مختلف افراد معاشرہ کا ایک دوسرے پر حق

تانیہ

وفقہ اللہ
رکن
حضور نبی اکرم نے پوری ملت اسلامی کو ایک جسم قرار دیا جس کا ہر فرد دوسرے فرد کے حقوق کا اسی طرح خیال رکھتا ہے جس طرح ایک جسم کا ایک عضو دوسرے عضو کا خیال رکھتا ہے۔ ”حضرت نعمان بن بشیرؓ کا بیان ہے
کہ رسول اللہ نے فرمایا: کہ تم مسلمانوں کو دیکھوں گے کہ وہ ایک دوسرے پر رحم کرنے، دوستی رکھنے اور شفقت کا مظاہرہ کرنے میں ایک جسم کی طرح ثابت ہوں گے چنانچہ جسم کے جب کسی بھی حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم جا گنے اور بخار وغیرہ میں اس کا شریک ہوتا ہے۔ آپ نے ہر مسلمان کو دوسرے مسلمان بھائی کے سماجی، معاشرتی، اقتصادی اور دیگر حقوق کی ادائیگی کی تلقین فرمائی اور ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کی ترغیب دی جس میں ہر فرد دوسرے کے حقوق ادائیگی کے لئے کمر بستہ ہو۔

”ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں۔ جب اسے ملے تو السلام علیکم کہے، جب وہ دعوت دے تو اسے قبول کرے، خیر خواہی طلب کرے، تو اس کی خیر خواہی کرے، جب چھینک مارے اور الحمد اللہ کہے تو یہ پرحمک اللہ کہے، جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے اور جب مر جائے تو اس کے جنازہ میں شامل ہو۔“

آپ کے قائم کردہ معاشرے میں مفاد عامہ سے متعلق شے پر کسی بھی شہری کے حق کی نفی نہیں کی جا سکتی بلکہ ہر فرد دوسرے فرد کے اس نوع کے حق کا احترام کریگا۔ ”روایت ہے حضرت عائشہؓ نے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کون سی چیز ہے جس کا منع کرنا حلال نہییں فرمایا پانی، نمک اور آگ، فرماتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ پانی کو تو ہم سمجھ گئے مگر نمک اور آگ کا یہ حکم کیوں ہے فرمایا اسے حمیراءجس نے کسی کو آگ دی اس نے گویا اس آگ سے پکا ہوا سارا کھانا خیرات کیا اور جس نے کسی کو نمک دیا اس نے گویاوہ سارا کھانا خیرات کیا جسے نمک نے لذیذ بنایا اور جس نے کسی مسلمان کو ایک گھونٹ پانی وہاں پلایا جہاں پانی عام ملتا ہوا اس نے گویا غلام آزاد کیا اور جس نے مسلمان کو وہاں ایک گھونٹ پانی پلایا جہاں پانی نہ ملتا ہو اس نے گویا اسے زندگی بخشی۔“ قرآن حکیم میں بھی ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق کو نہ صرف بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے بلکہ ان کی کمال ادائیگی کی ترغیب و تلقین بھی کی گئی ہے۔

ملت اسلامیہ کے جسد واحد ہونے کے تصور کو قرآن حکیم نے یوں بیان کیا۔ ”بیشک مسلمان تو (آپس میں) بھائی بھائی ہیں، پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرادو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ اگر مسلمان ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں اور ایک ہی جسم کی مانند ہیں تو ان کا کوئی بھی حصہ دوسرے حصہ کی تکلیف اور پریشانی سے بیگانہ نہیں رہ سکتا۔ ”بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دئیے اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مہاجرین) کو جگہ دی اور ان کی مدد کی وہی لوگ ایک دوسرے کے وارث ہیں اور جو لوگ ایمان لائے (مگر) انہوں نے (اللہ کیلئے) گھر بار نہ چھوڑیں تو تمہیں ان کی دوستی سے کوئی سروکار نہیں یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں اور اگر وہ دین کے معاملات میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر (ان کی) مدد کرنا واجب ہے مگر اس قوم کے مقابلے میں (مدد نہ کرنا) کہ تمہارے اور ان کے درمیان (صلح و امن) کا معاہدہ ہو اور اللہ ان (کاموں) کو جو تم کر رہے ہو خوب دیکھنے والا ہے۔“ ”اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے

اور تم (دوزخ کی) آگ کے کنارے پر (پہنچ چکے ) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے۔ قرآن حکیم میں بیان کردہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق کا دائرہ صرف اخلاقی یا سماجی معاملات تک ہی محدود نہیں بلکہ زندگی کی معاشی، اقتصادی اور دیگر عملی معاملات بھی اس میں شامل ہیں۔ ”جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (روز قیامت) کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان (آسیب) نے چھو کر بد حواس کر دیا ہو، یہ اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خرید و فروخت) بھی تو سود کی مانند ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت (سوداگری) کو حلال قرار فرمایا ہے اور سود کو حرام کیا ہے، پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ (سود سے) باز آگیا تو جو پہلے گزر چکا وہ اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جس نے پھر بھی لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“ ”اور اگر فرضدار تنگ دست ہو تو خوشحالی تک مہلت دی جانی چاہئے اور تمہارا (قرض کو) معاف کر دینا تمہارے لئے بہتر ہے۔ اگر تمہیں معلوم ہو (کہ غریب کی دل جوئی اللہ کی نگاہ میں کیا مقام رکھتی ہے۔“ الغرض آپ نے اسلامی معاشرے کے ہر فرد کویہ حق عطا کیا کہ معاشرے کا دوسرا فرد اس کے حقوق کی ادائیگی کیلئے کمر بستہ رہے اور اس طرح جواباً وہ بھی تاکہ طلب حق کے بجائے ایتائے حقوق کے انقلابی پر مبنی معاشرے کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔
تحریر : ڈاکٹر طاہرالقادری
 
Top