خاکہ برائے اردو زبان

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

خاکہ برائے اردو زبان

ڈاکٹر شعیب رضا خاں وارثی​

میں اردو زبان ہوں، میرا جنم ہندوستان میں ہوا ہے۔ وہی ہندوستان جس کو بڑے بڑے صوفیائے کرام کی سرپرستی حاصل رہی ہے، جس کی گنگا جمنی تہذیب پوری دنیا میں آج بھی عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ میرے والدین کے بارے میں تو نہیں معلوم، ہاں اتنی بات ضرور معلوم ہے کہ میرا خاندان ہندآریائی ہے اور سنسکرت کو میری ماں کہا جاتا ہے۔ یوں تو میرا شجرہ ہندوستانی زبانوں کی تاریخ میں سنہرے حرفوں سے لکھا ہوا ہے، تاہم پھر بھی کچھ لوگ مجھے باہر کی زبان کہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بڑے بڑے جلسوں میں میرا رشتہ ہندوستان سے جوڑتے ہیں(چاہے وہ نیتا ہوں، ابھینیتا ہوں یا پھر میرے ادب کے لوگ) تمام دلائل کو پیش کرنے میں پیچھے نہیں رہتے ہیں۔ میری زندگی کا سفر یوں تو صدیوں پر محیط ہے اور میری اس زندگی کا کچھ حصہ ہندوستان کی آزادی سے بھی جوڑا جاتا ہے، اس سلسلے میں تمام لوگ ایک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ میں نے آزادی کی جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور انقلاب زندہ باد جیسا نعرہ بھی میرے بطن سے پیدا ہوا تھا اور اس نعرے کو سن کر انگریزوں کا دل دہل جاتا تھا، ایک مجاہد آزادی نے مجھ میں سرشار ہو کر کہا تھا:
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
میں نے نہ صرف انگریزوں سے بلکہ ان کی زبان انگریزی سے بھی جنگ لڑی تھی۔ اس کے علاوہ میری زندگی کا اب تک کا سفر میرے ادب کے شعری اور نثری سرمائے کی تاریخ میں بھی موجود ہے۔ غالبؔ میری زبان کا ہی شاعر ہے جس کی شاعری کے آج دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ابھی حال ہی میں میری ماں سنسکرت زبان میں بھی غالبؔ کا ترجمہ ہوا ہے۔ اب پرانی باتوں کو دوہرانے سے کیا فائدہ، میں اب ماضی سے نکل کر حال کی طرف آتی ہوں۔ آج کل میرے نام سے بڑے بڑے کونسل اور اکیڈمیوں کا جال پورے ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے۔ میرے نام سے اونچے اونچے مکان بھی ہیں، میرے علاوہ میرے شاعروں کے نام سے بھی کئی ادارے قائم ہیں۔ میری وجہ سے ہزاروں لوگ بنا علاج معالجہ کے ڈاکٹر کہلاتے ہیں اور میری ہی وجہ سے بہت سی یونیورسٹیوں کے شعبوں میں میرے شعبے قائم ہیں، جہاں لوگ اپنے آپ کو میرے نام کا پروفیسر، ریڈر اور ٹیچر بتاتے ہیں۔ میرے نام کا ڈنکا صرف ہندوستان میں نہیں بجتا ہے، بلکہ آج ہندوستان سے باہر بھی میرا سکہ چلتا ہے۔ بہت سے ایسے اشخاص ہیں جو کبھی اپنے گاؤں اور گھر سے باہر بھی کہیں نہیں نکلے ہوںگے، تاہم میرے نام سے اب تک وہ پوری دنیا کا سفر کرچکے ہیں، بلکہ بہت سے لوگ میرے سفیر کہلاتے ہیں اور میں یہ بات بھی فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ ہزاروں، لاکھوں گھروں میں صرف میری وجہ سے چولہا جلتا ہے، جو لوگ میرا رونا روتے ہیں اگر وہ مجھے نہیں پڑھتے تو شاید انہیں کوئی جانتا بھی نہیں، ان کی پہچان صرف اور صرف میری وجہ سے ہے۔ یہ سب باتیں کم ظرفی کی ہیں، مگر ان سب باتوں میں حقیقت بھی ہے۔ میرے نام سے پورے ملک میں ہر سال فروری اور مارچ کے ماہ میں بڑے بڑے سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں۔ ان سیمیناروں میں لوگ میری بدحالی کا رونا روتے ہیں اور پھر روتے روتے لوگ میرے مستقبل کو تاریک بتا کر میری موت کا بھی اعلان کردیتے ہیں۔ اس اعلان کے بعد ایک چھوٹا سا وقفہ کھانے کا ہوتا ہے جسے اگر میری بھتی کا کھانا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، وہ قورمہ اور بریانی کی شکل میں ہوتا ہے، اسے کھاتے ہیں اور اگلے برس میری برسی کا انتظار کرتے ہیں تاکہ پھر سب جمع ہوں اور پھر رونا دھونا ہو اور ایک چھوٹے سے بریک (Break) کے بعد کھانا پینا ہو۔ اس طرح ہر سال میری قبر کھودی جاتی ہے، مجھے ہر سال دفنایا جاتا ہے، ہر سال میرے مزار پر میلہ لگتا ہے، ہر سال میں شہید ہوتی ہوں ؎
شہیدوں کے مزاروں پر لگیںگے ہر برس میلے
وطن پر مرنے والوں کا یہی باقی نشاں ہوگا
ایک زمانہ تھا جب میری تعریف میں داغؔ دھلوی نے کہا تھا ؎
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
آج میری دھوم ہندوستان سے باہر بھی ہے، توداغ کے اس شعر کو اب اس طرح پڑھا جانے لگا ہے:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
میرے خیال سے کسی بھی شخص یا کسی زبان کو اپنے وطن کی سند پیش کرنے کے لیے ایک یا دو گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے، مگر میں نے اپنے ہندوستانی ہونے کے شواہد اتنے زیادہ پیش کردیے ہیں کہ اب شاید کوئی اس بات کی سند نہ مانگے کہ میں ہندوستان کی نہیں ہوں، یہ مسئلہ اب ختم ہوچکا ہے۔ بہت دنوں تک یہ مسئلہ بھی چلتا رہا کہ میں ہندو ہوں یا مسلمان، بلکہ کچھ لوگوں نے یہاں تک تحقیق کرلی تھی کہ میں مسلمان ہوں یعنی مسلمانوں کی زبان ہوں اور بے چارے مسلمانوں نے اس بات کو نہایت شریفانہ طریقے سے مان بھی لیا تھا وہ تو بھلا ہو مرلی منوہر جوشی جی کا، جنہوں نے ابھی حال ہی میں میرے کونسل کے لیے نئی جگہ دی اور اپنی تقریر میں تمام اردو والوں کو بتایا کہ اردو ہندوستان کی زبان ہے اور یہ صرف مسلمانوں کی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی زبان ہے۔ اب پھر ایک بار مسلمان اس بات پر غور کرنے لگے ہیں کہ میں صرف ان کی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی زبان ہوں:
سب میرے چاہنے والے ہیں، مرا کوئی نہیں
میں بھی اس ملک میں اردو کی طرح رہتا ہوں
آج کے دور کی سیاست میں اس شعر کو سمجھنا جتنا آسان ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے، کیوںکہ یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ کون اپنا ہے اور کون پرایا۔ آئیے! ذرا اب اس تہذیب کا بھی ذکر کیا جائے جس کو میرے نام سے جوڑا جاتا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ میرے ساتھ میری تہذیب بھی تھی، تاہم آج مجھے اپنے کسی پروگرام میں وہ تہذیب نظر نہیں آتی مثلاً کسی مشاعرے میں آپ جائیے، وہاں آپ دیکھیںگے کہ جب کسی شاعر کو اس کے اچھے شعر پر داد دی جاتی ہے تو لوگ تالی بجانے لگتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ وہاں مشاعرہ نہیں، بلکہ چھ نمبر کے لوگ رقص کر رہے ہوں، جب کہ ایک وقت تھا کہ لوگ اچھے شعر پر داد دیتے تھے تو سبحان اللہ، ماشاء اللہ اور واہ واہ کیا کرتے تھے۔ آج اچھے شعر کو لوگ سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اگر کسی شاعر یا شاعرہ کی اچھی آواز ہو تو وہ میر ابڑا شاعر یا شاعرہ ہوجاتی ہے۔ پہلے میرے مشاعرے میں شمع اس لیے جلائی جاتی تھی کہ مشاعرے رات کو ہوتے تھے اور رات کو شمع جلا کر روشن اس لیے کیا جاتا تھا کہ رات کی تاریکی نظر نہ آئے۔ مشاعرے اب بھی رات کو ہوتے ہیں لیکن اب مرکری کی روشنی میں شمع جلانا ایسا ہی لگتا ہے جیسے کوئی خوبصورت عورت مزید میک اپ کرلے۔ میرے خیال سے آج اگر شمع نام کی شاعرہ کو شاعروں کے بیچ بٹھا دیا جائے تو بے چاری موم بتی کی تذلیل نہ ہو اور یوں اس کی بے عزتی خراب نہ ہو کہ جس طرح ہوتی ہے۔
مجھ پر اور میرے ادب پر تحقیق کرنے والے محققین کے چہروں پر ہمیشہ افسردگی اور فیل بیڈفیکٹر نظر آتاہے۔ جب کہ آج زور و شور سے اعلان ہو رہا ہے کہ چاہے کوئی زبان کا آدمی ہو وہ فیل گڈ فیکٹر محسوس کر رہا ہے۔ اس اعلان کے بعد بس میں نے اپنے لوگوں کے چہروں پہ خوشی نہیں دیکھی، اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ میرا ہر عاشق میری خدمت میں کچھ زیادہ مصروف ہے اور اس مصروفیت کے باعث اس کا چہرہ اداس ہوتا ہے، لیکن اس کی ایک وجہ میرے ایک ریسرچ اسکالر نے یوں بیان کی ہے کہ بھائی میرے شعبوں میں خوبصورت لڑکیوں کا فقدان ہے جدھر دیکھو مرثیے ہی مرثیے نظر آتے ہیں، غزلیں تو لگتا ہے سب غزالاں کے ساتھ جنگل میں چھپ گئی ہیں۔ جب میرے ایک نقاد شمس الرحمن فاروقی سے شعیب رضاخاں وارثی نے یہ پوچھا کہ صاحب یہ بتائیے کہ ہم اردو کی خدمت کیسے کرسکتے ہیں تو انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں ہنستے ہوئے کہا :’’جاؤ میاں تم کیا اردو کی خدمت کرو گے، اردو تو خود ہزاروں خاندانوں کی خدمت کر رہی ہے۔‘‘ تب سے شعیب رضا خاں وارثی نے اپنے آپ کو میرا خادم کہنے کے بجائے میرا سپاہی کہنا شروع کردیا ہے اور اس بات کی دلیل یہ دی کہ مجھے اپنے ہی لوگوں سے خطرہ ہے، اس لیے مجھے آج خدمت کی نہیں حفاظت کی زیادہ ضرورت ہے۔
معاف کیجئے، میرا اتنا رونا رویا جاتا ہے کہ میں خود بھی اس کے سامنے اپنا رونا رونے بیٹھ گئی، اس لیے میں اس موقع پر یہ کہوں گی کہ اے میرے خادمو! اے میرے پر ستارو! اور مجھے بولنے والو! جو جس جگہ میرے لیے کام کر رہا ہے وہ صدق دل سے کام کرتا رہے۔ انشاء اللہ میں کبھی بھی اپنے ملک سے ختم نہیں ہوں گی۔(بشکریہ چوتھی دنیا)


 
Top