قرض دینے اور لینے والے کے مال میں زکوۃ کا حکم

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
1( قرض دینے والے کے مال میں زکوۃ کا حکم.​

کسی شخص نے دوسرے کوقرض دیا یا قرض کی مقدار اتنی ہے کہ وہ تنہا نصاب کو پہنچ جاتی ہے یا قرض دینے والے کے باقی مال کے ساتھ مل کر نصااب کو پہمچتی ہے دونوں صورتوں میں زکوۃ نکالنے کیلئے قدرے تفصیل ہے ،''فقہ السنۃ '' کتاب کے مطابق قرض کی دو حالتیں ہیں .

پہلی حالت: قرض لینے والا قرض کا معترف ہو اور مقر یعنی اقرار کر نے والا ہے ،ایسے قرض کی زکوۃ کے بارے میں فقہا کی چند رائیں ہیں جو ذیل میں پیش کی جارہی ہیں .

پہلی رائے:
ایسی صورت میں اصل مالکِ مال ( قرض دینے والے ) پر زکوۃ واجب ہے مگر قبضہ سے پہلے زکوۃ نکالنا واجب نہیں ہے قرض پر قبضہ ہو نے کے بعد ایک ہی ساتھ سال گذشتہ کی زکوۃ بھی ادا کرے .یہ حضرت علی ، سفیان ثوری ،ابو ثور ،احناف اور حنابلہ کا مسلک ومذہب ہے .

دوسری رائے :
اصل مالکِ مال پر زکوۃ نکالنا فوری واجب ہے اگر چہ مالِ قرض پر قبضہ نہ ہو ، کیونکہ اصل مالک مال کو واپس لینے والے اس میں تصرف کرنے پر قادر ہے ، چنانچہ اسکی زکوۃ نکالنا بھی ضروری ہے جیسا کہ مالِ امانت اور مالِ ودیعت میں اصل مالک ِمال ہی زکوۃ نکالنے کا مکلف ومامور ہوتا ہے . یہ حضرت عثمان ،ابن عمر ،جابر ، طاؤس ، نخعی ، حسن ، زہری ،قتادہ اور امام شافعی کا مسلک ومذہب ہے .

تیسری رائے :
اس پر زکوۃ نہیں ہے کیونکہ وہ مال غیر نامی ہے جیسا کہ آلہ حرفت وصنعت اورسامان ذراعت پر واجب نہیں ہے ، یہ مسلک حضرت عکرمہ کا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابن عمر سے بھی ایسا ہی مروی ہے .

چوتھی رائے : مالِ قرض پر قبضہ کے بعد صرف ایک سال کی زکوۃ نکالے گا یہ حضرت سعید بن المسیب اور عطا بن ابی رباح کا مسلک ہے .

قرض کی دوسری حالت :

قرض لینے والا تنگد ست ہے یا قرض کا انکاری ہے یا نا دہندہ ہے مال رہتے ہوئے ٹال مٹول کرتا ہے تو ایسی صورت میں کہا گیا ہے کہ زکوۃ واجب نہیں ہے کیونکہ صاحب مال اپنے مال سے فائدہ اٹھانے پر قادر نہیں ہے یہ حضرت قتادی ،اسحاق ،ابوثور اور ابو حنیفہ کا قول ہے .
یہ بھی کہا گیا ہے کہ قبضہ ہونے کے بعد سال گزشتہ کی زکوۃ نکالے گا کیونکہ یہ مالِ مملوک ممکن التصرف ہے چناچہ سالِ گزشتہ کی زکوۃ واجب ہو گی ، جیسا کہ تونگر اور مالدار کو قرض دینے کی صورت میں زکوۃ نکالنے کا مکلف اور مامور اصل مالکِ مال ہی ہوتا ہے ، یہ حضرت سفیان ثوری ،اور ابو عبیدہ کا قول ہے ،اس ضمن میں حضرت امام شافعی کے دو قول ہیں ، جبکہ حضرت عمر بن عبد العزیز ، حسن، لیث ، اوزاعی اور امام مالک کی رائے یہ ہے کہ مالِ قرض پر قبضہ ہو نے کے بعد گذشتہ سال کی زکوۃ نکال دینا کافی ہے .( فقہ السنۃ)


قرض لینے والے کے مال پر زکوۃ نکالنے کا حکم

اس ضمن میں حضرات شوافع کہتے ہیں کہ جو شخص اموالِ زکوۃ میں سے کسی نصاب کا مالک ہو اور اس پر حولانِ حول یعنی سال گذر جائے تو ایسے شخص پر زکوۃ واجب ہے ،زکوۃ کا نکالننا ضروری ہے اگر چہ وہ اتنا مقروض ہو جو پورے سال کو مستغرق ہو جائے یا اس کو ںصاب سے کم کردے .
جبکہ حضراتِ حنابلہ کہتے ہیں کہ جو شخص صاحبِ نصاب ہو تاہم وہ مقروض بھی ہو تو پہلے وہ قرض کی ادائیگی کے بقدرت مال منہا کرکے بعدہ بقیہ مال اگر نصاب کو پہنچے تو اسکی زکوۃ نکالے گا ورنہ نہیں .
( الفقہ علی المذاہب الاربعہ ص331)

مشہور فقیہ شیخ مصطفیٰ زرقا فر ماتے ہیں کہ میعادی اور قسط واری قرض صاحبِ مال کے زکوۃ نکالنے میں مانع نہیں ہے تاہم وہ قرض جسکی ادائیگی فوری کرنی ہو اس بیچ حولان حول ہو جائے تو بقدرِ قرض رقم منہا کر کے بقیہ مال کی زکوۃ ادا کی جا ئیگی . ( فتاوی مصطفیٰ الزرقا)

اسی بنا پر اس مال میں بھی زکوۃ واجب ہے جسکو کوئی شخص بطورِ قرض لیتا ہے اس مال میں مالکانہ تصرف کرتا ہے اس کو انوایسمنٹ کر کے تجارت میں لگاتا ہے بشر طیکہ یہ قرض لینے والے کی ماہانہ متنخواہ سے قسطوں میں واضح کیا جاتا ہو، یکبارگی ( یکمشت ) ادائیگی مطلوب ومشراط نہ ہو.
 
Top