انسان کی دوبنیادی ضرورتیں ۔ رزق اور امن :حضرت امیر محمد اکرم اعوان مدظلہ العالی

qureshi

وفقہ اللہ
رکن
انسان کی دوبنیادی ضرورتیں ۔ رزق اور امن
سورۃ النحل : 112 میں اﷲ کریم نے ایک آبادی کی مثال ارشاد فرمائی ہے کہ اس آبادی کے لوگ امن و اطمینان سے رہتے تھے ہر طرف امن کا دور دورہ تھا اطمینان تھا اور ان کی روزی اورکھانے پینے کی چیزیں ، ان کے لئے رزق کے وسائل ،بڑی فراغت کے ساتھ ہر طرف سے پہنچتا تھا وہ لوگ بڑے سکون سے رہ رہے تھے پھر انہوں نے اﷲ کی نعمتوں کی ناقدری کی ان کے اس کردار کی وجہ سے، ناقدری کی وجہ سے اﷲ نے ان پر قحط، بھوک اور خو ف مسلط کر دیا ۔
اﷲ کریم نے دنیا کاایک نظام ترتیب دیا ہے اور مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے یہ سارا نظام ترتیب دیا جاچکا ہے نبی کریم ﷺ کے ارشادات کا مفہوم ہے کہ سب کچھ لکھ دیا گیا سیاہی خشک ہو گئی لیکن انسان کو ا ختیار بھی دیاجسے تقدیرمعلق کہتے ہیں کہ تقدیر کے کچھ فیصلے معلق ہوتے ہیں جوانسان کے کردار سے وابستہ ہوتے ہیں انسان کے پاس صرف اتنا اختیار ہے کہ اسے دو راستوں میں سے ایک راستے کا انتخاب کرناہوتا ہے اﷲ کی اطاعت کے راستے سے زندگی بسر کرنا چاہتا ہے یاا ﷲ کی اطاعت کی پرواہ نہیں کرتااپنی خواہشات کے مطابق جینا چاہتا ہے یہ فیصلہ انسان کے اختیار میں ہے آگے یہ تقدیر ہے کہ وہ اطاعت کا راستہ اختیار کرے گا تواسے یہ ملے گانافرمانی کا راستہ اختیار کرے گا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا وہ انسان کے بس میں نہیں وہ اﷲ کا اپنا نظام ہے جو طریقہ، جو راستہ اپناتا ہے اس کے مطابق اﷲ کریم نتائج مرتب فرمادیتے ہیں فرمایا ایک بستی تھی ،ایک آبادی تھی لوگ بڑے خوشحال تھے اور بڑے پرسکون رہ رہے تھے یعنی انہیں دو نعمتیں حاصل تھیں ،رزق کی فراوانی اور امن زندگی کے لیے یہی دو نعمتیں ضروری ہوتی ہیں اور ساری زندگی حکومتوں ،اداروں ،قوموں اورافراد کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ رزق کی فراوانی ہو ،روزی آسانی سے ملے اور امن قائم رہے یہ دو ایسی بنیادی باتیں ہیں کہ باقی ساری کدوکاوش اور محنت ان کو حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے ان کے حصول کا ایک ہی طریقہ ہے ذاتی طور پر یا من حیث القوم اپنی زندگی کو اطاعت الہٰی میں ڈھال لیں نافرمانی پر یہ نعمتیں نہیں ملتیں اور بڑی عجیب بات ہے اﷲکے نظام بڑے ٹھوس بڑے مضبوط ہیں اﷲ کے فیصلے قطعی ہیں ان میں کوئی فرق نہیں پڑتا اگر پوری قوم بھی گمراہی اختیار کرلے ناشکری کا راستہ اپنا لے اور کوئی ایک بندہ ان میں ایسا ہوجو اﷲ کا شکر کرتا ہو تو اﷲ کریم اسے بچا لیتے ہیں۔
 

qureshi

وفقہ اللہ
رکن
آئین،آئین ،دستور،دستور ، یہ آئین ودستور تابع ہے قرآن اور سنت کے ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں ،اس معاشرے کے کچھ آداب ،کچھ حدود و قیود، کچھ پابندیاں ،آزادیاں، کچھ طریقہ کار ہوتا ہے اُسی کو آئین ودستور کہتے ہیں وہ جو آپس میں مل کر رہنے سہنے کا طریقہ، سلیقہ بنایاجاتا ہے وہ اسلامی مملکت میں قرآن وسنت سے بالا نہیںہوتا اسے قرآن سنت کے تابع ہونا چاہیے اورہمار ے دستور کا حصہ ہے اس میں لکھاہوا ہے کہ جو قانون پہلے سے بنے ہوئے ہیں اور وہ خلاف شریعت ہیں ان کو بدل کر شریعت کے سانچے میں ڈھالاجائے گا اور کوئی نیا قانون خلاف شریعت نہیں بنے گا اب پرویز مشرف پر تو مقدمہ چلتا رہا کہ اس نے قانون کی پاسداری نہیں کی لیکن یہ ستر سال سے پون صدی سے پوری حکومتیں اس قانون یادستورکی پاسداری نہیں کر رہیں اور قرآن وسنت کے مطابق قوانین نہیں بناتیں توکیا اُن پر یہ مقدمہ نہیں چلنا چاہیے؟ کیا وہ آئین کو پامال نہیں کر رہے ؟جو قدرت کے قانون ہیں تبدیل نہیں کیے جا سکتے کسی آبادی کی مثال اﷲ کریم نے دی لیکن یاد رکھیں ! قرآن تاریخ کو بیان نہیں کرنا چاہتا قرآن تو عبرت کے طور پر ان لوگوں کی باتیں سناتا ہے اوردرس دینا چاہتا ہے سمجھانا چاہتا ہے کہ تم ایسا نہ کرنا فرمایا وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا قَرْیَۃً ً ایک آبادی کی مثال اﷲ کریم دیتے ہیں وہ ایسی آبادی تھی وہ ایسا علاقہ تھا وہاں ایسے لوگ آباد تھے کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً ہر طرح سے امن اور سکون تھا لوگ بڑے اطمینان سے رہ رہے تھے یَّاْتِیْھَارِزْقُھَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍہر طرف سے ا ُن پر روزی کی دولت کی بارش ہوتی فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہ انہوں نے اﷲ کے انعامات کی ناقدری کی یعنی اﷲ کی نافرمانی شروع کر دی قدرشناسی یہ تھی کہ اﷲ کی اطاعت کرتے اﷲ کا شکر کرتے اﷲ کا شکر یہ ہے کہ اﷲ کی اطاعت کرتے لیکن وہ نافرمانی پر اترآئے گویا انہوں نے ناشکری کی ناشکری کی سزا کیا دی گئی؟ فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْع اﷲنے انہیں بھوک کا لباس پہنا دیا ایک بھوک ہوتی ہے پیٹ میںپیٹ خالی ہو گیا آپ نے کھانا کھایاپیٹ بھر گیا بھوک مٹ گئی اب اﷲ نے انہیں لباس ہی بھوک کا پہنا دیا وہ کیسے مٹے؟ جب تک وہ لباس اترے گا نہیں بھوک کیسے مٹے؟
یہاں دیکھیں کہ بڑے بڑے سیٹھ ،پیسہ پیسہ ،آنہ آنہ چوری کرنے پر لگے ہوئے ہیں یہاں کا ہمارا تو یہ حال ہے کہ ایک آفیسر جو اندر بیٹھا ہے پانچ لاکھ چھ لاکھ تنخواہ لے رہا ہے وہ باہر پانچ سو تنخواہ لینے والے مالی کی تنخواہ مار لیتا ہے یعنی حرص اتنی ہے کہ پانچ لاکھ سے گزارا نہیں ہورہا اور اس غریب کو جوپانچ سو ملے ہیں انہیں ہڑپ کرنے پر تلا ہوا ہے یہ ہمارا قومی کردار ہے اور قومی المیہ ہے تو یہ کیوں ہے؟ کتنے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس کھربوں کی دولت ہے؟ کتنے پاکستان میں ایسے لوگ جنہیں پتہ ہی نہیں کہ ان کے پاس دولت کتنی ہے؟ وہ بھی مال لوٹنے پر لگے ہوئے ہیں اس لئے کہ انہوں نے بھوک کا لباس پہنا ہوا ہے وہ لباس اترے تو بھوک مٹے فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْع اﷲ نے انہیں بھوک کا لباس پہنا دیا ہے وَالْخَوْف اور خوف کا ہر وقت خوف میں ہیں کہ مارے جائیں گے ہزاروں لوگ پہروں پر لگے ہوئے ہیں بندوقیں لے کر دروازں پر کھڑے ہوئے ہیں اندر انہیں نیند نہیں آ رہی کہ دھماکہ ہوگامرجائیں گے یہ خوف اﷲ نے مسلط کردیا ہے کہیںجاناہو تو تین سڑکیں بند کردیں گے جی یہا ں سے پرائم منسٹر ،چیف منسٹر ،گورنر صاحب نے گزرنا ہے پھر پتا نہیں وہ تین میں سے کس سڑک پر جائیں گے؟ ایک بندے کے جانے کے لیے پچھتر گاڑیاں ہوں گی پتہ نہیں کس گاڑی میں بیٹھے ہوں گے پھر پتا چلتا ہے کہ مرگئے کمال ہے!
توان مصیبتوں سے جان چھڑانے کا طریقہ یہ ہے کہ رجوع الی اﷲ کریں اپنی زندگی کے طریقے شریعت کے تابع کریں اپنے آئین ودستایر شریعت کے مطابق بنائیں اپنے نظام ِ مملکت کو شریعت کے مطابق کریں اپنے اداروں میں شریعت کے مطابق تعلیم وتربیت کریںکیا جو لوگ پہلے تھے ان میں اچھے جرنیل،اچھے ڈاکٹر ،اچھے انجینئر نہیں تھے ؟ یہاں برصغیر میں دیکھو ،جو عمارتیں مغل عہد میں بنیں کیاوہ آج بن سکتی ہیں؟ ان میں کس طرح کے مسالے لگے ہیں؟ آپ چھوٹی سی بات دیکھ لیں کہ لاہور میں کتنی پرانی یادگاریں ہیں ان پر جو لکھا گیا وہ کم ازکم پانچ چھ سو سال پہلے لکھاگیا آج تک سیاہی میلی نہیں ہوئی بارشیں دھوپ ہر چیز گزر رہی ہے جو نقش ونگاربنایا گیا اس کے رنگ میلے نہیں ہوئے وہ ٹوٹ گیایاکسی نے اکھیڑ دیا وہ الگ بات ہے وہ اس قدر عقل مند لوگ تھے کہ انہوں نے اس طرح ملا کر وہ رنگ وہ سیاہی بنائی تھی کہ وہ میلی ہی نہیں ہوئی اس کا رنگ ہی نہیں اترتا دیواروں میں جو مسالالگایاگیا چھینی اور ہتھوڑوں سے ایک دیوار نہیں ٹوٹتی اور صدیاں ہو گئیں اس کو بنے ہوئے جس طرح پتھر کاٹ کر جالیاں بنی ہوئی ہیں تو کیا وہ لوگ انجینئر نہیں تھے؟ میرے بھائی سادہ سا نسخہ قرآن کریم نے بتایا ہے کہ اس کی وجہ نافرمانی ہے اگر نافرمانی چھوڑ دو گے تو وہی خوشحالی وہی امن لوٹ آئے گا اب ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہم اس طرف نہیں آتے دوسرے حربے استعمال کرتے رہتے ہیں اور دوسرے حربے بھی صحیح نہیں ہیں اب جو طریقہ یہ تحریک طالبان نے اپنایا کہ اسلام نافذ ہوگا اُس کے لیے مسلمانوں کا قتل عام کرو یہ کون ساطریقہ ہے؟ بم دھماکوں سے مسلمانوں کو مارتے جاؤ مساجد کو بم دھماکوں سے تباہ کرتے جاؤمدارس کو اجاڑتے جاؤ لوگوں کو قتل کرتے جاؤ اس طرح اسلام نافذ ہو جائے گا؟ تو کسی طرف خیر کی خبر نہیں کیوںکہ سارے لوگ اپنی مرضی کے فیصلے کر رہے ہیں اور کسی کا فیصلہ اﷲ اور اﷲ کے رسول ﷺ کے فیصلوں کے تابع نہیں ہے اب تو اتنا خوف مسلط ہے کہ کوئی یہ باتیں بھی نہیں کرتا یہ بھی نہیں بتانا چاہتا ۔سو پریشانیاں ذاتی ہوں خاندانی ہوں قومی اورملکی ہوں بنیادی ضرورتیں انسان کی دو ہیں ایک روزی ایک امن اور دونوں کو حاصل کرنے کا راستہ اﷲ کی اطاعت ہے نبی کریم ﷺ کا اتباع ہے اور اﷲ کریم کے عجیب نظام ہیں اگر ساری قوم بھٹک گئی ہو تو ایک بندہ اس پر کاربند رہے گا تو اس ایک بندے کو اس پورے طوفان میں پُرامن بھی رکھیں گے خوشحال بھی رکھیں گے تو اپنی ذاتی زندگی میں تو کم از کم امن لائیے خوش حالی لائیے فکروں سے آزاد ہو جائیے او ر اس کا طریقہ ہے اﷲ اور اﷲ کے رسول ﷺ کا اتباع اپنے کردار کو اپنے عقیدے اور نظریے سے لے کر عمل تک کو اﷲ اور اﷲ کے رسول ﷺ کی اطاعت کے سانچے میں ڈھال لیجئے ہر طرف امن ہی امن ہو گا زندگی میں بھی موت میں بھی قبر میں بھی برزخ میں بھی میدان حشر میں بھی اور آخرت کی زندگی میں بھی یہ دائمی امن نصیب ہو جائے گا اﷲ کریم تمام مسلمانوں کو اور خاص طور پر تمام احباب کوامن نصیب فرمائے ۔

حضرت امیر محمد اکرم اعوان مدظلہ العالیٰ دارلعرفان منارہ چکوال
(ص 8المرشد جون 2014)
 
Top