قرا ن مجيد پڑھنے کى فضيلت کا بيان

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

حديث ۲۵۔ ميں ہے کہ جس وقت چاہے کوئى تم ميں کا اپنے پروردگار سے گفتگو کرنا۔ سو چاہيے کہ قرآن پڑھے يعنى قرآن مجيد کى تلاوت کرنا گويا حق تعالى سے بات چيت کرنا ہے زيادہ غنى لوگوں ميں قرآن کے اٹھانے والے ہيں يعنى وہ لوگ کہ جن کے سينہ ميں اللہ تعالى نے اس کو يعنى قرآن کو رکھا ہے مطلب يہ ہے کہ جس نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کيا اس سے بڑھ کر کوئى غنى نہيں۔ اس پر عمل کرنے کى برکت سے حق تعالى باطنى غنا مرحمت فرماتے ہيں اور ظاہرى کشائش بھى ميسر ہوتى ہے۔ چنانچہ حضرت امام حسن بصرى رحمة اللہ عليہ سے رويات ہے کہ ايک مرد کثرت سے حضرت عمر رضى اللہ تعالى عنہ کے دروازے پر تا تھا دنياوى حاجتوں کے ليے سو کہا حضرت عمر نے اس مرد سے کہ جا اور پڑھ خد اکى کتاب يعنى قرآن مجيد سو چلا گيا وہ مرد پس نہ پايا اس کو حضرت عمر نے۔ پھر آپ اس سے ملے اور آپ اس کے شاکى ہوئے يعنى اس وجہ سے کچھ شکايت فرمائى کہ تمہارى ہم کو تلاش تھى بلا اطلاع کہاں چلے گئے۔ جب کوئى کثرت سے مدورفت رکھتا ہو پھر دفعة نا چھوڑ دے تو انسان کو فکرى ہو ہى جاتى ہے کہ نہ معلوم کہاں چلا گيا کس حال ميں ہے سو اس نے جواب ميں عرض کيا کہ ميں نے اللہ کى کتاب ميں وہ چيز پا لى جس نے مجھے عمر کے دروازے سے غنى اور بے پرواہکر ديا۔ يعنى قرآن مجيد ميں ايسى آيت مل گئى جس کى برکت سے ميرى نظر مخلوق سے ہٹ گئى اورخدا تعالى پر بھروسہ ہو گيا۔ تمہارے پاس دنيا کى حاجت کے ليے تا تھا اب کر کيا کروں۔ غالبا مراد اس سے اس قسم کے مضامين ہوں گے جو اس آيت ميں مذکور ہيں وفى السمائ رزقکم وما توعدون۔ يعنى تمہارى روزى آسمان ہى ميں ہے اور جس چيز کا تم وعد کيے گئے ہو وہ بھى آسمان ميں ہے يعنى تمہارى روزى وغيرہ سب کاموں کا بندوبست ہمارے ہى دربار سے ہوتا ہے پھر دوسرى طرف متوجہ ہونے سے کيا نتيجہ۔ حديث۲،۲۶ ۔ ميں ہے کہ افضل عبادت قرآن کى قراة ہے يعنى بعد فرائض کے تمام نفل عبادت ميں قرآن پڑھنا افضل ہے حديث ۲۶۔ ميں ہے کہ تعظيم کرو قرآن کے ياد رکھنے والوں کى جس نے ان کى تعظيم کى پس بے شک اس نے ميرى تعظيم کى اور آپ کى تعظيم کا واجب ہونا ظاہر ہے حديث ۲۷۔ ميں ہے تم ميں بہتر وہ لوگ ہيں جنھوں نے قرآن پڑھا اور قرآن پڑھايا۔ حديث ۲۸۔ ميں ہے جس نے قرآن پڑھايا اور عمل کيا اس چيز پر جو اس ميں ہے يعنى اس کے احکام پر عمل کيا پہنائے جائيں گے اس والدين کو تاج قيامت کے دن جس کى روشنى زيادہ عمدہ ہوگى آيت کى روشنى سے دنيا کے مکانوں ميں جبکہ وہ آيت تم ميں ہو يعنى دنيا ميں جبکہ تمہارے گھروں ميں آيت روشن ہو جيسى اس کى روشنى ہوتى ہے اس سے بڑھ کر اس تاج کى روشنى ہوگى پس کيا گمان ہے تمہارا اس شخص کے ثواب کے بارے ميں جس نے خود عمل کيا اس پر يعنى قرآن پر جس نے عمل کيا اس کا کيا کچھ بڑا درجہ ہوگا جبکہ اس کے طفيل سے اس کے والدين کو يہ رتبہ عنايت ہوا حديث ۲۹۔ ميں ہے جس نے قرآن پڑھا پھر خيال کيا اس نے کہ کوئى خدا کى مخلوق ميں سے اس نعمت سے بڑھ کر نعمت دا گيا ہے جو جاننے والے کو تزى کرنا اس شخص سے جو اس سے تيزى کرے اور نہ جہالت کرنا اس شخص سے جو اس سے جہالت کرے اور ايسا نہ کرے ليکن معاف کرے اور درگزر کرے بسبب عزت قرآن کے يعنى اہل علم اور قرآن کے جاننے والوں کو چاہيے کہ دنيا کى تمام نعمتوں سے قرآن کے علم کو اعلى اور افضل سمجھيں۔ اگر انہوں نے قرآن کو علم سے بڑھ کر کسى چيز کو سمجھا تو جس ويز کو خدا نے بڑا کيا تھا۔ اس کو حقير کر ديا۔ اور حاکم جس چيز کو بڑا کرے اس کا حقير کرنا کس قدر بڑا جرم ہے۔ اور اہل قرآن کو چاہيے کہ لوگوں سے جہالت اور بد اخلاقى سے پيش نہآئيںکہ قرآن کى عزت اور عظمت اسى بات کو چاہتى ہے اور اگر ان سے کوئى جہالت کرے تو اس کى جہالت کو معاف کريں۔ حديث ۳۰۔ ميں ہے کہ فرمايا جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے کہ قرآن زيادہ محبوب ہے اللہ تعالى کو سمانوں سے اور زمين سے اور ان لوگوں سے جو ان سمانوں اور زمين ميں ہيں يعنى قرں مجيد کا درجہ تمام مخلوق سے اعلى ہے اور قرآن مجيد خدا تعالى کو سب سے زيادہ پيارا ہے رواہ ابو نعيم عن ابن عمر مرفوعا بلفظ القرآن احب الى اللہ من السموات والارض ومن فيہن
از بہشتی زیور
 
Top