مولانا مملوک علی کے دو شاگرد سر سید احمد خان .مولانا نانوتوی

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
http://a2.sphotos.ak.fbcdn.net/hphotos-ak-snc3
/27258_375868262682_205083152682_3909374_6515014_n.jpg

Darul%20Uloom%20Deoband2.jpg




مولانا مملوک علی کے دو شاگرد سر سید احمد خان. . حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ
دلی صدیوں سے علم وفن کا مرکز رہی ہے. انیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں مڑ کر دیکھئے تو دلی کالج میں مولانا مملوک علی کے سامنے بہت سے بچے پڑھ رہے ہیں. ان میں دو بچے غیر معمولی صلاحیت وذکاوت کے مالک ہیں .ان دونوں لڑکوں پر استاد محترم کی خاص نظر ہے. مولانا مملوک کو پتہ نہیں ہے کہ کون شاگر دمستقبل میں کیا بنے گا اور نہ یہ علم کہ ان کی شہرت استاد سے بڑھ کر ہوگی ؟ دونوں لڑ کے پڑھ کر چلے گئے ایک نے علی گڈھ کا رخ کیا ،دوسرے نے دیوبند کا .ایک نے موقع کی نزاکت اور وقت کی ضرورت کو جان کر مسلمانوں کی معاشی حالت سدھارنے کے لئے علی گڈھ میں اعلیٰ تعلیم ایک دارالعلوم قائم کیا تو دوسرے نے مسلمانوں کی دینی ، مذہبی وسماجی انحطاط کو روکنے کے لئے دیوبند میں ایک اسلامی دارالعلوم کی بنیاد ڈالی.
مغلیہ حکومت کا خاتمہ اور برطانیوی حکومت کا قیام دونوں قیام دونوں کے عروج وزوال کے ما بین 1857 کا قیامت خیزملک وملت کیلئے تباہ کن ثابت ہو .اس وقت اہل ہند اس درجہ منتشر ہو چکے ہیں کہ دوبارہ پنپنے کی امید دور دور تک نظر نہیں آرہی تھی .اس کشمکش کی گھڑی میں دو مسیحا ئے وقت میدان عمل میں ائے اور سفینہ ملت کو طوفان ِ جہا وافلاس سے باہر نکالا ان دور اندیش ہستوں نے قوم کے زخموں پر مرہم کاری کی اور مسلمانوں کی احساس کمتری ختم کی اور بے جان قوم میں نئی روح پھونکی 1857 کے بعد اہل وطن ایک جانب معاشی تنگی کے شکارتھے تو دوسری طرف مشنریوں کے اثرات سے غیر محفوظ تھے .قوم کی پستی اور بد حالی پر سر سید احمد خان نے بہت آنسو بہائے اور کہا .
میں اس وقت ہر گز نہیں سمجھتا تھا کہ قوم پھر پنپے گی اور کچھ عزت پائیگی اور جو ھال اس وقت قوم کا تھا وہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا تھا .چند روز اسی خیال اور اسی غم میں رہا یقین کیجئے کہ اس غم نے مجھے نڈھا کر دیا اور میرے بال سفید کر دئیے..
بانی دیوبند مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ملک وملت کے لئے بھی بہت سی صعوبتیں برداشت کیں اور آخری سانس تک ان کا مقابلہ کیا . بقول شیخ محمد اکرم ''مولانا محمد قاسم نانوتویٌ اور دوسرے بزرگوں نے ان مشینریوں کا مقابلہ یوں کیا کہ ان سے بالمشافحہ مناظرے کئے ،اور ان کے مقابلے میں کتابیں لکھیں پمفلٹ تقسیم کئے انھیں بزرگوں کی کو شش تھیں کہ عام مسلمانوں میں مشنری کامیاب نہ ہو سکے. ''1857 کے بعد وقت اہل ملک کیلئے نہایت دشوار گزار تھا. اس تاریک گھڑی میں بانی دیوبند وبانی علی گڈھ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں .انہوں نے قوم کو خواب غفلت سے جگایا، نیا علمی ماحول قائم کیا .اور نیا اتحاد واتفاق پیدا کیا بانی علی گذھ نے اہل ہند کو جدید تعلیم کی دعوت دی اور بتایا کہ تعلیم کے بنا ہم اپنا معیار وقار بحال نہیں کر سکتےاور جدید تعلیم کی تلوار سےہم اپنا سیاسی ومعاشی وجود مستحکم کر سکتے ہیں .دوسری طرف بانی دیو بند نے غیر مسلموں پر اسلام کی اصلی تصویر واضح کی اور مشنریوں کے بڑھتے اثرات کاسد باب کیا ،نیز ان کو ہر محاذ پر شکست دی ،بانی دیو بند نے اسلامی صداقت سائنس، فنی عقلی دلائل سے ثابت کی اور اسلام پر ہو نے والے اعتراضات کا جواب عقل ونقل سے دیاا ،بالاخر دیو بند نے معاشرہ ،عقیدہ اور علوم اسلامیہ کی جڑیں مضبوط کیں جیسے بانی علی گڑھ نے امراض جسمانی کا علاج بتایا ویسے ہی بانی دیو بند نے روحانی بیماریوں کی دوائیں تجویز کیں
 
Top