بیع العینہ۔ صورتیں و حکم
بیع العینہ ایک ایسی بیع ہے جسے قرض کی جگہ استعمال کیا جانا عقلا ممکن ہے اور اس میں قرض دینے والے کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ اس کی صورتیں اور اس کا حکم درج ہے:۔
صورتیں:
بیع العینہ کی فقہاء کرام نے مختلف صورتیں ذکر کی ہیں۔
اول: کسی شخص کو دس درہم قرض چاہیے ہو اور وہ کسی امیر شخص سے قرض مانگے تو وہ امیر اسے کہے کہ میں قرض تو نہیں دیتا البتہ یہ دس درہم کا کپڑا تم پندرہ درہم میں ادھار ثمن پر لے لو اور بازار میں دس درہم نقد پر بیچ دو۔
قال بعضهم تفسيرها أن يأتي الرجل المحتاج إلى آخر ويستقرضه عشرة دراهم ولا يرغب المقرض في الإقراض طمعا في الفضل الذي لا يناله في القرض فيقول ليس يتيسر علي الإقراض ولكن أبيعك هذا الثوب إن شئت باثني عشر درهما وقيمته في السوق عشرة لتبيع في السوق بعشرة فيرضى بها المستقرض فيبيعه المقرض منه باثني عشر درهما ثم يبيعه المشتري في السوق بعشرة ليحصل لرب الثوب ربح درهمين بهذه التجارة ويحصل للمستقرض قرض عشرة
الفتاوی الهندیۃ ۳۔ ۲۰۸ ط دار الفكر
ثانی: كسی شخص كو دس درہم قرض چاہیے ہو اور دوسرا شخص اسے دس درہم کا کپڑا اولا پندرہ درہم میں بیچے اور پھر اس سے واپس دس درہم میں خرید لے۔
قال الرافعي: وبيع العينة هو أن يبيع شيئا من غيره بثمن مؤجل ويسلمه إلى المشتري ثم يشتريه قبل قبض الثمن بثمن نقد أقل من ذلك القدر انتهى.
نیل الأوطار ۵۔۲۴۵ ط دار الحدیث
ثالث: کسی شخص کو دس درہم قرض چاہیے ہو۔ دوسرا شخص اسے دس درہم کا کپڑا پندرہ درہم میں ادھار ثمن کے ساتھ فروخت کر دے۔ پھر وہ تیسرے شخص کو بھیجے جو اس سے وہ کپڑا دس درہم کا خرید کر دس درہم کا ہی بائع اول یعنی دوسرے شخص کو بیچ دے۔ تو اس طرح پہلے شخص کے پاس دس درہم آ گئے۔ اور اسے کپڑے کے ثمن کے طور پر دوسرے شخص کو پندرہ درہم ادا کرنے ہیں۔
وقال بعضهم تفسيرها أن يدخلا بينهما ثالثا فيبيع المقرض ثوبه من المستقرض باثني عشر درهما ويسلم إليه ثم يبيع المستقرض من الثالث الذي أدخلاه بينهما بعشرة ويسلم الثوب إليه ثم إن الثالث يبيع الثوب من صاحب الثوب وهو المقرض بعشرة ويسلم الثوب إليه ويأخذ منه العشرة ويدفعها إلى طالب القرض فيحصل لطالب القرض عشرة دراهم ويحصل لصاحب الثوب عليه اثنا عشر درهما كذا في المحيط
الفتاوی الهندیۃ ۳۔۲۰۸
حکم بیع العینہ:
بیع العینہ کے بارے میں اختلاف ہے۔ امام ابو یوسفؒ سے نہ صرف جواز کا قول منقول ہے بلکہ اجر ہونے کا قول بھی منقول ہے۔
قال في الفتح: وقال أبو يوسف: لا يكره هذا البيع؛ لأنه فعله كثير من الصحابة وحمدوا على ذلك ولم يعدوه من الربا حتى لو باع كاغدة بألف يجوز ولا يكره.
رد المحتار ۵۔۳۲۶ ط دار الفكر
وعن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - العينة جائزة مأجور من عمل بها كذا في مختار الفتاوى
الفتاوی الهندیۃ
جبکہ امام محمدؒ سے اس کی کراہت (یعنی تحریمی) کا قول نقل کیا گیا ہے:
وقال محمد: هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا، وقد ذمهم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: «إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم» أي اشتغلتم بالحرث عن الجهاد.
وفي رواية «سلط عليكم شراركم فيدعوا خياركم فلا يستجاب لكم» وقيل إياك والعينة فإنها اللعينة.
رد المحتار
دلائل کے لحاظ سے امام محمدؒ کا مسلک راجح معلوم ہوتا ہے۔( لیکن یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا واقعی صحابہ کرام رض کا طرز عمل بیع عینہ بالشرط کا رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اس مسئلہ اور اس کے بارے میں دلائل کا جائزہ لینا چاہیے۔)
ابن الہمامؒ نے اس کے بارے میں یہ رائے بیان کی ہے کہ اگر بیع کی صورت ایسی بنا دی جائے کہ عین بائع اول کے پاس لوٹ آئے تو یہ مکروہ تحریمی ہے۔ اور اگر لوٹ کر نہ آئے تو یہ جائز ہے۔ الا یہ کہ بعض محتمل صورتوں میں خلاف اولی ہے جیسا کہ بائع اول دنیاوی حرص کی وجہ سے یہ کام کرے۔ اور اگر کسی عذر کی وجہ سے کرے تو اس میں کوئی کراہت نہیں۔
ثم الذي يقع في قلبي أن ما يخرجه الدافع إن فعلت صورة يعود فيها إليه هو أو بعضه كعود الثوب أو الحرير في الصورة الأولى، وكعود العشرة في صورة إقراض الخمسة عشر فمكروه، وإلا فلا كراهة إلا خلاف الأولى على بعض الاحتمالات كأن يحتاج المديون فيأبى المسئول أن يقرض بل أن يبيع ما يساوي عشرة بخمسة عشر إلى أجل فيشتريه المديون ويبيعه في السوق بعشرة حالة، ولا بأس في هذا فإن الأجل قابله قسط من الثمن والقرض غير واجب عليه دائما بل هو مندوب، فإن تركه بمجرد رغبة عنه إلى زيادة الدنيا فمكروه أو لعارض يعذر به فلا، وإنما يعرف ذلك في خصوصيات المواد وما لم ترجع إليه العين التي خرجت منه لا يسمى بيع العينة؛ لأنه من العين المسترجعة لا العين مطلقا وإلا فكل بيع بيع العينة.
فتح القدیر ۷۔۲۱۳ ط دار الفكر
اسی رائے کو دیگر علماء نے بھی اختیار فرمایا ہے اور علامہ شامیؒ کی رائے بھی یہی معلوم ہوتی ہے:
وأقره في البحر والنهر والشرنبلالية وهو ظاهر، وجعله السيد أبو السعود محمل قول أبي يوسف، وحمل قول محمد والحديث على صورة العود. هذا۔
رد المحتار
البتہ اگر بیع میں کسی قسم کی شرط نہ ہو بلکہ وہ اتفاقا بائع اول کے پاس واپس آ جائے تو اس میں بھی کراہت معلوم نہیں ہوتی کیوں کہ اس میں اعراض عن مبرۃ القرض کی علت نظر نہیں آتی۔
ہذا ما صنح لی۔ واللہ اعلم۔
بیع العینہ ایک ایسی بیع ہے جسے قرض کی جگہ استعمال کیا جانا عقلا ممکن ہے اور اس میں قرض دینے والے کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ اس کی صورتیں اور اس کا حکم درج ہے:۔
صورتیں:
بیع العینہ کی فقہاء کرام نے مختلف صورتیں ذکر کی ہیں۔
اول: کسی شخص کو دس درہم قرض چاہیے ہو اور وہ کسی امیر شخص سے قرض مانگے تو وہ امیر اسے کہے کہ میں قرض تو نہیں دیتا البتہ یہ دس درہم کا کپڑا تم پندرہ درہم میں ادھار ثمن پر لے لو اور بازار میں دس درہم نقد پر بیچ دو۔
قال بعضهم تفسيرها أن يأتي الرجل المحتاج إلى آخر ويستقرضه عشرة دراهم ولا يرغب المقرض في الإقراض طمعا في الفضل الذي لا يناله في القرض فيقول ليس يتيسر علي الإقراض ولكن أبيعك هذا الثوب إن شئت باثني عشر درهما وقيمته في السوق عشرة لتبيع في السوق بعشرة فيرضى بها المستقرض فيبيعه المقرض منه باثني عشر درهما ثم يبيعه المشتري في السوق بعشرة ليحصل لرب الثوب ربح درهمين بهذه التجارة ويحصل للمستقرض قرض عشرة
الفتاوی الهندیۃ ۳۔ ۲۰۸ ط دار الفكر
ثانی: كسی شخص كو دس درہم قرض چاہیے ہو اور دوسرا شخص اسے دس درہم کا کپڑا اولا پندرہ درہم میں بیچے اور پھر اس سے واپس دس درہم میں خرید لے۔
قال الرافعي: وبيع العينة هو أن يبيع شيئا من غيره بثمن مؤجل ويسلمه إلى المشتري ثم يشتريه قبل قبض الثمن بثمن نقد أقل من ذلك القدر انتهى.
نیل الأوطار ۵۔۲۴۵ ط دار الحدیث
ثالث: کسی شخص کو دس درہم قرض چاہیے ہو۔ دوسرا شخص اسے دس درہم کا کپڑا پندرہ درہم میں ادھار ثمن کے ساتھ فروخت کر دے۔ پھر وہ تیسرے شخص کو بھیجے جو اس سے وہ کپڑا دس درہم کا خرید کر دس درہم کا ہی بائع اول یعنی دوسرے شخص کو بیچ دے۔ تو اس طرح پہلے شخص کے پاس دس درہم آ گئے۔ اور اسے کپڑے کے ثمن کے طور پر دوسرے شخص کو پندرہ درہم ادا کرنے ہیں۔
وقال بعضهم تفسيرها أن يدخلا بينهما ثالثا فيبيع المقرض ثوبه من المستقرض باثني عشر درهما ويسلم إليه ثم يبيع المستقرض من الثالث الذي أدخلاه بينهما بعشرة ويسلم الثوب إليه ثم إن الثالث يبيع الثوب من صاحب الثوب وهو المقرض بعشرة ويسلم الثوب إليه ويأخذ منه العشرة ويدفعها إلى طالب القرض فيحصل لطالب القرض عشرة دراهم ويحصل لصاحب الثوب عليه اثنا عشر درهما كذا في المحيط
الفتاوی الهندیۃ ۳۔۲۰۸
حکم بیع العینہ:
بیع العینہ کے بارے میں اختلاف ہے۔ امام ابو یوسفؒ سے نہ صرف جواز کا قول منقول ہے بلکہ اجر ہونے کا قول بھی منقول ہے۔
قال في الفتح: وقال أبو يوسف: لا يكره هذا البيع؛ لأنه فعله كثير من الصحابة وحمدوا على ذلك ولم يعدوه من الربا حتى لو باع كاغدة بألف يجوز ولا يكره.
رد المحتار ۵۔۳۲۶ ط دار الفكر
وعن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - العينة جائزة مأجور من عمل بها كذا في مختار الفتاوى
الفتاوی الهندیۃ
جبکہ امام محمدؒ سے اس کی کراہت (یعنی تحریمی) کا قول نقل کیا گیا ہے:
وقال محمد: هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا، وقد ذمهم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: «إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم» أي اشتغلتم بالحرث عن الجهاد.
وفي رواية «سلط عليكم شراركم فيدعوا خياركم فلا يستجاب لكم» وقيل إياك والعينة فإنها اللعينة.
رد المحتار
دلائل کے لحاظ سے امام محمدؒ کا مسلک راجح معلوم ہوتا ہے۔( لیکن یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا واقعی صحابہ کرام رض کا طرز عمل بیع عینہ بالشرط کا رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اس مسئلہ اور اس کے بارے میں دلائل کا جائزہ لینا چاہیے۔)
ابن الہمامؒ نے اس کے بارے میں یہ رائے بیان کی ہے کہ اگر بیع کی صورت ایسی بنا دی جائے کہ عین بائع اول کے پاس لوٹ آئے تو یہ مکروہ تحریمی ہے۔ اور اگر لوٹ کر نہ آئے تو یہ جائز ہے۔ الا یہ کہ بعض محتمل صورتوں میں خلاف اولی ہے جیسا کہ بائع اول دنیاوی حرص کی وجہ سے یہ کام کرے۔ اور اگر کسی عذر کی وجہ سے کرے تو اس میں کوئی کراہت نہیں۔
ثم الذي يقع في قلبي أن ما يخرجه الدافع إن فعلت صورة يعود فيها إليه هو أو بعضه كعود الثوب أو الحرير في الصورة الأولى، وكعود العشرة في صورة إقراض الخمسة عشر فمكروه، وإلا فلا كراهة إلا خلاف الأولى على بعض الاحتمالات كأن يحتاج المديون فيأبى المسئول أن يقرض بل أن يبيع ما يساوي عشرة بخمسة عشر إلى أجل فيشتريه المديون ويبيعه في السوق بعشرة حالة، ولا بأس في هذا فإن الأجل قابله قسط من الثمن والقرض غير واجب عليه دائما بل هو مندوب، فإن تركه بمجرد رغبة عنه إلى زيادة الدنيا فمكروه أو لعارض يعذر به فلا، وإنما يعرف ذلك في خصوصيات المواد وما لم ترجع إليه العين التي خرجت منه لا يسمى بيع العينة؛ لأنه من العين المسترجعة لا العين مطلقا وإلا فكل بيع بيع العينة.
فتح القدیر ۷۔۲۱۳ ط دار الفكر
اسی رائے کو دیگر علماء نے بھی اختیار فرمایا ہے اور علامہ شامیؒ کی رائے بھی یہی معلوم ہوتی ہے:
وأقره في البحر والنهر والشرنبلالية وهو ظاهر، وجعله السيد أبو السعود محمل قول أبي يوسف، وحمل قول محمد والحديث على صورة العود. هذا۔
رد المحتار
البتہ اگر بیع میں کسی قسم کی شرط نہ ہو بلکہ وہ اتفاقا بائع اول کے پاس واپس آ جائے تو اس میں بھی کراہت معلوم نہیں ہوتی کیوں کہ اس میں اعراض عن مبرۃ القرض کی علت نظر نہیں آتی۔
ہذا ما صنح لی۔ واللہ اعلم۔