مثالی شریک حیات‘ حضرت خدیجتہ الکبریٰ ؓ

زوہا

وفقہ اللہ
رکن
دنیا کی ابتدائی تاریخ اور ارتقائی منازل کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس میں عورت کا کردار بالکل مفقود ہے یہ تو گزشتہ محض ایک دو صدیوں قبل حواءکی بیٹی کو عزت واحترام کے قابل تسلیم کیاگیا نیز عورت کو بھی مرد کے برابر قرار دیا گیاجبکہ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مسلم خواتین کا جو کردار رہا وہ آج سب دنیا کےلئے ایک واضح سبق بھی ہے‘
قابل تحسین کارنامہ بھی اور قابل فخر تاریخ بھی بلکہ میں تو یہ کہوں گی کہ اسلام کی تاریخ کی تو ابتداءہی عورت کے شاندار کردار سے ہوتی ہے اس دین حق کا تو نقطہ آغاز ہی عورت کے عظیم الشان کردار سے عبارت ہے یہ بات الگ ہے کہ آج ترقی یافتہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی دنیا حقوق نسواں کی علمبردار بنی ہوئی ہے اور چار پانچ صدیوں سے مغرب کی معاندانہ یلغارسے متاثر مسلم معاشرے میں جہالت و پسماندگی کے باعث مسلم عورت سے اس کا تاریخ ساز کردار بھی چھین لیا گیا ہے اور وہ اس کردار سے بھی محروم کردی گئی ہے جو اسے دین اسلام نے عطا کیا تھا۔
اس لحاظ سے ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبریٰ کو ایک مثالی اورسچی شریک حیات کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ قریش کے ایک نامور سوداگر خویلد بن اسد کی بیٹی تھیں جن کا شجرہ نسب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجداد قصی سے ملتا ہے۔ خویلد مالی اعتبار سے بہت مستحکم تھے اور ان کی تجارت شام و یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔
حضرت خدیجہ 555میں پیدا ہوئیں۔ اس زمانے میں بعض قبائل میں لڑکیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا، مگر آپکے والد خویلد نے آپکی پرورش نہایت پیار و محبت سے کی۔ ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبریٰ قریش کے ایک نامور سوداگر خویلد بن اسد کی بیٹی تھیں، جن کا شجرہ نسب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجداد قصی سے ملتا ہے۔ خویلد مالی اعتبار سے بہت مستحکم تھے اور ان کی تجارت شام و یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ حضرت خدیجہ 555میں پیدا ہوئیں۔ اس زمانے میں بعض قبائل میں لڑکیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا مگر آپکے والد خویلد نے آپکی پرورش نہایت پیار و محبت سے کی۔ آپ بچپن ہی سے سنجیدہ، نیک اطوار اور شریف الطبع تھیں۔
نیکی کی وجہ سے ’طاہرہ‘اور ’سیدہ النسائ‘کہا جاتا تھا۔ آپ کا پہلا نکاح ابوہالہ سے ہواجن سے آپ کے ہاں دو بیٹے ہند اور ہالہ پیدا ہوئے۔ ہالہ کا کم عمری میں انتقال ہوگیا تھا اور ہند جنگ جمل میں شہید ہوئے۔ ابوہالہ کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہ کا دوسرا نکاح عتیق بن عائد مخزومی سے ہوا۔ ان سے ایک بیٹی ہند پیدا ہوئیں۔ یہ بھی مسلمان ہوئیں اور صحابیات میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ عتیق کے انتقال کے بعد صیفی بن امیہ سے حضرت خدیجہ کا نکاح ہوا جو حرب الفجار میں مارا گیا۔
صیفی سے حضرت خدیجہ کا ایک بیٹا محمد تھا۔ اس وقت حضرت خدیجہ کی عمر تیس سال تھی۔ خاندانی اعزاز اور دولت کے ساتھ حسنِ صورت و سیرت سے بھی مالامال تھیں۔ کئی سرداروں نے نکاح کی خواہش کی مگر آپ نے انکار کردیا۔ خویلد نے بڑھاپے کی وجہ سے اپنا کاروبار حضرت خدیجہ کے سپرد کردیا۔ حضرت خدیجہ حجاز مقدس میں سب سے زیادہ متمول خاتون تھیں جن کی تجارت کا سامان شام اور یمن میں سال میں دو مرتبہ جاتا تھا۔ طبقات ابن سعد کے مطابق مکہ کے سارے تجارتی قافلوںکا سامان ملاکر حضرت خدیجہ کے سامان کے برابر ہوتا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت و صداقت کا چرچا حضرت خدیجہ کے کانوں تک پہنچا تو انہوں نے بلا بھیجا۔
انہیں اس وقت ایک قابل بھروسہ اور ایماندار معتمد کی ضرورت تھی۔ اس لیے اپنا سامانِ تجارت نوکروں اور غلاموں کے ساتھ سفر شام کی طرف روانہ کیا اور اپنے غلام میسرہ کو خصوصی ہدایت کی کہ محمد کے کسی معاملے میں دخل اندازی نہ کرنا، راستے میں جو کچھ واقعات پیش آئیں وہ بلاکم و کاست بیان کرنا۔ عرب کے انتہائی بگڑے ہوئے معاشرے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور امانت انہیں عجب سی لگی۔ اہلِ قافلہ کے ساتھ آپ کا برتاﺅانتہائی شریفانہ تھا۔
مکہ پہنچ کر آپ نے ایک ایک پیسے کا حساب حضرت خدیجہ کے سامنے پیش کردیا۔ آپ کی دیانت، شرافت اور معاملہ کی درستی سے حضرت خدیجہ بہت متاثر ہوئیں اور آپ کو نکاح کی پیش کش کی۔ اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 25 سال اور حضرت خدیجتہ الکبریٰ کی عمر 40 سال تھی مگر آپ دونوں کی ازدواجی زندگی انتہائی کامیاب گزری۔ نکاح کے بعد حضرت خدیجہ کی زندگی کا مقصد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور خوشنودی تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے تن من دھن سب کچھ قربان کردیا۔
نبوت ملنے سے پہلے آپ پر پیغمبری کے آثار شروع ہوگئے تھے۔ آپ کو درخت اور پتھر سلام کرتے۔ آپ خوفزدہ ہوجاتے۔ حضرت خدیجہ سے تذکرہ کرتے تو وہ آپ کو تسلی دیتیں اور آپ کی تشویش اور پریشانی کو دلسوزی، محبت اور ہمدردی سے دور فرماتیں۔ حضرت خدیجہ کی دلجوئی سے آپ کو بہت ڈھارس ہوتی اور منتشر خیالات کو سکون ملتا۔ نبوت ملنے سے پہلے آپ غارِ حرا میں جاکر کئی کئی دن عبادت میں گزار دیتے۔ رمضان المبارک میں جب آپ کو نبوت کے عہدے پر فائز کیا گیا تو آپ غارِ حرا میں عبادت میں مشغول تھے۔
حضرت جبرائیل تشریف لائے اور کہا کہ پڑھو۔ آپ نے فرمایا ’میں امّی ہوں۔ حضرت جبرائیل نے سینے سے لگاکر زور سے بھینچا اور سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیات پڑھا کر چلے گئے۔ آپ لرزتے کانپتے گھر آئے اور حضرت خدیجہ سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ جب یہ کیفیت کچھ کم ہوئی تو حضرت خدیجہ کو پورا واقعہ سنایا۔ شریک حیات نے محبت سے دلجوئی کی۔ کسی شخص کو اس کے گھر والوں اور خصوصاً بیوی سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا۔
آپ کی صداقت اور امانت پر صدقِ دل سے ایمان لانے والی سب سے پہلے آپ کی زوجہ محترمہ تھیں جنہوں نے فرمایا کہ آپ خوف نہ کھائیں۔ آپ نے کبھی کوئی بات غلط نہیں کی، کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا۔آپ یتیموں کے والی اور بیواﺅں کے مددگار ہیں، مسکینوں کی خدمت کرتے ہیں، خدا سے ڈرتے ہیں اور اس کے بندوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں، کنبہ والوں کے ساتھ مہربانی کرتے ہیں، اہلِ قریش آپ کی دیانت و امانت کے معترف ہیں۔ آپ کسی قسم کا خوف نہ کریں۔ خدا آپ کو ضائع نہ کرے گا۔
ام المومنین آپ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو انجیل مقدس اور توریت کے بڑے عالم تھے۔ انہوں نے پورا واقعہ سنا تو کہا کہ محمد کے پاس وہی ناموس اکبر آیا ہے جو موسیٰ پر بھی نازل ہوا تھا۔ اے عبداللہ کے بیٹے خدا نے جس پیغمبر کی انجیل میں بشارت دی ہے وہ تم ہی ہو مگر تمہاری قوم تم کو وطن سے نکالے گی اور تمہیں سخت تکلیف پہنچائے گی، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا تو تمہاری حمایت اور مدد کرتا۔
ورقہ بن نوفل کی گفتگو کے بعد آپ کی پریشانی دور ہوگئی۔ ام المومنین حضرت خدیجہ سب سے پہلے آپ پر ایمان لائیں اور خواتین میں اسلام کی تبلیغ شروع کردی۔ آپ کی کوششوں سے ام الفضل، اسما بنت ابوبکر ام جمیل، فاطمہ بنت خطاب، اسما بنت عمیس ایمان لائیں۔ حضرت خدیجہ صحیح معنوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفیقہ اور شریک حیات تھیں۔ وہ اپنے شوہر کی ایسی عاشق زار شریک ِسفر تھیں جنہوں نے اپنے جان و مال، روپے پیسے سے ہر لمحہ آپ کی مدد اور دلجوئی کی۔ ہر وقت ہر خدمت و اطاعت کے لیے تیار اور مستعد رہتیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کئی کئی دن کے لیے غارِ حرا میں جاکر عبادت کرتے توحضرت خدیجہ ان کو ڈھونڈ کر کھانا بھیجتیں۔
شعب ابی طالب کے تین سالہ معاشرتی بائیکاٹ میں ہر لمحہ آپ کے ساتھ رہیں۔ متمول اور دولت مند ہونے کے باوجود فاقہ کشی پر کبھی حرف ِشکایت زبان پر نہیں لائیں۔ آپ بھی ان کی محبت اور صلاحیتوں کو سراہتے اور انہیں بچوں کی ماں اور گھر کی منتظم کہتے۔ ہر معاملے میں ان سے مشورہ لیتے اور مشورے کے مطابق کام کرتے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغمبری کے جو فرائض انجام دیئے ان میں حضرت خدیجہ کی صائب رائے، بیش بہا مشورے، ان کی ہمدردی، محبت، دلسوزی، دولت و ثروت سب کچھ شامل تھے۔حضرت ابراہیم کے علاوہ آپ کی ساری اولاد یں ام المومنین حضرت خدیجہ سے ہوئیں۔ اسلام کو حضرت خدیجہ کی ذات سے بہت تقویت ملی۔ ان کے زبردست استقلال، استقامت، خلوص و محبت ،رفاقت ، ایثار نے اسلام پھیلانے میں آپ کی بڑی مدد کی۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ تو شروع ہی عورت کے تعمیری و تاریخی کردار سے ہوتی ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ عورت کی ہمت دانائی حوصلہ مندی اور دور اندیشی کے شاندار اور قابل فخر کردار سے معمور ہے ۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ما شا ء اللہ بہت اچھا مضمون ہے
زوہا صاحبہ آپ نے لکھا ہے ؟
 
Top