امت محمدیہ میں سب سے پہلا اجماع
حضور ﷺ کے وصال کے بعد امت محمدیہ میں جو سب سے پہلے اجماع ہوا وہ اسی مسئلہ پر ہوا کہ جو شخص محمد رسول ﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کر ے اس کو قتل کیا جائے ۔ اسود عنسی نے حضور ﷺ کے زمانہ حیات میں دعویٰ نبوت کیا حضور ﷺ نے ایک صحابی کو اسکے قتل کیلئے روانہ فر مایا صحابی نے جاکر اسود عنسی کا سر قلم کیا۔ مسیلمہ کذاب نے بھی دعویٰ نبوت کیا صدیق اکبر نے نے خلافت کے بعد سب سے پہلا کام جوکام کیا وہ یہ تھا کہ مسیلمہ کذاب کے قتل اور اسکی جماعت کے مقابلہ اور مقابلہ کیلئے خالد بن سیف اللہ کی سر کردگی میں صحابہ کرام کا ایک لشکر روانہ کیا کسی صحابی نے مسیلمہ سے یہ سوال نہیں کیا کہ تو کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے ، مستقل نبوت کا مدعی ہے یا ظلی اور بروزی نبوت کا مدعی ہے اور نہ کسی نے مسیلمہ کذاب سے اس نبوت کے دلائل اور برا ہین پو چھے اور نہ کو ئی معجزہ دکھلانے کا سوال کیا ۔ صحابہ کرام کا لشکر میدان کا رزار میں پہو نچا مسیلمہ کذاب کیساتھ چالیس ہزار جوان تھے خالد بن ولید سیف اللہ نے جب تلوار پکڑی تو مسیلمہ کے اٹھائیس ہزار جوان مارے گئے اور خود مسیلمہ مارا گیا خالد بن ولید مظفر ومنصورمدینہ منورہ واپس ہو ئے اور مال غنیت مجاہدین پر قسیم کیا گیا ۔ مسیلمہ کے بعد طلیحہ نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کیلئے بھی حضر ت خالد رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا ۔ فتوح الشام ص ۱۰۲
اسکے بعد خلیفہ عبد الملک عہد میں حارث نامی ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا خلیفہ وقت نے علماء صحابہ وتابعین کے متفقہ فتوے سے اس کو قتل کر کے سولی پر چڑھا دیا اور کسی نے اس سے دریافت نہ کیا کہ تیری نبوت کی کیا دلیل ہے اور نہ کوئی بحث اور نہ کوئی مناظرہ کی نوبت اور نہ معجزات اور دلائل طلب کئے ۔