لکھنؤ کا عروج و زوال

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
لکھنؤ کا عروج و زوال
نیر مسعود
۱۸۵۷ء سے پہلے کی جس تہذیب کو ہم اودھ کی تہذیب کا نام دیتے ہیں وہ دراصل بیت السّلطنت لکھنؤ کی تہذیب تھی۔ لکھنؤ کے قریب ترین شہر بھی اپنے تہذیبی خدوخال کے اعتبار سے لکھنؤ سے مختلف تھے۔ شجاع الدولہ کے عہد تک اودھ کے حکمرانوں کا مستقر فیض آباد تھا اور لکھنؤ فراموشی کی دھند میں صاف نظر نہ آتا تھا لیکن شجاع الدولہ کے فرزند آصف الدولہ نے فیض آباد کو چھوڑ کر لکھنؤ کو دارالحکومت بنا لیا۔(۱) اُس وقت سے لکھنؤ کی ترقی اور خوش حالی کا دور شروع ہوا۔ دہلی میں مغلیہ سلطنت تو دم توڑ رہی تھی اور اُس عظیم شہر کا مستقبل بہت تاریک اور پُر خطر نظر آ رہا تھا۔ لکھنؤ کو عروج کی طرف بڑھتے دیکھ کر دہلی اور دوسرے مقامات کے اہلِ کمال اور معزّزین نے لکھنؤ کا رخ کیا اور اس شہر کو مختلف حیثیتوں سے مالامال کیا۔
اسّی برس تک لکھنؤ کے چراغ کی لو تیز سے تیز تر ہوتی رہی۔ آخر واجد علی شاہ کے عہد میں انتزاعِ سلطنت (۱۸۵۶ء) کے بعد سے اس کی روشنی مدّھم پڑنے لگی۔ اربابِ کمال لکھنؤ چھوڑ کر دوسرے قدردانوں کی تلاش میں نکل گئے اور دیکھتے دیکھتے لکھنؤ پر زوال آ گیا۔ عروج و زوال کی یہ داستان کچھ اس طرح ہے :
(۱)
آصف الدولہ اور ان کے جانشین سعادت علی خاں کے زمانے تک اودھ مغل سلطنت کا ایک صوبہ تھا۔ یہاں کے حکمراں سلطنتِ مغلیہ کی طرف سے اس پر حکومت کرتے تھے اور مغل بادشاہ کے نائب کی حیثیت سے ان کا لقب "نواب وزیر" تھا۔ اصولاً انھیں مغل بادشاہ کی چشم و ابرو کے اشارے پر چلنا چاہیے تھا، لیکن اب یہ نیابت فقط برائے نام تھی۔ حقیقتاً اودھ کے حکمراں خود کو دہلی سے آئے ہوئے احکام اور ہدایات کا پابند نہیں سمجھتے تھے۔ اس صورتِ حال کے ذمے دار ایک حد تک ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز عہدے دار تھے جو نواب وزیر اور بادشاہِ دہلی کے درمیان حائل ہو گئے تھے اور پورے ہندوستان پر حکومت کرنے کا خاموش تہیہ کر چکے تھے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ نہایت منظم اور مکمل منصوبے بنا کر ان پر بڑی ہوشیاری کے ساتھ عمل کر رہے تھے اور بادشاہ اور نواب کے درمیان بڑھتی ہوئی بے تعلقی انھیں منصوبوں کا ایک جُز تھی۔
دہلی اب بھی ہندوستان کا دارالسلطنت اور مغل بادشاہ اب بھی ہندوستان کا شہنشاہ تھا، لیکن اب اُس کی حیثیت شاہِ شطرنج سے زیادہ نہ تھی۔ دہلی کی مرکزیت ختم ہو چکی تھی اور مغلوں کی بادشاہت ختم ہو رہی تھی۔ اس تنزل کا سبب انگریزوں کے دخل در معقولات کے علاوہ یہ بھی تھا کہ خود مغل حکمران وہ خون کھو چکے تھے جو تیمورِ گاگان سے لے کر بابر اور بابر سے لے کر اورنگ زیب کی رگوں میں دوڑتا رہا تھا۔ مغلانِ اعظم کے جانشین بزم پر رزم کو قربان کر چکے تھے۔ ان کی فعالیت ختم ہو چکی تھی اور ان کی جنبشیں کٹھ پتلیوں کی طرح تھیں جن کی ڈوریاں انگریزوں، سیّدوں، مرہٹوں اور جاٹوں روہیلوں، سبھی کے ہاتھوں میں آتی رہتی تھیں اور ان کے بازیگروں میں اپنے فن کے سب سے زیادہ ماہر انگریز تھے جو دھیرے دھیرے پورے ملک کی سیاست پر چھاتے جا رہے تھے۔
آصف الدولہ کے عہد تک اودھ پر بھی انگریزوں کی نظریں پڑنے لگی تھیں۔ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری تھا کہ وہ نواب وزیر کو اپنے قابو میں لائیں۔ یہ مقصد تین طریقوں سے حاصل ہو سکتا تھا: نواب کو اپنا ممنون کر کے ، محتاج بنا کر یا اپنے سے مرعوب کر کے۔ انھوں نے پہلی صورت کو مصلحتِ وقت سمجھ کر آصف الدولہ کو ان کی ماں بہو بیگم صاحبہ کی کثیر دولت دلوا دی۔ آصف الدولہ انگریزوں کے ممنونِ احسان ہوئے اور اخلاقاً ان سے دوستی نبھانے اور مختلف طریقوں سے ان کی مدد کرنے پر مجبور ہو گئے۔
آصف الدولہ کے بعد سعادت علی خاں پر بھی یہی حربہ کامیابی کے ساتھ آزمایا گیا۔ آصف الدولہ کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے وزیر علی نے مسندِ نیابت پر بیٹھنے کا قصد کیا۔ لیکن انگریزوں نے اُن کو ہٹا کر(۲) شجاع الدولہ کے بیٹے سعادت علی خاں کو مسند نشیں کیا۔ یوں سعادت علی خاں کا اقتدار بھی انگریزوں کی بدولت قرار پایا اور خود ایک جوہرِ قابل ہونے کے باوجود انھیں انگریزوں کی مرضی کا پابند ہونا پڑا۔
سعادت علی خاں کے بیٹے غازی الدین حیدر نے نیابت ملنے کے بعد ۱۸۱۸ء میں "ابوالمظفر، معزالدین، شاہِ زمن، غازی الدین حیدر، بادشاہ غازی" کا خطاب اختیار کر کے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ اب اودھ صوبے سے ملک بن گیا اور مغلیہ سلطنت سے اس کا برائے نام تعلّق بھی ختم ہو گیا۔ اِس انقلاب کے پسِ پردہ بھی انگریزوں کی حکمت عملی تھی اور یہ اقدام انھیں کے تعاون سے کامیاب ہوا تھا۔ اس کے بعد سے اودھ کا ہر بادشاہ شاہِ شطرنج تھا۔ ملک اودھ میں انگریزوں کی حیثیت شریکِ غالب کی ہو گئی اور اب سیاسی اور ملکی معاملات کا کیا ذکر، بڑی حد تک اپنے نجی معاملات میں بھی اودھ کا بادشاہ ان کی دخل اندازیاں روکنے پر قادر نہ رہا۔
انگریزوں کی ریشہ دوانیوں سے قطع نظر، اودھ کے نظامِ سلطنت میں خود بھی کمزوریاں تھیں۔ وقتاً فوقتاً ایسے عمّال بر سرِ اقتدار آ جاتے تھے جو اپنے عہدے کے اہل نہیں ہوتے تھے اور محض سفارشوں اور تعلقات کے بل پر منصب حاصل کر کے نظم و نسق کو زیر و زبر کرتے رہتے تھے۔ مثلاً مرزا رجب علی بیگ سرُور نے امجد علی شاہ کے عہدِ سلطنت کی تصویر یوں کھینچی ہے :
حکومت ظنّی، نیا طور ہوا۔ اس دورے میں رنڈیوں(۳) کا دور ہوا قوّت ممیّزہ شہر سے اُڑ گئی۔ کسی کی ماں نے رسالہ نہ چھوڑا، بیٹا رسالدار ہوا، کسی کی بہن نے پلٹن سے منھ نہ موڑا، سالا سالار ہوا غیرت نے منھ پھیر لیا۔ ایک کو دوسرے سے کینہ ہوا یہ رسمِ قدیم تھی جس کا جو عہدہ ہوتا وہی پاتا تھا، لیئق کار آزمودہ ڈھونڈھا جاتا تھا اب تو یہ خلطِ مبحث ہوا۔ خیّاط کو نیزہ بازوں کا سالار کیا، جمع دیکھ کر بہ صد پریشانی جمعدار کیا۔ جو چھچھوندر(۴) چھوڑنے میں جی چھوڑتے تھے ، چنگاری سمجھ کے جگنو سے منھ موڑتے تھے ، اب جو ایک آدھ پھلجھڑی سی، پٹاخا تیار کر کے محل میں چھوڑی ]یعنی کوئی حسین لڑکی بادشاہ کے حرم میں داخل کی[ آتش خانے کے داروغہ ہوئے اگر پیشِ خدمت ہمشیر ہے تو برادرِ عزیز حضرت ]بادشاہ[ کا مشیر ہے۔ خالہ خلوت میں پائین نشین، بھانجا جلوت میں صدرِ امین۔ اُخت سرکار میں، اَخی اخبار میں، اور جس کی اندر جوان لڑکی ہے اس کی باہر سواری بڑے ہُلّڑ کی ہے۔ وگر حضور رس نانی ہے تو کاٹھیاواڑ کی گھوڑی زیرِ ران ہے ، فرنگی محل کی گلیوں میں گرم عنانی ہے اور جس کی رشتے دار استانی ہے وہ سب پر سبق لے گیا جہان کے فیصلے گھر بیٹھے ہوتے ہیں ہر دم بر زبان یہ سخن ہے ، "مالک الملک روسیاہ کی بہن ہے !(۵)
آگے بڑھ کے لکھتے ہیں:
مملکتِ سلطانی کا جو حال ہے ، بد عملی سے مسافروں کو راہ چلنا محال ہے۔ دن دیے بستیوں میں ڈاکے پڑتے ہیں۔ ملک اجاڑ ہوتا ہے چکلہ دار اپنا گھر بھرتے ہیں۔ گاؤں خالی ہو گئے ، جنگل میں زمین دار مرتے ہیں۔ قبولیت میں کچھ لکھا، پٹّے میں کچھ اور ہے مزروع زمین بے کار پڑی ہے۔ اوسر بنجر کا ایک بھاؤ ہے رعیّت کا گلا ہے اور چھُری کند ہے ، بد معالی تیز اور قلم رو میں اندھا دھند ہے۔(۶)
عدالتوں کا حال بھی دیکھ لیجیے :
عدالتوں میں سب سے زیادہ اندھیر ہے داروغہ خود متلاشی ہے کہ کون سا مقدمے والا راشی ہے۔ سِرّاً جہراً رشوت کا پیام ہوتا ہے۔ اس امید پر فرشی سلام ہوتا ہے کچہری کا یہ دستورالعمل ہے ، دیتے بنے تو بگڑا مقدمہ سَجل ہے۔(۷)
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
اسی انداز میں حکومت کے مختلف شعبوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ مبالغے اور عبارت آرائی سے قطع نظر، سرُور کے ان پیغامات سے نظمِ حکومت میں بدعنوانیوں کی نوعیت کا اندازہ ہو سکتا ہے اور اُس دور کی تاریخوں کا غور سے مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ جن عمّال کا سرور نے کنایتاً ذکر کیا ہے ان میں سے بیش تر کا واقعی وجود تھا اور وہ بڑی حد تک ایسے ہی تھے جیسا سرور نے ان کو پیش کیا ہے۔ غرض اس امر میں زیادہ بحث کی گنجائش نہیں ہے کہ دیسی حکمرانوں اور ان کے اہل کاروں میں خلوصِ عمل کی بہت کمی تھی۔ نااہلوں کو کلیدی عہدے مل جانا، ملکی سیاست میں انہماک اور اپنے کام سے زیادہ دوسرے عہدے داروں کے کاموں میں حریفانہ دل چسپی، دوسروں کو نیچا دکھانے اور خود زیادہ اقتدار حاصل کر لینے کی کوششیں، غدّاری، درباری سازشیں، خالص سیاسی داؤں پیچ یہ سب وہ عوامل تھے جو اودھ کی سلطنت کو آہستہ آہستہ فنا کی طرف لیے جا رہے تھے اور آخرکار انھیں تمام بد انتظامیوں کو حجت بنا کر ۱۸۵۶ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے "انّما نحنُ مُصلحون" کے ادّعا کے ساتھ اودھ کے نظم و نسق کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
انتزاعِ سلطنت کے وقت واجد علی شاہ اودھ کے بادشاہ تھے۔ ان کو اپنی رعایا میں نہایت مقبولیت اور محبوبیت حاصل تھی۔ آصف الدولہ کے بعد وہی ایسے حکمراں تھے جن سے عوام دلی محبت کرتے تھے اور ان کو اپنا سمجھتے تھے۔ ان کی شرافت، نرم مزاجی اور سب سے بڑھ کر رعایا دوستی نے ان کو عوامی ہیرو بنا دیا تھا۔ ان کی معزولی پر ایک سنّاٹا سا چھا گیا۔ لکھنؤ سے ان کی روانگی پر شہر میں کہرام مچ گیا۔ لیکن عوام کو نہ تو اپنی قوّت کا احساس تھا نہ ان میں کوئی تنظیم تھی، اس لیے بادشاہ کے ساتھ اس بے انصافی اور انتزاعِ سلطنت پر آنسو تو بہت بہائے گئے لیکن صورتِ حال کو بدلنے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی گئی، غزلوں اور لوک گیتوں میں نوحہ خوانی تو بہت کی گئی لیکن انگریزوں کے جبر سے ٹکرانے کے لیے کچھ نہ کہا گیا۔
سلطنتِ اودھ انگریزوں کے ہاتھ میں ایک کھلونے کی طرح آ گئی۔ انھیں اس پر قابض ہوتے وقت معمولی مزاحمت کا سامنا بھی نہ کرنا پڑا۔ البتہ اس کے دوسرے سال ۱۸۵۷ء میں جب ملک کے دوسرے حصوں میں جنگ اور انقلاب کے شعلے بھڑک اٹھے تو لکھنؤ بھی ان کی لپیٹ میں آ کر ایک بڑے محاذِ جنگ میں تبدیل ہو گیا۔ بیلی گارد (ریذیڈنسی)، عالم باغ اور سکندر باغ وغیرہ کے معرکوں میں مقامی سپاہیوں نے شجاعت اور جاں بازی کے کارنامے دکھائے اور دشمن تک سے داد وصول کی۔ لیکن انگریزوں کی منظّم فوجوں اور لاجواب حربی لیاقت کے آگے ، اور کبھی اپنے ہی غدّار ساتھیوں کی بدولت، جیت نہ سکے۔ اس طرح آزادی کی یہ پہلی جدوجہد پورے ہندوستان کی طرح لکھنؤ میں بھی ناکامی پر ختم ہوئی۔
(۲)
بڑی تحریک ۱۸۵۷ء کا معروف نام "غدر" ہے۔ لکھنؤ میں آج بھی بڑے بوڑھوں میں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو اسے "بھگدڑ" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ دونوں نام اس تحریک کو ایک بڑی بدامنی اور زبردست ہنگامے کی حیثیت دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ عوام کی اکثریت کو اس کا احساس نہیں تھا کہ انگریزوں کی حکومت ہو جانے کا مطلب کیا ہے اور اس کے دوررس نتائج کیا ہوں گے۔ صرف چند لوگ ایسے تھے جو اس کو جنگِ آزادی سمجھ کر حبِ وطن میں سر بہ کف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ باقی جن لوگوں نے انگریزوں کا مقابلہ کیا وہ اپنے ذاتی مفاد اور اقتدار کی خاطر میدان میں آئے تھے۔ مطلق العنانی کے اس دور میں عام طور پر بادشاہوں اور حکومتوں کے ردّ و بدل کے متعلق عوام کا رویّہ "ما را چہ ازیں قصّہ کہ گاو آمد و خر رفت" کا مصداق رہتا تھا۔ حکومت کے انتخاب کے سلسلے میں انھیں اپنی قوّت اور اہمیت کا کوئی اندازہ نہ تھا۔ صدیوں اور پشتوں سے ان کا اعتقاد اور تجربہ انھیں یہی بتاتا چلا آ رہا تھا کہ اُن پر کوئی نہ کوئی مسلّط ضرور رہے گا، وہ کوئی فردِ واحد ہو خواہ کوئی قوم۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اُس قوم کی حکومت بھی تسلیم کر لی جس کے افراد کے متعلق ان کا عقیدہ یہ تھا کہ وہ انڈوں سے پیدا ہوتے ہیں۔(۸)
اور جب انھوں نے دیکھا کہ سفید آقاؤں کا انتظامِ سلطنت چست ہے اور وہ دیسی حکمرانوں سے زیادہ لائق ثابت ہو رہے ہیں تو وہ مطمئن ہو گئے اور مان گئے کہ حکومت کرنا انگریزوں ہی کا حق ہے۔
۱۸۵۷ء کے واقعات کے نتیجے میں انگلستان کی ملکہ وکٹوریہ نے ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا اقتدار ختم کر کے اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ ہندوستان کے ساتھ صوبہ اودھ اور بیت السلطنت لکھنؤ بھی برطانوی سامراج کا جز بن گیا۔
لکھنؤ کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ اس مغالطے میں ڈال سکتا ہے کہ سیاسی اعتبار سے ہر دم زوال پذیر یہ شہر اپنی تہذیبی اور ثقافت کے لحاظ سے بھی پس ماندہ رہا ہو گا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔
سبحان الله! چہ شہرے ست دل پذیر و چہ مقامے ست بے مثل و نظیر! جاے ست دل فریب و مکانے ست مطبوع، منزّہ از نقص و عیب۔ بلندے ست بس دلچسپ و خوش سواد۔ دکان ہا بس مملووآباد۔ ومعمورہ اے ست از اقسام و انواعِ چیز ہا!
(نجات حسین خاں عظیم آبادی کا روزنامچہ "سوانح لکھنؤ")(۹)
․․․ لکھنؤ کا کیا کہنا! الله الله، وہ سرکار امیر گر تھی! وہ ہندوستان کا بغداد تھا۔ جو بے سروپا وہاں پہنچا امیر بن گیا۔
(غالب بنام میاں داد خاں سیّاح)(۱۰)
جب سے دہلی کا عروج و اقبال مٹا ہے اور دہلی میں اگلے جاہ و جلال کا صرف ایک خاکہ رہ گیا ہے ، اُس وقت سے ہندوستان میں کوئی ریاست ایسی نہیں جو لکھنؤ سے تمّول اور شان و شکوہ کے لحاظ سے دعوی ہمسری کر سکے۔
(ولیم نائیٹن)(۱۱)
بعد خرابیِ شاہجہان آباد ]دہلی[ یہ زمین ]لکھنؤ[ بسی۔ سب طرح کی خلقت کا یہاں قیام ہوا۔ دور دور اس شہر کا شہرہ ہوا، نام ہوا۔
(رجب علی بیگ سرور)(۱۲)
یہ شہر لکھنؤ نواب آصف الدّولہ بہادر کا آباد کیا ہوا ہے جس کی بے مثالی کا ہر شہر و دیار میں چرچا ہے۔ کم و بیش سو برس کا زمانہ گذرا ہے کہ اتنی مدّت میں آباد بھی ہوا، اُجڑ بھی گیا جب تک عہدِ شاہی رہا وہ زمانہ اس کے اوج موج کا تھا۔ دور دور سے لوگ دیکھنے کو آتے تھے ، صفحۂ دل پر یہاں کی تصویر جنّت نظیر کھینچ لے جاتے تھے۔ لکھنؤ ہر چیز کا خراد تھا۔ ہر علم و فن کا یہاں کامل استاد تھا۔
(فدا علی عیش)(۱۳)
آصف الدولہ نے فیض آباد کے بجائے لکھنؤ کو اپنی سلطنت کا مستقر بنایا اور اچانک لکھنؤ شمالی ہند کا مرکزِ نظر بن گیا۔ آصف الدولہ کی دل آویز شخصیت، بے اندازہ فیّاضی، علم دوستی اور اہلِ ہنر کی قدردانی نے بہت جلد لکھنؤ کو مرجعِ خلائق بنا دیا۔ جس وقت دہلی کی سلطنت کا چراغ بجھ رہا تھا، لکھنؤ کے چراغ کی لو اونچی ہو رہی تھی۔ تاریخ اور ادبیات کے واقف خوب جانتے ہیں کہ اُس زمانے میں دہلی کے کتنے با کمالوں نے لکھنؤ کو آ بسایا۔ گردشِ زمانہ نے دہلی کے چراغ کا بچاکھچا روغن لکھنؤ کے کنول میں انڈیل دیا اور دہلی ہی نہیں، ہندوستان بھر سے قدردانی اور معاش کے طلبگاروں نے کھنچ کھنچ کر لکھنؤ آنا شروع کر دیا۔ یوں لکھنؤ کی تہذیب کی تشکیل ہوئی۔ اس تشکیل کی رفتار نہایت تیز تھی اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ لکھنؤ کی تہذیب تقریباً یک لخت معرضِ وجود میں آ گئی۔ اس کے پسِ پشت صدیوں اور قرنوں کے تجربات و حوادث کارفرما نہیں تھے۔ چند سال کے اندر اس تہذیب نے اپنی ارتقائی منزلیں طے کر لیں اور پھر بہت تیزی کے ساتھ ثقافت اور معاشرت کے لحاظ سے ایک واضح اور منفرد شکل اختیار کر کے اپنے عروج کی انتہائی منزل تک پہنچ گئی۔ یہ ارتقائی منزلیں آصف الدولہ اور سعادت علی خاں کے دورِ نیابت میں طے ہوئیں، غازی الدین حیدر (۱۸۱۳ء تا ۱۸۲۷ء) اور نصیرالدین حیدر (۱۸۲۷ء تا ۱۸۳۷ء) کے دورِ بادشاہت تک لکھنؤ کی تہذیب اپنی آخری بلندیوں کو چھونے لگی تھی۔ اس عہد کا ایک خاکہ ہمارے سامنے مرزا رجب علی بیگ سرور نے "فسانۂ عجائب" کے دیباچے میں پیش کر دیا ہے جس کی تصدیق سرور کے ایک دہلوی ہم عصر کے بیان سے بھی ہوتی ہے۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سید فضل علی دہلوی، جو عہدِ نصیرالدین حیدر میں گھومتے پھرتے لکھنؤ پہنچے تھے ، اپنی کتاب "فوائد عجیبہ" میں لکھتے ہیں:
جب میں اس شہر ]لکھنؤ[ میں پہنچا تو سیر کرتا پھرتا تھا۔ چوک(۱۴) کو جو دیکھا تو آراستہ و پیراستہ دکانیں رنگین درختِ تمامی سے منڈھی ہوئی۔ ہر جا پر اربابِ نشاط رقص کر رہے ہیں۔ بازاریوں کی عجب صدا ہے۔
احوالِ بازار
کوئی کہتا ہے "کیا نمکیں بنے ہیں" کوئی کہتا ہے "مرچوں کے چنے ہیں" صدائیں ریوڑی والوں کی یاں ہیں "کڑاکے کی گلابی ریوڑیاں ہیں" لیے پھرتے ہیں شُہدے (۱۵) روٹیوں کو کہ "لے بھاری یہ آدھے ڈھیر کی دو" صدا کہتا ہے کوئی ہاتھ اٹھا کے "معطّر پھول ہیں جی موتیا کے " یہ فرنی اور فالُودے کا عالم کہ گویا چاند اور تارے ہیں باہم ملا شربت کو جو، ان کو بنائے شبِ مہ کا سماں پیالے میں پائے دھری ہیں گولیاں اور یوں اندر سے کہ گویا چاند اور تارے ہیں برسے
نہ دیکھا ہم نے ایسا حلوہ سوہن کہ ہو دیکھے سے جس کے شیریں تن من ملائی وہ کہ ہے دیکھو تو گویا اسی میں مال حلوائی نے کھویا
غرض سارے بازار کا حال لکھتا تو جب ]کذا "لکھنا موجب"؟[ طول کتاب کا اور اس مقام کا، فی المثل
اگر فردوس بر روئے زمین اسپح ہمیں است و ہمین است و ہمین است
ہر ایک کوچہ فرحت افزا اور ہر ایک راہ دل کشا۔ شہر ہے و یا یہ طلسمات ہے !(۱۶)
نصیرالدین حیدر ہی کے عہد میں ایک انگریز سیّاح ولیم نائیٹن بھی لکھنؤ آیا تھا۔ اس نے لکھنؤ میں اپنے قیام کے حالات اپنی کتاب "ایک مشرقی بادشاہ کی نجی زندگی" میں درج کیے ہیں۔ وہ لکھتا ہے :
صرف ایک عظیم الشان شہر جسے میں نے دیکھا ہے میرے نزدیک لکھنؤ کے نشیبی حصّے سے ، تنگ و تار گلیوں، لدے پھندے اونٹوں اور گنجان بازاروں سے ، مشابہ ہے اور وہ شہر قاہرہ دار السلطنتِ مصر ہے۔"
"ڈریسڈن، ماسکو، قاہرہ، جس سے چاہیے آپ لکھنؤ کو مشابہ قرار دیجیے۔ مگر میرے نزدیک لکھنؤ کی ایسی عجائب روزگار چیزیں ان مقامات میں سے کہیں نظر نہ آئیں گی۔ اولاً لکھنؤ کے ایسے ہتھیار بند آدمی ان شہروں میں کہیں نہ دکھائی دیں گے۔ ماسکو کے باشندے صرف چھُری باندھتے ہیں اور قاہرہ کے لوگوں کے ہاتھ میں کچھ ہتھیار کبھی کبھی دکھائی دیتے ہیں۔ برخلاف اس کے لکھنؤ کے باشندے بالعموم اوپچی بنے نظر آئیں گے۔ ان کے پاس ڈھال، تلوار اور بندوق یا پستول ضرور ہو گی۔ حتی کہ وہ لوگ جو کاروبار روزمرّہ کرتے ہیں وہ بھی تلوار ضرور باندھتے ہیں اور کوچہ گرد حضرات جب مٹرگشت کو نکلتے ہیں تو چاہے کیسی ہی ذلیل پوشاک کیوں نہ پہنے ہوں مگر تپنچے کی جوڑی اور ڈھال دونوں لگائے ہوں گے۔ بھینسے کی کھال سے منڈھی ہوئی ڈھال، جس میں پیتل کے پھول لگے ہوتے ہیں، اکثر بائیں جانب کاندھے پر پڑی ہوتی ہے۔ بڑی بڑی مونچھوں والے مہیب صورت راجپوت اور پٹھان اور سیاہ داڑھی والے مسلمان ڈھال تلوار سے لیس تنتے بررتے نظر آتے ہیں اور لکھنؤ والوں کے پندارِ خودی و خود پسندی اور جوشِ نبرد آزمائی کو بہ خوبی ظاہر کرتے ہیں۔
یہ امر کہ کیوں اہلِ لکھنؤ بالعموم سپاہیانہ وضع رکھتے ہیں، تعجب خیز نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ کمپنی کے فوجی صیغے میں اودھ ہی کے پرورش یافتہ بکثرت ہوتے ہیں اور احاطۂ بنگالہ کی فوج تمام تر یہیں کے باشندوں سے مملو ہے۔
باشندگانِ لکھنؤ میں اسلحہ کا مذاق بچپنے ہی سے پیدا کرا دیا جاتا ہے۔ تیر اور برچھے یہاں کے لڑکوں کے معمولی کھلونے ہیں اور جس طرح پر انگریز دائیاں بالعموم بچوں کے ہاتھوں میں جھُنجنے دے دیتی ہیں، اسی طرح یہاں چھوٹے چھوٹے تپنچے اور کاٹھ کی تلواریں کھیلنے کو پکڑا دی جاتی ہیں۔(۱۷)
سپہ گری کا مذاق عام ہونے کی وجہ سے اس فن میں بڑی بڑی باریکیاں پیدا کر کے اس کو بہت وسعت دے دی گئی تھی۔ شمشیر زنی اور نیزہ بازی کے سیکڑوں داؤں پیچ ایجاد کیے گئے۔ اس کے علاوہ کشتی، بانک، بنوٹ وغیرہ کو اتنی ترقی دی گئی کہ ان کو ایک نئے فن کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ یوں تو لکھنؤ کا قریب قریب ہر ایک باشندہ سپہ گری میں کچھ نہ کچھ دخل ضرور رکھتا تھا، لیکن جس نے اس میں خصوصی مہارت بہم پہنچا کر اس کو گویا اپنی زندگی کا موقف بنا لیا تھا وہ بانکوں کا طبقہ تھا۔ بانکے اپنے کردار اور اطوار کی وجہ سے اپنی مثال آپ تھے۔ مظلوم کی حمایت میں ظالم سے بھِڑ جانا، حریفوں کو ان کی تعداد کا لحاظ کیے بغیر بے دھڑک سرِ بازار للکار دینا، جو اُن سے مدد طلب کرے اس کے لیے جان تک دے دینے سے دریغ نہ کرنا، ایک وضع مقرر کر کے مرتے دم تک اور ہر حالت میں اسی پر قائم رہنا، غیرت اور خود داری پر لمحہ بھر کے لیے بھی آنچ نہ آنے دینا، یہ سب ایسی خصوصیتیں تھیں جنھوں نے ان کو ایک دل آویز افسانوی حیثیت دے دی۔ واقعات گواہ ہیں کہ اُن کے اٹل ارادوں کو بادشاہ تک جنبش نہیں دے سکتے تھے۔ حشیشیّین کی طرح وہ مقصد کی خاطر جان کی بازی لگا دیتے تھے۔ ان کی بہادری شجاعت سے گزر کر تہوّر کی حدوں میں داخل ہو گئی تھی۔ ان کی وجہ سے شہر میں آئے دن کشت و خون اور معرکہ آرائیاں ہوا کرتی تھیں اور امن و امان کے دنوں میں بھی لکھنؤ تلواروں کی جھنکار، قرابینوں کے دھماکوں اور جنگی نعروں سے گونجا کرتا تھا۔ ولیم نائیٹن لکھتا ہے :
اس شہر کے گلی کوچے میری نظروں میں بالکل انوکھے معلوم ہوئے۔ گویا کہ عالمِ رویا میں میرا گزر دفعتاً کسی ایسے عجیب ملک میں ہوا ہے جہاں کے خاص و عام پہلوان ہی پیدا ہوتے ہیں۔ جن کے بشرے سے جنگجوئی پٹکتی ہے اور جن کا تذکرہ میں نے لڑکپن میں قصّوں اور کہانیوں کی کتابوں میں پڑھا تھا۔(۱۸)
ایک اور مغربی سیّاح ولیم ہاورڈ رسل لکھنؤ کو دیکھ کر اپنے تاثرات یوں بیان کرتا ہے :
شادابی کے ایک خاموش، ٹھہرے ہوئے سمندر میں سے اُبھرتے ہوئے لاجوردی اور سنہرے محلّوں، میناروں، گنبدوں، مدوّر بُرجوں، کھمبوں کی قطاروں، حسین متناسب ستونوں والے طویل رو کاروں اور سائبان دار چھتوں کا ایک منظر! میلوں میل نگاہ دوڑاتے چلے جاؤ، یہ سمندر پھیلتا جاتا ہے اور اس کے درمیان اس پرستانی شہر کے مینار چمکتے نظر آتے ہیں۔ سنہری بُرجیاں دھوپ میں جگمگاتی ہیں اور بلند قُبّے ستاروں کے جھرمٹ کی طرح جھلملاتے ہیں۔ کہیں بھی بد نمائی اور بے زیبی دیکھنے میں نہیں آتی۔ ہمارے سامنے ایک شہر ہے جو پیرس سے زیادہ وسیع اور اس سے کہیں زیادہ با رونق ہے۔ کیا یہ شہر اودھ ہی میں ہے ؟ کیا اسے ایک بد اعمال، از کار رفتہ اور انحطاط زدہ ]شاہی[ خانوادے نے تعمیر کیا ہے ؟ میں اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ مجھ کو تو اتنا حُسن و تاثر نہ روم میں محسوس ہوا، نہ ایتھنز میں، نہ قسطنطنیہ میں، نہ اپنے دیکھے ہوئے کسی بھی دوسرے شہر میں۔ اور اس ]شہر[ کو میں جس قدر زیادہ غور سے دیکھتا ہوں اسی قدر اس کی خوبیاں مجھ پر کھلتی جاتی ہیں۔(ترجمہ)(۱۹)
ایک طرف رسل لکھنؤ کی عمارتوں کی نفاست اور نزاکت دیکھ کر اس کو پرستانی شہر کہہ رہا ہے ، دوسری طرف ولیم نائیٹن یہاں کی سپاہیانہ فضا دیکھ کر دنگ ہے۔ دراصل جنگجوئی کے ساتھ ہی لکھنؤ کی فضاؤں نے ایک خاص لطافت کو بھی پروان چڑھایا، جو بظاہر متضاد سی چیزیں معلوم ہوتی ہیں لیکن اس کا سبب صوبۂ اودھ کی زرخیزی تھی۔ دارالسلطنت ہونے کی وجہ سے پوری عملداری کی دولت کھنچ کھنچ کر لکھنؤ میں آتی تھی اور اُس زمانے میں لکھنؤ کی فی کس آمدنی، یا صحیح اصطلاح میں قوّتِ خرید، کا اوسط آج سے کہیں زیادہ تھا۔ شہر سے باہر جو لوگ یہ دولت پیدا کرتے تھے اُن پر جو گذرتی ہو، لیکن لکھنؤ میں یقیناً ہُن برستا رہتا تھا۔ اور یہاں بھی دولت کی تقسیم مساوی نہ تھی۔ بہت سے گھر ایسے بھی تھے جہاں دن کو چولھا اور شام کو چراغ مشکل سے جل پاتا تھا لیکن امرا کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔ یہ امرا بالعموم اسراف کی طرف مائل رہتے تھے اور بے محابا دولت خرچ کرنے کو ہی اپنی صفت سمجھتے اور اس پر نازاں رہتے تھے۔ یہ کمال کے قدردان اور جدّت کے شوقین تھے اور خاص طور پر انھیں کی بدولت لکھنؤ کی ہر ہر ادا میں ایک نکھار پیدا ہوتا گیا۔
علم، فن اور زندگی کے مختلف شعبوں میں لکھنؤ نے جو امتیازات حاصل کیے ان کا احاطہ کرنا آسان نہیں ہے۔ لکھنؤ کی فضا میں ایسی تاثیر پیدا ہو گئی تھی کہ ہر چیز میں اس شہر کا اپنا ایک سانچہ بن گیا تھا جو بیرونی اثرات کو اپنی مخصوص شکل میں ڈھال لیتا تھا۔ باہر کے رہنے والے بھی جب لکھنؤ کو آ کر بساتے تھے تو اسی کے رنگ میں رنگ جاتے تھے۔ میر کے سے اپنی وضع کے پابند کم ہی ہوں گے جو "پورب کے ساکنوں" کے "ہنس ہنس پکارنے " کے باوجود اپنی جگہ اٹل رہے۔ علاوہ بریں وہ آصف الدّولہ کا عہد تھا اور لکھنؤ کی تہذیب اُس وقت تک اپنے عروج کو نہیں پہنچی تھی۔ ورنہ بعد کے آنے والوں کے لیے لکھنؤ کے سحر سے بچنا محال تھا اور وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اس سے متاثر ہو کے رہتے تھے۔ رجب علی بیگ سرور لکھتے ہیں:
علی الخصوص مردِ تماش بین کے واسطے یہ شہر خراد ہے ، یہاں ہر فن کا استاد ہے۔ سیکڑوں گھامڑ، بد عقل، کندۂ نا تراش، اطراف و جوانب سے آ، ہفتے عشرے میں چھِل چھِلا وضع دار ہو گئے۔(۲۰)
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
فنونِ لطیفہ کی ہر شاخ لکھنؤ میں نئے نئے ثمر لائی۔ شاعری میں ایک طرف غزل نے لکھنؤ میں آ کر خود کو رنگ برنگ پھولوں سے اتنا سجایا کہ اس آرائش کے پیچھے اس کی اصل صورت بھی چھپ گئی۔ دوسری طرف مرثیہ پانچوں ہتھیاروں سے لیس ہو کر اس شان سے اُٹھا کہ دنیا بھر کے رزمیہ ادب سے ٹکرا گیا اور پھر بھی اپنی صنف میں منفرد رہا۔ موسیقی میں ایک طرف ٹھمری اور غزل کا نیا اسکول قائم ہو گیا، دوسری طرف میر علی نے سوز خوانی کے ذریعے اس مشاطی فن کو ایک عجیب راہ پر لگا دیا۔ یہ سوز خالص کلاسیکی راگوں کی بنیاد پر استوار ہونے کے باوجود نغمہ و سرود سے بالکل الگ چیز معلوم ہوتے تھے۔(۲۱) موسیقی کے ساتھ رقص کو بھی فراموش نہیں کیا گیا۔ عوامی کوششوں کے علاوہ تنہا واجد علی شاہ نے رقص کے بیسیوں طرز ایجاد کر دیے۔ مصوّری میں لکھنؤ کا قلم اپنے جزئیات اور سبز رنگ کی کثرتِ استعمال کی وجہ سے آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے (گو مغل، راجپوت، اور پہاڑی قلم اس سے بدرجہا بہتر تھے )۔ فنِ تعمیر میں لکھنؤ وہ عظمت اور شکوہ پیدا نہیں کر سکا جو مغلوں کی عمارتوں کا طرّۂ امتیاز ہے اور جس کے لیے پتھر کا استعمال ناگزیر ہے۔ لکھنؤ کی عمارتوں میں پتھر کم لگایا جاتا تھا، لیکن اس کمی کو یہاں عمارتوں کی سجاوٹ اور حسنِ تناسب سے پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔ خصوصاً آصف الدولہ کا امام باڑہ فنِ تعمیر کا ایک اعجازی شاہکار ہے اور اس کو آج بھی غیرملکی سیّاح اور سندیافتہ معمار حیرت سے مرعوبیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ امام باڑہ خالص دیسی صنعت، فن اور کاریگری کا نادر نمونہ ہے جس کے ہیولے میں عام مزدوروں کے ساتھ خاندانی شرفا کا خونِ گرم بھی پسینا بن کر شامل ہوا جن کے لیے قحط کے زمانے میں روزگار بہم پہنچانے اور اپنی شکلیں چھپائے رکھنے کی خاطر اس کی تعمیر راتوں کی تاریکی میں بھی جاری رہتی تھی۔ اس عظیم الشان تعمیر کا نقشہ دہلی کے معمار کفایت الله(۲۲) نے بنایا تھا لیکن اس کا انداز دہلی کی عمارتوں سے مختلف ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ لکھنؤ کو لکھنؤ بنانے میں دوسرے شہروں کے با کمالوں نے بھی برابر سے حصہ لیا تھا، البتہ لکھنؤ پہنچ کر ان کے فن میں نمایاں تبدیلی آ جاتی تھی۔ اس تبدیلی کا سبب لکھنؤ کا وہ عام مذاق تھا جو ان کے فن پر اثرانداز ہوتا تھا۔
انگریزوں نے لکھنؤ کو "باغوں کا شہر" کہا، اور یہ بہت موزوں نام تھا۔ یہاں باغات بے شمار تھے۔ اِن باغوں کے پھل اپنے رنگ روپ اور مزے کے لحاظ سے اپنی نوع کے عام پھلوں سے بہت مختلف ہوتے تھے۔ باغبانی اور چمن بندی کے فن میں نئے نئے تجربے کیے گئے اور یہاں کے باغوں میں جاپانی بونسائی(۲۳) تک کے نمونے مل جاتے تھے۔
گفتگو نے بھی لکھنؤ میں ایک باقاعدہ فن کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔ ضلع جگت اور پھبتی وغیرہ میں لوگ کوشش کر کے مہارت حاصل کرتے تھے۔ اس کے علاوہ آدابِ محفل، نشست و برخاست کے انداز اور اعلیٰ طرزِ گفتگو سیکھنے کے لیے باضابطہ تربیت ہوتی تھی اور اس کے لیے طوائفوں کے بالاخانے بہترین تربیت گاہ تھے۔ سرور ان طوائفوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
․․․ خوش مزاج، مردم شناس، روزمرّہ شُستہ، دمِ تقریر رمز و کنایہ۔ اس کوچے کے فیض سے انسان آدمیّت بہم پہنچاتا ہے۔ تراش خراش، اثرِ صحبت سے کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔(۲۴)
یہ طوائفیں محض عصمت فروش یا فن فروش عورتیں نہیں ہوتی تھیں بلکہ معاشرے کے اعلیٰ افراد کی طرح تعلیم و تربیت حاصل کرتی تھیں اور اچھا ادبی ذوق رکھتی تھیں۔ ان میں متعدد صاحبِ دیوان شاعرات بھی تھیں۔
طوائفوں کی طرح بھانڈوں کا طبقہ بھی لکھنؤ میں ایک خاص شکل اختیار کر گیا تھا۔ یہ آداب و اطوار میں نہایت مہذّب اور بیشتر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے تھے۔ بھانڈ اپنی مضحک نقلوں سے محفل کو زعفران زار ہی نہیں بناتے تھے بلکہ اکثر مزاح کے پردے میں معاشرے کی خرابیوں اور اونچے طبقے کے افراد، بلکہ بادشاہوں تک کی ذاتی کمزوریوں اور کبھی کبھی سیاسی غلطیوں کی بھی بے دھڑک نشان دہی کر دیتے تھے۔ یہ بھانڈ معاشرے کے سب سے بے باک نقاد تھے۔
معاشرے کی وہ خرابیاں جو زیادہ دولت اور تمدّنی ترقی کا لازمہ ہوتی ہیں، لکھنؤ میں بھی موجود تھیں۔ فضول خرچیاں، مختلف قسم کی بازیاں، مضرّت رساں شوق، جھوٹی نمائش، یہ سب چیزیں ایک طرف معاشرے کو گھُن کی طرح لگی ہوئی تھیں، دوسری طرف تکلّف و تصنّعات حد سے بڑھ گئے تھے اور مجاز نے حقیقت پر مکڑی کا جالا تان رکھا تھا۔ فریب کاری نے اخلاق، جھوٹ نے تکلّف، بزدلی نے ادب و تہذیب کا نام اختیار کر لیا تھا اور عیش کوشی نے رسم و رواج کے پردے میں قوّتِ عمل کو معطل کر دیا تھا۔ اسی لیے لکھنؤ کی تہذیب میں خوب صورتی تو بہت تھی لیکن عظمت اور بلندی بہت کم تھی۔
لکھنؤ کی تہذیب پر کوئی گفتگو اس وقت تک مکمل نہیں کہی جا سکتی جب تک اس ضمن میں اودھ کے حکمرانوں کا ذکر نہ کیا جائے۔ مطلق العنانی کے کسی دور میں ہم بادشاہ اور رعایا میں اتنا ذہنی قرب اور دونوں کے طبائع میں اس سے زیادہ ہم آہنگی نہیں دیکھتے جتنی اودھ کے اس دور میں دیکھتے ہیں۔ ان حکمرانوں میں آصف الدولہ اور واجد علی شاہ کو خاص طور پر اپنی رعایا میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ آصف الدولہ کے انتقال پر لکھنؤ کے گلی کوچوں سے رونے کی صدائیں بلند تھیں تو واجد علی شاہ کی لکھنؤ سے مہاجرت پر شہر بھر میں کہرام مچ گیا اور یہ واقعہ اودھ کے کئی لوگ گیتوں کا موضوع بن گیا۔
اودھ کے سب ہی حکمراں شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ آصف الدولہ صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ سعادت علی خاں خود شاعر نہ تھے لیکن بہت سے شاعر ان کے دامن سے وابستہ تھے۔ غازی الدین حیدر کو لُغت سے خاص دلچسپی تھی، انھوں نے ایک بہت ضخیم اور جامع لُغت "تاج اللغات" کے نام سے تالیف کرایا۔ نصیرالدین حیدر کو بھی لغت سے دلچسپی تھی۔ اس کے علاوہ وہ شاعر بھی تھے اور بادشاہ تخلّص کرتے تھے۔ محمد علی شاہ اور امجد علی شاہ کی ادبی سرگرمیوں کا زیادہ ذکر نہیں ملتا لیکن ان دونوں کی تلافی واجد علی شاہ نے کر دی۔ بادشاہوں کا کیا ذکر، کسی بھی ادب کی تاریخ میں ان کے سے کثیر التصانیف لوگ کم ہی نکلیں گے ، اور اتنے متنوع موضوعوں پر تو شاید ہی کسی شخص نے قلم اٹھایا ہو۔ شاعری میں بھی ان کے مجموعے اپنے دامن میں غزل، قصیدے ، مثنوی، مرثیے ، نوحے ، سلام، رباعی، قطعے وغیرہ سے لے کر ٹھمری، کبت اور دوہڈے تک رکھتے ہیں۔ اردو ڈراما میں اوّلیت کا سہرا اُنھیں کے سر ہے۔ ان کی تصنیفیں ادبیات، خودنوشت، تاریخ، مذہبیات، عملیات، جنسیات، مضحکات، صنعت و حرفت، فلسفہ و اخلاق وغیرہ، نہ معلوم کتنے موضوعوں کو محیط ہیں۔ شاعروں، ادیبوں اور عالموں کی ایک بہت بڑی تعداد ان کے خزانے سے وظائف اور تنخواہیں پاتی تھی۔
اودھ کے حکمرانوں کے اس ذوق اور قدردانی نے بیت السلطنت میں قلم کے سپاہیوں کا ایک ٹڈّی دل لشکر تیار کر دیا تھا۔
عام طور پر یہ حکمراں اہلِ فن کی قدردانی میں یہاں تک بڑھے ہوئے تھے کہ اکثر اُن کی گستاخیاں بھی سہہ لیتے تھے۔ ایسے متعدّد واقعات ہم کو تاریخ اور روایت میں ملتے ہیں جہاں اودھ کے حکمراں کم حیثیت اور غریب کاریگروں تک کی ناز برداریاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تقریباً یہی حال دوسرے امرا اور اکابر کا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ جن کے ہاتھ میں کوئی بھی فن یا ہنر تھا، قدردانی اور قدردانوں کی تلاش میں کھنچ کھنچ کر لکھنؤ آئے اور لکھنؤ ان سے چھلکنے لگا۔ چوں کہ انھیں اپنے فن کی پوری قیمت ملتی تھی اس لیے انھوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ایسے تخلیقات پیش کیے کہ آج اُن کا ذکر ایک افسانہ معلوم ہوتا ہے اور اگر اب تک ان کے اکا دکا نمونے باقی نہ رہ گئے ہوتے تو ان کی حقیقت پر یقین کرنا مشکل ہوتا۔
اودھ کے حکمرانوں کے مختلف النوع مشاغل کو عوام نے بھی اپنی بساط کے مطابق اختیار کر لیا تھا۔ اگر وہ دریا کے کنارے رمنا بنا کر ہاتھیوں کی جنگ کرواتے تھے تو یہ سڑک کے کنارے گھیرا ڈال کر مُرغ، تیتر اور بٹیریں لڑاتے تھے۔ یہ بھی نہ ہو تو مُرغیوں کے انڈے ہی لڑا کر خوش ہو لیتے تھے۔ اگر واجد علی شاہ لاکھوں سے بھی زیادہ صرف کر کے اپنے رہس کے جلسے ترتیب دیتے اور ان کو اسٹیج کرنے کے لیے علیحدہ علیحدہ عمارتیں بنواتے تھے تو یہ بھی کھلی ہوئی جگہوں پر تخت بچھا کر اور پردے باندھ کر اندر سبھا کے کھیل سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ غرض بادشاہوں کے تقریباً تمام مشاغل سے چھوٹے پیمانے پر دل بہلایا کرتے تھے۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سلطنتِ اودھ کے بانی نواب سعادت خاں برہان الملک کا وطن ایران تھا۔ اسی وجہ سے اودھ کی تہذیب پر ایرانیت کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ یوں تو مسلمان حکمرانوں کے عہد میں پورے ہندوستان کی تہذیب ایران سے متاثر ہوئی لیکن اودھ پر ایرانیت کا نقش بہت نمایاں تھا۔ لباس کی وضع قطع، بالوں کی تراش خراش، مکانوں کی اندرونی آرائش ایران کے انداز پر ہوتی تھی۔ فارسی سرکاری زبان تھی اور تحریر و تقریر دونوں پر اس کی حکومت تھی، لیکن رفتہ رفتہ اردو اس پر حاوی ہوتی گئی۔ دوسری طرف اہلِ لکھنؤ کی جدّت پسندی ہر شعبے میں نئی نئی تبدیلیاں پیدا کرنے لگی۔ اس طرح ایرانیت کا وہ رنگ جو ابتدا میں بہت گہرا تھا، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہلکا پڑنے لگا اور دوسرے بہت سے رنگوں کی آمیزش کے باعث اتنا نمایاں نہ رہا جتنا شروع میں تھا۔ لکھنؤ کی تہذیب پر ایرانیت کے اثر کے بارے میں پروفیسر سیّد احتشام حسین لکھتے ہیں:
جب اٹھارویں صدی میں دہلی میں حکومت "شمشیر و سناں" کی منزل سے نکل کر "طاؤس و رباب" کی منزل میں داخل ہوئی تو اودھ میں بھی ایک نیم خودمختار حکومت قائم ہو گئی۔ اس کے قائم کرنے والے محمد امین برہان الملک سعادت خاں تھے جن کی رگوں میں عجمی خون گردش کر رہا تھا یہاں اس پہلی خصوصیت کی جانب اشارہ کرنا ضروری ہے جسے لکھنؤ کی تہذیب میں ایرانیت یا عجمیّت کے عنصر سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ گو دہلی کی درباری اور جاگیردارانہ فضا اس اثر سے محفوظ نہیں تھی لیکن یہاں اس کا اثر ذرا زیادہ گہرا اور نمایاں تھا کیوں کہ اس دفعہ اس میں مذہبیت بھی شامل تھی۔ اس کا تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کا اظہار لکھنؤ کی تہذیبی زندگی میں فرقہ پرستی، تنگ نظری یا عصبیت کی شکل میں نہیں، ایک عقیدے سے جذباتی وابستگی کی شکل میں ہوا اور چوں کہ حکومت اور عوام دونوں نے اس سے گہرے شغف کا اظہار کیا اس لیے اس کا اثر یہاں کی علمی اور ادبی زندگی، موسیقی، فنِ تعمیر اور دوسرے چھوٹے چھوٹے فنونِ لطیفہ پر پڑا۔(۲۵)
اودھ کے شاہی خاندان کا مذہب شیعہ تھا اور ان حکمرانوں کو اپنے مذہبی مراسم، عزاداری وغیرہ، میں خاص انہماک تھا۔ النّاس علیٰ دین ملوکہم کے مصداق اودھ کی تہذیب اور ثقافت پر بھی شیعیت کا پرتو پڑا۔ ایامِ عزا میں عام طور پر لوگ لہو و لعب سے گریز کرتے تھے۔ تعزیہ داری، مجالس اور مذہب کے اُن مراسم میں جو بالعموم شیعوں سے مخصوص تھے ہندو اور اہل سنّت حضرات بھی دل کھول کر حصہ لیتے تھے۔ یہ مراسم مذہبی سے کہیں زیادہ ثقافتی حیثیت اختیار کر گئے تھے اور فروغِ دین سے گزر کر اصولِ تمدّن میں داخل ہو گئے تھے۔ اِن مراسم میں ہندو مذہب کے بعض مراسم بھی ذرا سی شکل بدل کر شریک ہو گئے۔ مثلاً جس طرح ہندوؤں میں کوئی مراد بر آنے کے لیے ست نرائن کی کتھا مانی جاتی ہے اسی طرح مسلمانوں نے منّت کے طور پر جنابِ سیّدہ کی کہانی ماننا شروع کی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ست نرائن کی کتھا اور جنابِ سیّدہ کی کہانی کے بعض اجزا بالکل یکساں ہیں۔ سوز خوانی میں بھی مرثیوں کے پُر درد بند ہندو راگ مالا پہن کر سامنے آتے تھے۔(۲۶)
مذہب کا ذکر آتے ہی فرماں روایانِ اودھ کی ایک نہایت اہم خصوصیت کی طرف منتقل ہو جاتا ہے : وہ ہے اُن کی بے تعصبّی۔ اگرچہ ذاتی طور پر یہ پورا سلسلہ مذہب کا پابند تھا اور ان میں سے بعض تو کٹّر مسلمان اور اپنے عقائد میں حد درجہ غلو رکھنے والے تھے لیکن یہ پابندی ان کی اپنی ذات تک محدود تھی۔ ملکی سطح پر ان کی نظر میں شیعہ اور غیر شیعہ، مسلم اور غیرمسلم کی ایک حیثیت تھی۔ حکومت کے بعض اہم منصب ہندوؤں کے ہاتھ میں رہتے تھے اور دیوان کا عہدہ تو گویا انھیں کے لیے مخصوص ہو گیا تھا۔ یہ عہدے دار پورے خلوصِ نیت سے جاں نثاری کا حق ادا کرتے تھے اور اودھ کے حکمران نہ صرف ان کے سچے قدردان تھے بلکہ ان سے دلی محبت بھی رکھتے تھے۔
ہندوؤں کے مذہبی تیوہاروں سے بھی حکمرانوں کو خاص دلچسپی تھی۔ آصف الدولہ خود ہولی کھیلتے تھے۔ اس کے بارے میں میر نے ایک مدحیہ مثنوی بھی کہی جس کا پہلا مصرع ہے :
ہولی کھیلا آصف الدولہ وزیر
محمد بخش مہجور کی "انشائے نورتن" کے ابتدائیے سے معلوم ہوتا ہے کہ غازی الدین حیدر کے یہاں بھی ہولی کھیلی جاتی تھی۔ غازی الدین حیدر کی مدح میں جو قصیدہ مہجور نے لکھا ہے اس میں "تعریفِ محفل" کے عنوان سے یہ شعر ملتے ہیں:
ہولی کے موسم میں تیری بزم کا دیکھا یہ رنگ
غٹ کے غٹ باندھے ہوئے دامن حسینانِ جہاں
پھرتے ہیں رنگِ شفق میں شکلِ مہ ڈوبے ہوئے
ہاتھ میں مثلِ ثُریا بھر کے سب پچکاریاں
اودھ کے آخری تاجدار واجد علی شاہ کو ہندوؤں کی راس لیلا اور سری کرشن جی کی شخصیت سے بہت دلچسپی تھی۔ اردو کا پہلا ڈراما جو واجد علی شاہ نے لکھ کر اسٹیج کیا وہ "رادھا کنھیّا کا قصّہ" تھا۔ یہ ڈراما دراصل راس لیلا ہی کو ترقی یافتہ اور پُر شکوہ شکل میں پیش کرتا تھا۔(۲۷)
فرماں روایانِ اودھ کا فوجی کردار ایک طرح سے شجاع الدولہ کے ساتھ ختم ہو گیا تھا اور ملک گیری کی نسبت اب اُن کا میلان ملک داری کی طرف زیادہ تھا۔ آصف الدولہ غالباً اس سلسلے کے آخری شخص تھے جنھوں نے ضابطہ فوج کے ساتھ شریک ہو کر جنگ کی۔ میر تقی میر شجاع الدولہ اور حافظ رحمت خاں کی جنگ کے بارے میں لکھتے ہیں:
صاحبزادہ آصف الدولہ بہادر جنگ کے میدان میں بڑی سرگرمی سے لڑے۔ جدھر کا رُخ کرتے ، دھواں سا اڑا دیتے اور توپ خانے کے زنجیرے کو تلوار سے کاٹ دیتے۔(۲۸)
لیکن ذاتی طور پر یہ پورا سلسلہ شجاع اور فنِ حرب سے اچھی طرح واقف تھا اور ان میں سے بعض حیرت انگیز جسمانی قوت کے مالک تھے۔ ان کی زور آوری کے کچھ واقعات تو موجودہ زمانے کے معیار کو دیکھتے ہوئے ناقابلِ یقین سے معلوم ہوتے ہیں۔ واجد علی شاہ نے اپنے صیغۂ فوجی کی طرف بہ طور خاص توجہ کر کے اپنی عسکری قوّت کو بڑھانا چاہا۔ پروفیسر مسعود حسن رضوی کا یہ بیان پڑھیے :
[واجد علی شاہ] انتظامِ سلطنت کے سلسلے میں سب سے پہلے اپنی فوج کی درستی کی طرف متوجہ ہوئے اور کئی نئی پلٹنیں اور رسالے بھرتی کیے۔ روزانہ صبح کی نماز پڑھ کر پریڈ کے میدان میں پہنچ جاتے تھے اور فوجی قواعد کی جو فارسی اصطلاحیں خود ایجاد کی تھیں ان کے موافق تین چار گھنٹے فوج کو قواعد کرواتے تھے۔ ان کا حکم تھا کہ اگر فوج کا کوئی دستہ وقت پر پریڈ کے میدان میں نہ پہنچے تو اس پر دو ہزار روپیہ جرمانہ کیا جائے اور اگر وہ خود سلطنت کے ضروری کاموں کے علاوہ کسی اور وجہ سے غیر حاضر ہوں تو اُن پر بھی اتنی ہی رقم جرمانہ کر کے فوج میں تقسیم کر دی جائے۔ ان کی یہ فوجی سرگرمیاں انگریزوں کو پسند نہ آئیں اور وہ ان کو ترک کرنے پر مجبور کیے گئے۔(۲۹)
جس طرح اودھ کے حکمرانوں کے دوسرے مشغلوں کا اثر عوام نے قبول کیا، اسی طرح ان کے سپہ گری کے شوق نے بھی لکھنؤ کی عوامی زندگی میں راہ پائی اور یہی وجہ تھی کہ ولیم نائیٹن کو لکھنؤ ایک افسانوی شہر نظر آیا جہاں کے "خاص و عام پہلوان ہی پیدا ہوتے ہیں"۔ حرب و ضرب کے اسی عام مذاق نے اردو مرثیے کو اُس دور میں رزمیہ عناصر دے کر ایک منفرد صنفِ سخن بنا دیا اور اسی عام فضا کا اثر تھا کہ اس دور کی بیشتر اردو داستانوں میں التزام کے ساتھ جنگ کے مناظر ملتے ہیں۔
اودھ کے حکمراں، جن کی غفلت شعاری، نااہلی اور عیش کوشیوں کی داستانیں ہمارے دماغوں میں سرایت کر چکی ہیں اور جنھیں انگریزوں اور ان کے حاشیہ نشیں موّرخوں نے روم کا نیرو، انگلستان کا جان اور فرانس کا چودھواں لوئی بنا کر پیش کیا ہے ، کب سے اپنے حق میں "ہنرش نیز بگو" کے منتظر اور اس کے مستحق ہیں کہ ایک ہمدردانہ اور غیر جانبدارانہ تاریخ لکھی جائے اور دیکھا جائے کہ انھوں نے اپنے وطن کو کیا دیا۔
لکھنؤ کی ثقافت کا ایک نہایت درخشاں پہلو یہاں کے دو بڑے مذہبی فرقوں، یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں، کا باہمی اتحاد تھا۔ یہ اتحاد اس شہر کی روایت بن گیا تھا اور آج تک اس کا اثر باقی ہے۔ اس روایت کی بنیاد اسی زمانے میں مستحکم ہو چکی تھی۔ آٹھویں کا میلہ، شاہ مِینا کا عُرس اور چہلم کے جلوس یکساں سارے شہر کی دل چسپی، توجہ اور انہماک کا مرکز بنتے تھے۔ ادبی جلسے ہوں یا ناچ رنگ کی محفلیں، ان میں شریک ہونے والوں کے لیے مذہب و مسلک کی کوئی قید نہیں تھی۔ علم، ادب اور فن کی تمام راہوں پر یہ دونوں فرقے دوش بدوش آگے بڑھ رہے تھے ، دونوں یکساں داد و انعام سے نوازے جاتے تھے اور لکھنؤ کو بامِ عروج تک پہنچانے میں دونوں کا برابر کا حصہ تھا۔
اِس مثالی یک جہتی کے پیچھے فرماں روایانِ اودھ کی بے تعصّبی تو کام کر ہی رہی تھی لیکن اس کے پسِ پشت جو سب سے بڑی قوت کارفرما تھا وہ تھی اردو زبان۔ اردو ان دونوں فرقوں کو اتنا قریب لے آئی کہ دونوں ایک معلوم ہونے لگے۔
۱۸۵۶ء انتزاعِ سلطنتِ اودھ کا سال ہے اور یہی وہ سال ہے جس کے بعد سے لکھنؤ کی تہذیب اور ثقافت زوال کی طرف جھکتی چلی گئی۔ جو سبب دور دور سے اہلِ کمال کو کھینچ کھینچ کر لکھنؤ لایا تھا وہ ختم ہوا اور یہ شیرازہ بکھرنے لگا۔ قافلے کے قافلے مہاجرت اختیار کر کے لکھنؤ سے جانے لگے۔ انھیں کے ساتھ لکھنؤ کے اہلِ کمال بھی قدردانوں کی تلاش میں اِدھر اُدھر نکل گئے اور اب دوسری دیسی ریاستوں رام پور، بنارس، الور، بھوپال وغیرہ کے عروج کا زمانہ آیا۔ یوں لکھنؤ کے اقبال کا ستارہ ٹوٹ کر دور دور تک منزلیں روشن کر گیا۔
اودھ کے مالیات پر انگریزوں کا قبضہ ہوا۔ لکھنؤ، جہاں سلطنت بھر کی آمدنی کھنچ کر آ جاتی تھی، تہی دست ہونے لگا اور اب یہاں کی دولت لندن پہنچنے لگی۔ اس طرح لکھنؤ کی خوشحالی کو ایسا دھکّا پہنچا کہ اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ اصل یہ ہے کہ دولت کی فراوانی ہی خاص طور پر لکھنؤ کو مرجعِ خلائق بنائے ہوئے تھی، چناں چہ دولت کے ساتھ ہی لکھنؤ کی مرجعیت اور مرکزیت نے بھی رختِ سفر باندھ لیا۔
۱۸۵۷ء میں انگریزوں کی حکومت سے چھٹکارا پانے کی پہلی تحریک شروع ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں جنگ کے شعلے بھڑکنے لگے۔ لکھنؤ میں بھی یہ آگ دہک اٹھی، لیکن دوسرے شہروں کی طرح یہاں بھی یہ تحریک ناکام ہو گئی۔ اس آویزش میں لکھنؤ نے وہ کچھ دیکھا جو پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ایک مختصر سی مدّت میں باغوں اور سنہرے گنبدوں کا یہ پرستانی شہر بربادی اور ویرانی کی تصویر بن کر رہ گیا۔ جن با رونق بازاروں میں زندگی اور زندہ دلی کا ہجوم رہتا تھا اُن میں لاشوں کی وہ کثرت اور انسانی گوشت کے سڑنے سے تعفّن کی وہ شدّت ہوئی کہ ایک عرصے تک کتّوں اور کرگسوں کے سوا انسان کا اُدھر سے گذرنا مشکل ہو گیا۔ ہرے بھرے باغوں کے تھالے خون سے بھر گئے اور پھر ان باغوں میں خاک اڑنے لگی۔ بے شمار عمارتیں زمین کے برابر کر دی گئیں، جن میں دہلی کے شیخ زادوں کا بنوایا ہوا قلعہ مچھی بھون شامل تھا۔ جواہرات، زیورات اور دوسرے لاتعداد نوادر لٹ گئے یا تلف ہو گئے یا انگلستان کے عجائب خانوں اور شخصی ذخیروں، ہندوستان کے انگریزوں اور ریاستوں کے توشہ خانوں کی زینت بن گئے۔ اس غارت گری میں صرف انگریز ہی نہیں، ہندوستانی فوج کے تلنگے اور بہت سے "گھر کے چراغ" بھی شریک تھے۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
۱۸۵۷ء کے واقعات متعدّد کتابوں میں ملتے ہیں۔ یہاں فدا علی عیش کے بیان کے چند اقتباس پیش کیے جاتے ہیں جن سے لکھنؤ کی تباہی اور اہلِ شہر کی خانماں بربادی کا کچھ اندازہ ہو سکتا ہے۔ عیش لکھتے ہیں:
انگریزوں نے لکھنؤ میں ہزاروں بم کے گولے اتارے۔ آگ برسا دی صدہا مکان ٹوٹے ، ہزاروں کا انتقال ہوا۔ اس سے جو بچے انھوں نے بھاگنا شروع کیا شہر کے تین ناکے بند تھے ، ایک ناکہ کھلا تھا۔ بھاگنے کا وہی راستہ تھا۔ ہزاروں کیا، لاکھوں زن و مرد ایک کے پیچھے ایک پیدل رواں تھے وہ وہ شہزادیاں، امیر زادیاں جو گھر میں دو قدم بھی پیدل نہ چل سکتی تھیں بے مقنع و چادر روتی جاتی تھیں کوئی بی بی کہیں تھک کر بیٹھ گئی، کوئی نازنین کہیں گر پڑی، کسی نازک اندام کے پاؤں میں کانٹا چبھا، کسی چاند سی صورت نے ٹھوکر کھائی اپنا ہوش نہیں، لڑکوں کو کون سنبھالے دوپٹے دُلائیوں سے منھ چھپائے ، جنگل جنگل کی خاک چھانتی چلی جاتی تھیں بچے جدا بلبلاتے تھے ، معصوموں کو بھوک پیاس سے غش پر غش آتے تھے مرد بھی غریب اسی حال میں مبتلا تھے جب کسی قصبے یا قریے میں پہنچے ، کسی قدر آرام پایا۔ کسی نے کچھ دے دیا تو کھا لیا بزن کے ڈر سے نیند نہ آتی تھی بعضی عورتوں کے وارث، بعضوں کے بچے چھوٹ گئے۔ بعض نا خدا ترس قصبے والوں نے یہ سلوک کیا، رات بھر گھر میں رکھا، صبح کو چلتے وقت لُوٹ لیا۔ خلقت کے ہجوم سے جنگل میدانِ حشر کا نمونہ تھا کسی کو کسی کا ہوش نہ تھا اس کس مپرسی کے زمانے میں معلوم نہیں کون کس طرف، کون کدھر گیا۔ کسی کے جینے مرنے کا حال نہ کھلا۔
جب لکھنؤ رعایا سے خالی ہوا، مکانوں کے کھُدنے کا حکم ملا۔ لاکھوں گھر کھُد کر زمین کے برابر ہو گئے۔ آبادی کا نشان کیسا، نام تک نہ رہا۔ لکھنؤ سنسان، ہُو کا مکان ہو گیا شب کا کیا ذکر، دن کو شہر میں جاتے خوف آتا تھا اگر یہ داستان بھی تحریر کروں تو ایک طومار ہو جائے۔(۳۰)
جب تک یہ شہر بیت السلطنت تھا، مخزن اہلِ کمال، ہر چیز میں ضرب المثل رہا۔ اب ویرانی و بربادی میں مشہورِ نزدیک و دور ہے جس نے اُس زمانے میں اس کا عروج دیکھا تھا اس سے پوچھیے تیرے دل پر کیا گذرتی ہے۔ آج تک آنکھوں میں وہی تصویر بے نظیر پھرتی ہے۔(۳۱)
مرزا غالب ایک خط میں لکھتے ہیں:
تباہیِ ریاستِ اودھ نے ، باآں کہ بیگانۂ محض ہوں، مجھ کو اور بھی افسردہ دل کر دیا۔ بلکہ میں کہتا ہوں سخت ناانصاف ہوں گے وہ اہلِ ہند جو افسردہ دل نہ ہوئے ہوں گے۔(۳۲)
۱۸۵۷ء کے بعد سے انگریزوں کی اصل حکمرانی شروع ہوئی۔ اب اُن کا اثر تہذیب و معاشرت کی رگوں میں بھی نفوذ کرنے لگا۔ محکوموں نے حاکموں کے طور طریقوں کو اعلیٰ زندگی کا معیار قرار دے کر ان کی تقلید شروع کی اور دھیرے دھیرے "مشرقی تمدن کا آخری نمونہ" مغربی حکمرانوں کے زیرِ اثر اپنے اصلی خدوخال سے محروم ہونے لگا۔ لکھنؤ کی ثقافت اور معاشرت کسی مضبوط بنیاد پر نہیں کھڑی تھی۔ وہ قدیم روایات، حوادث و تجربات اور ماہ و سال کی وہ گردشیں جو کسی تہذیب کو دیر پائی بخشتی ہیں، لکھنؤ اُن سے محروم تھا۔ صدیوں میں تشکیل پانے والی تہذیبیں صدیوں تک زندہ رہنے اور نامساعد حالات کا سامنا کرنے کی سکت رکھتی ہیں اور ایک مدّت تک رد عمل کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔ لکھنؤ کی تہذیب پر سے ایک صدی کی چاروں چوتھائیاں بھی نہ گزری تھیں اور وہ اسی مدّت میں ابتدا و ارتقا کی منزلوں سے گزرتی اور اپنے عروج کی بلندیوں کو سر کرتی ہوئی زوال کی پستیوں میں جا پڑی۔ اس یک لخت عروج و زوال کا سبب، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، لکھنؤ کی دولتِ مستعجل تھی۔ انتزاعِ سلطنت کے بعد دولت کے اس سرچشمے پر انگریز قابض ہو گئے۔ اس طرح ہر کس و ناکس کے لیے سونے کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے موقعے نہیں رہے۔ علاوہ بریں لکھنؤ تحریک کا ایک اہم مرکز تھا اس لیے فتح یاب ہونے کے بعد انگریزوں نے یہاں داروگیر کا بازار گرم کر دیا۔ پہلی بات کے نتیجے میں اہلِ کمال کا لکھنؤ آنا ختم ہوا اور دوسری کے نتیجے میں اہلِ شہر نے گروہ در گروہ لکھنؤ سے جانا شروع کیا۔ یوں ۱۸۵۷ء کے فوراً بعد کچھ عرصے کے لیے لکھنؤ کی پھر وہی حالت ہو گئی جو اس کے تہذیبی ارتقا سے پہلے تھی۔ وہی اداسی، وہی ویرانی، وہی پس ماندگی اور وہی کس مپرسی ایک دفعہ پھر لکھنؤ کا مقدّر ہو گئی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ پہلے یہ شہر "پھُوس کے چھپروں اور کچے مکانوں"(۳۳) کے ساتھ ویران تھا اور اب فلک بوس عمارتوں اور عالی شان محل سراؤں کے ساتھ۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
اگرچہ یہ حالت بھی زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہی امن و امان بحال ہونے کے بعد مہاجروں نے پھر لکھنؤ واپس آنا شروع کیا، شہر پھر آباد ہو گیا، اس کی گئی ہوئی رونق بھی ایک حد تک واپس آ گئی لیکن اب ملوک دوسرے تھے ، دینِ ملوک دوسرا تھا۔ انگریزوں کے ساتھ ان کے نظریات اور معیارات نے بھی حکمرانی اور عوام نے اُن کی پیروی شروع کی۔ فدا علی عیش کے "مسدّسِ انقلاب" سے ان تہذیبی تبدیلیوں کا سراغ ملتا ہے۔ چند ایسے بند پیش کیے جاتے ہیں جن میں شاعر نے لکھنؤ کی گزشتہ اور موجودہ حالتوں کا موازنہ کیا ہے :
لکھنؤ میں نہ کسی شخص کو تھی فکرِ معاش
سارے ساماں تھے بہم، تھی نہ کسی شے کی تلاش
تھی اسی شہر کی مشہور تراش اور خراش
عیب بھی کرتے تھے اس حُسن سے بانکے اوباش
بات کرنے کا سلیقہ اسے آ جاتا تھا
ان کی صحبت سے بشر آدمی کہلاتا تھا
اب کہاں اس کی وہ رونق، وہ شکوہ اور وہ شاں
اگلی باتوں کا نہیں خواب میں بھی نام و نشاں
نہ وہ پوشاک نہ وہ لوگ نہ وہ لطفِ زباں
دیکھ لیں آنکھوں سے احباب، عیاں را چہ بیاں
اب یہ تہذیب ہے ، یوں چال بشر چلتے ہیں
سیٹیاں منھ سے بجاتے ہیں جدھر چلتے ہیں
لال ٹوپی تو سرِ پاک پہ کترے ہوئے بال
تولیہ جیب میں جاکٹ کی بجائے رومال
لکڑی تو ہاتھوں میں رہتی ہے ڈبل چلتے ہیں چال
گوشتِ بریانِ ولایت کو سمجھتے ہیں حلال
کوئی کھانا ہو، اٹھاتے ہیں چھری کانٹے سے
میز پر بیٹھ کے کھاتے ہیں چھری کانٹے سے
ہے پسند آج گلاب اور چنبیلی کی زباں
شکنتلا قصّۂ دلچسپ میں ہے لطفِ بیاں
کوئی ناول جو لکھے ، ہے وہ فصیحِ دوراں
نثرِ رنگین و مقفّیٰ کی نہیں قدر یہاں
جس میں انگریزی کے الفاظ ہوں تقریر وہ ہے
جس میں انگریزی کا پرداز ہو تحریر وہ ہے
عہدِ شاہی کے جو کچھ لوگ نظر آتے ہیں
نیم وحشی وہی اس وقت میں کہلاتے ہیں
بعضوں سے غیر مہذّب بھی سنے جاتے ہیں
پڑھ کے انگریزی مہذّب کا لقب پاتے ہیں
جو زباں اُن کی ہے عمدہ وہ زباں ہے اب تو
فعل انگریزوں کا مطبوعِ جہاں ہے اب تو
جا بہ جا ڈیہہ مکانوں کے جو آتے ہیں نظر
کھینچ کر آہ بہ صدود یہ کہتے ہیں بشر
تھا کسی وقت میں آباد یہ شہرِ خوش تر
شام تھی شامِ اودھ، صبح بنارس تھی سحر
پہلے آباد تھا یہ ملکِ سلیماں کی طرح
اب تو الٹا ہوا ہے خِطۂ یوناں کی طرح
اس طرح لکھنؤ کی تہذیب دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک کے پیر وہ تھے جو قدیم وضع پر اَڑے رہنا چاہتے تھے اور انگریزیت سے متعلق ہر بات کو کفر و زندقہ کی نشانی سمجھتے تھے۔ دوسرا طبقہ ان لوگوں کا تھا جو زمانے کے ساتھ خود بھی مڑ رہے تھے اور قدامت پسندی کو جہالت کی علامت سمجھتے تھے۔ رتن ناتھ سرشار کے "فسانۂ آزاد" میں خوجی اور میاں آزاد لکھنؤ کی تہذیب کے انھیں دونوں متصادم عناصر کی نمائندگی کرتے ہیں۔
غرض ۱۸۵۷ء کے بعد لکھنؤ کی قدیم تہذیب بالکل تو نہیں مٹی لیکن اس کے نمائندے کلّیے سے استثنا کی سرحد میں داخل ہو گئے اور یہ مستثنیات آج بھی لکھنؤ میں مل جاتے ہیں۔
٭٭٭
حواشی
(۱) "سوانحاتِ سلاطینِ اودھ" میں سید کمال حیدر دارالحکومت کی منتقلی کو ۱۷۸۱ء کا واقعہ بتاتے ہیں لیکن دوسری تاریخوں سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ آصف الدولہ ۱۷۷۵ء میں مسند نشیں ہوئے اور بعض شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنی مسند نشینی کے پہلے ہی سال انھوں نے لکھنؤ کا قیام اختیار کر لیا۔
(۲) وزیر علی کو گرفتار کر کے کلکتے میں قید کر دیا گیا جہاں چھتیس برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا اور سلطان شہید ٹیپو کے بیٹے کے قریب دفن کیے گئے۔ ("سوانحات" ص۱۴۲۔) وزیر علی شاعر بھی تھے۔ اُن کا یہ شعر ان کے حسبِ حال ہے :
جوں سبزہ رُندے اگتے ہی پیروں کے تلے ہم
اس گلشنِ شاداب میں پھولے نہ پھلے ہم
(۳) اب یہ لفظ عصمت فروش کے لیے مخصوص ہو گیا ہے لیکن پہلے یہ عام عورتوں کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔
(۴) چھچھوندر: آتش بازی کی ایک قسم۔
(۵،۶،۷) "فسانۂ عبرت": مرزا رجب علی بیگ سرور، مرتّبۂ پروفیسر سید مسعود حسن رضوی، کتاب نگر، لکھنؤ۔ (احوالِ امجد علی شاہ)
(۸) "سپاہی سے صوبے دار" (خودنوشت سرگزشتِ سیتارام)، مترجمین: لیفٹیننٹ کرنل ڈی سی فلاٹ اور خان بہادر علامہ رضا علی وحشت کلکتوی۔ سیتا رام لکھتا ہے :
یہ بات مشہور تھی کہ صاحب لوگوں ]انگریزوں[ کی پیدائش ایک انڈے سے ہوئی ہے جو کسی درخت سے نکلا تھا اور یہی خیال اب تک بھی دور دراز مقامات میں پایا جاتا ہے۔ اگر کوئی جوان حسین میم ہمارے گاؤں میں آ پڑتی تو لوگ دیوی سمجھ کر اسے ڈنڈوت کرنے لگتے ، لیکن اگر کوئی بوڑھی میم ہوتی تو اس کو جادوگرنی جان کر جنگلوں میں بھاگ جاتے۔(ص۱۷۔۱۸) سیتا رام نے ایک بوڑھی عورت کا یہ قول بھی نقل کیا ہے : "میں سنتی آئی ہوں کہ یہ لوگ انڈوں سے کسی درخت پر ایک جزیرے میں پیدا ہوتے ہیں جو یہاں سے بہت دور ہے۔"(ص۱۸)
(سیتا رام ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کا ایک سپاہی تھا جو ترقی کر کے صوبے دار ہو گیا تھا۔ اس نے اپنی سرگزشت ہندی زبان میں لکھی تھی جس کا انگریزی ترجمہ لیفٹیننٹ کرنل مارگیٹ نے کیا تھا۔ زیرِ نظر اردو ترجمہ اسی انگریزی ترجمے سے کیا گیا ہے۔ مشمولہ "خواب و خیال"، ناشر: تھیکواسپنک اینڈ کمپنی لمیٹڈ، کلکتہ۔)
(۹) بہ حوالۂ مضمون "لکھنؤ: سوا سو برس پہلے ": پروفیسر سیّد حسین، ماہنامہ "نیا دور"، لکھنؤ، مئی ۱۹۶۰ء۔
(۱۰) بہ حوالۂ "میاں داد خاں سیّاح اور ان کا کلام": ڈاکٹر سیّد ظہیر الدین مدنی، سب رس کتاب گھر، حیدرآباد دکن، ۱۹۵۷ء (ص۸۳)۔
(۱۱) "شبابِ لکھنؤ" (ترجمۂPrivate Life of an Eastern King ، مصنّفہ ولیم نائیٹن)، مترجم: محمد واجد علی، الناظر پریس، لکھنؤ، ۱۹۱۲ء (ص۵)۔
(۱۲) "گلزارِ سرور"، افضل المطابع محمدی، کان پور، سنِ طباعت درج نہیں۔ (دیباچہ۔)
(۱۳) "فسانۂ دل فریب": منشی فدا علی عرف اچھے صاحب عیش لکھنوی، نول کشور، لکھنؤ، ۱۹۱۲ء (ص۴)۔
(۱۴) یہ بازار اب بھی موجود ہے۔ پہلے اس کا سلسلہ دریائے گومتی کے کنارے تک چلا گیا تھا لیکن اب اس کا طول اکبرِ اعظم کے بنوائے ہوئے اکبری دروازے سے گول دروازے تک محدود رہ گیا ہے۔ آج بھی اس کی فضا میں ایک عجب قدامت کی سی کیفیت ہے جو اس کو دوسرے بازاروں سے ممتاز کیے ہوئے ہے۔
(۱۵) شُہدے : عام طور پر شہدا کا لفظ اوباش اور لفنگا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ، لیکن درحقیقت یہ ایک پیشہ ور فرقے کا نام تھا۔ سید فضل علی کے اس شعر سے معلوم ہوتا ہے کہ شُہدوں کا ذریعۂ معاش روٹیاں بیچنا تھا:
لیے پھرتے ہیں شُہدے روٹیوں کو
کہ لے بھاری یہ آدھے ڈھیر کی دو
شُہدے میّت کا تابوت اٹھانے اور اس کا شامیانہ سنبھالنے کا کام بھی کرتے تھے اور خوشی کی تقریبوں میں مبارکباد دے کر انعام بھی لیتے تھے۔ شادی وغیرہ کی تقریبوں میں جنازہ اٹھانے والے شہدوں کا ڈیوڑھی پر آ کر صدا لگانا گو ایک اخلاقی سبق تھا کہ انسان کو خوشیوں کے ہجوم میں اپنے انجام سے غافل نہ ہونا چاہیے۔ لکھنؤ میں ابھی چند شہدے باقی ہیں لیکن پیشہ ورانہ حیثیت سے ان کا وجود تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ (سیّد فخر الدین حسین سخن نے اپنی داستان "سرفروشِ سخن" میں شہدوں کے کردار اور اندازِ گفتگو کی مختصر لیکن بہت دل چسپ تصویر کشی کی ہے۔)
(۱۶) "فوائدِ عجیبہ"، مطبوعہ کارخانۂ نثار علی، لکھنؤ، حسب الحکم سلطان المطابع ۱۲۶۸ھ (ص۲۷۔۲۸)۔
(۱۷،۱۸) "شبابِ لکھنؤ" (ص۲۔۳)۔
(۱۹) بہ حوالہ Lucknow Past and Present : اکرام الدین قدوائی، تیج کمار پریس، لکھنؤ، ۱۹۵۱ء (ص۱)۔
(۲۰) "فسانۂ عجائب" (دیباچہ)۔
(۲۱) سوز خوانی پر حاشیہ آگے دیکھیے۔
(۲۲) "سوانحاتِ سلاطینِ اودھ" (ص۱۱۲)۔
(۲۳) بونسائی(Bonsai) : اہلِ جاپان کا خاص فنِ باغبانی جس کے ماہرین تناور قسم کے درختوں کی پرورش اس طرح کرتے ہیں کہ وہ چند بالشت سے زیادہ اونچے نہیں ہونے پاتے۔ اسی تناسب سے ان درختوں کی پتیاں بھی چھوٹی کر لی جاتی ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ قد آور اور چھتنار درختوں کی طرح ان بالشتیے درختوں کے تنوں اور چھال میں کرختگی اور کہنگی آ جاتی ہے۔ ان کی عمریں بھی ان کی قسموں کے مطابق ہوتی ہیں، چناں چہ جاپان میں بعض درخت چار چار سو برس سے زیادہ کی عمر کے موجود ہیں جن کا قد ڈھائی فٹ سے آگے نہیں بڑھنے پایا ہے ، حالاں کہ عکسی تصویروں میں وہ کوہ پیکر درخت معلوم ہوتے ہیں۔
نواب آصف الدولہ کے لگوائے ہوئے وسیع و عریض عیش باغ میں پھلوں کے جو درخت تھے وہ ایک ایک دو دو ہاتھ سے زیادہ اونچے نہ تھے ، اور اس کے باوجود یہ سب درخت باقاعدہ پھلتے تھے۔ واجد علی شاہ نے اپنی ولی عہدی کے زمانے میں نواب علی نقی خاں کی معرفت جو" حضور باغ" لگوایا تھا اس میں الگ الگ پھلوں کے کئی چمن تھے ، واجد علی شاہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
ایک چمن میں بالکل ناشپاتی کے درخت لگائے تھے۔ ایک میں بالکل سیب کے درخت لگائے تھے ایک چمن مطلق شفتالُو کے درختوں کا تھا ایک چمن امرود کا اور ایک نارنج ہزارہ کا تھا۔ ایک نارنج ولایتی اور ایک شریفے کا تھا ․․․ تعجب یہ ہے کہ جملہ درخت جو باوجود مثل تار ]یعنی قد آور قسم کے تھے [ مگر ایک گز سے زیادہ بلند نہ تھے۔
("محلّ خانۂ شاہی"، ورما پریس لکھنؤ، ۱۹۱۴ء (ص۷۵)۔
(۲۴) "فسانۂ عجائب" (دیباچہ)۔
(۲۵) "افکار و وسائل"، نسیم بک ڈپو، لکھنؤ، ۱۹۶۲ء (ص۹۵۔۹۶)۔ (مضمون: "لکھنؤ ادبی مرکز")
(۲۶) سوز خوانی کے لیے موسیقی کی قدیم اور مشکل صنف دھُرپد کا انتخاب کیا گیا۔ اگرچہ اس وقت تک خیال کی گائیکی دھرپد پر غالب آ چکی تھی لیکن چند خصوصیات کی بنا پر سوز خوانی کے لیے دھرپد ہی کا لباس زیادہ موزوں تھا۔ شرعِ اسلامی غنا کو اس شرط پر قبول کرتی تھی کہ اس میں گلے بازی اور گٹکریوں سے کام نہ لیا جائے۔ دھرپد کی بھی یہی شرط تھی کہ گانے میں گلے کو ہلایا نہ جائے۔ سوز خوانی میں ظاہر ہے کہ الفاظ پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا تھا، اُدھر خیال کے برخلاف دھرپد کی بھی امتیازی خصوصیت یہی تھی کہ اس میں الفاظ ادا کرنے پر بھی اتنا ہی زور دیا جاتا تھا جتنا راگ کی پیش کش پر۔ البتہ دھرپد میں لمبی تان کھینچنا ممنوع تھا لیکن سوز خوانی میں اس پابندی کو ہٹا دیا گیا اور خاص اسی سبب سے سوز خوانی میں یہ حیرت خیز وصف پیدا ہوا کہ سوز راگداری سے الگ کوئی چیز معلوم ہونے لگے۔ میر علی سوز خواں (جو دھرپد کے زبردست استاد تھے ) اور ان کے شاگردوں نے سوز خوانی کے بنانے نکھارنے میں بڑے کمال صرف کیے۔ بھیرو، دیس، جوگیا، درباری، جون پوری، اور بعض دوسرے راگ راگنیوں کی بنیاد پر سوزخوانی کی بہترین دھُنیں بنائی گئیں۔ ان با کمالوں نے اپنے فن کو اجتہاد کے اس درجے تک پہنچا دیا کہ جو راگ خوشی کا تاثر پیدا کرتے ہیں وہ بھی سوز میں ڈھل کر غم کی کیفیت ظاہر کرنے لگے۔ (میر علی کی رکھی ہوئی سوز کی بعض دھنیں اب بھی باقی ہیں لیکن انھیں صحیح طور پر پیش کرنے والے سوز خواں نہیں رہے۔)
(۲۷) "لکھنؤ کا شاہی اسٹیج": پروفیسر سید مسعود حسن رضوی ادیب، کتاب نگر، لکھنؤ۔
(۲۸) "نورتن" مطبع نول کشور، لکھنؤ ۱۹۲۹ء ص۵۔۶
(۲۹) "لکھنؤ کا شاہی اسٹیج"۔
(۳۰) "فسانۂ دل فریب" (ابتدائیہ)۔
(۳۱) "فسانۂ دل فریب" (ابتدائیہ)۔
(۳۲) بہ نام شیخ لطیف احمد عثمانی بلگرامی۔
(۳۳) "شبابِ لکھنؤ" (مقدمۂ مترجم)۔
٭٭٭
 
Top