{۱۰} دسویں ترا ویح

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
{۱۰} دسویں ترا ویح

یَعْتَذِرُوْنَ تا وَمَامِنْ دَابَّۃٍ ربع (بقیہ واقعہ سورہ یوسف)
وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ اٰتَیْنَاہُ حُکْمًا وَعِلْماً
ترجمہ: اور جب یوسفؑ اپنی پوری قوت اور جوانی پر پہنچ گئے تو ہم نے انکو حکمت اورعلم دیدیا۔
یہ قوت اور جوانی بقول حضرت ابن عباس، مجاہد، وقتادہؓ ۳۳؍سال کی عمر میں اور بقول ضحاکؓ ۲۰؍سال اور بقول حضرت حسن بصریؒ ۴۰؍سال کی عمر میں عطا ہوئی معلوم ہوا کہ حضرت یوسفؑ کو کنویں کی گہرائی میں جو وحی بھیجی گئی وہ وحی نبوت نہ تھی بلکہ لغوی وحی تھی جو غیر انبیاء کو بھی بھیجی جاسکتی ہے۔
حضرت یوسفؑ بازار مصر سے بک کر عزیز مصر کے گھر میں پہنچے تواس گھر کی عورت یوسفؑ پر مفتون ہوگئی اور ان سے اپنا مطلب حاصل کرنے کیلئے انکو پھسلانے لگی اورگھر کے سارے دروازے بند کردئے اور ان سے کہنے لگی کہ جلد آجائو، جب یوسفؑ نے اپنے آپ کو سب طرف سے گھرا ہوا پایا تو پیغمبرانہ انداز پر سب سے پہلے خدا کی پناہ مانگی اور اسکے بعد پیغمبرانہ حکمت کے ساتھ زلیخا کو نصیحت کرنا شروع کیا کہ وہ بھی خدا سے ڈرکر اپنے ارادہ سے باز آجائے۔
قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ اِنَّہٗ رَبِّیْ اَحْسَنَ مَثْوَایَ فرمایاوہ میرا پالنے والا ہے اس نے مجھے آرام کی جگہ دی بظاہر،مطلب یہ تھا کہ تیرے شوہر عزیزمصر نے میری پرورش کی اور مجھے اچھا ٹھکانہ دیا میرا محسن ہے میں اسکے حرم پر دست اندازی کروں؟ یہ تو بڑا ظلم ہے اسمیں زلیخا کو بھی یہ سبق تھا جب میں اسکی چند روزہ پرورش کا اتنا حق پہنچانتا ہوں تو تجھے مجھ سے زیادہ پہنچاننا چاہئے بقول حضرات مفسرین کرام خلوت میں زلیخا نے یوسفؑ کو مائل کرنے کیلئے انکے حسن وجمال کی تعریف شروع کی کہا کہ تمہارے بال کس قدر حسین ہیں یوسفؑ نے فرمایا کہ یہ بال موت کے بعد سب سے پہلے جسم سے علٰحدہ ہوجائیں گے پھر کہا تمہاری آنکھیں کتنی حسین ہیں تمہاراچہرہ کتنا حسین ہے تو یوسفؑ نے فرمایا کہ یہ سب مٹی کی غذا ہے۔
بہرحال اللہ رب العالمین نے اس صالح نوجوان کو ایسے سخت امتحان میں ثابت قدم رکھا اور اللہ نے عین اس وقت میں اپنی حجت وبرہان یوسفؑ کے سامنے کردی جس سے غیر اختیاری میلان آگے بڑھنے کے بجائے بالکل ختم ہوگیا اور یوسفؑ پیچھا چھڑاکر بھاگے۔
جمہورامت اس بات پر متفق ہیں کہ انبیاء علیہم السلام صغیرہ اور کبیرہ ہر طرح کے گناہ سے معصوم ہوتے ہیں بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کیلئے گناہ کے وسوسے اور خیال کو معاف کردیا ہے جبکہ وہ اس پر عمل نہ کرے(قرطبی)
مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ جس وقت یوسفؑ کو یہ امتحان پیش آیا تو فرشتوں نے اللہ جل شانہﷺ سے عرض کیا کہ آپ کا یہ مخلص بندہ گناہ کے خیال میں ہے حالانکہ وہ اس کے وبال کو جانتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انتظار کرو اگروہ یہ گناہ کرلے تو جیسا کیا ہے وہ اسکے نامۂ اعمال میں لکھ دو، اور اگر وہ اسکو چھوڑدے تو گناہ کے بجائے اسکے نامۂ اعمال میں نیکی درج کرو کیونکہ اس نے صرف میرے خوف سے اپنی خواہش کو چھوڑاہے(قرطبی)
قرآن کریم نے اس بات کی وضاحت نہیں فرمائی کہ وہ برہان ربی جو یوسفؑ کے سامنے آئی وہ کیا چیز تھی؟ اسمیں حضرات مفسرین کرام کے مختلف اقوال ہیں، بقول حضرت عبد اللہ بن عباس حضرت مجاہد وغیرہ کے اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ اس خلوت گاہ میں حضرت یعقوبؑ کی صورت اس طرح یوسفؑ کے سامنے کردی کہ وہ اپنی انگلی دانتوں میں دبائے ہوئے انکو متنبہ کررہے ہیں، اور بعض نے فرمایا کہ یوسفؑ کی نظر چھت کی طرف اٹھی تو اسمیں یہ آیت قرآن لکھی ہوئی دیکھی وَلَاتَقْرَبُواالزِّنَا اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃَوَسَائَ سَبِیْلاًOیعنی زنا کے پاس نہ جائو کیونکہ وہ بڑی بے حیائی اور بہت برا راستہ ہے
بعض مفسرین نے فرمایا کہ زلیخا کے گھر میں ایک بُت تھا اس نے بُت پر پردہ ڈالا تو یوسفؑ نے اسکی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ یہ میرا معبود ہے اسکے سامنے گناہ کرنے کی جرأت نہیں، حضرت یوسفؑ نے فرمایا کہ میرا معبود اس سے زیادہ حیا کا مستحق ہے اسکی نظر کو کوئی پردہ نہیں روک سکتا، اور بقول بعض مفسرین یوسفؑ کی نبوت اور معرفت الٰہیہ خود ہی برہان رب تھی، یوسفؑ جب خلوت گاہ میں برہان ربی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور باہر نکلنے کیلئے دروازہ کی طرف دوڑے، توعزیز کی بیوی انکو پکڑنے کیلئے پیچھے دوڑی اور یوسفؑ کا کرتہ پکڑکر انکو باہر جانے سے روکنا چاہا جب وہ نہ رکے تو کرتہ پیچھے سے پھٹ گیا مگر یوسفؑ دروازہ سے باہر نکل آئے اور انکے پیچھے زلیخا بھی، دروازہ پر قفل لگادیا گیا تھا
جب یوسفؑ دوڑکر دروازہ پر پہنچے توخود یہ قفل کھل کر گرگیا، جب دونوں باہر آئے تودیکھا کہ عزیز مصر سامنے کھڑے ہیں توزلیخا سہم گئی اوریوں بات بنائی کہ الزام اور تہمت یوسفؑ پر ڈالنے کیلئے کہ جو شخص آپکی بیوی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے تو اسکی سزا اسکے سواکیا ہوسکتی ہے کہ اسکو قید میں ڈالا جائے یا کوئی سخت سزادی جائے، یوسفؑ اپنی پیغمبرانہ شرافت کی بنیاد پر شاید اسکا راز فاش نہ فرماتے مگر جب اس نے پیش قدمی کرکے آپؑ پر تہمت باندھنے کا اشارہ کیا تو مجبور ہوکر انہوں نے حقیقت کا اظہار کیا کہ ہِیَ رَاوَدَتْنِیْ عَنْ نَفْسِہَا،یہی مجھ سے اپنا مطلب نکالنے کیلئے مجھے پھسلارہی ہے، معاملہ چونکہ بڑا نازک اور عزیز مصر کیلئے اسکا فیصلہ بہت دشوار تھا کہ ان میں سے کسے سچا سمجھے، شہادت اورثبوت کا کوئی موقع نہ تھا
مگر اللہ جل شانہ جسطرح اپنے برگزیدہ بندوں کوگناہ سے بچاکر محفوظ رکھتے ہیں اسی طرح دنیا میں بھی انکو رسوائی سے بچانے کا انتظام معجزانہ انداز سے فرمادیتے ہیں عموماً ایسے موقعوں پر شیرخواربچوں کو بطور معجزہ گویائی عطا فرماکر اپنے مقبول بندوں کی برأت کا اظہار فرمادیتے ہیں،جیسا کہ حضرت مریمؑ پر جب لوگ تہمت باندھنے لگے تو صرف ایک دن کا بچہ حضرت عیسیٰؑ کو پروردگارنے گویائی عطا فرماکر انکی زبان سے والدہ کی پاکی ظاہر فرمادی، اور قدرت خداوندی کا ایک خاص مظہر سامنے کردیا اسی طرح بنی اسرائیل کے ایک بزرگ جریج پر تہمت ایک سازش کے تحت باندھی گئی تونوزائیدہ بچہ نے انکی برأت کیلئے شہادت دی، اسی طرح حضرت موسیٰؑ پر فرعون کو شبہ ہواتو اہلیۂ فرعون کے بال سنوارنے والی عورت کی چھوٹی بچی کو گویائی عطا ہوئی اور اس نے موسیٰؑ کو بچپن میں فرعون کے ہاتھ سے بچالیا۔
بالکل اسی طرح یوسفؑ کے واقعہ میں بروایت ابن عباس اور ابوہریرہؓ ایک چھوٹے بچہ کو اللہ رب العزت نے نہایت عاقلانہ اور حکیمانہ گویائی عطافرمادی جو بچہ اسی گھر میں گہوارے میں ہرچیز سے غافل وبے خبر تھا یوسفؑ کے معجزہ کے طورپر عین اسوقت بول اٹھا جب عزیز مصر اس واقعہ سے سخت پریشانی میں تھا۔
اللہ نے اس بچہ کی زبان سے حکیمانہ بات کہلوائی کہ یوسفؑ کے کرتے کو دیکھو اگر وہ آگے سے پھٹا ہے تب توزلیخا کا کہنا سچا ہے اور یوسفؑ جھوٹے ہوسکتے ہیں اور اگر وہ پیچھے سے پھٹا ہے تو اسمیں اسکے علاوہ کوئی دوسرا احتمال ہی نہیں کہ یوسفؑ بھاگ رہے تھے اور زلیخا انکو روکنا چاہتی تھی یہ ایسی بات ہے جو ہرایک کی سمجھ میں آسکتی تھی، اور بتلائی گئی علامت کے مطابق کرتہ کا پیچھے سے پھٹ جانا دیکھا گیا تو یوسفؑ کی برأت ظاہر ہوگئی تو عزیز مصر کو یقین ہوگیا کہ قصورزلیخا کا ہے یوسفؑ بری ہیں، چنانچہ عزیز نے زلیخا کو خطاب کرکے کہا، انہ من کید کن، یہ سب تمہارا مکروحیلہ ہے کہ اپنی خطا دوسرے کے سرڈالنا چاہتی ہو عورتوں کا مکر بہت بڑا ہے کہ اسکو سمجھنا اور اس سے نکلنا آسان نہیں ہوتا۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے نبیٔ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا عورتوں کا کیداور مکر شیطان کے کیدومکر سے بڑھا ہوا ہے، عزیز مصر نے زلیخا کو اسکی خطا بتلانے کے بعد یوسفؑ سے کہا کہ اے یوسف تم اس واقعہ کو نظر اندازکرو کسی سے نہ کہو تاکہ رسوائی نہ ہو پھر زلیخا کو خطاب کرکے کہا وَاسْتَغْفِرِی لِذَنْبِکِ اِنَّکِ کُنْتِ مِنَ الَخٰطِئِیْنَ،تم اپنی غلطی کی معافی مانگو اپنے شوہر سے یا یوسفؑ سے دونوں کا امکان ہے
یہ واقعہ چھپانے کے باوجوددرباری لوگوں کی عورتوں میں پھیل گیاتوانہوں نے زلیخا پر لعن طعن کرنا شروع کیا، بقول بعض مفسرین یہ پانچ عورتیں عزیز مصر کے قریبی افسروں کی بیویاں تھیںجوآپس میں کہنے لگیں کہ دیکھو کیسی حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ عزیز مصر کی بیوی اتنے بڑے مرتبے کے باوجود اپنے نوجوان غلام پر فریفتہ ہوکر اس سے اپنی مطلب برآری چاہتی ہے ہم تو اسکو بڑی گمراہ سمجھتے ہیں۔
جب زلیخا نے ان عورتوں کے مکرکا حال سنا تو انکو ایک کھانے کی دعوت پر بلایا اور انکے لئے مسند تکیوں سے آراستہ کی، جب یہ عورتیں آگئیں اور انکے سامنے مختلف قسم کے کھانے او رپھل حاضر کئے جن میں بعض چیزیں چاقوسے تراش کر کھانے کی تھیں اس لئے ہر ایک کو ایک ایک چاقوبھی دیدیا، جسکا ظاہری مقصد تو پھل کاٹنا تھا مگر دل میں یہ بات پوشیدہ تھی کہ یہ عورتیں یوسفؑ کو دیکھ کر حواس باختہ ہوجائیں گی اور چاقو سے اپنے ہاتھ زخمی کرلیں گی، زلیخا نے یوسفؑ سے کہا جو کسی دوسرے مکان میں تھے ذرا باہر آجائو، یوسفؑ باہر اس مجلس میں تشریف لے آئے، ان عورتوں نے جب یوسفؑ کو دیکھا تو ان کے حسن جمال سے حیران رہ گئیںاور( پھل تراشتے وقت) اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور کہنے لگیں،
حَاشَ لِلّٰہِ مَاہٰذَا بَشَرًا، اِنْ ہٰذَااِلَّا مَلَکٌ کَرِیْمٌ، کہ خدا کی پناہ یہ شخص آدمی ہرگز نہیں، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے یعنی ایسا نورانی تو فرشتہ ہی ہوسکتا ہے،زلیخا نے کہا کہ وہ شخص یہی ہے جسکے بارے میں تم مجھے برابھلا کہتی تھیں واقعی میں نے اس سے اپنا مطلب حاصل کرنا چاہاتھا مگر یہ پاک صاف رہا، اور اگر آئندہ یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو بے عزتی کے ساتھ جیل خانہ بھیجا جائیگا، اس وقت یہ سب عورتیں یوسفؑ کو کہنے لگیں کہ یہ عورت تمہاری محسن ہے اسکی مخالفت نہیں کرنا چاہئے تو حضرت یوسفؑ نے جب یہ دیکھا کہ یہ عورتیں بھی زلیخا کی موافقت اور تائیدکررہی ہیں اور انکے مکروکید سے بچنے کی ظاہری کوئی تدبیر نہ رہی تو اللہ جل شانہ کی طرف رجوع فرمایا رب السجن احب الی ممایدعوننی الیہ،بارگاہ رب العزت میں عرض کیا اے اللہ یہ عورتیں مجھے جس کام کی طرف دعوت دے رہی ہیں اس سے تو مجھے جیل خانہ زیادہ پسند ہے، اور اگر آپ ہی انکے دائو پیچ، مکروفریب کو مجھ سے دور نہ کریں توممکن ہے کہ میں انکی طرف مائل ہوجائوں۔
یوسفؑ کا یہ فرماناجیل خانہ مجھے پسند ہے کسی قیدوبند کی طلب وخواہش نہیں بلکہ گناہ کے مقابلہ میں اس دنیوی مصیبت کو آسان سمجھنے کا اظہار ہے اور بعض روایات کے مطابق جب یوسفؑ قید میں ڈالے گئے تو اللہ کی طرف سے وحی آئی کہ آپ نے قید میں اپنے آپ کو خود ڈالا ہے اور اگر عافیت مانگتے تو آپ کو مکمل عافیت مل جاتی، اس سے معلوم ہوا کہ کسی بڑی مصیبت سے بچنے کیلئے دعا میں یہ کہنا کہ اس سے تو یہ بہتر ہے کہ فلاں چھوٹی مصیبت میں مجھے مبتلا کردے مناسب نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ سے ہر مصیبت اور بلا کے وقت عافیت ہی مانگنی چاہئے، اسی لئے نبی کریمﷺ نے صبر کی دعا مانگنے سے ایک شخص کو منع فرمایا کہ صبر تو بلاء ومصیبت پر ہوتا ہے تو اللہ سے صبر کی دعا مانگنے کے بجائے عافیت کی دعامانگو(ترمذی)
نبی کریمﷺ کے چچا حضرت عباسؓ نے عرض کیا کہ مجھے کوئی دعا تلقین فرمادیجئے تو آپؐنے فرمایا کہ اپنے رب سے عافیت کی دعا مانگا کریں، حضرت عباسؓ فرماتے ہیں کہ کچھ عرصہ کے بعد پھر میں نے آپؐ سے تلقین دعاء کا سوال کیا، تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے دنیا وآخرت کی عافیت مانگا کریں(تفسیر مظہری)
چنانچہ پروردگارعالم نے یوسفؑ کی دعا قبول فرمالی اور ان عورتوں کے مکروحیلہ کو ان سے دور رکھا، اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے جال سے بچانے کیلئے یہ انتظام فرمادیا کہ عزیز مصر اور اسکے دوستوں کو اگرچہ یوسفؑ کی بزرگی اورتقویٰ وطہارت کی کھلی نشانیاں دیکھ کر انکی پاکی کا یقین ہوچکا تھا مگر شہر میں اس واقعہ کا چرچا ہونے لگا تھاتو اسکو ختم کرنے کیلئے ان کو اس میں مصلحت نظر آئی کہ کچھ عرصہ کیلئے یوسفؑ کو جیل میں بند کردیا جائے تاکہ اپنے گھر میں ان شبہات کا کوئی موقع بھی باقی نہ رہے اور لوگوں کی زبانوں سے اسکا یہ چرچا بھی ختم ہوجائے۔
چنانچہ حضرت یوسفؑ کے ساتھ اور دوغلام بھی جیل خانے میں داخل ہوئے جن میں ایک ساقی تھا اور دوسرا روٹی پکانے والا باورچی تھا انکی قید کا سبب یہ شبہ تھا کہ انہوں نے کھانے میں اور شراب میں زہر ملاکر بادشاہ کو دیا ہے اسکا مقدمہ زیر تحقیق تھا اس لئے قید کردئے گئے، حضرت یوسفؑ جیل میں داخل ہوئے تو اپنے پیغمبرانہ اخلاق اور رحمت وشفقت کے ذریعہ سب قیدیوں کی دلداری اورخبر گیری کرتے تھے اور رات بھر عبادت خدامیں مشغول رہتے تھے انکے یہ حالات دیکھ کر جیل کے سب قیدی آپ کی بزرگی کے معتقد ہوگئے، ان دوقیدیوں نے ایک دن کہا کہ حضرت آپ ہمیں نیک صالح بزرگ معلوم ہوتے ہیں اس لئے ہم اپنے خواب کی تعبیر دریافت کرنا چاہتے ہیں حضرت ابن عباسؓ کے قول کے مطابق حقیقتاً انہوں نے یہ خواب دیکھے تھے بقول حضرت عبداللہ بن مسعودؓ خواب کچھ نہ تھا بلکہ محض حضرت یوسفؑ کی آزمائش کیلئے خواب بنا لیا تھا اور جب بعض لوگوں نے یوسفؑ سے اپنی عقیدت ومحبت کا اظہار کیا تو آپؑ نے فرمایا کہ خداکیلئے مجھ سے محبت نہ کرو کیونکہ جب کسی نے مجھ سے محبت کی ہے تو مجھ پر آفت آئی ہے بچپن میں میری پھوپی کو مجھ سے محبت تھی تو اسکے نتیجہ میں مجھ پر چوری کا الزام لگا پھر میرے والد نے مجھ سے محبت کی تو بھائیوں کے ہاتھوں کنویں کی قید پھر غلامی اور جلاوطنی میں مبتلا ہوا، عزیز مصر کی بیوی نے مجھ سے محبت کی تو اس جیل میں پہنچا (ابن کثیر)
بہرحال، ان دوقیدیوں میں سے ایک شاہی ساقی تھی اس نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں انگور سے شراب نکال رہاہوں، اور دوسرے قیدی باورچی نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ میرے سرپر روٹیوں کا ٹوکرا ہے اس میں سے جانور نوچ نوچ کر کھارہے ہیں، انھوں نے درخواست کی کہ ہمیں ہمارے خوابوں کی تعبیر بتلائیے،وَدَخَلَ مَعَہُ السِّجْنَ فَتَیٰنْ آیت میں مذکورہ قیدیوں کے نام کے سلسلہ میں اختلاف ہے (۱)مجلت(۲)بنو ء دوسرا قول سرہم اورشرہم تھاتیسرا قول راشان اور مرعیش ہے، چوتھا قول یسرہم اورسرہم تھا پانچواں قول محلت اوربنواء تھا۔
(ماخوذ ازقرطبی ج ۹،ص۱۸۹، الاتقان ج ۲ ص ۱۴۶)
تو یوسف ؑ نے پیغمبرانہ انداز پر پہلے ان لوگوں کے قلوب میں اعتماد پیدا کرنے کیلئے کہا کہ تمہارا کھانا آنے سے پہلے ہی میں تمہیں بتلادیتا ہوں کہ کس قسم کا کب آئیگا چنانچہ ایسا ہی ہوا، پھر انہیں دعوت دی کہ ہمارے لئے کسی طرح جائز نہیںہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو اسکی خدائی صفات میں شریک سمجھیں۔
وآخردعوانا ان الحمد للہ رب العٰلمین
(بقیہ واقعہ انشاء اللہ جلد سوم میں بیان کیا جائیگا)
 
Top