بابا رتن اوران کے حالاتِ زندگی

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
از: مولانا عبیداللہ فاروق بارہ بنکی

مدرسہ جامعہ عربیہ ضیاء العلوم، بارہ بنکی



محدثین اورمورخین کے نزدیک یہ طے شدہ بات ہے کہ سب سے آخری صحابی حضرت ”ابوالطفیل عامر بن واثلہ“ رضی اللہ عنہ ہیں، جن کی وفات دوسری صدی کے بالکل اوائل میں ہوئی۔ آپ کے انتقال کے بعد روئے زمین حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے صحبت یافتہ حضرات سے یکسرمحروم ہوگئی۔ لیکن چھٹی صدی ہجری کے اواخر میں ایک ہند نژاد شخص نے اپنے آپ کو صحابی رسول بتاکر ایک اچھا خاصا بھونچال کھڑا کردیا۔ یہ شخص ”رتن سنگھ ہندی“ ہیں جو ہندوستان میں ”بابا رتن“ اور ”ہندوستانی صحابی“ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔


بابا رتن کی زندگی کے تمام گوشوں میں شدید انکار وتوثیق کی عجیب وغریب ”کش مکش“ پائی جاتی ہے؛ مگر سب سے زیادہ اختلاف آپ کی ”صحابیت“ کے بارے میں ہے۔ یہ اختلاف اُسی زمانے کے مقتدر علماء میں تھا اور بعد کے علماء نے اپنے ذوق ومذاق کے اعتبار سے طعن وتشنیع اور تائید و توثیق کی ہے۔


ہندوستانی علماء میں علامہ مناظراحسن گیلانی رحمة الله عليهاور مولانا عبدالصمد صارم الازہری کی اردو تحریریں بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہیں۔ اگرچہ علامہ گیلانی کا فیصلہ سکوت پر مبنی ہے مگر بابا رتن کی صحابیت کے انکار کرنے والوں کی دبے انداز میں طرفداری کی ہے، جبکہ مولانا عبدالصمد صارم صاحب نے تائید و توثیق کرنے والوں کا کھل کر ساتھ دیا ہے۔ ذیل میں ”بابارتن“ کے حالات علماء کے اختلاف کے ساتھ درج کیے جارہے ہیں۔


آپ کی پیدائش آپ کے آبائی وطن میں ہوئی مگر آبائی وطن کون ہے؟ اس میں شدید اختلاف ہے۔ مولانا گیلانی نے ”بھنڈہ“ نامی گاؤں کو مانا ہے جو ”سندھ“ اور دہلی کے راستے میں واقع ہے، لیکن مولانا عبدالصمد صارم لکھتے ہیں کہ ”آپ موضع ترمذی“ قصبہ ’ریڑھ“ ضلع ”بجنور“ کے رہنے والے تھے، وہ ہندوؤں کی ایک قوم کے چوہان تھے، اس خاندان کا ایک ”گوت تسیرا“ تھا آپ اسی خاندان سے ہیں“ (رسالہ جہان کتب،ص:۲۴، مارچ ۲۰۰۸ء)


دونوں بزرگوں نے اپنے قول کو ہر طرح سے مدلّل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں بزرگوں کا کہنا ہے کہ ہم ان کے آبائی وطن (جو دونوں کے نزدیک محقق ہے) گئے، وہاں کے لوگوں سے معلوم کیا، لوگوں نے اس کی تصدیق کی۔ ان حضرات کی جو بھی تحقیق ہے وہ ان کی ذہانت، دور رسی اور بالغ نظری پر دال ہے جو یہاں اختصار کے پیش نظر بیان نہیں کی جارہی ہیں۔ پھر ان حضرات کا آپ کی تاریخ وفات اور ”مدفن“ میں بھی اختلاف ہے، علامہ گیلانی نے ”بابا صاحب“ کی تاریخ وفات ۶۳۲ھ اور قبر ”بھنڈہ“ میں بتائی ہے جیساکہ آئین اکبری میں ہے کہ ”درہفت صد سال ہجری فروشد وہما نجا آسود“ مگر مولانا عبدالصمد صارم کا کہناہے کہ ”بھنڈہ“ میں فروکش ہونے والے شخص بابا رتن نہیں بلکہ ”حاجی رتن“ ہیں، جو خواجہ ”معین الدین اجمیری“ کے مُرید تھے ”ابوالفضل کو یہاں البتاس ہوگیاہے“ پھر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ”بابارتن“ ”حاجی رتن“ اور ”گوگاپیر“ جو حاجی صاحب کے مرید تھے، یہ تینوں شخصیتیں جدا جدا ہیں لوگوں نے حالات میں خلط ملط کرکے گوگا پیر،اور حاجی صاحب کو ایک بنادیا پھر حاجی رتن اور ”بابا رتن“ کے مابین فرق مٹادیا، پھر اپنی تحقیق کو تاریخی اور مذہبی کتابوں کے حوالوں سے موٴید کرتے ہوئے اس کا نتیجہ یوں بیان کرتے ہیں ”کہ گوگا پیر کے حالات مختلف کتابوں، مختلف مقامات، قدیم زبانی رواتیوں اور گیتوں سے اخذ کیا،تو مجھے پتہ چلا کہ ”بابارتن“ اور ”حاجی رتن“ دو جداگانہ شخصیتیں ہیں۔


اگرمولانا کی تحقیق صحیح ہے تو آپ کی تاریخ وفات اور ”مدفن“ کے بارے میں آپ کی رائے معتبر ہوگی۔ (جہان کتب،ص:۲۴-۲۵) جن کا تذکرہ آگے آرہا ہے۔


بہرکیف: آپ ہندوستانی باشندے ہیں قصبہ ”جیور“ ضلع ”علی گڑھ“ کی حکومت کے وزیر تھے ایک دن موسم گرما کی رات میں چھت پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک انھوں نے دیکھا کہ چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے، چاند کا ایک حصہ مشرق میں ایک مغرب میں منقسم ہوگیا، اندھیرا چھاگیا پھر تھوڑی دیر بعد دونوں اس طرح مل گئے، جیسے اس میں شگاف ہی نہ ہوا ہو، آپ کو حیرت ہوئی اس کی تحقیق کرائی تو معلوم ہوا کہ حجاز میں ”نبی آخرالزماں“ نے کفّارِ مکہ کے مطالبے پر یہ معجزہ دکھلایا ہے۔ ملاقات کی غرض سے ملک حجاز کے لیے عازمِ سفر ہوئے اور تحفے میں املی اپنے ساتھ لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور آپ کے ہاتھوں مشرف باسلام ہوئے۔(ملخص حضرت رتن سنگھ)


”بابا رتن“ نے اپنے اسلام لانے کے بارے میں آپ سے ملاقات کرنے والے ”داؤد بن سعد قفال سنجروی“ جو ایک نیک طینت اور صالح آدمی ہیں، سے بیان کیا کہ ”میں ابتدا میں بت پرست تھا، ایک رات خواب میں دیکھا کہ میں ملک ”شام“ میں ہوں، لہٰذا میں نئے مذہب کی تلاش میں ملک ”شام“ گیا، وہاں عیسائیت کا بول بالا تھا، میں نے عیسائیت قبول کرلی، کچھ عرصے کے بعد میں نے رسول اللہ -صلى الله عليه وسلم- کے بارے میں سنا اور ”مدینہ منورہ“ جاکر مشرف باسلام ہوا، حضور صلى الله عليه وسلم نے میرے لیے درازیٴ عمر کی دعا کی، میں آپ کے ساتھ یومِ خندق میں شریک تھا، پھر اجازت لے کر وطن واپس آگیا۔ (ایک ہندوستانی صحابی،ص:۲۵)


وطن آنے کے بعد آپ نے کون کون سے کام انجام دئیے؟ اور آپ کا انتقال کب ہوا؟ اس کے بارے میں مولانا عبدالصمد صارم صاحب رقم طراز ہیں کہ ”ایک عرصے تک مدینہ شریف میں رہے اور پھر وطن چلے آئے اور موضع ”کھادڑی“ متصل ”اعظم پور باسٹہ“ ضلع ”مراد آباد“ (یوپی) میں سکونت اختیار کی اور ریاضت ومجاہدہ میں مشغول ہوگئے۔ انھوں نے ۶۲۵ھ میں وفات پائی اس موضع میں ان کا مزار زیارت گاہِ خلائق ہے۔“ (جہانِ کتب)


جب آپ نے اپنے بارے میں صحابیٴ رسول ہونے کا دعویٰ کیا تو لوگوں میں عجیب وغریب چرچے ہونے لگے کچھ لوگ عقیدت ومحبت کی نگاہ سے دیکھنے لگے اور کچھ لوگوں نے ان کی برائی بیان کرنا شروع کی۔ تاجروں، سیاحوں اور مُریدوں نے اس بات کو ”مشرق“ سے ”مغرب“ تک پہنچادیا رفتہ رفتہ یہ بات محدثین، نُقاد، ماہرین علوم اور اربابِ علم وفضل کی مجلسوں میں موضوعِ بحث بن گئی۔ شیدائیانِ حدیث نے اندلس، یوروپ اور دور دراز ملکوں کا سفر کرکے مشکلات ومصائب سفر برداشت کرکے ”بابا رتن“ کا دیدار کیا ان کے احوال و کوائف سے باخبر ہوئے اور حدیثیں سنیں۔ جن حضرات نے ان کو دیکھ کر براہِ راست ان کی زبانی احوال سنے ہیں اور حدیثوں کا سماع کیا ہے ان میں سے چند حضرات یہ ہیں: (۱) ابومروان اندلسی، (۲) علی بن محمد خراسانی، (۳) حسین بن محمد (۴) داؤد بن قفال سنجروری (۵) عبدالوہاب بن اسماعیل صوفی (۶) محمد عجمی (۷) ابوبکر مقدسی (۸) ہمام الدین شہرقندی اور موسیٰ بن مجلی صوفی۔


ان حضرات سے بہت سی احادیث مروی ہیں جن کی تعداد چار سو سے بھی متجاوز ہیں انہیں میں سے ”رتنیات ثابتات“ ہیں، جن کی تعداد ۴۰ ہیں۔ دراصل احادیث رتنیات کا اکثر حصہ بابا کے حالات زندگی پر، اور کچھ احادیث رسول پر مشتمل ہے، جن کا ذکر یہاں پر مقصود نہیں ہے۔ البتہ علامہ گیلانی نے بڑی جفاکشی اور حسن اسلوبی سے ”حالات پر مشتمل احادیث“ کے مضمون کا خلاصہ کیاہے جو یہاں ”من وعن“ پیش خدمت ہے۔


(۱) ”رتن ایک ہندوستانی آدمی تھا، وہ نسلاً بت پرست تھا، (۲) اس کی عمر خلافِ عادت بہت زیادہ دراز ہوئی (۳) پہلے عیسائی ہوا، (۴) پھر مسلمان ہوا (۵) آں حضرت صلى الله عليه وسلم کی صحبت سے نوازا گیا (۶) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی میں ”مدینہ“ میں موجود تھا وہاں ناچا بھی، گایا بھی، (۷) غازی تھا، جنگ خندق کے علاوہ یہودیوں کے خلاف بعض جہاد میں شریک تھا، (۸) تمام صحابہ میں اس کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ اس نے آں حضرت صلى الله عليه وسلم کو اپنی گود میں اٹھایا شاید یہ شرف کسی کو حاصل نہیں (۹) حضور صلى الله عليه وسلم کے سامنے اس نے املی کا تحفہ پیش کیا (۱۰) حضور صلى الله عليه وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کو کھجوریں دیں، اپنے دست مبارک سے اس کی پیٹھ ٹھونکی، درازیٴ عمر کی دعا دی (ماخوذ: ایک ہندوستانی صحابی،ص:۳۵) پھر حالات پر مشتمل روایات کے راویوں پر تبصرہ کیا ہے؛ تاکہ روایات کا ضعف؛ بل کہ ان کا وضع کھل کر سامنے آجائے۔


علامہ موصوف نقد کرتے ہوئے فیصلہ سناتے ہیں کہ ”بابا رتن“ کی روایات ”ہمام الدین شہرقندی“، اور ”موسیٰ بن مجلی صوفی“ سے زیادہ تر ہیں، صرف تین سو احادیث کا راوی ”موسیٰ بن مجلّی“ ہے جن میں وہ چالیس احادیث جو ”رتنیات ثابتات“ سے موسوم ہیں، ان میں شامل ہیں، اس صوفی کے بارے میں علامہ ذہبی نے لکھا ہے: کہ ”وأظَنُّ أنَّ ہٰذہالخُرافاتِ مِنْ وَضْعِ ہٰذَا الجَاہِلِ ”موسیٰ بن مُجَلّٰی“ (اصابہ،ص:۱۹۰) میرا گمان ہے کہ ”بابا رتن“ کی طرف جو حدیثیں واہیات منسوب ہیں، وہ اس جاہل گنوار کی ہیں۔ (ایک ہندوستانی صحابی،ص:۳۵)


حق بات یہ ہے کہ ”بابارتن“ سے روایت کردہ وہ احادیث جو ان کے احوال و کوائف پر مشتمل ہیں وہ اتنی متضاد ہیں کہ اُن سے کوئی بات اخذ نہیں کی جاسکتی؛ اسی وجہ سے آپ کی عمر کی تعیین نہیں ہوسکی اسی تضاد اور اختلاف کی وجہ سے آپ سے صحابیت سے ہم دردی جتلانے والے ”مولانا عبدالصمد صارم“ بھی تضاد بیانی سے پریشان ہوکر یہ کہنے پر مجبور ہیں ”کہ ان کے متعلق جو ایک چند روایات ہیں، ان میں بے حد تضاد ہے اور تاریخ اعتبار سے کوئی بھی صحیح بات ثابت معلوم نہیں ہوتی، ان تمام روایات کا مرکز ”موسیٰ بن مجلّی صوفی“ ہے جس کے بارے میں امام ذہبی نے لکھا ہے کہ یہ روایات اس جاہل کی وضع کردہ ہیں۔“ (جہان کتب:۲۵) اور ہمام الدین شہرقندی اکثر ”ماہرین اسمائے رجال“ کے یہاں ضعیف ہے۔


بابا رتن کی وہ روایات جو احادیث رسول پر مبنی ہیں، ان کے بابت علماء محدثین کا خیال ہے کہ وہ موضوع ہیں اِنھیں علماء محدثین کی طرف سے وکالت کرتے ہوئے علامہ گیلانی فیصلہ سناتے ہیں کہ اُس نے آپ صلى الله عليه وسلم کی حدیثیں بھی روایت کی، جن میں اکثر صراحتاً موضوع اور مختلق ہیں“ (ایک ہندوستانی صحابی،ص:۳۵)


بابا رتن کی تمام تر روایات علامہ ذہبی نے ایک جزو میں جمع کردی ہیں اور حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب ”اصابہ میں بھی بعض نقل کی ہیں اسی طرح کچھ احادیث کو علامہ گیلانی نے اپنی کتاب ایک ہندوستانی صحابی“ میں درج کیاہے۔ وہاں دیکھی جاسکتی ہیں۔


بابا رتن کا سب سے زیادہ اختلافی گوشہ ان کی صحابیت کا ہے۔ یہاں بالتفصیل ان کی صحابیت کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔ ”بابارتن“ کے ”دعویٰ صحابیت“ کے سلسلے میں علماء کا شدید اختلاف ہے، کچھ لوگوں نے انھیں صحابی ہونا تسلیم کیاہے، تو کچھ لوگوں نے اپنی غیرت اسلامی، حمیت ایمانی اور تقدس صحابہ کو پیش رکھ کر انکار کیا ہے اور ان کولاغی، کذاب،اور دجّال تک کہا ہے۔ یہ سلسلہ ساتویں صدی سے اب تک چلا آرہا ہے اور لوگوں نے اپنی اپنی کتابوں میں اس کو جگہ دی ہے۔


”اصابہ“ میں لکھا ہے کہ بابا صاحب کی صحابیت کا سب سے پہلے انکار کرنے والے حافظ شمس الدین ذہبی ہیں۔ علامہ موصوف نے اپنی کتاب ”میزان“ میں اس مسئلہ کو بڑی بسط وتفصیل سے لکھاہے؛ بلکہ انھوں نے ان کی صحابیت کی تردید میں ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، جس کانام ”کِسرُ وثن رتن“ رتن نامی بت کی شکستگی ہے جس میں وہ خوب خوب برسے ہیں اور عجیب وغریب تردیدی کلمات استعمال کیے۔


کذاب، دجّال، جھوٹا، فریبی، بڈھا، شیطان بشکل انسان سب کچھ کہہ ڈالا بلکہ رتن صاحب سے اتنے زیادہ نالاں ہیں کہ انھوں نے اپنے رسالے ”کِسْرُ وَثْنِ رتن“ کی ابتدا ان الفاظ سے کی ہے بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم، سبحانک ہذا بُہتَانٌ عظیمٌ اور خاتمے میں فرماتے ہیں فما ذا بعد الحق الا الضلال پھر لکھا ہے کہ اگر رتن ہندی واقعی شخص ہے تو پھر یہ شیطان ہے جو انسانی صورت میں ظاہر ہوا درازیٴ عمر اور صحبت نبوی کا دعویٰ کیا تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے (کسروثن رتن بحوالہ ایک ہندوستانی صحابی) ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ ”اس گمراہ بڈھے نے لوگوں کو گمراہ کرکے جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنالیا (حوالہ مذکورہ) علامہ ذہبی رتن ہندی کے بارے میں ایک نادر خیال کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”زنادقہ نے ایک فرضی نام رکھ کر اس کی طرف سے حدیثیں منسوب کردی ہیں“ (حضرت، رتن سنگھ)


علامہ موصوف نے جو کچھ لکھا یا کہا ہے اور ان کے بارے میں جو ان کا خیال ہے وہ سب ایسے ہی نہیں ہے بلکہ انھوں نے حدیث اور تاریخی حقائق کو سامنے رکھ کر کہی ہیں، کیوں کہ سات سو سال (۷۰۰) تک کسی صحابی کا زندہ رہناقطعی طور پر مستبعد ہے؛ اس لیے کہ حدیث شریف میں ہے آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ”أرئیتُم لیلتّکُم ہٰذہفانّہعلٰی رأس مِأة سَنةٍ لا یبقٰی علی وجہ الأرض مِمَّنْ ہُو الیَوم عَلیہا أحدٌ“ (ابن ماجہ) کہ تم لوگ اس رات کو دیکھ رہے ہو ایک صدی بعد تم میں سے کوئی بھی سطح زمین پر باقی نہیں رہے گا۔


پھر تاریخی حوالوں سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ ساتویں صدی میں ہندوستان میں مسلمان فاتح بن کر آئے اور یہاں کی حکومت ان کے زیر قیادت رہی، انھوں نے علم وعمل کی قندیلیں روشن کیں؛ جن سے افادہ استفادہ کی راہیں ہم وار ہوئیں، بابا اگر واقعی صحابی تھے تو یہ حضرات ان سے ملاقاتیں کرتے مگر تاریخ اس سے خاموش ہے بالخصوص: غزنی خاندان علم اور اہل علم کا دلدادہ تھا مگر ان کے زمانے میں بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے۔


چوتھی صدی میں محمود سبکتگین نے ہندوستان پر لگاتار حملے کیے اور ملک میں گھسے مگر ان کے متعلق کوئی خبر نہیں ملی، مہدی، منصور، مامون الرشید، ہارون الرشید وغیرہ کے ہندوستان سے اچھے روابط تھے اگر بابا صاحب کا وجود ہوتا تو ضرور ان لوگوں کو اس کی اطلاع ملتی۔ الغرض : یہ وجوہ ہیں جن کی وجہ سے حافظ ذہبی بابا پر سخت نالاں ہیں؛ لیکن علامہ ذہبی کے خاص تلمیذ علامہ صفدی نے اپنی مشہور تاریخی کتاب ”الوافی الوفیات“ میں ان کا تذکرہ کیا ہے اور اپنی طرف سے ان کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، البتہ آخر میں حافظ ذہبی کے نقد و تبصرہ کو مختصر الفاظ میں نقل کیا ہے جس سے ان کی رائے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔


بعد کے علماء میں حافظ ابن حجرعسقلانی، علامہ مجددالدین فیروز آبادی، شیخ علاء الدین اشرف سمنانی کچھوی، خواجہ محمد پارسا وغیرہ نے بھی ”بابارتن“ کا ذکر اپنی کتابوں میں کیاہے۔ آئین اکبری میں ابوالفضل لکھتے ہیں کہ: ”ابن حجر عسقلانی، مجددالدین فیروزآبادی، شیخ علاؤ الدین سمنانی، خواجہ محمد پارسا ازو نیکو پذیرند وستائش گردند“ آئین اکبری کی یہ عبارت ”بابا رتن“ کو صحابی ماننے والوں کے لیے سب سے بڑی دلیل ہے، اسی عبارت کو مولانا صارم صاحبرحمة الله عليهنے معیارِ سند بناکر علامہ گیلانی کی تحقیق کو ناقابل سماعت قرار دیا ہے؛ چنانچہ وہ اپنے مقالے ”حضرت رتن سنگھ صحابی“ میں رقم طراز ہیں ”ہندوستانی علماء میں رتن پر سب سے پہلے لکھنے والے مناظر احسن گیلانی نے ایک مضمون لکھا مگر انھوں نے تحقیق کی زحمت گوارا نہ کی، علامہ ذہبی پر بھروسہ کرتے ہوئے انہیں سب کچھ لکھ گئے حالانکہ رتن ایسے نہ تھے جیساکہ ذہبی نے بیان کیا ہے، رتن کو بڑے بڑے لوگوں نے ثقہ صحابی مانا ہے، ذہبی کے ہم عصر علامہ صفدی نے ان روایات وعقائد کی تردید کی ہے۔ (حضرت رتن سنگھ صحابی) ایک جگہ تو ذہبی رحمة الله عليهکو آڑے ہاتھوں لیا ہے، تبصرہ ملاحظہ ہو کہ ”رتن ہندوستانی شخص تھے ان کے متعلق تحقیقات ہندوستان میں ہونی چاہئے تھی، لوگوں کی بیان کردہ روایات پر بغیر تحقیقات کیے، مناسب نہ تھا کہ انھیں دجّال، کذّاب لکھا جائے پھر انھیں سے ہمدردی بھی جتلاتے ہیں کہ ”ذہبی کیا کرتے ان کا ہندوستان سے تعلق کیا تھا؟“ (حوالہ مذکورہ) (نوٹ: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا صارم صاحب نے صفدی کی کتاب الوافی الوفیات کا مطالعہ کئے بغیر اپنے ذہنی تاثرات کو ان کی جانب منسوب کردیا ہے ”از مرتب“)


مذکورہ بالا سطور سے معلوم ہوگیا کہ مولانا عبدالصمد صارم رتن صاحب کو صحابی ماننے میں ابوالفضل کی عبارت کو حرف آخر تسلیم کرتے ہیں اور ذہبی جیسے پائے کے محقق کی تحقیق کو غیرمعتبر مانتے ہیں؛ بلکہ ان کا یہ فیصلہ ہے ”کہ وہ ثقہ صحابی ہے“۔


دوسری طرف علامہ گیلانی کو ابوالفضل کی صداقت وعدالت پر شک ہے، انھوں نے اپنے رسالے میں ابوالفضل کے بارے میں لکھا ہے کہ ”افسوس ہے کہ اس روایت کو بیان کرنے والا اکبر کے دربار کا منشی ہے جس پر صداقت پروری سے زیادہ کذب فروشی کا گمان ہے، خصوصاً جب ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ابوالفضل فن تاریخ سے بالکل کورا تھا“ (ایک ہندوستانی صحابی:۳۸)


اس سلسلے میں ایک اور ہندوستان کے عالم مولانا نجم الغنی صاحب رامپوری ہیں جنھوں نے ابوالفضل کی اس عبارت کا بالتفصیل جواب دیا ہے، وہ اپنی کتاب ”تعلیم الایمان“ شرح فقہ اکبر میں لکھتے ہیں کہ شیخ علاؤالدین، شیخ رضی الدین، یا خواجہ محمد پارسا نے اس کے دعویٰ (صحابیت) کو تسلیم کیاہے، ان بزرگوں کا قبول کرلینا قابل حجت نہیں ہے، اگرچہ یہ لوگ صاحب کرامات، وعابد، ومتقی تھے مگراحوالِ رجال میں ان کو معرفت نہ تھی اورانھوں نے یہ دعوی نہیں کیاہے کہ ہم کو روحِ پاک صلى الله عليه وسلم سے معلوم ہوا ہے کہ رتن اپنے قول میں سچا ہے، اورنہ ابن حجر اور فیروز آبادی کا مان لینا محققین کے جم غفیر کے انکار کے سامنے قابل سند ہے، تمام علماے حدیث نے اِس کی احادیث کو رد کردیا ہے اورکبھی کسی واقعہ کے متعلق حدیث وسیرت کی کتابوں میں اس کا ذکر کسی حدیث یا قصے میں نہیں ہے۔(تعلیم الایمان،ص:۳۱۲)


خیر یہاں پر ”بابا رتن ہندی“ کے حالاتِ زندگی اور ان کی صحابیت پر علماء کی آراء واختلاف ان کے دلائل سمیت ختم ہوئے۔ علماء کے انکار و تردید یا تائید و توثیق سے فیصلہ کن بات سامنے نہیں آئی؛ اس لیے کوئی فیصلہ کرنامناسب معلوم نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس سلسلے میں علامہ گیلانی کا فیصلہ کہ ”ناظرین خود غور کرلیں کہ وجوہات کس کے قوی ہیں اوراس علمی معرکہ میں کھیت کس کے ہاتھ میں ہے“ بالکل بجا معلوم ہوتا ہے۔ تاہم چند معروضات پیش کی جارہی ہیں جن کی روشنی میں زیر بحث مسئلہ کی تنقیح ہوسکتی ہے۔


(۱) اگر آپ واقعی صحابی ہیں؛ تو علماء اسمائے رجال نے آپ کا تذکرہ اپنی کتابوں میں کیوں نہیں کیا؟ جبکہ ہندی تابعین و تبع تابعین کے احوال اور اُن کے کارناموں کے نقوش اسمائے رجال کی کتابوں میں ثبت ہیں۔ کیا یہ کہا جائے، کہ یہ تعصب پر مبنی ہے؟


(۲) آخری صحابی حضرت ابوالطفیلرضى الله تعالى عنهہیں جن کی وفات دوسری صدی کے بالکل اوائل میں ہوئی، تو سوال یہ ہے کہ صحابہ اگر رتن کو صحابی جانتے تو صحابہ کرامو تابعین سے بیان کرتے اور تابعین حضرت ابوالطفیل رضى الله تعالى عنهکو آخری صحابی نہ سمجھتے۔


(۳) آپ کا یہ کہنا ”کہ میں حضرت فاطمہ رضى الله تعالى عنهاکی شادی میں موجود تھا“ یہاں یہ سوال پیدا کررہا ہے کہ حضرت فاطمہرضى الله تعالى عنهکی شادی کے موقع پر کیا ایک لمبا چوڑا شادی کا پروگرام تھا کہ شرکت کرنے والوں کی کثرت کی وجہ سے کوئی ”بابا“ صاحب کو پہچان نہ سکا اور ان کا نام سیروحدیث میں جگہ نہ بناسکا؟


(۴) ”بابا صاحب“ کی غزوئہ احزاب، اور دوسرے غزوات میں شرکت ہوئی، پھر ان کی شرکت کا ثبوت سیر وتاریخ میں نہیں ملتا۔ ایسا کیوں؟


(۵) آخری زمانے میں نبی اکرم کے پاس غیر ملکی وفد بکثرت آتے تھے آپ، ان کو تعلیم دیتے تھے وہ واپس جاکر اپنے یہاں تعلیم وتبلیغ کی قندیلیں روشن کرتے تھے، تاریخ ہند بابا صاحب کی ایسی تحریکی تگ ودَو سے ناواقف کیوں ہے؟ پھر عرب وہند کے مابین اقتصادی لائن سے اچھے روابط تھے اور صحابہ باہر سے آنے والے لوگوں کا اکرام کرتے اور ان سے ان کے ملکی احوال معلوم کرتے پھر حدیث کے تحت ان کو بیان فرماتے تھے سوال یہ ہے کہ صحابہ سے ”ان کو بتائی جانے والی تعلیم“ اور ان کی حاضری پردئہ خفا میں کیوں رہ گئی؟


(۶) ”واپسی کے بعد،ایک پیپل کے درخت پر جاکر بیٹھ گئے اور صدیوں بیٹھے رہے۔“ دل میں کھٹکتی بات یہ ہے کہ سات صدی تک آدمی کیسے بیٹھا رہے گا جبکہ انسان کے لئے حرکت، آرام، نیند، تھکاوٹ، آپسی میل ملاپ اور اشیائے خورد ونوش وغیرہ انتہائی ناگزیر ہیں، ان کے بغیر ”بابا“ کیسے زندہ رہ گئے؟ علاوہ ازیں ہندوستان بہت سے مذاہب کا گہوارہ ہے یہاں کی بعض قومیں ”پیپل“ کے پرستار ہیں،اور پھر بزرگوں اور ان کی نادرالوجود چیزوں سے عقیدت ومحبت اور ان جگہوں پرحاضری دینا ہندوستانیوں کا ہمیشہ کا شیوہ رہا ہے، ”کیا پیپل کی عدم تعیین“ پرستارانِ درخت یا ’عقیدت مندوں“ کی جہالت پر مبنی ہے؟


(۷) ”زمین پر سوسال تک زندہ رہنے والی حدیث“ کی استثنائی صورت کسی ”دوسری حدیث“ یا ”قولِ صحابی“ سے ہی تسلیم ہوگی۔


(۸) سلاطین ہند کا ”بابا رتن“ سے چشم پوشی کرنا بعید از قیاس ہے۔


(۹) بابا صاحب کی وہ روایات جو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی طرف منسوب ہیں تمام علماء حدیث حتیٰ کہ خود مولانا صارم کے نزدیک بھی مختلق اور موضوع ہیں؟ اس طرح کا واقعہ صرف بابا کے ساتھ پیش آیا یہ تو ایک نادر الوجود چیز ہے جو”بابا“ کے ساتھ ہیں پیش آئی، کیا اس سے ”بابا“ کی صحابیت شک کے دائرے میں نہیں آتی؟


الغرض: اس طرح کی چند اور بنیادی باتیں ہیں جو ان کے دعوائے صحابیت کو مخدوش بنادیتی ہیں اور محقق ذہبی کے فیصلہ کی تائید و توثیق کرتی ہیں۔
 
Top