خلافت عثمانیہ کے زوال کے اسباب

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
خلافت عثمانیہ کے زوال کے اسباب​

علامہ ابو الحسن علی ندویؒ خلافت عثمانیہ کے زوال کی تاریخ اور وجوہات کوبیان کرتے ہو ئے فرماتے ہیں کہ:
"کہ سب سے بڑا مرض جو ترکوں میں پیدا ہوا تھا وہ جمو دتھا اور جمود بھی دونوں طرح کے علم وتعلیم میں بھی جمود اور فنون جنگ اور عسکری تنظیم وترقی میں بھی ۔۔۔ علمی جمود اورذ ہنی اضمحلال اس وقت صرف تر کی اور اس کے علمی اور دینی حلقوں کی خصوصیت نہیں تھی ، واقعہ یہ ہے کہ پورا عالم اسلامی مشرق سے مغرب تک ایک علمی انحطاط کا شکار تھا ، دماغ تھکے تھکےسے تھے اور طبیعتیں بجھی بجھی سی نظر آتی تھیں اور ایک عالمگیر جمود اور افسردگی چھائی ہو ئی تھی ،اگر ہم احتیاطًا آٹھویں صدی سے اس ذہنی اضمحلال کی ابتدا ء نہ کریں تو اس میں شبہ نہیں کہ نویں صدی وہ آخری صدی تھی ،جب جدت فکر ،قوت اجتہاد اور ادب وشاعری ،حکمت وفن میں ندرت اور تخلیق کے آثار نظر آے ہیں ، یہی وہ صدی ہے جس میں مقدمہ ابن خلدون جیسی مفکرانہ تصنیف عالم اسلام کو حاصل ہو ئی ،دسویں صدی سے بہت واضح طور پر افسردگی ، شدت تقلید اور نقالی کے آثار نظر آنے لگتے ہیں ، یہ افسردگی اور اضمحلال کسی خاص شعبہ اور کسی خاص فن کے ساتھ مخصوص نہیں تھا ، دینی علوم ، شعر وادب ،انشاٗ وتاریخ تعلیمی نصاب ونظام سب کے سب کم وبیش اس سے متا ثر نظر آتے ہیں ، پچھلی صدیوں کے علماء کے تذکرے اور کتب وسوانح پڑھئے ، سینکڑوں ناموں میں ایک ایسے شخص کا ملنا مشکل ہو گا جس پر عبقری کے لقب کا اطلاق کا لقب درست ہو یا جس نے کسی موضوع پر کوئی نئی چیز پیش کی ہو ، یا کسی خاص علم میں اس نے کو ئی گرانقدر اضافہ کیا ہو ۔۔۔۔ سوائے مجدد الف ثانی کے مکتو بات اور شاہ ولی اللہ دہلوی کی حجۃ اللہ البا لغہ ۔شاہ رفیع الدین کی تکمیل الاذہان ،شاہ اسماعیل شہید کی چند ایک تصانیف۔۔۔۔
صرف علم دین پر منحصر نہیں ،ادب وشاعری بھی اپنی زندگی اور تازگی کھو چکی تھی اور ان پر بھی تقلید وتتبع کا غلبہ تھا ،نثر وانشاٗ پردازی کو تکلف وتصنع وقافیہ پیمائی ، لفظی صناعی اور عبارت آرائی نے بے رونق وبے روح بنا رکھا تھا ، دوستوں کے خطوط ،تاریخ کی کتابیں اور دفتریں ،تحریریں اور فرامین سے بھی س عیب پاک نہیں تھے ، کہیں کہیں ادب وانشاٗ کا کوئی ایسا نمونہ آجاتا ہے جو اس زمانے کے مذاق عالم سے الگ اور پست سطح سے بلند نظر آتا ہے "
پھر آگے فرماتے ہیں کہ:
" سولہویں اور سترھویں صدی عیسوی ہی سے ترک تنزل وانحطاط ، علمی پسماندگی اور جمود کا شکار ہو چکے تھے ،تاریخ انسانی کا یہ وہ اہم ترین عہد ہے جس کا اثر بعد کی صدیوں پر نقش ہے ، یو رپ اس میں اپنی لمبی نیند سے بیدار وا تھا اور ایک جوش وجنوں کی حالت میں اٹھ کر غفلت اور جہالت کے اس طویل زمانہ کی تلا فی کر نا چاپتا تھا ، وہ ہر شعبہ حیات میں ناگریز ترقی کر رہا تھا ، طبعی قوتوں کو مسخر ، کا ئنات کے اثرات کو منکشف اور نا معلوم سمندروں اور اقلیموں کی دریا فت کر رہا تھا، ہر علم وفن میں اس کی فتو حات اور زندگی کے ہر شعبہ میں اس کے انکشافات جاری تھے ،اس مختصر سی مدت میں اس کے یہاں ہر علم میں بڑے بڑے محقق ، مو جد اور مجتہد فن پید اہو ئے ،کو پرینکس ، گلیلو ، کیپلر اور نیو ٹن وہ عالم وہ محقق تھے ،جنہوں نے ہیئات وطبعیات کا ایک جدید نظام پیدا کردیا ،سیاحوں اور جہاز رانوں میں کو لمبس ،واسکو ڈی گا ما اور میگلن جیسے عالی ہمت ،اولو العزم پید اہو ئے ، جنہوں نے نئی دنیا اور نا معلوم ممالک در یا فت کئے ۔
علم وصنعت کے میدان میں تر کوں کی پسماندگی کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ سولہویں صڈی مسیحی سے پہلے تر کی میں جہاز سازی کی صنعت شروع نہیں ہو ئی تھی ، اٹھارویں صدی عیسوی میں ترکی پریس ومطابع حفظانِ صحت کے مراکز اور فوجی تعلیم طرز کےمدارس سے روشناس ہو ئے ۔،اٹھارویں صدی کے آخر تک ترکی نئی ایجادات اور ترقیوں سے اس قدر بیگا نہ تھا کہ جب قسطنطنیہ کے با شند وں نے دار السطنت پر ایک غبارہ کو پرواز کرتے ہو ئے دیکھا تو اس کو سحر یا کیمیا کی کر شمہ سازی سمجھے ، نہ صرف یو رپ کی چھوٹی چھوٹی سلطنتیں تر کی سے اس میدان میں بازی لے جا چکی تھیں ،بلکہ مصر بھی بعض مفید چیزوں سے فا ئدہ اٹھانے میں پیش قدمی کر چکا تھا ،ترکی سے چار سال پہلے مصر میں ریلوے نظام قائم ہو چکا تھا ،ڈاک ٹکٹ بھی چند مہینے پہلے مصر میں را ئج ہو چکا تھا ۔
جب ترکی کا یہ حال تھا ،جو عالم اسلام کا قائد تھا تو دوسرے عرب ممالک کا جو ترکی کے زیر اثر یا دست نگر تھے جو کچھ حال ہو گا، اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ،چھوٹی چھوٹی نئی صنعتیں بھی ابھی ان ملکوں میں رواج پذیر نہیں ہو ئی تھیں ۔ ایک فرانسیسی سیاح "مو سیو والنی" جس نے اٹھارہویں صدی میں مصر کی سیر کی ہے اور شام میں چار سال تک مقیم رہا ہے ) اپنے سفر نا مہ میں لکھا ہے کہ" یہ ملک صنعت میں اس قدر پیچھے ہے کہ اگر تمہاری گھڑی خراب ہو جائے تو غیر ملکی کے ؑلاوہکو ئی درست کر نے والا نہیں ملے گا ۔
پھر مسلمانوں کا تنزل صرف حکمت وعلوم نظر یہ اور صنعت وحرفت ہی میں نہ تھا ، بلکہ یہ ایک ہمہ گیر اور عمومی انحطاط تھا جو مسلمانوں پر پورے طور پر محیط تھا ، حتی کہ وہ اپنے جنگ میں بھی یو رپ سے پیچھے رہ گئے ہیں جن میں ترکوں کو درجۂ امامت واجتہاد حاصل تھا اور ان میں ان کی فوقیت کا دنیا کو اعتراف تھا ،لیکن یو رپ اپنی ایجاد واجتہاد اور تنظیم کی بدولت فنون حربیہ میں بھی ترکوں سے بہت آگے بڑھ گیا ،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی فو جوں نے ۱۷۷۴ ء میں عثمانی افواج کو شرمناک شکست دی اور دنیا پر ظاہر کردیا کہ ترک جنگی طا قت میں عیسائی قوموں سے پیچھے رہ گئے ( عصری علوم)
 
Top