ فقال: إنه ولد بعد موت أبيه بستة أشهر (العلل الكبیر للترمذی ۱۔۲۰۰ ط مكتبۃ النهضۃ العربیۃ)
وعلقمة بن وائل بن حجر سمع من أبيه وهو أكبر من عبد الجبار بن وائل، وعبد الجبار لم يسمع من أبيه (سنن الترمذی ۴۔۵۶ ط مصطفی البابی)
وائل بن حجر رضی الله عنہ:۔
صحابی جلیل
سكن الكوفة , وعقبه بها (معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم ۵۔۲۷۱۱ ط دار الوطن)
اس حدیث میں جہاں مصنف ابن ابی شیبہ کے بعض نسخوں میں تحت السرۃ کا وجود ہونے اور بعض میں نہ ہونے کی بحث ہے وہیں مصنف ابن ابی شیبہ کے علاوہ دیگر کتب میں بھی اس روایت میں تحت السرۃ موجود نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اس کے علاوہ مندرجہ ذیل کتب کا حوالہ پیش کیا جاتا ہے:۔
المعجم الکبیر للطبرانی (المتوفی ۳۶۰):۔
حدثنا علي بن عبد العزيز، ثنا أبو نعيم، نا موسى بن عمير العنبري، عن علقمة بن وائل بن حجر، عن أبيه وائل بن حجر: «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا قام في الصلاة قبض على شماله بيمينه» قال: ورأيت علقمة يفعله (۲۲۔۹ ط مكتبۃ ابن تیمیۃ)
ترجمہ:۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز میں کھڑے ہوتے تو اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے۔ موسی بن عمیر فرماتے ہیں: میں نے علقمہ کو بھی یوں ہی کرتے دیکھا۔
المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان الفسوی (المتوفی ۲۷۷ھ):۔
حدثنا أبو نعيم قال: ثنا موسى بن عمير العنبري قال: حدثني علقمة ابن وائل عن أبيه أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا قام في الصلاة قبض على شماله بيمينه، ورأيت علقمة يفعله. (۳۔۱۲۱ ط رسالۃ)
ترجمہ: ایضاً
السنن الكبری للبیهقی (المتوفی ۴۵۸ھ):۔
أخبرناه أبو الحسين بن الفضل القطان، ببغداد، أنبأ عبد الله بن جعفر، ثنا يعقوب بن سفيان، ثنا أبو نعيم، ثنا موسى بن عمير العنبري، حدثني علقمة بن وائل، عن أبيه، " أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا قام في الصلاة قبض على شماله بيمينه " ورأيت علقمة يفعله (۲۔۴۳ ط دار الكتب العلمیۃ)
ترجمہ: ایضاً
شرح السنۃ للبغوی (المتوفی ۵۱۶ھ):۔
أخبرنا أحمد بن عبد الله الصالحي، أخبرنا أبو بكر أحمد بن الحسن الحيري، أنا حاجب بن أحمد الطوسي، نا عبد الله بن هاشم، نا وكيع، نا موسى بن عمير العنبري، عن علقمة بن وائل الحضرمي، عن أبيه، قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم واضعا يمينه على شماله في الصلاة» (۳۔۲۳ ط المكتب الاسلامی)
ترجمہ: وائل بن حجر رض سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو اپنا دایاں ہاتھ نماز میں بائیں ہاتھ پر رکھے دیکھا۔
السنن للدارقطنی (المتوفی ۳۸۵ھ):۔
حدثنا الحسين بن إسماعيل , وعثمان بن جعفر بن محمد الأحول , قالا: نا يوسف بن موسى , نا وكيع , نا موسى بن عمير العنبري , عن علقمة بن وائل الحضرمي , عن أبيه , قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم واضعا يمينه على شماله في الصلاة» (۲۔۳۴ ط الرسالۃ)
ترجمہ: ایضاً
المسند للامام احمد بن حنبل (المتوفی ۲۴۱ھ):۔
حدثنا وكيع، حدثنا موسى بن عمير العنبري، عن علقمة بن وائل الحضرمي، عن أبيه قال: " رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم واضعا يمينه على شماله في الصلاة " (۳۱۔۱۴۰ ط رسالۃ)
ترجمہ: ایضاً
چوں کہ ان روایات کے بنیادی رواۃ ایک ہی ہیں اور ان میں "تحت السرۃ" کا اضافہ موجود نہیں ہے اس لیے بہت سے ظاہر بین حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مصنف ابن ابی شیبہ کا بھی وہ نسخہ معتبر ہوگا جس میں یہ زیادتی نہیں ہے۔
اس زیادتی کی خبر سب سے پہلے علامہ قاسم بن قطلوبغا حنفی (المتوفی ۸۷۹ھ) نے اپنی کتاب التعریف والاخبار تخریج احادیث الخیار میں دی اور کہا: وھذا سندہ جید (ص 314 ط جامعہ ام القری)۔ قاسم بن قطلوبغا عالی شان محدث ہیں اور ان کی دی ہوئی خبر یقینا قبول ہونی چاہیے تھی لیکن ان کی اس خبر کے علاوہ بھی دو نسخے ایسے ہیں جن میں اس کی زیادتی موجود ہے۔ ان دو نسخوں کے اسکینز محقق شیخ محمد عوامہ نے اپنی تحقیق شدہ مصنف میں دیے ہیں۔
musnfsha03 by Ishmaria Shah, on Flickr
musnfsha03 2 by Ishmaria Shah, on Flickr
ان دو نسخوں اور ابن قطلوبغا کی اس خبر کے نتیجے میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں یہ زیادتی موجود تھی اور کسی ناسخ کی غلطی کی وجہ سے کسی نسخے میں رہ گئی جس سے آگے نقل ہونے والے نسخوں میں بھی یہ نہیں پائی گئی۔ (اس پر تفصیلی بات ان شاء اللہ آگے چل کر آئے گی۔)
اس زیادتی کو تسلیم کرنے کی صورت میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ابن ابی شیبہ نے ان دیگر رواۃ و محدثین کے برخلاف یہ زیادتی روایت کی ہے اس لیے یہ قبول نہیں ہونی چاہیے۔ اور یہی اعتراض ہمارے کرم فرماؤں کا ہے۔
اسے غلط فہمی اور غلطی کہا جائے یا غلط فہمی میں مبتلا کرنے کی کوشش کہ جو روایات کی لائن لگائی گئی ہے درحقیقت یہ الگ الگ روایات ہیں۔ ان کے راوی ایک ہیں اور یہ ہیں بھی نماز میں ہاتھوں سے متعلق لیکن متن میں یہ دونوں روایات مختلف ہیں۔ المعجم الکبیر، المعرفۃ والتاریخ اور السنن الکبری میں موجود احادیث کا مضمون مصنف ابن ابی شیبہ، مسند احمد ، سنن دارقطنی اور شرح السنہ کے مضمون سے مختلف ہے۔ ان میں بائیں ہاتھ کو دائیں سے پکڑنے کا ذکر ہے اور مذکورہ حدیث میں دایاں ہاتھ بائیں پر رکھنے کا۔ ایک میں دائیں ہاتھ کا فعل بتایا جا رہا ہے اور دوسری میں مقام۔ لہذا دونوں الگ الگ ہیں۔ الفاظ ہیں:۔قبض علی یمینہ بشمالہ
تاج العروس میں مذکور ہے:۔
قبض عليه بيده: أمسكه (تاج العروس 5۔19 ط دار الہدایۃ)
یعنی اس لفظ کا مطلب ہوتا ہے پکڑنا۔ نہ کہ رکھنا۔ معلوم ہوا کہ "قبض علی" اور "وضع" کے معنی میں فرق ہے۔ ایک حدیث میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ نبی ﷺ دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ لیتے تھے۔ یہ پکڑنا اوپر سے بھی ہو سکتا ہے اور نیچے سے بھی (میرا یہ مطلب نہیں کہ حدیث کی مراد میں یہ احتمال ہے۔ میں معانی کا فرق واضح کر رہا ہوں) دوسری حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ دائیں ہاتھ کو بائیں کے اوپر رکھتے تھے۔ لہذا ان دونوں روایات کے مضامین الگ الگ ہیں اور ان میں الگ باتیں بیان ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ جن روایات میں "قبض" یعنی پکڑنے کا ذکر ہے ان میں راوی نے علقمہ کے فعل کا بھی ذکر کیا ہے جب کہ جن میں وضع کا ذکر ہے ان میں علقمہ کے فعل کا ذکر نہیں۔ یوں کہہ لیں کہ یہ باقاعدہ دو الگ الگ روایات ہیں جو ایک ہی رواۃ سے مروی ہیں۔
اسی فرق کو صاحب مرعاۃ المفاتیح علامہ ابو الحسن مبارکپوریؒ (المتوفی ۱۴۱۴ھ) نے بھی بیان کیا ہے اور ان دونوں الفاظ میں جمع و تطبیق کا عمل کیا ہے:۔
وفي البعض أخذ الشمال والقبض عليها باليمين، كما روى النسائي من حديث وائل قال: رأيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إذا كان قائماً في الصلاة قبض بيمينه على شماله. وروى الترمذي وابن ماجه من حديث قبيصة بن هلّب عن أبيه، قال: كان النبي - صلى الله عليه وسلم - يؤمنا فيأخذ شماله بيمينه. وورد في رواية أحمد وأبي داود من حديث وائل: "وضع اليمنى على الكف اليسرى والرسغ والساعد". فالسنة أن يجمع بين الوضع والقبض جمعًا بين هذه الأحاديث، وكيفية الجمع أن يضع الكف اليمنى على الكف اليسرى ويحلق الإبهام والخنصر على الرسغ ويبسط الأصابع الثلاث على الذراع، فيصدق أنه وضع اليد على اليد وعلى الذراع، وأنه أخذ شماله وقبض عليها بيمينه. قلت: لا حاجة إلى هذا التكلف للتوفيق والجمع لكون التوفيق فرع التعارض، ولا يظهر التعارض أصلاً؛ لأنه لا تناقض بين الأفعال المختلفة لجواز وقوع الكل في أوقات مختلفة (مرعاۃ المفاتیح ۳۔۵۹ ط جامعۃ السلفیۃ)
مبارکپوریؒ نے انہیں افعال مختلفہ قرار دیا ہے۔
اب مصنف ابن ابی شیبہ میں زیادتی ابن ابی شیبہ کی ہے جو امام احمد، یوسف بن موسی اور عبد اللہ بن ہاشم کے خلاف ہے۔ خلاف بہ ایں معنی کہ انہوں نے ان الفاظ کو روایت نہیں کیا اور ابن ابی شیبہ نے کیا ہے۔ ان میں سے بھی شرح السنہ میں علامہ بغوی کے شیخ احمد بن عبد اللہ الصالحی کا مجھے علم نہیں ہو سکا۔ یہ بھی محل نظر ہے۔ اصول حدیث کا یہ قاعدہ ہے کہ ثقہ راوی کی زیادتی اگر دیگر ثقہ رواۃ کی روایت کے منافی نہ ہو تو وہ زیادتی قبول ہوتی ہے۔
علامہ سیوطیؒ (المتوفی ۹۱۱ھ) فرماتے ہیں:۔
(ومذهب الجمهور من الفقهاء والمحدثين قبولها مطلقا) ، سواء وقعت ممن رواه أولا ناقصا أم من غيره، وسواء تعلق بها حكم شرعي أم لا، وسواء غيرت الحكم الثابت أم لا، وسواء أوجبت نقض أحكام ثبتت بخبر ليست هي فيه أم لا، وقد ادعى ابن طاهر الاتفاق على هذا القول. (تدریب الراوی ص286 ط دار طیبۃ)
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جمہور فقہاء اور محدثین زیادتی ثقہ کو مطلقا قبول کرتے ہیں۔ چاہے پہلے اور اس میں کتنا ہی فرق ہو۔ اور ابن طاہر نے تو اس قول پر اجماع بھی نقل کیا ہے۔
حافظ ابن حجرؒ (المتوفی ۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:۔
وزيادة راويهما، أي: الصحيح والحسن، مقبولة، ما لم تقع منافية لرواية من هو أوثق ممن لم يذكر تلك الزيادة؛ لأن الزيادة:
1- إما أن تكون لا تنافي بينها وبين رواية من لم يذكرها؛ فهذه تقبل مطلقا؛ لأنها في حكم الحديث المستقل الذي ينفرد به الثقة ولا يرويه عن شيخه غيره.
2- وإما أن تكون منافية، بحيث يلزم من قبولها رد الرواية الأخرى؛ فهذه التي يقع الترجيح بينها وبين معارضها؛ فيقبل الراجح ويرد المرجوح. (نزہۃ النظر ص212 ط سفیر)
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ زیادتی ثقہ مقبول ہے اگر اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی روایت کے منافی نہ ہو تو مقبول ہے۔ پھر اگر زیادتی سے ساکت اور زیادتی والی روایت میں منافاۃ نہیں تو مطلقا قبول ہے اور اگر منافاۃ ہے تو ترجیح کی جائے گی۔
اب جب ہم یہاں دیکھتے ہیں تو امام احمد وغیرہ کی روایات اس زیادتی سے ساکت ہیں اور ابن ابی شیبہ کی روایت اس زیادتی کے لیے ناطق ہے اس لیے ابن ابی شیبہ کے یہ الفاظ قبول کیے جائیں گے۔
محمد عوامہ کے نسخوں پر اشکال:۔
شیخ محمد عوامہ نے جو دو نسخے پیش کیے ہیں ان کے بارے میں کچھ اشکالات اٹھائے جاتے ہیں۔ پہلے نسخے پر اشکال یہ ہے کہ اس کے بارے میں محمد عوامہ کا اپنا فیصلہ یہ ہے:۔
و هي نسخة للاستئناس لا للاعتماد عليها (مقدمۃ المحقق)
یعنی یہ نسخہ مانوسیت کے لیے ہے ، اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ اشکال درست نہیں کیوں کہ شیخ نے اس نسخہ کے اپنی تحقیق میں قابل اعتماد نہ ہونے کا ذکر کیا ہے نہ کہ مطلقا۔ شیخ عوامہ کا مصنف کی تحقیق میں طرز یہ رہا ہے کہ وہ زمانہ وغیرہ کے لحاظ سے قدیم نسخے پر اعتماد کرنے کے بجائے تمام نسخوں کو یکجا کر کے ان پر غور و فکر کے ساتھ فیصلہ صادر کرتے ہیں۔ ان کی تحقیق کے اس طرز کے بارے میں شیخ مجد المکی کے الفاظ یہ ہیں:۔
والوقوف عند كل مغايرة ، والبحث عن الصواب دون مراعاة اتفاق الأكثر من النسخ أو الأقدم زمناً ، وقد تكشف له بهذا البحث الدقيق والتثبت التام أوهام كثيرة ، وتحريفات شديدة ، من قبل النساخ ، وقد تواردت عليها طبعات الكتاب كلها
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=84572
عابد سندھیؒ کا یہ نسخہ دیگر نسخوں کے مقابلے میں مکمل اور صاف ستھرا ہے جس کا اظہار شیخ عوامہ نے مذکورہ جملے سے پہلے کیا ہے:۔
وھی تامۃ فی مجلدین کبیرین، و علیھا وقفیتہ
اس سے یہ خیال آتا تھا کہ اس پر شیخ نے اعتماد کیا ہوگا تو اس خیال کی نفی اگلے جملہ سے کی ہے۔ لیکن اگر بالفرض ہم شیخ کی اس بات کو اس پر بالکلیہ اعتماد نہ ہونے کے سلسلے میں مان بھی لیں تب بھی یہ محتاج دلیل ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اس نسخہ پر اعتماد نہ کریں جسے عابد سندھیؒ نے لکھوا کر اس پر ابواب خود لکھے ہیں؟ اور اگر بالفرض اس پر اعتماد نہ بھی کریں تب بھی یہ نسخہ دوسرے نسخے کی تائید کر رہا ہے اور اگر یہ استئناس کے لیے ہے تو اس سے دوسرے نسخے (جو کہ علامہ مرتضی زبیدیؒ کا نسخہ ہے) کا درست ہونا معلوم ہوتا ہے۔ لہذا یہ اشکال درست نہیں۔
دوسرے نسخہ پر اشکال یہ ہے کہ اس میں سقط کا احتمال ہے کیوں کہ عام نسخوں میں اس کے بعد جو اثر موجود ہے وہ مرتضی زبیدیؒ کے اس نسخے میں موجود نہیں اور اس اثر کے آخر میں "تحت السرۃ" کے الفاظ ہیں۔ تو غالبا کاتب سے درمیانی اثر رہ گیا اور اس نے غلطی سے "تحت السرۃ" کے الفاظ کو مذکورہ روایت کے ساتھ ملا دیا۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ یہ صرف احتمال ہے جو عابد سندھیؒ کے نسخے اور قاسم بن قطلوبغا کی خبر سے ساقط ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ یہ الفاظ ان دو علماء کے پاس بھی موجود تھے۔ اور یہ زیادہ ظاہر ہے کہ اگلا اثر موجود نہ ہو جیسا کہ نسخوں میں ہوتا ہے بنسبت اس کے اگلا اثر غائب ہو کر تحت السرہ پچھلی روایت سے جا ملے اور بوقت تصحیح بھی نوٹ نہ ہو۔جب ہم اس روایت کو شیخ عابد سندھیؒ کے نسخے کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو یہ احتمال بالکل باطل نظر آتا ہے۔
ایک اہم اشکال یہ ہے کہ جس حدیث میں "قبض" کا ذکر ہے اسے مختلف علماء و محدثین نے "وضع" کی حدیث کے باب میں یا اس کی متابعت میں پیش کیا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں روایات ایک ہی طرح کی ہیں۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ محدثین کرام دو الگ الگ روایات کو جن سے کوئی ایک خاص معنی ثابت ہو رہا ہو ایک دوسرے کی متابعت میں نقل فرماتے ہیں۔ امام شافعیؒ (المتوفی ۲۰۴ھ) کتاب الام میں ایک حدیث روایت کرتے ہیں:۔
أخبرنا الربيع قال أخبرنا الشافعي قال أخبرنا مالك عن عبد الله بن دينار عن ابن عمر أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال :الشهر تسع وعشرون لا تصوموا حتى تروا الهلال ولا تفطروا حتى تروه، فإن غم عليكم فأكملوا العدة ثلاثينالام 2۔103 ط دار المعرفۃ
اس کی متابعت مسلم میں یوں ہے:۔
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو أسامة، حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر رمضان، فضرب بيديه فقال: الشهر هكذا، وهكذا، وهكذا - ثم عقد إبهامه في الثالثة - فصوموا لرؤيته، وأفطروا لرؤيته، فإن أغمي عليكم فاقدروا له ثلاثينمسلم 2۔759 ط دار احیاء التراث
یہ دونوں الگ الگ روایات ہیں اور حافظ ابن حجرؒ (المتوفی ۸۵۲ھ) نے نزہۃ النظر میں دوسری کو پہلی کے متابع قرار دیا ہے۔ یہ متابعت قاصرہ ہے۔اس طرح کی کئی مثالیں ہیں۔ اسی طرح کسی بحث میں (باب میں یا مسئلہ کی بحث میں) کسی خاص معنی کا اعتبار کرتے ہوئے کوئی حدیث درج کردی جاتی ہے۔ جیسے نسائیؒ نے استعمال یمین یا لفظ "علی" کی بنیاد پر غالبا اسے اس باب میں داخل کیا ہے۔ اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ ان دونوں باتوں کا معنی ایک ہے؟
ایک عالم نے اس پر یہ کہا کہ قبض کی روایات وضع کی روایات کے متابع ہیں لفظ "تحت السرۃ" کی غیر موجودگی پر دلالت کرنے میں۔ لیکن یہ بات درست نہیں کیوں کہ عدم پر کبھی متابعت نہیں ہوتی ورنہ اس طرح تمام وہ احادیث جن میں کسی چیز کا ذکر نہیں ہے ایک دوسرے کے متابع قرار پائیں گی۔
ایک اشکال اور معترضین کے خیال میں غالبا انتہائی مضبوط اشکال یہ ہے کہ علامہ قاسم بن قطلوبغا سے پہلے بے شمار حنفی محدثین گزرے ہیں لیکن کسی نے بھی اس روایت کو ذکر نہیں کیا حتی کہ مرتضی زبیدی جن کے پاس یہ نسخہ تھا اور اسی طرح علامہ عینیؒ جو احناف کے دلائل ذکر کرنے میں بہت کوشش کرتے ہیں اور ان کے پاس بھی یہ نسخہ رہا ہے، انہوں نے بھی دلیل کے طور پر اس روایت کو ذکر نہیں کیا۔ اسی طرح اس زیادتی کو فیض الباری کے حاشیہ میں بھی قبول نہیں کیا گیا اور علامہ نیموی نے آثار السنن میں بھی قبول نہیں کیا ہے۔ ان تمام باتوں سے یہ علم ہوتا ہے کہ یہ روایت درست نہیں ہے۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ قاسم بن قطلوبغا، عابد سندھی، ہاشم سندھی رحمہم اللہ وغیرہ کی نظر میں یہ درست بھی تو ہے۔ پھر ان کا تذکرہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ بات یہ ہے کہ زمانہ قدیم سے دونوں قسم کے نسخے موجود ہیں اس لیے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے پاس کس زمانے میں کونسا نسخہ تھا۔
البتہ یہ اشکال کہ عینی اور مرتضی زبیدی نے کیوں ذکر نہیں کیا، یہ قوی ہے لیکن اس اشکال سے کیا ثابت کیا گیا ہے یہ سمجھ نہیں آتا۔ اگر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اس نسخے میں یہ الفاظ موجود نہیں تھے تو یہ تو نظر آ رہے ہیں اور بعد میں اگر اضافہ کیا جاتا تو اتنی جگہ پہلے کیوں چھوڑ دی گئی؟ اور اگر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ان کے نزدیک یہ روایت درست نہیں تھی تو اس بارے میں کیا خیال ہے کہ جو دیگر روایات دلائل میں ذکر کی گئی ہیں وہ درست ہیں؟ اگر وہ بھی صحیح نہیں ہیں تو پھر اسے درج کرنے میں کیا حرج لازم آتا تھا۔ خلاصۃ ًہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ بات محتاج وضاحت مع دلیل ہے اور یہ اشکال بھی لائق توجہ نہیں۔ایک بات اور کہی جا سکتی ہے کہ ان کو علم تھا کہ یہ اس اثر کا حصہ نہیں ہے اور شامل ہو گیا ہے تو اس صورت میں عینی وغیرہ نے اتنے حواشی اس نسخے پر لکھے تو ایک حاشیہ اور لگانے میں کیا جاتا تھا۔اس سب کے بجائے یہ کہنا آسان ہے کہ انہیں اس کا استحضار نہیں رہا تھا اور یہ ایک عام بات ہے۔ ایسا ہوتا رہتا ہے۔شیخ عوامہ نے بہت پیاری بات لکھی ہے کہ جنہوں نے اس نسخے سے نقل کیا جس میں یہ اضافہ نہیں ہے تو انہوں نے اضافہ نہیں کیا اور جنہوں نے اس سے نقل کیا جس میں اضافہ ہے تو انہوں نے اضافہ کر دیا۔ اضافہ نہ کرنے والے اس میں تو معذور ہیں کہ انہوں نے اضافہ نہیں کیا لیکن اس میں تو معذور نہیں کہ وہ اضافہ کی نفی بھی کر دیں۔مولانا امین صفدر اوکاڑویؒ نے ایک طویل لسٹ دی ہے جنہوں نے اس روایت کے مختلف کتب میں لکھے جانے کے بعد اس کا انکار نہیں کیا۔ کیا ان کا اعتبار نہیں ہوگا؟
تحت السرۃ کی زیادتی قواعد کی رو سے:۔
ایک کتاب کے مختلف نسخوں میں اختلاف کی صورت میں تصحیح و تضعیف کے کچھ اصول ہیں۔ اگرچہ ان اصولوں سے اختلاف ممکن ہے کیوں کہ یہ انسانوں کے بنائے ہوئے قواعد ہی ہیں لیکن ہم انہی کی روشنی میں اس زیادتی کا جائزہ لیتے ہیں:۔
1: پہلا اصول یہ ہے کہ باقی کتب کا موازنہ کیا جائے کہ ان میں اس روایت کو کس طرح بیان کیا گیا ہے، پس اگر ایک روایت بھی ایسی مل جائے جس میں ان مختلف لفظوں میں سے کسی ایک کی موافقت کی گئی ہےتو یہی اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے کافی و شافی ہوتی ہے۔ لیکن یہ اصول اس صورت میں ہے جب الفاظ میں اختلاف ہو، کمی یا زیادتی نہ ہو۔ اگر اسی سند کے ساتھ اسی متن میں یہ ذکر ہوتا "وضع یمینہ علی شمالہ علی صدرہ" اور دوسرے نسخے میں ہوتا "وضع یمینہ علی شمالہ تحت السرۃ" تو یہ اختلاف ہے۔ اس صورت میں قرائن کی غیر موجودگی میں دوسری کتب کی روایات کو دیکھا جائے گا اور اس کی بنا پر فیصلہ کیا جائے گا۔ لیکن یہاں یہ نہیں ہے بلکہ اس بات پر معاملہ اٹکا ہوا ہے کہ آیا ابن ابی شیبہ نے لفظ "تحت السرۃ" کو بیان کیا یا چھوڑ دیا۔ ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ لفظ روایت کیا ہے۔ یہاں محدثین کا یہ اصول ہے کہ اگر زیادتی ثقہ دیگر ثقات کی روایات کے خلاف نہ ہو تو قبول ہوگی۔ یہاں امام احمد اور یوسف بن موسی امام ابن ابی شیبہ کے مقابلے میں حدیث روایت کر رہے ہیں اور انہوں نے یہ زیادتی نہیں کی جبکہ ابن ابی شیبہ نے کی ہے۔ ان کی یہ زیادتی ان دونوں کی روایت کے کسی حصے کی نفی نہیں کر رہی اس لیے قبول ہوگی۔
(اسے عقلاً سمجھتے ہیں۔ ایک استاد جیسے وکیع ایک روایت دو بار بیان کرتے ہیں۔ ایک بار کمی کے ساتھ اور ایک بار زیادتی کے ساتھ۔ جب کمی کے ساتھ بیان کی تو بعض رواۃ نے سنی اور جب زیادتی کے ساتھ روایت کی تو بعض جیسے ابن ابی شیبہ نے سن لی۔ تو اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ ثقہ راوی کی یہ زیادتی مقبول ہے جب کہ دیگر ثقات کے خلاف نہ ہو۔(
2: دوسرا اصول یہ ہے کہ اختلاف نسخ کے وقت ترجیح سب سے معتبر اور قدیم نسخے کو ہوتی ہے۔ یہ اصول ابو عبد الرحمان سناری کے الفاظ میں یوں ہے:۔
منازل النسخ (درجات النسخ):
إن أقدار النسخ للكتاب الواحد تتفاوت جدا، فمنها ما لا قيمة له أصلا في تصحيح نص الكتاب، ومنها ما يعول عليه ويوثق به، ووظيفة المحقق الماهر أن يعرف قدر كل نسخة ويقيمها، ويفاضل بينها وبين سائر النسخ، متبعا في ذلك عدة قواعد منها:
1- أن النسخة الكاملة أفضل من النسخة الناقصة.
2- أن النسخة الواضحة أحسن من غير الواضحة.
3- أن النسخة القديمة أفضل من الحديثة.
4- أن النسخ التي قوبلت بغيرها أحسن من التي لم تقابل, وكذا التي عليها تعليقات العلماء وسماعاتهم
ترجمہ:۔" نسخوں کے مراتب:۔
ایک کتاب کے نسخوں کی قدر و قیمت بہت زیادہ مختلف ہوتی ہے۔ بعض ایسے ہوتے ہیں کہ کتاب کی نص کی تصحیح میں ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہوتی اور بعض پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ ماہر محقق کا یہ کام ہے کہ وہ ہر نسخہ کی قدر و قیمت کو سمجھے اور اس کے اور تمام نسخوں کے درمیان تفاضل کا معاملہ کرے اور اس میں چند قواعد کی پیروی کرے۔
1۔ کامل نسخہ ناقص نسخے سے افضل ہوتا ہے۔
2۔ واضح نسخہ غیر واضح نسخے سے افضل ہوتا ہے۔
3۔ قدیم نسخہ جدید نسخہ سے افضل ہوتا ہے۔
4۔ وہ نسخے جن کا دوسروں سے تقابل کیا جائے غیر مقابلہ نسخوں سے بہتر ہوتے ہیں، اسی طرح وہ نسخے بھی جن پر علماء کی تعلیقات اور سماعات ہوں۔"
اب ہم ذرا غور کریں تو پہلی دونوں صفات علامہ عابد سندھیؒ کے نسخہ میں پائی جاتی ہیں۔ وہ واضح بھی ہے اور کامل بھی۔ اس میں "تحت السرۃ" کی زیادتی موجود ہے۔ تیسری صفت مکتبہ ظاہریہ کے نسخے میں پائی جاتی ہے اور اس میں یہ زیادتی موجود نہیں۔ چوتھی صفت مرتضی زبیدیؒ کے نسخے میں پائی جاتی ہے کیوں کہ وہ علامہ عینی اور زبیدیؒ کے پاس رہا ہے اور اس میں یہ زیادتی موجد ہے۔ قاسم بن قطلوبغاؒ کے نسخے میں بھی ظن غالب یہ ہے کہ چوتھی صفت یعنی تقابل و تصحیح موجود ہوگی۔
آگے ابو عبد الرحمان سناری ان اصولوں سے کچھ شاذ چیزیں ذکر کرتے ہیں:۔
ولكن لهذه القواعد شواذ،.
إذا نسخ المخطوطات للكتاب الواحد تتفاضل كأي شيء ، ونتعرف الآن على منازل النسخ ودرجاتها .
فما هي أعلى النسخة؟
الجواب على هذا يكون بهذا التسلسل:
1- النسخ التي كتبها المصنف بيده (المبيضة:الكتاب الذي نقحه) وتسمي النسخة الأم أو الأصل.
ما حكمها إذا وجدت؟
تجب كل النسخ ولا يجوز تركها ولو كانت في الصين ، ولكن لا تهمل النسخ الأخر لأنه لعله تكون النسخ الأم فيها طمس أو أرضة أو نقص فيستكمل الباقي من النسخ الأخرى، وقد اهتهم العلماء قديما بالنسخ الأصول، وللأخ الباحث تام الجبالي كتاب في جمع هذه النسخ ، وللعلم نسخة المؤلف قليلة .
2- المسودة النسخ التي لم ينقحها المصنف إذا لم نجد المبيضة.
3- النسخة التي نقلت من نسخة المؤلف.
4- النسخة التي أملاه المؤلف .
5- النسخة التي كتبها عالم ثقة.
6- النسخة التي كتبت في عصر المؤلف.
7- النسخة التي عليها تعليقات العلماء .
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showpost.php?s=6dd0a073f02c71f21f174e17794799f6&p=1655826&postcount=10
ان میں سے صرف پانچویں اور ساتویں شق ہماری بحث میں موجود نسخوں میں پائی جاتی ہے یعنی وہ نسخہ جسے کسی عالم ثقہ نے لکھا ہو، راجح ہوتا ہے (یہ قاسم بن قطلوبغا کے نسخے میں پائی جاتی ہے۔) اور وہ نسخہ جس پر علماء کی تعلیقات ہوں، راجح ہوتا ہے (یہ مرتضی زبیدی، مکتبہ ظاہریہ کے نسخوں میں پائی جاتی ہے اور ابواب کی حد تک عابد سندھیؒ کے نسخے میں بھی موجود ہے۔)۔ کسی نسخہ کے ناسخ کا معلوم ہونا بھی پانچویں شق کے تحت آتا ہے۔
مکتبہ ظاہریہ کے نسخے میں "تحت السرۃ" کی زیادتی موجود نہیں ہے۔ یہ سب سے قدیم نسخہ ہے۔ اس کے شیخ عوامہ اور شیخ اسامہ بن ابراہیم کے مطابق دو نسخے ہیں جنہیں ہم الف اور ب سے ذکر کرتے ہیں۔
الف: اس کی چھ جلدیں موجود ہیں یعنی پہلی، دوسری، ساتویں، آٹھویں، گیارہویں اور بارہویں۔
ان میں سے اول دو الگ خط میں ہیں اور باقی چار الگ خط میں۔ اول دو کا نہ تو ناسخ معلوم ہے اور نہ ہی تاریخ نسخ۔ اور جس حدیث پر ہماری بحث ہے وہ جلد اول میں ہے۔
ب: یہ نسخہ امام نوویؒ کے پاس رہا ہے۔ اس کی تاریخ نسخ ۷۳۵ھ ہے لیکن بدقسمتی سے اس کے ناسخ کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔
یہ تاریخ اس پر درج ہے ان الفاظ میں سنۃ خمس و ثلاثین و سبع مائۃ۔ امام نووی کا ذکر شیخین نے اس وجہ سے کیا ہے کہ اس کی ابتدا میں تعلیقا ذکر ہے قال الشیخ محیی الدین رحمہ اللہ۔ اور انتہائی عجیب بات یہ ہے کہ محیی الدین یحیی بن شرف نووی کی وفات زرکلی اور ابن کثیر کے مطابق ۶۷۶ھ میں ہے (الاعلام، طبقات الشافعیین)۔ تو یہ نسخہ لکھے جانے سے پہلے کیسے ان کے پاس آگیا؟ یا تو محیی الدین سے کوئی اور مراد ہیں اور یا پھر ناسخ نے اسے قدیم ثابت کرنے کی کسی وجہ سے کوشش کی ہے۔
بہر حال جو بھی ہو اگر یہ بات درست ہے کہ یہ ۷۳۵ھ میں لکھا گیا ہے تو اس کے صرف ۶ سال بعد یوسف بن عبد اللطیف نے مرتضی زبیدی کے نسخے کی کتابت شروع کردی تھی۔ اس کی پہلی جلد کی کتابت ۷۴۱ھ میں ہوئی ہے۔ پھر یہ مرتضی زبیدی اور علامہ عینی کے پاس رہا ہے اور ان کی تعلیقات اس پر ہیں۔ (عینی کی تعلیقات چوتھی اور پانچویں جلد میں ہیں)
یہ قدیم بھی ہے۔ اس کا ناسخ بھی معلوم ہے۔ شیخ اسامہ کے مطابق واضحۃ جیدۃ بھی ہے۔ علماء کی اس پر تعلیقات بھی موجود ہیں۔
پھر مزید اس کی تائید شیخ عابد سندھی کے نسخے سے بھی اس روایت میں ہوتی ہے کیوں کہ وہ اس سے نقل نہیں کیا گیا جس پر شاہد یہ ہے کہ اگلا اثر اس میں موجود نہیں ہے جب کہ عابد سندھی کے نسخے میں موجود ہے۔ پھر مزید ایک نسخہ وہ ہے جسکا ذکر ملا قائم سندھیؒ (کما قال الاوکارویؒ) اور ہاشم سندھیؒ (درہم الصرۃ) نے کیا ہے کہ اس پر ہر صفحے پر تقابل و تصحیح کی علامات موجود ہیں اور اس کا تقابل متعدد بار کیا گیا ہے اور وہ تھا بھی ایک بڑے عالم یعنی قاسم بن قطلوبغا کے پاس۔
اس سب کو دیکھتے ہوئے ہمیں یہی علم ہوتا ہے کہ یہ زیادتی نہ صرف اس روایت میں موجود ہے بلکہ تحقیق کی رو سے اس کا باقی رکھنا بھی اس کے حذف کرنے سے زیادہ بہتر ہے چہ جائیکہ اسے تحریف کہا جائے۔
3: تیسرا اصول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ رواۃ کی زیادتی تو قبول ہوتی ہے لیکن ناسخ کی زیادتی قبول نہیں ہوتی بلکہ وہ تحریف کہلاتی ہے۔ یہ اصول درست ہے لیکن جزوی طور پر۔ زیادتی ناسخ کی ممکنہ وجوہات یہ ہیں:۔
1۔ مولف اول کتاب دو بار تحریر کرے اور ایک نسخے میں زیادتی کرے اور ایک میں نہیں۔
2۔ مولف املاء کروائے اور ایک طالب زیادتی لکھ لے اور دوسرا نہیں۔
3۔ مولف املاء کرواتے وقت کسی وجہ سے کسی لفظ کو پست آواز میں ادا کرے تو قریب والا ناسخ لکھ لے اور دور والا نہ لکھ سکے۔
4۔مولف سے ایک ہی نسخہ ہو اور بعد میں کوئی استاد اس طرح املاء کروائے اور مندرجہ تین معاملات میں سے کوئی ہو۔
5۔ مولف سے ایک ہی نسخہ ہو اور اس سے لکھنے والا ناسخ اس لفظ کو نہ لکھے غلطی سے۔
6۔ مولف سے ایک ہی نسخہ ہو اور لکھنے والا ناسخ نہ لکھے تحریف کی وجہ سے۔
7۔ مولف سے ایک ہی نسخہ ہو اور لکھنے والا ناسخ اس لفظ کو بڑھا دے غلطی سے۔
8۔ مولف سے ایک ہی نسخہ ہو اور لکھنے والا ناسخ اس لفظ کو بڑھائے تحریفا۔
9۔ ناسخ لفظ کو ساقط کرے کسی دلیل کی بنا پر۔
میرا خیال ہے کہ مزید کوئی صورت ممکن نہیں ہے۔ اور یہ سب احتمال ایک زیادتی میں ہیں۔ جب تک کوئی دلیل نہیں موجود ہم کسی کو متعین نہیں کر سکتے۔ ان میں سے سات احتمالات ایسے ہیں جن میں یہ زیادتی مقبول ہوگی۔ روایت میں بھی شاید اسی وجہ سے ثقہ اگر ثقات کے خلاف روایت کرے تو وہ متہم بالکذب نہیں ہوتا۔ لہذا اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بھی ہم اس زیادتی کو قبول کرنے کو ہی زیادہ مناسب سمجھ سکتے ہیں۔
زیادتی ثقہ کے بارے میں ایک اصول کی وضاحت:۔
علامہ زیلعیؒ (المتوفی ۷۶۲ھ) نے نصب الرایہ میں ایک اصول بیان کیا ہے:۔
فإن قيل: قد رواها نعيم المجمر، وهو ثقة، والزيادة من الثقة مقبولة، قلنا: ليس ذلك مجمعا عليه، بل فيه خلاف مشهور، فمن الناس من يقبل زيادة الثقة مطلقا، ومنهم من لا يقبلها، والصحيح التفصيل، وهو أنها تقبل في موضع دون موضع، فتقبل إذا كان الراوي الذي رواها ثقة حافظا ثبتا، والذي لم يذكرها مثله، أو دونه في الثقة، كما قبل الناس زيادة مالك بن أنس، قوله: من المسلمين في صدقة الفطر، واحتج بها أكثر العلماء، وتقبل في موضع آخر لقرائن تخصها، ومن حكم في ذلك حكما عاما فقد غلط
نصب الرایۃ ۱۔۳۳۶ ط مؤسسۃ الریان
اس اصول سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ثقہ راوی اپنے برابر یا اپنے سے کم درجہ کے راوی کے مقابلے میں زیادتی کرے تو اس کی زیادتی قبول ہے اور اگر اپنے سے زیادہ درجہ کے راوی کے مقابلے میں زیادتی کرے تو قبول نہیں۔ جب کہ یہاں پر ابن ابی شیبہ اپنی جلالت شان کے باوجود احمد بن حنبل جیسے فقیہ و محدث سے درجہ میں کم ہیں لہذا یہ زیادتی قبول نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن حافظ ابن حجرؒ نے اس کے برخلاف اصول بیان کیا ہے:۔
القسم الثالث منها ما تفرد بعض الرواة بزيادة فيه دون من هو أكثر عددا أو أضبط ممن لم يذكرها فهذا لا يؤثر التعليل به إلا إن كانت الزيادة منافية بحيث يتعذر الجمع إما إن كانت الزيادة لا منافاة فيها بحيث تكون كالحديث المستقل فلا اللهم إلا إن وضح بالدلائل القوية أن تلك الزيادة مدرجة في المتن من كلام بعض رواته فما كان من هذا القسم فهو مؤثر
فتح الباری ۱۔۳۴۷ ط دار المعرفۃ
اس اصول سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ثقہ راوی اگر اپنے سے زیادہ ضبط رکھنے والے راوی یا اکثر رواۃ کے برخلاف زیادتی کو روایت کرے تو بھی اس کی زیادتی مقبول ہے بشرطیکہ دیگر کی روایت کے منافی نہ ہو۔ الا یہ کہ دلائل قویہ سے اس زیادتی کا باطل ہونا ظاہر ہو جائے۔
میرا یہ خیال ہے کہ درحقیقت یہ ایک دقیق اجتہادی نکتہ ہے۔ اصل تو یہ ہے کہ زیادتی ثقہ غیر منافی قبول ہو لیکن اجتہادی قرائن و دلائل کی روشنی میں کسی عالم مجتہد کے نزدیک یہ غیر مقبول بھی ہو سکتی ہے جیسے ایک راوی کثیر رواۃ کے خلاف روایت کرے تو یہاں خاطر اسی جانب مائل ہوتی ہے کہ اتنے زیادہ رواۃ کے خلاف اس کی زیادتی قبول نہیں ہونی چاہیے بخلاف اس کے کہ وہ چند رواۃ کے خلاف روایت کرے تو اس میں اس کا درست ہونا راجح معلوم ہوتا ہے۔
نتیجہ:۔
اس تمام بحث کے آخر میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی اس روایت میں یہ "تحت السرۃ" موجود بھی ہے اور یہ روایت بمع اس زیادۃ کے قبول کرنے کے لائق ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس روایت میں انتہائی معمولی سا شبہ بھی موجود ہے۔ اگر اس کے مقابلے میں فوق السرۃ یا علی الصدر کی کی مجمع علیہ صحیح روایت مل جائے تو اسے اس تنہا روایت پر ترجیح ہوگی۔ لیکن چوں کہ ابھی تک ایسی کوئی روایت موجود نہیں ہے اس لیے اس موضوع پر موجود تمام روایات میں یہ سب سے اعلی درجہ کی روایت ہے۔ اس میں موجود معمولی سے شبہ کی وجہ سے اگر کوئی عالم مجتہد اس پر اعتماد نہ ہوتے ہوئے اس کے مطابق عمل نہیں کرتا تو وہ (بندہ کی رائے میں) قابل ملامت نہیں اور اگر کوئی اس سے زیادہ صحیح مجمع علیہ روایت کے ہوتے ہوئے اسے بھی صحیح جان کر اس کے مطابق عمل کرتا ہے تو وہ بھی لائق طعن نہیں ہے۔ لیکن اوفق بالتحقیق یہ ہے کہ اسے علی الصدر کی روایات پر ترجیح دی جائے۔
اللہ پاک ہم سب کو اپنے دین کی صحیح سمجھ اور تعصب سے بالا تر علم عطا فرمائیں۔
واللہ اعلم بالصواب۔
حدیث تحت السرۃ فی مصنف ابن ابی شیبہ
حدثنا وكيع، عن موسى بن عمير، عن علقمة بن وائل بن حجر، عن أبيه قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم وضع يمينه على شماله في الصلاة تحت السرة
ابن ابی شیبہ کہتے ہیں:۔ ہم سے وکیع نے بیان کیا، انہوں نے موسی بن عمیر سے، انہوں نے علقمہ بن وائل بن حجر سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا ناف کے نیچے۔
یہ حدیث مصنف ابن ابی شیبہ کے بعض نسخوں میں پائی جاتی ہے اور بعض میں نہیں۔ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ اس کے روات کی تفصیل کچھ یوں ہے:۔
ابو بکر ابن ابی شیبہ صاحب مصنف:۔
عبد الله بن محمد بن أبي شيبة الحافظ الكبير الحجة، أبو بكر (میزان الاعتدال ۲۔۴۹۰ ط دار المعرفۃ)
كان متقنا حافظا دينا ممن كتب وجمع وصنف وذاكر وكان أحفظ أهل زمانة بالمقاطيع (الثقات لابن حبان ۸۔۳۵۸ ط دائرۃ المعارف)
وکیع ابن الجراح:۔
الإمام، الحافظ، محدث العراق (سیر اعلام النبلاء ۹۔۱۴۱ ط الرسالۃ)
من الرفعاء الثقات (سنن الدارقطنی ۱۔۳۱۵ ط الرسالۃ)
موسی بن عمیر:۔
موسى بن عمير كوفي ثقة (المعرفۃ و التاریخ ۳۔۱۲۱ ط الرسالۃ)
نا عبد الرحمن نا علي بن الحسين بن الجنيد قال سمعت ابن نمير يقول: موسى بن عمير اثنان بالكوفة فالذي روى عنه وكيع [هو] ثقة.
نا عبد الرحمن قال سألت ابى عن موسى بن عمير العنبري فقال: ثقة.
نا عبد الرحمن قال سئل أبو زرعة عن موسى بن عمير فقال: لا بأس به. (الجرح والتعدیل ۸۔۱۵۵ ط دار احیاء التراث)
علقمۃ بن وائل بن حجر:۔
كان ثقة قليل الحديث (الطبقات الكبری لابن سعد ۶۔ ۳۱۱ ط العلمیۃ)
سألت محمدا عن علقمة بن وائل هل سمع من أبيه؟ فقال: إنه ولد بعد موت أبيه بستة أشهر (العلل الكبیر للترمذی ۱۔۲۰۰ ط مكتبۃ النهضۃ العربیۃ)
وعلقمة بن وائل بن حجر سمع من أبيه وهو أكبر من عبد الجبار بن وائل، وعبد الجبار لم يسمع من أبيه (سنن الترمذی ۴۔۵۶ ط مصطفی البابی)
وائل بن حجر رضی الله عنہ:۔
صحابی جلیل
سكن الكوفة , وعقبه بها (معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم ۵۔۲۷۱۱ ط دار الوطن)
اس حدیث میں جہاں مصنف ابن ابی شیبہ کے بعض نسخوں میں تحت السرۃ کا وجود ہونے اور بعض میں نہ ہونے کی بحث ہے وہیں مصنف ابن ابی شیبہ کے علاوہ دیگر کتب میں بھی اس روایت میں تحت السرۃ موجود نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اس کے علاوہ مندرجہ ذیل کتب کا حوالہ پیش کیا جاتا ہے:۔
المعجم الکبیر للطبرانی (المتوفی ۳۶۰):۔
حدثنا علي بن عبد العزيز، ثنا أبو نعيم، نا موسى بن عمير العنبري، عن علقمة بن وائل بن حجر، عن أبيه وائل بن حجر: «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا قام في الصلاة قبض على شماله بيمينه» قال: ورأيت علقمة يفعله (۲۲۔۹ ط مكتبۃ ابن تیمیۃ)
ترجمہ:۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز میں کھڑے ہوتے تو اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے۔ موسی بن عمیر فرماتے ہیں: میں نے علقمہ کو بھی یوں ہی کرتے دیکھا۔
المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان الفسوی (المتوفی ۲۷۷ھ):۔
حدثنا أبو نعيم قال: ثنا موسى بن عمير العنبري قال: حدثني علقمة ابن وائل عن أبيه أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا قام في الصلاة قبض على شماله بيمينه، ورأيت علقمة يفعله. (۳۔۱۲۱ ط رسالۃ)
ترجمہ: ایضاً
السنن الكبری للبیهقی (المتوفی ۴۵۸ھ):۔
أخبرناه أبو الحسين بن الفضل القطان، ببغداد، أنبأ عبد الله بن جعفر، ثنا يعقوب بن سفيان، ثنا أبو نعيم، ثنا موسى بن عمير العنبري، حدثني علقمة بن وائل، عن أبيه، " أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا قام في الصلاة قبض على شماله بيمينه " ورأيت علقمة يفعله (۲۔۴۳ ط دار الكتب العلمیۃ)
ترجمہ: ایضاً
شرح السنۃ للبغوی (المتوفی ۵۱۶ھ):۔
أخبرنا أحمد بن عبد الله الصالحي، أخبرنا أبو بكر أحمد بن الحسن الحيري، أنا حاجب بن أحمد الطوسي، نا عبد الله بن هاشم، نا وكيع، نا موسى بن عمير العنبري، عن علقمة بن وائل الحضرمي، عن أبيه، قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم واضعا يمينه على شماله في الصلاة» (۳۔۲۳ ط المكتب الاسلامی)
ترجمہ: وائل بن حجر رض سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو اپنا دایاں ہاتھ نماز میں بائیں ہاتھ پر رکھے دیکھا۔
السنن للدارقطنی (المتوفی ۳۸۵ھ):۔
حدثنا الحسين بن إسماعيل , وعثمان بن جعفر بن محمد الأحول , قالا: نا يوسف بن موسى , نا وكيع , نا موسى بن عمير العنبري , عن علقمة بن وائل الحضرمي , عن أبيه , قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم واضعا يمينه على شماله في الصلاة» (۲۔۳۴ ط الرسالۃ)
ترجمہ: ایضاً
المسند للامام احمد بن حنبل (المتوفی ۲۴۱ھ):۔
حدثنا وكيع، حدثنا موسى بن عمير العنبري، عن علقمة بن وائل الحضرمي، عن أبيه قال: " رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم واضعا يمينه على شماله في الصلاة " (۳۱۔۱۴۰ ط رسالۃ)
ترجمہ: ایضاً
چوں کہ ان روایات کے بنیادی رواۃ ایک ہی ہیں اور ان میں "تحت السرۃ" کا اضافہ موجود نہیں ہے اس لیے بہت سے ظاہر بین حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مصنف ابن ابی شیبہ کا بھی وہ نسخہ معتبر ہوگا جس میں یہ زیادتی نہیں ہے۔
اس زیادتی کی خبر سب سے پہلے علامہ قاسم بن قطلوبغا حنفی (المتوفی ۸۷۹ھ) نے اپنی کتاب التعریف والاخبار تخریج احادیث الخیار میں دی اور کہا: وھذا سندہ جید (ص 314 ط جامعہ ام القری)۔ قاسم بن قطلوبغا عالی شان محدث ہیں اور ان کی دی ہوئی خبر یقینا قبول ہونی چاہیے تھی لیکن ان کی اس خبر کے علاوہ بھی دو نسخے ایسے ہیں جن میں اس کی زیادتی موجود ہے۔ ان دو نسخوں کے اسکینز محقق شیخ محمد عوامہ نے اپنی تحقیق شدہ مصنف میں دیے ہیں۔
musnfsha03 by Ishmaria Shah, on Flickr
musnfsha03 2 by Ishmaria Shah, on Flickr
ان دو نسخوں اور ابن قطلوبغا کی اس خبر کے نتیجے میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں یہ زیادتی موجود تھی اور کسی ناسخ کی غلطی کی وجہ سے کسی نسخے میں رہ گئی جس سے آگے نقل ہونے والے نسخوں میں بھی یہ نہیں پائی گئی۔ (اس پر تفصیلی بات ان شاء اللہ آگے چل کر آئے گی۔)
اس زیادتی کو تسلیم کرنے کی صورت میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ابن ابی شیبہ نے ان دیگر رواۃ و محدثین کے برخلاف یہ زیادتی روایت کی ہے اس لیے یہ قبول نہیں ہونی چاہیے۔ اور یہی اعتراض ہمارے کرم فرماؤں کا ہے۔
اسے غلط فہمی اور غلطی کہا جائے یا غلط فہمی میں مبتلا کرنے کی کوشش کہ جو روایات کی لائن لگائی گئی ہے درحقیقت یہ الگ الگ روایات ہیں۔ ان کے راوی ایک ہیں اور یہ ہیں بھی نماز میں ہاتھوں سے متعلق لیکن متن میں یہ دونوں روایات مختلف ہیں۔ المعجم الکبیر، المعرفۃ والتاریخ اور السنن الکبری میں موجود احادیث کا مضمون مصنف ابن ابی شیبہ، مسند احمد ، سنن دارقطنی اور شرح السنہ کے مضمون سے مختلف ہے۔ ان میں بائیں ہاتھ کو دائیں سے پکڑنے کا ذکر ہے اور مذکورہ حدیث میں دایاں ہاتھ بائیں پر رکھنے کا۔ ایک میں دائیں ہاتھ کا فعل بتایا جا رہا ہے اور دوسری میں مقام۔ لہذا دونوں الگ الگ ہیں۔ الفاظ ہیں:۔قبض علی یمینہ بشمالہ
تاج العروس میں مذکور ہے:۔
قبض عليه بيده: أمسكه (تاج العروس 5۔19 ط دار الہدایۃ)
یعنی اس لفظ کا مطلب ہوتا ہے پکڑنا۔ نہ کہ رکھنا۔ معلوم ہوا کہ "قبض علی" اور "وضع" کے معنی میں فرق ہے۔ ایک حدیث میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ نبی ﷺ دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ لیتے تھے۔ یہ پکڑنا اوپر سے بھی ہو سکتا ہے اور نیچے سے بھی (میرا یہ مطلب نہیں کہ حدیث کی مراد میں یہ احتمال ہے۔ میں معانی کا فرق واضح کر رہا ہوں) دوسری حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ دائیں ہاتھ کو بائیں کے اوپر رکھتے تھے۔ لہذا ان دونوں روایات کے مضامین الگ الگ ہیں اور ان میں الگ باتیں بیان ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ جن روایات میں "قبض" یعنی پکڑنے کا ذکر ہے ان میں راوی نے علقمہ کے فعل کا بھی ذکر کیا ہے جب کہ جن میں وضع کا ذکر ہے ان میں علقمہ کے فعل کا ذکر نہیں۔ یوں کہہ لیں کہ یہ باقاعدہ دو الگ الگ روایات ہیں جو ایک ہی رواۃ سے مروی ہیں۔
اسی فرق کو صاحب مرعاۃ المفاتیح علامہ ابو الحسن مبارکپوریؒ (المتوفی ۱۴۱۴ھ) نے بھی بیان کیا ہے اور ان دونوں الفاظ میں جمع و تطبیق کا عمل کیا ہے:۔
وفي البعض أخذ الشمال والقبض عليها باليمين، كما روى النسائي من حديث وائل قال: رأيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إذا كان قائماً في الصلاة قبض بيمينه على شماله. وروى الترمذي وابن ماجه من حديث قبيصة بن هلّب عن أبيه، قال: كان النبي - صلى الله عليه وسلم - يؤمنا فيأخذ شماله بيمينه. وورد في رواية أحمد وأبي داود من حديث وائل: "وضع اليمنى على الكف اليسرى والرسغ والساعد". فالسنة أن يجمع بين الوضع والقبض جمعًا بين هذه الأحاديث، وكيفية الجمع أن يضع الكف اليمنى على الكف اليسرى ويحلق الإبهام والخنصر على الرسغ ويبسط الأصابع الثلاث على الذراع، فيصدق أنه وضع اليد على اليد وعلى الذراع، وأنه أخذ شماله وقبض عليها بيمينه. قلت: لا حاجة إلى هذا التكلف للتوفيق والجمع لكون التوفيق فرع التعارض، ولا يظهر التعارض أصلاً؛ لأنه لا تناقض بين الأفعال المختلفة لجواز وقوع الكل في أوقات مختلفة (مرعاۃ المفاتیح ۳۔۵۹ ط جامعۃ السلفیۃ)
مبارکپوریؒ نے انہیں افعال مختلفہ قرار دیا ہے۔
اب مصنف ابن ابی شیبہ میں زیادتی ابن ابی شیبہ کی ہے جو امام احمد، یوسف بن موسی اور عبد اللہ بن ہاشم کے خلاف ہے۔ خلاف بہ ایں معنی کہ انہوں نے ان الفاظ کو روایت نہیں کیا اور ابن ابی شیبہ نے کیا ہے۔ ان میں سے بھی شرح السنہ میں علامہ بغوی کے شیخ احمد بن عبد اللہ الصالحی کا مجھے علم نہیں ہو سکا۔ یہ بھی محل نظر ہے۔ اصول حدیث کا یہ قاعدہ ہے کہ ثقہ راوی کی زیادتی اگر دیگر ثقہ رواۃ کی روایت کے منافی نہ ہو تو وہ زیادتی قبول ہوتی ہے۔
علامہ سیوطیؒ (المتوفی ۹۱۱ھ) فرماتے ہیں:۔
(ومذهب الجمهور من الفقهاء والمحدثين قبولها مطلقا) ، سواء وقعت ممن رواه أولا ناقصا أم من غيره، وسواء تعلق بها حكم شرعي أم لا، وسواء غيرت الحكم الثابت أم لا، وسواء أوجبت نقض أحكام ثبتت بخبر ليست هي فيه أم لا، وقد ادعى ابن طاهر الاتفاق على هذا القول. (تدریب الراوی ص286 ط دار طیبۃ)
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جمہور فقہاء اور محدثین زیادتی ثقہ کو مطلقا قبول کرتے ہیں۔ چاہے پہلے اور اس میں کتنا ہی فرق ہو۔ اور ابن طاہر نے تو اس قول پر اجماع بھی نقل کیا ہے۔
حافظ ابن حجرؒ (المتوفی ۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:۔
وزيادة راويهما، أي: الصحيح والحسن، مقبولة، ما لم تقع منافية لرواية من هو أوثق ممن لم يذكر تلك الزيادة؛ لأن الزيادة:
1- إما أن تكون لا تنافي بينها وبين رواية من لم يذكرها؛ فهذه تقبل مطلقا؛ لأنها في حكم الحديث المستقل الذي ينفرد به الثقة ولا يرويه عن شيخه غيره.
2- وإما أن تكون منافية، بحيث يلزم من قبولها رد الرواية الأخرى؛ فهذه التي يقع الترجيح بينها وبين معارضها؛ فيقبل الراجح ويرد المرجوح. (نزہۃ النظر ص212 ط سفیر)
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ زیادتی ثقہ مقبول ہے اگر اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی روایت کے منافی نہ ہو تو مقبول ہے۔ پھر اگر زیادتی سے ساکت اور زیادتی والی روایت میں منافاۃ نہیں تو مطلقا قبول ہے اور اگر منافاۃ ہے تو ترجیح کی جائے گی۔
اب جب ہم یہاں دیکھتے ہیں تو امام احمد وغیرہ کی روایات اس زیادتی سے ساکت ہیں اور ابن ابی شیبہ کی روایت اس زیادتی کے لیے ناطق ہے اس لیے ابن ابی شیبہ کے یہ الفاظ قبول کیے جائیں گے۔
محمد عوامہ کے نسخوں پر اشکال:۔
شیخ محمد عوامہ نے جو دو نسخے پیش کیے ہیں ان کے بارے میں کچھ اشکالات اٹھائے جاتے ہیں۔ پہلے نسخے پر اشکال یہ ہے کہ اس کے بارے میں محمد عوامہ کا اپنا فیصلہ یہ ہے:۔
و هي نسخة للاستئناس لا للاعتماد عليها (مقدمۃ المحقق)
یعنی یہ نسخہ مانوسیت کے لیے ہے ، اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ اشکال درست نہیں کیوں کہ شیخ نے اس نسخہ کے اپنی تحقیق میں قابل اعتماد نہ ہونے کا ذکر کیا ہے نہ کہ مطلقا۔ شیخ عوامہ کا مصنف کی تحقیق میں طرز یہ رہا ہے کہ وہ زمانہ وغیرہ کے لحاظ سے قدیم نسخے پر اعتماد کرنے کے بجائے تمام نسخوں کو یکجا کر کے ان پر غور و فکر کے ساتھ فیصلہ صادر کرتے ہیں۔ ان کی تحقیق کے اس طرز کے بارے میں شیخ مجد المکی کے الفاظ یہ ہیں:۔
والوقوف عند كل مغايرة ، والبحث عن الصواب دون مراعاة اتفاق الأكثر من النسخ أو الأقدم زمناً ، وقد تكشف له بهذا البحث الدقيق والتثبت التام أوهام كثيرة ، وتحريفات شديدة ، من قبل النساخ ، وقد تواردت عليها طبعات الكتاب كلها
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=84572
عابد سندھیؒ کا یہ نسخہ دیگر نسخوں کے مقابلے میں مکمل اور صاف ستھرا ہے جس کا اظہار شیخ عوامہ نے مذکورہ جملے سے پہلے کیا ہے:۔
وھی تامۃ فی مجلدین کبیرین، و علیھا وقفیتہ
اس سے یہ خیال آتا تھا کہ اس پر شیخ نے اعتماد کیا ہوگا تو اس خیال کی نفی اگلے جملہ سے کی ہے۔ لیکن اگر بالفرض ہم شیخ کی اس بات کو اس پر بالکلیہ اعتماد نہ ہونے کے سلسلے میں مان بھی لیں تب بھی یہ محتاج دلیل ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اس نسخہ پر اعتماد نہ کریں جسے عابد سندھیؒ نے لکھوا کر اس پر ابواب خود لکھے ہیں؟ اور اگر بالفرض اس پر اعتماد نہ بھی کریں تب بھی یہ نسخہ دوسرے نسخے کی تائید کر رہا ہے اور اگر یہ استئناس کے لیے ہے تو اس سے دوسرے نسخے (جو کہ علامہ مرتضی زبیدیؒ کا نسخہ ہے) کا درست ہونا معلوم ہوتا ہے۔ لہذا یہ اشکال درست نہیں۔
دوسرے نسخہ پر اشکال یہ ہے کہ اس میں سقط کا احتمال ہے کیوں کہ عام نسخوں میں اس کے بعد جو اثر موجود ہے وہ مرتضی زبیدیؒ کے اس نسخے میں موجود نہیں اور اس اثر کے آخر میں "تحت السرۃ" کے الفاظ ہیں۔ تو غالبا کاتب سے درمیانی اثر رہ گیا اور اس نے غلطی سے "تحت السرۃ" کے الفاظ کو مذکورہ روایت کے ساتھ ملا دیا۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ یہ صرف احتمال ہے جو عابد سندھیؒ کے نسخے اور قاسم بن قطلوبغا کی خبر سے ساقط ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ یہ الفاظ ان دو علماء کے پاس بھی موجود تھے۔ اور یہ زیادہ ظاہر ہے کہ اگلا اثر موجود نہ ہو جیسا کہ نسخوں میں ہوتا ہے بنسبت اس کے اگلا اثر غائب ہو کر تحت السرہ پچھلی روایت سے جا ملے اور بوقت تصحیح بھی نوٹ نہ ہو۔جب ہم اس روایت کو شیخ عابد سندھیؒ کے نسخے کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو یہ احتمال بالکل باطل نظر آتا ہے۔
ایک اہم اشکال یہ ہے کہ جس حدیث میں "قبض" کا ذکر ہے اسے مختلف علماء و محدثین نے "وضع" کی حدیث کے باب میں یا اس کی متابعت میں پیش کیا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں روایات ایک ہی طرح کی ہیں۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ محدثین کرام دو الگ الگ روایات کو جن سے کوئی ایک خاص معنی ثابت ہو رہا ہو ایک دوسرے کی متابعت میں نقل فرماتے ہیں۔ امام شافعیؒ (المتوفی ۲۰۴ھ) کتاب الام میں ایک حدیث روایت کرتے ہیں:۔
أخبرنا الربيع قال أخبرنا الشافعي قال أخبرنا مالك عن عبد الله بن دينار عن ابن عمر أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال :الشهر تسع وعشرون لا تصوموا حتى تروا الهلال ولا تفطروا حتى تروه، فإن غم عليكم فأكملوا العدة ثلاثينالام 2۔103 ط دار المعرفۃ
اس کی متابعت مسلم میں یوں ہے:۔
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو أسامة، حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر رمضان، فضرب بيديه فقال: الشهر هكذا، وهكذا، وهكذا - ثم عقد إبهامه في الثالثة - فصوموا لرؤيته، وأفطروا لرؤيته، فإن أغمي عليكم فاقدروا له ثلاثينمسلم 2۔759 ط دار احیاء التراث
یہ دونوں الگ الگ روایات ہیں اور حافظ ابن حجرؒ (المتوفی ۸۵۲ھ) نے نزہۃ النظر میں دوسری کو پہلی کے متابع قرار دیا ہے۔ یہ متابعت قاصرہ ہے۔اس طرح کی کئی مثالیں ہیں۔ اسی طرح کسی بحث میں (باب میں یا مسئلہ کی بحث میں) کسی خاص معنی کا اعتبار کرتے ہوئے کوئی حدیث درج کردی جاتی ہے۔ جیسے نسائیؒ نے استعمال یمین یا لفظ "علی" کی بنیاد پر غالبا اسے اس باب میں داخل کیا ہے۔ اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ ان دونوں باتوں کا معنی ایک ہے؟
ایک عالم نے اس پر یہ کہا کہ قبض کی روایات وضع کی روایات کے متابع ہیں لفظ "تحت السرۃ" کی غیر موجودگی پر دلالت کرنے میں۔ لیکن یہ بات درست نہیں کیوں کہ عدم پر کبھی متابعت نہیں ہوتی ورنہ اس طرح تمام وہ احادیث جن میں کسی چیز کا ذکر نہیں ہے ایک دوسرے کے متابع قرار پائیں گی۔
ایک اشکال اور معترضین کے خیال میں غالبا انتہائی مضبوط اشکال یہ ہے کہ علامہ قاسم بن قطلوبغا سے پہلے بے شمار حنفی محدثین گزرے ہیں لیکن کسی نے بھی اس روایت کو ذکر نہیں کیا حتی کہ مرتضی زبیدی جن کے پاس یہ نسخہ تھا اور اسی طرح علامہ عینیؒ جو احناف کے دلائل ذکر کرنے میں بہت کوشش کرتے ہیں اور ان کے پاس بھی یہ نسخہ رہا ہے، انہوں نے بھی دلیل کے طور پر اس روایت کو ذکر نہیں کیا۔ اسی طرح اس زیادتی کو فیض الباری کے حاشیہ میں بھی قبول نہیں کیا گیا اور علامہ نیموی نے آثار السنن میں بھی قبول نہیں کیا ہے۔ ان تمام باتوں سے یہ علم ہوتا ہے کہ یہ روایت درست نہیں ہے۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ قاسم بن قطلوبغا، عابد سندھی، ہاشم سندھی رحمہم اللہ وغیرہ کی نظر میں یہ درست بھی تو ہے۔ پھر ان کا تذکرہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ بات یہ ہے کہ زمانہ قدیم سے دونوں قسم کے نسخے موجود ہیں اس لیے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے پاس کس زمانے میں کونسا نسخہ تھا۔
البتہ یہ اشکال کہ عینی اور مرتضی زبیدی نے کیوں ذکر نہیں کیا، یہ قوی ہے لیکن اس اشکال سے کیا ثابت کیا گیا ہے یہ سمجھ نہیں آتا۔ اگر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اس نسخے میں یہ الفاظ موجود نہیں تھے تو یہ تو نظر آ رہے ہیں اور بعد میں اگر اضافہ کیا جاتا تو اتنی جگہ پہلے کیوں چھوڑ دی گئی؟ اور اگر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ان کے نزدیک یہ روایت درست نہیں تھی تو اس بارے میں کیا خیال ہے کہ جو دیگر روایات دلائل میں ذکر کی گئی ہیں وہ درست ہیں؟ اگر وہ بھی صحیح نہیں ہیں تو پھر اسے درج کرنے میں کیا حرج لازم آتا تھا۔ خلاصۃ ًہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ بات محتاج وضاحت مع دلیل ہے اور یہ اشکال بھی لائق توجہ نہیں۔ایک بات اور کہی جا سکتی ہے کہ ان کو علم تھا کہ یہ اس اثر کا حصہ نہیں ہے اور شامل ہو گیا ہے تو اس صورت میں عینی وغیرہ نے اتنے حواشی اس نسخے پر لکھے تو ایک حاشیہ اور لگانے میں کیا جاتا تھا۔اس سب کے بجائے یہ کہنا آسان ہے کہ انہیں اس کا استحضار نہیں رہا تھا اور یہ ایک عام بات ہے۔ ایسا ہوتا رہتا ہے۔شیخ عوامہ نے بہت پیاری بات لکھی ہے کہ جنہوں نے اس نسخے سے نقل کیا جس میں یہ اضافہ نہیں ہے تو انہوں نے اضافہ نہیں کیا اور جنہوں نے اس سے نقل کیا جس میں اضافہ ہے تو انہوں نے اضافہ کر دیا۔ اضافہ نہ کرنے والے اس میں تو معذور ہیں کہ انہوں نے اضافہ نہیں کیا لیکن اس میں تو معذور نہیں کہ وہ اضافہ کی نفی بھی کر دیں۔مولانا امین صفدر اوکاڑویؒ نے ایک طویل لسٹ دی ہے جنہوں نے اس روایت کے مختلف کتب میں لکھے جانے کے بعد اس کا انکار نہیں کیا۔ کیا ان کا اعتبار نہیں ہوگا؟
تحت السرۃ کی زیادتی قواعد کی رو سے:۔
ایک کتاب کے مختلف نسخوں میں اختلاف کی صورت میں تصحیح و تضعیف کے کچھ اصول ہیں۔ اگرچہ ان اصولوں سے اختلاف ممکن ہے کیوں کہ یہ انسانوں کے بنائے ہوئے قواعد ہی ہیں لیکن ہم انہی کی روشنی میں اس زیادتی کا جائزہ لیتے ہیں:۔
1: پہلا اصول یہ ہے کہ باقی کتب کا موازنہ کیا جائے کہ ان میں اس روایت کو کس طرح بیان کیا گیا ہے، پس اگر ایک روایت بھی ایسی مل جائے جس میں ان مختلف لفظوں میں سے کسی ایک کی موافقت کی گئی ہےتو یہی اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے کافی و شافی ہوتی ہے۔ لیکن یہ اصول اس صورت میں ہے جب الفاظ میں اختلاف ہو، کمی یا زیادتی نہ ہو۔ اگر اسی سند کے ساتھ اسی متن میں یہ ذکر ہوتا "وضع یمینہ علی شمالہ علی صدرہ" اور دوسرے نسخے میں ہوتا "وضع یمینہ علی شمالہ تحت السرۃ" تو یہ اختلاف ہے۔ اس صورت میں قرائن کی غیر موجودگی میں دوسری کتب کی روایات کو دیکھا جائے گا اور اس کی بنا پر فیصلہ کیا جائے گا۔ لیکن یہاں یہ نہیں ہے بلکہ اس بات پر معاملہ اٹکا ہوا ہے کہ آیا ابن ابی شیبہ نے لفظ "تحت السرۃ" کو بیان کیا یا چھوڑ دیا۔ ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ لفظ روایت کیا ہے۔ یہاں محدثین کا یہ اصول ہے کہ اگر زیادتی ثقہ دیگر ثقات کی روایات کے خلاف نہ ہو تو قبول ہوگی۔ یہاں امام احمد اور یوسف بن موسی امام ابن ابی شیبہ کے مقابلے میں حدیث روایت کر رہے ہیں اور انہوں نے یہ زیادتی نہیں کی جبکہ ابن ابی شیبہ نے کی ہے۔ ان کی یہ زیادتی ان دونوں کی روایت کے کسی حصے کی نفی نہیں کر رہی اس لیے قبول ہوگی۔
(اسے عقلاً سمجھتے ہیں۔ ایک استاد جیسے وکیع ایک روایت دو بار بیان کرتے ہیں۔ ایک بار کمی کے ساتھ اور ایک بار زیادتی کے ساتھ۔ جب کمی کے ساتھ بیان کی تو بعض رواۃ نے سنی اور جب زیادتی کے ساتھ روایت کی تو بعض جیسے ابن ابی شیبہ نے سن لی۔ تو اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ ثقہ راوی کی یہ زیادتی مقبول ہے جب کہ دیگر ثقات کے خلاف نہ ہو۔(
2: دوسرا اصول یہ ہے کہ اختلاف نسخ کے وقت ترجیح سب سے معتبر اور قدیم نسخے کو ہوتی ہے۔ یہ اصول ابو عبد الرحمان سناری کے الفاظ میں یوں ہے:۔
منازل النسخ (درجات النسخ):
إن أقدار النسخ للكتاب الواحد تتفاوت جدا، فمنها ما لا قيمة له أصلا في تصحيح نص الكتاب، ومنها ما يعول عليه ويوثق به، ووظيفة المحقق الماهر أن يعرف قدر كل نسخة ويقيمها، ويفاضل بينها وبين سائر النسخ، متبعا في ذلك عدة قواعد منها:
1- أن النسخة الكاملة أفضل من النسخة الناقصة.
2- أن النسخة الواضحة أحسن من غير الواضحة.
3- أن النسخة القديمة أفضل من الحديثة.
4- أن النسخ التي قوبلت بغيرها أحسن من التي لم تقابل, وكذا التي عليها تعليقات العلماء وسماعاتهم
ترجمہ:۔" نسخوں کے مراتب:۔
ایک کتاب کے نسخوں کی قدر و قیمت بہت زیادہ مختلف ہوتی ہے۔ بعض ایسے ہوتے ہیں کہ کتاب کی نص کی تصحیح میں ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہوتی اور بعض پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ ماہر محقق کا یہ کام ہے کہ وہ ہر نسخہ کی قدر و قیمت کو سمجھے اور اس کے اور تمام نسخوں کے درمیان تفاضل کا معاملہ کرے اور اس میں چند قواعد کی پیروی کرے۔
1۔ کامل نسخہ ناقص نسخے سے افضل ہوتا ہے۔
2۔ واضح نسخہ غیر واضح نسخے سے افضل ہوتا ہے۔
3۔ قدیم نسخہ جدید نسخہ سے افضل ہوتا ہے۔
4۔ وہ نسخے جن کا دوسروں سے تقابل کیا جائے غیر مقابلہ نسخوں سے بہتر ہوتے ہیں، اسی طرح وہ نسخے بھی جن پر علماء کی تعلیقات اور سماعات ہوں۔"
اب ہم ذرا غور کریں تو پہلی دونوں صفات علامہ عابد سندھیؒ کے نسخہ میں پائی جاتی ہیں۔ وہ واضح بھی ہے اور کامل بھی۔ اس میں "تحت السرۃ" کی زیادتی موجود ہے۔ تیسری صفت مکتبہ ظاہریہ کے نسخے میں پائی جاتی ہے اور اس میں یہ زیادتی موجود نہیں۔ چوتھی صفت مرتضی زبیدیؒ کے نسخے میں پائی جاتی ہے کیوں کہ وہ علامہ عینی اور زبیدیؒ کے پاس رہا ہے اور اس میں یہ زیادتی موجد ہے۔ قاسم بن قطلوبغاؒ کے نسخے میں بھی ظن غالب یہ ہے کہ چوتھی صفت یعنی تقابل و تصحیح موجود ہوگی۔
آگے ابو عبد الرحمان سناری ان اصولوں سے کچھ شاذ چیزیں ذکر کرتے ہیں:۔
ولكن لهذه القواعد شواذ،.
إذا نسخ المخطوطات للكتاب الواحد تتفاضل كأي شيء ، ونتعرف الآن على منازل النسخ ودرجاتها .
فما هي أعلى النسخة؟
الجواب على هذا يكون بهذا التسلسل:
1- النسخ التي كتبها المصنف بيده (المبيضة:الكتاب الذي نقحه) وتسمي النسخة الأم أو الأصل.
ما حكمها إذا وجدت؟
تجب كل النسخ ولا يجوز تركها ولو كانت في الصين ، ولكن لا تهمل النسخ الأخر لأنه لعله تكون النسخ الأم فيها طمس أو أرضة أو نقص فيستكمل الباقي من النسخ الأخرى، وقد اهتهم العلماء قديما بالنسخ الأصول، وللأخ الباحث تام الجبالي كتاب في جمع هذه النسخ ، وللعلم نسخة المؤلف قليلة .
2- المسودة النسخ التي لم ينقحها المصنف إذا لم نجد المبيضة.
3- النسخة التي نقلت من نسخة المؤلف.
4- النسخة التي أملاه المؤلف .
5- النسخة التي كتبها عالم ثقة.
6- النسخة التي كتبت في عصر المؤلف.
7- النسخة التي عليها تعليقات العلماء .
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showpost.php?s=6dd0a073f02c71f21f174e17794799f6&p=1655826&postcount=10
ان میں سے صرف پانچویں اور ساتویں شق ہماری بحث میں موجود نسخوں میں پائی جاتی ہے یعنی وہ نسخہ جسے کسی عالم ثقہ نے لکھا ہو، راجح ہوتا ہے (یہ قاسم بن قطلوبغا کے نسخے میں پائی جاتی ہے۔) اور وہ نسخہ جس پر علماء کی تعلیقات ہوں، راجح ہوتا ہے (یہ مرتضی زبیدی، مکتبہ ظاہریہ کے نسخوں میں پائی جاتی ہے اور ابواب کی حد تک عابد سندھیؒ کے نسخے میں بھی موجود ہے۔)۔ کسی نسخہ کے ناسخ کا معلوم ہونا بھی پانچویں شق کے تحت آتا ہے۔
مکتبہ ظاہریہ کے نسخے میں "تحت السرۃ" کی زیادتی موجود نہیں ہے۔ یہ سب سے قدیم نسخہ ہے۔ اس کے شیخ عوامہ اور شیخ اسامہ بن ابراہیم کے مطابق دو نسخے ہیں جنہیں ہم الف اور ب سے ذکر کرتے ہیں۔
الف: اس کی چھ جلدیں موجود ہیں یعنی پہلی، دوسری، ساتویں، آٹھویں، گیارہویں اور بارہویں۔
ان میں سے اول دو الگ خط میں ہیں اور باقی چار الگ خط میں۔ اول دو کا نہ تو ناسخ معلوم ہے اور نہ ہی تاریخ نسخ۔ اور جس حدیث پر ہماری بحث ہے وہ جلد اول میں ہے۔
ب: یہ نسخہ امام نوویؒ کے پاس رہا ہے۔ اس کی تاریخ نسخ ۷۳۵ھ ہے لیکن بدقسمتی سے اس کے ناسخ کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔
یہ تاریخ اس پر درج ہے ان الفاظ میں سنۃ خمس و ثلاثین و سبع مائۃ۔ امام نووی کا ذکر شیخین نے اس وجہ سے کیا ہے کہ اس کی ابتدا میں تعلیقا ذکر ہے قال الشیخ محیی الدین رحمہ اللہ۔ اور انتہائی عجیب بات یہ ہے کہ محیی الدین یحیی بن شرف نووی کی وفات زرکلی اور ابن کثیر کے مطابق ۶۷۶ھ میں ہے (الاعلام، طبقات الشافعیین)۔ تو یہ نسخہ لکھے جانے سے پہلے کیسے ان کے پاس آگیا؟ یا تو محیی الدین سے کوئی اور مراد ہیں اور یا پھر ناسخ نے اسے قدیم ثابت کرنے کی کسی وجہ سے کوشش کی ہے۔
بہر حال جو بھی ہو اگر یہ بات درست ہے کہ یہ ۷۳۵ھ میں لکھا گیا ہے تو اس کے صرف ۶ سال بعد یوسف بن عبد اللطیف نے مرتضی زبیدی کے نسخے کی کتابت شروع کردی تھی۔ اس کی پہلی جلد کی کتابت ۷۴۱ھ میں ہوئی ہے۔ پھر یہ مرتضی زبیدی اور علامہ عینی کے پاس رہا ہے اور ان کی تعلیقات اس پر ہیں۔ (عینی کی تعلیقات چوتھی اور پانچویں جلد میں ہیں)
یہ قدیم بھی ہے۔ اس کا ناسخ بھی معلوم ہے۔ شیخ اسامہ کے مطابق واضحۃ جیدۃ بھی ہے۔ علماء کی اس پر تعلیقات بھی موجود ہیں۔
پھر مزید اس کی تائید شیخ عابد سندھی کے نسخے سے بھی اس روایت میں ہوتی ہے کیوں کہ وہ اس سے نقل نہیں کیا گیا جس پر شاہد یہ ہے کہ اگلا اثر اس میں موجود نہیں ہے جب کہ عابد سندھی کے نسخے میں موجود ہے۔ پھر مزید ایک نسخہ وہ ہے جسکا ذکر ملا قائم سندھیؒ (کما قال الاوکارویؒ) اور ہاشم سندھیؒ (درہم الصرۃ) نے کیا ہے کہ اس پر ہر صفحے پر تقابل و تصحیح کی علامات موجود ہیں اور اس کا تقابل متعدد بار کیا گیا ہے اور وہ تھا بھی ایک بڑے عالم یعنی قاسم بن قطلوبغا کے پاس۔
اس سب کو دیکھتے ہوئے ہمیں یہی علم ہوتا ہے کہ یہ زیادتی نہ صرف اس روایت میں موجود ہے بلکہ تحقیق کی رو سے اس کا باقی رکھنا بھی اس کے حذف کرنے سے زیادہ بہتر ہے چہ جائیکہ اسے تحریف کہا جائے۔
3: تیسرا اصول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ رواۃ کی زیادتی تو قبول ہوتی ہے لیکن ناسخ کی زیادتی قبول نہیں ہوتی بلکہ وہ تحریف کہلاتی ہے۔ یہ اصول درست ہے لیکن جزوی طور پر۔ زیادتی ناسخ کی ممکنہ وجوہات یہ ہیں:۔
1۔ مولف اول کتاب دو بار تحریر کرے اور ایک نسخے میں زیادتی کرے اور ایک میں نہیں۔
2۔ مولف املاء کروائے اور ایک طالب زیادتی لکھ لے اور دوسرا نہیں۔
3۔ مولف املاء کرواتے وقت کسی وجہ سے کسی لفظ کو پست آواز میں ادا کرے تو قریب والا ناسخ لکھ لے اور دور والا نہ لکھ سکے۔
4۔مولف سے ایک ہی نسخہ ہو اور بعد میں کوئی استاد اس طرح املاء کروائے اور مندرجہ تین معاملات میں سے کوئی ہو۔
5۔ مولف سے ایک ہی نسخہ ہو اور اس سے لکھنے والا ناسخ اس لفظ کو نہ لکھے غلطی سے۔
6۔ مولف سے ایک ہی نسخہ ہو اور لکھنے والا ناسخ نہ لکھے تحریف کی وجہ سے۔
7۔ مولف سے ایک ہی نسخہ ہو اور لکھنے والا ناسخ اس لفظ کو بڑھا دے غلطی سے۔
8۔ مولف سے ایک ہی نسخہ ہو اور لکھنے والا ناسخ اس لفظ کو بڑھائے تحریفا۔
9۔ ناسخ لفظ کو ساقط کرے کسی دلیل کی بنا پر۔
میرا خیال ہے کہ مزید کوئی صورت ممکن نہیں ہے۔ اور یہ سب احتمال ایک زیادتی میں ہیں۔ جب تک کوئی دلیل نہیں موجود ہم کسی کو متعین نہیں کر سکتے۔ ان میں سے سات احتمالات ایسے ہیں جن میں یہ زیادتی مقبول ہوگی۔ روایت میں بھی شاید اسی وجہ سے ثقہ اگر ثقات کے خلاف روایت کرے تو وہ متہم بالکذب نہیں ہوتا۔ لہذا اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بھی ہم اس زیادتی کو قبول کرنے کو ہی زیادہ مناسب سمجھ سکتے ہیں۔
زیادتی ثقہ کے بارے میں ایک اصول کی وضاحت:۔
علامہ زیلعیؒ (المتوفی ۷۶۲ھ) نے نصب الرایہ میں ایک اصول بیان کیا ہے:۔
فإن قيل: قد رواها نعيم المجمر، وهو ثقة، والزيادة من الثقة مقبولة، قلنا: ليس ذلك مجمعا عليه، بل فيه خلاف مشهور، فمن الناس من يقبل زيادة الثقة مطلقا، ومنهم من لا يقبلها، والصحيح التفصيل، وهو أنها تقبل في موضع دون موضع، فتقبل إذا كان الراوي الذي رواها ثقة حافظا ثبتا، والذي لم يذكرها مثله، أو دونه في الثقة، كما قبل الناس زيادة مالك بن أنس، قوله: من المسلمين في صدقة الفطر، واحتج بها أكثر العلماء، وتقبل في موضع آخر لقرائن تخصها، ومن حكم في ذلك حكما عاما فقد غلط
نصب الرایۃ ۱۔۳۳۶ ط مؤسسۃ الریان
اس اصول سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ثقہ راوی اپنے برابر یا اپنے سے کم درجہ کے راوی کے مقابلے میں زیادتی کرے تو اس کی زیادتی قبول ہے اور اگر اپنے سے زیادہ درجہ کے راوی کے مقابلے میں زیادتی کرے تو قبول نہیں۔ جب کہ یہاں پر ابن ابی شیبہ اپنی جلالت شان کے باوجود احمد بن حنبل جیسے فقیہ و محدث سے درجہ میں کم ہیں لہذا یہ زیادتی قبول نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن حافظ ابن حجرؒ نے اس کے برخلاف اصول بیان کیا ہے:۔
القسم الثالث منها ما تفرد بعض الرواة بزيادة فيه دون من هو أكثر عددا أو أضبط ممن لم يذكرها فهذا لا يؤثر التعليل به إلا إن كانت الزيادة منافية بحيث يتعذر الجمع إما إن كانت الزيادة لا منافاة فيها بحيث تكون كالحديث المستقل فلا اللهم إلا إن وضح بالدلائل القوية أن تلك الزيادة مدرجة في المتن من كلام بعض رواته فما كان من هذا القسم فهو مؤثر
فتح الباری ۱۔۳۴۷ ط دار المعرفۃ
اس اصول سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ثقہ راوی اگر اپنے سے زیادہ ضبط رکھنے والے راوی یا اکثر رواۃ کے برخلاف زیادتی کو روایت کرے تو بھی اس کی زیادتی مقبول ہے بشرطیکہ دیگر کی روایت کے منافی نہ ہو۔ الا یہ کہ دلائل قویہ سے اس زیادتی کا باطل ہونا ظاہر ہو جائے۔
میرا یہ خیال ہے کہ درحقیقت یہ ایک دقیق اجتہادی نکتہ ہے۔ اصل تو یہ ہے کہ زیادتی ثقہ غیر منافی قبول ہو لیکن اجتہادی قرائن و دلائل کی روشنی میں کسی عالم مجتہد کے نزدیک یہ غیر مقبول بھی ہو سکتی ہے جیسے ایک راوی کثیر رواۃ کے خلاف روایت کرے تو یہاں خاطر اسی جانب مائل ہوتی ہے کہ اتنے زیادہ رواۃ کے خلاف اس کی زیادتی قبول نہیں ہونی چاہیے بخلاف اس کے کہ وہ چند رواۃ کے خلاف روایت کرے تو اس میں اس کا درست ہونا راجح معلوم ہوتا ہے۔
نتیجہ:۔
اس تمام بحث کے آخر میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی اس روایت میں یہ "تحت السرۃ" موجود بھی ہے اور یہ روایت بمع اس زیادۃ کے قبول کرنے کے لائق ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس روایت میں انتہائی معمولی سا شبہ بھی موجود ہے۔ اگر اس کے مقابلے میں فوق السرۃ یا علی الصدر کی کی مجمع علیہ صحیح روایت مل جائے تو اسے اس تنہا روایت پر ترجیح ہوگی۔ لیکن چوں کہ ابھی تک ایسی کوئی روایت موجود نہیں ہے اس لیے اس موضوع پر موجود تمام روایات میں یہ سب سے اعلی درجہ کی روایت ہے۔ اس میں موجود معمولی سے شبہ کی وجہ سے اگر کوئی عالم مجتہد اس پر اعتماد نہ ہوتے ہوئے اس کے مطابق عمل نہیں کرتا تو وہ (بندہ کی رائے میں) قابل ملامت نہیں اور اگر کوئی اس سے زیادہ صحیح مجمع علیہ روایت کے ہوتے ہوئے اسے بھی صحیح جان کر اس کے مطابق عمل کرتا ہے تو وہ بھی لائق طعن نہیں ہے۔ لیکن اوفق بالتحقیق یہ ہے کہ اسے علی الصدر کی روایات پر ترجیح دی جائے۔
اللہ پاک ہم سب کو اپنے دین کی صحیح سمجھ اور تعصب سے بالا تر علم عطا فرمائیں۔
واللہ اعلم بالصواب۔