روئے زمین کا مقدس پانی۔۔۔ زم زم ۔۔۔شفاء بھی غذا بھی

محمد یوسف صدیقی

وفقہ اللہ
رکن
روئے زمین کا مقدس پانی۔۔۔ زم زم ۔۔۔شفاء بھی غذا بھی

احمد سلیم مظہر چغتائی کہروڑ پکا

بیت اللہ میں مقامِ ابراہیم کے نزدیک زمزم کامشہور اور با برکت کنواں (چشمہ ) موجود ہے۔ جس کی تاریخ تقریباً چار ہزار سال پہلے سے شروع ہوتی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دو طویل روایات منقول ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی حاجرہ اور بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے لے کر چلے اور کعبۃ اللہ کے قریب ایک درخت کے نیچے زمزم کے موجودہ مقام کے بالائی حصہ پر ان کو بے آب و گیاہ علاقہ میں چھوڑ دیا۔اور زوجۂ محترمۃ کو ایک مشکیزہ پانی اور تھیلی میں کھجور دے کر وہاں سے رخصت ہو گئے۔ جب ایسی جگہ پہنچے جہاں سے ان کی بیوی اور لخت جگر ان کی نظروں سے اوجھل تھے تو کعبۃ اللہ کی طرف رخ کر کے یہ دعا فرمائی:
(سورت ابراہیم: 37پ13)
ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصہ کو تیرے محترم گھر کے پاس لا آباد کیا ہے۔ پروردگار! یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں پس تو اپنے فضل وکرم سے ایسا کر کہ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہو جائیں اور ان کے لیے پھلوں سے رزق عطا فرما تاکہ یہ تیرے شکر گذار ہوں۔
حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا چند روز تک مشکیزہ سے پانی پیتی اور تھیلی سے کھجوریں کھاتی رہیں اور بچے کو دودھ پلاتی رہیں آخر یہ توشہ ختم ہو گیا تو سخت پریشان ہوئیں۔ بچہ بھی بھوک پیاس سے تڑپنے لگا تو بی بی ہاجرہ نے اپنے نورِ نظر کو چھوڑ کر دور جا بیٹھیں تاکہ اپنی آنکھوں سے بچے کی بے تابی کا کرب ناک منظر نہ دیکھیں مگر پھر کچھ سوچ کر قریب کی پہاڑی صفا پر چڑھیں کہ شاید کوئی آبادی نظر پڑے پھر بچے کی محبت سے مجبور ہو کر وادی میں آئیں۔ پھر دوسری جانب مروہ کی پہاڑی پر چڑھ گئیں جب وہاں بھی کچھ نظر نہ آیا تو تیزی سے لوٹ کر واپس آگئیں اور اسی طرح آپ نے سات چکر لگائے (سرکارِ دو عالمﷺ کے ارشاد کے مطابق حضرت ہاجرہ کے اس واقعہ کی یاد گار کے طور پر حج اور عمرہ کے دوران صفاء مروہ کے درمیان سعی کی جاتی ہے اور سات چکر لگائے جاتے ہیں ) حضرت ہاجرہ کے اس کرب و پریشانی پر رحمت ِ حق جوش میں آئی اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرائیل امین نے پَر مارا جہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام بھوک اور پیاس کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رہے تھے جس کے نتیجہ میں وہاں پانی ابلنے لگا۔ جب پانی زیادہ پھیلنے لگا تو حضرت ہاجرہ نے اسے محفوظ کرنے کے لیے منڈیر بنائی مگر چشمہ بدستور ابلتا رہا چنانچہ اضطراری طور پر ان کی زبان سے نکلا ’’زم زم ‘‘ ایک روایت کی مطابق سریانی زبان میں زم زم کا مطلب ہے رک جا، رک جا۔ چنانچہ بعد ازاں یہ چشمہ زم زم کے نام سے ہی موسوم ہوا۔
نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ام اسماعیل پر رحم فرمائے اگر وہ زمزم کو اس طرح نہ روکتیں تو آج یہ چشمہ بہت وسیع و عریض ہوتا۔
زم زم کے مختلف نام
تاریخ اور سیرت کی کتب میں اس چشمہ کے مختلف نام مشہور ہیں۔ جن میں چند یہ ہیں۔ ’’زم زم، مکتومہ، شباعہ، سقیاء، ہزمتہ جبرئیل، شفاء سقم، طعامِ طعم، زمزام، زوازم، زوزم وغیرہ‘‘ ۔ (لسان العرب جلد: 1 ص: 166)
بعض مؤرخین اور علمائے لغت کی رائے ہے کہ زم زم لفظ زمزمۃ سے ماخوذ ہے۔ اس پانی کو اس لیے زم زم کہا گیا کہ اس کے نکلنے سے زمزمہ پیدا ہوا۔ عربی لغت میں زمزم اور زمزمہ سے مراد دور سے گنگناہٹ سنائی دینا، بکھری ہوئی چیز کو جمع کرنا، کسی چیز کی حفاظت کرنا اور بہت زیادہ مقدار میں پانی جمع ہونا ہے۔ (مصباح اللغات مطبوعہ ندوۃ المصنفین دہلی، ص: 321)
زم زم کا کیمیائی تجزیہ
جدید سائنسی لیبارٹریوں میں زم زم کے کیمیائی تجزیہ پر اس مبارک پانی میں حسب ذیل اجزاء پائے گئے۔
(1) میگنیشیم سلفیٹ۔ (2) سوڈیم سلفیٹ۔ (3) سوڈیم کلورائیڈ۔ (4) پوٹاشیم نائیٹریٹ۔ (5) کیلشیم کاربونیٹ۔ (6) ہائیڈروجن سلفائیڈ۔
اب ہم مختصراً جائزہ لیتے ہیں کہ مندرجہ اجزاء میں کیا خواص پائے جاتے ہیں۔
میگنیشیم سلفیٹ
اس کا استعمال اعضاء کی حرارت ختم کرتا ہے۔قے، متلی اور دورانِ سر کے لیے بے حد مفید ہے۔ ریاحی امراض کو دور کرکے درست کرتا ہے۔
سوڈیم سلفیٹ
یہ ایک خاص قسم کا نمک ہے جو قبض دور کرتا ہے۔ جوڑوں کے درد کے لیے مفید ہے۔ ذیابیطس (شوگر) خونی پیچس، پتھری اور استسقاء کے مریضوں کے لیے علاج کا درجہ رکھتا ہے۔
سوڈیم کلورائیڈ
انسانی خون کے لیے یہ نمک بہت اہم ہے۔ تنفس (سانس ) کی صفائی اور جسمانی نظام کی بہتری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ آنتوں اور پیٹ کے مسلسل درد نیز ہیضہ کی تکلیف کا علاج ہے۔ متعدد قسم کے زہروں کا تریاق ہے خصوصاً کوئلے کے دھوئیں سے پیدا ہونے والی زہریلی گیس (کار بن مونو آکسائیڈ ) کا اثر اس کے استعمال سے فوراً زائل ہو جاتا ہے۔ یہ نمک اعضائے جسمانی کی کمزوری کو بھی دور کرتا ہے۔
کیلشیم کار بونیٹ
خوراک کو ہضم کرنے، پتھری کو توڑنے اور جوڑوں کے درد کے لیے مفید ہے۔ اعضاء کی حدّت اور گرمی اور گرم لُو کے اثر کو زائل کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
پوٹاشیم نائیٹریٹ
تھکن اور لُو کے اثر کو زائل کرتا ہے۔ پیشاب آور ہے۔ دمہ کے لیے مفید ہے ۔ پسینہ بکثرت لاتا ہے۔ زم زم کو ٹھنڈا رکھنے میں اس عنصر کا بڑا دخل ہے۔
ہائیڈروجن سلفائیڈ
تمام جِلدی امراض خصوصاً گلے کی گلٹیوں کے لیے نفع بخش ہے۔ شدید زکام کی حالت میں اس کا استعمال سے راحت ہوتی ہے۔ جراثیم کش ہے۔ اس کے استعمال سے ہیضہ کے جراثیم ختم ہوجا تے ہیں۔ قوتِ حافظہ کو خصوصاً اور دوسری طاقتوں کو عموماً تقویت پہنچاتا ہے۔ غذا کو ہضم کر کے بھوک بڑھاتا ہے۔ بواسیر کے مریضوں کے لیے بے حد مفید ہے۔
زم زم کی تاریخ
جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے زم زم کی ابتداء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد مبارک میں ہوئی تاہم جب اہلِ مکہ نے توحید سے منہ موڑ کر شرک کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ناراضگی کے اظہار کے طور پر زم زم میں کمی کر دی، چنانچہ یہ پانی کم ہونے لگا حتی کہ زم زم کا چشمہ زمین کی تہہ میں جانے لگا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس کے آثار مٹ گئے۔ ازراقی اور فاکہی جیسے قدیم مؤرخین نے لکھا ہے کہ قبیلہ جُرہم جو اس واقعہ کے بعد یہاں آکر آباد ہوا تھا کے معمر اور صالح شخص مضاض بن عمرو بن الحارث نے اپنی قوم کو جمع کیا اور کہا کہ لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ اللہ کے حضور معافی مانگو اور حرم پاک کی حرمت کو برقرار رکھو اور یاد رکھو کہ اگر تم نے شرک سے توبہ نہ کی برائیوں کی روش پر قائم رہے تو تم سے حرم پاک اور زم زم کی نعمت چھن جائے گی۔ قبیلہ جُرہم کے لوگوں نے اپنے بزرگ کی بات نہ مانی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان سے زم زم کی دولت چھین لی۔ وقت گذرتا رہا حتی کہ طویل عرصہ بعد جب نبی اکرمﷺ کے داددا عبد المطلب بن ہاشم کا دور آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کاملہ سے عبد المطلب کو زم زم کے چشمہ کی جگہ اور نشانیوں سے آگاہ فرمایا، انہوں نے ہدایات کے مطابق چشمہ تلاش کیا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے زم زم کا چشمہ دوبارہ ظہور پذیر ہوا۔ جو آج بھی جاری ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا کے لوگ اس چشمہ سے سیراب ہو رہے ہیں حتی کہ ہر سال لاکھوں حجاج کرام لاکھوں ٹن پانی دنیا کے گوشے گوشے میں لے جاتے ہیں مگر پانی کی مقدار اور معیار میں کبھی کمی نہیں آتی۔
زم زم کے خواص و فضائل
٭حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ زم زم جنت کے چشموں میں سے ایک چشمہ ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ )
٭ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ روئے زمین کا سب سے بہترین پانی زم زم ہے۔ (طبرانی فی الکبیر )
٭ نبی مکرمﷺ نے فرمایا کہ زم زم بھوک اور پیاس کا علاج ہے اور ہر بیماری کی شفاء اس میں رکھی گئی ہے۔ (صحیح ابن حبان، الطبرانی )
اور یہ حقیقت ہے کہ زم زم میں اتنی غذائیت ہے کہ اگر کوئی شخص کئی روز تک زم زم پیتا رہے تو بھوک اور پیاس سے بے نیاز رہے گا۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ بی بی ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام غذا ختم ہونے کے بعد کافی دنوں تک زم زم پر ہی گذارا کرتے رہے۔
٭ ام ایمن رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ کو بھوک یا پیاس لگتی تو آپ زم زم پی لیتے۔ جب آپ کو کوئی تکلیف یعنی بیماری آتی تو بھی زم زم پیتے تھے۔ زم زم پینے کے بعد اگر آپ کو کوئی چیز کھانے کی پیش کی جاتی تو نہ کھاتے تھے اور فرماتے زم زم پینے سے بھوک مٹ چکی ہے۔ (طبقات ابن سعد )
٭ سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں پورے تیس دن (ایک ماہ ) صرف زم زم ہی پیتا رہا جبکہ مجھے کھانے کو اور کچھ نہ ملا میں زم زم پی کر اچھا خاصا موٹا ہو گیا۔ (صحیح مسلم )
اور جب یہ واقعہ رسول اللہﷺ کو سنایا تو آپ نے خود بھی اس کی تصدیق کی کہ واقعی زم زم میں بھر پور غذائیت ہے۔ ہر بھوک پیاس کا علاج اور ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔ صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ یہ پانی مبارک ہے۔
٭امام حاکم نے مستدرک میں آپ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ زم زم جس نیت اور ارادہ سے پیا جائے وہ پورا ہوتا ہے اگر اسے تم کسی بیماری سے شفاء کی نیت سے پیو تو اللہ تعالیٰ تمہیں شفاء دے گا۔
٭ امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امیر المومنین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارہ میں فرمایا کہ وہ جب حرم شریف میں آئے تو ڈول منگوا کر کنوئیں سے زم زم نکلوایا، زم زم چہرے اور سر پر ڈالا اور نوش فرمایا اور کہا کہ زم زم میں شفاء ہے۔ جس نیت سے پیا جائے پوری ہوتی ہے۔
٭ زم زم کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اسے پیتے وقت کی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما زم زم پیتے وقت یہ دعا مانگتے تھے:
’’ اللہم انی اسئلک علما نافعا ورزقا واسعا وشفاء من کل دائٍ ‘‘
’’اے اللہ! میں تجھ سے فائدہ دینے والے علم، وسیع رزق اور ہر بیماری سے شفاء کا
سوال کرتا ہوں۔ ‘‘
٭ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ زم زم پیتے وقت اپنے علم و اجتہاد کی دعاما نگتے تھے۔
٭ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں نے زم زم تین باتوں کے لیے پیا۔ صحیح نشانہ لگنے کے لیے، علم کے لیے اور دخول جنت کے لیے۔ چنانچہ میرا نشانہ کبھی خطا نہ ہوا۔ الحمد للہ علم سے بھی مجھے اللہ نے نوازا جبکہ اللہ سے امید ہے کہ دخول جنت بھی ہو گا۔
٭ روایات سے ثابت ہے کہ آپ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زم زم خوب سیر ہو کر پیتے تھے۔
٭ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ ہمارے اور منافقین کے درمیان یہ فرق ہے کہ وہ لوگ خوب سیر ہو کر زم زم نہیں پیتے۔ (ابن ماجہ، دار قطنی، المستدرک )
جہاں تک مکہ مکرمہ سے اپنے ہمراہ زم زم لانے کا تعلق ہے اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ روایات سے ثابت ہے کہ نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے زم زم اپنے لیے منگوایا اور ہمراہ بھی لے گئے۔ فتح مکہ کے بعد جب نبی اکرمﷺ مدینہ طیبہ واپس چلے گئے تو آپ نے مکہ مکرمہ کے نامور خطیب حضرت سہیل بن عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر زم زم طلب فرمایا خط میں آپ نے لکھا کہ میرا خط ملتے ہی زم زم بھیج دو چنانچہ حضرت سہیل رضی اللہ عنہ نے آبِ زم زم کی دو مشکیں اونٹ پر لاد کر مدینہ منورہ آپ کی خدمت اقدس میں بھیج دیں۔ (رسالات نبویہ )
فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ زم زم کا پانی خود اپنے ہاتھوں سے نکالا جائے اور قبلہ کی طرف رخ کر کے سیر ہو کر پیا جائے اور ہر سانس میں نظر اٹھا کر بیت اللہ کو دیکھے اور بچا ہوا پانی اپنے چہرے اور جسم پر مل لیا جائے۔
 

محمد صدیق قریشی

وفقہ اللہ
رکن
روئے زمین کا مقدس پانی۔۔۔ زم زم ۔۔۔شفاء بھی غذا بھی

احمد سلیم مظہر چغتائی کہروڑ پکا

بیت اللہ میں مقامِ ابراہیم کے نزدیک زمزم کامشہور اور با برکت کنواں (چشمہ ) موجود ہے۔ جس کی تاریخ تقریباً چار ہزار سال پہلے سے شروع ہوتی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دو طویل روایات منقول ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی حاجرہ اور بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے لے کر چلے اور کعبۃ اللہ کے قریب ایک درخت کے نیچے زمزم کے موجودہ مقام کے بالائی حصہ پر ان کو بے آب و گیاہ علاقہ میں چھوڑ دیا۔اور زوجۂ محترمۃ کو ایک مشکیزہ پانی اور تھیلی میں کھجور دے کر وہاں سے رخصت ہو گئے۔ جب ایسی جگہ پہنچے جہاں سے ان کی بیوی اور لخت جگر ان کی نظروں سے اوجھل تھے تو کعبۃ اللہ کی طرف رخ کر کے یہ دعا فرمائی:
(سورت ابراہیم: 37پ13)
ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصہ کو تیرے محترم گھر کے پاس لا آباد کیا ہے۔ پروردگار! یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں پس تو اپنے فضل وکرم سے ایسا کر کہ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہو جائیں اور ان کے لیے پھلوں سے رزق عطا فرما تاکہ یہ تیرے شکر گذار ہوں۔
حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا چند روز تک مشکیزہ سے پانی پیتی اور تھیلی سے کھجوریں کھاتی رہیں اور بچے کو دودھ پلاتی رہیں آخر یہ توشہ ختم ہو گیا تو سخت پریشان ہوئیں۔ بچہ بھی بھوک پیاس سے تڑپنے لگا تو بی بی ہاجرہ نے اپنے نورِ نظر کو چھوڑ کر دور جا بیٹھیں تاکہ اپنی آنکھوں سے بچے کی بے تابی کا کرب ناک منظر نہ دیکھیں مگر پھر کچھ سوچ کر قریب کی پہاڑی صفا پر چڑھیں کہ شاید کوئی آبادی نظر پڑے پھر بچے کی محبت سے مجبور ہو کر وادی میں آئیں۔ پھر دوسری جانب مروہ کی پہاڑی پر چڑھ گئیں جب وہاں بھی کچھ نظر نہ آیا تو تیزی سے لوٹ کر واپس آگئیں اور اسی طرح آپ نے سات چکر لگائے (سرکارِ دو عالمﷺ کے ارشاد کے مطابق حضرت ہاجرہ کے اس واقعہ کی یاد گار کے طور پر حج اور عمرہ کے دوران صفاء مروہ کے درمیان سعی کی جاتی ہے اور سات چکر لگائے جاتے ہیں ) حضرت ہاجرہ کے اس کرب و پریشانی پر رحمت ِ حق جوش میں آئی اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرائیل امین نے پَر مارا جہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام بھوک اور پیاس کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رہے تھے جس کے نتیجہ میں وہاں پانی ابلنے لگا۔ جب پانی زیادہ پھیلنے لگا تو حضرت ہاجرہ نے اسے محفوظ کرنے کے لیے منڈیر بنائی مگر چشمہ بدستور ابلتا رہا چنانچہ اضطراری طور پر ان کی زبان سے نکلا ’’زم زم ‘‘ ایک روایت کی مطابق سریانی زبان میں زم زم کا مطلب ہے رک جا، رک جا۔ چنانچہ بعد ازاں یہ چشمہ زم زم کے نام سے ہی موسوم ہوا۔
نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ام اسماعیل پر رحم فرمائے اگر وہ زمزم کو اس طرح نہ روکتیں تو آج یہ چشمہ بہت وسیع و عریض ہوتا۔
زم زم کے مختلف نام
تاریخ اور سیرت کی کتب میں اس چشمہ کے مختلف نام مشہور ہیں۔ جن میں چند یہ ہیں۔ ’’زم زم، مکتومہ، شباعہ، سقیاء، ہزمتہ جبرئیل، شفاء سقم، طعامِ طعم، زمزام، زوازم، زوزم وغیرہ‘‘ ۔ (لسان العرب جلد: 1 ص: 166)
بعض مؤرخین اور علمائے لغت کی رائے ہے کہ زم زم لفظ زمزمۃ سے ماخوذ ہے۔ اس پانی کو اس لیے زم زم کہا گیا کہ اس کے نکلنے سے زمزمہ پیدا ہوا۔ عربی لغت میں زمزم اور زمزمہ سے مراد دور سے گنگناہٹ سنائی دینا، بکھری ہوئی چیز کو جمع کرنا، کسی چیز کی حفاظت کرنا اور بہت زیادہ مقدار میں پانی جمع ہونا ہے۔ (مصباح اللغات مطبوعہ ندوۃ المصنفین دہلی، ص: 321)
زم زم کا کیمیائی تجزیہ
جدید سائنسی لیبارٹریوں میں زم زم کے کیمیائی تجزیہ پر اس مبارک پانی میں حسب ذیل اجزاء پائے گئے۔
(1) میگنیشیم سلفیٹ۔ (2) سوڈیم سلفیٹ۔ (3) سوڈیم کلورائیڈ۔ (4) پوٹاشیم نائیٹریٹ۔ (5) کیلشیم کاربونیٹ۔ (6) ہائیڈروجن سلفائیڈ۔
اب ہم مختصراً جائزہ لیتے ہیں کہ مندرجہ اجزاء میں کیا خواص پائے جاتے ہیں۔
میگنیشیم سلفیٹ
اس کا استعمال اعضاء کی حرارت ختم کرتا ہے۔قے، متلی اور دورانِ سر کے لیے بے حد مفید ہے۔ ریاحی امراض کو دور کرکے درست کرتا ہے۔
سوڈیم سلفیٹ
یہ ایک خاص قسم کا نمک ہے جو قبض دور کرتا ہے۔ جوڑوں کے درد کے لیے مفید ہے۔ ذیابیطس (شوگر) خونی پیچس، پتھری اور استسقاء کے مریضوں کے لیے علاج کا درجہ رکھتا ہے۔
سوڈیم کلورائیڈ
انسانی خون کے لیے یہ نمک بہت اہم ہے۔ تنفس (سانس ) کی صفائی اور جسمانی نظام کی بہتری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ آنتوں اور پیٹ کے مسلسل درد نیز ہیضہ کی تکلیف کا علاج ہے۔ متعدد قسم کے زہروں کا تریاق ہے خصوصاً کوئلے کے دھوئیں سے پیدا ہونے والی زہریلی گیس (کار بن مونو آکسائیڈ ) کا اثر اس کے استعمال سے فوراً زائل ہو جاتا ہے۔ یہ نمک اعضائے جسمانی کی کمزوری کو بھی دور کرتا ہے۔
کیلشیم کار بونیٹ
خوراک کو ہضم کرنے، پتھری کو توڑنے اور جوڑوں کے درد کے لیے مفید ہے۔ اعضاء کی حدّت اور گرمی اور گرم لُو کے اثر کو زائل کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
پوٹاشیم نائیٹریٹ
تھکن اور لُو کے اثر کو زائل کرتا ہے۔ پیشاب آور ہے۔ دمہ کے لیے مفید ہے ۔ پسینہ بکثرت لاتا ہے۔ زم زم کو ٹھنڈا رکھنے میں اس عنصر کا بڑا دخل ہے۔
ہائیڈروجن سلفائیڈ
تمام جِلدی امراض خصوصاً گلے کی گلٹیوں کے لیے نفع بخش ہے۔ شدید زکام کی حالت میں اس کا استعمال سے راحت ہوتی ہے۔ جراثیم کش ہے۔ اس کے استعمال سے ہیضہ کے جراثیم ختم ہوجا تے ہیں۔ قوتِ حافظہ کو خصوصاً اور دوسری طاقتوں کو عموماً تقویت پہنچاتا ہے۔ غذا کو ہضم کر کے بھوک بڑھاتا ہے۔ بواسیر کے مریضوں کے لیے بے حد مفید ہے۔
زم زم کی تاریخ
جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے زم زم کی ابتداء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد مبارک میں ہوئی تاہم جب اہلِ مکہ نے توحید سے منہ موڑ کر شرک کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ناراضگی کے اظہار کے طور پر زم زم میں کمی کر دی، چنانچہ یہ پانی کم ہونے لگا حتی کہ زم زم کا چشمہ زمین کی تہہ میں جانے لگا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس کے آثار مٹ گئے۔ ازراقی اور فاکہی جیسے قدیم مؤرخین نے لکھا ہے کہ قبیلہ جُرہم جو اس واقعہ کے بعد یہاں آکر آباد ہوا تھا کے معمر اور صالح شخص مضاض بن عمرو بن الحارث نے اپنی قوم کو جمع کیا اور کہا کہ لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ اللہ کے حضور معافی مانگو اور حرم پاک کی حرمت کو برقرار رکھو اور یاد رکھو کہ اگر تم نے شرک سے توبہ نہ کی برائیوں کی روش پر قائم رہے تو تم سے حرم پاک اور زم زم کی نعمت چھن جائے گی۔ قبیلہ جُرہم کے لوگوں نے اپنے بزرگ کی بات نہ مانی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان سے زم زم کی دولت چھین لی۔ وقت گذرتا رہا حتی کہ طویل عرصہ بعد جب نبی اکرمﷺ کے داددا عبد المطلب بن ہاشم کا دور آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کاملہ سے عبد المطلب کو زم زم کے چشمہ کی جگہ اور نشانیوں سے آگاہ فرمایا، انہوں نے ہدایات کے مطابق چشمہ تلاش کیا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے زم زم کا چشمہ دوبارہ ظہور پذیر ہوا۔ جو آج بھی جاری ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا کے لوگ اس چشمہ سے سیراب ہو رہے ہیں حتی کہ ہر سال لاکھوں حجاج کرام لاکھوں ٹن پانی دنیا کے گوشے گوشے میں لے جاتے ہیں مگر پانی کی مقدار اور معیار میں کبھی کمی نہیں آتی۔
زم زم کے خواص و فضائل
٭حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ زم زم جنت کے چشموں میں سے ایک چشمہ ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ )
٭ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ روئے زمین کا سب سے بہترین پانی زم زم ہے۔ (طبرانی فی الکبیر )
٭ نبی مکرمﷺ نے فرمایا کہ زم زم بھوک اور پیاس کا علاج ہے اور ہر بیماری کی شفاء اس میں رکھی گئی ہے۔ (صحیح ابن حبان، الطبرانی )
اور یہ حقیقت ہے کہ زم زم میں اتنی غذائیت ہے کہ اگر کوئی شخص کئی روز تک زم زم پیتا رہے تو بھوک اور پیاس سے بے نیاز رہے گا۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ بی بی ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام غذا ختم ہونے کے بعد کافی دنوں تک زم زم پر ہی گذارا کرتے رہے۔
٭ ام ایمن رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ کو بھوک یا پیاس لگتی تو آپ زم زم پی لیتے۔ جب آپ کو کوئی تکلیف یعنی بیماری آتی تو بھی زم زم پیتے تھے۔ زم زم پینے کے بعد اگر آپ کو کوئی چیز کھانے کی پیش کی جاتی تو نہ کھاتے تھے اور فرماتے زم زم پینے سے بھوک مٹ چکی ہے۔ (طبقات ابن سعد )
٭ سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں پورے تیس دن (ایک ماہ ) صرف زم زم ہی پیتا رہا جبکہ مجھے کھانے کو اور کچھ نہ ملا میں زم زم پی کر اچھا خاصا موٹا ہو گیا۔ (صحیح مسلم )
اور جب یہ واقعہ رسول اللہﷺ کو سنایا تو آپ نے خود بھی اس کی تصدیق کی کہ واقعی زم زم میں بھر پور غذائیت ہے۔ ہر بھوک پیاس کا علاج اور ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔ صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ یہ پانی مبارک ہے۔
٭امام حاکم نے مستدرک میں آپ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ زم زم جس نیت اور ارادہ سے پیا جائے وہ پورا ہوتا ہے اگر اسے تم کسی بیماری سے شفاء کی نیت سے پیو تو اللہ تعالیٰ تمہیں شفاء دے گا۔
٭ امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امیر المومنین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارہ میں فرمایا کہ وہ جب حرم شریف میں آئے تو ڈول منگوا کر کنوئیں سے زم زم نکلوایا، زم زم چہرے اور سر پر ڈالا اور نوش فرمایا اور کہا کہ زم زم میں شفاء ہے۔ جس نیت سے پیا جائے پوری ہوتی ہے۔
٭ زم زم کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اسے پیتے وقت کی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما زم زم پیتے وقت یہ دعا مانگتے تھے:
’’ اللہم انی اسئلک علما نافعا ورزقا واسعا وشفاء من کل دائٍ ‘‘
’’اے اللہ! میں تجھ سے فائدہ دینے والے علم، وسیع رزق اور ہر بیماری سے شفاء کا
سوال کرتا ہوں۔ ‘‘
٭ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ زم زم پیتے وقت اپنے علم و اجتہاد کی دعاما نگتے تھے۔
٭ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں نے زم زم تین باتوں کے لیے پیا۔ صحیح نشانہ لگنے کے لیے، علم کے لیے اور دخول جنت کے لیے۔ چنانچہ میرا نشانہ کبھی خطا نہ ہوا۔ الحمد للہ علم سے بھی مجھے اللہ نے نوازا جبکہ اللہ سے امید ہے کہ دخول جنت بھی ہو گا۔
٭ روایات سے ثابت ہے کہ آپ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زم زم خوب سیر ہو کر پیتے تھے۔
٭ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ ہمارے اور منافقین کے درمیان یہ فرق ہے کہ وہ لوگ خوب سیر ہو کر زم زم نہیں پیتے۔ (ابن ماجہ، دار قطنی، المستدرک )
جہاں تک مکہ مکرمہ سے اپنے ہمراہ زم زم لانے کا تعلق ہے اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ روایات سے ثابت ہے کہ نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے زم زم اپنے لیے منگوایا اور ہمراہ بھی لے گئے۔ فتح مکہ کے بعد جب نبی اکرمﷺ مدینہ طیبہ واپس چلے گئے تو آپ نے مکہ مکرمہ کے نامور خطیب حضرت سہیل بن عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر زم زم طلب فرمایا خط میں آپ نے لکھا کہ میرا خط ملتے ہی زم زم بھیج دو چنانچہ حضرت سہیل رضی اللہ عنہ نے آبِ زم زم کی دو مشکیں اونٹ پر لاد کر مدینہ منورہ آپ کی خدمت اقدس میں بھیج دیں۔ (رسالات نبویہ )
فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ زم زم کا پانی خود اپنے ہاتھوں سے نکالا جائے اور قبلہ کی طرف رخ کر کے سیر ہو کر پیا جائے اور ہر سانس میں نظر اٹھا کر بیت اللہ کو دیکھے اور بچا ہوا پانی اپنے چہرے اور جسم پر مل لیا جائے۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ بہت عمدہ اور انتہائی معلومات افزا مضمون ہے۔ اس مضمون کے مصنف احمد سلیم مظہر چغتائی صاحب کون ہیں؟ان کا تھوڑا سا تعارف ہوجائے۔
 
Top