۔۔۔۔۔ کیا ہرکتاب کا اردو میں ترجمہ کرنا مناسب ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی بالکل صحیح فرما رہے ہیں خصوصاََ مدارس کے طلباء پر اس کا بہت برا اثر پڑ سکتا ہے ۔ اس سے ان کی عربی کی صلاحتیں متاثر ہوتی ہیں ۔ ممکن ہے مدارس کے اساتذہ ۔۔طلباء کو خصوصاََ تراجم دیکھنے سے منع کرتے ہوں ۔
لیکن عوام کے اندر یہ چیز اب قابو سے باہر ہے ۔ اب اس کو روکا تو نہیں جا سکتا ۔ کیونکہ تراجم خصوصاََحدیث و شروح کے شروع کرنے میں بعض جگہہ یہی وجہ تھی کہ عوام کو عالم کے اثر سے نکالا جائے ۔لیکن جب یہ کام شروع ہوگیا تو پھر ضروری ٹھہرا کے عوام تک ترجمہ جب پہنچ ہی رہا ہے تو غلط کیوں پہنچے ۔اس لئے پھر انتظامی وجہ سے ترجمہ کرنا ناگزیر ہوگیا۔
اب تو جو لوگ عوام میں دنیاوی پڑھے لکھے ہیں ۔وہ کبھی دین کی طرف مائل ہوں تو یہی طلب کرتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ کے براہ راست اقوال کو پڑھیں ۔ ناکہ مولوی صاحب جو کہہ رہے ہیں وہی سنتے جائیں ۔
اس لئے اب اگر مجبوری بن گئی تو شرائط اور پورے آداب و لوازم کے ساتھ ترجمہ کرناچاہیے ۔
ایک اور عذر یہ بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہعرب میں بھی تو عوام اور علماء دو طبقے ہیں ۔ اور ان کو ترجمہ کا مسئلہ نہیں ہے ۔
اس لئے عالم کی اہمیت کو اس کے ساتھ بھی منوانا چاہیے ۔
یہ بات مشہور حدیث کی کتب کے لئے ہے ۔
ورنہ شروحات اور رجال تک کی کتب کے تراجم تو واقعی سراسر کاروباری ذہن سے کئے جارہے ہیں ۔ آپ ان کو پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جلدی جلدی ، گزارہ کیا ہوا ہے ۔اس سے واقعیعربی زبان اور دینی اصول سے جاہل ۔۔لیکن تخریج کے ماہرین پیدا ہورہے ہیں ۔اور ایسے حضرات کے نزدیک علماء کی کیا حیثیت ہوگی۔
بلاشبہ میرے جیسے عربی سے جاہل عامی لیکن دینی ابحاث میں زیادہ دلچسپی رکھنے والے حضرات ۔۔ ذہن میں یہی خیال رکھتے ہیں کہ ہر کتاب کا ترجمہ ہونا چاہیے تاکہ مجھے تو سمجھ آجائے ۔ اس خود غرضی کا مجھے احساس ہے ۔اور مجھے اس کے نقصانات بھی نظر آتے رہتے ہیں ۔بس اللہ تعالیٰ سے ہی ہدایت کی دعاء ہے ۔
اور کاروباری نقطہ نظر سے تاریخ کی کتب کے تراجم بغیر تعلیق و تنبیہہ کے کئے گئے ہیں ۔ اُن سے عقائد کے فتنے پھیل رہے ہیں ۔اخباروں کے کالم نگار ۔صحابہؓ کے مشاجرات کو عامیانہ واقعات کی طرح ڈسکس کررہے ہوتے ہیں ۔