غرور و تکبر-انسان کا چھپا دشمن

زوہا

وفقہ اللہ
رکن
[size=large]
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی تخلیق سے پہلے فرشتے اور جن پیدا کئے۔ انسان کی تخلیق جب فرمائی تو ملائکہ کو حکم کیا کہ وہ انسان کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں۔ ابلیس اگرچہ جن تھا لیکن اس اجتماع میں وہ بھی شامل تھا۔سارے ملائکہ نے حکم خداوندی کی تعمیل کی لیکن ابلیس نے سجدہ نہیں کیا۔ اس نافرمانی کی وجہ کیا تھی؟ ابلیس آگ سے پیدا کیا گیا تھا اور انسان کو مٹی سے تخلیق کیا گیا۔اسے یہ گھمنڈ لاحق ہوا کہ آگ، مٹی سے درجے میں بلند ہے۔اسلئے بلند مخلوق ہوکرپست مخلوق کے سامنے سجدہ کرنا اسے گوارا نہیں ہوا۔ اس نافرمانی کی سزا اسے کیا ملی؟ قیامت تک کیلئے ملعون ٹھہرا۔
اس واقعہ کی تفصیل قرآنِ کریم میں جگہ جگہ ملتی ہے مثلاً سورة بنی اسرائیل میں فرمایا۔”اور یاد کرو جب ہم نے ملائکہ سے کہاکہ آدم کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے نہ کیا۔ اس نے کہا۔”کیا میں اس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے؟“ پھر وہ بولا۔”دیکھ تو سہی، کیا یہ اس قابل تھا کہ اسے مجھ پر فضیلت دی؟ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کرڈالوں، بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے۔
‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔”اچھا تو جا، ان میں سے جو بھی تیری پیروی کریں ، تجھ سمیت ان سب کیلئے جہنم ہی بھر پور جزا ہے۔تو جس جس کو اپنی دعوت سے پھسلا سکتا ہے پھسلالے۔ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا، مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا، اور ان کو وعدوں کے جال میں پھانس۔۔اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔۔یقینا میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہوگا، اور توکل کیلئے تیرا رب کافی ہے۔“
(بنی اسرائیل ۶۱۔۶۵)
اسی طرح سورة الحجر میں فرمایا۔ ”۔۔۔چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا ،سوائے ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ رب نے پوچھا۔ ”اے ابلیس، تجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا؟ “ اس نے کہا ” میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے -۔“ رب نے فرمایا۔ ”اچھا تو نکل جا یہاں سے کیونکہ تو مردود ہے، اور اب روز جزا تک تجھ پر لعنت ہے۔“ (الحجر ۳۰۔۳۵)
اب سورةالاعراف کی آیات ۱۱ تا ۱۳ کا مطالعہ کرتے ہیں۔ فرمایا۔ ”ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو۔ اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ پوچھا۔ ”تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا جب کہ میں نے تجھ کو حکم دیا تھا؟“ بولا، ”میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے۔“ فرمایا، ”اچھا ، تو یہاں سے نیچے اتر۔ تجھے حق نہیں ہے کہ یہاں بڑائی کا گھمنڈ کرے۔ نکل جا کہ درحقیقت تو ان میں سے ہے جو خود اپنی ذلت چاہتے ہیں۔“

(ان آیات کا مطالعہ کرتے ہوئے کسی کو یہ گمان نہیں ہونا چاہئے کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا۔وہ جن تھا اور اس کی تصریح اللہ نے خود سورةالکہف آیت ۵۰میں کی ہے)

اللہ کے اس متبرک کلام سے جو حقائق مبرہن ہوجاتے ہیں ان کے مطابق ابلیس کوئی معمولی جن نہیں تھا۔ وہ بہرحال اس قدر مقرب تھا کہ خاص مجالس میں ملائکہ کے پہلو بہ پہلو حاضر رہتا تھا۔لیکن اتنا مقرب ہونے کے باوجود حکم خداوندی کی عمل آوری سے انکار نے اسے قیامت تک کیلئے ملعون بنادیا۔اس نے یہ انکار کیوں کیا؟ اسلئے کہ اسے آگ سے ہوئی اپنی تخلیق کی بنائ پر یہ گھمنڈ ہوا کہ میں انسان سے بہتر ہوں جس کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی۔یعنی تخلیق کہاں اور کس طرح ہوئی ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
نگاہِ ایزدی میں اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ اللہ کے احکام کی کہاں تک اطاعت ہوتی ہے۔حسب نسب پر غرور اسلامی شعار نہیںاور غرور ایسی لعنت ہے جس میں گرفتار ہوکر ابلیس جیسا مقرب تا قیام قیامت ملعون ہوا اور آخرت میں عذاب الٰہی کا سزاوار۔یہ بھی ثابت ہوا کہ غرور شیطانی صفت ہے اور نگاہِ ایزدی میں بے حد معتوب!

شیطان کا غرور میں مبتلا ہو جانا، تاریخ انسانی کی اس قبیح ترین جرم کا پہلا آمنا سامنا تھا۔شیطان نے چونکہ اللہ سے مہلت ہی اسی لئے مانگی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کو صراط المستقیم سے پھسلادے اسلئے اس نے اپنی یہ خبیث خصلت انسان کے اندر بھی سرایت کردی ہے۔نمرود و فرعون آخر کس مرض میں مبتلا تھے؟ وہ یہی غرور تھا جس نے ان کو اس وہم میں برباد کردیا کہ ہم ناقابل تسخیر ہیں لیکن ”غرور کا سر ہمیشہ نیچا!“ ان کی داستان بھی نہ رہی داستانوں میں!

انسان کس چیز پر مغرور ہوسکتا ہے؟ حسن پر؟ ابلتا تیل تو بہت بڑی چیز ہے ، ابلتا دودھ بھی سارے حسن کو غارت کرنے کیلئے کافی ہے۔دولت پر؟ یہ ایسی بے وفا محبوبہ ہے جسے کہیں قرار نہیں، آج آپ کے لاکر کی زینت تو کل میرے گلے کا طوق، پرسوں ہم دونوں کو طلاق دے کر کسی اور کے ساتھ آشنائی کرے۔جوانی یا توانائی پر؟ روز ڈھلتے سورج سے کوئی تو سبق حاصل ہونا چاہئے۔ذہانت و علم پر؟ ارسطو اور سقراط سب کچھ تھے مگر مغرور نہیں۔عہدہ؟ کس کا باقی رہا؟ کل جن پر حکم چلاتے تھے ریٹائرمنٹ کے دوسرے دن انہیں کی خدمت میں حاضر ہوکر پنشن کیس نپٹوانا ہے! الغرض فانی چیزوں پر غرور کیونکر؟ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، وہ یا تو اللہ کا عطا کردہ ہے یا ہم نے غلط راستوں سے اس کو ہتھیا لیا ہے۔ دونوں کو ہم سے چھیننے کا کلی اختیار اللہ کے ہاتھ میں۔ جس چیز میں دوام نہیں اس پر غرور کرنا انتہائی پست درجے کے لوگوں کا کام ہے۔

غرور چونکہ ایک شیطانی صفت ہے اسلئے یہ انسان سے اس کی انسانی صفات چھین لیتا ہے۔دوسروں کو حقیر سمجھ کر ان سے بے اعتنائی اور کنارہ کشی اختیار کرنا اس کا پہلا لازمی نتیجہ ہے۔اس طرح انسان دوسروں کی محبت ، رفاقت اور نیک مشوروں سے محروم ہوجاتا ہے۔خود اس کے اندر چڑچڑاپن پیدا ہوجاتا ہے اور وہ سماج سے الگ تھلگ ہوکر رہ جاتا ہے۔وقت ضرورت اسے اپنی خود پر عائد کردہ تنہائی کا احساس تو ہوجاتا ہے لیکن ”اب کیا پچھتانا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت“؟

انسانی تاریخ میں جو عظیم ترین ہستی وجود میں آئی ہے اور تا قیام قیامت جس کاثانی پیدا نہیں ہوگا وہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی کی ذات بابرکت ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ آپ ابتدائے آفرینش سے منتہائے کائنات تک سب سے زیادہ باسعادت شخصیت ہیں۔ان تمام انعامات اور اکرام کے باوجود جو
اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ پر عنایت فرمائیں ، آپ کا اپنے رب کے سامنے انکساری کا یہ عالم تھا کہ راتوں طویل قیام وسجود سے پائے نازنین میں ورم ظاہر ہوجاتا اور لوگوں کے ساتھ تعلق کا عالم یہ کہ جب کوئی آپ سے ہم کلام ہوجاتا تو صرف اپنا روئے انور اس کی طرف نہیں کرتے بلکہ اپنے پورے جسم مبارک کو اس کی طرف موڑدیتے۔

آپ نے ہمیں تعلیم دی کہ تکبر صرف اللہ کو زیب دے سکتا ہے کیونکہ اس کی صفات ازلی ہیں، کوئی ان کو چھین نہیں سکتااور اس کے کمالات کو کوئی زوال نہیں۔ بندے تکبر میں گھر جائیں تو ابدی عذاب میں مبتلا ہونگے۔چنانچہ اللہ کی قسم کھاکر فرمایا کہ وہ شخص جنت میں داخل ہو ہی نہیں سکتا جس میں رتی برابر بھی غرور ہو! یہاں تک کہ لباس سے بھی اگر غرور کا اظہار ہوجائے تو اس پر زبردست وعید فرمائی۔
حضرت عبداللہ بن عمرروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا۔ ”اللہ اس شخص کی طرف قیامت کے روز نگاہ نہیں کرے گا جو اپنا چوغہ تکبر میں پیچھے سے زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلے۔“ حضرت ابو بکر نے عرض کیا۔” میرے چوغہ کا ایک سرا لٹک ہی جاتا ہے جب تک کہ میں اس کے بارے میں بے حد احتیاط نہ کروں۔“ تو آپ نے فرمایا۔ ”لیکن آپ ایسا تکبر کی بنا پر نہیں کرتے ہیں۔“ (صحیح بخاری)

اللہ نے اپنے کلام میں جگہ جگہ متکبرین کو وعید سنائی ہے اور ان کیلئے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے۔غرور کا چور دروازہ انسان کے اندر صرف یہ معمولی سا احساس ہے کہ میں کسی معاملے میں کسی سے برتر ہوں۔ یہ احساس جہاں شروع ہوا سمجھ لیجئے کہ شیطان نے اپنا ڈیرہ جمالیا۔
ہمیں ہر وقت اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہئے کہ ہم فانی، ہمارے پاس جو کچھ وہ بھی فانی۔فانی پہ غرور؟ کمال گمراہی! اپنے کو اوروں سے کم تر سمجھنے میں ہی عافیت ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا کی اس چند روزہ زندگی میں برتری یا ابتری کا فیصلہ ہی کیا ہوگا۔فیصلہ تو یوم الفصل کو ہوگا۔کیا معلوم اس دن کون بارگاہ خداوندی میں مقبول ہو اور کون معتوب۔اللہ ہمیں غرور اور تکبر کے ادنیٰ شائبے سے بھی بچائے۔ آمین
 
Top