سبق نمبر۳: سورۃ البقرۃ
آیت الکرسی
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑے مہربان نہایت رحم کرنے والے ہیں۔
اَللهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ اَلْحَيُّ الْقَيُّوْمُ ڬ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ ۭ
اللہ (ایسا ہے) کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ زندہ ہے ہمیشہ قائم رہنے والا ہے نہ اس کو اونگھ آتی ہے اور نہ نیند
لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ
اسی کا ہے سب جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے ہاں سفارش کرے
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ
وہ جانتا ہے جو کچھ اس کے سامنے ہے اور جو کچھ اس کے بعد ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کو احاطہ علمی میں نہیں لا سکتے
اِلَّابِمَاشَآءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَايَئُوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ
مگر جس قدر وہ چاہے۔ اس کے کرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اندر لے رکھا ہے اور اس پر ان دونوں کی حفاظت گراں نہیں گزرتی
وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ۲۵۵
اور وہ عالی شان، عظیم الشان ہے۔
ہمارے اس سبق میں سورۃ البقرۃ کا وہ حصہ ہے جسے آیتہ الکرسی کہتے ہیں۔ کرسی کا ایک وجود بھی ہے بالائے عرش اور عموماً جو کرسی کا مفہوم ہوتا ہے، اس سے مراد اختیار و اقتدار ہوتا ہے، جس طرح آپ بھی عرفاً استعمال کرتے ہیں کہ فلاں شخص کرسی کا طالب ہے یا کرسی کے لئے محنت کر رہا ہے۔ تو اس سے مراد کوئی ایک خاص کرسی Chair نہیں ہوتی بلکہ اس سے مراد اختیارات اور اقتدار ہوتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
اللہ، ایسی عظیم ہستی ہے کہ اس کے علاوہ کسی بھی دوسرے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کی عبادت کی جائے۔ عبادت صرف اور صرف اللہ کا حق ہے اس لئے کہ وہ اَلْحَیُّ ہے، مصدر حیات ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ زندہ ہے بلکہ وہ مصدرِ حیات بھی ہے۔ ساری حیات اس کی ذات سے، اس کی محتاج ہے، وہ کسی دوسرے کا محتاج نہیں۔ اور قیوم ہے، اَلْقَیُّوْمُ ہے یعنی ہرشے اس کے قائم رکھنے سے قائم ہے۔ کوئی بھی چیز، کوئی بھی وجود جو آپ کو نظر آتا ہے، کائنات میں دوسرا نہیں ہے جو بغیر اس کی مدد سے اپنے آپ کو قائم رکھ سکے۔ وہ قائم رکھنے والاہے۔ کوئی دوسرا وجود ایسا نہیں جو اپنا وجود ہی ثابت کر سکے کہ اس کے ثبوت کے لئے حیات چاہیے۔ تو اس کی حیات مستعار ہے اور اصل مخزن حیات اللہ کی ذات ہے۔ تو جب حیات کا مقصد بھی وہ ہے اور باعث قیام بھی وہ ہے تو پھر جو اس کے آسرے پر قائم ہے، اس کے آسرے پر زندہ ہے، وہ عبادت کا مستحق نہیں بلکہ اس کی عبادت کا مستحق وہ ہے جو سب کو آسرا دیے ہوئے ہے۔ لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ ہر طرح کی کمزوری سے پاک ہے۔ حتیٰ کہ تھکاوٹ، اونگھ یا نیند اس پر غلبہ نہیں کرتی، اس کا گذر وہاں نہیں ہے۔ انسان کی کمزوری کے لئے اس کی ایک نیند ہی کافی ہے۔ اس کی احتیاج کے لئے نیند کا ایک لمحہ ہی کافی ہے جو اسے دوست، دشمن، بھلے، برے اور امیر غریب کی تمیز سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ ساری کائنات کو چھوڑ کر نیند میں ڈوب جاتا ہے۔ اللہ کو تھکاوٹ ہوتی ہے نہ اونگھ آتی ہے۔ کسی خامی، کسی کمزوری، کسی کمی کا اس کی بارگاہ میں گذر نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ارض و سماء میں، زمینوں آسمانوں میں جو کچھ ہے اس نے عدم سے پیدا کیا ہے۔ کسی کا اس میں کوئی ذرہ برابر حصہ نہیں۔ انسانی ایجادات اس کی پیدا کی ہوئی مختلف چیزوں کو مختلف نسبت سے جوڑنے کا نام ہے۔ کوئی نئی چیز انسان پیدا نہیں کر سکتا۔ گیسیں ہیں یا مادے ہیں، ایٹم ہیں یا ذرات ہیں، پیدا اس نے کی ہیں اور انسان کو یہ شعور دیا ہے کہ وہ مختلف چیزوں کو مختلف نسبت سے جوڑتا ہے تو ایک نئی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ نئی شے پیدا کوئی نہیں کرتا جو کچھ آپ کو کائنات میںنظر آتا ہے سب کا اکیلا مالک وہی ہے۔ تو جب سب مخلوق ہیں تو پھر کس کی جرأت ہے کہ وہ دوسرے کے حق میں سفارش کرے یا بولے یا زبان کھولے۔
مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ۔ کون ہے جو اس کی بارگاہ میں کسی دوسرے کی سفارش کرسکے۔
اِلَّا بِاِذْنِہٖ۔ سوائے ان ہستیوں کے جنہیں اس نے جس کے حق میں بولنے کی اجازت دی ہے۔ یعنی جو اس کا انکار کرتے ہیں، جن کی شفاعت اور سفارش نہ کرنے کا حکم اس نے دے دیا ہے، پھر بھلا کس کو جرأت ہے کہ ان کی سفارش کرے۔ سفارش بھی انہیں کی ہوگی جن کے لئے سفارش کرنے کی اس نے اجازت دی ہے اور وہی کر سکیں گے جن کو سفارش کرنے کی اجازت دی۔ اس کے ہاں سفارش بھی خود اس کی رضا مندی کا نام ہے۔ اس لئے کہتے ہیں دعا بھی تقدیر ہے۔ یہ بھی اس نے فیصلہ کر دیا ہے کہ میرا فلاں بندہ فلاں کے حق میں ہاتھ اٹھائے گا تو میں اس کی خطا معاف کر دوں گا، اس کی بیماری دور کر دوں گا، اس کی تکلیف ہٹا دوں گا۔ کسی کی اس پر حکومت نہیں ہے۔ بندہ بندہ ہی ہے، کوئی اسے حکم نہیں دے سکتا۔ یہ اسی کے اپنے فیصلے ہیں اور اس کے قبضہ قدرت میں ہر شے ہے۔ اور لوگوں کو علم پر ناز ہے لیکن اللہ کے دیئے ہوئے جو علوم ہیں، ہر ایک کے پاس ان کا ایک جزو ہوتا ہے۔ جس نسبت سے شہد کی مکھی پھولوں کا رس لے کر شہد بناتی ہے، انسانی علم اس کا متبادل پیش نہیں کر سکتا۔ آپ ایک سائنس کی لیبارٹری میں اسی شہد کا تجزیہ کرتے ہیں، آپ سارے وہی وٹامنز اور سارے وہی اجزا اس میں پورے کر دیتے ہیں اور آپ شہد بناتے ہیں۔ (میں بھی لیتا ہوں کہ وہ ذیابطیس کے مریض کے لئے آتا ہے کہ اس میں شوگر نہیں ہوتی) مگر شہد کے سارے اجزاء ہوتے ہیں۔ لیکن ایمان سے کہیے کہ مکھی کا اور مشین کا شہد ایک جیسا ہوتا ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ اس میں ساری چیزیں ہوتی ہیں۔ کسی بچے کو بھی چکھا دو تو وہ کہے گا نہیں! یہ تو آپ نے کوئی دوائی کھلا دی۔ تو فرمایا جتنا ایک مکھی کے پاس اختیار ہے تمہاری سائنس کے پاس تو ابھی وہ بھی نہیں ہے۔
آج کل کے لوگ بڑا زور لگاتے ہیں کہ جی سائنس نے پتہ لگا لیا ہے ماں کے پیٹ میں بچہ ہے یا بچی ہے۔ ارے اگر کتنے کروڑ انسان ایک دن میں پیدا ہونے تھے اور ان میں سے ایک کا ایکسرے کر کے آپ نے پتہ لگا لیا تو کیا کمال کیا۔ کیا آپ کو پتہ لگ گیا اس کی عمر کتنی ہوگی؟ آپ کو پتہ لگ گیا اس کی عقل کیسی ہوگی؟ آپ کو پتہ لگ گیا اس کی شکل کیسی ہوگی؟ آپ کو پتہ چل گیا وہ مومن ہوگا یا کافر؟ ارے کتنا کچھ باقی ہے، کیا پتہ لگ گیا؟
وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیءٍ مِّنْ عِلْمِہٖ اِلَّا بِمَا شَائَ۔ اس کے علوم کا تم احاطہ نہیں کر سکتے۔ کوئی ذرہ کسی کو دے دیتا ہے، کوئی قطرہ دوسرے کو دے دیتا ہے، تو ان سمندروں میں سے اگر تمہیں کوئی قطرہ ملتا ہے تو اس پر کھڑے ہو کر اسی کے سامنے اکڑنا شروع نہ کردو۔ تمہارے پاس کچھ نہیں ہے۔
وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمَ۔ وہ بہت بلند شان کا مالک ہے۔ اللہ بہت بڑا ہے تمہاری عقل و خرد اور تمہارے علوم کی رسائی سے بھی بڑا۔ تمہارے اندازوں اور تمہارے تخمینوں سے بھی بڑا۔ جسے نہ تمہارے اندازے سما سکتے ہیں اور نہ تمہارے تخمینے۔ یہاں ایک ہی بات ہے کہ تمہاری اطاعت اور تمہاری طلب اس کی بارگاہ میں شرف قبولیت پالے۔
مزید مطالعہ کے لئے سورۃ البقرہ آیت 255 تفسیر اسرار التنزیل اور اکرم التفاسیر ملاحظہ فرمائیں۔
٭ ٭ ٭
آیت الکرسی
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑے مہربان نہایت رحم کرنے والے ہیں۔
اَللهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ اَلْحَيُّ الْقَيُّوْمُ ڬ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ ۭ
اللہ (ایسا ہے) کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ زندہ ہے ہمیشہ قائم رہنے والا ہے نہ اس کو اونگھ آتی ہے اور نہ نیند
لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ
اسی کا ہے سب جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے ہاں سفارش کرے
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ
وہ جانتا ہے جو کچھ اس کے سامنے ہے اور جو کچھ اس کے بعد ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کو احاطہ علمی میں نہیں لا سکتے
اِلَّابِمَاشَآءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَايَئُوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ
مگر جس قدر وہ چاہے۔ اس کے کرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اندر لے رکھا ہے اور اس پر ان دونوں کی حفاظت گراں نہیں گزرتی
وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ۲۵۵
اور وہ عالی شان، عظیم الشان ہے۔
ہمارے اس سبق میں سورۃ البقرۃ کا وہ حصہ ہے جسے آیتہ الکرسی کہتے ہیں۔ کرسی کا ایک وجود بھی ہے بالائے عرش اور عموماً جو کرسی کا مفہوم ہوتا ہے، اس سے مراد اختیار و اقتدار ہوتا ہے، جس طرح آپ بھی عرفاً استعمال کرتے ہیں کہ فلاں شخص کرسی کا طالب ہے یا کرسی کے لئے محنت کر رہا ہے۔ تو اس سے مراد کوئی ایک خاص کرسی Chair نہیں ہوتی بلکہ اس سے مراد اختیارات اور اقتدار ہوتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
اللہ، ایسی عظیم ہستی ہے کہ اس کے علاوہ کسی بھی دوسرے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کی عبادت کی جائے۔ عبادت صرف اور صرف اللہ کا حق ہے اس لئے کہ وہ اَلْحَیُّ ہے، مصدر حیات ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ زندہ ہے بلکہ وہ مصدرِ حیات بھی ہے۔ ساری حیات اس کی ذات سے، اس کی محتاج ہے، وہ کسی دوسرے کا محتاج نہیں۔ اور قیوم ہے، اَلْقَیُّوْمُ ہے یعنی ہرشے اس کے قائم رکھنے سے قائم ہے۔ کوئی بھی چیز، کوئی بھی وجود جو آپ کو نظر آتا ہے، کائنات میں دوسرا نہیں ہے جو بغیر اس کی مدد سے اپنے آپ کو قائم رکھ سکے۔ وہ قائم رکھنے والاہے۔ کوئی دوسرا وجود ایسا نہیں جو اپنا وجود ہی ثابت کر سکے کہ اس کے ثبوت کے لئے حیات چاہیے۔ تو اس کی حیات مستعار ہے اور اصل مخزن حیات اللہ کی ذات ہے۔ تو جب حیات کا مقصد بھی وہ ہے اور باعث قیام بھی وہ ہے تو پھر جو اس کے آسرے پر قائم ہے، اس کے آسرے پر زندہ ہے، وہ عبادت کا مستحق نہیں بلکہ اس کی عبادت کا مستحق وہ ہے جو سب کو آسرا دیے ہوئے ہے۔ لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ ہر طرح کی کمزوری سے پاک ہے۔ حتیٰ کہ تھکاوٹ، اونگھ یا نیند اس پر غلبہ نہیں کرتی، اس کا گذر وہاں نہیں ہے۔ انسان کی کمزوری کے لئے اس کی ایک نیند ہی کافی ہے۔ اس کی احتیاج کے لئے نیند کا ایک لمحہ ہی کافی ہے جو اسے دوست، دشمن، بھلے، برے اور امیر غریب کی تمیز سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ ساری کائنات کو چھوڑ کر نیند میں ڈوب جاتا ہے۔ اللہ کو تھکاوٹ ہوتی ہے نہ اونگھ آتی ہے۔ کسی خامی، کسی کمزوری، کسی کمی کا اس کی بارگاہ میں گذر نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ارض و سماء میں، زمینوں آسمانوں میں جو کچھ ہے اس نے عدم سے پیدا کیا ہے۔ کسی کا اس میں کوئی ذرہ برابر حصہ نہیں۔ انسانی ایجادات اس کی پیدا کی ہوئی مختلف چیزوں کو مختلف نسبت سے جوڑنے کا نام ہے۔ کوئی نئی چیز انسان پیدا نہیں کر سکتا۔ گیسیں ہیں یا مادے ہیں، ایٹم ہیں یا ذرات ہیں، پیدا اس نے کی ہیں اور انسان کو یہ شعور دیا ہے کہ وہ مختلف چیزوں کو مختلف نسبت سے جوڑتا ہے تو ایک نئی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ نئی شے پیدا کوئی نہیں کرتا جو کچھ آپ کو کائنات میںنظر آتا ہے سب کا اکیلا مالک وہی ہے۔ تو جب سب مخلوق ہیں تو پھر کس کی جرأت ہے کہ وہ دوسرے کے حق میں سفارش کرے یا بولے یا زبان کھولے۔
مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ۔ کون ہے جو اس کی بارگاہ میں کسی دوسرے کی سفارش کرسکے۔
اِلَّا بِاِذْنِہٖ۔ سوائے ان ہستیوں کے جنہیں اس نے جس کے حق میں بولنے کی اجازت دی ہے۔ یعنی جو اس کا انکار کرتے ہیں، جن کی شفاعت اور سفارش نہ کرنے کا حکم اس نے دے دیا ہے، پھر بھلا کس کو جرأت ہے کہ ان کی سفارش کرے۔ سفارش بھی انہیں کی ہوگی جن کے لئے سفارش کرنے کی اس نے اجازت دی ہے اور وہی کر سکیں گے جن کو سفارش کرنے کی اجازت دی۔ اس کے ہاں سفارش بھی خود اس کی رضا مندی کا نام ہے۔ اس لئے کہتے ہیں دعا بھی تقدیر ہے۔ یہ بھی اس نے فیصلہ کر دیا ہے کہ میرا فلاں بندہ فلاں کے حق میں ہاتھ اٹھائے گا تو میں اس کی خطا معاف کر دوں گا، اس کی بیماری دور کر دوں گا، اس کی تکلیف ہٹا دوں گا۔ کسی کی اس پر حکومت نہیں ہے۔ بندہ بندہ ہی ہے، کوئی اسے حکم نہیں دے سکتا۔ یہ اسی کے اپنے فیصلے ہیں اور اس کے قبضہ قدرت میں ہر شے ہے۔ اور لوگوں کو علم پر ناز ہے لیکن اللہ کے دیئے ہوئے جو علوم ہیں، ہر ایک کے پاس ان کا ایک جزو ہوتا ہے۔ جس نسبت سے شہد کی مکھی پھولوں کا رس لے کر شہد بناتی ہے، انسانی علم اس کا متبادل پیش نہیں کر سکتا۔ آپ ایک سائنس کی لیبارٹری میں اسی شہد کا تجزیہ کرتے ہیں، آپ سارے وہی وٹامنز اور سارے وہی اجزا اس میں پورے کر دیتے ہیں اور آپ شہد بناتے ہیں۔ (میں بھی لیتا ہوں کہ وہ ذیابطیس کے مریض کے لئے آتا ہے کہ اس میں شوگر نہیں ہوتی) مگر شہد کے سارے اجزاء ہوتے ہیں۔ لیکن ایمان سے کہیے کہ مکھی کا اور مشین کا شہد ایک جیسا ہوتا ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ اس میں ساری چیزیں ہوتی ہیں۔ کسی بچے کو بھی چکھا دو تو وہ کہے گا نہیں! یہ تو آپ نے کوئی دوائی کھلا دی۔ تو فرمایا جتنا ایک مکھی کے پاس اختیار ہے تمہاری سائنس کے پاس تو ابھی وہ بھی نہیں ہے۔
آج کل کے لوگ بڑا زور لگاتے ہیں کہ جی سائنس نے پتہ لگا لیا ہے ماں کے پیٹ میں بچہ ہے یا بچی ہے۔ ارے اگر کتنے کروڑ انسان ایک دن میں پیدا ہونے تھے اور ان میں سے ایک کا ایکسرے کر کے آپ نے پتہ لگا لیا تو کیا کمال کیا۔ کیا آپ کو پتہ لگ گیا اس کی عمر کتنی ہوگی؟ آپ کو پتہ لگ گیا اس کی عقل کیسی ہوگی؟ آپ کو پتہ لگ گیا اس کی شکل کیسی ہوگی؟ آپ کو پتہ چل گیا وہ مومن ہوگا یا کافر؟ ارے کتنا کچھ باقی ہے، کیا پتہ لگ گیا؟
وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیءٍ مِّنْ عِلْمِہٖ اِلَّا بِمَا شَائَ۔ اس کے علوم کا تم احاطہ نہیں کر سکتے۔ کوئی ذرہ کسی کو دے دیتا ہے، کوئی قطرہ دوسرے کو دے دیتا ہے، تو ان سمندروں میں سے اگر تمہیں کوئی قطرہ ملتا ہے تو اس پر کھڑے ہو کر اسی کے سامنے اکڑنا شروع نہ کردو۔ تمہارے پاس کچھ نہیں ہے۔
وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمَ۔ وہ بہت بلند شان کا مالک ہے۔ اللہ بہت بڑا ہے تمہاری عقل و خرد اور تمہارے علوم کی رسائی سے بھی بڑا۔ تمہارے اندازوں اور تمہارے تخمینوں سے بھی بڑا۔ جسے نہ تمہارے اندازے سما سکتے ہیں اور نہ تمہارے تخمینے۔ یہاں ایک ہی بات ہے کہ تمہاری اطاعت اور تمہاری طلب اس کی بارگاہ میں شرف قبولیت پالے۔
مزید مطالعہ کے لئے سورۃ البقرہ آیت 255 تفسیر اسرار التنزیل اور اکرم التفاسیر ملاحظہ فرمائیں۔
٭ ٭ ٭