فاروقی شان قصہ قرطاس کی روشنی
مرض وفات کے دوران جو بعض غیر معمولی واقعات پیش آئے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یوم الخمیس یعنی جمعرات کے دن (ظہرکے وقت سے پہلے ) جبکہ آپ ﷺ پر بیماری کا شدید غلبہ تھا ، آپ نے ایک وقت وصیت لکھنے کا ارادہ ظاہر فرما دیا اور حضرت عبد الرحمان بن عوف ؓ (اور بعض روایت کے مطابق حضرت علیؓ ) سے فرما یا کہ بکری کے شانہ کی ہڈی ( کتف) کہ جو چوڑی ہو نے کے سبب لکھنے کے زیادہ پسند کی جاتی ہے یا کوئی تختہ لے آؤ تاکہ میں اس پر ابو بکر ؓ کے لئے وصیت لکھ دوں (اور دوسری روایتوں میں خلافت ابو بکر کے بجائے کوئی وصیت یا کوئی بات لکھنے کا ذکر ہے )حضرت عبد الرحمنؓ بن عوف ،آپ ﷺ کے فرمان کے مطابق ہڈی یا تختہ ( کا غذ) لانے کے لئے اٹھنا ہی چا ہٹے تھے کہ آپ ﷺ نے فرما یا کہ اچھا رہنے دو اب ضرورت محسوس نہیں کرتا ۔ چونکہ آپ ﷺ نے لکھنے لکھانے کا سامان منگوایا تھا اس لئے اس واقعہ کو ''واقعہ قرطاس، قصہ قرطاس اور حدیث قرطا س ''کہتے ہیں ۔
حضرت ابن عباسؓ کی حدیث میں یہ الفاظ ہیں ۔
جب رسول اللہ ﷺکی بیماری بہت بڑھ گئی تو فرما یا لکھنے کا سامان (کاغذ قلم ) لاؤ ۔میں تمھیں ایک دستاویز لکھوادوں کہ اس کے بعد م نہیں بھٹکو گے ۔حضرت عمرؓ نے فرما یا کہ رسول اللہ ﷺ پر بیماری کا غلبہ ہے ۔اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب کا فی ہے ۔لوگوں میں اختلاف ہوا ایک روایت میں ہے اہل بیت نے اختلاف کیا اور جھگڑنے لگے ) اور شور مچ گیا ، آپ ﷺ نے فر مایا میرے پاس سے چلے جاؤ ۔یہاں لڑنا جھگڑنا کیا معنی؟ ابن عباس ؓ (اس حدیث کو بیان کر کے ) با ہر نکلے اور بو لے ہائے مصیبت ۔وائے مصیبت جو رسول اللہ ﷺ اور کتاب لکھوانے میں آڑ بن گئی ۔( کتاب العلم بخاری جلد اول حدیث ۱۱۴۔
واقعہ تو صرف اسی قدر ہےمگر اہل رفض وتسیّع نے اس پر خوب طوفان مچایا اور حضرٹ عمرؓ پر الزاموں کی بارشروع کردی اور ہٹ دھرمی س آج تک اس پر اڑےہوئے ہیں یہ روایت صحیح بخاری میں ہے ۔ اس لئے کہتے ہیں کہ یہ ہماری من گھڑت بات نہیں اہل سنت کی سب سے مستند معتمد اور سب سے صحیح کتاب بخاری شریف میں ہے کہ حضور ﷺ آخری وقت میں مسلمانوں کے لئے کوئی وصیت لکھوانا چاہتے تھے ،کا غذ قلم لانے کا حکم دیا مگر حضرت عمرؓ نے کسی کو کا غذ قلم لانے نہیں دیا ۔یہ نبی ﷺ کی نا فرمانی انھوں نے کی۔جاری ہے۔