انسان کی دوبنیادی ضرورتیں ۔ رزق اور امن
سورۃ النحل : 112 میں اﷲ کریم نے ایک آبادی کی مثال ارشاد فرمائی ہے کہ اس آبادی کے لوگ امن و اطمینان سے رہتے تھے ہر طرف امن کا دور دورہ تھا اطمینان تھا اور ان کی روزی اورکھانے پینے کی چیزیں ، ان کے لئے رزق کے وسائل ،بڑی فراغت کے ساتھ ہر طرف سے پہنچتا تھا وہ لوگ بڑے سکون سے رہ رہے تھے پھر انہوں نے اﷲ کی نعمتوں کی ناقدری کی ان کے اس کردار کی وجہ سے، ناقدری کی وجہ سے اﷲ نے ان پر قحط، بھوک اور خو ف مسلط کر دیا ۔اﷲ کریم نے دنیا کاایک نظام ترتیب دیا ہے اور مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے یہ سارا نظام ترتیب دیا جاچکا ہے نبی کریم ﷺ کے ارشادات کا مفہوم ہے کہ سب کچھ لکھ دیا گیا سیاہی خشک ہو گئی لیکن انسان کو ا ختیار بھی دیاجسے تقدیرمعلق کہتے ہیں کہ تقدیر کے کچھ فیصلے معلق ہوتے ہیں جوانسان کے کردار سے وابستہ ہوتے ہیں انسان کے پاس صرف اتنا اختیار ہے کہ اسے دو راستوں میں سے ایک راستے کا انتخاب کرناہوتا ہے اﷲ کی اطاعت کے راستے سے زندگی بسر کرنا چاہتا ہے یاا ﷲ کی اطاعت کی پرواہ نہیں کرتااپنی خواہشات کے مطابق جینا چاہتا ہے یہ فیصلہ انسان کے اختیار میں ہے آگے یہ تقدیر ہے کہ وہ اطاعت کا راستہ اختیار کرے گا تواسے یہ ملے گانافرمانی کا راستہ اختیار کرے گا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا وہ انسان کے بس میں نہیں وہ اﷲ کا اپنا نظام ہے جو طریقہ، جو راستہ اپناتا ہے اس کے مطابق اﷲ کریم نتائج مرتب فرمادیتے ہیں فرمایا ایک بستی تھی ،ایک آبادی تھی لوگ بڑے خوشحال تھے اور بڑے پرسکون رہ رہے تھے یعنی انہیں دو نعمتیں حاصل تھیں ،رزق کی فراوانی اور امن زندگی کے لیے یہی دو نعمتیں ضروری ہوتی ہیں اور ساری زندگی حکومتوں ،اداروں ،قوموں اورافراد کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ رزق کی فراوانی ہو ،روزی آسانی سے ملے اور امن قائم رہے یہ دو ایسی بنیادی باتیں ہیں کہ باقی ساری کدوکاوش اور محنت ان کو حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے ان کے حصول کا ایک ہی طریقہ ہے ذاتی طور پر یا من حیث القوم اپنی زندگی کو اطاعت الہٰی میں ڈھال لیں نافرمانی پر یہ نعمتیں نہیں ملتیں اور بڑی عجیب بات ہے اﷲکے نظام بڑے ٹھوس بڑے مضبوط ہیں اﷲ کے فیصلے قطعی ہیں ان میں کوئی فرق نہیں پڑتا اگر پوری قوم بھی گمراہی اختیار کرلے ناشکری کا راستہ اپنا لے اور کوئی ایک بندہ ان میں ایسا ہوجو اﷲ کا شکر کرتا ہو تو اﷲ کریم اسے بچا لیتے ہیں۔