فضیلتِ مخصوصہ امت مرحومہ اور سلسلہ حق کا قیام دائمی۔ابو الکلام

  • موضوع کا آغاز کرنے والا قاسمی
  • تاریخ آغاز
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
فضیلتِ مخصوصہ امت مرحومہ اور سلسلہ حق کا قیام دائمی​
اگر گوش حق نیوش باز اور دیدہ اعتبار بینا ہو توتو فی الحقیق اس دین قدیم کے بقا واحیا اور دعوت الیٰ الحق والہدایہ کیلئے روزِ اول سے خدائے تعالیٰ کا دربارنصرت فرمائی عجیب وغریب رہی ہیں امم قدیمہ کے حالات ہم پڑھتے ہیں تو کوئی ہدایت اور دعوتِ صداقت ایسی نہیں ملتی جو اپنے داعی ربانی مذہب کی زندگی کے بعد ایک صدی تک دنیا میں قائم رہ سکی ہو۔ ان اقوام کی تا ریخ سے قطع نظر کر نی پڑتی ہے جو اپنی گذشتہ تا ریخ کیلئے کو ئی بصیرت بخش روشنی نہیں رکھتے ،۔ لیکن دنیا کی جو بڑی قومیں اور مذہب آج موجود ہیں ان کی قرون اولیٰ کی تاریخ ہمارے سامنے ہے حضرت موسیٰ چالیس دن کیلئے وادی سینا کے پہا ڑوں پر چلے گئے تھے تا کہ وحی الٰہی سے سے تو ریت مقدس کو مرتب کریں لیکن اتنے ہی دنوں کی غیبت میں تمام قوم گو سالہ پرست ہو گئی اور انکی بر سوں کی تعلیم وہدایت پر ایک شعبدہ باز کے چند لمحوں کا کرشمہ غالب آگیا تھافرجع موسیٰ الیٰ قومہ غضبان اسفا ،قال یا قوم الم یعدکم ربکم وعد ا حسنا افطال علیکم العھد ام اردتم ان یحل علیکم غضب من ربکم فاخلفتم موعدی۔
حضرت موسیٰ غصہ اور تاسف کی حالت میں اپنی قوم کی طرف واپس آئے اور کہا اے لوگو کیا تم سے خدا تعالیٰ نے تو ریت کے دینے کا وعدہ نہیں کیا تھا؟ کیا تم کو اس وعدے کی مدت بڑی معلوم ہوئی کہ بت پرستی میں مبتلا ہو گئے ؟ یا پھر تم نے یہ چاہا کہ تم پر پرور دگار کا غضب نازل ہو اس لئے تم نے اس عہد ہدایت کو توڑ ڈالا جو تم نے کیا تھا؟۔
اس موقع پر ہمیں (نہج البلاغہ) کا ایک بلیغ قول یاد آیا اور اس کا کون سا بیان اعلیٰ ترین بلاغت سے خالی ہے ؟ بعض احیا یہود نے ان اختلافات نزاعات کو دیکھ کر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ میں پیدا ہو گئے تھے ،حضرت امیر علیہ السلام سے اعتراضا کہا تھا کہ ما دفعتم بینکم حتیٰ اختلفتم فیہ ابھی تم لوگ اپنے نبی کو دفن بھی نہیں کر چکے تھے کہ اس کی نسبت اختلاب میں پڑ گئے؟ اس اعتراض سے مقصود یہ تھا کہ قرآن کریم ہر جگہ یہودیوں کو ان کے اختلاف اورتحریف وتبدیل شریعت کا الزام دیتا ہے حالانکہ خود پیروانِ قرآن کا یہ حال ہے کہ آنحضرت صلعم کی وفات کے ساتھ ہی اختلافات ونزاعات میں پڑ گئے لیکن حضرت امیر علیہ السلام نے کس قدر بلیغ وجامع اور قاطع وفیصل کن جواب عطا فرمایا کہا انما اختلف عنہ لا فیہ یہ سچ ہے کہ ہم میں اختلافات پیدا ہو ئے لیکن اپنے نبی کی نسبت نہیں بلکہ ان چیزوں کی نسبت جو اس سے تعلق رکھتی ہیں یعنی ہم میں اختلافات امم گذشتہ کی طرح خود اسی مذہب کے وجود اسکے درجہ رسالت اسکی نبوت اور نبوت کی صداقت کی نسبت نہیں پیدا ہوا ،جس کی صحت وبقا پر دعوت دیانت کی حفاظت موقوف ہے بلکہ ان چیزوں کی نسبت پیدا ہوا جو اس سے منسوب تھیںیا پھر ان روایات کی نسبت ہوا جو اسکی نسبت سے بیان کی جاتی تھیں پھر آگے چل کر فرمایا۔
ولکنکم ما جفت ارجلکم من البحر ، حتیٰ قلتم نبیکم اجعل لنا الٰھا کمالھم الٰھۃ فقال انکم قوم تجھلون
(نھج البلاغہ جلد دوم)
حضرت موسی نے جب تم کو فراعنہ مصر کی غلامی سے نجات دلا ان کے ملک سے نکالا تو ابھی دریا ئے قلزم کی تلی تمھارے پاؤں میں خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ تم نے باطل پرستی شروع کر دی اور ان سے فرمائش کی کہ ہمارے لئے بھی ویسا ہی بت بنا دے جس طرح کے بت ان بت پرستوں کے پا س ہیں۔
حضرت مسیح علیہ السلام کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آئے تھے بلکہ محض شریعت موسوی کے ایک مصلح اور آخری مجدد تھے تاہم ان کی دعوت کی تاریخ چند برسوں سے آگے نہیں بڑھتی اور ہمیں خوف ہے جو نادان اور ابلہ ماہی گیر ان کے ساتھ جمع ہو گئے تھے ،ان میں سوائے یو حنا کے کسی نے ان کی تعلیم سمجھا بھی تھا یا نہیں؟ ان کے بعد چند برسوں کا زمانہ یہودیوں کے مظالم اور حواریوں کے تحمل وتوکل کا ضرور سامنے آتا ہے جس میں ایک مظلومانہ اخلاق کی کشش یقیناًپائی جاتی ہے ،لیکن اس کے بعد ہی ایک متفنی فیلسوف یہودی (سینٹ پال) کی شرکت سے مسیح تحریک کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ ایک نیا مذہب لے لیتا ہے جو ردی بت پرستی ،افلا طونی الہیات اور یہودیت کے چند مسخ شدہ رسوم کا مجموعہ تھا۔فاختلف الا حزاب من بیبہم فویل للذین کفرو من مشھد یو م عظیم۔
پھر عیسا ئیوں میں بہت سے فرقے پیدا ہو گئے اور آپس میں اختلاف میں پڑ گئے ۔پس افسوس ہے ان پر جنھوں نے انکار کیا ایک بڑے دن کا ،جس دن اللہ کے آگے حاضر ہو نا پڑے گا۔ یہی حال تمام امم قدیمہ کا ہے لیکن منجملہ ان آیات کی صداقت اور اسلام کی حقانیت کے جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے اس دین قدیم کی نصرت فرمائی ہے ۔ایک بہت بڑی الٰہی نشانی یہ تھی کہ اس کی دعوت وتبلیغ کی حفاظت کا وعدہ فرمایا اور روز اول ہی کہہ دیا کہ۔یریدون لیطفؤ نور اللّٰہ بافواھھم واللّٰہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون ۔پیروانِ باطل چاہتے ہیں کہ حق وصداقت کا جو نورِ الٰہی روشن کیا گیا ہے اسے اپنی مخالفت کی پھونک مار کے بجھا دیں ۔مگریہ یاد رکھیں کہ اللہ اپنے اس نورِ صداقت کی کو روشنی کو درجہ کمال تک پہنچاکر چھوڑے گا ۔چاہے وہ باطل پرستوں کو برا لگے۔
دوسری جگہ فرمایا ان نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون بیشک ہم نے ہی اس دین حق وصداقت کی دعوت دنیا میں بھیجی اور ہم ہی ہیں جو ہمیشہ اس کے محافظ اور ناصر ہو نگے۔
اس تا ئید الٰہی کا نتیجہ تھا کہ اگر چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دن ہی سے اختلافات کی بنیاد پڑ گئی اور پھر شخصی حکومتوں کے قیام ،ملی اغراض اور سیاسی مطامع کے فشار،عجمی اقوام اور عجمی تمدن ورسوم کے اتباع اور امر با لمعروف ونہی عن المنکر کے ضعف سے روز بروز فتنہ وفسادات میں ترقی ہو تی گئی ۔ یہانتک کہ زوالِ بغداد اور عربی حکومت کے خاتمے کے بعد فتنہ وفساد کا ایک ایسا تباہ کن سیلاب تھا جو بنی اسرئیل پر بخت نصر کے تسلط کی تباہی سے کسی طرح کم نہ تھا لیکن پھر بھی اسلام کی دعوت کا بیج اپنے اندر ایک ایسی قوت نمو رکھتا تھا کہ پامال ہوتا تھا اورپھر ابھرتا تھا۔حوادث (مصائب) کے ہاتھ جس قدر اسکی شاخوں اور پتوں کو کاٹتے تھے اتنی ہی اس کی قوت نمو ابلتے ہوئے چشمے کی طرح اچھل اچھل کر بلند ہو تی تھی فتنے وفساد کی بادِ صرصر اگر اسکی شاخوں کو ہلا رہی تھی تو اللہ کا دستِ محکم اسکی جڑ کو مضبوط پکڑے ہوئے تھا ۔زمین کے اوپر اس کے پتے جھڑ جھڑ کر گر رہے تھے ۔یہ سچ ہے کہ امم قدیمہ کی تمام تباہیاں اور گمراہیاں ایک ایک کر کے اس امت کو بھی پیش آئے ۔ کوئی گمراہی بنی اسرائیل اور مشرکین مکہ کی ایسی نہ تھی جس سے اشبہ گمراہیوں میں مسلمان مبتلا نہ ہوئے ہوں۔ مگر دین آخری کی بقا اور قیام کا یہ معجزہ تھا کہ ان میں سے کوئی ضلالت بھی اصل سر چشمہ تعلیم کو مکدر نہ کر سکی اور تحریف ونسخ اور حذف واضافہ سے قرآن کریم ہمیشہ محفوظ رہا اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ نصرت فرمائے ۔حق کی تائید غیبی ہر سخت سے سخت دور فتن وطغیان میں ایک جماعت ایسی پیدا کرتی رہی جس کے قدم حق وحقیقت غیر متزلزل ہو تے تھے ۔اور چاروں طرف کی پھیلی ہوئی ضلالت سے محفوظ رہ کر قلت انصار واعوان وعدمِ سازو سامان دینوی کے وہ جہاد امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں کا میاب وفتح یاب ہوتی تھی اور حق تعالیٰ اس کے دل ودماغ کو اپنے دست قاہرہ ومقتدر میں لے کر اپنے دین قدیم کی حفاظت اور ہدایت امت مرحومہ کا کا ذریعہ بنا دیا تھا ۔دنیا میں صداقت ہمیشہ رہی اور مختلف ناموں سے ہمیشہ آتی رہی لیکن دینِ اسلام اس کا آخری ظہور تھا اس لئے ضرور تھا کہ وہ کامل تر ظہور ہوا اور پھر اس طرح محکم اور نا ممکن التبدیل کو، دنیا کی شیطانی قوتیں اس پر کبھی بھی غلبہ نہ پا سکیں۔
بس یہ ایک حقیقت تھی جس کا اعلان پہلے ہی دن میں کر دیا گیا تھا ۔ قرآن کریم ک علاوہ حدیث کا تشخص کیجئے ۔ تو اس اس حقیقت کو جا بجا ایک پیشین گوئی کی صورت میں پائیں گے۔
لا تزال من امتی ظاھرین علیٰ الحق حتیٰ یا تیھم امر اللّٰہ وھم ظاہرون ( متفق علیہ)میری امت میں ہمیشہ ایک جماعت حق وضلالت وباطل پرستی پر فتح یاب رہیگی۔
اس حدیث کو امام بخاری ومسلم نے صحیح میں مغیرہ کی روایت سے درج کیا ہے۔
مگر یہی حدیث بہ تغیر الفاظ نہایت کثرت سے مختلف اسناد وروایت کے ساتھ شہرت پا چکی ہے ۔
اور متعدد صحابہ اکرام سے مروی ہے۔ مسلم ،ترمذی اور ابن ماجہ میں بروایت ثوبان اس طرح سے ہے ۔
لا نزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق لا یضرھم من خذلھم ، حتیٰ یاتی امر اللّٰہ وھم کذالک ہمیشہ میری امت میں ایک جماعت رہیگی جو حق وصداقت کے اعلان میں فتح یاب ہو گی ۔با طل پرست اس کی مخالفت کر ینگے ۔ مگر ان کی ضرر رسانی سے خدا اس کو محفوظ رکھے گا۔
ابن ماجہ اور نسأئی کی بعض روایتوں میں قتال وجہاد کا بھی لفظ آیا ہے اور مسلم کی ایک حدیث میں جس کو عقبہ بن عامر نے روایت کیا ہے ۔قاھرین لعدوھم ۔ لا یضرھم من خالفھم بھی آخر میں زیادہ ہے۔ یعنی وہ جماعت حق ،دشمنانِ صداقت کیلئے اپنے اندر ایک الٰہی قہرو غضب رکھے گی ،اور جو لوگ اس کی مخالفت کر ینگے وہ اسے نقصان پہنچانے میں کامیاب نہ ہو سکیں گے ۔
اسی طرح ایک دوسری مشہور حدیث میں جس کو ابو داؤد اور حاکم وبہیقی نے ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے ، ہم کو خبر دی گئی ہے کہ اس دین الٰہی کے احیا ء وتجدید کے لئے ہمیشہ خدا تعالیٰ مصلحانِ امت اور مجددانِ ملت کو بھیجتا رہے گا اور وہ ہر صدی میں ظاہر ہو کر بد عات ومحدثات کا استیصال کر ینگے ۔ ان اللّٰہ تعالی یبعث لھذہ الامۃ علی راس کل مأتہ سنۃ من یجد ولھا دینھا ۔اللہ تعالیٰ اس امت میں ہر صدی کے آغاز میں مجدد پیدا کر ے گا جو دینِ اسلام اپنے روحِ ہدایت سے ایک تا زگی اور نئی زندگی پیدا کر دے گا ۔
کیا نہیں دیکھتے کہ یہی نصرتِ الٰہی اور آیتِ غیبی تھی ،جس نے باوجودِ ہیجان ،طغیان، اشداد فساد ،شیوع فتن، اور اختلاط کا کاروبار ہدایت ہر زمانے میں امربا المعروف ونہی عن المنکر کی آواز کو قائم رکھا اور فساد وضلالت کی کوئی سخت سے سخت قوتِ ابلیسی بھی اس قوت الٰہیہ پرغالب نہ آسکی ،علیٰ الخصوص تاریخ اسلام کی وہ گذشتہ آخری صدیاں جب کہ اسلام کے قدیمی مر کزوں کے اختلاط عربی حکومتوں کے خاتمے ،امرا وسلاطین کے طامعانہ وعیش پرستانہ اغراض ،علمائے حق کی غربت وقلت وخون ریزی کی شدت واحاطہ سے تمام عالم اسلام کی حالت موجودہ تنزل وانحطاط کے اسباب فراہم کر رہی تھی۔پھر بھی اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اسکے ہر دور میں چند نفوس قدسیہ ایسے ضرور مل جاتے ہیں جن کے سینوں کی خدا نے نورِ ہدایت کیلئے کھول دیئے تھے اور ان کے دلوں کو حق وصداقت کا مسکن بنا دیا تھا ۔آٹھویں صدی ہجری میں جب کہ مسلمانوں میں علم ودین کے تنزل وانحطاط کا بیج بار آور ہو چکا تھاعلامہ (ابن تیمہؒ ) کا پیدا ہونا اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی راہ میں ہر طرح ک شدائد ومصائب کو گوارہ کرنااپنے تلامذہ اور متبعین کی ایک بہت بڑی جماعت پیدا کردینا جس میں علا مہ ابن قیمؒ جیسے اشخاص کا ہونا کس قدر تعجب انگیز ہے۔
لیکن اس تعجب انگیز ظہور کا اندازہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کو مسلمانوں کے اس ذہنی اور قلبی انحطاط کا صحیح اندازہ ہے جو چھٹی صدی کے بعد تمام عالم اسلامی پر طاری ہو گیا تھا اور سد باب اجتہاد نے اذہان وعقول کی ترقی کو اس کے عین عروج وارتقاء کے وقت ہلاک کر دیا تھا۔
اگر صرف ہندوستان کی ہی میں دعوتِ حق کی تاریخ پرنظر رکھی جائے تو یہ آپ کے لئے ایک قریب کی مثال ہو گی۔ تاریخ ہند میں اکبر کا عہد اس لحاظ سے خاص طور پر قابلِ ذکر ہے ۔سلاطین پرست اور متبعین ہوا ئے نفس علماء کے دربار پر حکومت تھی اور دینداری اور تقدس کے پردے میں نفسانی تعصبات اور مفسدانہ اغراض کام کر رہے تھے آخرمیں ملا مبارک کے خاندان کے دخل سے حالت ضرور بدلی مگر یہ تبدیلی بھی کچھ زیادہ مفید نہ تھی کیو نکہ وہ خود پچھلے مرض کا ایک بے اعتدلانہ علاج بالمثل تھا ۔ لیکن عین اسی زمانہ میں حضرت شیخ احمد سر ہندی کا ظہور ہوتا ہے جو ایک غیر معروف گو شے میں بیٹھ کر لاکھوں دلوں کو اپنی صدائے رعد آسائے حق کا شیفتہ بنا لیتے ہیں اور احیائے شریعت وتجدید شعار اسلامی، اعلان حق وامر بالمعروف کیلئے اپنے وجود کو یکسر وقف کر دیتے ہیں پھر گیارھویں صدی کے آواخر اور بارہویں کے آغاز میں حضرت شاہ ولی اللہؒ اور انکے خاندان نے امر با لمعروف کی تا ریخ میں جو حیرت انگیز خدمات دینیہ انجام دیں ہیں محتاجِ نہیں ۔علیٰ الخصوص شاہ ولی اللہ ؒ کا وجود قدسی ، جو فی الحقیقت اپنے اندر الہام ربانی وفیضان الٰہی اور فطرتِ کاملہ واقتباس انوارِ نبوت کی ایک مستثنیٰ مثال رکھتا تھا ۔
اسی طرح گیارہوں کے آواخر میں قاضی شوقانیؒ کا یمن میں ظہور اور احیائے سنت اور رفع بدعت کیلئے سعی مشکور، احادیث مذکورہ کی پیشین گوئی کی صداقت کی بین مثال ہے۔اگر یہ تائید غیبی اور کاروبار الٰہی نہیں ہیں، تو پھر کیا بات ہے کہ ہر زمانے میں کچھ لوگ ایسے نظر آتے ہیں جو اپنے زمانے کی سو سائٹی مین پر ورش پاتے ہیں اور بچپن سے لے کر عہد شعورتک انہیں خیالات واعتقادات اور رسم ورواج کو دیکھتے اور سنتے ہیں جن کی فضا ان کے چاروں طرف محیط ہوتی ہے ۔کانوں میں ان کی صدا آتی ہے تو باطل پرستی کی، اورآ نکھیں دیکھتی ہیں تو ضلالت وفساد کو ۔،لیکن پھر ایک غیبی ہاتھ ہوتا ہے جو ان کا بازو تھام کر شاہراہ عام سے الگ ایک راہ پر لے جاتا ہے اور فیضانِ ہدایت الٰہی کی ایک مخفی قوت ہوتی ہے جس کا سر چشمہ ان کے سینے کے اندر سے ابلنے لگتا ہے ۔وہ جب زبان کھولتے ہیں تو ان کی آواز ان کے زمانے کے عام اعتقادات وخیالات سے بالکل متضاد ہوتی ہے اور اپنے خاندان ، سوسائٹی ، تعلیم وتربیت اور ملکی رسم ورواج سے بالکل الگ ہو کر حق وصداقت کی طرف دنیا کو دعوت دیتی ہے انسان اپنے تمام خیالات ومعتقدات میں خارجی اثرات کا تابع ہے وہ دنیا میں آتا ہے اور ایک خاص طرح تربیت وسوسائٹی میں نشونما پاتا ہے یہی تربیت اس کے تما م خیالات ومعتقدات کی جڑ بن جا تی اور وہ جو کچھ سمجھتا اور جانتا ہے یکسر اس کے گردو پیش کے اثرات کا عکس ہوتا ہے ۔پس وہ کو ن سی چیز ہے جو ایک شخص پر ان تمام اثرات کے خلاف جو اس کے چاروں طرف سے اسے گھیرے ہو ئے ہوتے ہیں بالکل ایک نئے خیال اور عقیدے کی راہ اس پر کھول دیتی ہے اور وہ باوجود تمام ملک اور زمانے کو اپنا مخالف دیکھنے کے تنِ تنہا کھڑا ہوتا ہے کہ رسم ورواج معتقدات عام دولت وثروت اور حکومت وسلطنت کے مقابلے میں حق کی تائید ونصرت کیلئے جہاد کرے؟
یہ کیا نیرنگی ہے کہ آذریت تراش کے گھر میں خلیل بت شکن پیدا ہو تا ہے اور پھر پرستانِ لات ومنات کی سر زمین سے صدائے تو حید حق پرستی بلند ہو تی ہے ۔
ان اللہ فالق الحب والنوی یخرج الحی من المیت ومخرج المیت من الحی ذالکم اللّٰہ فانیٰ توفکون۔ بے شک خدا ہی ہے جو زمین کے اندر بیج اور دانے اکو پھاڑ کر اس سے ایک درخت قوی وبلند پیدا کرتا دیتا ہے ،وہی زندہ کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندے سے پیدا کرتا ہے یہی عجائبِ قدرت کے کرشمے دکھانے والی ذات تمہاری مالک ہے پھر تم کدھر بہکے جاتے ہو؟
در حقیقت یہ محکمہ ہدایت اور فطرت صحیحہ کے روحانی ارتقاء کا ایک سلسلہ ہے جس کاآ خری درجہ مقامِ نبوت ہے ، مگر اسکی ابتدا صلحائے امت کے مرتبے سے ہوتی ہے ۔وہ تمام نفوس قدسیہ جن کو خدا تعالیٰ ہدایت وارشادِ عالم کے لئے چن لیتا ہے ، اگر چہ نبی نہیں ہو تے مگر اس زنجیر کی ایک کڑی ہو تے ہیں ،جس کی آخری کڑی مرتبہ نبوت ورسالت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو فیضانِ نبوت سے مستفید ہو نے کیلئے کھول دیتا ہے ،اور جس طرح آفتاب کی روشنی تمام ستاروں کی اجسام کو روشن ومنور کر دیتی ہے ۔بالکل اسی سطرح ان کے قلوب آفتابِ نبوت کی ضیا بخشی سے انواران دوز ہو کر چمک اٹھتے ہیں اسی ارتقائے انسانیت کے وہ چار مراتب ہیں جن کو قرآن کریم نے بالترتیب اس آیت میں گنایا ہے اور ان کو خدائے تعالیٰ نے تمام نعمتوں اور برکتوں کو مورد ومہبط قرار دیا ہے ۔یعنی : الذین انعم اللّٰہ علیھم من النبین والصدیقین والشھداء والصالحین وحسن اولئک رفیقا ۔ جو لوگ تمام شیطانی طاقتوں سے باغی ہو کت مقامِ اطاعت خدا ورسول کا درجہ حا صل کر لیتے سہیں ۔ام کا شمار انہی چار جماعتوں کے متبعین میں ہو جاتا ہے اور ان کے رفیق اور سا تھی بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان تمام نعمتوں اور برکتوں کے بھی مستحق ہو جاتے اہیں جن کا خدا تعالیٰ نے ان جماعت ہائے اربعہ کو مستحق قرار دیا ہے۔
ماخوذ امربالمعروف ونہی عن المنکر (صدائے حق)مولانا ابو الکلام آزادؒ
 
Top