انوار البدر کا علمی و تنقیدی جائزہ

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کافی عرصہ ہوا کہ فقہی اور فروعی اختلافات پر بحثیں اور مناظرے (یا مناظرہ نما کہہ لیں) کرنا چھوڑ دیے۔ یہ سوچا کہ جو معاملات سلف سے مختلف فیہ چلے آ رہے ہیں ان میں بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ایک جانب کو قطعاً و یقیناً راجح ثابت کر دیں؟ نیز دین کے بہت سے شعبے ہیں جہاں نئی تحقیقات کی ضرورت ہے تو ان شعبوں میں کام کیوں نہ کیا جائے کہ نافع ثابت ہو۔ چنانچہ فقہ المعاملات اور جدید مسائل میں تخصص فی الحال جاری ہے۔ کچھ تحقیقی کام بھی جاری ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک اسے مکمل فرمائیں اور نافع بنائیں۔ آمین

آج کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ انوار البدر کا خیال آیا۔ سنا تھا بہت عمدہ کتاب ہے اور بہت سے جید علماء کرام نے اس پر تقاریظ تحریر فرمائی ہیں۔ نیز شیخ محترم کفایت اللہ سنابلی صاحب دام فیوضہم کی وسعت مطالعہ اور کثرت علم کا تو میں اسی دن سے معترف ہوں جس دن ان کی پہلی تحریر ایک فورم پر نظروں سے گزری تھی۔ لیکن جب کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو کچھ عجیب سے احساسات نے آ گھیرا۔ خیال ہوا کہ ان احساسات کو فورم کی نظر کر دیا جائے۔ شاید کہ کوئی میری اصلاح کر سکے۔

محترم شیخ نے اپنے تیسرے ایڈیشن کے صفحہ نمبر 171 سے یہ بحث شروع فرمائی ہے کہ "ذراع" عربی میں کہنی کے سرے سے لے کر درمیانی انگلی کے سرے تک کے حصے کو کہتے ہیں۔ سر آنکھوں پر! لیکن محترم شیخ نے جو اس سے پہلے روایت ذکر فرمائی ہے وہ کچھ یوں ہے:

كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة» قال أبو حازم لا أعلمه إلا ينمي ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم (بخاری)

شیخ محترم نے ذراع پر تو سیر حاصل بحث کی لیکن "ید" پر شاید بحث کرنا بھول گئے۔ "ید" یعنی ہاتھ عربی میں دو معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے:

1۔ ہتھیلی اور انگلیوں کے لیے جو کہ اردو میں بھی معروف ہے۔

2۔ ہاتھ کی انگلی سے لے کندھے تک کے لیے۔

چنانچہ تاج العروس میں ہے:

(اليد) ، بتخفيف الدال وضمه (الكف أو من أطراف الأصابع إلى الكف) ؛ كذا في النسخ والصواب إلى الكتف؛ وهذا قول الزجاج؛ وقال غيره: إلى المنكب


شیخ محترم فرماتے ہیں:

اب اگر اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے "ذراع" (کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خود بخود سینے پر آجائیں گے۔"

جس طرح حدیث میں "ذراع" سے مکمل ذراع شیخ محترم نے مراد لیا ہے اسی طرح "ید" سے بھی مکمل "ید" مراد لینا چاہیے۔ "ید" کا اگر پہلا معنی لیا جائے یعنی صرف ہاتھ کا تو اتنا بڑا ہاتھ کم از کم ہم نے نہیں دیکھ جو اس پورے حصے پر آجائے۔ یہ لازماً کچھ حصے پر ہی آئے گا اور باقی حصے پر دایاں بازو یعنی ذراع آئے گا۔

اور اگر دوسرا معنی یعنی انگلی سے کندھے تک مراد لیا جائے تو اسے پورا کا پورا بائیں "ذراع" پر کیسے رکھا جائے گا یہ ہماری ناقص فہم سے باہر ہے۔ میرا خیال ہے کہ جیسے بچے ہاتھی سونڈ کھیلتے ہیں اسی طرح کی کوئی صورت بنانی ہوگی۔ شیخ محترم سے درخواست ہے کہ اگر ان دونوں معانی کی ایک ایک تصویر ارسال فرما دیں تو وضاحت تامہ ہو جائے۔

اور اگر "ید" سے مراد "بعض ید" ہے تو پھر "ذراع" سے مراد "بعض ذراع" کیوں نہیں ہے؟


شیخ محترم کفایت اللہ سنابلی صاحب نے دوسری روایت سنن نسائی کی پیش فرمائی ہے۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں:

أن وائل بن حجر أخبره قال: " قلت لأنظرن إلى صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف يصلي، فنظرت إليه فقام فكبر، ورفع يديه حتى حاذتا بأذنيه، ثم وضع يده اليمنى على كفه اليسرى والرسغ والساعد

اس کے آخری جملے کا ترجمہ شیخ نے یہ فرمایا ہے: "پھر آپ ﷺ نے اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہتھیلی کی پشت، کلائی اور بازو کے اوپر رکھا۔"

آگے استدلال فرماتے ہیں: "اس حدیث کے مطابق اگر دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اس پورے حصے پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خود بخود ہی سینے پر آئیں گے۔"

لیکن مسئلہ یہاں بھی وہی ہے کہ ید کے دونوں معانی کے مطابق پورا کا پورا دایاں ہاتھ اس حصے پر آ ہی نہیں سکتا۔ اب یا تو حدیث مبارکہ میں درایۃً ضعف ہے اور یا پھر شیخ محترم کی فہم میں سقم ہے۔ حدیث مبارکہ تو صحیح ہے البتہ موخر الذکر کی بابت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ البتہ ہم بصد احترام عرض کرتے ہیں کہ اگر شیخ محترم اگر اپنے "مکمل" ذراع کے مقدمے سے ذرا تنزل فرمائیں اور "ذراع" کو بعض ذراع سمجھیں تو اس روایت کا مطلب یہ ہوگا کہ دائیں ہاتھ (اپنے پہلے معنی یعنی ہتھیلی اور انگلیوں کے معنی میں) کو بائیں ہاتھ پر اس طرح رکھا کہ اس کا بعض حصہ ہتھیلی پر، بعض کلائی پر اور بعض بازو پر آ گیا۔ اس معنی میں یہ روایت صحیح ہو جائے گی اور یہ معنی ان روایات سے بھی ثابت ہوتا ہے جن میں ہے: ووضع يده اليمنى على يده اليسرى (مسند ابی داود الطیالسی، مسند احمد، صحیح ابن خزیمہ، المعجم الکبیر للطبرانی و غیرھا) کیوں کہ اگر ان روایات میں آپ نے "ید" سے مراد صرف "ذراع" لیا تو اس پر آپ کو واضح دلیل لانی ہوگی اور اس کے بعد بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا کہ "ید" یمنی اس ذراع پر مکمل کیسے آئے گا۔

دلیل کے ضمن میں شیخ یہ فرما سکتے ہیں کہ جن روایات میں "ذراع" مذکور ہے وہ روایات وضاحت کر رہی ہیں کہ "ید" سے مراد (دوسرے معنی کے لحاظ سے) بعض حصہ ہے لیکن اس صورت میں ہمیں بھی یہ عرض کرنے کا حق ہوگا کہ جن روایات میں "ید" آیا ہے وہ وضاحت کر رہی ہیں کہ (ید کے پہلے معنی کے لحاظ سے) "ذراع" سے مراد بعض حصہ ہے۔ اور کسی بات کو کسی پر ترجیح حاصل نہ ہو پائے گی۔


حضرت شیخ محترم جناب کفایت اللہ سنابلی صاحب نے تیسری روایت مراسیل ابی داؤد کی مرسل طاوس پیش فرمائی ہے اور اس پر کیے جانے والے بہت سے اعتراضات کا عمدہ جواب ارشاد فرمایا ہے۔ لیکن اس دلیل کے بارے میں کچھ تحفظات ہیں:


"ید" یا "ذراع"؟

شیخ محترم کا نکتہ نظر یہ ہے کہ ہاتھ باندھنے میں مکمل "ذراع" پر ہاتھ باندھا جائے گا۔ گزشتہ دو حدیثوں میں انہوں نے یہی ثابت کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ مرسل طاوس کے الفاظ یہ ہیں:

حدثنا أبو توبة، حدثنا الهيثم، عن ثور، عن سليمان بن موسى، عن طاوس، قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع يده اليمنى على يده اليسرى ثم يشد بهما على صدره وهو في الصلاة»

ہم نے کچھ وضاحت عرض کی تھی کہ "ید" کے دو معنی ہیں: معروف ہاتھ یا کندھے تک۔ اب سمجھ نہیں آتا کہ ہاتھ "مکمل ذراع" پر باندھے جائیں یا "مکمل ید" پر۔ ہمارے معروض کا مقصد یہ ہے کہ شیخ محترم کے دلائل آپس میں متعارض ہیں۔ اب ہم کن دلائل کو مانیں؟ پہلے والے دلائل کو یا اس دلیل کو؟ ہو سکتا ہے کہ شیخ محترم فرمائیں کہ پہلے والے دلائل میں "علی الصدر" کی صراحت نہیں ہے اور اس دلیل میں ہے۔ لہذا اس دلیل کو اصل سمجھا جائے۔


زیادتی یا تفرد؟

حضرت طاوس بن کیسانؒ جلیل القدر تابعی ہیں۔ انہوں نے حضرت عائشہ رض، حضرت جابر رض، حضرات عبادلہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر سے سماع فرمایا ہے (اختلاف اور اقوال سے قطع نظر کرتے ہوئے)۔ لیکن چونکہ یہ تابعی ہیں اس لیے ان کا سماع براہ راست نبی کریم ﷺ سے نہیں ہے۔ انہوں نے جن صحابہ کرام سے سماع فرمایا ہے ان میں سے کسی ایک نے بھی "علی الصدر" کی زیادتی روایت نہیں کی۔ بلکہ ہمارے علم کی حد تک یہ پوری روایت ہی نقل نہیں فرمائی۔ ان کے علاوہ جن صحابہ کرام رض (جیسے عبد اللہ بن مسعود رض اور وائل بن حجر رض) نے یہ روایت نقل کی ہے ان کے اکثر طرق میں بھی "علی الصدر" کی زیادتی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ طاوسؒ یہ الفاظ اور یہ روایت کہاں سے لائے؟

محترم شیخ فرماتے ہیں: "محدثین کے نزدیک بھی مرسل روایت دوسری احادیث کی موجودگی میں مقبول ہے۔"

ہم عرض کرتے ہیں کہ طاوس کی یہ روایت اور کسی سند سے ہمارے علم کی حد تک موجود نہیں ہے۔ اس کا معنی آپ کی پیش کردہ دیگر روایات میں موجود ہے لیکن یہ روایت ان الفاظ یا ہم معنی الفاظ کے ساتھ کہیں نہیں ہے جس میں "علی الصدر" بھی ہو اور "شد" یعنی ہاتھ باندھنے کا ذکر بھی ہو۔ یہ دو مستقل احکام ہیں۔ اس لیے آپ یہ تو فرما سکتے ہیں کہ اس روایت کا معنی مقبول ہے کیوں کہ یہ معنی دوسری احادیث میں وارد ہے لیکن یہ روایت بذات خود مقبول قرار دینا محل نظر ہے۔ جو روایات آپ نے پیش فرمائیں ان کے رواۃ سے طاوس کا سماع نہیں ہے یعنی درمیان میں کوئی واسطہ ہے۔

طاوس بن کیسانؒ کی اس روایت کا کیا کوئی متابع یا کوئی شاہد شیخ محترم ہمیں بتا دیں گے؟


"یشد" یا "یشبک"؟

شیخ محترم نے حنفیوں کے مراسیل کے درسی نسخے میں اس روایت میں "یشد" کے بجائے "یشبک" ہونے کی شکایت کی ہے اور ساتھ میں حنفیوں کے طریقہ کار کو بھی ناپسند فرمایا ہے۔ بجا ہے! لیکن ہم خدمت عالی میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ مراسیل کے اس وقت تین مطبوعہ نسخے ہمارے سامنے موجود ہیں۔

1۔ ارناؤط کی تحقیق والا نسخہ جس میں "یشد" ہے۔

2۔ زہرانی کی تحقیق والا نسخہ جس میں انہوں نے "یشد" کو باقی رکھا ہے اور یہ کہا ہے کہ ان کے اصل مخطوطے (جس پر وہ اکثر اعتبار کرتے ہیں) میں یہ لفظ غیر واضح ہے۔

3۔ سیروان کی تحقیق والا نسخہ جس میں انہوں نے "یشبک" کو باقی رکھا ہے۔ سیروان کا نسخہ اس لحاظ سے سب سے منفرد ہے کہ سیروان نے اس کے لیے جن مخطوطات سے مدد لی ہے وہ نہایت واضح ہیں جیسا کہ سیروان کے نسخے کے شروع میں اور زہرانی کے نسخے کے شروع میں دیے گئے مخطوطات کے اسکین میں فرق دیکھا جا سکتا ہے۔ سیروان اور زہرانی دونوں نے کافی دقت کے ساتھ یہ تحقیق کی ہے۔

چنانچہ یہاں ابہام پیدا ہو جاتا ہے کہ اصل حدیث میں"یشد" تھا یا "یشبک"؟ اس کے بارے میں یہ کہنا کہ چونکہ سنن ابو داود میں یہاں "یشد" ہے اس لیے اس لفظ کو ترجیح ہوگی، مناسب نہیں۔ کیوں کہ دونوں روایات ایک ہیں اور دونوں کے راوی بھی ایک ہی یعنی امام ابو داؤدؒ ہیں۔ امام ابو داؤد سے آگے ان کے ناقلین میں یہ اختلاف ہوا ہے۔ اب یہ برابر ہے کہ وہ ناقلین سنن کے ہوں یا مراسیل کے، وہ ہیں ایک ہی بندے یعنی ابو داؤدؒ پر مختلف۔ اب جب اس روایت میں احتمال آ چکا ہے تو اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اس روایت کی کسی سمت کو کسی اور سند سے ترجیح نہ مل جائے۔

یہاں شیخ محترم فرماتے ہیں: :دونوں کا معنی ہاتھ باندھنا ہی ہے لہذا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔"

ہم نہایت افسوس کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ جب معاملہ "ذراع" کا معنی بیان کرنے کا تھا تب محترم شیخ کئی حوالے لے آئے اور جب معاملہ "تشبیک" کا معنی بیان کرنے کا ہے تب فقط چند الفاظ میں کام نمٹا دیا۔

محترم شیخ! تشبیک الاصابع کا مطلب ہے انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالنا۔ تشبیک کا اصل مطلب ایک دوسرے میں گھسانا ہے۔

"وأصل الشبك هو الخلط والتداخل، ومنه تشبيك الأصابع، وهو إدخال الأصابع بعضها في بعض، وقد نهي عنه في الصلاة كما نهي عن عقص الشعر واشتمال الصماء والاحتباء"

تاج العروس 27۔217 دار الہدایہ

معجم الوسیط و اللفظ لتاج العروس

اگر تشبیک کا معنی آپ کے قول کے مطابق "ہاتھ باندھنا" مان لیا جائے تو پھر ان روایات کا کیا ہوگا جن میں نبی کریم ﷺ کے داڑھی کے خلال کو لفظ "تشبیک" سے تعبیر کیا گیا ہے؟ اور ان روایات کا کیا معنی ہوگا جن میں مسجد میں یا نماز میں تشبیک سے منع کیا گیا ہے؟ کیا وہاں بھی یہ کہا جائے گا کہ یہاں داڑھی پر ہاتھ باندھنا مراد ہے یا مسجد میں ہاتھ باندھنا منع کیا گیا ہے؟ لہذا دونوں معانی کو ایک بتانا ایک انتہائی نامناسب عمل ہے جو اگر بھول میں ہوا ہو تو خیر ہے لیکن اگر خدا نخواستہ جان کر ہوا ہو تو ہمیں ڈر ہے کہ لوگوں کو "غلط بیانی کر کے گمراہ کرنے" میں داخل نہ ہو۔


مسلک احناف یا مسلک اہل حدیث؟

جناب شیخ دام فیوضہم ارشاد فرماتے ہیں: "رہا اس روایت کا مرسل ہونا تو عرض ہے کہ احناف کے یہاں مرسل روایت حجت ہوتی ہے۔"

آگے فرماتے ہیں: "محدثین کے نزدیک بھی مرسل روایت دوسری احادیث کی موجودگی میں مقبول ہے۔"

پھر اس کی مؤید احادیث کے سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں: "چونکہ اس مرسل روایت کے بہت سارے شواہد ہیں، جیسا کہ اس کتاب کے باب اول میں ہی مذکور ہے۔۔۔"

ہم تبصرۃً کہتے ہیں کہ کتاب کے باب اول کی روایات مرفوعہ کے بارے میں تو ہم عرض کر چکے ہیں کہ ان میں موجود "مکمل ذراع" کا فلسفہ اس روایت میں موجود "مکمل ید" کے فلسفے سے ٹکرا رہا ہے لہذا وہ تو اس روایت کی مؤید ہو نہیں سکتیں۔ ہاں آگے آنے والی احادیث کی بات کریں تو وہ احادیث بہرحال کلام سے خالی نہیں ہیں۔ ان پر کسی نہ کسی صورت کلام ہوا ہے۔ خیر ان کا ذکر آگے کریں گے۔

فی الحال ہم یہ بتاتے چلیں کہ شیخ کے اس دعوے سے بہت سے اہل حدیث اب پریشان ہیں کہ مسلک احناف پر عمل کر کے اس مرسل روایت کو قابل حجت مانیں یا مسلک اہل حدیث پر عمل کرکے اس روایت کی مؤید احادیث میں پیش آنے والے مختلف مسائل میں پڑیں؟ اب ہم ان اہل حدیث بھائیوں کے درد کا درمان تلاش کر رہے ہیں (جو کہ اب تک کے دلائل میں تو نہیں ملا)۔


جناب محترم حضرت الشیخ کفایت اللہ سنابلی صاحب نے اس کے بعد حدیث ہلب الطائی رضی اللہ عنہ پیش فرمائی ہے۔ اس کی تصحیح کے سلسلے میں شیخ محترم نے یہ شکوہ فرمایا ہے کہ علامہ ہاشم ٹھٹھویؒ نے معیار النقاد میں اولاً اس حدیث کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے اور پھر جب علماء اہل حدیث نے ایک نکتے کی وضاحت کر دی تو ہاشمؒ نے اس کی سند پر ہی بحث شروع کر دی۔ اس کے بعد نہایت درد دل کے ساتھ فرمایا ہے: "فإلی اللہ المشتکی"۔

سچ کہیں تو اس شکوے پر قریب تھا کہ ہماری بھی آنکھیں بھر آتیں اگر ہم یہ دیکھ کر حیران نہ رہ گئے ہوتے کہ معیار النقاد علامہ ہاشم ٹھٹھویؒ اور علامہ حیات سندھیؒ کے مابین اس مسئلے پر گفتگو کا آخری رسالہ ہے اور اس کے بعد علامہ حیات سندھیؒ نے انہیں کوئی جوابی رسالہ نہیں بھیجا تھا۔ اب ہماری سمجھ میں یہ نہیں آ پارہی کہ وہ کون سے علماء اہل حدیث تھے جنہوں نے ہاشم ٹھٹھویؒ کو اس نقطے سے آگاہی دلائی اور ان کے جواب میں ہاشمؒ نے سند پر بحث شروع کر دی؟ ایسے کسی عالم کا کوئی رسالہ یا کوئی خط ہمیں نہیں ملا نہ ہی ایسی کسی بحث یا مناظرے کا ثبوت ملا۔ امید ہے کہ حضرت شیخ اس طرف ہماری رہنمائی فرما کر ایسا کوئی رسالہ جلد از جلد عنایت فرمائیں گے۔

خیر اس حدیث پر بات کرنے سے پہلے ہم ایک اور مسئلے پر بات کرتے ہیں اور وہ مسئلہ ہے ائمہ اربعہ کے مسالک کا۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں: " گزشتہ سطور میں ہم بتا چکے ہیں کہ امام شافعیؒ سے بھی یہ قول منقول ہے، بلکہ بعض روایات کے مطابق امام احمدؒ سے بھی یہ قول منقول ہے اور معنوی طور پر یہی قول امام مالکؒ سے بھی منقول ہے۔"

شیخ محترم نے جو فرمایا وہ سر آنکھوں پر لیکن بات تعجب کی یہ تھی کہ علامہ شوکانیؒ و دیگر کو ان مذاہب کی تحریر کے وقت یہ اقوال بھلا کیوں نہ نظر آئے؟ چنانچہ ہم نے سوچا کہ بجائے تقلید کے کچھ تحقیق ہی کر لی جائے۔


مذہب مالکیہ:

حضرت شیخ فرماتے ہیں: "امام مالک سے ارسال کا قول مروی ہے۔ یعنی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا۔ مگر دیگر مالکیہ نے امام مالک کی طرف اس نسبت کو غلط قرار دیا ہے اور امام مالک کا صحیح قول یہ بتلایا ہے کہ وہ بھی ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں۔"

دیگر مالکیہ کی یہ تحقیق محترم شیخ نے ھیئۃ الناسک سے لی ہے لیکن شاید ہاتھ باندھنے کی صورت میں تقریباً تمام (جی ہاں تمام اور "تقریباً" کی قید صرف اس لیے ہے کہ شاید کوئی ایک آدھ روایت مرجوحہ نظر سے رہ گئی ہو) مالکیہ کے یہاں جو جگہ مراد لکھی ہے وہ شیخ سے اوجھل رہ گئی۔ صاحب ھیئۃ الناسک نے باقاعدہ ایک باب ہاتھ باندھنے کی جگہ کے بارے میں قائم کیا ہے اور کئی اقوال سے اسے "تحت الصدر" ثابت کیا ہے۔ ایک جانب تو یہ ہے اور دوسری جانب محترم شیخ نہایت پیار سے فرماتے ہیں: "نیز امام مالکؒ سے تحت الصدر کا قول بھی مروی ہے۔" ہمارا خیال ہے کہ یہ کاتب کی غلطی ہے ورنہ شیخ کا جملہ یہ ہوگا: "نیز امام مالکؒ سے تحت الصدر کا قول "ہی" مروی ہے۔" اس کی وجہ یہ ہے کہ امام مالکؒ سے دو ہی قول مروی ہیں: ایک ارسال کا اور دوسرا تحت الصدر کا۔ اور ہاتھ باندھنے کی صورت میں فقط تحت الصدر کا قول ہی مالکیہ کو معلوم ہے۔


محترم شیخ دامت برکاتہم امام مالکؒ کے یہاں سینے پر ہاتھ باندھنے کے حوالے سے دور کی کوڑی لائے ہیں۔فرماتے ہیں: "عرض ہے کہ سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے سینے پر ہاتھ باندھنا ثابت ہوتا ہے جیسا کہ وضاحت کی جاچکی ہے۔ لہذا اگر امام مالکؒ نے اس حدیث کو اپنایا ہے تو اس حدیث کی رو سے امام مالکؒ کا قول بھی سینے پر ہاتھ باندھنے کا ہی ہے۔"

ہمیں نہایت افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑ رہا ہے کہ حضرت شیخ اس کوڑی کی تلاش میں بہت دور نکل گئے تھے جس کی وجہ سے جو کوڑی ملی وہ کام کی نہیں ہے۔ امام مالکؒ کا مسلک وہ ہے جسے مالکیہ بیان کرتے ہیں۔ مذاہب اربعہ کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ یہ باقاعدہ تلمذ کے طریقے سے محفوظ رہے ہیں ورنہ فقہاء و مجتہدین اور بھی کئی تھے لیکن انہیں صحیح شاگرد نہیں ملے۔ چنانچہ امام مالکؒ کا مسلک وہ مقبول ہوگا جسے ان کے شاگرد اور ان کے مسلک کے فقہاء نقل کریں گے۔ اور شیخ محترم نے تو جو قول امام مالکؒ کی طرف منسوب کیا ہے وہ ان سے کسی ضعیف روایت سے بھی ثابت نہیں۔

یہاں ہم یہ بتاتے چلیں کہ شیخ کی مراد "جیسا کہ وضاحت کی جا چکی ہے" سے "مکمل ذراع" والا فلسفہ ہے جو کہ ویسے ہی درست نہیں ہے اور "مکمل ید" کی وجہ سے اس میں سقم آ چکا ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ امام مالکؒ کے یہاں اس حدیث سے "مکمل ذراع" مراد ہی نہیں ہے بلکہ کلائی مراد ہے۔ چنانچہ امام مالکؒ سے تحت الصدر کے قول کے بارے میں جو اختلاف ہوا ہے وہ بھی دائیں ہاتھ سے بائیں کلائی کو پکڑنے کے بارے میں ہے۔ چنانچہ علامہ زرقانیؒ فرماتے ہیں:

(وهل يجوز القبض) لكوع اليسرى بيده اليمنى واضعًا لهما تحت الصدر وفوق السرة (في النفل) طول فيه أم لا لجواز الاعتماد فيه من غير ضرورة (أو) يجوز (إن طول) فيه ويكره إن قصر تأويلان

ترجمہ: "اور کیا بائیں کلائی کو دائیں ہاتھ سے پکڑنا جبکہ دونوں کو سینے کے نیچے اور ناف کے اوپر رکھا ہوا ہو نفل میں جائز ہے چاہے نفل میں طوالت ہو یا نہ ہو بغیر ضرورت سہارے کے جائز ہونے کی بناء پر یا طوالت کے ساتھ نفل میں جائز ہے اور مختصر میں جائز نہیں؟ اس میں دو تاویلیں ہیں۔"

اس کے تحت علامہ بنانی حاشیے میں لکھتے ہیں:

(وهل يجوز القبض في النفل أو إن طول الخ) قال في المدوّنة ولا يضع يمناه على يسراه في فريضة وذلك جائز في النوافل لطول القيام فقال صاحب البيان ظاهرها أن الكراهة في الفرض والنفل إلا أن أطال في النافلة فيجوز حينئذ وذهب غيره إلى أن مذهبها الجواز في النافلة مطلقًا لجواز الاعتماد فيها من غير ضرورة فهذان تأويلان على قول المدوّنة بالكراهة وفي القبض ثلاثة أقوال أخر غير الكراهة أحدها الاستحباب في الفرض والنفل وهو قول مالك في رواية مطرف وابن الماجشون عنه في الواضحة وقول المدنيين من أصحابنا واختاره غير واحد من المحققين منهم اللخمي وابن عبد البر وأبو بكر بن العربي وابن رشد وابن عبد السلام وعده ابن رشد في مقدماته من فضائل الصلاة وتبعه القاضي عياض في قواعده ونسبه في الإكمال إلى الجمهور وكذا نسبه لهم الحفيد ابن رشد وهو أيضًا قول الأئمة الثلاثة الشافعي وأبي حنيفة وأحمد وغيرهم من أئمة المذاهب كما ذكره في الاستذكار انظر نصوص من ذكرنا في رسالة الشيخ مس في القبض ووقع في كلام ابن عرفة نسبة هذا القول لسماع القرينين وهما أشهب وابن نافع وتبعه ق في ذلك واعترضه غ في تكميل التقييد وقال إنه وهم أو تصحيف وكان الصواب أن يعبر بالأخوين كما عبر به بعد في نقل كلام ابن رشد إذ هما عنده مطرف وابن الماجشون لكثرة توافقهما ومصاحبتهما في كتب الفقه بالذكر وقد تبع ابن عرفة ذلك الوهم أو التصحيف أبو العباس في القلشاني في شرحه على ابن الحاجب الثاني من الأقوال الثلاثة إباحة القبض في الفرض والنفل معًا وهو قول مالك في سماع القرينين وقول أشهب في رسم شك في طوافه من سماع ابن القاسم القول الثالث منع القبض فيهما حكاه الباجي وتبعه ابن عرفة قال الشيخ مس وهو من الشذوذ بمكان ثم قال مس أيضًا وإذا تقرر الخلاف في أصل القبض كما ترى وجب الرجوع إلى الكتاب والسنة كما قال تعالى: {فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ} [النساء: 59] وقد وجدنا سنة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قد حكمت بمطلوبية القبض في الصلاة بشهادة ما في الموطأ والصحيحين وغيرهما من الأحاديث السالمة من الطعن فالواجب الانتهاء إليها والوقوف عندها والقول بمقتضاها اهـ.

(شرح الزرقانی علی مختصر الخلیل، 1۔379، ط: دار الکتب العلمیۃ)

اس مکمل عبارت کا ترجمہ بلا فائدہ ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس میں کلائی کو پکڑنے کے حوالے سے مالکیہ کے کل پانچ مذاہب کا بیان ہوا ہے:

1۔ نفل میں جائز ہے چاہے طوالت ہو یا نہ ہو۔ (یہ شرح کی روایت ہے)

2۔ نفل میں جائز ہے جب طوالت ہو۔ (یہ شرح کی روایت ہے۔)

3۔ فرض و نفل میں مستحب ہے۔

4۔ دونوں میں مباح ہے۔

5۔ بہر صورت ناجائز ہے۔

یہاں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ مالکیہ میں کوئی ایک قول بھی ہاتھ کو بازو پر پھیلانے کے حوالے سے نہیں ہے اور کلائی کو پکڑ کر ہاتھ بازو پر پھیلانا ممکن نہیں۔ حضرت شیخ نے اپنے قول کی بنیاد ہی اس پر رکھی تھی کے بازو پر ہاتھ رکھنے سے ہاتھ سینے پر آ جاتے ہیں۔ اب جب بازو پر ہاتھ رکھنا امام مالکؒ سے ثابت ہی نہیں ہے تو سینے پر ہاتھ اس طریقے سے پہنچانا بھی ممکن نہیں رہا۔ شیخ محترم سے یہاں سخت تسامح ہوا ہے اور امام مالکؒ کا وہ مسلک بیان کر گئے ہیں جو نہ تو امام مالکؒ کو معلوم ہے اور نہ ہی مالکیہ کو۔ اللہ پاک درگزر فرمائیں۔


مذہب شافعیہ:

حضرت شیخ محترم نے امام شافعیؒ کے حوالے سے بڑا زبردست دعوی کرتے ہوئے فرمایا ہے: "امام شافعیؒ سے پوری صراحت کے ساتھ سینے پر ہاتھ باندھنے کا قول مروی ہے۔"

آگے جو قول ذکر کیا ہے وہ ابن ملقنؒ کا ہے۔ انہوں نے ذکر کیا ہے: "قال: و وضع الیمین علی الیسار علی الصدر" حضرت شیخ ترجمہ فرماتے ہیں: "امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ "دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر رکھے جائیں۔"

مسئلہ کچھ یوں ہے کہ ابن ملقن کی یہ شرح علامہ تبریزیؒ کی کتاب مختصر ہے یعنی اس "قال" کے قائل علامہ تبریزیؒ ہیں۔ ہم نے بہت تلاش کیا اور غور و فرک کے گھوڑے دوڑائے کہ کسی طرح علامہ تبریزیؒ کو امام شافعیؒ بنا سکیں لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ علامہ تبریزیؒ 621 ھ میں فوت ہوئے ہیں اور امام شافعیؒ سے کم و بیش چار سو سال متاخر ہیں۔ نیز امام شافعیؒ شاید ہی کبھی تبریز گئے ہوں۔ پھر بھلا علامہ تبریزیؒ کا قول امام شافعیؒ کی صراحت کیسے بن سکتا ہے؟ بہرحال انسان خطا کا پتلا ہے۔ شیخ محترم سے جوش خطابت یا جوش کتابت میں غلطی ہو گئی ہوگی۔

جن ابن ملقنؒ کی کتاب سے شیخ محترم نے حوالہ نقل کیا ہے ان ہی کی ایک اور کتاب میں کچھ یوں تحریر ہے:

وإذا قلنا بأخذ اليمين باليسار فيكون ذلك تحت الصدر وفوق السرة؛ لحديث وائل بن حجر۔۔۔

ترجمہ: "اور جب ہم قائل ہیں بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑنے کے تو یہ سینے کے نیچے اور ناف کے اوپر ہوگا بوجہ حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ۔۔۔۔۔۔"

یہاں ہم نے اخذ الیمین بالیسار کا ترجمہ بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑنا دیگر عبارات کی وجہ سے کیا ہے۔ ورنہ اس کا ترجمہ الٹا بھی کیا جا سکتا ہے۔

اس سے آگے فرماتے ہیں:

فعلى الأول: يضع كف يمينه على يساره قابضًا كوعها وبعض رسغها: وهو المفصل وساعدها.

قال القفال: ويتخير بين بسط أصابع يمينه في عرض المفصل وبين نشرها في صوب الساعد. وقيل: يضع كفه اليمنى على زراعه الأيسر، قاله بعض الحنفية، والأصح عندنا أنه يحط يديه بعد التكبير تحت صدره. وقيل: يرسلهما ثم يستأنف فعلهما إلى تحت صدره.

(التوضیح لشرح الجامع الصحیح، 6۔642، ط: دار النوادر)

ترجمہ: " پہلے قول کے مطابق: اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر کلائی اور گٹے کو پکڑتے ہوئے رکھے گا، اور یہ (رسغ) جوڑ اور بازو ہے۔

قفال کہتے ہیں: اسے اختیار ہے کہ اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو جوڑ کی چوڑائی میں پھیلا لے یا بازو کی لمبائی میں پھیلا لے۔ اور کہا گیا ہے کہ دائیں ہتھیلی بائیں بازو پر رکھے گا۔ یہ بعض حنفیہ نے کہا ہے۔ اور ہمارے نزدیک صحیح یہ ہے کہ تکبیر کے بعد اپنے ہاتھ سینے کے نیچے تک نیچے کر لے گا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ ہاتھوں کو چھوڑ دے گا پھر دوبارہ سینے کے نیچے تک کرے گا۔"

محترم شیخ شايد نہ جانتے ہوئے بعض حنفیہ کی رائے کی جانب چلے گئے ہیں۔ بہرحال یہ ابن ملقن کی اپنی وضاحت ہے کہ ہاتھ رکھنے کا مقام شافعیہ کے نزدیک کیا ہوگا۔

یہاں دو باتیں قابل وضاحت ہیں:

1۔ شیخ محترم نے جس کتاب سے حوالہ دیا ہے شافعیہ کے نزدیک اس کتاب اور اس طرح کی دوسری مجمل کتب سے فتوی نہیں دیا جاتا۔ کیوں کہ ان میں احتمال ہوتا ہے کہ اس کی تفصیل موجود نہ ہو۔ اور یہ صرف شافعیہ میں ہی خاص نہیں ہے بلکہ دیگر مسالک میں بھی یہی طریقہ کار ہے۔ چنانچہ احناف کے فتوی کے اصولوں کے لیے ابن عابدینؒ کی شرح عقود رسم المفتی اور شافعیہ کے اصولوں کے لیے ابن حجر ہیثمیؒ کی نہایۃ المحتاج اور دیگر كتب ديكهي جا سکتی ہیں۔

2۔ فقہ کے اندر مختصر اقوال کی قیود اور شروح مفصل اقوال سے حاصل کی جاتی ہیں۔ اگر ایک جگہ ایک لفظ مذکور ہو اور دوسری جگہ اس کی تفصیل مذکور ہو تو اس تفصیل کے مطابق اس لفظ کو لیا جاتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے حدیث کی کتب میں موجود اصطلاحات کو اس تفصیل کے ذریعے سمجھا جاتا ہے جو کتب اصول حدیث میں مذکور ہوتی ہے، فقط لغت سے نہیں سمجھا جاتا۔ محترم شیخ تو ہمارے حسن ظن کے مطابق محقق اور متبحر عالم ہیں۔ یہ تفصیلات ان کے لیے ہیں جو فقہ میں نو آموز ہوں۔

چنانچہ فقہ شافعی میں اگر ایک جگہ ایک لفظ مختصر یا مجمل استعمال ہوا ہو اور دوسری جگہ اس کی تفصیل مذکور ہو تو وہاں سے تفصیل اخذ کی جائے گی الا یہ کہ وہ تفصیل خود شوافع کی نظر میں مرجوح ہو۔


علامہ نوویؒ اور زکریا انصاریؒ کی وضاحتیں:

علامہ نووی اور امام رافعی رحمہما اللہ فقہ شافعی کے ستون سمجھے جاتے ہیں۔ ان دو حضرات نے اس فقہ کو مدون کیا اور اس کی چھان پھٹک کی۔ ہم تفصیل میں نہیں جاتے لیکن تفصیل کے لیے نہایۃ المحتاج دیکھی جا سکتی ہے۔

دسویں صدی میں چار بڑے علماء شوافع گزرے ہیں جن پر فتاوی کا مدار ہے۔ ہم ان میں سے صرف ایک زکریا انصاریؒ کا حوالہ نقل کرتے ہیں۔ اس سے پہلے علامہ نوویؒ کا ارشاد بھی پیش خدمت ہے:

قال أصحابنا السنة أن يحط يديه بعد التكبير ويضع اليمنى على اليسرى ويقبض بكف المينى كوع اليسرى وبعض رسغها وساعدها قال القفال يتخير بين بسط أصابع اليمنى في عرض المفصل وبين نشرها في صوب الساعد ويجعلهما تحت صدره وفوق سرته هذا هو الصحيح المنصوص

(المجموع للنووی، 3۔310، ط: دار الفکر)

ترجمہ: "ہمارے اصحاب کہتے ہیں: سنت یہ ہے کہ تکبیر کے بعد اپنے ہاتھ نیچے لر لے اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ لے اور دائیں ہتھیلی سے بائیں کلائی اور کچھ گٹا اور بازو پکڑ لے۔ قفال کہتے ہیں: اسے اختیار ہے کہ دائیں ہاتھ کی انگلیاں جوڑ کی چوڑائی میں پھیلا لے یا بازو کی لمبائی میں پھیلا لے۔ اور ان دونوں ہاتھوں کو سینے کے نیچے اور ناف کے اوپر رکھے گا۔ یہی صحیح منصوص (مذہب) ہے۔"


شیخ الاسلام زکریا انصاریؒ فرماتے ہیں:

(ويضعهما) أي اليدين (بين السرة، والصدر)

(اسنی المطالب، 1۔145، ط: دار الکتاب الاسلامی)

ترجمہ: "اور ان دونوں کو یعنی دونوں ہاتھوں کو ناف اور سینے کے بیچ رکھے گا۔"

اس موضوع پر کئی حوالے پیش کیے جا سکتے ہیں کیوں کہ یہ شافعیہ میں معروف مسئلہ ہے اور ان کی اکثر کتب فقہ میں مذکور ہے۔ فی الحال ان دو پر اکتفاء کیا جا رہا ہے۔ اگر شیخ محترم طلب فرمائیں تو مزید پیش کر دیے جائیں گے۔


شیخ کفایت اللہ صاحب فرماتے ہیں: "عرض ہے کہ امام شافعیؒ سے علی الصدر کی صراحت آ جانے کے بعد تحت الصدر کا مفہوم یہی ہوگا کہ اس سے سینے کا اوپری حصہ مراد لے کر کہا گیا ہے کہ ہاتھ اس سے نیچے رکھے جائیں۔" اس پر شیخ محترم نے شیخ ہاشم ٹھٹھویؒ کا ایک اقتباس بھی پیش فرمایا ہے جس پر ذرا بعد میں گفتگو کرتے ہیں۔ پہلے ہماری چند معروضات سن لیجیے:

1۔ امام شافعیؒ سے "علی الصدر" کی صراحت نہیں آئی بلکہ وہ تبریزیؒ کا قول تھا۔ نیز وہ کتاب فتاوی کی معتمد کتاب بھی نہیں ہے۔

2۔ اوپر مذکور زکریا انصاریؒ کا قول "بین السرۃ و الصدر" یعنی "ناف اور سینے کے بیچ" اس کے صراحتاً خلاف ہے۔

3۔ جس طرح شیخ محترم "ذراع" کے مکمل معانی کو کتب لغت میں تلاش کر کے اس پر عمل پیرا ہیں اسی طرح اگر "تحت" کے معنی کو کتب لغت میں دیکھ لیں تو اس تاویل کو شاید خود ہی فاسد سمجھ لیں۔


ہاشم ٹھٹھویؒ کا اقتباس حضرت شیخ نے یہ لگایا ہے:

"و اجاب عنہ بعض متاخری الشافعیۃ کالمحلی فی شرح المنہاج و ابن حجر المکی فی شرح العباب بان المراد من الصدر فی قول الشافعیۃ تحت الصدر اعلاہ و فی حدیث وائل الذی فیہ لفظ علی صدرہ اسفلہ"

محترم شیخ نے اس کے ترجمے میں فرمایا ہے: "شافعیہ کے قول تحت الصدر میں صدر سے مراد سینے کا اوپری حصہ ہے اور وائل رضی اللہ عنہ کی جس حدیث میں علی الصدر کا لفظ ہے، اس سے مراد سینے کا نچلا حصہ ہے۔"

شیخ محترم سے اس ترجمے میں سخت تسامح ہوا ہے۔ اولاً تو ہم اوپر حوالے دے چکے ہیں کہ شافعیہ کے نزدیک سینے کا اوپری حصہ وضع الیدین کی جگہ ہی نہیں ہے بلکہ انہوں نے تحت الصدر کو وضع الیدین کی جگہ قرار دیا ہے۔ ثانیاً یہ بہتر تھا کہ جس طرح شیخ محترم جرح تعدیل کے اقوال کی سند تلاش کرتے ہیں اور اصل جگہ پر قول نہ ملنے یا سند نہ ملنے پر قول رد کر دیتے ہیں (حالانکہ علماء جرح و تعدیل نے یہ انداز نہیں اپنایا) اسی طرح یہاں بھی اصل کتب کی طرف مراجعت کرتے جن کا حوالہ ہاشمؒ نے دیا ہے۔

علامہ ہاشمؒ نے دو کتب کا حوالہ دیا ہے: شرح المنہاج للمحلی اور شرح العباب لابن حجر المکی۔

شرح المنہاج میں ہے: "زاد ابن خزیمۃ: علی صدرہ، ای آخرہ فیکون آخر الید تحتہ"

(کنز الراغبین، 1۔193، ط: دار المنہاج)

ترجمہ: "ابن خزیمہ نے علی صدرہ کی زیادتی کی ہے یعنی سینے کا آخری حصہ لہذا ہاتھ کا آخری حصہ سینے کے نیچے ہو جائے۔"

شرح العباب فی الحال مطبوعہ حالت میں موجود نہیں ہے۔ اس کا مخطوطہ جامعۃ الملک السعود میں موجود ہے۔ اس میں ہے:

"بین سرتہ و صدرہ لما صح انہ ﷺ وضع یدہ الیمنی علی یدہ الیسری علی صدرہ ای آخرہ فتکون تحتہ بقرینۃ روایۃ تحت صدرہ"

ترجمہ : "(ہاتھ رکھے گا) اپنی ناف اور سینے کے درمیان اس لیے کہ نبی کریم ﷺ کی صحیح حدیث ہے کہ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر سینے پر رکھا۔ یعنی سینے کے آخر میں تو وہ (ہاتھ) اس (سینے) کے نیچے ہوگا تحت صدرہ کی روایت کے قرینے سے۔"

ان دونوں حوالوں میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ احادیث میں تطبیق کرتے ہوئے ہاتھ رکھنے کی جگہ وہ بتائی گئی ہے جہاں ہاتھ کا کچھ حصہ سینے سے نیچے ہو اور کچھ سینے پر۔ اسے سینے سے متصل نیچے کا مقام کہا جا سکتا ہے۔ یہی مراد علامہ ہاشمؒ کی ہے۔ ان کے قول میں "اعلاہ" کا مطلب "اعلی تحت الصدر" ہے "اعلی الصدر" نہیں۔


اب اگر شیخ محترم کا مسلک بھی اسی مقام پر ہاتھ باندھنے کا ہے تو ہم عرض کرتے ہیں کہ اسے فقہاء کی اصطلاح میں تحت الصدر اور فوق السرۃ کہا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ پیٹ کا سب سے اوپری مقام ہوتا ہے جہاں سے سینہ شروع ہوتا ہے۔ تو اگر شیخ محترم کا مسلک اسی مقام کا ہے تو پھر وہ وضاحت فرما دیں۔ اور اگر اس سے ذرا بھی اوپر کا مسلک ہے تو پھر شافعیہ اور مالکیہ کا تو یہ مسلک نہیں ہے، حنابلہ کی تحقیق آئندہ کرتے ہیں۔


محترم شیخ نے حنفی علماء کے بھی کئی حوالے پیش فرمائے ہیں۔ اس حوالے سے ہم صرف اتنا کہنا چاہیں گے کہ مسلک شافعی علماء شوافع کے اقوال سے ثابت ہوتا ہے علماء احناف کے اقوال سے نہیں۔ لہذا یہ حوالے پیش کرنا خواہ مخواہ کی درد سری ہے۔
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
یہ تحریر محدث فورم پر چل رہی ہے اور ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ اگر وقت ملا تو انشاء اللہ اسے جلد ہی مکمل کروں گا۔ ساتھ ہی یہاں بھی پوسٹ کرتا جاؤں گا۔
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
مذہب حنابلہ:
حنابلہ کے مسلک کے بارے میں شیخ محترم کی بیان کردہ تفصیل سے پہلے کیوں نہ ہم خود مسلک حنابلہ کا جائزہ لے لیں۔
ابن قدامہ حنبلیؒ:
"مسألة: قال: (ويجعلهما تحت سرته) اختلفت الرواية في موضع وضعهما، فروي عن أحمد، أنه يضعهما تحت سرته. روي ذلك عن علي، وأبي هريرة وأبي مجلز، والنخعي، والثوري، وإسحاق؛ لما روي عن علي - رضي الله عنه - قال: من السنة وضع اليمين على الشمال تحت السرة. رواه الإمام أحمد، وأبو داود. وهذا ينصرف إلى سنة النبي - صلى الله عليه وسلم - ولأنه قول من ذكرنا من الصحابة.
وعن أحمد؛ أنه يضعهما فوق السرة. وهو قول سعيد بن جبير، والشافعي؛ لما روى وائل بن حجر قال: «رأيت النبي - صلى الله عليه وسلم - يصلي فوضع يديه على صدره إحداهما على الأخرى» . وعنه أنه مخير في ذلك؛ لأن الجميع مروي،، والأمر في ذلك واسع"
(المغنی لابن قدامۃ، 1۔341، ط: مکتبۃ القاہرہ)

ابن قدامہ حنبلیؒ:
"ويجعلهما تحت سرته"
(عمدۃ الفقہ، 1۔24، ط: العصریۃ)

ابن النجارؒ:
"ثم وضع كف يمنى على كوع يسرى وجعلهما تحت سرته"
(منتہی الارادات، 1۔207، ط: الرسالۃ)

ابن تیمیہ الحرانیؒ:
"ثم يضع يمنى يديه فوق كوع اليسرى تحت سرته وعنه تحت صدره وعنه يخير"
(المحرر فی الفقہ، 1۔53، ط: معارف)

ابو الفرجؒ:
(فصل) ويجعلهما تحت سرته، روى ذلك عن علي وأبي هريرة والثوري واسحاق قال علي رضي الله عنه من السنة وضع اليمين على الشمال تحت السرة، رواه الإمام أحمد وأبو داود، وعن أحمد أنه يضعهما على صدره فوق السرة، وهو قول سعيد بن جبير والشافعي لما روى وائل بن حجر قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فوضع يديه على صدره إحداهما إلى الأخرى، وعنه رواية ثالثة أنه مخبر في ذلك لأن الجميع مروي والأمر في ذلك واسع
(الشرح الکبیر، 1۔514، ط: دار الکتاب العربی)

ابن مفلحؒ:
(ثم يضع كف يده اليمنى على كوع اليسرى) نص عليه، «لأن النبي - صلى الله عليه وسلم - وضع اليمنى على اليسرى» رواه مسلم من حديث وائل، وفي رواية لأحمد وأبي داود: «ثم وضع يده اليمنى على كفه اليسرى، والرسغ، والساعد» ونقل أبو طالب: بعضها على الكف، وبعضها على الذراع، لا بطنها على ظاهر كفه اليسرى، وجزم بمثله القاضي في " الجامع "، ومعناه: ذل بين يدي عز، نقله أحمد بن يحيى الرقي، وعنه: يخير، وعنه: يرسلهما في صلاة الجنازة، وعنه: في صلاة التطوع (ويجعلهما تحت سرته) في أشهر الروايات، وصححها ابن الجوزي، وغيره لقول علي: من السنة وضع اليمنى على الشمال تحت السرة رواه أحمد، وأبو داود، وذكر في " التحقيق " أنه لا يصح قيل للقاضي: هو عورة فلا يضعهما عليه كالعانة، والفخذ؛ فأجاب بأن العورة أولى، وأبلغ بالوضع عليه لحفظه، وعنه: تحت صدره، وفوق سرته، وعنه: يخير، اختاره في " الإرشاد " لأن كلا منهما مأثور، وظاهره يكره وضعهما على صدره، نص عليه مع أنه رواه.
(المبدع، 1۔381، ط: العلمیۃ)

ابو النجاؒ:
ثم يقبض بكفه الأيمن كوعه الأيسر ويجعلهما تحت سرته ومعناه ذل بين يدي عز ويكره على صدره
(الاقناع، 1۔114، ط: دار المعرفۃ)

علامہ بہوتیؒ:
(ثم) يسن له بعد التكبير (وضع كف) يد (يمنى على كوع) يد (يسرى) لما روى قبيصة بن هلب عن أبيه قال: «كان النبي صلى الله عليه وسلم يؤمنا، فيأخذ شماله بيمينه» رواه الترمذي وحسنه.
وقال: وعليه العمل عند أكثر أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم (و) سن له أيضا (جعلهما) أي يديه (تحت سرته) لقول علي رضي الله عنه " من السنة وضع اليمين على الشمال تحت السرة " رواه أحمد وأبو داود ومعناه: ذل بين يدي الله عز وجل
(شرح منتہی الارادات، 1۔186، ط: عالم الکتب)

ابن ابی تغلبؒ:
(و) الثامنة: (جعلهما) أي يديه (تحت سرته).
(نیل المآرب، 1۔142، ط: مکتبۃ الفلاح)

زرکشیؒ:
قال: ويجعلهما تحت سرته.
ش: هذا إحدى الروايات عن أحمد [- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -] لما روى أحمد، وأبو داود، «عن علي - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قال: من السنة وضع الأكف في الصلاة تحت السرة» . والسنة المطلقة تنصرف إلى سنة رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -.
(والرواية الثانية) : الأفضل جعلهما تحت صدره. لما «روى قبيصة بن هلب، عن أبيه قال: رأيت النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يضع يده على صدره» - ووصف يحيى بن سعيد - اليمنى على اليسرى، فوق المفصل، رواه أحمد.
(والثالثة) : التخيير بين الصفتين، اختارها ابن أبي موسى، وأبو البركات، لورود الأمر بهما. قال أبو البركات: وعلى الروايات فالأمر [في الأمرين] واسع، لا كراهة لواحد منهما، [والله أعلم] .
(شرح الزکشی علی مختصر الخرقی، 1۔543، ط: دار العبیکان)

یہ دس حوالے ہیں اور محترم شیخ کی طرح ایک ہی کتاب کے کئی حوالے نہیں ہیں بلکہ الگ الگ کتب کے حوالے ہیں۔ ان میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ امام احمدؒ سے اس مسئلے میں صرف تین روایات ہیں:
1۔ تحت السرۃ کی۔ یہ سب سے مشہور روایت ہے۔
2۔ تحت الصدر کی۔
3۔ اختیار کی۔
ان میں کوئی ایک روایت بھی "علی الصدر" کی نہیں ہے۔ شیخ محترم نے امام احمدؒ سے علی الصدر کی روایت کے سلسلے میں دو حوالے دیے ہیں۔ ایک علامہ حیات سندھیؒ کا اور دوسرا شیخ عبد الحق دہلویؒ کا۔ عرض ہے کہ یہ دونوں علماء کرام حنبلی نہیں ہیں اور مذہب حنابلہ کے سلسلے میں ان کے قول کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا۔ شیخ عبد الحق دہلویؒ کی شرح سفر السعادۃ تو نہ شیخ کفایت اللہ کے پاس موجود تھی اور نہ ہمارے پاس موجود ہے البتہ حیات سندھیؒ کی فتح الغفور موجود ہے۔ اس میں علامہ نے فرمایا ہے:
"يضعهما فوق الصدر: وبه قال أيضا الشافعى، وهى رواية نادرة عن أحمد."
ترجمہ: "دونوں ہاتھ سینے کے اوپر رکھے گا۔ امام شافعیؒ بھی یہی فرماتے ہیں اور امام احمدؒ سے یہ ایک نادر روایت ہے۔"
امام شافعیؒ کا مسلک تو ہم دیکھ چکے ہیں اور امام احمدؒ کی اگرایسی کوئی روایت موجود ہے تو وہ واقعی اس قدر نادر و نایاب ہے کہ خود علماء حنابلہ کو نہیں ملتی۔

ہمارے قابل صد احترام شیخ صاحب فرماتے ہیں: "نیز اس (یعنی سینے پر ہاتھ باندھنے کے مسلک کی۔۔۔۔ناقل) تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ امام احمد نے اپنی مسند میں ہلب الطائی رض کی حدیث درج کی ہے جس میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے۔"
عرض یہ ہے کہ ابن مفلحؒ کے اوپر موجود حوالے میں وضاحت سے مذکور ہے:
"اور ظاہر یہ ہے کہ ہاتھوں کو سینے پر رکھنا مکروہ ہے۔ اس کی امام نے صراحت کی ہے باوجود اس کے کہ انہوں نے اسے روایت کیا ہے۔"
ابن مفلحؒ حنبلی عالم ہیں اور امام احمدؒ کے مزاج کو سمجھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ امام احمدؒ نے اس روایت کو نقل کرنے کے باوجود اس عمل یعنی سینے پر ہاتھ باندنے کو صراحتاً مکروہ قرار دیا ہے۔ ہم عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام احمدؒ کے نزدیک سینے پر ہاتھ باندنے کی احادیث کا مطلب یا تحت الصدر تھا اور یا امام ان احادیث کو قابل احتجاج ہی نہیں سمجھتے تھے اس لیے اس عمل کو مکروہ قرار دیا ہے۔
حضرت شیخ دامت برکاتہم کی ایک عادت سمجھ نہیں آتی کہ یہ واضح اور غیر مبہم عبارات کو چھوڑ کر مجمل عبارات سے استدلال کیوں کرتے ہیں؟ یہ تو تحقیق کے بالکل خلاف ہے جبکہ حضرت اتنے پائے کے محقق ہیں۔ ابن قیمؒ کا وہ قول معتبر ہوگا جس میں انہوں نے فقط علی الصدر کےالفاظ استعمال کیے ہیں یا وہ قول جس میں انہوں نے اس کی وضاحت کی ہے؟ یہی معاملہ شیخ محترم کا امام شافعیؒ کے مسلک کی نقل میں تھا۔ یہ تو فقہ پڑھنے پڑھانے والوں میں معروف بات ہے کہ مجمل اور اصطلاحی الفاظ کا معنی تفصیلی عبارات و شروح سے حاصل کیا جاتا ہے۔

شیخ محترم فرماتے ہیں: "امام احمدؒ سے اس سلسلے میں وسعت کی بات منقول ہے۔"
عرض ہے کہ یہ امام احمدؒ کی سب سے آخری روایت ہے۔ ان کی سب سے مشہور روایت تو ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی ہے جیسا کہ اسے تمام متون و شروح میں ذکر کیا گیا ہے اور ابن مفلح کے مذکورہ حوالے میں موجود ہے کہ یہ سب سے مشہور روایت ہے اور اسے ابن الجوزی و غیرہ نے صحیح روایت قرار دیا ہے۔ حضرت شیخ مد ظلہ نے اس روایت کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا حالانکہ یہ فقہ حنبلی کی اکثر کتب میں واضح طور پر موجود ہے۔ ہم شیخ سے حسن ظن رکھتے ہوئے یہ گمان کرتے ہیں کہ شیخ نے یہ عبارت کسی کاغذ پر لکھی ہوگی اور پھر مطالعے کے استغراق میں وہ کاغذ یا کھا گئے ہوں گے اور یا ہوا سے کہیں اڑ گیا ہوگا اور بکری کھا گئی ہوگی۔ جان بوجھ کر تو شیخ محترم یہ کام نہیں کر سکتے۔ و اللہ اعلم
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
ماشاء اللہ ۔ آپ کے مضامین میں علمی انداز نمایاں ہوتا ہے ۔
آپ جن پر نقد کر رہے ہیں ۔وہ میری رائے میں انڈیا کے غیر مقلد اہل حدیث حضرات میں سب سے زیادہ متعصب آدمی ہیں ۔
اور جس معنوی استاد کی وہ پیروی کرتے ہیں وہ پاکستان کے سب سے متعصب آدمی گزرے ہیں ۔اگرچہ بعد میں دونوں ایک دوسرے کے بھی خلاف ہوگئے ۔لیکن فروعی مسائل کو فرقہ واریت کو موجب بنانے میں دونوں کا لٹریچر متفق ہے ۔
ایک ان میں متخصص فی یزید ہیں ۔اور دوسرے متخصص فی التدلیس ہیں ۔
ان دونوں کا لٹریچر پاک و ہند میں غیرمقلد اہلحدیث حضرات کی طرف سے فرقہ واریت کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے ۔
پاک ہند میں اہل حدیث کےکئی جید اور نامور عالم بھی گزرے ہیں۔۔ معلوم نہیں نوجوان اہلحدیث طبقہ ان جیسوں کا ہی کیوں مقلد بن کر رہ گیا ہے ۔
بہرحال جتنا آپ نے لکھا ہے ۔ اس میں آپ کا انداز خالص علمی ہے ۔
ایک دو جگہوں میں کچھ مجادلانہ انداز بھی ہے ۔ جیسےآخر میں ۔(مسکراہٹ)۔ میرا خیال ہے اس کو رہنے ہی دیں ۔
آپ کے جو مخاطب ہیں ان کا تو سارا لٹریچر ہی رد۔رد ، اور تعصب سے بھرا ہوا ہے ۔
جس فورم کا آپ نے نام لیا ہے ۔ اس پر بھی امام ابوحنیفہؒ سے نفرت اور تعصب پر مشتمل تحریرات میں ان صاحب کا پہلا نمبر ہے ۔
معلوم نہیں آپ ایسے آدمی کے ساتھ علمی انداز سے کیسے بات کو آگے بڑھائیں گے۔
 

احمد پربھنوی

وفقہ اللہ
رکن
آپ جن پر نقد کر رہے ہیں ۔وہ میری رائے میں انڈیا کے غیر مقلد اہل حدیث حضرات میں سب سے زیادہ متعصب آدمی ہیں ۔
اور جس معنوی استاد کی وہ پیروی کرتے ہیں وہ پاکستان کے سب سے متعصب آدمی گزرے ہیں ۔اگرچہ بعد میں دونوں ایک دوسرے کے بھی خلاف ہوگئے ۔لیکن فروعی مسائل کو فرقہ واریت کو موجب بنانے میں دونوں کا لٹریچر متفق ہے ۔
ایک ان میں متخصص فی یزید ہیں ۔اور دوسرے متخصص فی التدلیس ہیں ۔
ان دونوں کا لٹریچر پاک و ہند میں غیرمقلد اہلحدیث حضرات کی طرف سے فرقہ واریت کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے ۔
پاک ہند میں اہل حدیث کےکئی جید اور نامور عالم بھی گزرے ہیں۔۔ معلوم نہیں نوجوان اہلحدیث طبقہ ان جیسوں کا ہی کیوں مقلد بن کر رہ گیا ہے ۔
بہرحال جتنا آپ نے لکھا ہے ۔ اس میں آپ کا انداز خالص علمی ہے ۔ ۔

جی یہ بہت زیادہ تعصبی انسان ہے اور محترم ابن عثمان صاحب اصل ہوتا ہے جو جتنا ان کا مذہب کھینچ تان کر ثابت کرتا ہے یہ لوگ ان کے مقلد بن جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ دیکھنے کی جستجو بھی نہیں کرتے کہ آیا یہ صحیح ہے بھی یا نہیں بلا وجہ یہ صاحب اپنی بات کو کسی بھی طرح ثابت کرکے ہی رہیں گے اور ضد بھی اتنی کہ جب غلط ہے معلوم بھی ہوجائے تو پنی بات پر اڑے رہیں گے جیسا کہ تحقیق سے معلوم ہوگیا کہ مومل کے حفظ پر جمهور محدثین نے کلام کیا اور مومل اپنے شیوخ سے ایسی منکر روایات کرجاتے جو ان کے علاوہ کوئی اور نہیں کرتا پہر بھی وہ کسی بھی طرح اپنے باطل تاویلات سے ثقہ ثابت کرنے لگ گئے حالانکہ مبارکفوری ہو یا البانی ہو یا شعیب ارناووط ہو یا حوینی ہو یا معلمی ایسے تقریباً پچاس یا اس سے زائد سلفی علماوں نے مومل کے حفظ پر کلام کیا( ہمارے ایک بھائی ابھی ابھی یہ جمع کیے ہیں ) لیکن یہ صاحبان ماننے کو تیار ہی نہیں اسی طرح چار دن قربانی پر انوار البدر کے مولف نے سلیمان بن موسی پر بھی اپنی مان مانی ترجمہ اور الفاظ میں ہیر پہیر کرتے ہوئے ثقہ ثابت کرنے کی ناکام کوشیش کی
آج کل کہ نوجوانان اہل حدیث کو بس مواد چاہیے جو بس اپنے مسلک کو ثابت کرسکے چاہے وہ کسی بھی طرح ہو ان کے مقلد بن جاتے ہیں ـ
 

احمد پربھنوی

وفقہ اللہ
رکن
مذہب حنابلہ:
حنابلہ کے مسلک کے بارے میں شیخ محترم کی بیان کردہ تفصیل سے پہلے کیوں نہ ہم خود مسلک حنابلہ کا جائزہ لے لیں۔
ابن قدامہ حنبلیؒ:
"مسألة: قال: (ويجعلهما تحت سرته) اختلفت الرواية في موضع وضعهما، فروي عن أحمد، أنه يضعهما تحت سرته. روي ذلك عن علي، وأبي هريرة وأبي مجلز، والنخعي، والثوري، وإسحاق؛ لما روي عن علي - رضي الله عنه - قال: من السنة وضع اليمين على الشمال تحت السرة. رواه الإمام أحمد، وأبو داود. وهذا ينصرف إلى سنة النبي - صلى الله عليه وسلم - ولأنه قول من ذكرنا من الصحابة.
وعن أحمد؛ أنه يضعهما فوق السرة. وهو قول سعيد بن جبير، والشافعي؛ لما روى وائل بن حجر قال: «رأيت النبي - صلى الله عليه وسلم - يصلي فوضع يديه على صدره إحداهما على الأخرى» . وعنه أنه مخير في ذلك؛ لأن الجميع مروي،، والأمر في ذلك واسع"
(المغنی لابن قدامۃ، 1۔341، ط: مکتبۃ القاہرہ)

ابن قدامہ حنبلیؒ:
"ويجعلهما تحت سرته"
(عمدۃ الفقہ، 1۔24، ط: العصریۃ)

ابن النجارؒ:
"ثم وضع كف يمنى على كوع يسرى وجعلهما تحت سرته"
(منتہی الارادات، 1۔207، ط: الرسالۃ)

ابن تیمیہ الحرانیؒ:
"ثم يضع يمنى يديه فوق كوع اليسرى تحت سرته وعنه تحت صدره وعنه يخير"
(المحرر فی الفقہ، 1۔53، ط: معارف)

ابو الفرجؒ:
(فصل) ويجعلهما تحت سرته، روى ذلك عن علي وأبي هريرة والثوري واسحاق قال علي رضي الله عنه من السنة وضع اليمين على الشمال تحت السرة، رواه الإمام أحمد وأبو داود، وعن أحمد أنه يضعهما على صدره فوق السرة، وهو قول سعيد بن جبير والشافعي لما روى وائل بن حجر قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فوضع يديه على صدره إحداهما إلى الأخرى، وعنه رواية ثالثة أنه مخبر في ذلك لأن الجميع مروي والأمر في ذلك واسع
(الشرح الکبیر، 1۔514، ط: دار الکتاب العربی)

ابن مفلحؒ:
(ثم يضع كف يده اليمنى على كوع اليسرى) نص عليه، «لأن النبي - صلى الله عليه وسلم - وضع اليمنى على اليسرى» رواه مسلم من حديث وائل، وفي رواية لأحمد وأبي داود: «ثم وضع يده اليمنى على كفه اليسرى، والرسغ، والساعد» ونقل أبو طالب: بعضها على الكف، وبعضها على الذراع، لا بطنها على ظاهر كفه اليسرى، وجزم بمثله القاضي في " الجامع "، ومعناه: ذل بين يدي عز، نقله أحمد بن يحيى الرقي، وعنه: يخير، وعنه: يرسلهما في صلاة الجنازة، وعنه: في صلاة التطوع (ويجعلهما تحت سرته) في أشهر الروايات، وصححها ابن الجوزي، وغيره لقول علي: من السنة وضع اليمنى على الشمال تحت السرة رواه أحمد، وأبو داود، وذكر في " التحقيق " أنه لا يصح قيل للقاضي: هو عورة فلا يضعهما عليه كالعانة، والفخذ؛ فأجاب بأن العورة أولى، وأبلغ بالوضع عليه لحفظه، وعنه: تحت صدره، وفوق سرته، وعنه: يخير، اختاره في " الإرشاد " لأن كلا منهما مأثور، وظاهره يكره وضعهما على صدره، نص عليه مع أنه رواه.
(المبدع، 1۔381، ط: العلمیۃ)

ابو النجاؒ:
ثم يقبض بكفه الأيمن كوعه الأيسر ويجعلهما تحت سرته ومعناه ذل بين يدي عز ويكره على صدره
(الاقناع، 1۔114، ط: دار المعرفۃ)

علامہ بہوتیؒ:
(ثم) يسن له بعد التكبير (وضع كف) يد (يمنى على كوع) يد (يسرى) لما روى قبيصة بن هلب عن أبيه قال: «كان النبي صلى الله عليه وسلم يؤمنا، فيأخذ شماله بيمينه» رواه الترمذي وحسنه.
وقال: وعليه العمل عند أكثر أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم (و) سن له أيضا (جعلهما) أي يديه (تحت سرته) لقول علي رضي الله عنه " من السنة وضع اليمين على الشمال تحت السرة " رواه أحمد وأبو داود ومعناه: ذل بين يدي الله عز وجل
(شرح منتہی الارادات، 1۔186، ط: عالم الکتب)

ابن ابی تغلبؒ:
(و) الثامنة: (جعلهما) أي يديه (تحت سرته).
(نیل المآرب، 1۔142، ط: مکتبۃ الفلاح)

زرکشیؒ:
قال: ويجعلهما تحت سرته.
ش: هذا إحدى الروايات عن أحمد [- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -] لما روى أحمد، وأبو داود، «عن علي - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قال: من السنة وضع الأكف في الصلاة تحت السرة» . والسنة المطلقة تنصرف إلى سنة رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -.
(والرواية الثانية) : الأفضل جعلهما تحت صدره. لما «روى قبيصة بن هلب، عن أبيه قال: رأيت النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يضع يده على صدره» - ووصف يحيى بن سعيد - اليمنى على اليسرى، فوق المفصل، رواه أحمد.
(والثالثة) : التخيير بين الصفتين، اختارها ابن أبي موسى، وأبو البركات، لورود الأمر بهما. قال أبو البركات: وعلى الروايات فالأمر [في الأمرين] واسع، لا كراهة لواحد منهما، [والله أعلم] .
(شرح الزکشی علی مختصر الخرقی، 1۔543، ط: دار العبیکان)

یہ دس حوالے ہیں اور محترم شیخ کی طرح ایک ہی کتاب کے کئی حوالے نہیں ہیں بلکہ الگ الگ کتب کے حوالے ہیں۔ ان میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ امام احمدؒ سے اس مسئلے میں صرف تین روایات ہیں:
1۔ تحت السرۃ کی۔ یہ سب سے مشہور روایت ہے۔
2۔ تحت الصدر کی۔
3۔ اختیار کی۔
ان میں کوئی ایک روایت بھی "علی الصدر" کی نہیں ہے۔ شیخ محترم نے امام احمدؒ سے علی الصدر کی روایت کے سلسلے میں دو حوالے دیے ہیں۔ ایک علامہ حیات سندھیؒ کا اور دوسرا شیخ عبد الحق دہلویؒ کا۔ عرض ہے کہ یہ دونوں علماء کرام حنبلی نہیں ہیں اور مذہب حنابلہ کے سلسلے میں ان کے قول کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا۔ شیخ عبد الحق دہلویؒ کی شرح سفر السعادۃ تو نہ شیخ کفایت اللہ کے پاس موجود تھی اور نہ ہمارے پاس موجود ہے البتہ حیات سندھیؒ کی فتح الغفور موجود ہے۔ اس میں علامہ نے فرمایا ہے:
"يضعهما فوق الصدر: وبه قال أيضا الشافعى، وهى رواية نادرة عن أحمد."
ترجمہ: "دونوں ہاتھ سینے کے اوپر رکھے گا۔ امام شافعیؒ بھی یہی فرماتے ہیں اور امام احمدؒ سے یہ ایک نادر روایت ہے۔"
امام شافعیؒ کا مسلک تو ہم دیکھ چکے ہیں اور امام احمدؒ کی اگرایسی کوئی روایت موجود ہے تو وہ واقعی اس قدر نادر و نایاب ہے کہ خود علماء حنابلہ کو نہیں ملتی۔

ہمارے قابل صد احترام شیخ صاحب فرماتے ہیں: "نیز اس (یعنی سینے پر ہاتھ باندھنے کے مسلک کی۔۔۔۔ناقل) تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ امام احمد نے اپنی مسند میں ہلب الطائی رض کی حدیث درج کی ہے جس میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے۔"
عرض یہ ہے کہ ابن مفلحؒ کے اوپر موجود حوالے میں وضاحت سے مذکور ہے:
"اور ظاہر یہ ہے کہ ہاتھوں کو سینے پر رکھنا مکروہ ہے۔ اس کی امام نے صراحت کی ہے باوجود اس کے کہ انہوں نے اسے روایت کیا ہے۔"
ابن مفلحؒ حنبلی عالم ہیں اور امام احمدؒ کے مزاج کو سمجھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ امام احمدؒ نے اس روایت کو نقل کرنے کے باوجود اس عمل یعنی سینے پر ہاتھ باندنے کو صراحتاً مکروہ قرار دیا ہے۔ ہم عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام احمدؒ کے نزدیک سینے پر ہاتھ باندنے کی احادیث کا مطلب یا تحت الصدر تھا اور یا امام ان احادیث کو قابل احتجاج ہی نہیں سمجھتے تھے اس لیے اس عمل کو مکروہ قرار دیا ہے۔
حضرت شیخ دامت برکاتہم کی ایک عادت سمجھ نہیں آتی کہ یہ واضح اور غیر مبہم عبارات کو چھوڑ کر مجمل عبارات سے استدلال کیوں کرتے ہیں؟ یہ تو تحقیق کے بالکل خلاف ہے جبکہ حضرت اتنے پائے کے محقق ہیں۔ ابن قیمؒ کا وہ قول معتبر ہوگا جس میں انہوں نے فقط علی الصدر کےالفاظ استعمال کیے ہیں یا وہ قول جس میں انہوں نے اس کی وضاحت کی ہے؟ یہی معاملہ شیخ محترم کا امام شافعیؒ کے مسلک کی نقل میں تھا۔ یہ تو فقہ پڑھنے پڑھانے والوں میں معروف بات ہے کہ مجمل اور اصطلاحی الفاظ کا معنی تفصیلی عبارات و شروح سے حاصل کیا جاتا ہے۔

شیخ محترم فرماتے ہیں: "امام احمدؒ سے اس سلسلے میں وسعت کی بات منقول ہے۔"
عرض ہے کہ یہ امام احمدؒ کی سب سے آخری روایت ہے۔ ان کی سب سے مشہور روایت تو ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی ہے جیسا کہ اسے تمام متون و شروح میں ذکر کیا گیا ہے اور ابن مفلح کے مذکورہ حوالے میں موجود ہے کہ یہ سب سے مشہور روایت ہے اور اسے ابن الجوزی و غیرہ نے صحیح روایت قرار دیا ہے۔ حضرت شیخ مد ظلہ نے اس روایت کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا حالانکہ یہ فقہ حنبلی کی اکثر کتب میں واضح طور پر موجود ہے۔ ہم شیخ سے حسن ظن رکھتے ہوئے یہ گمان کرتے ہیں کہ شیخ نے یہ عبارت کسی کاغذ پر لکھی ہوگی اور پھر مطالعے کے استغراق میں وہ کاغذ یا کھا گئے ہوں گے اور یا ہوا سے کہیں اڑ گیا ہوگا اور بکری کھا گئی ہوگی۔ جان بوجھ کر تو شیخ محترم یہ کام نہیں کر سکتے۔ و اللہ اعلم
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
آپ کی تعریف کیا کروں آپ کو تو میں تقریباً دو سالوں سے فالو اپ لے رہا ہوں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکہیں آپ کے علم میں برکت عطا فرمائے اور آپ کی ہر مشکل آسان فرمائیں ـ
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
حالانکہ مبارکفوری ہو یا البانی ہو یا شعیب ارناووط ہو یا حوینی ہو یا معلمی ایسے تقریباً پچاس یا اس سے زائد سلفی علماوں نے مومل کے حفظ پر کلام کیا( ہمارے ایک بھائی ابھی ابھی یہ جمع کیے ہیں )
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
احمد بھائی یہ جمع شدہ مواد مل سکتا ہے؟ اگر ممکن ہے تو مجھے پرائیوٹ میسج کر دیجیے۔
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
کیا سینے ہاتھ باندھنے کا قول کسی عالم کا ہے؟
محترم شیخ اس بات کے جواب میں چار دلائل دیتے ہیں۔
پہلی دلیل کے تحت فرماتے ہیں: "اللہ تعالی نے اس بات کی کوئی ضمانت نہیں لی کہ وہ فقہاء کے اقوال اور فتاوی کی بھی حفاظت کرے گا بلکہ اللہ تعالی نے صرف کتاب و سنت کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔"
عرض ہے کہ شیخ کی یہ بات بالکل درست ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ اللہ تعالی نے کہیں یہ حکم نہیں دیا کہ ہمارے پاس کسی عالم سے ثابت شدہ قول نہ ہو تب بھی ہم اس امکان کو دلیل بنائیں کہ "ہو سکتا ہے کہ کوئی قول ہو لیکن وہ محفوظ نہ ہو۔" اس دلیل کی بنیاد پر عمل کرنے کا ہمیں کوئی حکم نہیں ملا۔
امام ترمذیؒ العلل کی ابتداء میں فرماتے ہیں:
جميع ما في هذا الكتاب من الحديث فهو معمول به وقد أخد به بعض أهل العلم ما خلا حديثين حديث بن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم جمع بين الظهر والعصر بالمدينة والمغرب والعشاء من غير خوف ولا سفر ولا مطر وحديث النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال إذا شرب الخمر فاجلدوه فإن عاد في الرابعة فاقتلوه وقد بينا علة الحديثين جميعا في الكتاب
(العلل الصغیر (فی آخر السنن)، 1۔736، ط: دار احیاء التراث العربی)
ترجمہ: "اس کتاب میں جتنی بھی احادیث ہیں ان پر عمل ہوا ہے اور انہیں بعض اہل علم نے لیا ہے سوائے دو حدیثوں کے، حدیث ابن عباس کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کیا بغیر کسی خوف، سفر یا بارش کے۔ اور حدیث نبی ﷺ کہ آپ نے فرمایا: جب کوئی شراب پی لے تو اسے کوڑے لگاؤ اور اگر وہ چوتھی بار یہ کام کرے تو اسے قتل کر دو۔ اور ہم نے دونوں حدیثوں کی تمام علتیں کتاب میں بیان کر دی ہیں۔"
یہاں امام ترمذیؒ نے اس بات کا بالکل لحاظ نہیں کیا کہ "ہوسکتا ہے" کسی کا قول ان احادیث کا ہو۔ یہاں یہ یاد رہے کہ امام ترمذی کی اس نفی سے مراد مکمل عمل کی نفی ہے ورنہ ان روایات کی تاویل کر کے تو اس تاویل کے مطابق ان پر عمل تو جاری رہا ہے۔ امام ترمذیؒ کا یہ عدم عمل کا دعوی پہلی روایت میں تو درست نہیں ہے اس لیے کہ اس پر علماء نے عمل کیا ہے۔ ہاں یہ عمل باقاعدہ مسلک کی شکل اختیار نہیں کر سکا۔ دوسری روایت کے بارے میں امام کا یہ دعوی بالکل درست ہے اور سوائے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے کسی سے بھی اس پر عمل کا قول منقول نہیں ہے اور ان کی روایت بقول علامہ شوکانیؒ منقطع ہے۔
امام ترمذیؒ کے اس قول کے جواب میں محدثین و فقہاء میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ "قول کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ پاک نے نہیں لی اس لیے ممکن ہے کہ کوئی قول موجود ہو۔" اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ محترم کا یہ استدلال فاسد ہے اور جب تک ہمیں کوئی قول نہیں ملتا ہم یہی سمجھیں گے کہ کوئی قول ہے ہی نہیں۔
محترم شیخ کے اس استدلال کے مطابق اگر عمل کرنے لگ جائیں کہ "قول کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے نہیں لی" تو دنیا میں کوئی اجماع باقی نہیں بچے گا کیوں کہ ہم اجماع میں یہی امکان ہوگا کہ ممکن ہے کسی جماعت کا قول اس کے خلاف ہو۔ لہذا اس استدلال کا فساد انتہائی واضح ہے۔

دوسری دلیل کے تحت فرماتے ہیں: "بالفرض یہ تسلیم کر لیا جائے کہ کسی نے اس پر عمل نہیں کیا تو بھی کسی کے عمل نہ کرنے کی وجہ سے ثابت شدہ سنت رسولﷺ کو چھوڑا نہیں جائے گا۔"
عرض ہے کہ یہ اس وقت ہے جب سنت رسول ثابت شدہ ہو۔ اور ہم ابھی اس کے ثبوت پر بات کر رہے ہیں۔

تیسری دلیل کے تحت فرماتے ہیں: "یہ بات بھی غلط ہے کہ یہ اہل علم میں سے کسی کا قول نہیں۔ بلکہ یہ قول تو صحابہ سے بھی ثابت ہے۔"
آئیے! ذرا اس دعوے کی گہرائی میں جاتے ہیں۔

سینہ یا فوق السرۃ؟
پہلی روایت ہے غریب الحدیث سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں:
حدثنا أبو بكر بن أبي الأسود , حدثنا أبو رجاء الكليبي , عن عمرو بن مالك , عن أبي الجوزاء , عن ابن عباس: {فصل لربك وانحر} قال: وضع يده عند النحر
اس کا ترجمہ شیخ محترم نے یہ فرمایا ہے: "آپ نے اس کی تفسیر میں یہ فرمایا کہ اس سے (نماز میں) ہاتھوں کو نحر کے پاس (سینے پر) رکھنا مراد ہے۔"
شیخ ایک بار پھر لغت میں یہ دیکھنا بھول گئے کہ "نحر" کسے کہتے ہیں۔ خیر ہم خادم کس لیے ہیں بھلا؟ ہم بتا دیتے ہیں۔ "نحر" کے لغت میں دو معانی ہیں: سینے کا اوپری حصہ اور مکمل سینہ۔ چنانچہ تاج العروس میں ہے:
نحر الصدر: أعلاه. وقيل: النحر: هو الصدر بنفسه
(تاج العروس، 14۔184، ط: دار الہدایۃ)
ترجمہ: "نحر الصدر سینے کا اوپری حصہ ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ نحر خود سینہ ہے۔

المعجم الوسیط میں ہے:
(النَّحْر) أَعلَى الصَّدْر
ترجمہ: "نحر سینے کا اوپری حصہ"

مختار الصحاح میں ہے:
(النحر) و (المنحر) بوزن المذهب موضع القلادة من الصدر
ترجمہ: "نحر اور منحر سینے پر ہار کی جگہ"

القاموس المحیط میں ہے:
نَحْرُ الصَّدْرِ: أعْلاهُ،
كالمُنْحورِ، بالضم، أو مَوْضِعُ القِلادَةِ

احادیث میں "نحر" مکمل سینے کے لیے بھی استعمال ہوا ہے اور سینے کے اوپری حصے کے لیے بھی۔ دجال کی صفات میں ہے:
عبد الله بن إدريس، عن عاصم بن كليب، عن أبيه، عن خالد يعني الفلتان بن عاصم، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أما مسيح الدجال فرجل أجلى الجبهة ممسوح العين اليسرى , عريض النحر فيه دمامة كأنه فلان بن عبد العزى أو عبد العزى بن فلان»
(مصنف ابن ابی شیبۃ، 7۔488، ط: مکتبۃ الرشد)
اس میں ہے "عریض النحر" جس کا مطلب ہے کہ وہ دجال "چوڑے سینے" والا ہوگا۔ یہاں یہ ترجمہ ممکن ہی نہیں کہ اس کے سینے کا "اوپری حصہ" چوڑا ہوگا کیوں کہ یہ عربی اور اردو دونوں محاوروں کے خلاف ہے لہذا یہ ایک ایسا اضافی معنی ہے جس کے لیے صریح دلیل چاہیے۔ "چوڑے سینے والا ہونا" ایک عربی اور اردو دونوں میں ایک معروف محاورہ ہے۔

في حديث الهجرة «أتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم في نحر الظهيرة» هو حين تبلغ الشمس منتهاها من الإرتفاع، كأنها وصلت إلى النحر، وهو أعلى الصدر.
(النہایہ فی غریب الحدیث لابن اثیر، 5۔27، ط: العلمیۃ)
اس میں اس روایت کا ذکر کر کے "نحر" سے مراد "سینے کے اوپری حصے" کو قرار دیا گیا ہے۔ یہاں اس کا بھی امکان ہے کہ یہاں بھی مراد سینہ ہی ہو لیکن ہم اس بحث میں نہیں پڑتے۔

ان دونوں معانی کے بیان کے بعد ہم اپنے اصل موضوع کی جانب جاتے ہیں۔ شیخ محترم نے جو روایت پیش فرمائی ہے اس میں ہے: "ہاتھوں کو نحر کے پاس رکھنا"۔ نحر سے اگر مکمل سینہ مراد لیا جائے تو اس کے "پاس" کا مطلب کم از کم ناف کے اوپر اور سینے کے نیچے ہوگا۔ خود سینے پر ہاتھ رکھنا اس سے مراد نہیں لیا جا سکتا۔
اور اگر یہاں "نحر" سے سینے کا اوپری حصہ مراد لیا جائے تو جیسے سینے کا درمیانی اور نچلا حصہ اوپری حصے سے قریب ہے ایسے ہی ناف کے اوپر کا حصہ بھی اس سے قریب ہی ہے، دور نہیں ہے۔
شیخ محترم کے پاس "نحر" کے معنی میں اس احتمال کو دور کرنے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ حدیث یحیی بن ابی طالب کی جانب جائیں جس سے انہوں نے بچنے کی کوشش کی ہے کیوں کہ یحیی بن ابی طالب پر کذب کا الزام ہے۔ اور جب اس کے معانی میں اس قدر احتمال موجود ہے تو شیخ کا استدلال اس سے درست نہیں رہتا۔

دوسرا ہاتھ کہاں جائے گا؟
اس دلیل میں دوسری خامی جس پر حضرت شیخ نے توجہ نہیں فرمائی، یہ ہے کہ اس میں "یدہ" مذکور ہے۔ یعنی ایک ہاتھ کا ذکر ہے۔ شیخ سے بصد احترام سوال یہ ہے کہ ایک ہاتھ نحر کے پاس رکھا جائے گا اور دوسرا ہاتھ کیا چھوڑ دیا جائے گا؟ ہو سکتا ہے کہ شیخ کہیں کہ یہ تو خود سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ دوسرا ہاتھ اس کے ساتھ ہی ہوگا تو عرض یہ ہے کہ پھر روایت کے الفاظ یوں ہونے چاہیے تھے: "وضع یدیہ" کیوں کہ جب دونوں ہاتھ ساتھ ہوں تو یہ "یدین" ہوتے ہیں "ید" نہیں۔

نماز کا ذکر کہاں ہے؟
اس دلیل میں تیسری خامی یہ ہے کہ اس میں نماز کا ذکر ہی نہیں ہے۔ شیخ محترم بھی اس ذکر کو قوسین (بریکٹ) میں لانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس دلیل میں نہ تو نماز کا صراحتاً کوئی ذکر ہے اور نہ ہی کوئی ایسا کلام یہاں چل رہا ہے جس کی وجہ سے اسے نماز سے متعلق سمجھا جائے۔ یہاں تو فقط نحر کے قریب ہاتھ رکھنے کا ذکر ہے تو اسے بلا دلیل نماز کی حالت پر فٹ نہیں کیا جا سکتا۔

اس روایت کا مطلب کیا ہے؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس روایت میں سینے پر ایک ہاتھ رکھنے کا مطلب کیا ہے؟ ہم اللہ کی توفیق سے عرض کرتے ہیں کہ روایت کے الفاظ یہ ہیں:
قال: وضع يده عند النحر
یہ قول ہے ابو الجوزاء کا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فعل مذکور ہے۔ چنانچہ ترجمہ ہوگا: "ابو الجوزاء نے فرمایا: ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ نحر کے قریب رکھا۔" یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ نحر کے قریب رکھ کر اشارہ کیا کہ اس آیت میں نحر سے مراد "نحر کرنا" یعنی قربانی کرنا ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ تفسیر کمزور سندوں سے مروی ہے جو کہ شیخ محترم نے بھی ذکر کی ہیں اور یہ سند انہی روایات کو مضبوط کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ابن کثیرؒ نے جزم کے ساتھ اسے (یعنی قربانی کو) ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول قرار دیا ہے:
قال ابن عباس، وعطاء، ومجاهد، وعكرمة، والحسن: يعني بذلك نحر البدن ونحوها. وكذا قال قتادة، ومحمد بن كعب القرظي، والضحاك، والربيع، وعطاء الخراساني، والحكم، وإسماعيل بن أبي خالد، وغير واحد من السلف.
(تفسیر ابن کثیر، 8۔503، ط: دار طیبۃ)
اس قربانی والی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی موافقت بہت سارے مفسرین کرتے ہیں اس لیے بھی یہ تفسیر مضبوط ہے۔

دوسری روایت حضرت شیخ نے علامہ سیوطیؒ کی الاکلیل سے ابن ابی حاتمؒ کے حوالے سے نقل کی ہے:
وأخرج ابن أبي حاتم من طريق أبي الجوزاء عن ابن عباس في قوله: {وَانْحَرْ}
قال وضع اليمين على الشمال عند النحر في الصلاة، ففي الآية مشروعية ذلك
یہاں ہماری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ یہ ابو الجوزاء کی وہی روایت ہے جو یحیی بن ابی طالب کے طریق سے مروی ہے اور جس کے بارے میں شیخ فرماتے ہیں: "ہم نے جو سند پیش کی ہے اس میں یحیی بن ابی طالب موجود نہیں ہے جو بیہقی کی سند میں ہے، جس کی وجہ سے بعض لوگ اس روایت کو زور و شور سے ضعیف قرار دیتے ہیں۔"
عرض ہے کہ بیہقی کی روایت یہی ہے جو ابن ابی حاتم کے حوالے سے سیوطیؒ نے نقل کی ہے:
أخبرنا أبو زكريا بن أبي إسحاق، أنبأ الحسن بن يعقوب بن البخاري، أنبأ يحيى بن أبي طالب، أنبأ زيد بن الحباب، ثنا روح بن المسيب قال: حدثني عمرو بن مالك النكري، عن أبي الجوزاء، عن ابن عباس رضي الله عنهما في قول الله عز وجل {فصل لربك وانحر} قال: " وضع اليمين على الشمال في الصلاة عند النحر
تو جب یہ وہی روایت ہے تو اسے اس نئی جگہ سے بلا سند پیش کرنے کا کیا مقصد ہے؟
بہر حال ہم اب اس روایت کو اس سے مضبوط اس روایت کی روشنی میں دیکھیں گے جو غریب الحدیث میں موجود ہے۔ ابو رجاء روح بن المسیب سے سے دو راویوں نے یہ روایت نقل کی ہے: زید بن الحباب نے جن سے یحیی بن ابی طالب نے نقل کی اور ابو بکر بن ابی الاسود نے۔ ابو بکر نے روایت کی: "قال وضع یدہ عند النحر"۔ یہ اصل روایت ہے۔ زید بن الحباب سے یحیی نے بھی یہی روایت کی لیکن انہوں نے روایت بالمعنی کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ انہوں نے اس کا معنی یہ بیان کیا: "وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ عند النحر"۔ حقیقت میں انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے سینے پر ہاتھ رکھنے کے فعل کو نماز سے متعلق سمجھ کر اس کی الفاظ میں تفسیر کرنے کی کوشش کی تھی۔
یہ تفصیل ہم اس لیے بیان کر رہے ہیں کہ یحیی ابو بکر سے بہت کمزور ہیں اور وہ معنی میں ابو بکر کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس مخالفت کی وضاحت ہم اوپر کر چکے ہیں کہ روایت میں نہ نماز کا ذکر ہے اور نہ دوسرے ہاتھ کا اور یہ دوسری روایت ان چیزوں کا ذکر کر کے پہلی روایت میں وہ قیدیں لگا رہی ہے اور تبدیلیاں کر رہی ہے جو پہلی روایت میں نہیں ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم قوی روایت کو اصل مانتے ہوئے ضعیف روایت میں تاویل کریں۔

شیخ کفایت اللہ صاحب نے اگلا اثر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا پیش فرمایا ہے:
أخبرنا أبو بكر أحمد بن محمد بن الحارث الفقيه، أنبأ أبو محمد بن حيان أبو الشيخ، ثنا أبو الحريش الكلابي، ثنا شيبان، ثنا حماد بن سلمة، ثنا عاصم الجحدري، عن أبيه، عن عقبة بن صهبان كذا قال: إن عليا رضي الله عنه قال في هذه الآية {فصل لربك وانحر} [الكوثر: 2] قال: " وضع يده اليمنى على وسط يده اليسرى، ثم وضعها على صدره "
حضرت شیخ فرماتے ہیں: "اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ العجاج کون ہیں؟ یہ عبد اللہ بن رؤبہ العجاج البصری ہیں۔"
اس کی دلیل میں فرماتے ہیں: "کیونکہ العجاج کے لقب سے یہی مشہور ہیں۔"
شیخ محترم کے بعض دلائل بہت گہرے ہوتے ہیں۔ اس قدر گہرے کہ اس کی تہہ تک عام شخص جا ہی نہیں سکتا اور شیخ محترم کے علاوہ ہماری نظر میں سب عام اشخاص ہیں اس لیے ان عام اشخاص کے لیے شیخ محترم کے ان گہرے دلائل کا کوئی فائدہ نہیں۔ غالباً اسی وجہ سے بڑے بڑے علماء کرام نے شیخ محترم کی کتاب کی تعریف میں صفحات تحریر کیے ہیں (جو کتاب کی ابتداء میں ہو کر اس کے علمی وزن میں اضافہ کرتے ہیں) کیونکہ وہ بھی ان دلائل کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکے۔
بہرحال ہمیں افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑ رہا ہے کہ عاصم الجحدری کے والد کی کنیت ابو الصباح ہے:
عاصم بن أبي الصباح الجحدري البصري. المقرئ المفسر.
(تاریخ الاسلام، 3۔437، ط: دار الغرب الاسلامی)
اور عبد اللہ بن رؤبۃ العجاج کی کنیت ابو رؤبۃ اور ابو الشعثاء ہے:
العجاج، أبو رؤبة، صاحب الرجز، هو أبو الشعثاء عبد الله بن رؤبة بن صخر التميمي.
روى عن: أبي هريرة،
وعنه: ابنه رؤبة.
(تاریخ الاسلام، 2۔1139، ط: دار الغرب الاسلامی)
دونوں کی کنیتوں میں موجود واضح فرق یہ بتا رہا ہے کہ عبد اللہ بن رؤبہ عاصم کے والد نہیں ہیں۔ ان عبد اللہ بن رؤبہ پر اس روایت کی عمارت کھڑی ہے۔ ان کے مجہول ہونے کی صورت میں یہ روایت ناکارہ ہو جاتی ہے اس لیے مزید کسی تفصیل کی ضرورت نہیں۔
شیخ محترم کا یہ کہنا کہ "العجاج کے لقب سے یہی مشہور ہیں" درست نہیں۔ ایسا حصر کسی امام نے نہیں کیا۔ ہمیں العجاج کے لقب سے اور کوئی معلوم نہیں لیکن اس کا مطلب نہ تو یہ ہے کہ اس زمانے میں اور کوئی العجاج ہی نہیں تھا اور نہ ہی یہ مطلب ہے کہ ہم انہیں زبردستی عاصم کا والد بنا دیں۔ ان کے بیٹے کا نام رؤبہ ہے جو ان سے روایت کرتے ہیں۔
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
شیخ محترم کفایت اللہ سنابلی صاحب کی تیسری پیش کردہ روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جو کہ ابو داود میں موجود ہے:
حدثنا محمد بن قدامة يعني ابن أعين، عن أبي بدر، عن أبي طالوت عبد السلام، عن ابن جرير الضبي، عن أبيه، قال: «رأيت عليا، رضي الله عنه يمسك شماله بيمينه على الرسغ فوق السرة»
شیخ محترم فرماتے ہیں: "عرض یہ ہے کہ "فوق" کے مفہوم کو صرف اسی معنی (ناف کے عین اوپر۔۔۔۔ ناقل) کے ساتھ خاص کر دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ کیوں کہ عربی زبان و لغت میں فوق کسی چیز کے اوپر کے لیے بھی مستعمل ہے۔"
ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ "فوق" کے مفہوم کو صرف "صدر" کے ساتھ خاص کر دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ شیخ محترم کو چاہیے کہ اس روایت کی رو سے سر پر ہاتھ باندھا کریں کہ وہ بھی ناف کے لحاظ سے "فوق" ہی ہے۔ شیخ محترم یہ بھی نہیں فرما سکتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تفسیری روایت سے "صدر" کی تعیین ہو چکی ہے کیوں کہ اس میں عاصم الجحدری کے والد تاحال نامعلوم ہیں۔ نیز اس روایت کو ابن کثیرؒ نے غیر صحیح کہا ہے اور ابن کثیرؒ کا مرتبہ تفسیر میں محتاج بیان نہیں۔ اب جب کہ "فوق" کی کوئی تعیین نہیں ہے تو پھر "فوق" کے معنی پر مکمل عمل کر کے اس روایت سے سر پر ہاتھ باندھنے کی دلیل لینی چاہیے۔
ہاں اگر محترم شیخ یہ چاہیں کہ اس روایت کو فہم سلف کی روشنی میں دیکھیں تو ہم اس سے قبل تفصیل سے واضح کر چکے ہیں کہ سینے پر ہاتھ باندھنا ائمہ اربعہ سے ثابت نہیں ہے۔ ہاتھ باندھنے کے مقام کے حوالے سے سلف کے یہ مذاہب ہیں:
والحديث استدل به من قال: إن الوضع يكون تحت السرة وهو أبو حنيفة وسفيان الثوري وإسحاق بن راهويه وأبو إسحاق المروزي من أصحاب الشافعي. وذهبت الشافعية، قال النووي: وبه قال الجمهور إلى أن الوضع يكون تحت صدره فوق سرته. وعن أحمد روايتان كالمذهبين، ورواية ثالثة أنه يخير بينهما ولا ترجيح وبالتخيير قال الأوزاعي وابن المنذر. قال ابن المنذر في بعض تصانيفه: لم يثبت عن النبي - صلى الله عليه وسلم - في ذلك شيء فهو مخير. وعن مالك روايتان: إحداهما يضعهما تحت صدره، والثانية يرسلهما ولا يضع إحداهما على الأخرى.
(نیل الاوطار، 2۔219، ط: دار الحدیث)
علامہ شوکانیؒ فرماتے ہیں: "اور اس حدیث سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو کہتے ہیں کہ ہاتھ ناف کے نیچے باندھے جائیں گے۔ اور وہ ابوحنیفہ، سفیان ثوری، اسحاق بن راہویہ اور شوافع میں سے ابو اسحاق مروزی ہیں۔ اور شافعیہ کا مذہب اور بقول امام نوویؒ جمہور جس کے قائل ہیں یہ ہے کہ ہاتھ سینے کے نیچے اور ناف کے اوپر باندھے جائیں گے۔ اور امام احمدؒ دونوں مذہبوں کی طرح دو روایتیں ہیں، اور تیسری روایت یہ ہے کہ اسے اختیار ہوگا دونوں میں اور کسی کو ترجیح نہیں ہے۔ اور اختیار کی ہی بات اوزاعی اور ابن المنذر نے بھی کی ہے۔ ابن المنذرؒ نے اپنی ایک تصنیف میں کہا ہے: نبی کریم ﷺ سے اس بارے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے اس لیے اختیار ہے۔ اور امام مالکؒ سے دو روایتیں ہیں: ایک یہ کہ سینے کے نیچے باندھے اور دوسری یہ کہ دونوں ہاتھوں کو چھوڑ دے اور ایک کو دوسرے پر نہ رکھے۔"
یہ سلف کے اقوال ہیں ہاتھ باندھنے کی جگہ کے بارے میں اور ان میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ جنہوں نے ناف کے اوپر ہاتھ باندھنے کی بات کی ہے انہوں نے سینے سے نیچے باندھنے کا کہا ہے۔ ان اقوال کی روشنی میں اس روایت کا مطلب بھی واضح ہو جاتا ہے کہ اس سے مراد ناف کے اوپر اور سینے کے نیچے ہاتھ باندھنا ہے۔
ماضی قریب کے مالکی فقیہ محمود خطاب سبکی تحریر فرماتے ہیں:
ويمكن أن يكون دليلا لمن قال إن محل وضع اليدين فوق السرة وتحت الصدر.
(المنہل العذب المورود، 5۔164، ط: مطبعۃ الاستقامۃ)
ترجمہ: "اور ممکن ہے کہ یہ ان کی دلیل بنے جو کہتے ہیں کہ ہاتھ رکھنے کی جگہ ناف کے اوپر اور سینے کے نیچے ہے۔"

صاحب عون المعبود علامہ شمس الحق عظیم آبادیؒ فرماتے ہیں:
ويمكن أن يستدل به على ما ذهبت إليه الشافعية من الوضع تحت الصدر وفوق السرة ولكن قد عرفت ما في جرير الضبي من المقال على أنه أثر
(عون المعبود، 2۔324، ط: العلمیۃ)
ترجمہ: "اور ممکن ہے کہ اس سے اس مذہب پر استدلال کیا جا سکے جو شافعیہ کا ہے یعنی سینے کے نیچے اور ناف کے اوپر ہاتھ باندھنا۔ لیکن آپ جانتے ہیں جو کچھ جریر الضبی میں کلام ہے اور جب کہ یہ ہے بھی اثر۔"
صاحب عون المعبودؒ نے جریر الضبی کے بارے میں جس کلام کی بات کی ہے اسے ہم واضح کرتے چلیں کہ جریر الضبی مستور الحال ہیں۔ یعنی ان کے بارے میں نہ توثیق مروی ہے اور نہ تضعیف۔ ابن حبانؒ نے انہیں "ثقات" میں ذکر کیا ہے لیکن ابن حبانؒ توثیق میں متساہل قرار دیے جاتے ہیں کیوں کہ یہ اس شخص کی بھی توثیق کر دیتے ہیں جس کے شیخ اور شاگرد ثقہ ہوں اور اس کے اپنے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو۔
حضرت شیخ نے ان کی توثیق کے لیے تین حوالوں کا سہارا لیا ہے:
1۔ ابن حبانؒ کی الثقات کا جس کی وضاحت ہو گئی۔ ابن حبانؒ نے اپنی کتاب کے مقدمے میں اپنا یہ اصول ذکر کیا ہے کہ جس شخص کے بارے میں جرح منقول نہیں ہوگی وہ اسے ثقات میں ذکر کریں گے اگرچہ اس کے بارے میں تعدیل موجود نہ ہو۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
لأن العدل من لم يفرف منه الجرح ضد التعديل فمن لم يعلم بجرح فهو عدل إذا لم يبين ضده

2۔ امام بیہقیؒ کا قول: ھذا اسناد حسن۔ اس کے بارے میں عرض ہے کہ امام بیہقیؒ پانچویں صدی کے محدث ہیں اور جریر الضبی ابتدائی زمانے میں گزرے ہیں۔ امام بیہقیؒ نے کس بنیاد پر ان کی روایت کو حسن قرار دیا ہے یہ واضح نہیں ہے۔ نیز بیہقیؒ نے ان کی روایت کو "حسن" قرار دیا ہے "صحیح" نہیں۔ "صحیح" کے تمام روات ثقہ ہوتے ہیں لیکن "حسن" کے روات میں عدالت تو ہوتی ہے لیکن ضبط میں کمی ممکن ہوتی ہے۔ یہ کمی کس قدر ہے؟ یہ بھی معلوم نہیں۔نیز "حسن" کثرت سند کی وجہ سے ضعیف کو بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں اس کی بھی وضاحت نہیں ہے۔

3۔ حافظ ابن حجرؒ کی تحسین۔ اس کا حال بھی امام بیہقیؒ کی تحسین والا ہے۔ مزید یہ کہ حافظؒ امام بیہقیؒ کے بھی بہت بعد میں یعنی نویں صدی ہجری میں گزرے ہیں۔ حافظؒ نے ان کی توثیق کی بنیاد ابن حبانؒ کی الثقات پر، حاکمؒ کے جریر ضبی کو اپنی مستدرک میں ذکر کرنے پر اور امام بخاریؒ کے ان سے تعلیقاً روایت نقل کرنے پر رکھی ہے جیسا کہ تہذیب التہذیب میں ہے۔ حاکمؒ کی روایت تو ہمیں نہ مل سکی ورنہ اس کا حال معلوم ہوجاتا البتہ حاکمؒ بھی توثیق میں متساہل ہیں۔ امام بخاری نے مذکورہ روایت تعلیقاً حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے لیکن اس میں فوق السرۃ کا ذکر نہیں ہے۔ اس روایت کے دیگر طرق میں بھی یہ ذکر نہیں ہے۔ امام بخاریؒ نے جریر کا ذکر نہیں کیا اور یہ حافظ ابن حجرؒ کا اندازہ ہے کہ یہ روایت امام بخاریؒ کے پاس بھی جریر کے ہی طریق سے ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ روایت کسی اور طریق سے مروی نہیں ہے۔ لیکن اس پر قطعی دلیل کوئی نہیں ہے کہ امام بخاریؒ کے پاس یہ روایت کسی اور طریق سے موجود نہیں تھی اور تعلیقات میں امام بخاریؒ نے اپنی شرائط کا مکمل خیال نہیں رکھا اور خصوصاً جب کہ یہ حدیث نبویﷺ کے بجائے آثار صحابہ سے متعلق ہے تو اس میں زیادہ ابہام آ جاتا ہے۔
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
شیخ محترم نے چوتھا اور آخری اثر حضرت عبد اللہ بن جابر البیاضی رضی اللہ عنہ کا پیش فرمایا ہے:
رأيت عبد الله بن جابر البياضي صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع إحدى يديه على ذراعه في الصلاة
شیخ فرماتے ہیں: "اب اگر دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے "ذراع" (کہنی کے بیچ سے انگلی تک کے پورے حصے) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خود بخود سینے پر آجائیں گے۔"
معروض تو پرانی ہی ہے کہ "ذراع" کا مکمل معنی لے کر "ید" کا مکمل معنی کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟ اگر ید کا بھی مکمل معنی لیں تو ان کو کبھی ایک دوسرے پر رکھنا ہی ممکن نہ ہو۔ لیکن ہم شیخ محترم سے چپکے سے یہ بھی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے خود بھی یہ تجربہ کر کے دیکھا اور ادھر ادھر کے اور افراد سے بھی کروایا لیکن کسی کے ہاتھ شیخ محترم کے قول کے مطابق سینے پر نہیں پہنچے بلکہ پیٹ کے اوپری حصے تک ہی پہنچ پائے۔ جب تک ہاتھ اوپر اٹھائے نہ جائیں، کندھے سکیڑے نہ جائیں یا بازو کسی پیدائشی نقص کی وجہ سے عام سائز سے چھوٹے نہ ہوں ان کا سینے تک اس طرح پہنچنا ناممکن ہے۔ چونکہ آپس کی بات چل رہی ہے اس لیے ہم شیخ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ سینہ وہ ہوتا ہے جس میں پسلیاں ہوتی ہیں اور پسلیوں کے نیچے کا نرم حصہ پیٹ کہلاتا ہے۔
بہرحال یہ آپس کی بات ہے اور ہم کسی کو نہیں بتائیں گے کہ ہاتھ سینے تک نہیں پہنچ رہے۔ ممکن ہے کہ شیخ کے علاقے کے لوگوں کے بازو چھوٹے ہی ہوتے ہوں لیکن شیخ کو ایسی دلیل دینی چاہیے جو ساری دنیا کے لوگوں کے لیے ہو نہ کہ صرف ان کے اپنے علاقے کے افراد کے لیے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شیخ محترم کے پیش کردہ چاروں آثار میں سے کوئی ایک بھی ان کے موقف پر دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ شیخ جابجا حنفیوں اور دیوبندیوں کے اقوال سے دلیلیں دیتے ہیں۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ شیخ نے اگر اپنا مسلک ثابت کرنا ہے تو پھر اہل دیوبند یا احناف کے اقوال سے دلیل کا انہیں کیا فائدہ ہے؟ اور اگر شیخ کا مقصود الزام خصم ہے یعنی احناف کو یہ بتانا ہے کہ ان کے علماء کا بھی یہ قول ہے تو احناف اپنے علماء کی "تحت السرۃ" کی ترجیح کو بھی مانتے ہیں۔ وہ آدھے کو مان کر آدھے کا انکار نہیں کرتے، اس لیے ان اقوال و دلائل کا کوئی فائدہ نہیں۔

ہم بات کر رہے تھے اس پر کہ کیا سینے پر ہاتھ باندھنا کسی عالم کا قول ہے؟ اس کے ضمن میں آثار صحابہ کی بات آئی تھی۔ آگے محترم شیخ فرماتے ہیں: "نیز گزشتہ سطور میں ہم بتا چکے ہیں کہ امام شافعیؒ سے بھی یہ قول منقول ہے، بلکہ بعض روایات کے مطابق امام احمدؒ سے بھی یہ قول منقول ہے اور معنوی طور پر یہی قول امام مالکؒ سے بھی منقول ہے۔"
ہم بھی اسی انداز میں عرض کرتے ہیں: گزشتہ سطور میں ہم نہ صرف بتا چکے ہیں بلکہ ثابت بھی کر چکے ہیں کہ ائمہ ثلاثہ میں سے کسی کا قول بھی سینے پر ہاتھ باندھنے کا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس امام احمدؒ کی مضبوط روایت ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی ہے۔
شیخ آگے فرماتے ہیں: "علاوہ بریں امام بیہقیؒ نے اپنی سنن میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا باب قائم کیا ہے۔"
عرض ہے کہ امام بیہقیؒ متفقہ طور پر شافعی عالم ہیں۔ انہیں ابن الملقنؒ، ابن خلکانؒ، سبکیؒ، ابن کثیرؒ، نواب صدیق حسن خانؒ اور حاجی خلیفہؒ نے باقاعدہ طور پر شافعی قرار دیا ہے۔ علامہ ذہبیؒ اور ابن الملقنؒ نے ان کے شافعی ہونے پر اقوال نقل کیے ہیں۔ ان کو بعض نے امام الحدیث کہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی خدمات کی وجہ سے حدیث کے حوالے سے یہ امام ہیں اور مسلک کے حوالے سے یہ شافعی فقیہ ہیں۔ انہوں نے جو باب قائم کیا ہے یہ مجمل ہے اور شوافع کے نزدیک "علی الصدر" کا مطلب ہم واضح کر چکے ہیں کہ وہ علی الصدر کی روایات کو "فوق السرۃ" اور "تحت الصدر" پر محمول کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے یہاںبھی "علی الصدر" کا یہی مطلب ہوگا جب تک کہ ان کی جانب سے اس کے خلاف صراحت نہ آ جائے۔

چوتھی دلیل کے تحت شیخ فرماتے ہیں: "سینے پر ہاتھ باندھنا اجتہادی معاملہ نہیں ہے بلکہ اس بارے میں میں نص صریح موجود ہے جس کے سامنے اجتہاد کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں ہے۔"
شیخ محترم! نص صریح کے ثبوت پر ہی تو بات چل رہی ہے۔ ہم دعوی کرتے ہیں کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر نص صریح ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ میں موجود ہے۔ شیخ نے اس پر تحریف کا جو الزام لگایا ہے وہ سراسر غلط ہے۔ ہم ان شاء اللہ آگے اس روایت کے بارے میں بات کریں گے۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
آگے فرماتے ہیں: "علاوہ بریں امام بیہقیؒ نے اپنی سنن میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا باب قائم کیا ہے۔"
عرض ہے کہ امام بیہقیؒ متفقہ طور پر شافعی عالم ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے جو باب قائم کیا ہے یہ مجمل ہے
اور شوافع کے نزدیک "علی الصدر" کا مطلب ہم واضح کر چکے ہیں کہ وہ علی الصدر کی روایات کو "فوق السرۃ" اور "تحت الصدر" پر محمول کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے یہاںبھی "علی الصدر" کا یہی مطلب ہوگا جب تک کہ ان کی جانب سے اس کے خلاف صراحت نہ آ جائے۔
آپ کی بات بالکل صحیح ہے ۔الخلافیات میں جو باب قائم کیا ہے اس سے اس مجمل کی وضاحت ہو جاتی ہے ۔

مَسْأَلَة (75) :
وَالسّنة أَن يضع الْيُمْنَى على الْيُسْرَى تَحت صَدره وَفَوق سرته. وَقَالَ أَبُو حنيفَة يضعهما تَحت السُّرَّة،
مختصر الخلافیات ۲۔۳۳
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام بیہقیؒ کی کتب ، السنن ۔ المعرفۃ ۔ الخلافیات میں بعض جگہہ ان کتب کے ایک دوسرے میں حوالے ہیں ۔یوں لگتا ہے جیسے انہوں نے ساتھ ساتھ یہ کتب تحریر فرمائیں ۔
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
آپ کی بات بالکل صحیح ہے ۔الخلافیات میں جو باب قائم کیا ہے اس سے اس مجمل کی وضاحت ہو جاتی ہے ۔

مَسْأَلَة (75) :
وَالسّنة أَن يضع الْيُمْنَى على الْيُسْرَى تَحت صَدره وَفَوق سرته. وَقَالَ أَبُو حنيفَة يضعهما تَحت السُّرَّة،
مختصر الخلافیات ۲۔۳۳
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام بیہقیؒ کی کتب ، السنن ۔ المعرفۃ ۔ الخلافیات میں بعض جگہہ ان کتب کے ایک دوسرے میں حوالے ہیں ۔یوں لگتا ہے جیسے انہوں نے ساتھ ساتھ یہ کتب تحریر فرمائیں ۔
کاش کہ یہاں بھی "زبردست" کا نشان ہوتا! میرے ذہن میں نہیں رہا تھا کہ دوسری کتب میں دیکھوں۔ فجزاک اللہ خیرا الف الف مرۃ
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
مصنف ابن ابی شیبہ کی تحریف شدہ روایت یا۔۔۔۔۔؟
شیخ محترم کفایت اللہ صاحب نے "مصنف ابن ابی شیبہ کی تحریف شدہ روایت" کا عنوان لگایا ہے۔ اس عنوان کے تحت حضرت شیخ نے جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس سے شیخ کو ملی ہوئی چار خدا داد صلاحیتوں کا پتا چلتا ہے:
1۔ کہانی نگاری
2۔ گزرے ہوئے علماء کے بارے میں برے الفاظ کا استعمال اور سوء ظن
3۔ مخطوطات کی تحقیق کے اصول سے مکمل ناواقفیت
4۔ ناواقفیت کے باوجود کئی صفحات تحریر کرنے کا ہنر
اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان چار صفات کو "خدا داد" کہنا جائز بھی ہے یا نہیں، بہر حال اللہ پاک ہمیں اور شیخ کو ان صفات سے بچائیں۔ شیخ محترم نے جو کہانی تخلیق کی ہے اور جو الفاظ استعمال کیے ہیں اس کے لحاظ سے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ شیخ کی باتوں کا اقتباس لیے بغیر اپنی بات مکمل وضاحت اور تفصیل سے رکھ دی جائے اور شیخ محترم کے اعتراضات کے جوابات بھی ساتھ ساتھ دے دیے جائیں۔

ابتداء مسئلہ:
اس مسئلے کی ابتداء بارہویں صدی ہجری میں ہوئی جب ایک حنفی عالم علامہ حیات سندھیؒ نے سینے پر ہاتھ باندھنا شروع کیے اور اپنے استاد سے متاثر ہو کر ان کا یہ خیال ہوا کہ اس سلسلے میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والوں کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ انہی کے زمانے کے ایک اور جید حنفی عالم مولانا ہاشم سندھی ٹھٹھویؒ نے ان کا اس پر رد کیا اور اس سلسلے میں ایک رسالہ تحریر کیا۔ علامہ حیات سندھیؒ نے اس کے جواب میں دو رسالے تحریر فرمائے۔ ایک انہوں نے غالباً جلدی میں لکھا اور دوسرا اپنے استاد سے مشورہ کرنے کے بعد تحریر فرمایا۔ یہ رسالے جب سندھ پہنچے تو ہاشم ٹھٹھویؒ نے ان کے رد میں دو رسالے مزید تصنیف فرمائے۔ ان رسائل کا کوئی جواب علامہ حیات سندھیؒ کی جانب سے نہیں آیا۔
علامہ ہاشمؒ نے جو پہلا رسالہ تحریر کیا اس کا نام "درہم الصرۃ" رکھا۔ اس میں انہوں نے دیگر دلائل کے ساتھ ایک روایت نقل فرمائی جو مصنف ابن ابی شیبہ میں تھی۔ یہ وہی روایت ہے جس کے بارے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں۔ اس روایت کے الفاظ ہاشمؒ کی نقل کے مطابق یہ تھے:
عن علقمۃ بن وائل بن حجر عن ابیہ رضی اللہ عنہ قال: رأیت النبی ﷺ وضع يمينه علي شماله في الصلاة تحت السرة
یہاں علامہ ہاشمؒ کا انداز دیکھیں تو انہوں نے اس رسالے میں اس روایت کی سند پر تو بحث کی ہے لیکن نسخوں کےاختلاف پر بات نہیں کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں سندھ میں یہ روایت انہی نسخوں سے موجود تھی جن میں یہ "تحت السرۃ" کی زیادتی موجود تھی اور یہ یہاں معروف روایت تھی۔ پھر جب علامہ حیات سندھیؒ نے اس روایت پر بعض نسخوں میں موجود نہ ہونے کا اعتراض کیا تو ہاشم سندھیؒ نے اس کے جواب میں تین نسخوں کا ذکر کیا جن میں یہ زیادتی موجود تھی:
1۔ وہ نسخہ جس سے علامہ قاسم بن قطلوبغا نے یہ روایت نقل فرمائی ہے۔
2۔ شیخ محمد اکرم نصر پوری کا نسخہ جس میں ہاشمؒ نے یہ روایت خود دیکھی۔ یہ نسخہ سندھ میں تھا۔
3۔ مکہ کے مفتی شیخ عبد القادر کا نسخہ۔ یہ بھی ہاشمؒ نے خود دیکھا تھا۔
علامہ قاسم بن قطلوبغاؒ نویں صدی ہجری کے سوڈان کے حنفی عالم تھے۔ وہ کئی فنون میں ماہر تھے اور کئی بڑے علماء سے انہوں نے علم حاصل کیا۔ ان کی تصانیف پچاس سے زائد ہیں جن کے نام "ہدیۃ العارفین" میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ علامہ سخاویؒ ان کی تعریف میں فرماتے ہیں:
وهو إمام علامة قوي المشاركة في فنون ذاكر لكثير من الأدب ومتعلقاته واسع الباع في استحضار مذهبه وكثير من زواياه وخباياه متقدم في هذا الفن طلق اللسان قادر على المناظرة وإفحام الخصم لكن حافظته أحسن من تحقيقه
(الضوء اللامع، 6۔188، ط: دار مکتبۃ الحیاۃ)
ترجمہ: "وہ امام، علامہ، فنون کی مشارکت میں مضبوط، ادب اور اس کے متعلقات کو یاد رکھنے والے، اپنے مسلک کے اور اس سے متعلق چیزوں کے استحضار میں کشادہ سینے والے، اس فن میں مقدم، خوش بیان، مناظرے اور مخالف کو خاموش کروانے میں مہارت رکھنے والے تھے لیکن ان کا حافظہ ان کی تحقیق سے زیادہ اچھا تھا۔"
بعض لوگ ان پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ علامہ سخاویؒ نے ان کے بارے میں بقاعیؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ "یہ جھوٹے تھے اس لیے ان کی کسی بات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔" عرض یہ ہے کہ اس قول کو نقل کرنے سے پہلے سخاویؒ نے فرمایا ہے: "بقاعی نے ان کو اذیت دینے میں مبالغہ کیا ہے" یعنی سخاویؒ کے نزدیک بقاعی کا یہ قول اذیت دینے کے لیے ہے۔ ان کی شان سخاویؒ کے نزدیک جو ہے وہ اوپر بیان ہوچکی ہے۔
ان رسائل میں موجود اس تفصیل کے بعد علامہ حیاتؒ کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔ علامہ حیات سندھیؒ حدیث مبارکہ پر عمل کا جتنا شوق رکھتے تھے اس کی وجہ سے غالب گمان یہ ہے کہ یہ حدیث ملنے کے بعد انہوں نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا ہوگا۔ البتہ اس پر کوئی تاریخی شہادت ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
علامہ حیات سندھیؒ اور علامہ ہاشم ٹھٹھویؒ کا یہ واقعہ گیارہویں صدی کا ہے۔ بارہویں صدی ہجری میں مولانا عابد سندھیؒ نے مصنف ابن ابی شیبہ کا اپنا نسخہ نقل کروایا تو اس میں بھی یہ روایت اسی طرح "تحت السرۃ" کے اضافے کے ساتھ نقل ہوئی۔ یہاں یہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ مولانا عابد سندھیؒ کہلاتے تو سندھی ہیں لیکن ان کی پرورش اور رہائش یمن اور عرب ممالک کی ہے۔ ان کے دادا یمن ہجرت کر گئے تھے۔
ہندوستان میں مصنف ابن ابی شیبہ کا پہلا نسخہ اس واقعے کے کم از کم دو سو سال بعد ابو الکلام آزاد اکیڈمی سے چھپا۔ اس نسخے کے لیے کس قلمی نسخے کو دیکھا گیا؟ یہ نامعلوم ہے۔
اس نسخے کے بعد اگلا نسخہ دار السلفیہ سے چھپا۔ یہ نسخہ بھی پچھلے نسخے سے نقل کیا گیا تھا۔ پھر اس کے بعد مختلف محققین مختلف نسخوں سے نقل کرتے رہے۔
اسی دوران ادارۃ القرآن والوں نے دار السلفیہ کا نسخہ لے کر مصنف کا نسخہ چھاپنے کا ارادہ کیا۔ جب وہ یہ نسخہ چھاپنے لگے تو انہیں ایک جید عالم غلام رسول بدخشانی صاحب (جو بعد میں اہل حدیث حضرات کے مدرسے "جامعہ دار الحدیث رحمانیہ" میں پڑھاتے بھی رہے) نے اس روایت اور اس کے بارے میں ان رسائل کا بتایا۔ چنانچہ ادارۃ القرآن والوں نے ان رسائل، ان میں مذکور نسخوں اور علامہ قاسم بن قطلوبغاؒ کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے اس روایت میں اس لفظ کا اضافہ کر دیا تاکہ یہ روایت اپنی اصلی حالت پر برقرار رہے۔ ادارۃ القرآن کے اس عمل کی یہ ساری تفصیل درہم الصرہ کے مقدمہ ناشر میں موجود ہے جو خود ادارۃ القرآن والوں کی چھپی ہوئی ہے۔ چونکہ شیخ الدرہم الصرۃ سے جو حوالے دیتے ہیں وہ اسی کتاب کے مطابق ہوتے ہیں اس لیے یہ تفصیل یقیناً شیخ کی نظروں سے گزری ہوگی۔ اگر ایسا ہے تو ما شاء اللہ محترم شیخ کا ہاضمہ بہت مضبوط ہے۔
عبد السلام محمد ہارون "تحقیق النصوص و نشرہا" میں کہتے ہیں:
سبق فى الفصل الماضى أن المحقق قد يجد فى تخالف روايات النسخ ما يعينه على استخراج الصواب من نصوصها ، فيختار من بينها ما يراه مقيما للنص ، مؤديًا إلى حسن فهمه. والأمانة تقتضيه أن يشير فى الحواشى إلى النصوص التى عالجها لينتزع من بينها الصواب، والا يغفل الإشارة إلى جميع الروايات الأخرى التی قدیجد القاری ء فیها وجها اصوب من الوجه الذی ارتآه.
(تحقیق النصوص و نشرہا، 1۔73، ط: مکتبۃ الخانجی)
ترجمہ: "پچھلی فصل میں یہ بات گزر گئی ہے کہ محقق کبھی نسخوں کی روایات کے اختلاف میں وہ دلائل پاتا ہے جو نصوص سے درست بات اخذ کرنے میں اس کی مدد کرتے ہیں، لہذا وہ اس نسخے کو چنتا ہے جسے وہ نص کی درستگی کرنے والا اور اس نص کو سمجھنے میں بہتر بنانے والا سمجھتا ہے۔ اور امانت اس کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ حاشیے میں ان نصوص کی طرف اشارہ کر دے جنہیں اس نے درست بات اخذ کرنے کے لیے دیکھا ہے اور ان تمام روایات کی طرف اشارہ نہ چھوڑے جن سے قاری کبھی کوئی صورت اس کی صورت سے زیادہ درست سمجھتا ہے۔"
اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ ادارۃ القرآن والوں کی غلطی صرف اتنی تھی کہ انہوں نے حاشیے میں مرجوح نسخے کی جانب اشارہ نہیں کیا تھا ورنہ ان کا باقی عمل اصول تحقیق کے مطابق تھا اور قطعاً کوئی تحریف نہیں تھی۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنی سی غلطی پر تحریف تحریف کا اتنا شور مچانا آخر کس بات کی نشان دہی کرتا ہے؟ کہیں اس کی تو نہیں کہ اصل مقصد تحریف کا نام لے کر سرے سے اس روایت کا انکار کرنا ہے کہ جو بھی اس روایت کی تحقیق کرے گا اور اسے کسی نسخے سے ثابت کرے گا اس پر فوراً تحریف کا الزام لگا دیا جائے گا؟ اور اس کے نسخے سے لوگوں کو اسی طرح ڈرایا جائے گا جس طرح اہل مکہ باہر سے آنے والوں کو نبی کریم ﷺ کی بات سننے سے ڈراتے تھے؟

جاری ہے۔۔۔۔
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
حضرت شیخ کفایت اللہ صاحب نے تحریف کے ثبوت کے لیے کئی مطبوعہ نسخوں کے اسکین دیے ہیں جن میں اس روایت میں "تحت السرۃ" کی زیادتی موجود نہیں ہے۔ کوئی بھی نسخہ جب چھپتا ہے تو وہ یا تو کسی قلمی نسخے سے چھپتا ہے اور یا کسی مطبوعہ نسخے سے۔ اگر یہ نسخہ کسی مطبوعہ نسخے سے چھپا ہوتا ہے تو وہ مطبوعہ نسخہ بھی یا کسی قلمی نسخے سے چھپا ہوتا ہے یا مطبوعہ نسخے سے۔ آخر میں کہیں نہ کہیں جا کر بات قلمی نسخوں پر ہی آتی ہے۔ جب کسی کتاب کے بڑی تعداد میں قلمی نسخے موجود ہوں اور مطبوعہ نسخے انہیں سے چھپے ہوں تو پھر ان مطبوعہ نسخوں کو الگ الگ ظاہر کرنے کی کوئی تک نہیں بنتی کیوں کہ وہ مطبوعہ نسخے تو دراصل قلمی نسخوں کی جانب اشارہ کر رہے ہوتے ہیں۔ الا یہ کہ ان کو الگ الگ ظاہر کر کے تعداد بڑھانے کی کوشش کی جائے۔
چنانچہ اب ہم مصنف ابن ابی شیبہ کے قلمی نسخوں کا جائزہ ان کے محققین کے بیانات کی روشنی میں لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم تین طبعات (علوم القرآن، الفاروق، الرشد) کے محققین (شیخ اسامہ، شیخ عوامہ، شیخ جمعہ اور شیخ لحیدان) کی تحقیقات کو مدنظر رکھیں گے۔ شیخ اسامہ کے لیے "ا"، شیخ عوامہ کے لیے "ع" اور شیخ جمعہ اور لحیدان کے لیے "ل" کے حروف استعمال کریں گے۔
مصنف ابن ابی شیبہ کے چھ قلمی نسخے ایسے ہیں جن میں یہ روایت زیادتی کے ساتھ یا بغیر زیادتی کے مروی ہے:
1۔ شیخ محمد عابد سندھیؒ کا نسخہ:
اس نسخے کا تعلق مدینہ منورہ کے مکتبہ محمودیہ سے ہے۔ (ع ا ل)
اس کے لکھنے والے کا نام محسن بن محسن الزراقی ہے۔ (ا ل ع)
یہ دو جلدوں میں ہے۔ (ا ل)
مصنف کا سب سے مشہور نسخہ ہے۔ (ا)
کئی اہل علم نے اسے پڑھا ہے۔ (ا)
اس کا خط انتہائی واضح ہے۔ (ا ل)
مصنف کا کامل نسخہ ہے- (ا ل)
شیخ عابدؒ کی اس پر بعض تعلیقات بھی ہیں۔ (ا)
اس میں عیب یہ ہے کہ جدید نسخہ ہے۔ (ا)
دوسرا عیب یہ ہے کہ اس میں کئی سقط اور تصحیفات ہیں۔ (ل)
اس کا خط بہت باریک ہے۔ (ل)
اس کی تاریخ 1229ھ ہے۔ (ل)

2۔ مرتضی زبیدیؒ کا نسخہ:
اس کا تعلق تونس سے ہے۔ (ا ل ع)
اس کی سات جلدیں ہیں جن میں سے دوسری جلد مفقود ہے۔ (ع ا ل)
مرتضی زبیدیؒ نے اس سے اپنی احیاء العلوم کی احادیث کی تخریج میں مدد لی ہے اور اس کا ناسخ کے نام کے ساتھ ذکر کیا ہے۔(ع)
اس کی پہلی جلد 741ھ میں لکھی گئی۔ (ع ا ل)
اس کے ناسخ یوسف بن عبد اللطیف الحرانی ہیں۔ (ع ا ل)
خط کے اعتبار سے متوسط ہے۔ (ع)
علامہ بدر الدین عینیؒ کے پاس رہا ہے اور ان کے اس پر بعض حواشی بھی ہیں۔ (ع)
واضح اور اچھا نسخہ ہے۔ (ا)
اس کا خط بہت واضح ہے۔ (ل)
مضبوط نسخہ ہے۔ (ل)
تقابل شدہ نسخہ ہے۔ (ل)
غلطیاں حاشیے میں صحیح کی ہوئی ہیں۔ (ل)
اس پر کوئی علماء کرام کی سماعات موجود نہیں ہیں۔ (ل)

3۔ جامعۃ الامام محمد بن سعود کا نسخہ:
یہ نسخہ دو افراد کا لکھا ہوا ہے۔ ایک کا نام فتح اللہ نظامی اور دوسرے کا عنایت اللہ ہے۔ (ل ع)
واضح خط میں ہے۔ (ل)
اغلاط اور سقط سے بھرا ہوا ہے۔ (ل)
عابد سندھیؒ کے نسخے سے لکھا گیا ہے (ل)
اس میں تحریفات اور زیادتیاں بھی ہیں۔ (ل)
فتح محمد نظامی والا حصہ مولانا شمس الحق عظیم آبادیؒ کے نسخے سے لکھا گیا ہے۔ (ع) یہ نسخہ بھی عابد سندھی والا نسخہ ہی ہے۔ (ل) فتح محمد نظامی والے حصے اور عابد سندھیؒ والے نسخے میں فرق ہے۔ (ع)
کئی جگہیں خالی ہیں۔ (ع)

جاری ہے۔۔۔۔
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
4۔ ابن الخراز یمنی کا نسخہ:
اس کی پہلی دو جلدوں کے اختتام پر ناسخ کا نام محمد بن عمر بن عبد اللہ الیمنی ابن الخراز درج ہے۔ (ا ل ع)
اس کی تاریخ نسخ چھ سو اڑتالیس ہجری ہے۔ (ا ع) تاریخ نسخ نو سو اڑتالیس ہجری ہے۔ (ل)
اس کا خط بڑا اور واضح ہے۔ (ل ا ع)
نقطے اور اعراب بھی موجود ہیں۔ (ل ا ع)
انتہائی مضبوط ہے اور غلطیاں بہت کم ہیں۔ (ل)
اصل (جس سے نسخہ لکھا گیا ہے) سے اس کا تقابل اور تصحیح ہوئی ہے اور ہر روایت کے بعد اس کا نشان ہے۔ (ل ع)
اگر یہ کامل ہوتا تو سب سے افضل نسخہ ہوتا۔ (ل)
اس کا ناسخ مضبوط ہے۔ (ع)
اس نسخے میں کئی تحریفات موجود ہیں لیکن دوسرے نسخوں سے کم ہیں۔ (ع)

از ناقل: یہ ایک عمدہ نسخہ ہے۔ اس کی تاریخ نسخ کے بارے میں اختلاف ہے کہ چھ سو اڑتالیس ہے یا نو سو اڑتالیس۔ ہماری رائے میں اس کی تاریخ چھ سو اڑتالیس ہے اور اس لحاظ سے یہ سب سے قدیم نسخہ ہے۔ چونکہ ہماری بحث کا تعلق اس کی پہلی دو جلدوں سے ہے اس لیے صرف ان کا ذکر کیا ہے۔ یہ دو جلدیں مکتبہ مراد ملا میں موجود ہیں اور غالباً یہی وہ نسخہ ہے جس سے مولانا حبیب الرحمان اعظمیؒ نے ابراہیم نخعیؒ کا اثر نقل کیا ہے۔

5۔ مکتبہ ظاہریہ کا نسخہ:
یہ دو نسخے ہیں۔ (ع ا)
پہلے نسخے کی پہلی دو جلدوں کا خط الگ اور باقی چار کا الگ ہے۔ (ع)
چار جلدوں کے آخر میں ناسخ کا نام عبد اللہ بن محمد بن ابراہیم المھندس الحنفی تحریر ہے۔ (ع ل)
نسخے کی تاریخ نسخ معلوم نہیں ہے۔ (ل)
خط واضح ہے، بغیر نقطوں کے ہے۔ (ل)
دوسرے نسخے کی تاریخ نسخ 735 ھ تحریر ہے۔ (ع ا)
اس پر امام نوویؒ کے حاشی موجود ہیں۔ (ع ا)
اصل سے اس کے تقابل کا ذکر موجود ہے۔ (ع)
اس کے ابواب کی ترتیب دوسرے نسخوں سے مختلف ہے۔ (ا

جاری ہے۔۔۔
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
6۔ نور عثمانیہ کا نسخہ:
یہ نسخہ دو ٹکڑوں میں ہے۔ (ع)
پہلی پانچ جلدیں متصل ہیں۔ (ع)
چھٹی جلد ابن الخراز یمنی کی تحریر کردہ ہے۔ (ع)
یہ کئی خطوط میں لکھا گیا ہے۔(ع)

ان چھ نسخوں میں سے پہلے دو نسخوں یعنی مرتضی زبیدی کے نسخے اور عابد سندھیؒ کے نسخے میں تحت السرۃ کی زیادتی موجود ہے اور باقی چار نسخوں میں یہ زیادتی موجود نہیں۔ شیخ محترم نے یہاں یہ ظاہر کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ اکثر نسخوں میں زیادتی نہیں ہونے کی وجہ سے اس کو ثابت نہیں مانا جانا چاہیے۔ لیکن بات یہ ہے کہ نسخے ایک دوسرے سے نقل ہوتے ہیں یا کئی نسخے کسی ایک ہی نسخے سے نقل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اگر ایک نسخے میں ایک غلطی ہو اور اس سے دس نسخے نقل ہو جائیں تو وہ غلطی اب گیارہ نسخوں میں آ جائے گی۔ اس سے وہ غلطی صحیح نہیں ہو سکتی۔ اس لیے نسخوں کی ترجیح کے لیے باقاعدہ اصول مقرر ہیں۔ ہم کچھ متعلقہ اصول تحریر کرتے ہیں:
1۔ ان النسخ الکاملۃ افضل من النسخ الناقصۃ
2۔ والواضحۃ احسن من غیر الواضحۃ
3۔ و القدیمۃ افضل من الحدیثۃ
4۔ و النسخ التی قوبلت بغیرہا احسن من التی لم تقابل
و القاعدتان الاخیرتان اھم من غیرھما
(اصول نقد النصوص و نشر الکتب للبرجسترائر، 1۔15)
ترجمہ: "1۔ کامل نسخے ناقص نسخوں سے افضل ہوتے ہیں۔
2۔ واضح نسخے غیر واضح نسخوں سے افضل ہوتے ہیں۔
3۔ قدیم نسخے جدید نسخوں سے افضل ہوتے ہیں۔
4۔ وہ نسخے جن کا دوسروں سے تقابل کیا جائے ان نسخوں سے اچھے ہوتے ہیں جن کا تقابل نہ ہوا ہو۔
آخری دو قاعدے دوسروں سے زیادہ اہم ہیں۔"

مراتب النسخ تکون کما یلي :
1۔ أحسن نسخة تعتمد للنشر نسخة كتبها المؤلف نفسه، فهذه هي الأم.
2۔ عند العثور على نسخة المؤلف يجب أن نبحث إذا كان المؤلف ألف كتابه على مراحل أو دفعة واحدة، لنتأكد أن النسخة التى بين أيدينا هي آخر صورة كتب المؤلف بها كتابه.
3۔ بعد نسخة المصنف تأتى نسخة قرأها المصنف أو قرئت عليه، وأثبت بخطه أنه قرئت عليه.
4۔ ثم نسخة نقلت عن نسخة المصنف أو عورضت بها وقوبلت عليها.
5۔ ثم نسخة كتبت في عصر المصنف عليها سماعات على علماء .
6۔ ثم نسخة کتبت بعصر الصنف، لیس علیها سماعات.
7۔ نسخ أخرى كتبت بعد عصر المؤلف. وفي هذه النسخ يفضل الأقدم
على المتأخر، والتي كتبها عالم أو قرئت على عالم.​
(قواعد تحقيق المخطوطات لصلاح الدين المنجد، 1۔13)
ترجمہ: "نسخوں کے مراتب کچھ یوں ہیں:
1۔ سب سے اچھا نسخہ جس پر اشاعت کے لیے اعتماد کیا جاتا ہے وہ نسخہ ہوتا ہے جسے مصنف نے خود لکھا ہو۔ اسے ام کہتے ہیں۔
2۔ مصنف کا نسخہ ملنے کے بعد یہ تحقیق کرنا لازم ہے کہ مصنف نے اپنی کتاب مختلف مراحل میں لکھی ہے یا ایک ساتھ؟ تاکہ ہمیں یقین ہو سکے کہ جو نسخہ ہمارے سامنے ہے یہی آخری شکل ہے جس میں مصنف نے کتاب لکھی ہے۔
3۔ مصنف کے نسخے کے بعد وہ نسخہ آتا ہے جسے مصنف نے پڑھا ہو یا اس پر پڑھا گیا ہو اور اس نے اپنی تحریر میں لکھا ہو کہ اس پر پڑھا گیا ہے۔
4۔ پھر وہ نسخہ جو مصنف کے نسخے سے نقل کیا گیا ہو یا اس پر پیش کیا گیا ہو اور اس سے تقابل کیا گیا ہو۔
5۔ پھر وہ نسخہ جو مصنف کے زمانے میں لکھا گیا ہو اور اس پر علماء کی سماعات ہوں۔
6۔ پھر وہ نسخہ جو مصنف کے زمانے میں لکھا گیا ہو اور اس پر سماعات نہ ہوں۔
7۔ دیگر نسخے جو مصنف کے زمانے کے بعد لکھے گئے ہوں۔ ان نسخوں میں قدیم کو جدید پر فضیلت حاصل ہوتی ہے اور اسے جسے کسی عالم نے لکھا ہو یا جوکسی عالم پر پڑھا گیا ہو۔"

ثم ان لکل عالم مشہور طالباً نقل عنہ سماعاً او استملاءاً او استنساخاً، و ھذہ الطرق کلہا جیدۃ کافیۃ بشرط ان یبذل الاستاذ جہدہ فی التصحیح، و ان یبذل الطلبۃ جہدہم فی الکتابۃ، و ان لا یجیز الاستاذ الکتاب الا بعد قراءتہ کلہ، اذ ان بعض المؤلفین القدماء کانوا یجیزون المؤلفات لاناس لم یحضروا الیہم فی دروسہم، فامثال ھذہ الاجازات لا فائدۃ فیہا، فان لم نجد مثل ہذا المخطوط فالمخطوط الذی نسخہ عالم ثقۃ او کان فی حوزۃ عالم او اکثر من الثقاۃ، فقد کان یعتبر بہ انہ یشتمل علی نص موثوق بہ
(اصول نقد النصوص و نشر الکتب، 1۔17)
ترجمہ: "پھر ہر مشہور عالم کا ایسا طالب علم ہوتا ہے جو اس سے سماعاً یا املاء کے طور پر یا لکھوا کر نقل کرتا ہے۔ اور یہ تمام طرق کافی ہیں بشرطیکہ استاد تصحیح کی پوری کوشش کرے اور طلبہ لکھنے کی پوری کوشش کریں اور استاد کتاب کی اجازت پوری پڑھنے کے بعد ہی دے۔ اس لیے کہ بعض پرانے مصنفین ایسے لوگوں کو بھی تصنیفات کی اجازت دے دیتے تھے جو ان کے دروس میں نہیں آتے تھے۔ اس طرح کی اجازتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پھر اگر ہمیں یہ مخطوطہ نہ ملے تو وہ مخطوطہ ہوگا جسے کسی ثقہ عالم نے لکھا ہو یا وہ ایک یا زیادہ ثقات علماء کے پاس رہا ہو۔ اس کا بھی یہ سمجھ کر اعتبار کیا جائے گا کہ یہ درست نص پر مشتمل ہے۔"
ان اصولوں سے ایک بات معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ نصوص کی تصحیح کے لیے ہم اس امکان کو ملحاظ رکھا جائے گا جو صحت پر دلالت کرتا ہو۔ جو نسخہ قدیم ہوگا اسے ترجیح ہوگی، جس کا تقابل ہوا ہوگا اسے ترجیح ہو گی، جو کسی عالم نے لکھا ہوگا اسے ترجیح ہوگی، جو کسی عالم کے پاس رہا ہوگا اسے ترجیح ہوگی وغیرہ۔ یہ سب قواعد زیادہ سے زیادہ تصحیح کو ممکن بنانے کے لیے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
ہمارے پاس ایسا کوئی نسخہ موجود نہیں ہے جو ابن ابی شیبہؒ نے خود لکھا ہو، ان پر پڑھا گیا ہو، مصنف کے نسخے سے اس کا تقابل ہو یا اسی سے نقل ہوا ہو یا مصنف کے زمانے میں لکھا گیا ہو۔ ہمارے پاس موجود سارے نسخے بعد میں تحریر شدہ ہیں۔ ان بعد میں تحریر شدہ نسخوں کے بارے میں کسی نسخے کو مقدم کرنے کے کچھ اہم اعتبارات ہیں:
1۔ قدیم نسخہ مقدم ہوگا۔
2۔ جسے کسی عالم نے لکھا ہو یا اس پر پڑھا گیا ہو وہ مقدم ہوگا۔
3۔ جس کا تقابل ہوا ہو وہ مقدم ہوگا۔
4۔ جو کسی عالم کے پاس رہا ہو وہ مقدم ہوگا۔

ہمارے پاس موجود نسخوں میں سے قدیم ترین نسخے تین ہیں:
1۔ ابن الخراز یمنی کا نسخہ
2۔ مرتضی زبیدی کا نسخہ
3۔ مکتبہ ظاہریہ کا دوسرا نسخہ

ان قدیم نسخوں میں مکتبہ ظاہریہ کے دوسرے نسخے کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ امام نوویؒ کے پاس رہا ہے۔ لیکن یہ ممکن ہی نہیں ہے کیوں کہ یہ نسخہ 735 ھ میں لکھا گیا ہے جیسا کہ اس پر تحریر ہے اور امام نوویؒ کی وفات 676 ھ میں ہو چکی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ امام نوویؒ نے شروع کیا ہوگا اور پھر مکمل کسی اور نے کیا ہوگا اور مکمل کرنے والے نے تاریخ لکھ دی ہوگی تو یہ فقط امکانیات ہیں اور ہم ثابت شدہ اور موجود چیزوں کی بات کر رہے ہیں۔

ان تین نسخوں میں سے کسی عالم کے لکھے نسخوں کے حوالے سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکیں کہ یہ فلاں ثقہ عالم نے لکھا ہے۔ البتہ مکتبہ ظاہریہ کے نسخے کا ناسخ بھی غیر معلوم ہے۔ اس لحاظ سے کم از کم حد یعنی ناسخ معلوم ہو تاکہ اس پر بعد میں تحقیق کی جاسکے، کو دو نسخے پورے کرتے ہیں:
1۔ ابن الخراز کا نسخہ
2۔ مرتضی زبیدی کا نسخہ

اصل سے تقابل کے حوالے سے تینوں نسخے برابر ہیں کہ ان میں اصل سے تقابل کی علامات موجود ہیں یا تقابل کا بیان ہے۔ یہاں بھی ابن الخراز اور مرتضی زبیدی کے نسخوں میں تقابل کی باقاعدہ علامات موجود ہیں جب کہ ظاہریہ کے نسخے کے فقط آخر میں تحریر ہے کہ اس کا تقابل ہوا ہے۔
چنانچہ ہمارے پاس ایک جیسی قوت کے دو نسخے رہ جاتے ہیں:
1۔ ابن الخراز کا نسخہ
2۔ مرتضی زبیدی کا نسخہ

اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں سے کون سا نسخہ کسی عالم کے پاس رہا ہے۔ ایسا نسخہ ہمارے پاس فقط ایک ہے اور وہ ہے مرتضی زبیدی کا نسخہ۔ یہ دو عالموں کے پاس رہا ہے:
1۔ علامہ عینیؒ کے پاس۔
2۔ مرتضی زبیدیؒ کے پاس۔
اور اگر علامہ قاسم بن قطلوبغاؒ کے پاس موجود نسخہ یہی والا مان لیں تو یہ ان کے پاس بھی رہا ہے۔

اب آئیے ان دو اعتبارات کی جانب جو نسبتاً کم اہم ہیں:
1۔ واضح نسخہ غیر واضح سے مقدم ہوتا ہے۔
2۔ کامل نسخہ ناقص سے مقدم ہوتا ہے۔

وضاحت میں ابن الخراز کے نسخے کا کوئی مقابل نہیں۔ یہ انتہائی خوبصورت لکھائی والا اور واضح ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مرتضی زبیدی والا نسخہ واضح نہیں۔ وہ اگرچہ واضح ہونے میں ابن الخراز کے نسخے جیسا نہیں ہے لیکن بہرحال واضح ہے اور ہم صرف واضح ہونے کی بات کر رہے ہیں۔

کامل نسخہ ان دونوں میں صرف مرتضی زبیدی کا ہے۔ ابن الخراز کا نسخہ کامل نہیں ہے۔

اب ہمارے پاس دونوں نسخے ان چیزوں میں مشترک ہیں:
1۔ قدامت میں
2۔ ناسخ کے معلوم ہونے میں
3۔ تقابل میں
4۔ وضاحت میں

دو چیزوں میں مرتضی زبیدیؒ کا نسخہ افضلیت رکھتا ہے:
1۔ کسی عالم کے پاس ہونے میں
2۔ کامل ہونے میں

ان اصولوں کی روشنی میں ہم مرتضی زبیدیؒ کے نسخے کو اصل مانتے ہیں۔ اس میں ہماری مطلوبہ روایت "تحت السرۃ" کے اضافے کے ساتھ موجود ہے:

عن علقمۃ بن وائل بن حجر عن ابیہ رضی اللہ عنہ قال: رأیت النبی ﷺ وضع يمينه علي شماله في الصلاة تحت السرة
اس کے فوراً بعد ایک اثر یہاں موجود نہیں ہے جسے ہم "ابراہیم نخعیؒ کا اثر کہتے ہیں"۔ اس اثر کے الفاظ یہ ہیں:

حدثنا وكيع، عن ربيع، عن أبي معشر، عن إبراهيم قال: يضع يمينه على شماله في الصلاة تحت السرة
یہ اثر دوسرے نسخوں میں موجود ہے۔
ہم نے مرتضی زبیدیؒ کے نسخے کو اصل مانا ہے اور یہ اثر اس میں نہیں ہے لیکن اس کا اضافہ کرنے سے اس نسخے میں موجود کسی نص میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اس لیے ہم اس اثر کا اضافہ کر دیتے ہیں۔
لیکن شیخ عابد سندھیؒ کے نسخے کے علاوہ کسی اور نسخے میں اس روایت میں "تحت السرۃ" کا اضافہ نہیں ہے۔ اگر یہ لفظ ہم کم کرتے ہیں تو ہمارے اصل مرتضی زبیدیؒ والے نسخے کی نص میں تبدیلی ہوتی ہے۔ لیکن ہم اسے پھر بھی فوراً رد نہیں کرتے بلکہ دیگر قرائن کی روشنی میں اس کا جائزہ لیتے ہیں:
1۔ ابن ابی شیبہ کے علاوہ اس روایت کو امام احمدؒ اور اییک یا دو اور راویوں نے بھی روایت کیا ہے اور اس میں یہ زیادتی موجود نہیں ہے لیکن اس سے کوئی حرج نہیں ہوتا۔ اگر ہم اس زیادتی کو موجود مانیں تو ابن ابی شیبہ ثقہ اور ماہر محدث ہیں اور ثقات کی زیادتی مقبول ہوتی ہے۔
2۔ یہ زیادتی ایک اور جدید لیکن کامل اور واضح نسخے میں موجود ہے یعنی عابد سندھیؒ کے نسخے میں۔ اور یہ نسخہ بھی ایک عالم (عابد سندھیؒ) کی ملکیت میں تھا اور انہوں نے اسے پڑھ کر اس کے عنوانوں کی فہرست خود مرتب کی ہے۔ اس کے علاوہ اس نسخے کے بارے میں اور علماء کے پاس ہونے کا بھی کہا گیا ہے۔
3۔ اس زیادتی کی تائید میں چند مزید نسخوں کے بارے میں ہاشم سندھیؒ نے اطلاع دی ہے:
الف۔ شیخ محمد اکرم نصر پوری کا سندھ میں موجود نسخہ
ب۔ مفتی مکہ شیخ عبد القادر کا مکہ میں موجود نسخہ
ج۔ قاسم بن قطلوبغاؒ کا نسخہ (اس صورت میں جب ہم قاسم بن قطلوبغاؒ کے نسخے کو مرتضی زبیدیؒ والے نسخے سے الگ سمجھیں)
اس اطلاع کا رد بحث کے جاری ہونے کے باوجود شیخ حیات سندھیؒ نے نہیں کیا جبکہ وہ عرب میں تھے اور کم از کم مکہ والے نسخے کی تو فوری تصدیق کروا سکتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے سندھ میں روابط سندھی ہونے کی وجہ سے باقی تھے۔
4۔ اس زیادتی کو اپنے وقت کے ایک بڑے عالم قاسم بن قطلوبغاؒ نے نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ باقاعدہ اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے۔

ان قرائن کے مقابلے میں صرف ایک احتمال اور ایک قرینہ اس زیادتی کے خلاف ہے:
احتمال: ممکن ہے کہ کاتب سے ابراہیم نخعیؒ والا اثر رہ گیا ہو اور اس کے آخر میں موجود "تحت السرۃ" پچھلی روایت سے مل گیا ہو۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اسی طرح یہ بھی احتمال ہے کہ جن کاتبوں نے اس زیادتی کو ذکر نہیں کیا انہیں امام احمدؒ کی روایت معلوم ہو اور اس کی بنا پر انہوں نے اس روایت کو غلط سمجھتے ہوئے غلطی درست کرنے کے لیے اس زیادتی کو غائب کر دیا ہو۔ ایک نے ایسا کیا ہو اور باقی اسی سے نقل کرتے گئے ہوں۔
جس طرح یہ ایک احتمال ہے اسی طرح پچھلی والی بات بھی ایک احتمال ہی ہے اور اس طرح کے احتمالات سے کچھ ثابت نہیں ہوتا۔

قرینہ: علامہ عینیؒ اور مرتضی زبیدیؒ نے اس روایت کو کہیں دلائل میں ذکر نہیں کیا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ عدم ذکر عدم وجود کو لازم نہیں ہوتا یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ جس چیز کا ذکر نہ ہو وہ موجود بھی نہ ہو۔ ان کے ذکر نہ کرنے کی کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے اور بغیر واضح وجہ کے صرف گمان کی بنیاد پر اس زیادتی کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو رد کرنے کے لیے واضح دلیل ہونی چاہیے۔

ان قرائن کی روشنی میں ہم مرتضی زبیدیؒ کے نسخے میں مذکور اس زیادتی کو باقی رکھیں گے (جب کہ وہ نسخہ بذات خود بھی افضلیت رکھتا ہے اور ہم نے اسے اصل سمجھا ہے) اور یہ روایت اس زیادتی کے ساتھ سمجھی جائے گی۔

نہ یہ اصول ہمارے بنائے ہوئے ہیں اور نہ یہ نسخے ہمارے لکھے ہوئے ہیں۔ سب کچھ پڑھنے والے کے لیے واضح ہے۔
اب ذرا شیخ محترم انصاف کا دامن تھامیں اور بتائیں کہ یہ تحریف ہے یا تحقیق؟؟؟
 
Top