یہودی اور باطنی ،اغراض ومقاصد.مولانا حقیق الرحمن

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
یہودی اور باطنی ،اغراض ومقاصد

دنیا بھر میں پائے جا نے والے باطنی یعنی گمراہ فر قے اسلام کی جڑیں اکھاڑنے کا کام نہایت اخلاص کے ساتھ کرتے ہیں ،اسلام کو پہو نچنے والے پر زخم کے پیچھے انھیں روباہ صفت باطنیوں ہاتھ ہوتا ہے ،مسئلہ فلسطین اہل اسلام کے وجود وبقا کا سوال ہے ،دشمنان اسلام نے اس موقع پر انھیں گمراہ فر قوں یعنی قادیانیوں ،بہا ئیوں اور دروزیوں سے کام لیا ہے ،مسلمانوں کی صفوں میں فتنے پھیلانا ،بیت المقدس کے حوالے سے یہود کے پھیلائے ہو ئے جھوٹ کو سچ کا لبادہ پہنانا انھیں کے سپرد ہے غرض کہ ہر نیزہ وخنجر کی جڑیں باطنیوں کے ہاتھوں میں دیدی جاتی ہیں جس کا استعمال یہ لوگ پوری مہارت کے ساتھ کرتے ہیں۔
قادیانیت جس نے اپنا لقب الجماعۃ الاسلامیۃ الاحمدیہ رکھا ہے اس کی ابتدا فلسطین میں اس قت ہوئی جب اس کے بعض پیر کار حیفا کے راستہ وہاں پہنچے جن میں سر فہرست بانی فرقہ کا بیٹا اور خلیفہ بشیر الدین محمود ۱۹۲۴؁ء میں جلا الدین شمس قادیانی کے ساتھ وہاں پہو نچا اور جبل کر مل کی چوٹی پر حیفا کے کبا بیر گاؤں میں اپنے مر کز اور عبادت خانہ کی بنیاد ڈالی بعد میں اس کا پُر فریب نام مسجد سیدنا محمود ہوا پھر ۱۹۷۹؁ءمیں البشریٰ نام کی ایک میگزین بھی جاری کی گئی جو اس وقت بھی چھپتی ہے ،یاد رہے کہ کہ یہ سب قابض بر طانوی اقتدار کی پشت پناہی میں ہوا ،اس وقت کبا بیر کی کل آبادی تین ہزار ہے جن کی اکثریت قادیانی ہے ،عرب میں قادیانیت کی تبلیغ کا مر کز یہی ہے ۱۹۴۸؁ ء میں قادیانیت اہل عرب میں نہ پھیل سکی ان کی کل تعداد اس سے زیادہ نہ تھی لیکن یہود اور اہل مغرب نے ان پر امداد کا دہانہ کھول دیا ،چنانچہ یہ لوگ جدید ترین میڈیا کا استعمال اپنے افکار کے پھیلانے میں کر نے لگے اور آج بھی اسلام کے لباس میں لوگوں کو دھوکہ دینے کا یہ سلسلہ جاری ہے ، یہود کی طرف سے انہیں خوب رعایت دی جاتی ہے ،مدارس ومراکز کے قیام اور کتابو ں کی تقسیم وغیرہ کیلئے انھیں بھر پور سر مایہ فراہم کیا جاتا ہے ،اور اس سےیہود کا فائدہ یہ ہے کہ ہ ظاہری جنگ اور مشق وستم کے علاہ اندرونی طورپر انھیں جیسے لوگوں کے استعمال سے مسلمانوں کوعقائد ،سیاست اور سماجی لحاظ سے کمزور کر رہے ہیں ۔
التلفزیون الاسلامی الاحمدی نام سے قادیانیوں کا ایک چینل چلتا ہے اور انٹر نیٹ پر الجماعۃ الاسیلامیۃ الاحمدیۃ العالمیۃ نام سے ویب سائٹ بھی ہے ،اس ویب سائٹ کے پہلے ہی صفحہ پر کعبہ کی تصویر کے ساتھ کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد الرسول اللہ لکھا ہوا ہے ،نیز عرب قائدین کی عرب مسائل کے حوالے سے تقا ریر بھی اس میں موجود ہیں تاکہ لوگ دھوکہ میں پڑیں اور قابض قوتوں سے تعلقات کا الزام ان سے ہٹ جائے۔
قادیانی یہود کے ساتھ وفاداری کی بات کرتے اور ان کے ساتھ ہتھیار سے جنگ کر نے کو سخت حرام کہتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں یہود کو خوش آمدید کہا اور ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کئے تھے ، مزید کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہود کی ذہانت کی قرآن میں تعریف کی ہے ۔ وآتاکم مالم یوت احدا من العٰلمین ۔ یعنی اللہ نے تمھیں وہ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا ،حالانکہ آیت کا مفہوم ،ان کی مراد کے علاہ ہے ،ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں نے یہود کے ساتھ کبھی جنگ نہ کی بلکہ ان کے ساتھ سارے مظالم عیسائیوں نے ڈھائےاور ان کا قتل عام کیا،اسی طرح کے تمام مخالف اسلام جماعتوں کی پرورش یہوودی اپنے مفاد ات کے تحفظ کیلئے کرتے ہیں،کیونکہ جو کام بذات خود نہ ہو سکتا تھا وہ ان کے ہاتھوں انجام پارہا ہے ،ایسے ہی فرقوں میں بہائی فرقہ بھی ،جس کا مرکزِ دعوت بھی اسرائیل میں ہے
،مدارس ومراکز کے قیام اوور ہر طرح کھلی آزادی انھیں بھی حاصل ہے ،جھوٹ بولنا اور حقائق کا چھپانا ان کا بھی کام ہے ،ان کی سر گر میاں مغربی پٹی اور قدس تک رہتی ہیں ،ویسے پورا عرب ان کا نشانہ ہے ،عکا اور حیفا میں ان کے مقدس مقامات ہیں، انھیں یہودیوں جیسی مراعات حاصل ہیں، عہد قدیم کا حوالہ دیتے ہو ئے انھوں نے بھی فلسطین میں یہودیوں کے قیام کو درست مانا ہے ، ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو یہ بھی حرام قرار دیتے ہیں ،یہ ہر قت کامل صلح اور امن کی باتیں کرتے ہیں اور یہودیوں سے وفاداری کے گیت گاتے ہیں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کا تعلق اسی فرقہ سے ہے ، یہودی میڈیا ان سب کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتا ہے اور کہتا ہے کہ فکر اسلامی کے میدان میں انھیں قائد انہ مقام حاصل ہے ، جبل کرمل پر حیفا میں اپریل ۱۹۳۸؁ء میں ان کا عبادت خانہ ۲۵۰ ملین ڈالر کی لاگت کے ساتھ تعمیر ہوا اس کا نام بیت العدل ہے ، اس کا اہتمام انتخابات کے مراحل سے گزر کر ۹ بہائی افراد سنبھالتے ہیں ،حیفا میں ان کا بھی عالمی دینی مر کز ہے ،ان کے مذہبی پیشوا مرزا حسین علی کو یہودنے توریت سے ڈھونڈ کر بہا ء اللہ کے لقب سے نوازا، اسی مناسبت سے انھیں بہائی کہا جاتا ہے ۔ مذہبی کتابوں میں مماثلت کے ساتھ چھٹکارے کی علامتوں کے بارے میں بھی دونوں متفق ہیں یعنی یہ لوگ بھی فلسطین میں یہود کے آباد ہو جانے کوخلاصی کی علامات میں نہایت اہم قرار دیتے ہیں ،قیام اسرائیل سے قبل ۱۹۱۱؁ء میں سوئزر لینڈ کے اندر یہودیوں کی میٹنگ میں بہا ء اللہ کے بیٹے عباس عبد البہا نے بھی حصہ لے کر پانچویں کالم کا کردار ادا کیاتھا ، چنانچہ اسے دوسرے انعامات کے ساتھ سر کے خطاب سے بھی نوازا گیا ۔
۱۹۴۸؁ء میں تحریک بہائیت کے لیڈر شوقی آفندی نے سب سے پہلے ہونے الے یہودی زیر اعظم کو مباک باد دی تھی اور کہاتھا کہ ہمارے آپس میں بنیادی تعلقات ہیں اور اکثر چیزں میں ہم متفق ہیں ، بہائی جب بھی معبد اقصیٰ بولتے ہیں تو اس سے مراد عکا میں اپنا قبلہ لیتے ہیں ، جیسے کہ قادیانی مسجد اقصیٰ بول کر ہندوستان میں وقع اپنا عبادت خانہ مراد لیتے ہیں ان کے نزدیک مسجد اقصیٰ کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، ان کا مقصد ہی اہل ِاسلام کے مقدسات کی وقعت مٹانا ہے ۔
یہودیوں نے ۱۹۴۸؁ء میں دروزی فر قے کو بھی اہمیت دی،انہوں نے بھی یہود کے ساتھ مسلمانوں کے اختلافات کو اپنے لئے غنیمت سمجھا ،اس وقت ان کی تعداد ۲۵ ہزار سے زائد نہ تھی اس فر قے نے اعلان کیا تھا کہ مسئلہ فلسطین سے ہماراکچھ لینا دینا نہیں ہے ،موجودہ وقت میں مقبوضہ فلسطین کے اندر ان کی تعداد ایک لاکھ ۲۰ ہزار ہے ،ویسے ان کی کل تعداد شام ، لبنان اور اسرائیل میں ۳لاکھ ہے ، حکومت اسرا ئیل کے قیام کے بعد ان کی نیت کے مطابق یہود نے اپنی فوج میں اقلیتی یونٹ قائم کرکے دروزی جوانوں کااستعمال کیا جو کہ فلسطینیوں کے حق میں نہایت خونخوار ثابت ہو ئے فی الحال اس یو نٹ کی تعداد ۱۹ ہزار ہے ،ان کا کام جا سوسی اور فلسطینیوں کے گھروں میں گھس گھس کر انھیں کوفزدہ کرنا ہو تا ہے ،ان کے مذہبی پیشوا موفق طریف کی نہ صرف تائید حاصل ہے بلکہ وہ اپنے لوگوں سے نہایت اخلاص کے ساتھ اسرائیل کی طرف سے لڑنے کی تلقین کرتا ہے ، شرع میں دروزی کا شتکار تھے، لیکن اسرائیل نے ان کی زمین چھین کر ان کا ذریعہ معاش تباہ کردیا ،بالآخر یہ لوگ اسرائیلی فوج میں نوکری کر نے پر مجبور ہو ئے یہاں تک کہ ۱۹۵۵؁ء میں دروزی پیشواؤں نے ایک ایسی درخواست پر دستخط کئے جس میں اسرائیلی حکومت سے دروز سے جبری خدمت لینے کی درخواست کی گئی تھی، لیکن ان ساری وفا داریوں کی با وجود یہ لوگ ایک طرف تمام عرب سے کٹ گئے ہیں دوسری طرف یہودی ان کے ساتھ جانبدارانہ اور امتیازی سلوک کرتے ہیں اور انھیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، تمام اہم عہدوں سے انھیں دور رکھا جاتا ہے ان کے بارے میں ایک صحافی کا تبصرہ بالکل صحیح ہے کہ یہ حقوق کے لحاظ سے عرب ہیں اور فرائض کے لحاظ سے یہودی ہیں، اسی وجہ سے بہت سے دروزی اپنے مساوی حقوق کا مطالبہ کرنے لگے ہیں کسی وقت جب شیرون مسجد اقصیٰ میں داخل ہو گیا تھا ، اس وقت اس کے ساتھ سیکورٹی کے طور پر دروزی جوان ہی تھے ان کے یہاں بھی مسجد اقصیٰ کی کوئی وقعت نہیں ہے ، غرض کہ اسرائیل ایسے ہی گمراہ فر قوں سے خدمات لے کر مسلمانوں ہر لحاظ سے کمزور اور ذلیل کر رہا ہے اور انھیں ہر طرح سے چھوٹ دے کر اسلام کی جڑیں کھود رہا ہے ، اللہ ہماری حفاظت فر مائے ،آمین
 
Top