مروجہ افطار ی (افطار پارٹی) کا حکم

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سوال: آج کل کی مروجہ افطاری کا کیا حکم ہے ؟ جس میں درج ذیل صورتیں پائی جاتی ہیں .
چندہ فرا ہم کر کے افطاری کی اشیاء کا انتظام کیا جاتا ہے .
افطاری میں غیر مسلموں کو بھی دعوت دی جاتی ہے.
بسا اوقات غیر مسلم خود مسلمانوں کو روزہ افطار کراتے ہیں .
شرعی حکم سے آگاہ کریں .

الجواب: حامدو مصلیا ومصلیا . جہاں تک افطاری کرانے کا سوال ہے تو معلوم ہے کہ اگر محض جذبہ احتساب سے حسبۃ للہ ہو ، تو مستحسن اور مستحب ہے ، باقی جو صورت آپ نے تحریر فر مائی ہے ، کہ اس کے لئےچندہ ، تداعی ، غیر مسلموں کی شرکت ، نیز اس نتیجے میں ان کے گھروں پر افطاری کی دعوت میں حاضری ، بچند وجوہ اس کا استحسان ہی نہیں ، بلکہ جواز بھی مخدوش ہے . 1.اس لئے کہ اس طرح کی تداعی اور اہتمام خیر القرون میں نہیں ملتا .2. دوسروں سے چندہ کرنے میں عمو ما اجبار اور اکراہ ہوتا ہے ، اور معلوم ہے کہ مسلمانوں کا مال بلا طیبِ نفس لینا اور کھانا ، کراہت سے خالی نہیں ، خصوصا افطار میں کہ عین عباد ت ہے ،اور زیادہ قبح ہے ، حدیث پاک میں صاف ارشاد ہے لا یحل مال امرء مسلم الا بطیب نفس منہ '' 3. جب افطاری عبادت اور تتمہ صوم ہے ، پھر اس میں کافروں کے اشتراک کے کیا معنیٰ؟ یہی امہال واستدراج رہا تو آئندہ پھر عید کی نماز میں ، وہ برادرانِ وطن دوش بدوش کھڑے کئے جائیں گے ،اور مسلمان 'ہولی ورام لیلا ' میں شریک نظر آئیگا ،اس تقریر پر بالفرض اگر یہ روپیہ مباح بھی ہوتا تو بھی '' کل مباح او مستحب یفضی الی الحرام '' (2) کے قاعدہ سے حرام اور منہی عنہ ہوگا.
4. شرک ، ظلم کا فر د اعلیٰ ہے ،قال اللہ تعالیٰ ان الشرک لظلم عظیم (3) اور رکون الیٰ الظالمین بنص قطعی حرام ہے ، چنانچہ ارشاد باری ہے 'ولا تر کنوآ الیٰ الذیں ظلموا فتمسکم النار ''(4) اور صورت مسئولہ میں 'رکون'' بلا ضرورت ہے اس لئے بھی قباحت سے خالی نہیں ، نیز اس طرح کی بھیڑ بھڑکا میں ، تفاوت سے بھی حدود کی رعایت نہیں ہو پاتی ، تو عوام سے جب کہ اخوان الشیاطین بھی دوش بدوش ہوں ، کہاں ممکن ہے .
عند الافطار ، دعا مستحق بالاجابہ ہے ، اور دعاءِ افطار سنت ، اور بعد کی دعا بھی معمول سلف ہے ،ان سب کا ترک ، نماز میں تاخیر ، عین افطار کے وقت گپ شپ اور ہنسی مذاق ، نیز ان صورتوں میں ٹھٹھا کا ہونا لازم ہے ،اب دین کی ٹھوڑی سی بھی فہم رکھنے والا خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ اگر مذکورہ فی السوال صورت یا صور کی کہاں تک گنجائش نکل سکتی ہے .
ھذ اما عندی وما ادین عند اللہ ولعل عند غیری احسن منہ . واللہ اعلم بالصوب .

کتبہ :بندہ محمد حنیف غفرلہ .الجواب صحیح : عبد اللہ غفرلہ . (فتاوی ریا ض العلوم ص443تا 444)
 
Top