’میرا حجاب کھینچا اور مجھے گالیاں بھی دیں‘

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
دس سال پہلے 2001 میں 11 ستمبر کے بھیانک حملوں کے بعد امریکہ میں بہت کچھ بدل گیا۔ اسی کے ساتھ کتنی ہی زندگیاں بھی ہمیشہ کے لیے بدل گئیں۔

حملوں کے شکار ہزاروں بےگناہ لوگوں کے لواحقین اپنے پياروں سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔

کچھ امریکیوں کا خیال ہے کہ اسلام کی وجہ سے ہی امریکہ پر حملے ہوئے۔ لیکن زیادہ تر لوگ مسلمانوں اور اسلام کو ان حملو کا ذمہ دار ٹھہرائے جانے کو غلط سمجھتے ہیں۔

ویسے تو نسل اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کرنا قانوناً جرم ہے۔ لیکن امریکہ بھر میں نائن الیون کے فوراً بعد سے نفرت کے تحت ہونے والے جرائم میں 17 گنا اضافہ ہوا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایسے جرائم 2001 کے مقابلے کم تو ہوئے ہیں لیکن اب بھی ہر سال سو سے زیادہ ایسے واقعات کے معاملے درج کیے جا رہے ہیں۔

فہد احمد نیویارک میں انسانی حقوق کی تنظیم کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کی تنظیم نے 11 ستمبر کے حملوں کے فوراً بعد سے ہی جنوبی ایشیائی لوگوں کی مدد کرنی شروع کر دی تھی۔

وہ کہتے ہیں ’گیارہ ستمبر کے فوراً بعد کئی معاملے ہمارے پاس آئے جس میں پاکستانی نژاد لوگوں کے گھر والوں کو چھاپا مار کر اٹھا لیا گیا۔ اول کئی ہفتوں تک ان کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ اب بھی لوگ آتے ہیں جن کو پولیس روکتی ہے اور پوچھتی ہے کہ تم مسلمان ہو، کون سی مسجد میں جاتے ہو۔ اسی طرح امریکہ میں داخل ہونے والوں سے پوچھا جاتا ہے کہ تم کون سی مسجد جاتے ہو، وہاں خطبہ میں کیا کہا جاتا ہے۔‘

گیارہ ستمبر کے بعد سے اس طرح نشانہ بنائے جانے کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں نے اپنی نوکریاں چھوڑيں، کاروبار بند کیے اور بہت سے لوگ تو امریکہ چھوڑ کر واپس اپنے ملکوں کو چلے گئے۔

بہت سے مسلمانوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر گرفتار کرکے ملک سے نکالا بھی گیا اور بہت سے اب بھی مختلف قوانین کے تحت جیلوں میں بند ہیں۔

گزشتہ دس سالوں میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے کیس درج کیے گئے ہیں جن میں مسلمانوں اور ان کی مساجد یا اسلامی مراکز کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کبھی کسی مسلمان ٹیکسی ڈرائیور کو چھرا مار دیا گیا، تو کبھی کسی دکاندار کو گولی مار دی گئی۔ کئی مساجد پر بھی گولیوں اور بموں سے حملے کیے گئے۔

ان حملوں میں کئی لوگوں کی جانیں گئی ہیں اور بہت سے زخمی بھی ہوئے ہیں۔ آئے دن سڑک چلتے حجاب پہنے خواتین بھی تشدد اور بدسلوكي کا شکار ہو رہی ہیں۔

جہان السعید ایک عرب نسل کی امریکی طالبہ ہیں۔ سال دو ہزار نو میں ان کے سکول میں ان کے حجاب کو تین لڑکیوں نے کھینچ کر اتار دیا۔

جہان السعید کہتی ہیں ’میں سکول میں داخل ہوئی تو پیچھے سے تین لڑکیوں نے تین بار میرا حجاب کھینچا اور مجھے گالیاں بھی دیں۔ جب میں نے سکول کے سیکورٹی، جس نے یہ حملہ دیکھا تھا، سے شکایت کی تو انہوں نے ٹال دیا کہ کوئی بڑی بات نہیں ہوئی ہے۔‘

گیارہ ستمبر کے حملوں کے وقت پاکستانی نژاد کی رابعہ ساجد کی عمر آٹھ سال تھی اور وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی دعائیہ تقریب کے لیے ایک چرچ جا رہی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے حجاب پہنا ہوا تھا تو کچھ لوگوں نے ان کو گالیاں دے کر مارنے کی دھمکی دی اور کہا کہ اپنے ملک واپس چلی جاؤ۔

جب انہوں نے شکایت پولیس سے کرنی چاہی تو پولیس والوں نے کہا کہ بہتر ہوگا اگر آپ اس طرح حجاب نہ پہنیں۔ اس حادثے سے گھبرائي رابيا نے حجاب کو لپیٹ کے رکھ دیا اور پھر کبھی نہیں پہنا۔

رابعہ کہتی ہیں ’میں ابھی اگر حجاب پہنوں گي تو مجھے ڈر ہے کہ مجھے کچھ ہو نہ جائے۔ کیونکہ اگر میں پولیس سے کوئی شکایت بھی کرنے جاؤں گی تو مسلمان ہونے کی وجہ سے وہ میری بات پر توجہ نہیں دیں گے۔‘

اسی طرح بہت سے مسلمان نفرت کے حوالے سے ہونے والے حملوں کا شکار ہونے کے باوجود پولیس میں شکایت درج نہیں کراتے۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئی فائدہ نہیں ہے اور کسی کو سزا نہیں ملے گی۔

اس کے باوجود گزشتہ سال امریکہ میں تقریباً 43 فیصد مسلمانوں نے اپنے خلاف تشدد حملوں اور تعصب کی شکایات درج کرائیں۔

نیویارک یونیورسٹی میں لاء اسکول کے انسانی حقوق کے مرکز کی پروفیسر سمیتا نرولا کا کہنا ہے کہ حکومت کی دہشت گردی سے لڑنے کی پالیسیاں ہی غلط پیغام دیتی ہیں۔

’حکومت کی اپنی پالیسیاں ہی پیغام دے رہی ہیں کہ اگر آپ مسلمان ہیں، عرب ہیں یا پھر سکھ ہیں، تو آپ قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ جب کسی کی پگڑی یا حجاب کو کھینچا جاتا ہے اور حملے ہوتے ہیں تو حکومت مذمت تو کرتی ہے لیکن خود اس کی پالیسیاں چاہے وہ امیگریشن ہو، یا ایف بی آئی کے ایجنٹوں کو فرقوں میں جاسوسی کرنے بھیجنا ہو، ان سب سے عام لوگوں کو بھی یہ پیغام جاتا ہے کہ یہ فرقے قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ تو عوام بھی ان کے ساتھ ویسے ہی برتاؤ کرتی ہے۔‘

لیکن صرف مسلمان ہی نہیں سکھوں کو بھی ان کی داڑھی اور پگڑی کے سبب مسلمان سمجھ کر حملہ آوروں نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ ان حملوں میں کئی سکھ مارے جا چکے ہیں اور بہت سے زخمی بھی ہوئے ہیں۔

راجدر سنگھ خالصہ نیویارک میں رہتے ہیں۔ سنہ 2004 میں ان کو کچھ لڑکوں نے اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا جب وہ اپنے ایک دوست سکھ کی پگڑی گھسيٹے جانے پر انہیں بچانے پہنچے تھے۔ وہ اب بھی اس واقعہ کو بھلا نہیں پائے ہیں۔

راجدرسنگھ کہتے ہیں ’گیارہ ستمبر کے بعد جو ہمارے ساتھ ہوا اس سے ہماری زندگی ہی بدل گئی۔ ایک دن میں نے اپنے ایک سکھ دوست جس کی پگڑی پر حملہ کیا جا رہا تھا اس کو بچانے کی کوشش کی تو کچھ لوگوں نے مجھے اتنا مارا کہ میں بیہوش ہو گیا۔ آج تک میرا علاج چل رہا ہے۔ میری آمدنی چلی گئی اور میں قرض دار ہو گیا ہوں۔‘

امریکہ میں رہنے والے بہت سے مسلمان اب حکومت سے زیادہ امید بھی نہیں لگا رہے ہیں۔ بلکہ وہ مانتے ہیں کہ امریکی حکومت ان کی جاسوسی کرتی ہے اور ان پر نظر رکھتی ہے۔

لكن اس سب کے باوجود بہت سے مسلمانوں کا ماننا ہے کہ اب امریکہ ہی ان کا گھر ہے اور وہ یہیں رہیں گے۔ اور کوشش کریں گے کہ حالات بہتر کیے جا سکیں۔

 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
یہ پوسٹ کرنے کا مقسد کیا ہے
کیونکہ جو کچھ آپ نے لکھا ہے وہ تو بہت پہلے کی باتیں ہیں
ان سب کا موجودہ صورتحال سے کیا تعلق

^o^||3
 

نورمحمد

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم .. مغموم بھائی

حال ہی میں امیریکن ایمبیسی نے بمبئی میں حاجی علی درگاہ کے احاطے میں امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کے تعلق سے ایک سیمینار رکھا تھا جس میں چند تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے وہ لوگ یہ باور کرنا چاہتے تھے کہ . . . امریکہ میں مسلمانوں کو کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہے . . . . اس لحاظ سے یہ پوسٹ بالکل صحیح ہے
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
میں نے بھی حال ہی کی وجہ سے کہا ہے %||:-{
گیارہ ستمبر کے فورا بعد جو کچھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے لیکن اب صورت حال وہ نہیں رہی
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
مغموم صاحب آپ کی بات اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ نائن الیون کے واقعہ کب کا ہو گزرا ہے لیکن اس کے اثرات کبھی ختم نا ہونگیں۔آپ کو شائد یہ بھی پتا ہوگا کہ نائن الیون اب ہر سال منایا جاتا ہے اور اِس یقین کے ساتھ کہ غیر مذہب کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت زندہ رہے۔آج تک نائن الیون ہی کو مد نظر رکھ کر ہزاروں واقعات ہو رہے ہیں۔یہ جو میں نے لکھا ہے یہ واقعہ پورانا نہیں ہے۔اس لڑکی کی یہ انٹرویو دو تین دن پہلے لی گئی تھی جو کہ عرب ملک سے ہے۔امریکہ میں زیادہ تر مسلمانوں کے ساتھ یہ سلسلہ نائن الیون کے پس منظر سے چلا آ رہا ہے۔جب جب یہ اس دن کو منائیں گے تو نئے نئے واقعات رونما ہونگے۔اس لیے یہ کہنا کہ یہ بہت پہلے کی باتیں ہیں ٹھیک ہے مگر جو بعد میں اب تک ہو رہا ہے وہ انہی کا پس منظر ہے ۔صورت حال اب بھی وہی ہے لیکن بات صرف اتنی ہے کہ کچھ مفاد پرستوں نے ان کے ہاں میں ہاں ملا دیا ہے۔ایک امریکن کو مار دو تو وہ کیا کچھ نہیں کرتے جبکہ ہزاروں مسلمانوں کو مار کر کہتے ہیں کہ یہ دہشت گرد ہیں۔آپ خود دیکھئیے کہ یہ عراق ،افغانستان پر حملے کیا نائن الیون کا پس منظر نہیں ہے ۔۔آئے روز کتنے مسلمان مارے جاتے ہیں۔بات کب کی گزر گئی لیکن آگ میں آج تک لوگ جل کر مر رہیں ہیں۔ اللہ ہی اِن مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو کیونکہ ہم اور آپ تو صرف سنتے ہیں کہ کیا ہوا جبکہ جن پہ گزر رہی ہے یہ تو صرف وہی جانتے ہیں۔
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
ہماری زہنیت کچھ اس طرح کی ہے کہ ہم ہر چھوٹی بڑی بات میں امریکہ کو گھسیٹ لیتے ہیں خاص کر پاکستانیوں کی ~^o^~
اب پاکستان میں خاص کر پنجاب میں ڈینگی وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے تو میں کچھ دنوں سے عام آدمیوں میں یعنی عوام میں اس طرح کی باتیں بھی سن رہا ہوں یہ ڈینگی وائرس امریکہ یہاں پھیلا رہا ہے
اسی طرح دو دن پہلے مجھے ایک ایس ایم ایس موصول ہوا جس میں کہا گیا کہ گیارہ ستمبر کو کسی امریکی پادری کے قرآن پاک کو جلانے کا اعلان کیا ہے ساتھ میں پاکستانی حکومت کو گالی دے کر کہا گیا تھا کہ وہ اس پر احتجاج نہیں کرتی آپ اس ایس ایم ایس کو فارورڈ کر کے احتجاج میں شامل ہوں
یہ تو دو واقعات ہیں اس جیسے سینکڑوں واقعات روزانہ ہمارے سامنے رونما ہوتے ہیں مذہبی انتہا پسندی کہاں نہیں ہوتی
کیا پاکستان میں مذہنی انتہا پسند نہیں ہیں ؟
کیا انڈیا میں نہیں ہیں ؟
تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ایک دو نہیں کئی مثالیں آپ کو مل جائیں گی
پھر اگر امریکہ میں اس طرح کی کوئی بات ہوئی ہے تو اس کو کسی خاص دن کے حوالے سے کیوں اہمیت دی جا رہی ہے کیا نائن الیون سے پہلے یہ سب نہیں ہوتا رہا ^o^||3
 
پ

پیامبر

خوش آمدید
مہمان گرامی
مغموم بھائی امریکہ کے ایجنٹ ہیں، مغموم بھائی ایجنٹ ہیں....%||:-{ %||:-{ اس بات کو نیٹ کے ذریعہ پھیلا دو. :(:(game) وہ یہاں اس فورم میں امریکہ کے لیے کام کررہے ہیں.:(tv)
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
پہلی بات تو یہ کہ قرآن پاک صرف پاکستانیوں پہ نہیں اتارا گیا بلکہ سب مسلمانوں کے لیے یہ سب سے مقدس کتاب ہے اور کوئی بھی مسلمان اس کی بے حرمتی برداشت نہیں کر سکتا۔
دوسری بات جس لڑکی کی بے عزتی کی گئی یا گالیاں دی گئیں وہ پاکستانی نہیں۔وہ عرب ملک سے رکھتی ہے۔ہم نے جو پوسٹ کی تھی تو اس میں صرف مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا گیا کہ صرف ان کے ساتھ زیادتیاں کی گئیں ہیں بلکہ اس میں کچھ غیر مذہب بھی ہیں جو اس تکلیفوں کے شکار ہوئے ہیں۔
تیسری بات جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے وہ سب جانتے ہیں کہ کون کر رہا ہے ۔جو آپ نے کہا کہ پاکستانی ہر بات میں امریکہ کو گھسیٹ لیتے ہیں تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ ہم پاکستانی صرف امریکہ ہی کو درمیان میں کیوں گھسیٹتے ہیں ؟؟؟ اس لیے کہ ہم نے دیکھے ہیں خون میں لت پت لاشیں۔روزانہ بارڈر پر ڈرون حملوں میں کتنی لاشیں گرتی ہیں ؟؟؟ روزانہ دھماکوں میں ہزاروں مرتے ہیں اور ان کا خون مسجدوں اور بازاروں سے وائپر سے پانی کی طرح بہا کر صاف کیا جاتا ہے۔
میں آپ سے پوچھتا ہوں کیا نائن الیون سے پہلے کبھی ایسے دھماکے ہوئے؟؟؟ کبھی کسی نے دہشت گرد دیکھے ؟؟؟ کبھی مسجدوں میں دھماکے ہوئے ؟؟؟
ہاں مذہبی انتہا پسندی اور فسادات ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن جو اب مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے ایسا کبھی نہیں ہوا۔
چوتھی بات آپ نے کہا کہ اگر امریکہ میں یہ سب ہوا تو اس کو خاص موقعوں سے کیوں منسوب کیا جاتا ہے تو مغموم بھائی ہر اچھے اور برے واقعہ کے کچھ نتائج بھی نکلتے ہیں۔کچھ وقتی طور پر آکے ختم ہو جاتے ہیں جبکہ کچھ ایک لمبی تحریک کو جنم دیتے ہیں۔اس سے پہلے بھی امریکہ میں بہت واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن وہ انفرادی طور پر تھے اور وقتی تھے لیکن تاریخ کو چھوڑ کر نائن الیون کے بعد ذرا حال اور ماضی کا موازنہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ یہ حالات اب نا ختم ہونے والے بن گئے ہیں ۔آپ خود دیکھیں کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کی قیمت ہم سب مسلمانوں نے کتنی مرتبہ خون میں نہا کر دی لیکن اب تک وہ اسی وقت کو تازہ کر کر کہ ہماری جانیں لے رہیں ہیں ۔
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
میں بات میں " ہماری " سے مراد مسلمان ہی تھے اس کے بعد میں نے پاکستانیوں کو خاص طور ہر ہائی لائٹ کیا تھا

بالکل نائن الیون سے پہلے بھی پاکستان میں دھماکے ہوتے رہے ہیں

بحرحال مجھے لگ رہا ہے کہ بات کہیں اور نکل جائے گی

اس لئے اب میں اس موضوع میں رپلائی نہیں کروں گا
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
مغموم بھائی آپ کا بہت شکریہ اور ساتھ میں ممنون ہوں آپ کی فراخ دلی کا۔بھائی یہاں بحث مباحثے ہوتے رہتے ہیں لیکن ہم کو دل پر نہیں لینا چاہئیے۔امید کرتا ہوں کہ آپ سب حوصلہ افزائی کریں گے ۔شکریہ
 
پ

پیامبر

خوش آمدید
مہمان گرامی
جی ہاں مجھے بھی پسند ہے کہ بڑے بحث کریں، کیوں کہ اس سے ہمیں بحث کا طریقہ آئے گا۔ دلائل اندازی سیکھیں گے، بہت کچھ سیکھنے کا ملے گا۔ اگر آپ مناسب سمجھیں۔
 
Top