احناف کے نزدیک مستور راوی کی روایت

احمد پربھنوی

وفقہ اللہ
رکن
خصوصاََ حنفی علماء کے اصول پر یہ راوی عادل ہی نظر آتے ہیں ۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ماشاءاللہ بہت عمدہ تحریر ہےـ اللہ آپ کے علم سے استفادہ کی مزید توفیق عطا فرمائیں ـ
میں علماء احناف کے اصول پر جو بات کہی گئی ہے اس پر کچھ تبصرہ کررہا ہوں اور ترغیب کے تعلق سے کچھ بات رکھ رہا ہوں اور میرا مکمل تبصرہ اس حدیث کے تعلق سے بالکل نہیں ہے ـ

آپ کے علم میں کون سے حنفی علماء ہیں یہ میں تو نہیں جانتا لیکن اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اصول سے دیکھا جائے تو امام صاحب تو مستور کی روایت قبول نہیں کرتے تھے جیسا کہ امام صاحب کے نزدیک بیع الرطب بالتمر کمی بیشی کے جائز ہے لیکن دوسرے ائمہ کے نزدیک جائز نہیں ہے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث بھی اسی مضمون کی مروی ہے جب وہ حدیث امام صاحب کے سامنے پیش کی گئی تو انہوں نے جہالت راوی کی بنیاد پر رد کردیا چنانچہ نصب الرایہ میں ہے کہ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ التحقیق میں لکھتے ہیں

قال أبو حنيفة زيد أبو عياش مجهول( نصب الرایہ کتاب البیوع ص 518)
امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں زید ابو عیاش مجہول( الحال) یعنی مستور ہے ـ

اسی طرح محقق ابن الہمام "الجوہر النقی" سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں

وفي تهذيب الآثار للطبري علل الخبر بأن زيد انفرد به وهو غير معروف في نقلة العلم( حاشيہ نصب الرایہ )

امام طبری کی تھذیب الآثار میں ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اس بنا پر معلول قرار دیا کہ اس کی روایت میں زید ابو عیاش متفرد ہے اور وہ روایت حدیث میں معروف نہیں ہے

ان دو معتبر حوالوں سے معلوم ہوا کہ امام صاحب رحمہ اللہ مستور کی روایت قبول نہیں کرتے ـ

علماء نےاحکام کے بارے میں شدت برتی لیکن ترغیب میں ایسے راویوں کی حدیث سبھی نے لائی ہیں اسی طرح امام بخاری نے بھی ایک حدیث لائے ہیں جو متابعت میں بھی صحت کے درجہ تک نہیں پہنچتی ـ
ابی بن عباس جس سے امام بخاری نے بھی اپنی صحیح میں اصول میں روایت لی ہے
عن ابی بن عباس بن سهل بن سعد عن ابیه عن جدہ قال: کان للنبی في حائطنا فرس یقال له اللحیف“
حافظ نے ابی بن عباس کا کمزور حافظہ بتلاتے ہوئے محدثین کے اقوال پیش کیے اور کہا ان کے بھائی نے اس حدیث میں متابعت بھی کی ہے لیکن وہ بھی ضعیف ہے
چنانچہ النکت میں لکھتے ہیں

”وعبد المهیمن ایضاً فیه ضعف‘ فاعتضد‘ وانضاف الی ذلك انه لیس من احادیث الاحکام‘ فلهذہ الصورة المجموعة حکم البخاری بصحته“ انتہی۔

امام مسلم نے تو صحیح کے مقدمہ میں جہاں وہ اصول بتلارہے ہیں ان میں مجہولین سے بھی روایت لی ہیں

غیر مقلدین حضرات کے لیے اگر حدیث کے قبول و رد پر جو اصول ہیں اس میں مجہول کی روایت چل جائے گی لیکن ترغیب میں ان کی احادیث کو قبول نہیں کیا جائیگا!! ؟
 
Last edited:

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میں علماء احناف کے اصول پر جو بات کہی گئی ہے اس پر کچھ تبصرہ کررہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
درمیان میں کچھ میری اپنی بحث کچھ زیادہ ہونے کی وجہ سے حنفی علماء کے تعلق سے جو بات تھی وہ شاید آپ نہیں دیکھ سکے ۔۔
یہ مستور میں نے نہیں کہا۔ یہ حافظ ابن حجرؒ کا قول نقل کیا ہے ۔میری طرف سے جو
استدلال کی عبارت تھی وہ ابن ابی حاتم ؒ کا بغیر جرح ذکر کرنا تھا ۔ اور اس کے دلائل کے لئے رفع و التکمیلکے لنک میں حنفی علماء اور ان کے علاوہ کا بھی ذکر ہے کہ ابن ابی حاتمؒ کا بغیر جرح ذکر کرنا توثیق کی علامت ہے
منصور بن مہاجر کا ذکر ابن ابی حاتم ؒ نے جرح و تعدیل میں بغیر جرح کے ذکر کیا ہے ۔اور کئی علماء خصوصاََ حنفی علماء کے نزدیک یہ توثیق کی علامت ہے ۔ ان ائمہ کے دلائل کے لئے رفع و التکمیل ۲۳۰ کی تعلیق میں زیر عنوان

سكوت المتكلمين في الرجال عن الراوي الذي لم يجرح ، ولم يأت بمتن منكر : يعد توثيقا له.

دیکھیں ۔ جہاں محقق حنفی عالم شیخ عبد الفتاح ابو غدۃ ؒ نے طویل بحث کی ہے ۔

الرفع والتکمیل اللکنوی ت ابو غدۃ

چناچہ یہ سند حسن ہی معلوم ہوتی ہے ۔
مستور کے تعلق سے میں وقت ملنے پر ان شاء اللہ کچھ بات کرتا ہوں ۔
 
Last edited:

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
آپ کے علم میں کون سے حنفی علماء ہیں یہ میں تو نہیں جانتا لیکن اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اصول سے دیکھا جائے تو امام صاحب تو مستور کی روایت قبول نہیں کرتے تھے جیسا کہ امام صاحب کے نزدیک بیع الرطب بالتمر کمی بیشی کے جائز ہے لیکن دوسرے ائمہ کے نزدیک جائز نہیں ہے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث بھی اسی مضمون کی مروی ہے جب وہ حدیث امام صاحب کے سامنے پیش کی گئی تو انہوں نے جہالت راوی کی بنیاد پر رد کردیا چنانچہ نصب الرایہ میں ہے کہ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ التحقیق میں لکھتے ہیں

قال أبو حنيفة زيد أبو عياش مجهول
زیر بحث حدیث سے ہٹ کر مستور اور ائمہ احناف سے متعلق کچھ باتیں ہیں ۔

ائمہ احناف کے نزدیک قرون ثلاثہ کامستور و مجہول ۔۔قابل قبول ہے ۔ اور اس کے بعد کا نہیں ۔
ہاں یہ مطلق نہیں ہے ۔اس میں تفصیل ہے ۔خصوصاََ معارض کچھ نہیں ہونا چاہیے ۔ حتی کے قیاس شرعی بھی ۔

دراسات فی اصول الحدیث علی منہج الحنفیہ میں طویل بحث ہے ۔ اور دلائل و حوالہ جات موجود ہیں ۔

مستور کی مکمل بحث یہاں ہے ۔

اور حاصل کلام یہاں ہے ۔

اب بات رہ گئی کہ زید ابو عیاش کو امام ابوحنیفہؒ نے مجہول کہا ہے ۔

اور وہ بھی قرون ثلاثہ سے ہیں ۔اس تعارض کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

حافظ ابن حجرؒ ، ابن جوزیؒ ، سبط ابن الجوزیؒ وغیرہ نے امام ابوحنیفہ سے نقل کیا ہے کہ زید مجہول ہیں ۔ اس قول کا ماخذ لفظ مجہول کے ساتھ معلوم نہیں ہوسکا ۔شاید بعض ائمہ احناف کے طرز سے یا امام صاحب کی عبارت سے مفہوم نکالا گیا ہے ۔

امام جصاصؒ نے شرح مختصر الطحاوی میں زيدا أبا عياش مجهول لکھا ہے ۔

امام طحاوی نے شرح مشکل میں اس روایت کے سند اور متن میں اضطراب کا کہا ہے اس سے حافظ ابن حجرؒ نے تلخیص الحبیر میں یہ نکالا ہے کہ جیسے طحاویؒ نے بھی زید کو مجہول کہا ہے أَعَلَّهُ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ الطَّحَاوِيُّ، وَالطَّبَرِيُّ وَأَبُو مُحَمَّدِ بْنِ حَزْمٍ وَعَبْدُ الْحَقِّ كُلُّهُمْ أَعَلَّهُ بِجَهَالَةِ حَالِ زَيْدٍ أَبِي عَيَّاشَ

امام قدوری نےنقل کیا ۔ أبو عياش، قال أبو حنيفة: لا أقبل خبره

، وصاحب المقالة إذا لم يغلب في ظنه عدالة الراوي لم يلزمه قبول خبره.

صاحب ہدایہ نے بھی کچھ مختلف الفاظ استعمال کئے ہیں ۔
زيد بن عياش وهو ضعيف عند النقلة

جو بقول صاحب فتح القدیر بالمعنی روایت ہیں ۔الفاظ یہ ہیں۔ زَيْدُ بْنُ عَيَّاشٍ مِمَّنْ لَا يُقْبَلُ حَدِيثُهُ.
وَأَبْدَلَهُ الْمُصَنِّفُ بِقَوْلِهِ (ضَعِيفٌ عِنْدَ النَّقْلَةِ)

صاحب الاسرار امام دبوسیؒ نے بھی ضَعِيفٌ عِنْدَ النَّقَلَةِ کہا ہے (اکمال مغلطائی)
صاحب بدائع الصنائع نے بھی ضعیف عند النقلہ کہا ہے ۔
صاحب العنایہ ، محقق اکمل بابرتیؒ نے بھی زَيْدِ بْنِ عَيَّاشٍ وَهُوَ ضَعِيفٌ فِي النَّقْلَةِ کہا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مناقب صیمری ،مناقب موفق ۔۔۔۔میں سند کے ساتھ واقعہ میں یہ الفاظ ہیں ۔

حَدِيث سعد فَقَالَ ذَاك حَدِيث شَاذ لَا يُؤْخَذ بِرِوَايَة زيد ابي عَيَّاش

اکثر حضرات نے امام صاحب کے قول سے ضعیف نکالا ہے ۔

بعض نے مجہول نکالا ہے جو شاید طحاویؒ ، جصاصؒ ،اور قدوریؒ کے الفاظ اور صنیع سے نکالا گیا ہے ۔اور اس کی تائید میں دیگر محدثین طبریؒ ، ابن حزمؒ، ابن قطانؒ وغیرہ ہیں۔

ایک اور بات جو موجود ہے کہ امام صاحب نے اس حدیث کو شاذ بھی فرمایا ہے ۔

امام ابویوسفؒ نے رد علی سیر الاوزاعی میں ایک جگہہ شاذ کا ذکر کیا ہے ۔

وَالرِّوَايَةُ تَزْدَادُ كَثْرَةً وَيَخْرُجُ مِنْهَا مَا لَا يَعْرِفُ وَلَا يَعْرِفُهُ أَهْلُ الْفِقْهِ وَلَا يُوَافِقُ الْكِتَابَ وَلَا السُّنَّةَ فَإِيَّاكَ وَشَاذَّ الْحَدِيثِ وَعَلَيْكَ بِمَا عَلَيْهِ الْجَمَاعَةُ مِنَ الْحَدِيثِ وَمَا يَعْرِفُهُ الْفُقَهَاءُ وَمَا يُوَافِقُ الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ وہ روایت جو قرآن اور سنت(مشہورہ) کے خلاف ہو شاذ ہوتی ہے ۔

اور وہ واقعہ جس میں امام صاحب نے زیدابو عیاش پر تبصرہ کیا ہے ۔اس میں امام صاحب نے حدیث مشہور سے استدلال کیا ہے ۔

فتح القدیر میں یہ الفاظ ہیں ۔

يُحْكَى عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ دَخَلَ بَغْدَادَ وَكَانُوا أَشِدَّاءَ عَلَيْهِ لِمُخَالَفَتِهِ الْخَبَرَ، فَسَأَلُوهُ عَنْ التَّمْرِ فَقَالَ: الرُّطَبُ إمَّا أَنْ يَكُونَ تَمْرًا أَوْ لَمْ يَكُنْ، فَإِنْ كَانَ تَمْرًا جَازَ الْعَقْدُ عَلَيْهِ لِقَوْلِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «التَّمْرُ بِالتَّمْرِ» وَإِنْ لَمْ يَكُنْ جَازَ لِقَوْلِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «إذَا اخْتَلَفَ النَّوْعَانِ

فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ» فَأَوْرَدَ عَلَيْهِ الْحَدِيثَ، فَقَالَ: هَذَا الْحَدِيثُ دَائِرٌ عَلَى زَيْدِ بْنِ عَيَّاشٍ وَزَيْدُ بْنُ عَيَّاشٍ مِمَّنْ لَا يُقْبَلُ حَدِيثُهُ. (فتح القدیر)

امام عبداللہ بن مبارکؒ نے اس واقعہ کو سنا کر امام ابوحنیفہؒ کی تعریف کی ہے کہ کیسے کہا جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ حدیث نہیں جانتے۔حالانکہ ان سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث شاذ ہے اور راوی زید ابی عیاش کی حدیث قبول نہیں کی جاسکتی ۔ جو ایسا کہتے ہیں ان کے بارے میں کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ حدیث نہیں جانتے ۔(مفہوم)

سَمِعت ابْن الْمُبَارك يَقُول قدم مُحَمَّد بن وَاسع إِلَى خُرَاسَان فَقَالَ قبيصَة قد قدم عَلَيْكُم صَاحب الدعْوَة قَالَ فَاجْتمع عَلَيْهِ قوم فَسَأَلُوهُ عَن أَشْيَاء من الْفِقْه فَقَالَ إِن الْفِقْه صناعَة لشاب بِالْكُوفَةِ يكنى أَبَا حنيفَة فَقَالُوا لَهُ إِنَّه لَيْسَ يعرف الحَدِيث فَقَالَ ابْن الْمُبَارك كَيفَ تَقولُونَ لَهُ لَا يعرف لقد سُئِلَ عَن الرطب بِالتَّمْرِ قَالَ لَا بَأْس بِهِ فَقَالُوا حَدِيث سعد فَقَالَ ذَاك حَدِيث شَاذ لَا يُؤْخَذ بِرِوَايَة زيد ابي عَيَّاش فَمن تكلم بِهَذَا لم يكن يعرف الحَدِيث

(صیمری ، قدوری فی التجرید ، مناقب موفق وغیرہ)

فقہاء حنفیہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ کہ اس حدیث کو زید کی وجہ سے بھی اور کتاب اللہ اور سنت مشہورہ کے( بظاہر) خلاف کی وجہ سے قبول نہیں کیا ۔

امام اکمل بابرتیؒ صاحب عنایہ شرح ہدایہ نے زَيْدِ بْنِ عَيَّاشٍ وَهُوَ ضَعِيفٌ فِي النَّقْلَةِ نقل کرکے بعد میں یہ بھی فرمایا ہے ۔۔۔۔ سَلَّمْنَا قُوَّتَهُ فِي الْحَدِيثِ لَكِنَّهُ خَبَرُ وَاحِدٍ لَا يُعَارَضُ بِهِ الْمَشْهُورُ.

اور بدائع الصنائع میں ہے ۔۔۔۔

وَلِأَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - الْكِتَابُ الْكَرِيمُ، وَالسُّنَّةُ الْمَشْهُورَةُ أَمَّا الْكِتَابُ: فَعُمُومَاتُ الْبَيْعِ مِنْ نَحْوِ قَوْله تَعَالَى {وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} [البقرة: 275] ، وَقَوْلِهِ - عَزَّ شَأْنُهُ - {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ} [النساء: 29] فَظَاهِرُ النُّصُوصِ يَقْتَضِي جَوَازَ كُلِّ بَيْعٍ إلَّا مَا خُصَّ بِدَلِيلٍ، وَقَدْ خُصَّ الْبَيْعُ مُتَفَاضِلًا عَلَى الْمِعْيَارِ الشَّرْعِيِّ؛ فَبَقِيَ الْبَيْعُ مُتَسَاوِيًا عَلَى ظَاهِرِ الْعُمُومِ وَأَمَّا السُّنَّةُ الْمَشْهُورَةُ فَحَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - حَيْثُ «جَوَّزَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بَيْعَ الْحِنْطَةِ بِالْحِنْطَةِ، وَالشَّعِيرِ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرِ بِالتَّمْرِ مِثْلًا بِمِثْلٍ» عَامًّا مُطْلَقًا مِنْ غَيْرِ تَخْصِيصٍ، وَتَقْيِيدٍ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وَأَمَّا الْحَدِيثُ فَمَدَارُهُ عَلَى زَيْدِ بْنِ عَيَّاشٍ، وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ النَّقَلَةِ فَلَا يُقْبَلُ فِي مُعَارَضَةِ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ الْمَشْهُورَةِ؛ وَلِهَذَا لَمْ يَقْبَلْهُ أَبُو حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - فِي الْمُنَاظَرَةِ فِي مُعَارَضَةِ الْحَدِيثِ الْمَشْهُورِ مَعَ أَنَّهُ كَانَ مِنْ صَيَارِفَةِ الْحَدِيثِ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(صاحب بذل المجہود ، مولاناخلیل احمد سہارنپوریؒ نے بھی یہ عبارت نقل کی ہے )

امام صاحب کے واقعہ سے ، ائمہ احناف کے طرز سے اور خصوصاََ صاحب بدائع الصنائع کے آخری الفاظ سے یہ تعارض دور ہوجاتا ہے کہ احناف قرون ثلاثہ کے مجہول یا مستور کو قبول کرتے ہیں ۔اور زید ابو عیاش اس قرن کے ہیں ۔
لیکن ان میں (احناف کے نزدیک) کچھ جہالت یا ضعف ہونے کے ساتھ روایت میں کتاب اللہ کے عموم اور سنت مشہورہ کی مخالفت بھی ہے ۔
اور یہ اختلافی اور اجتہادی مسئلہ ہے ۔کسی مسلک پر طعن نہیں ۔ صاحبینؒ بھی اس مسئلہ میں امام صاحب سے اختلاف رکھتے ہیں ۔
اسی لئے اس حدیث کو بھی قبول کرکے تعارض دور کر کے کچھ معنی کتب میں بیان کئے جاتے ہیں ۔ابھی یہ مسئلہ زیر بحث نہیں ۔
واللہ اعلم۔
 

احمد پربھنوی

وفقہ اللہ
رکن
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ائمہ احناف کے نزدیک قرون ثلاثہ کامستور و مجہول ۔۔قابل قبول ہے ۔ اور اس کے بعد کا نہیں ۔
ہاں یہ مطلق نہیں ہے ۔اس میں تفصیل ہے ۔خصوصاََ معارض کچھ نہیں ہونا چاہیے ۔ حتی کے قیاس شرعی بھی ۔
زید ابو عیاش براہ راست سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے کی وجہ سے تابعی ہے اور امام صاحب خود تابعی کی روایت کو رد فرمارہے ہیں تو قرون ثلاثہ کا مسئلہ ہی نہیں آتا ـ رہی بات باقی علماء کی تو مستور کی روایت قبول و رد کرنے میں اسی کی بات قابل قبول ہوگی جسے امام صاحب رحمہ اللہ کی تائید حاصل ہوگی ـ اس کے خلاف نقل کرنے والے علماء احناف رحمہم اللہ کی بات نقل مبنی برتسامح ہے
آپ نے جو تعارض کو حل کرنے کی کوشیش کی ہے اس کی طرف دیکھتے ہیں
امام طحاوی نے شرح مشکل میں اس روایت کے سند اور متن میں اضطراب کہا ہے اس سے حافظ ابن حجرؒ نے تلخیص الحبیر میں یہ نکالا ہے کہ جیسے طحاویؒ نے بھی زید کو مجہول کہا ہے أَعَلَّهُ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ الطَّحَاوِيُّ، وَالطَّبَرِيُّ وَأَبُو مُحَمَّدِ بْنِ حَزْمٍ وَعَبْدُ الْحَقِّ كُلُّهُمْ أَعَلَّهُ بِجَهَالَةِ حَالِ زَيْدٍ أَبِي عَيَّاشَ
جیسا آپ نے کہا امام طحاوی نے سند اور متن میں اضطراب کی بات کہی تو ہوسکتا ہے امام طحاوی ابو عیاش کا تعین نہیں کرسکے یا ان کے حالات نہیں مل سکے جس وجہ سے انہوں سند میں اضطراب کی بات کہی کیونکہ دوسرے ائمہ نے اسی حدیث سے استدلال کیا تھاـ اور اس بات کو سمجھتے ہوئے حافظ ابن حجر نے بھی امام طحاوی کی بات کا یہ مفہوم نکالا کہ امام طحاوی نے بھی ابو عیاش کو مجھول کہا ہے ـ
حافظ ابن حجر نے چند نام گنوائے اس میں اور بھی ہے جن میں حافظ ابن حزم بھی ہے جنہوں نے کہا کہ ابو عیاش مجہول ہے ـ

اس قول کا ماخذ لفظ مجہول کے ساتھ معلوم نہیں ہوسکا ۔شاید بعض ائمہ احناف کے طرز سے یا امام صاحب کی عبارت سے مفہوم نکالا گیا ہے ۔
امام صاحب کے کئ اقوال کا ماخذ ہمیں معلوم نہیں ہوسکا تو نقل کرنے والوں نے کہیں سے تو نقل کیا ہوگا جو آج ہمارے پاس موجود نہیں ہے ـ کیا اقوال کا ماخذ معلوم نہ ہونے سے کلیہ قول کا انکار کیا جاسکتا ہے؟؟ نہیں بلکہ اسی طرح صاحب فتح القدیر بھی نقل کرتے ہیں
مشايخنا ذكروا أن أبا حنيفة إنما قال هو مجهول ،
ہمارے مشائخ نے ذکر کیا کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا وہ( ابو عیاش)مجہول ہے
اور امام اعظم کی اس بات کی عبداللہ بن المبارک نے تائید بھی کی جیسا کہ آپ نے بھی ذکر کیا ـ

فتح القدیر میں یہ الفاظ ہیں ۔

يُحْكَى عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ دَخَلَ بَغْدَادَ وَكَانُوا أَشِدَّاءَ عَلَيْهِ لِمُخَالَفَتِهِ الْخَبَرَ، فَسَأَلُوهُ عَنْ التَّمْرِ فَقَالَ: الرُّطَبُ إمَّا أَنْ يَكُونَ تَمْرًا أَوْ لَمْ يَكُنْ، فَإِنْ كَانَ تَمْرًا جَازَ الْعَقْدُ عَلَيْهِ لِقَوْلِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «التَّمْرُ بِالتَّمْرِ» وَإِنْ لَمْ يَكُنْ جَازَ لِقَوْلِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «إذَا اخْتَلَفَ النَّوْعَانِ

فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ» فَأَوْرَدَ عَلَيْهِ الْحَدِيثَ، فَقَالَ: هَذَا الْحَدِيثُ دَائِرٌ عَلَى زَيْدِ بْنِ عَيَّاشٍ وَزَيْدُ بْنُ عَيَّاشٍ مِمَّنْ لَا يُقْبَلُ حَدِيثُهُ. (فتح القدیر)
اسی قول کے بعد یہ بھی الفاظ ہے
وأبدله المصنف بقوله ( ضعيف عند النقلة ) وغلط بعض الشارحين المصنف في قوله زيد بن عياش فإن المذكور في كتب الحديث زيد أبو عياش . وتبع في ذلك الشيخ علاء الدين مغلطاي . قال الإمام الزيلعي المخرج رحمه الله : ليس ذلك بصحيح .
اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ کتب احادیث میں زید ابو عیاش ہے جبکہ بعض شارحین( جن کے اقوال آپ نے بھی نقل کیے) نے زید بن عیاش کردیا اور اسی طرح حافظ مغلطائی رحمہ اللہ نے بھی کیا لیکن امام زیلعی رحمہ اللہ نے کہا یہ صحیح نہیں ہے یعنی صحیح زید ابو عیاش ہے

ایک جگہ یحی بن ابی کثیر نے کہا کہ اس میں عبداللہ بن عیاش ہے اس کا رد کرتے حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے بھی کہا
وأما قول يحيى بن أبي كثير في هذا الحديث عبد الله بن عياش؛ فخطأ لا شك فيه، وإنما هو أبو عياش، واسمه زيد

اور جو یحی بن ابی کثیر نے کہا کہ اس حدیث میں عبداللہ بن عیاش ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ غلطی ہے جبکہ وہ ابو عیاش ہے اور ان کا نام زید ہے

اسی طرح دوسروں نے بھی زید ابو عیاش کو زید بن عیاش ہی بتایا جن میں حافظ ابن حجر، امام ذہبی بھی ہے

خیر مستور کی روایت قبول و رد پر بات تھی زید ابو عیاش کی روایت کو تو مثال کے طور پر پیش کیا گیا تھا تو اس مسئلہ میں راجح یہی لگتا ہے امام صاحب کے نزدیک اگرچہ راوی( مستور) قرون ثلاثہ کا بھی ہو تو اس کی روایت قبول نہیں کرتے تھے ـ
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

زید ابو عیاش براہ راست سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے کی وجہ سے تابعی ہے اور امام صاحب خود تابعی کی روایت کو رد فرمارہے ہیں تو قرون ثلاثہ کا مسئلہ ہی نہیں آتا ـ رہی بات باقی علماء کی تو مستور کی روایت قبول و رد کرنے میں اسی کی بات قابل قبول ہوگی جسے امام صاحب رحمہ اللہ کی تائید حاصل ہوگی ـ اس کے خلاف نقل کرنے والے علماء احناف رحمہم اللہ کی بات نقل مبنی برتسامح ہے
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
احمد بھائی اگر آپ ۔دراسات فی اصول الحدیث علی منہج الحنفیہ ۔کے لنک کو پڑھیں تو اس میں جمہور حنفی ائمہ کا یہی مذہب لکھا ہے ۔بلاشبہ یہ مطلق نہیں ہے ۔اس میں تفصیل ہے ۔
اور امام صاحبؒ کی بھی نص موجود ہے اصول سرخسی میں ، صاحب فتح القدیر نے بھی نقل کی ہے ۔
الْحسن عَن أبي حنيفَة رَضِي الله عَنْهُمَا أَنه بِمَنْزِلَة الْعدْل فِي رِوَايَة الْأَخْبَار لثُبُوت الْعَدَالَة لَهُ ظَاهرا بِالْحَدِيثِ الْمَرْوِيّ عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم (وَعَن عمر رَضِي الله عَنهُ) الْمُسلمُونَ عدُول بَعضهم على بعض
لیکن ان شروط کے ساتھ جو فقہاء حنفیہ نے ذکر کی ہیں ۔
امام صاحب کے کئ اقوال کا ماخذ ہمیں معلوم نہیں ہوسکا تو نقل کرنے والوں نے کہیں سے تو نقل کیا ہوگا جو آج ہمارے پاس موجود نہیں ہے ـ کیا اقوال کا ماخذ معلوم نہ ہونے سے کلیہ قول کا انکار کیا جاسکتا ہے؟؟ نہیں بلکہ اسی طرح صاحب فتح القدیر بھی نقل کرتے ہیں
مشايخنا ذكروا أن أبا حنيفة إنما قال هو مجهول ،
آپ بالکل صحیح فرما رہے ہیں کہ کئی اقوال کا ماخذ معلوم نہیں ۔
میرا کہنے کا مطلب تو یہ تھا کہ مجہول میں تو لاعلمی کہی جاسکتی ہے ۔ جو ماخذ معلوم ہے اور جو نصوص میں نے فقہاء حنفیہ کی ذکر کی ہیں ۔اُن میں تو مزید علم ہے ۔یعنی یوں لگتا ہے کہ امام صاحب ؒ تو زید کو جانتے تھے اور ان کے نزدیک ان میں کچھ کمزوری تھی۔یا مخالفت پائی جارہی تھی۔
خیر مستور کی روایت قبول و رد پر بات تھی زید ابو عیاش کی روایت کو تو مثال کے طور پر پیش کیا گیا تھا تو اس مسئلہ میں راجح یہی لگتا ہے امام صاحب کے نزدیک اگرچہ راوی( مستور) قرون ثلاثہ کا بھی ہو تو اس کی روایت قبول نہیں کرتے تھے ـ
ایک لحاظ سے صحیح بھی ہے ۔کیونکہ بعض دوسرے ائمہ امام صاحب ؒ کے قول کا مطلق غلط مطلب نکالتے ہیں ۔
حالانکہ یہ مطلق نہیں ہے ۔آخر کو امام محمدؒ کی عبارت بھی تو فقہاء نقل کرتے ہیں کہ أما المستور فقد نَص مُحَمَّد رَحمَه الله فِي كتاب الِاسْتِحْسَان على أَن خَبره كَخَبَر الْفَاسِق
فقہاءاس قول میں اور امام صاحب کے قول میں تطبیق کرتے ہیں اور معنی بیان کرتے ہیں کہ یہ قرون ثلاثہ کے بعد پر محمول ہے ۔
بہرحال جس طرح مرسل حدیث ، یا ضعیف حدیث کو شرائط کے ساتھ اور اپنے مقام پر قبول کیا جاتا ہے ۔ اس درجہ میں مستور کی روایت بھی ہے ۔
مثلاََ اس میں ایک شرط یہ ہے کہ اس سے وجوب نہیں نکل سکتا ، جواز نکل سکتا ہے ۔اور بھی ہیں جن کا فقہاء نے ذکر کیا ہے ۔
واللہ اعلم
 
Top