حضرت مولاناعلامہ محمدعثمان غنی قاسمی

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولاناعلامہ محمدعثمان غنی قاسمی
نامورمحدث۔مشہورشارح۔کامیاب استاذ

بسم اللہ الرحمن الرحیم​
حرف آغاز
موت وحیات کی باگ وڈورجس کے قبضہ میں ہے اسی کاارشادگرامی ہے اَیْنَمَاتَکُوْنُوایُدْرِکْکُمُ الْمَوتُ وَلَوْکُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ اسی طرح ایک جگہ ارشادہے کہ لَایَسْتَاخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَایَسْتَقْدِمُوْنَ،ان واضح ارشادات کودھیان میں رکھئے اورکارگہہ حیات پر نظرکیجئے ،ہرچیزلگے بندھے وقت کے مطابق پیداہوتی اوروقت مقررہ پرفناہوجاتی ہے،ملائک سے لے کرخلائق تک،جمادات سے لے کرنباتات تک کیاچیزہے جس کودوام اوراستمرارحاصل ہو؟ روئے زمین پر بلکہ آسمان کے نیچے رہنے،بسنے اورپیداہونے والی ہرچیزپر توفنائیت طاری ہونی ہے گویاجب جس چیزکاوقت پوراہ وجاتاہے،جب مستعار ساعتیں پوری ہوجاتی ہیں،جب کسی چیزکی ضرورت کی تکمیل ہوجاتی ہے توپھر فنائیت طاری ہوجاتی ہے۔
مشیت ایزدی:
اسلام کی تکمیل شارع اسلام کے عہدمیمون میں ہوئی اورآیت کریمہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناًنازل ہوئی توایمانی فراست سے مالامال اصحاب رسول ﷺ سمجھ گئے کہ اب سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کاگویاوقت آچکاہے۔اس لئے اس دنیامیں بسنے والی کسی ذات ، کسی شخصیت اورکسی ہستی کیلئے ایسے الفاظ کااستعمال یقیناغلط ہے جواصول الٰہی سے مزاحم ومتصادم ہوں مثلاً یہ کہناکہ ’’فلاں صاحب ایسے وقت میں پردہ فرماگئے جب ان کی سخت ضرورت تھی‘‘یایہ لکھناکہ’’ موت کے بے رحم پنجوں نے آپ کی روح قبض کرلی‘‘، یایہ لکھناکہ’’ اب فلاں صاحب کے خلاکاپُرہوناناممکن ہے ‘‘اپنی عقیدت ومحبت کا اظہارکرنے کیلئے اس قسم کے دوسرے جملوں اورتعبیرات کاسہارا لیناشرعاًاورعقیدۃً غلط ہے کیونکہ کب کس چیزکی ضرورت ہے،کس کوکب جانااورمرناہے،کب کس کاوقت پورااورضرورت ختم ہوئی ان تمام باتوں کاعلم صرف اورصرف احکم الحاکمین کوہے جس کے آگے داناؤں کی دانائی،حکماء کی حکمت اوردانشوروں کی دانش مندی سب ہیچ ہے،یہ اسلام کی تعلیمات میں سے ہے کہ انسان کو ہرحال میں اللہ کی رضاکوپیش نظررکھناہے۔
ان سچائیوں اورصداقتوں کے بعدیہ بھی ایک فطری عمل ہے کہ انسان اپنی کسی متاع گرانمایہ کے زیاں پراپنی حرماں نصیبی کااظہارواعتراف کرے اورایسی متاع کے کھوجانے سے قلب ودماغ کی بے چینی وبے قراری ہرفردبشر کی مجبوری بن جاتی ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح حضرت ابراہیمؓ کے وصال پرسرورکائنات کی چشمان مبارک آنسوؤں سے ترہوگئیں تھیں اوردرد کے ساتھ فرمایاتھاکہ ان العین تدمع والقلب یحزن ولانقول الاما یرضی ربنا وانا بفراقک یاابراہیم لمحزونونآنکھیں رورہی ہیں ،دل پریشان ہے اورہم وہ باتیں کریںگے جن سے اللہ راضی ہو اے ابراہیم!تیری فرقت سے ہم غمزدہ ہیں۔
غروب آفتاب:
ایسی ہی ایک عظیم ہستی آج ہمارے درمیان سے اٹھ گئی ہے جس کے گھنے سایہ میں بیٹھنااورجن کی مجلسوں میں شرکت کرناطلبہ وعلماء اپنے لئے باعث افتخارتصورکرتے تھے،جن کے اسباق کی مقبولیت، تقریرکی لذت، حضوراکرم ﷺ سے عشق ومحبت،اپنے اساتذہ واکابرسے تعلق وعقیدت، گفتگوکی حلاوت، تلقین وہدایت اوراصلاح کے ہمہ جہت پہلوؤں کوبھلادیناناممکن ہے۔میری مرادہے شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدحسین احمدمدنیؒ کے شاگردرشید،فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کے خلیفۂ اجل، مظاہرعلوم (وقف) سہارنپور کے شیخ الحدیث اورنامورشارح بخاری حضرت مولاناعلامہ محمدعثمان غنی قاسمی ؒجوطویل علالت کے بعد سہارنپورکے’’ سکشم‘‘ہوسپٹل میں ۱۳؍جنوری ۲۰۱۱ء کی رات تقریباً ساڑھے تین بجے انتقال فرماگئے۔اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔
ابتدائی حالات:
حضرت مولانا علامہ محمد عثمان غنی ؒکے والدماجدکانام مولوی محمدعبداللہ(متوفی ۱۹۷۱ئ) تھا،علامہ صاحبؒ اپنے وطن چلمل بیگوسرائے (جواس وقت مونگیر(بہار) کاایک حصہ تھالیکن ۱۹۷۵ء میں باقاعدہ ضلع بن گیا) میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم علاقے کے بعض مدارس میں حاصل کرکے بنگلہ دیش چلے گئے جہاں آپ کے والد بزرگوار کاروباری سلسلے میں مقیم تھے ،بنگلہ دیش میں آپ نے تعلیم بھی حاصل کی اوروالد صاحب کے کاروبار میں ہاتھ بھی بٹایا۔
تعلیم کاشوق:
حصول تعلیم کاشوق آپ کوبچپن ہی سے تھالیکن گھریلومعاشی مجبوریاں آپ کی اس تمنا کوپوراکرنے میں حارج تھیں،والدصاحب کاکاروباربھی اس معیارکانہیں تھاکہ اپنے صاحب زادے کی قلبی تمناپوری کرسکتے۔
تعلیم کیلئے بیوی کازیورفروخت کردیا:
اُسی دوران آپ کی شادی بھی کردی گئی،آپ کی وفاشعاربیوی نے اپنے شوہرنامدارکی علمی لگن اورتڑپ کومحسوس کیاتواپنازیورفروخت کردیااوراس رقم سے آپ کوحصول تعلیم کے لئے دیوبندبھیجا۔
دارالعلوم دیوبندمیںداخلہ:
۱۹۴۶ء میں آپ اپنے نوساتھیوں کے ساتھ دارالعلوم دیوبندپہنچے، حضرت مولانا حبیب اللہ صاحبؒ نے امتحان داخلہ لیا، اپنے تمام ساتھیوں میں صرف آپ کامیاب ہوئے ۔
ام المدارس دارالعلوم دیوبند میں پانچ سال تک تعلیم حاصل کرکے ۱۹۵۰ء میں فارغ ہوئے۔
دارالعلوم دیوبندکے چندجلیل القدرعلماء جن کے سامنے حضرت ؒنے زانوے تلمذتہہ کیااوردرس نظامی کی اہم کتابیں پڑھیں۔
شیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنیؒ
بخاری شریف ۔ترمذی اول
شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی ؒ
ترمذی ثانی،ابوداؤد،شمائل،ہدایہ ثالث
حضرت علامہ محمدابراہیم بلیاویؒ
مسلم شریف، ہدایہ رابع
حضرت مولانا عبدالجلیل ؒ
میبذی اورمیر قطبی
حضرت مولانا عبد الخالق ؒ
مشکوۃ ،حسامی ،توضیح وتلویح
سندحدیث:
میں نے پوچھاکہ آپ کی سندحدیث کیاہے؟فرمایاکہ نصرالباری کی پہلی جلدمیں لکھی ہوئی ہے ،اس موقع پرمناسب سمجھتاہوں کہ نصرالباری سے آپؒکی سندحدیث نقل کردوں تاکہ حضرتؒکے جملہ شاگردوں کیلئے اپنی سندکاحصول آسان ہوجائے۔
’’قال العبدالضعیف محمدعثمان غنی بن مولوی عبداللہ الصدیقی حدثناشیخ الاسلام السیدحسین احمدالمدنی،قال حدثناشیخ الہندمحمودحسن الدیوبندی عن شیخہ الحجۃ العارف محمدقاسم النانوتوی وعن شیخہ المحدث الفقیہ الشیخ رشیداحمدالکنکوہی کلاہماعن المحدث الشیخ عبدالغنی المجددی الدھلوی وعن الشیخ احمدعلی السہارنفوری وعن الشیخ محمد مظہرالنانوتوی وعن الشیخ القاری عبدالرحمن الفافیفتی وہولاء الاربع عن الشیخ المحدث محمداسحق الدہلوی عن جدہ لامہ المحدث الحجۃ الشاہ عبدالعزیزالدہلوی عن والدہ الامام الشاہ ولی اللہ الدہلوی واسانیدہ الی اصحاب السنن مذکورۃ فی رسالتہ’’الارشادالی مہمات علم الاسناد

(جاری)​
 
Last edited by a moderator:

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
تجارتی مشغلہ:
دیوبندسے فراغت کے بعدحضرت ؒجب اپنے وطن پہنچے توخانگی مجبوریوں کے پیش نظرکپڑے کاکاروبارشروع کردیا،کاروبارکے علاوہ فرصت کے لمحات میں آپ دینی کتابوں کامطالعہ کرتے چھوٹے چھوٹے مفیدکتابچے لکھتے ،عوام کی اصلاح اوربدعات وضلالت کے خاتمہ کے لئے بھی فکرمندرہتے تھے۔​
علامہ اورعلاقہ:
آپ کے علاقہ کی دینی کیفیت نہایت ابترتھی،جو مسلمان تھے بھی ان کی ظاہری وباطنی حالت سے یہ اندازہ لگانامشکل تھاکہ یہ مسلمان ہیں یاکافرہیں۔
حضرت چونکہ دارالعلوم دیوبندکے نئے نئے فارغ تھے،مادرعلمی سے معاشرہ کی اصلاح کاجوسبق انھیں ملاتھااس کوروبہ عمل لانے کے لئے حضرت کی طبیعت بے چین وبے قراررہنے لگی،پورے علاقہ میں آپ کے علاوہ کوئی دوسراعالم نہیں تھا۔ہروقت یہ فکراورغم ستاتارہتاکہ اس علاقہ کے مسلمانوں کی اصلاح کی ذمہ داری میری ہے،کل اللہ کے حضورمیں حاضری ہوگی اوراس بارے میں مجھ سے سوال کیاجائے گاتوکیاجواب دوں گا۔​
بدعت کاخاتمہ:
اِس درداورفکرکولے کرحضرتؒیکہ وتنہامیدان کارزارمیں کودپڑے جہاں ایک طرف کفراپنی تمام ترنحوستوں کے ساتھ موجودتھاتوبدعات ورسومات کا سیلاب آیاہوتاتھا،جہالت اورگمراہی کاعروج تھا،نہ تودینی مدرسہے اورمکاتب تھے نہ ہی دینی تعلیم کانام ونشان تھا۔
ایسی گھنگھورگھٹاؤں اورخوفناک ماحول میں حضرتؒاسلامی تعلیم اورقرآنی ہدایات کے چراغ لے کرنکلے ،ان چراغوں کی مدھم روشنی اورلہراتی کرنوں نے کفرکابھی مقابلہ کیا،فسق سے بھی دودوہاتھ کئے،بدعات وگمراہی سے ٹکرلی،جہالت سے آنکھ ملائی،اپنے بیگانے ہوگئے،عزیزواقارب نے ساتھ چھوڑدیا،شیطانی قوتیں ایک ہوگئیں اورباطل مدمقابل آکھڑاہوا۔
حضرت نے ہمت نہیں ہاری،شکست نہیں مانی،حوصلے پست نہیں ہوئے،سیرت نبوی اوراسوۂ حسنہ کواپناآئیڈیل بنایا،ہرحال اورہرصورت میں باطل کومٹانے کی قسم کھائی،ایک طرف شیطان کی پوری ذریت تھی تودوسری طرف بدعت اوربدعتی رعیت،حضرت سینہ سپررہے،لوگوں کے دامن تھام کر،غیروں کی خوشامدکرکے،اپنوں کے آگے عاجزی اختیارکرکے دعوت الی اللہ کاجوکارنامہ انجام دیاوہ تاریخ کاسنہراباب ہے۔​
تعزیہ داری کاخاتمہ:
ایک مؤمن کامل کے آگے شیطانی طاقتیں اورطاغوتی قوتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں،عزم وعزیمت اورثبات قدمی ہرمؤمن کی زندگی کاحصہ وخاصہ ہے،حضرتؒحق کے بول بالاکے لئے ڈٹے اورجمے رہے،اللہ کی رسی کومضبوطی سے تھامے بھی رہے اوربھولی بھالی قوم کوراہ راست پرلانے کی کوشش بھی کرتے تھے،دن کومجاہدانہ وداعیانہ لباس میں رہتے تورات کوحضورخداوندی میں عجزونیازمندی کااقرارکرکے دعاء نبوی اللہم اھدی قومی فانہم لایعقلون کاوردکرتے ،بالآخروعدۂ الہی الحق یعلواولایعلیٰ ظاہرہوناشروع ہوا،اپنے بھی قریب آنے لگے،غیروں کے دلوں میں اللہ تعالی نے نرمی ڈال دی،ان کے ذہن ودماغ کوصیقل کردیااورپھررفتہ رفتہ عوام الناس راہ راست پرآنے لگے۔
حضرتؒکاگاؤں جہاں بدعت کی تمام قدیم وجدیدرسوم قبیحہ جاری وساری تھیں،جہاں مسلمان محض ووٹرلسٹ کی حدتک مسلمان شمارہوتے تھے،جہاں اللہ اوررسول اللہ کانام ونشان نہیں تھابحمداللہ وکرمہ ردائے بدعت سمٹنے اورقبائے ضلالت سکڑنے لگی۔
آپ کے گاؤں میں تعزیہ جوپہلے تزک واحتشام سے نکلتاتھااورجس کے آگے پیچھے سادہ لوح مسلمانوں کی بڑی تعدادہوتی تھی ،نہ صرف تعزیہ نکلنابندہوگیابلکہ لوگ بھی حقیقت جاننے اورسمجھنے کے بعدتائب ہوگئے اورارشادخداوندی جاء الحق وذھق الباطل ان الباطل کان ذھوقاسچ ثابت ہوا۔​
رات ہی رات میں باڑہ گرادیا:
آپ کے گاؤں میں ایک امام باڑہ تھابلکہ کہناچاہئے کہ بدعات ورسوم کااڈہ تھالوگ اس کااحترام بالکل اسی طرح کرتے تھے جیسے مساجداورشعائراسلامی کاکیاجاتاہے،حضرتؒکومعلوم تھاکہ ایسی چیزوں کااحترام نہ صرف شرک ہے بلکہ دھیرے دھیرے شرک کی ایسی شکل اختیارکرسکتاہے کہ دیگرمذاہب کے لوگ بھی اڈہ بناسکتے ہیں۔
حضرت نے لوگوں سے فرمایاکہ یہ باڑہ فوری طورپرتوڑاجاناچاہئے ورنہ آگے چل کربہت سے فتنے پیداہونے کااندیشہ ہے،لوگ آپ کی گفتگوماننے کے لئے تیارنہ ہوئے توحضرتؒتن تنہاکفن بردوش ہوکراورہاتھ میں تلوارلے کراس طرح نکلے کہ گویا
زمیں کوروندتے ہوئے صفوں کوچیرتے ہوئے
بڑھے چلوبڑھے چلویہ وقت کی پکارہے
حضرت والاؒیہ اعلان کرتے ہوئے باڑہ کی طرف گئے کہ میں باڑہ توڑنے جارہاہوں جس میں ہمت ہووہ آئے اورمجھے باڑہ توڑنے سے روکے۔قسم ہے اس اللہ پاک کی جس نے مجھے پیداکیاہے روکنے والے کاسرقلم کردوں گا۔
یہ اعلان کیاتھاوارننگ تھی،کفروبدعت میں کبھی بھی حوصلہ نہیں رہاہے، حوصلہ صرف اہل ایمان کے پاس ہوتاہے ،حضرت ؒکے ہاتھوں کوباڑے کی تخریب سے روکنے کی کسی میں ہمت نہ ہوئی،سبھی لوگوں نے اپنے اپنے گھروں کے دروازے بندکرلئے ۔
حضرتؒباڑہ کے پاس پہنچے تلوارایک طرف کھڑی کردی اورکلہاڑی لیکر سنت ابراہیم پرعمل شروع کردیا۔
رات کے سناٹوں میں باڑہ توٹنے اوربکھرنے کی لطف انگیزآوازیں ابھرتی اورچہارسوبکھرتی رہیں،علامہ صاحب اپنے کام میں لگے رہے اورپھرچشم فلک نے دیکھاکہ صبح ہوئی توباڑہ اپنامنحوس وجودکھوچکاتھا۔​
پوکھرندی میں اشنان:
حضرتؒکے گاؤں کے پاس ہی ایک ندی ہے جس کوپوکھرکہتے ہیں،لوگ اس ندی کومقدس تصورکرتے تھے،اس کے تقدس کااظہاریوں کرتے تھے کہ سال میں کچھ مخصوص ایام میں مردوعورتیں جمع ہوکرپوکھرندی میں نہانے کے لئے جاتے اورنہاکریوں محسوس کرتے گویاان کے گناہ دھل گئے ہوں،حالانکہ گناہوں کی نحوست،شرک کی لعنت،کفرکی مشابہت سب کچھ اپنے گلے لگاکروہاں سے لوٹتے تھے ۔
حضرتؒکویہ شرمناک رسم بھی گراں گزرتی تھی،پہلے توپیارومحبت سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن جب آپ کی بات پرکسی نے دھیان نہیں دیاتوایک دن لاٹھی اٹھائی اوردریاکی طرف اعلان کرتے ہوئے چلے کہ جس کواپنی جان پیاری ہووہ یہاں سے بھاگ جائے اورآئندہ کبھی نہ آئے ،لوگوں نے آپ کے غصہ اورارادہ کوبھانپ لیااورگاؤں کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے ۔اس تاریخ کے بعدسے پوکھرندی الحمدللہ شرک اوربدعت سے محفوظ ہوگئی۔
کسی نے سچ کہاہے
طوفاں سے جنہیں آتاہے لڑنے کاطریقہ
دریا پہ وہی لوگ حکومت بھی کریں گے​
درس حدیث:
حضرت مولاناعلامہ محمدعثمان غنیؒان اصحاب باتوفیق میں سے تھے جن کواللہ تعالیٰ نے شروع ہی سے اپنے حبیب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی تدریس کے لئے قبول فرمالیاتھا،چنانچہ دورۂ حدیث شریف سے فراغت کے بعدسے حیات مستعارکی فراغت تک آپ کامحبوب مشغلہ خدمت حدیث ہی رہا،چاہے تدریسی میدان سے ہویاتصنیفی لائن دونوں میدانوں میں علامہ صاحب اپنے معاصرین کے لئے قابل رشک تھے گویاآپ کی حیات مبارکہ حدیث نبوی نضراللّٰہ امرء اًسمع مناشیئاًفبلغہ کماسمعہ،فرب مبلغ اوعی من سامع۔سے عبارت تھی،کھاتے پیتے،سوتے جاگتے،چلتے پھرتے،اٹھتے بیٹھتے ہروقت اورہمہ وقت سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال طیبات ذہن ودماغ میں گردش کرتے رہتے تھے ،حالانکہ آپ درس نظامی پڑھے ہوئے تھے جہاں بیسیوں علوم وفنون پڑھائے جاتے ہیں،جہاں احادیث کے علاوہ دیگرعلوم وفنون کی بعض کتابیں رٹائی اورحفظ یادکرائی جاتی ہیں لیکن علامہ صاحب کوبچپن ہی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق،آپ کی احادیث سے خصوصی لگاؤاورآپ کی سیرت مبارکہ سے فطری محبت تھی اس لئے علامہ صاحب نے دیگرعلوم وفنون کووہ اہمیت نہ دی جوحدیث شریف کودی گویا
ماآنچہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم
الا حدیث یار کہ تکرار می کنیم
کوعملی جامہ پہناکراپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان گرامی کامصداق بن گئے۔
نضراللّٰہ امرء اًسمع مناحدیثاًفحفظہ حتیٰ یبلغہ غیرہ،فرب حامل فقہ الیٰ من ھوافقہ منہ ورب حامل فقہ لیس بفقیہ۔
شاعرنے سچ کہاہے
یہ رتبہ بلندملا جس کومل گیا
ہرمدعی کے واسطے دار و رسن کہاں​
اندازتدریس:
علامہ صاحبؒکی پوری کوشش ہوتی تھی کہ طلبہ کوجوبھی سبق پڑھایا جائے وہ انھیں پورے طورپرسمجھ میں آجائے،نہ تواتنی لمبی تقریر فرماتے تھے کہ اکتاہٹ طاری ہوجائے نہ ہی اتنی مختصرکرتے تھے کہ تشنگی کااحساس دامن گیرہوجائے۔​
تدریسی زندگی:
۱۹۵۵
ء میں مدرسہ رشید العلوم چتر ا (جھارکھنڈ)میں مسلم اورترمذی کا درس دیا پھر مدرسہ حسینیہ گریڈیہہ اورمدرسہ حسینیہ ڈیگھی بھاگل پور میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔
۱۹۶۳ء میں مدرسہ عالیہ فرفرہ ضلع ہگلی میں بارہ سال تک خدمت حدیث میں مشغول رہے پھر دارالعلوم تاراپور(گجرات) تشریف لے گئے اوریکسوئی کے ساتھ حدیث کی خدمت میں مشغول ہوگئے ۔دارالعلوم تاراپورمیں کئی سال بخاری شریف وترمذی وغیرہ کادرس دیا۔​
(جاری)
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
مظاہرعلوم میںتشریف آوری:
آپ کو فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین ؒ سے ذہنی عقیدت ،قلبی محبت اورفکری مناسبت تھی اس لئے گجرات میں خدمت حدیث انجام دینے کیساتھ حضرت فقیہ الاسلام سے گاہے گاہے شرف ملاقات وزیارت کیلئے حاضر ہوتے رہتے،تمنا بھی آپ کی یہی ہوتی کہ مفتی صاحب کی خدمت میں زیادہ دیر رہ کر اکتساب فیض کیا جائے،حضرت مفتی صاحبؒآپ سے بہت محبت فرماتے تھے ،گجرات سے علامہ صاحبؒجب بھی اپنی سہارنپورآمدکاخط لکھتے توحضرت مفتی صاحبؒسہارنپورسے حضرت کے وطن بیگوسرائے کیلئے ٹکٹ بنوالیتے ،اسی محبت وتعلق کانتیجہ تھاکہ ایک بار حضرت فقیہ الاسلام نے آپ کو حکم دیا کہ گجرات سے مظاہر علوم آجاؤ، یہ سننا تھا کہ گویا مانگی مراد پوری ہوگئی ، آپ نے حکم کی فوری تعمیل کی اورمظاہر علوم کی اُس مسند حدیث کو زینت بخشی جس کو محدث کبیر حضرت مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوریؒ ،حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوریؒ ، حضرت مولانا عبد اللطیف پورقاضویؒ اورحضرت شیخ الحدیث مولانامحمد زکریا صاحب مہاجر مدنیؒ جیسی بے شمار شخصیات نے اپنے علوم وفیوض اور افکارو تجلیات سے بقعۂ نوربنایا تھا۔​
تقرر:
مظاہرعلوم کے ریکارڈمیں حضرت علامہ ؒکے تقررکے سلسلہ میں درج ذیل سطورملتی ہیں۔
’’حسب تجویز(۱)مجلس شوریٰ منعقدہ ۹؍شوال المکرم ۱۴۰۹ھ کومولانامحمدعثمان غنی صاحب کاتقرردرجہ اعلیٰ عربی پرمؤرخہ ۵؍شوال المکرم سے مبلغ ایک ہزارروپے تنخواہ پربلاطعام کیاجاتاہے‘‘۔(رجسٹرکارروائی مجلس شوریٰ)
اسی سال حضرت مولاناعلامہ عشیق احمدؒاورجناب مولاناعبدالرحمن گلاؤٹھی مدظلہ(خلیفہ حضرت فقیہ الاسلامؒ)کاتقرربھی عمل میں آیاتھا۔
گویابیس سال سے زائدعرصہ تک حضرت علامہؒ نے مظاہرعلوم (وقف)سہانپورکی مسندحدیث سے قال اللہ وقال الرسول کے زمزمے گنگنائے اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے ہزارہاشاگردان رشیدکے دل کی دنیاروشن اور فکرکی کھیتی شاداب فرمائی ۔گویا
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کرمرے نالے، غزل خواں ہوگئیں​
ششماہی امتحان:
حضرت کی شکل اورآوازدونوں رعب دار تھیں، اس لئے عام طورپرطلبہ آپ کی خدمت میں نہیں جاتے تھے،سومیں بھی نہیں گیا،موقوف علیہ کے بعددورۂ حدیث شریف پڑھااورآپؒ سے بخاری شریف جلداول وثانی،مسلم شریف ،طحاوی شریف اورمؤطاامام محمدپڑھنے کاشرف حاصل کیا۔
(بخاری شریف جلداول کاسبق فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسینؒ کے یہاں تھالیکن اسی سال حضرت مفتی صاحب ؒمظفرنگرکے ایک گاؤں تشریف لے گئے ،تہجدکے وقت وضوکرکے اٹھتے وقت چکرآگیااورحضرت مفتی صاحبؒ زینوں پرگرگئے ،سرمیں شدیدچوٹیں آئیں ،علاج کاسلسلہ شروع ہوا،اس لئے بخاری شریف جلد اول کاباقیماندہ حصہ بھی حضرت علامہ صاحبؒ نے پڑھایاتھا)
ششماہی امتحان میں ترمذی شریف کاامتحان حضرت علامہ ؒسے متعلق تھا، احقرکاپرچہ سامنے آیااورخداجانے کس وجہ سے حضرت نے مجھے پورے بیس نمبر عنایت فرمائے اوراپنے ایک خادم محمدیوسف ارریاوی سے پوچھاکہ ناصرکون ہے ؟ خادم نے مجھے اطلاع دی کہ حضرت علامہ صاحب تمہاری بابت معلوم کررہے تھے(میں نے فوراً سوچاکہ اس کامطلب یہ ہے کہ ترمذی کے پرچہ میں حضرت نے فیل کردیاہوگا)محمدیوسف نے یہ بھی بتایاکہ حضرت نے بلایاہے؟اس وقت دیوبندسے دوساتھی طلبہ بھی آئے ہوئے تھے،انہوں نے کہاکہ جب حضرت نے تمہیں بلایاہے توہم دونوں بھی ساتھ چلیں گے کیونکہ بہت دنوں سے حضرت کی ملاقات اورزیارت کااشتیاق ہے،یہ سہ نفری جماعت دارقدیم حضرت کے حجرہ کے لئے روانہ ہوئی (اس وقت حضرت کاحجرہ دارقدیم میں جانب جنوب دوسری منزل پرانجمن ہدایت الرشیدکے سامنے تھا)حضرت کادروازہ بندتھا،اندرحضرت لکھنے میں مصروف تھے ،طالب علمی کے زمانہ میں شعوربھی کچھ اس قسم کاتھاکہ غلطی سے دروازہ کوتھوڑاساکھسکاکرجھانکا، اندرسے رعب داربلکہ گرجدارآوازمیں سوال ہوا’’کون ہے‘‘ آواز کا سنناتھاکہ مارے خوف کے تینوں ساتھی بھاگ کرنیچے پہنچ گئے۔​
آپ کی نظرمیں حضرت فقیہ الاسلام کامقام:
فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کے انتقال پرملال کے بعدجب ماہنامہ آئینۂ مظاہرعلوم کاخصوصی شمارہ ’’فقیہ الاسلام نمبر‘‘شائع کرنے کافیصلہ ہواتودیگرجلیل القدرعلماء واکابرکے حضرت علامہ صاحب سے بھی درخواست کی کہ چونکہ حضرت مفتی صاحبؒ سے آپ کاتعلق قدیم ہے اورمعاصربھی ہیں اس لئے اپنے تعلق کی مناسبت سے ایک مضمون تحریرفرمادیں ؟فرمایاکہ میں مضمون لکھنے پرقادرنہیں ہوں!میں نے عرض کیاکہ حضرت آپ کی متعددتصانیف میرے علم میں ہیں،خودنصرالباری (اس وقت تک صرف تین جلدیں شائع ہوئی تھیں)میرے پاس ہے، جوشخص اتنی ضخیم شرح لکھنے پرقادرہواس کے لئے چندصفحات کامضمون لکھنادشوارنہیں ہوسکتا!فرمایاکہ مضمون کااندازاورہوتاہے ، شرح کااور۔
احقرنے سمجھ لیاکہ حضرت اس طرح نہیں لکھیں گے ،اس لئے ازراہ گفتگو پوچھاکہ مظاہرعلوم تشریف آوری کب ہوئی اورکیاوجوہات رہیں فرمایاکہ
’’آج (ذی الحجہ ۱۴۲۴ھ ) سے تقریباً ۲۰؍سال قبل حضرت فقیہ الاسلام نوراللہ مرقدہٗ سے احقر کی پہلی ملاقا ت ہوئی پھر چندروز حضرت کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا ،اس دوران حضرتؒ اس ناکارہ کو اپنے ساتھ مختلف تقریری پروگراموںمیں شرکت کیلئے اپنے ساتھ لے گئے اورحضرتؒ کے حکم سے احقر کو مختلف مواقع پر تقریر کرنے کا موقع ملا، اس زمانے میں یہ ناکارہ دارالعلوم تاراپورگجرات میں خدمت حدیث میں مصروف تھا اوراحقر کا یہ معمول بن چکا تھا کہ گجرات سے واپس مکان (بیگوسرائے )جاتے ہوئے حضرت فقیہ الاسلامؒ سے ملاقات اورزیارت کیلئے سہارنپور قیام کرتا اورحضرت ؒ کی مبارک صحبت سے فیضیاب ہوتا ،ایک بار احقرحسب معمول سہارنپورحاضر ہوا اور حضرت فقیہ الاسلامؒ نے اپنے ارادتمندوںمیں اس سیہ کارکانام بھی شامل فرمالیا۔ذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء ۔
خلعت خلافت واجازت سے مالامال ہوکر احقر دارالعلوم تاراپورگجرات چلاگیا، تین سال کے بعدجب چوتھی مرتبہ حاضر خدمت ہوا تو حضرت والاؒ نے اپنے قلم سے خلافت نامہ بھی عنایت فرمایااور یہ بھی فرمایاکہ کم ازکم دس لوگوںکو بیعت کرو،بارگاہ عالیہ سے اجازت کے بعداسی سال امریلی شہرمیں احقر کے دس روز تک تقریری پروگرام ہوتے رہے ، تقریری سلسلہ کے بعد کچھ دیندار حضرات بیعت کے طالب ہوئے ،احقرنے ان سے وعدہ کرلیا اوراسی روزبعدنماز مغرب میں نے دیکھا کہ دس حضرات اسی تمنا اورامید پر موجودہیںکہ ان کو سلسلۂ مسترشدین میں داخل کروں؟میری حیرت کی انتہا ء نہ رہی کہ مرشد گرامی نے جتنی تعدادبتلائی تھی ٹھیک وہی تعدادیہاںموجود تھی۔
تقریباً ۶؍سال کے بعد حضرت مرشد گرامی کے حکم سے یہ ناکارہ مظاہر علوم (وقف)حاضر ہوگیا اوراحقرکی تمنا جو حضرت مرشد گرامی کے ساتھ رہنے کی تھی وہ پوری ہوگئی ،احقر کا معمول بن گیا کہ عصر اورمغرب کے بعد حضرت ؒ کی خدمت بابرکت میں حاضر رہتا اوراپنے دل کی دنیا روشن کرتا، احقر کو جب کبھی کسی مسئلہ کے سلسلہ میں خلجان اورتردد ہوتا تو بلاتکلف حضرتؒ کی خدمت میں حاضر ہوتا اورمسئلہ پوچھتاتو حضرت ؒ فوراً کسی خادم کو حکم فرماتے کہ شامی کی فلاںجلد لاؤاور شامی لائی جاتی حضرتؒ ایک اندازے کے مطابق شامی کھولتے اوردو ایک صفحات ادھر ادھر پلٹتے اورفوراً انگلی رکھ کر فرماتے کہ یہ ہے مسئلہ!
برسہا برس یہ معاملہ رہا حدیث سے متعلق ہو یا فقہی مسائل،حضرت ؒ برجستہ حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرماتے تھے ،موجودہ دورمیں پورے ملک میں بلا کسی مبالغہ احقر نے اتنا برا فقیہ ،محدث اورعالم نہیں دیکھا ،آپ کی کون سی خوبی لکھوںمیں تو اس نتیجہ پر پہنچا ہوںکہ حضرت ؒ سراپا خوبی تھے اوران کی پوری زندگی سنت نبوی ﷺ سے عبارت تھی ۔اللہ تعالیٰ حضرت ؒکو جنت الفردوس میں جگہ دے‘‘۔
(فقیہ الاسلام نمبر)
یہ مختصرمضمون لکھ کرحضرت کی خدمت میں پیش کیااورعرض کیاکہ حضرت یہ آپ کامضمون ہے،فرمایاکہ میں نے تولکھانہیں ؟عرض کیاکہ حضرت پڑھ لیجئے اورپھرفرمائیے کہ آپ کی طرف انتساب صحیح ہے یاغلط ،چنانچہ حضرت ؒنے پورامضمون پڑھ کرنہ صرف دعادی بلکہ اشاعت کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔اورپوچھاکہ تم نے ندوۃ العلماء میں بھی تعلیم حاصل کی ہے؟عرض کیاکہ نہیں!فرمایاتولکھنے پرقدرت کیسے حاصل ہوئی؟عرض کیاکہ یہ توحضرت مولانا انعام الرحمن تھانویؒ کافیض ہے،میںنے اُن ہی سے قلم پکڑنے اورچندسطورلکھنے کافن سیکھاہے۔​
استاذکاعکس جمیل
آپؒ چونکہ شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ کے شاگردرشیدتھے اوراستاذ کااثر شاگردوں میں آنافطری ہے ، حضرت علامہ صاحبؒ حضرت شیخ الاسلامؒ کی طرح بیباک،نڈر،حق گو،حق جو،حق پسنداورحق شناس توتھے ہی اخلاق وتواضع کا بے مثال پیکردلنوازبھی تھے۔​
تقویٰ وتدین:
تقویٰ وتدین بھی مثالی تھا ،پاک وپاکباز زندگی بسر کرتے ،دنیا اوردنیاوی جھمیلوں سے ہمیشہ کنارہ کش رہے ، فتنہ کو نہ پسند کرتے اورنہ ہی کسی ذات یا ادارہ میں پسند فرماتے ،ایک بار تقریباً ایک ماہ سخت علیل رہے ،اس درمیان اسباق نہیں پڑھا سکے چنانچہ ایک رقعہ دفتر مالیات کو لکھا کہ چونکہ اس ماہ علالت کی وجہ سے اسباق نہ پڑھا سکا اس لئے ان ایام کی تنخواہ وضع کرلی جائے۔
(جاری)
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مدنیؒ سے عشق:
یوں توحضرت والا فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒکے دست حق پرست پربیعت وخلافت کے باعت تھانوی مسلک ومشرب میں شامل ہوگئے لیکن حضرت مدنیؒچونکہ آپ کے نہایت ہی مشفق استاذتھے اس لئے اپنی خصوصی مجلسوں میں اخیرتک حضرت مدنیؒکاتذکرہ نہایت ہی البیلے اندازمیں فرماتے رہے۔بات بات پرحضرت مدنیؒکے قصص وواقعات بیان فرماتے،کبھی کبھی واقعہ بیان کرتے کرتے جذباتی ہوجاتے اورکبھی کبھی آبدیدہ بھی۔​
خوردنوازی:
اپنے بڑوں کااحترام تودنیاکرتی ہے لیکن اپنے چھوٹوں حتیٰ کہ اپنے شاگردوں کااکرام حضرت علامہ صاحب علیہ الرحمہ کی اہم ترین خوبی تھی، مدرسہ کے اسباق اورفرض نمازوں کے علاوہ آپ کاپوراوقت حدیث شریف کی معروف کتاب بخاری شریف کی شرح ’’نصرالباری‘‘کے لکھنے میں صرف ہوتاتھا،اسی لئے اگرکوئی طالب علم بلاضرورت آپ کے پاس پہنچ جاتاتوخفگی اورناپسندیدگی کااظہاربھی فرماتے اوروقت کی قدروقیمت کااحساس دلاتے ۔
ایک بارراقم حاضرخدمت ہوا،دارالعلوم دیوبندکے طلبہ کی اچھی خاصی تعدادکچھ کمرے کے اندرتھی اورکچھ کمرے سے باہر،احقرحضرت کی خدمت میں پہنچااورطلبہ کی بھیڑکی وجہ معلوم کی توفرمایاکہ
’’ آج حضرت مولانامحمدیونس صاحب مسلسلات پڑھارہے ہیں اس لئے یہ دیوبندکے طلبہ آئے ہوئے ہیں ،میں ان لوگوں سے باربارکہہ رہاہوں کہ یہاں سے جاؤتاکہ میراتصنیفی نقصان نہ ہولیکن دس جاتے ہیں توبیس نئے آجاتے ہیں‘‘۔​
تواضع:
ایک باررات میں آپ کی طبیعت زیادہ بگڑگئی،رات ہی کوسہارنپورکے سرکاری ہوسپٹل میں ایمرجنسی وارڈمیں داخل کئے گئے،عیادت کرنے والوں کاتانتابندھ گیا،دورونزدیک سے اہل علم واہل تعلق آنے لگے،طبیعت نے سنبھالالیاتوپھرمدرسہ آگئے،میں اپنے دوست حضرت مولاناابوالکلام قاسمی صاحب کے ہمراہ آپ کے حجرہ میں پہنچا توحضرت نے دیکھتے ہی خدام سے فرمایاکہ مجھے اٹھاکربٹھادو!میں نے عرض کیاکہ حضرت لیٹے رہئے اسی میں آپ کوسکون ہے،فرمایاکہ آپ لوگوں کی موجودگی میں لیٹنااچھا نہیں لگتا۔یہ حضرتؒکے تواضع اورخوردنوازی کی عجیب وغریب مثال ہے۔
اسی طرح حضرت والاالقاب وآداب بھی نہیں پسندفرماتے تھے ،نصرالباری کے ٹائٹل پرجوالقاب چھپے ہوئے ہیں وہ ناشرنے اپنی عقیدت ومحبت میں کتابت کرادئیے تھے۔
اپنی کتابوں میں جہاں کہیں دستخط فرماتے تھے وہاں عبارت تقریباًیہ ہوتی تھی’’واناافقرعباداللّٰہ الرحمن المدعوبمحمدعثمان غفرلہ اللّٰہ الغفران‘‘​
چائے اور’’وائے‘‘
طالب علمی کے زمانے میں تونہیں البتہ فراغت کے بعدجب حضرت کی خدمت میں حاضری کاسلسلہ شروع ہواتوبہت شفقت کامعاملہ فرماتے تھے، عموماًباصرارچائے پلاتے تھے اورچائے کے ساتھ کچھ نہ کچھ کھانے کی چیزبھی عنایت فرماتے جس کوآپ مخصوص لہجے اوراصطلاح میں ’’وائے‘‘ فرماتے تھے۔​
سادگی:
آپ شکلاً وصوتاً بہت بارعب تھے،چندسال پہلے تک دارالحدیث میں بغیرمائک کے بلاتکلف پڑھاتے تھے،آنکھیں بھی بہت بارعب تھیں،نوے سال سے زائد عمر پائی مگر چشمہ کی کبھی ضرورت محسوس نہ ہوئی ،اصول کے بڑے پابند، ترک مالایعنی پرکاربنداورسادگی پسندتھے،میں نے ایک بارجرأت وجسارت کومجتمع کرکے اورسابقہ شفقتوں کے مدنظرعرض کیاکہ حضرت آپ توقاسمی ہیں اورقاسمی حضرات مظاہری حضرات کی طرح اتنے سادگی پسند نہیں ہوتے ،ٹیپ ٹاپ ،بول چال،نشست وبرخاست ہرچیز میں قاسمی حضرات منفردشان کے مالک ہوتے ہیں مگرآپ کے اندروہی مظاہریوں والی سادگی ہے کیاوجہ ہے؟فرمایاکہ ایک توقاسمی حضرات کے بارے میں تمہارا جونظریہ ہے وہ غلط ہے ، سادگی جزء ایمان ہے،البتہ آج کل سادگی کے بارے میں جوتصورقائم کرلیا گیاہے وہ غلط ہے،سادگی کامطلب یہ نہیں ہے کہ کپڑے گندے پہنے جائیں، سادگی کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہفتوں بدن کوپانی سے محروم رکھاجائے،سادگی اس کونہیں کہتے کہ اچھی چیزموجودہوتے ہوئے خراب چیز کھائی جائے،اسی وجہ سے اسلام نے رہبانیت سے منع کیاہے ، آپ ﷺ نے فرمایا لا رہبانیۃ فی الاسلام اسلام میں رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
یہی نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں دولت دی ہے ، بقدرضرورت رزق عطافرمایاہے، وسعت اور کشادگی ہے تو اس کا اثرتمہارے جسم پرمحسوس ہوناچاہئے ۔احقرنے عرض کیاکہ حضرت یہ حدیث کہاں ملے گی توابوداؤدشریف کھول کرمیرے سامنے رکھی وہ حدیث یہ ہے
عن ابی الاحوص عن ابیہ قال اتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی ثوب دون فقال ألک مال؟ قال نعم! قال من ای المال؟قال قداتانی اللّٰہ من الابل والغنم والخیل والرقیق،قال فاذاأتاک اللّٰہ مالافلیراثرنعمۃ اللّٰہ علیک وکرامتہ ۔
(ابوداؤد ۲/۵۶۲)
حضرت ابوالاحوص اپنے والدسے نقل کرتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گھٹیا کپڑے پہن کر حاضر ہواتو آپ نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس مال نہیں ہے؟میں نے عرض کیا کہ مال تو ہے ،آپ نے پوچھاکہ کس قسم کا مال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے اللہ نے اونٹ،گائے،بکریاں ، گھوڑے اورغلام ہر طرح کا مال عطا کیاہے!یہ سن کر آپ ﷺ نے ارشادفرمایا کہ جب اللہ نے تم کو مال سے نوازاہے تولازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اثرتمہارے بدن پر ظاہر ہو۔​
صبروشکر:
آپ کے علمی کارناموں اورتصنیفی وتالیفی خدمات کودیکھ کرعام طورپرلوگ یہ محسوس کریں گے اوردستور دنیابھی یہی ہے کہ کوئی بھی اہم علمی کام کرنے والوں کے لئے ہرطرح کی آسائشیں مہیاکی جاتی ہیں،ذہنی سکون کیلئے ہرممکن خیال رکھاجاتاہے ،غذاؤں کابھی لحاظ رکھاجاتاہے لیکن حضرت علامہ صاحب کامعاملہ بالکل برعکس تھا،آپ کی غذائیں بالکل سادہ تھیں ،مدرسہ سے قیمتاً کھاناجاری تھاوہی برضاورغبت نوش فرمالیتے تھے، بیوی بچے آپ کے وطن مالوف میں رہے ، اس لئے بیماری کے ایام میں بھی خاطرخواہ پرہیزنہ کرسکے، اگر ڈاکٹروں نے مدرسہ کی نان اوردال کے بجائے چپاتیاں اورمعقول سبزیاں کھانے کامشورہ دیا تو یہاں بھی علامہ صاحب مجبوراً پرہیزنہ کرسکے بایں ہمہ صبروشکراورحمدوثناسے آپ کی زبان مبارک ہمیشہ رطب اللسان رہی،کسی چیز کی فرمائش تودورکی بات ہے کسی بھی اچھی غذاکی خواہش بھی زبان پرنہ لاتے ، عموماًاتنے بڑے محدثین کے حجرے اورآرام گاہیں نہایت کشادہ اورآرام دہ ہواکرتی ہیں،حجرے کے اندرایک اورحجرہ ہوتاہے جہاں شوروشرابہ سے بچاجاسکے،جہاں یکسوئی کے ساتھ علمی وتصنیفی امورمیں مشغول رہاجاسکے لیکن حضرت علامہ صاحبؒؒ انتقال سے دوماہ پہلے تک مظاہرعلوم کی تیسری منزل کے ایک چھوٹے سے کمرے میں قیام پذیررہے ،درس وتدریس کیلئے دوسری منزل پرواقع تاریخی دارالحدیث میں تشریف لاتے پھرجب ایک سڑک حادثہ میں پیروں سے معذور ہوگئے توطلبۂ عزیز کرسی یاوہیل چئیر پربٹھاکردارالحدیث پہنچاتے تھے،اوپرسے نیچے اورنیچے سے اوپرجانے آنے میں غیرمعمولی تکلیف برداشت کرتے رہے لیکن اللہ کے اس صابروشاکربندے کی زبان مبارک پرکبھی کوئی حرف شکایت نہیں آیا۔
اخیرعمرمیں تقریباًدوماہ پہلے دارالحدیث سے متصل جناب مولانا محمدسعیدی صاحب مدظلہ ٗ ناظم ومتولی مظاہرعلوم (وقف) نے ایک اچھاساحجرہ آپ کے لئے تیارکرایااورآپ اس میں منتقل ہوگئے تھے۔
اِن سطورکے لکھنے کامقصدصرف یہ ہے کہ آئندہ سطورمیں حضرت علامہ صاحبؒ کے جن علمی کارناموں کا ذکرخیرہونے جارہاہے اس کے تناظرمیں قارئین کرام یہ نہ سوچنے لگیں کہ حضرت کے پاس خدام کی ایک فوج ہوگیجوزیرتحقیق موضوع پرکتابیں ہاتھ میں تھامے خاموشی کے ساتھ دست بستہ کھڑے ہوں گے۔یاکوئی ایسی کمپیوٹرائز سہولت ہوگی کہ کوئی بھی حدیث بٹن دباتے سامنے ہوگی۔​
علمی رہنمائی:
میری کتاب ’’بلندوبالاعمارتیں قیامت کی علامتیں‘‘ زیرترتیب تھی،اس سلسلہ میں علامہ صاحبؒ سے بھی رجوع کیااورعرض کیاکہ حضرت !عمارتوں کے سلسلہ میں افراط اورتفریط انتہاکوپہنچی ہوئی ہے،اس سلسلہ میں پڑھے لکھے بھی اورغیرپڑھے لکھے دونوں اپنے کرداراورعمل سے ایک پلیٹ فارم پرنظر آرہے ہیں، چاہے دینی ادارے ہوں یاتجارتی مراکزسبھی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی فکرمیں ہیں،نئے نئے ڈیزائن اورنئی نئی شکلیں اس سلسلہ میں وجودمیں آرہی ہیں،فرمایاکہ غلوکسی بھی چیزمیں ہوغلط ہے،ہمارے بزرگوں نے توعبادات تک میں غلوسے احتیاط کاحکم دیاہے۔چہ جائے کہ دنیاوی معاملات میں غلوکیاجائے جس سے دنیامیں بھی نقصان اورآخرت میں خسران۔ پھرفرمایا کہ مسنداحمدمیں اس بارے میں کئی احادیث موجودہیں اسی طرح علامہ سیوطی ؒنے جامع صغیرمیں متعدداحادیث صرف اسی موضوع پر شامل فرمائی ہیں۔اسی طرح حدیث جبرئیل کے اخیرمیں علامات قیامت کے سلسلہ میں تذکرہ موجودہے لکھواورمجھے بھی دکھاؤ۔
چنانچہ جب یہ کتاب تقریباًتیارہوگئی توعلامہ صاحب کودکھائی فرمایاکہ کام تواچھاکیاہے لیکن بعض احادیث بہت طویل ہیں ،جن میں متعلقہ بحث کے علاوہ بھی مختلف ابحاث ہیں اس لئے بہتریہ ہے کہ حدیث کے صرف اس حصہ کولوجس سے تمہارے موضوع کی مناسبت ہو،چنانچہ جب ایساکیاگیاتوکتاب کی ضخامت کافی کم ہوگئی توعلامہ صاحب نے فرمایاکہ اب اپنے موضوع کے اعتبارسے یہ کتاب مکمل ہوگئی ہے۔​
کرم نوازی کی ایک اورمثال:
اِسی کتاب کی ترتیب کے دوران ایک حدیث مسنداحمدمیں ایسی ملی جس کے الفاظ ناموس اورلغات مشکل ترین تھیں احقرکوان الفاظ کاترجمہ مشکل محسوس ہوا،غالباًرات کے بارہ بجے تھے ،احقرحضرت کی خدمت میں پہنچا،حضرت حسب عادت نصرالباری کی تالیف میں مصروف تھے ،احقرسے آنے کی وجہ پوچھی، عرض کیاکہ اس حدیث کاترجمہ میرے بس سے باہرہے ،حضرت نے حدیث شریف دیکھی اورفوراًاس کاترجمہ تحریرفرمادیا،وہ حدیث اورترجمہ برکت کے لئے آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
یجییُٔ یوم القیامۃ المصحف والمسجد والعترۃ فیقول المصحف یارب خرقونی ومزقونی ویقول المسجد یارب خربونی وعطلونی وضیعونی،وتقول العترۃ یارب طردونا وقتلونا وشردوناوأ جثوبرکبتی للخصومۃ۔فیقول اللّٰہ تبارک وتعالیٰ ذلک الیَّ وانا اولیٰ بذلک (رواہ احمد )
ترجمہ:قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضورمیںقرآن کریم مسجد اور اولاد حاضر ہوگی ۔قرآن کریم فریاد کرے گا یا اللہ مجھے پھاڑااور پراگندہ کیا گیا۔ مسجد عرض کرے گی یا اللہ مجھے ویران کیا گیا ، ضائع اور برباد کیا گیا۔ اولاد عرض کرے گی یا اللہ مجھے دھکا دیا گیا مجھے قتل کیا گیا مجھے دھتکاراگیا اور جھگڑے کیلئے میرے گھٹنوں پربیٹھا گیاتواللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے یہ میرے نزدیک زیادہ اہم ہے اورمیں اس سے زیادہ اہم ہوں۔​
(جاری)​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
علمی وعملی تفوق:
اللہ تعالیٰ نے علمی وعملی اورروحانی ملکات وکمالات سے بدرجہ اتم حصہ عطافرمایاتھا،حالانکہ آپ اپنے علمی وعملی تفوق اوربرتری کے باعث معاصربالخصوص طبقۂ علماء میں عظمت کی نظرسے دیکھے جاتے تھے اورآپ کے علمی وقارکایہ عالم تھاکہ طلبہ وعلماآپ کی خدمت میں جاتے ہوئے ہچکچاتے تھے تاہم علم دوست افرادکیلئے علامہ صاحب کادل بڑاوسیع اور نہایت کشادہ تھا،علمی سوالات کے جوابات اطمینان بخش دیتے تھے،فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کے بعداحقرنے بارہاعلامہ صاحب ؒکو احادیث کی تلاش وتتبع کے سلسلہ میں تکلیف دی اوریہ احساس بھی دامن گیررہاکہ علامہ صاحب کاقیمتی وقت میری وجہ سے صرف ہورہاہے لیکن علامہ صاحب خندہ پیشانی اورغایت شفقت وکرم نوازی سے نہ صرف کتابوں کی رہنمائی فرماتے بلکہ اگروہ کتاب آپ کے پاس ہوتی توکتاب کھول کرمتعلقہ بحث دکھلاتے تھے۔​
مؤرخین:
امام بخاری نے اپنی کتاب میں ایک مستقل باب ’’کتاب المغازی‘‘ کے نام سے قائم کرکے متعلقہ موضوع پراحادیث شریفہ کاوقیع ذخیرہ جمع فرمادیاہے ،اسی کاتذکرہ فرمارہے تھے پھراچانک فرمایاکہ تاریخ کومحفوظ کرنے کیلئے ہمارے اکابرنے ایسی ایسی عظیم قربانیاں اورخدمات انجام دی ہیں جن کوکوہ کنی ہی کہاجاسکتاہے۔ پھرفرمایاکہ ایک مؤرخ ہیں نضربن شمیلؒ جوتیسری صدی ہجری کے ہیں انہوں نے عرب کی پہاڑیوں اورگھاٹیوں کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے جس کانام ’’کتاب الصفات‘‘ہے۔شیخ ابوسعیداصمعیؒ جوادیب بھی تھے انہوں نے عرب کے تالابوں کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے جس کانام ’’کتاب المیاہ‘‘ رکھاہے۔
ابن حوقلؒ،یاقوت حمویؒ،اصطخریؒ، مسعودیؒ، ابن حائک ہمدانیؒ،ابن خلدونؒ اورطبریؒ ان تمام حضرات نے اسلامی تاریخ کومحفوظ کرنے میں قابل قدرکارنامے انجام دئے ہیں۔
غلطی:
ایک بارفرمایاکہ لکل جوادکبوۃ (ہرتیزروگھوڑے کے لئے ٹھوکرہے)معصوم توصرف انبیاء کرام ہیں ان کے علاوہ روئے زمین پر کوئی معصوم نہیں ہے، پھرفرمایاکہ حضرت امام بخاری ؒنے بخاری جیسی مہتم بالشان کتاب لکھی ،بہت سے علماء حضرات بھی اس غلط فہمی کاشکارہیں کہ بخاری شریف تسامحات سے پاک ہے یہ خیال صحیح نہیں ہے ،اصل بات یہ ہے کہ صحیح بخاری شریف میں بھی امام بخاری ؒسے تسامح ہواہے جس کی تفصیل علامہ عسقلانیؒنے ’’ہدی الساری مقدمہ فتح الباری ‘‘ میں بیان فرمائی ہے ،میں نے بھی مختصراً نصرالباری کی جلداول کچھ تفصیل پیش کی ہے۔
امام بخاری اورمسئلہ رضاعت:
فرمایا:کہ حضرت مفتی مظفرحسینؒکاارشادہے کہ ہرفقیہ کامحدث ہوناضروری ہے لیکن ہرمحدث کوفقیہ ہوناضروری نہیں یہ ملفوظ نہایت جامع ہے ،اب امام بخاری ؒکولے لوآپ ؒجلیل القدرمحدث تھے لیکن فقہ سے کوئی خاص مناسبت نہیں تھی چنانچہ امام ابوحفص کبیرؒنے امام بخاریؒکو استنباط واجتہادسے منع فرمادیاتھالیکن امام صاحب نے ان کی یہ نصیحت قبول نہیں کی اورایک عجیب وغریب مسئلہ بتادیا کہ اگرایک لڑکااورایک لڑکی ایام رضاعت میں کسی بکری کادودھ پی لیں تورشتۂ رضاعت ثابت ہوجائے گی۔
اس مسئلہ کی تردیدمیں علماء بخاراکاناراض ہونایقینی تھا،سبھی علماء ناراض ہوگئے اوراس ناراضگی کانتیجہ یہ ہواکہ امام صاحب کوبخارا چھوڑناپڑا، علامہ ابن ہمام نے تفصیل سے اس واقعہ کوبیان کرنے کے بعدلکھاہے کہ وکان سبب خروجہ منہابخاراسے نکلنے کابنیادی سبب بناتھا۔
شفقت ومروت:​
طلبہ کیلئے آپ نہایت ہی شفیق ومہربان تھے،بیس سال سے زائدعرصہ تک مظاہرعلوم میں ’’شیخ الحدیث‘‘ رہے لیکن کبھی کسی طالب عالم پرہاتھ نہیں اٹھایا،غصہ بھی بہت کم آتاتھا،اگرکبھی غصہ آگیاتوزبانی طورپر ڈانٹ پھٹکار کردرگزرفرمادیتے تھے،دفترمیں شکایات بھیجنے اور روز روزطلبہ کی حاضری لینے کابھی معمول نہیں تھاپھربھی طلبہ آپ کے درس میں برضا ورغبت حاضری کواپنی سعادت تصورکرتے تھے،دورۂ حدیث کے علاوہ بھی افتاء یاتخصص فی التفسیرغیرہ کی کتب آپ سے متعلق ہوتیں توانھیں بھی دلچسپی سے پڑھاتے، عشاء کی نمازکے بعدبھی سبق پڑھانے کاسلسلہ نہ صرف قدیم تھابلکہ شروع سال سے پابندی کے ساتھ اسباق پڑھاتے تھے،ناغہ وغیرہ کاتوتصوربھی نہ تھااگرکسی اوراستاذکاارادہ سبق نہ پڑھانے کاہوتاتو حضرتؒ اس گھنٹہ میں بھی سبق پڑھادیتے تھے۔
دوران سبق طلبہ کی سستی دورکرنے اورنئی تازگی پیداکرنے کے سلسلہ میں آپ کااندازبھی عجیب تھا،لطائف وظرائف،بذلہ سنجی،مزاح اورشرعی حدودکی رعایت اوردارالحدیث کاتقدس ملحوظ حاطررکھتے ہوئے طلبہ کوہنساتے بھی تھے،بعض مرتبہ اپنے مخصوص لہجے میں بنگالی زبان میں جملے اورفقرے زبان مبارک سے ادافرماتے توپوری درسگاہ قہقہہ باراورزعفران زارہوجاتی تھی ۔
اسباق میں آپ کی تقریرسادہ اورعلمی ہوتی تھی،بتکلف الفاظ اورنامانوس جملوں وتعبیرات کاکبھی سہارانہیں لیتے تھے،پھربھی ہرسبق معلوماتی ہوتاتھا، حضرت والاکے سبق پڑھانے کااندازکچھ ایساتھاکہ اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی تھی۔
صداقت جس کاشیوہ ہے محبت کاجوپیکر ہے
مروت خومیں ہے جس کی وہی بس ایک انساں ہے​
درجہ بندی:۔فائدہ یانقصان
میں نے پوچھاکہ حضرت یہ جوآج کل جماعتوں اوردرجات کی صف بندی ہے اس کی کیاتاریخ ہے ؟ فرمایامجھے تومعلوم نہیں ہے ،البتہ یہ سلسلہ پہلے نہیں تھاطلبہ اپنے مزاج اورذہن کے حساب سے انفرادی طورپراساتذہ سے اسباق پڑھتے تھے ،جس کااچھانتیجہ یہ ہوتاتھاکہ جوطلبہ ذہن کے تیزہوتے تھے وہ کم عرصہ میں زیادہ سے زیادہ کتابیں پڑھ لیتے تھے اس لئے ذہین طلبہ کوغبی طلبہ کے ساتھ خواہ مخواہ گھسٹنانہیں پڑتاتھا،اسی طرح غبی طلبہ کوذہین طلبہ کے ساتھ زبردستی بھاگنانہیں پڑتاتھا،ہرطالب علم اپنے اپنے ذہن کے مطابق اسباق پڑھ لیتاتھا،مگراب جماعت بندی ہوگئی ہے کیونکہ اب طلبہ ہرجماعت میں زیادہ ہونے لگے اوراساتذہ کے دلوں میں طلبہ کوزیادہ سے زیادہ پڑھانے اورآگے بڑھانے کامزاج نہیں رہ گیا،اخلاص ہرچیزمیں شرط اولین ہے ،اس کے بغیرکوئی کام نہیں چل سکتا۔​
طلبہ کونصیحت:
پہلے مدرسہ میں طلبہ کی علاقائی وضلعی انجمنیں نہیں تھیں توطلبہ کوحضرتؒکے نصائح سننے کااتفاق کم ہوتاتھالیکن جب سے تمام ضلعوں کی علاقائی انجمنیں قائم ہوگئیں توطلبہ کواپنی اپنی انجمن میں دعوت دینے کاموقع مل گیاچنانچہ حضرتؒمحض طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لئے کبھی کبھی انجمن میں تشریف لے جاتے اورقیمتی نصائح سے نوازتے۔​
علمی گہرائی:
فرمایا:کہ مظاہرعلوم میں ماضی قریب کے علماء میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریامہاجرمدنیؒ اورفقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ سے زیادہ علمی گہرائی اورپختگی رکھنے والاعالم نہیں دیکھا۔
مفتی صاحب سے جب بھی کسی سلسلہ میں مراجعت کی نوبت آئی تو فوراً کتب حانہ سے کتاب منگاتے اوراندازہ سے کتاب کھول کرایک آدھ صفحہ ادھرادھرکھولتے اورکسی عبارت پرانگلی رکھ کرکتاب سامنے رکھ دیتے اورفرماتے کہ یہ عبارت ہے جس کی آپ کوضرورت ہے۔​
خصوصی موضوع:
اخیرعمرمیں آپ کافی نحیف ونزارہوگئے تھے،مختلف بیماریوں کاشکار ہونے کی وجہ سے قویٰ مضمحل اورصحت کمزورہوگئی تھی لیکن آوازاورلہجہ میں بڑھاپے کااحساس نہ ہوتاتھا،اخیرعمرتک پڑھاتے رہے،تفسیر اورحدیث آپ کاخصوصی موضوع تھا،ان دونوں فنون میں آپ ماہرویکتاتھے۔​
علمی وقار وعظمت کاپاس ولحاظ:
حضرت علامہ صاحبؒ اپنی مجلسوں میں عموماً امام بخاری ؒکاتذکرہ فرمایاکرتے تھے چنانچہ ایک بارامام صاحب کاایک واقعہ سنایاکہ حضرت امام بخاریؒایک دفعہ دریائی سفرپرتھے،اثناء سفرکشتی ہی میں ایک آدمی سے جان پہچان پیداہوگئی ،آپؒ نے اس آدمی سے یہ بھی بتادیاکہ میرے پاس ایک ہزاراشرفیاں بھی ہیں،یہ سنتے ہی اس شخص کی نیت خراب ہوگئی ،رات ہوئی توشورمچاناشروع کردیاکہ میری ایک ہزاراشرفیاں چوری ہوگئی ہیں،کشتی کاعملہ بھی متأثرہوا اورتلاش شروع کردی،سبھی لوگوں کی تلاشی لی گئی ،حضرت امام بخاریؒ نے اپنی اشرفیاں لوگوں کی نظربچاکردریامیں ڈال دیں،چنانچہ جب آپ کی تلاشی لی گئی توکچھ بھی نہ نکلا۔کشتی کے عملہ نے اس شخص کولعنت ملامت کی کہ تم جھوٹے ہو۔
صبح ہوئی اورکشتی ساحل کولگی توسبھی مسافراپنی اپنی منزل کی طرف چلے گئے ، امام صاحب بھی چل پڑے وہ شخص آپ کے پیچھے پیچھے آیااورراستہ میں پوچھاکہ آپ توکہہ رہے تھے کہ میرے پاس ایک ہزاراشرفیاں ہیں ؟ حضرت امام بخاریؒ نے فرمایاکہ ہاں بھا ئی !اشرفیاں توتھیں لیکن جب میں نے دیکھاکہ اب میری ہی اشرفیوں کی وجہ سے میری شرافت پرحرف آنے والاہے جس کے حصول کی خاطرمیں نے پوری زندگی قربان کردی ہے تومیں نے ان اشرفیوں کودریامیں ڈال دیاکیونکہ معاشرہ میں عزت اوروقار بہت مشکل سے ملتاہے جس کے آگے ان اشرفیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔​
دنیاکی تین نعمتیں:
۲
؍ذی الحجہ ۱۴۳۱ھ م ۹ ؍نومبر ۲۰۱۰ء سہ شنبہ کو حضرت مولانا محمدسعیدی مدظلہ کی اہلیہ محترمہ اچانک انتقال کرگئیں،اس وقت حضرت علامہ محمدعثمان غنیؒ بھی صاحب فراش تھے ،احقرحاضرخدمت ہواتونمازجنازہ کی بابت دریافت کیااور پھرفرمایاکہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہتر سواری،نیک بیوی اورکشادہ مکان کودنیاوی نعمتوں میں شمارفرمایاہے۔ ثلٰث من نعم الدنیا:وان کان لانعیم لہا،مرکب وطی ئ، والمرأۃ الصالحۃ والمنزل الواسع ۔​
(جاری)
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
وطن کی محبت:
وطن کی محبت سے متعلق ایک حدیث ہے جس کومحدثین نے موضوع کہاہے ، میں نے علامہ صاحب سے دریافت کیاکہ حضرت اس حدیث کے بارے میں آپ کاکیاارشادہے؟فرمایاکہ ہاں یہ حدیث موضوع ہے ،البتہ وطن سے محبت بشرطیکہ وہ دارالاسلام ہوتوممدوح اورایمانی تقاضاہے۔
ختم بخاری شریف:
مظاہرعلوم میںختم بخاری شریف کے موقع پرہمدردان ومتعلقین کافی تعداد میں حاضرہوتے ہیں،جب تک حضرت مفتی مظفرحسینؒحیات رہے توعموماًبخاری شریف کاختم آپؒکراتے تھے ،البتہ ۱۴۱۵ھ میں بخاری شریف کاختم خطیب اسلام حضرت مولانامحمدسالم قاسمی مدظلہ نے کرایاتھا، احقرکاسن فراغت بھی یہی سال ہے۔
حضرت فقیہ الاسلامؒکے بعدحضرت مولاناعلامہ محمدعثمان غنیؒہی بخاری شریف کاختم کراتے تھے۔
بخاری شریف کی آخری روایت کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ ،خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ،ثَقِیْلَتَانِ فِیْ الْمِیْزَانِ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ پرعالمانہ ،فاضلانہ اورمحدثانہ تقریرفرماتے تھے۔
آپ کی تقریرمیں عموماًمخاطب طلبہ ہی ہوتے تھے الفاظ بھی سہل اور عام فہم استعمال فرماتے تھے،کبھی بھی نہ توتقریرمیں بناوٹ پسندکی نہ ہی تحریر میں،دارالحدیث میں طلبہ کے سامنے درس بخاری ،روزمرہ کی گفتگو، پندونصائح ہرجگہ علامہ صاحبؒنے اس پہلوپرخصوصی توجہ رکھی کہ مخاطب کون ہے ؟اوراس کامبلغ علم کیاہے؟۔
آخری درس بخاری کی تقریرعالمانہ وفاضلانہ ہونے کے باوصف اس قدرعام فہم ہوتی تھی کہ دسیوں ہزارکامجمع مکمل یکسوئی کے ساتھ نہ صرف سنتاتھا بلکہ سمجھتابھی تھا۔البتہ حسب عادت یہاں بھی اصل مخاطب طلبہ ہی ہوتے تھے۔
علامہ صاحبؒنے نصرالباری کی تیرہویں جلدمیں بھی بخاری شریف کی آخری حدیث پرجوتفصیلی کلام فرمایاہے وہاں بھی خصوصی طورپرطلبہ کومخاطب کرنے کیلئے مستقل عنوان لگایاہے’’فارغین طلبہ سے خطاب‘‘اس عنوان کے تحت علامہ صاحب نے طلبہ کو جس اندازومنہاج میں اپنے مستقبل کو سنوارنے کی تلقین ونصیحت فرمائی ہے اس سے طلبہ کے تئیں علامہ صاحب کی قلبی وابستگی،خصوصی تعلق،ربط باہمی،شفقت ومروت اوران کے مستقبل کے سلسلہ میں جگرسوزی ودلسوزی ظاہرہوتی ہے۔
مناسب سمجھتاہوں کہ اس عنوان کے تحت شامل چندسطری مضمون آپ بھی پڑھتے چلیں۔
فارغین طلبہ سے خطاب:
’’عزیزطلبہ!آپ حضرات نے آٹھ دس سال پہلے جس کام کے لئے سفرشروع کیاتھاالحمدللہ بفضلہ وبکرمہ آج اس کام تکمیل ہوگئی ،آپ کی گاڑی منزل تک پہنچ گئی اب ایک اصول مسلمہ یعنی قاعدہ کلیہ ذہن نشیں کرلیجئے کہ کسی کام اورچیز کی عزت ، عظمت اورقدر وقیمت کا دارومدار مقصد کی مطابقت پر ہے اس کو ایک مثال سے سمجھئے کہ ایک بڑا کاشتکار ہے ،اس نے کھیتی کے لئے ایک جوڑا عمدہ بیل نہایت عمدہ ، جوان راجستھان سے خریدکر لایا، پورے گاؤں والے دیکھ کر کہنے لگے کہ واقعی ’’بیل‘‘ لایا ہے ،کل ہوکر بڑی شان وشوکت کے ساتھ بیل کا مالک کھیت جوتنے کے لئے جب لے گیا تو دونوں بیل بیٹھ گئے ،مالک نے مارپیٹ کر پوری کوشش کی تو بیل اٹھے ،پھر جب جوتنے کے لئے ہل میں لگانا چاہا تو بیٹھ گئے ،بار بار کوشش کے باوجود جب کامیابی نہیں ملی تو کاشتکار نہایت کبیدہ خاطر اورغمگین گھرواپس آیا اورافسوس ظاہر کرنے لگا تو ایک پرانے بوڑھے نے کہا ۔کہ فکر نہ کیجئے ہوسکتا ہے کہ یہ جوڑاہل کا نہ ہو بلکہ گاڑی کا ہو ،اسے گاڑی میں لگاکر دیکھو ،کاشتکار نے جب ان دونوں کو گاڑی میں لگایا تو دونوں بیل بیٹھ گئے ۔
آپ یقین مانئے اب ان کی عزت وعظمت ختم ہوگئی اورقیمت گرجائے گی چونکہ مقصد میں ناکام رہا ،چیزوں کی عزت وعظمت صرف شکلوں اورصورتوں پر نہیں ہوتی بلکہ مقصد کی مطابقت پر ہوتی ہے ۔
ایک دوسری مثال سے سمجھئے کہ ایک مولانا صاحب ایک اچھی گھڑی مثلاً ’’سی کو فائیو ‘‘خریدی مقصد یہ تھا کہ صحیح وقت پر مدرسہ پہنچ کر متعلقہ اسباق پڑھاسکیں لیکن گھڑی خریدکر جب گھر لایا تو دیکھا کہ گھڑی ہر روز آدھا گھنٹہ فاسٹ بھاگتی ہے ، صحیح ٹائم نہیں دیتی ہے ، دوچار روز کے تجربہ پرپھر دہلی پہنچا اورگھڑی کی شکایت کی ، دوکاندار نے گھڑی کھول کر ٹھیک کیا تو اب گھر لاکر دیکھتا ہے کہ گھڑی ہرروز ایک گھنٹہ سست (سلو)چل رہی ہے ، دوچار مرتبہ ٹھیک کرایا لیکن گھڑی صحیح نہیں ہوئی ۔
یقین مانئے کہ اب اس کی نہ وہ عزت رہی نہ وہ قیمت رہی کیونکہ عزت وقیمت کا مدار مقصد کی مطابقت پر ہے اسی پر تمام کاموں اورچیزوں کو قیاس کرلیا جائے ، اب سمجھنا یہ ہے کہ پوری دنیا کی تمام چیزوں سے افضل واعلیٰ واشرف وبالا ہم انسان ہیں جو سب سے اشرف واکرم ہے خود خالق ومالک کائنات نے فرمایا ’’لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ ‘‘(سورہ بنی اسرائیل آیت ۷۰)ہم نے اولاد وآدم (انسان )کو عزت دی ۔
اب دیکھنا ہے کہ ہمارے خالق وپرودگار اللہ رب العزت نے ہم انسانوں کو کس مقصد کیلئے پیدا کیا ، ہم انسانوں کی پیدائش وبناوٹ کا مقصد کیا ہے ؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ ‘‘(سورہ ذاریات ۵۶) اورنہیں پیدا کیا میں نے انسان اورجن کو مگر صرف اسلئے کہ وہ عبادت کریں ۔
تو خوب ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ انسان کی تخلیق کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے مگر مادی حیات دنیاوی زندگی گزارنے کیلئے دوسری ضروریات ، کسب معاش ، مثلاً کھانا پینا ،سونا جاگنا اورلباس ومسکن کی فراہمی وتکمیل میں اشتغال مقصد عبادت خداوندی برقرار رکھتے ہوئے منع نہیں لیکن ان امورمیں اشتعال مقصود نہیں بلکہ مبادی مقصود ہیں ۔
قیامت کے دن خالق کائنات رب العزت کے نزدیک انسانوںکی عزت وعظمت اورقیمت صرف عبادت پر ہوگی بشرطیکہ اللہ کی عبادت محبوب رب العالمین خاتم الانبیاء والمرسلین حضور اقدس ﷺ کے بتائے ہوئے طریق پر ہو اپنی عقل سے گھڑی ہوئی نہ ہو ۔
بات کچھ طویل ہوگئی مختصراًیہ عرض کرنا ہے کہ آپ حضرات نے جو آٹھ دس سال محنت کی ہے اس کامقصد رضاء مولیٰ اللہ کی خوشنودی ہے جو اتباع رسول پر موقوف ہے بس عہد کرلیجئے اورپختہ عہد کرکے مدرسہ سے جائیے کہ زندگی کے ہر موڑپر ،ہر معاملہ میں حضوراقدس ﷺ کی ہدایت اورحکم پر امکانی طاقت پر چلوںگا یاد رکھئے کہ ایمان کی تعریف ہی یہی ہے ۔تصدیق الرسول بما جاء بہ عن ربہ ۔وللہ در القائل ۔
بے عشق محمد جو محدث ہیں جہاں میں
آتا ہے بخار ان کو بخاری نہیں آتی
نصرالباری کااختتام:
علامہ صاحب کوبخاری شریف سے بھی عشق تھاجس کی جھلک آپ کے کرداروگفتارمیں محسوس ہوتی تھی ،آپ نے بخاری شریف کی معرکۃ الاآراء شرح ’’نصرالباری‘‘میں بھی امام بخاریؒ کی پوری پوری تقلیدکی،چنانچہ خاتمۃ الکتاب کے تحت تحریرفرماتے ہیں۔
’’امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح کو تسبیح وتحمیدپر ختم کیا ہے احقر بھی اپنی شرح تسبیح وتحمید پر ختم کرتا ہے ۔
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ ۔
دعا :اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَا سَأَلَکَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّمَا اسْتَعَاذَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَنْتَ الْمُسْتَعَانُ عَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ‘‘۔
وقت کی قدروقیمت:
انسانی زندگی مختلف حاثات اورتغیرات کانام ہے ،آسمان کی رنگارنگی اور زمین کی گردشیں انسان کوہمہ وقت یہ بتانے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ ثبات صرف ایک ذات کوحاصل ہے جسے احکم الحاکمین کہاجاتاہے اس ذات کے علاوہ ہرچیزتغیرپذیرہے ۔
حکماء یونان ہوں یاعقلائے عرب،دانشوران برصغیرہوں یادانائے فرنگ سبھی نے ایک چیزکوبطور خاص اپنی زندگیوں کیلئے ضروری اورلابدی قراردیااوروہ ہے وقت۔وقت کی قدردانی انسان کو بڑابناتی ہے تواس کی ناقدری انسان کی ذلت وگمرہی کی دلدلوں اورپستی اورتنزل کی گہرائیوں تک پہنچاکردم لیتی ہے۔
جولوگ وقت کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں تووقت ان کواپنے سے آگے بڑھادیتاہے اورجولوگ وقت کے شانہ بشانہ نہیں چلتے تووقت ایسے لوگوں کوتاریخ کاسب سے نکمااورسب سے بیکارعضوبناکرگمنامی کے گڑھوں میں ڈال دیتاہے۔
جن علماء اورحکماء کی زندگیاں وقت کی قدروقیمت سے بھری ہوئی ہیں حقیقت یہ ہے کہ ان ہی کے کارنامے اورخدمات سے تاریخ کے اوراق بھرے ہوئے ہیں ۔
آج حکماء یونان ،عقلائے عرب،دانشوران برصغیراوردانائے فرنگ کے اقوال وملفوظات اوران کی زندگیوں کے قیمتی تجربات صرف اسی لئے کتابوں کے اوراق میں محفوظ اورموجودہیں کیونکہ انہوں نے وقت کی صحیح قدروقیمت کی تھی اسی لئے وقت ان کی قدرکررہاہے۔
وقت کی قدروقیمت کے سلسلہ میں اسلام نے اپنے ماننے والوں کوبطور خاص نصیحت کی ہے،قرآن واحادیث میں اس سلسلہ میں وافرذخیرہ موجود ہے۔مختلف علماء اورصاحبان علم وقلم نے صرف اسی موضوع پر گرانقدر کتابیں تصنیف کی ہیں،انشاء پردازوں نے مضامین اورمقالات کے ذریعہ غفلت شعاروں کی توجہات کواس جانب مبذول کرانے کی سعی میمون کی ہیں۔
اسلاف امت نے اپنے کرداروعمل سے وقت کی قدروقیمت کرکے عملی طورپر ہمارے لئے جواسوہ اور نمونہ چھوڑاہے وہ تاریخ کاناقابل فراموش واقعہ ہے۔
وقت کی قدروقیمت جانے اورپہچاننے والے کبھی نہیں مرتے اوراس سلسلہ میں کسی مذہب یاکسی طبقہ کی کوئی قیدنہیں ہے ،چنانچہ اگرآپ تحقیق کی کسوٹی پراس سلسلہ میں کوئی کام کرناچاہیں توہرطبقہ اورہرفرقہ سے ایسے لوگوں کی طویل فہرست مل جائے گی جنہوں نے کم وقت میں زیادہ کام کرکے اپنے پیش روؤں کیلئے کام کرنے کی جہتیں اورسمتیں متعین کردی ہیں۔
(جاری)
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
ہم لوگوں کووقت پرخصوصی توجہ مبذول کرنے کی ہمیشہ نصیحت فرماتے تھے اورکہتے رہتے تھے کہ اگردولت کھوجائے تومحنت سے حاصل ہوجائے گی،پڑھ لکھ کربھول گئے ہوتومطالعہ اوراساتذہ کے پاس بیٹھنے سے دوبارہ مل سکتاہے، صحت اورقویٰ اگرکمزورہوگئے ہوں تواچھے ڈاکٹروں اورمعالجوں سے رابطہ کرو،صحت دوبارہ واپس آجائے گی لیکن وقت کی واپسی کبھی بھی ممکن نہیں ہے۔
من نمی گویم زیاں کن یابفکرسودباش
اے زفرصت بے خبر در ہرچہ باشی زود باش
وقت میں بے برکتی:
کبھی کبھی بڑی حسرت کے ساتھ فرماتے کہ وقت بڑی تیزی کے ساتھ گزرتاجارہاہے،ہرآنے والاوقت جانے والے وقت کے حساب سے بے برکت ثابت ہورہاہے جوقرب قیامت کی علامت ہے کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ قیامت سے پہلے وقت میں بے برکتی پیداہوجائے گی۔لاتقوم الساعۃ حتی یتقارب الزمان فتکون السنۃ کاالشہرویکون الشہرکالجمعۃ وتکون الجمعۃ کالیوم ویکون الیوم کالساعۃ وتکون الساعۃ کاحتراق السعفۃ الخوصۃ۔قیامت قائم ہونے سے پہلے زمانہ قریب آجائے گااورسال مہینے کی برابر،مہینہ ہفتہ کی طرح،ہفتہ ایک دن کی طرح،دن ایک گھنٹہ کی طرح اورگھنٹہ ایک آگ کے شعلہ کی طرح تیزی گزرنے والاہوگا۔
بخاری شریف میںایک حدیث اسی موضوع پرہے لاتقوم الساعۃ حتی یقبض العلم وتکثرالزلازل ویتقارب الزمان۔قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب علم نہ اٹھالیاجائے،زلزلے بکثرت نہ آنے لگیں اورزمانہ قریب نہ آجائے۔
آج دیکھ لولوگ فضول اورلغوباتوں میں قیمتی وقت ضائع کردیتے ہیں، مسلمان قوم سب سے زیادہ وقت ضائع کررہی ہے،دنیامیں یہودی اورعیسائی دونوں قومیں اپنے وقت کوہمہ وقت ملحوظ رکھتی ہیں،یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں خوب خوب ترقی کرتی نظرآتی ہیں۔
مصروف زندگیاں:
کتابوں میں پڑھتاتھاکہ ہمارے بزرگ علماء کی زندگیاں اتنی مصروف ہواکرتی تھیں کہ انہیں کھانے پینے کاہوش نہیں رہتاتھا،حضرت امام بخاریؒکے بارے میں مشہورہے کہ آپ نے چالیس سال تک عشاکے وضوسے فجرکی نمازادافرمائی تھی،حضرت مدنیؒچوبیس گھنٹوں میں صرف تین گھنٹے ہی سوتے تھے،حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریاؒکی مصروف ترین حیات مبارکہ سے سبھی واقف ہیں،ہمارے بزرگوں نے وقت کی قدر وقیمت کس اندازمیں فرمائی ہے علماء نے محض اسی موضوع پرکتابیں تصنیف فرمائی ہیں جن میں ان واقعات کویکجاکرکے نئی نسل کوتضییع اوقات سے بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔
آپ کی زندگی کامشن ہی دین اورخدمت دین تھا،نہ بناوٹ،نہ ریاکاری، نہ تکلف نہ تصنع،نہ کھانے پینے میں اضاعت وقت،نہ سونے اورآرام کرنے کافکر،نہ ٹہلنے کی فرصت نہ دوستوں سے علیک سلیک کاموقع،نہ مجلسی زندگی نہ ذہنی تعب وتکان کودورکرنے کی کوشش۔بس پڑھنے پڑھانے اورلکھنے کی ہروقت دُھن اور فکر،سچائی یہ ہے کہ راقم السطور نے علامہ صاحب جیسامصروف ترین عالم نہیں دیکھا۔
یہی علامہ صاحب کی کامیابی کارازہے کہ انہوں نے وقت کی قدرکی تووقت نے آپ کی قدرکی،کسی حکیم وداناکاقول ہے کہ کامیابی کسی تھوڑے وقت یاپے درپے کام کرنے پرموقوف نہیں بلکہ وقت کی مناسب تقسیم پرہی منحصرہے ،حضرت علامہ صاحبؒکاچونکہ ایک نظام تھا،کھاناکس وقت کھاناہے،نمازکس وقت پڑھنی ہے، تصنیف کے لئے کون سا وقت ہے ،آپ کے اسی نظام الاوقات کی برکت تھی کہ آپ کے علمی کاموںقابل رشک رفتاربڑھی اورمعاشرہ میں حضرت علامہ صاحب کی عظمت وعزت اورمقبولیت ومعقولیت میں اضافہ ہوا۔
کتابوں کی خریداری کاشوق:
آپ کے پاس ذاتی کتابوں کابڑاذخیرہ تھا،اس سلسلہ میں آپ فرمایا کرتے تھے کہ مدرسہ سے کوئی کتاب اگرلی جائے توہرسال اس کوجمع کرنااورنکالنا،یااس کاازسرنواندراج کرانا مستقل سردری ہے اس لئے میں نے اپنی ذاتی کتابیں خریدلی ہیں،میں نے پوچھاکہ حضرت آپ کامشاہرہ اتنا نہیں ہے کہ آپ آئے دن اتنی مہنگی کتابیں خریدتے رہیں ؟مسکراکرفرمایاکہ اللہ بڑاکارسازہے۔
ہمہ جہت شخصیت:
آپ کے پاس مہمانوں کی آمدورفت بھی ہوتی تھی،ان سے گفتگوبھی فرماتے تھے،طلبہ کارجوع بھی بہت تھا،مدرسہ کے عملہ میں سے کچھ نہ کچھ افرادبرابرآپ کی خدمت میں پہنچتے تھے،اصلاحی اورروحانی سلسلہ بھی جاری تھا،کئی کئی گھنٹے کتابوں کی تدریس بھی متعلق تھی،نمازوں اوراذکارمسنونہ کے بعدجووقت تھااس میں کوئی نہ کوئی تحقیقی کتاب یاشرح تحریرفرماتے تھے،کبھی بخاری کی شرح نصرالباری زیرترتیب ہے توکبھی مشکوٰۃ شریف کی شرح نصرالحیات پرقلم رواں دواں ہے،کبھی جلالین شریف کی شرح فیض الامامین زیرترتیب ہے توکبھی مسلم شریف کاخلاصہ نصرالمنعم مرتب فرمارہے ہیں۔
ان تاریخی کارناموں کے علاوہ علماء اورطلبہ اپنی تصنیفات پرتقریظات بھی لکھوارہے ہیں،کوئی دعائیہ کلمات کیلئے عرض رساہے،کوئی اپنے ادارہ کیلئے تصدیق اورتوثیق کاخواہاں ہے اورآپ سب کی حاجتیں پوری کرکے خوشی بھی محسوس فرمارہے ہیں اوریہ احساس بھی جاگزیں ہے کہ جلدازجلدان کاموں سے فرصت مل جائے تاکہ اپنامحبوب اورپسندیدہ علمی وتصنیفی مشغلہ جاری رکھاجاسکے۔
یہاں بطورتحدیث نعمت عرض کررہاہوں کہ حضرت ؒاپنی عدیم الفرصتی کی وجہ سے تصدیقات وتقریظات لکھنے کے لئے احقرکوحکم صادرفرماتے تھے ،احقر حضرت کے مزاج ومذاق کے مطابق تصدیق یاتقریظ لکھ کرخدمت اقدس میں پیش کرتااورحضرت اپنے دستخطوں سے تصدیق جاری فرمایتے۔یہ حضرتؒ کی احقرپرغایت شفقت وعنایت تھی کہ آپ میری تحریر پراعتمادفرماتے تھے۔
(جاری)
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
کفایت شعاری
آپ کالباس ،بودوباش ،رہن سہن،کھاناپیناسب کچھ سادگی سے عبارت تھا،بناوٹ اورتکلف نہ توخودکے لئے پسندتھانہ ہی اپنے شاگردوں کے لئے پسندفرماتے تھے،آپ کاحجرہ بھی نہایت سادہ تھا،نہ توٹھاٹ باٹ کی جھلکیاں تھیں نہ بستروفرش دلکش ومعیاری،وہ تپائی جوآپ کے زیراستعمال تھی اورجس پرنصرالباری،امامین،نصرالمنعم،نصرالحیاۃ جیسی درجنوں کتابیں تالیف فرمائیں وہ بھی نہایت سادہ تھی،داہنی طرف کتابوں کی گول الماری تھی جوچاروں طرف گھوم جاتی تھی،سامنے ڈیسک تھاجس پربجلی کالیمپ اورنصرالباری کے زیرترتیب اوراق رکھے رہتے تھے،ڈیسک کے نیچے آپ کاپان دان رکھارہتاتھا،پیچھے کی طرف ایک سادہ سی تپائی پردواؤں اوربسکٹ کے ڈبے ،روزمرہ کی ضروریات کاسامان،اس سے متصل آہنی الماری میں ترتیب سے رکھی ہوئی کتابیں،سامنے دیوارسے متصل ایک اورآہنی الماری میں کتابیں ،وسط میں باقیماندہ مختصرجگہ آمدورفت کے لئے خدام ومتعلقین کے لئے بیٹھنے کاکام بھی کرتی تھی،طلبہ پڑھنے آجاتے تودرسگاہ بھی بن جاتی ،نمازکے وقت ایک صف بچھادی جاتی اوراس طرح گویاوہ جگہ مسجداورسجدہ گاہ بن جایاکرتی تھی، الغرض آپ کاحجرہ بیک وقت ذاتی کتب خانہ بھی تھا،مطالعہ گاہ بھی، دارالترجمہ والتالیف بھی تھا،ذاتی مہمان خانہ بھی ،بعض جماعتوں کے لئے درسگاہ بھی تھااور مسترشدین کے لئے خانقاہ وتربیت گاہ بھی۔
میں نے عرض کیاکہ حضرت علمی کاموں کے لئے ایک کشادہ حجرہ ناظم صاحب سے کہہ کرلے لیں،فرمایاکہ یہی حجرہ کافی ہے ،ہمارے حضرت مولاناسیدحسین احمدمدنیؒکاحجرہ بھی نہایت مختصراوراتناتنگ تھاکہ ذاتی امور نمٹانے میں بھی پریشانی محسوس ہوتی تھی۔حضرت حاجی صاحبؒ اورحضرت مولانااشرف علی تھانویؒکے حجرے تواس سے بھی تنگ اورمختصر تھے۔
مدرسہ کی لائٹ جانے یارات کووقت مقررہ پرجنریٹربندہوجانے کے بعدبھی موم بتی کی روشنی میں عموماًرات کے اکثرحصہ میں تصنیفی وتالیفی کام میں مصرو ف رہتے تھے ،احقر نے بارہاعرض کیاکہ حضرت انورٹرلگوالیجئے ! فرمایاکہ انورٹرتوبہت مہنگاآتاہوگا؟عرض کیاکہ حضرت اس سے فائدے بھی بہت ہیں،روشنی اورپنکھے کی سہولت بھی حاصل رہے گی اوریہ احساس ہی نہ ہوگاکہ بجلی چلی گئی ہے،فرمایاکہ اس سے سستاکوئی اورسسٹم نہیں ہے ؟عرض کیاکہ اس سے سستاسسٹم یہ ہے کہ ایک متوسط بیٹری ،چارجر اورٹیوب لائٹ لے لیں ،پوچھاکہ لائٹ جانے کے بعدیہ سسٹم کتنی دیرکام کرے گا،عرض کیاکہ اگرصرف لائٹ جلائی جائے توچارپانچ گھنٹے اورپنکھابھی چلایاجائے تودوڈھائی گھنٹے کام کرے گا،فرمایاکہ یہی صحیح ہے، پنکھانہیں چلاؤں گا،عرض کیاکہ گرمی سے پریشانی محسوس ہوگی ،فرمایاکہ پریشانی کے بعدان شاء اللہ آسانی ہوگی۔چنانچہ احقرنے یہ سستاسسٹم لگوادیا،علامہ صاحب بہت دعائیں دیتے رہے،جب بھی ملاقات ہوتی توفرماتے کہ اب نصرالباری کے کام میں زیادہ تیزی آگئی ہے اورامیدہے کہ اب یہ کام بعجلت تمام تکمیل کوپہنچے گا،بعدمیں احقرکے توسط سینصرالباری کے ناشر نے علامہ صاحبؒ کے حجرہ میں معیاری انورٹر لگوادیاتوحضرت بہت خوش ہوئے بجلی جانے کے بعدجب بھی انورٹرکے استعمال کی نوبت آتی توباربار دعائیں دیتے تھے۔
آپ کونصرالباری کے بعدجلالین کی شرح ’’فیض الامامین‘‘کی تکمیل کی دھن سوارتھی،امامین کے علاوہ مشکوٰۃ شریف کی بھی آسان اورسہل اندازمیں نصرالباری کے طرزپر شرح لکھنے کاارادہ تھاچنانچہ دونوں کتابوں کی چند جلدیں الحمدللہ مکمل ہوکرشائع بھی ہوگئی تھیں لیکن تکمیل نصرالباری کے حصہ میں آئی۔
زہدوقناعت:
حضرت علامہ صاحبؒ بیس سال سے زائدعرصہ تک مظاہرعلوم وقف میں شیخ الحدیث کے منصب عالی پرفائزرہے لیکن آپ اپناذاتی آشیانہ نہ بناسکے،نہ ہی مدرسہ کی طرف سے آپ کومکان کی سہولت ملی، حالانکہ اگرحضرت ؒچاہتے تواپنے اثرورسوخ کی بناپرشہرسہارنپورمیں شاندار وپرشکوہ مکان بنواسکتے تھے،لیکن خاکساری ومسکنت،توکل وقناعت، زہدوخودداری کے باعث ایساممکن نہ ہوسکا،قناعت کواپنی زندگی کااوڑھنا بچھونابنایا تو توکل اورصبرورضاکوگلے لگایا۔
اکم یدیک عن السوال فانما
قدرالحیاۃ اقل من ان تساء لا
میں اپنی قناعت کی فضیلت کواپنے ساتھ لپیٹے اوراس کونامکمل بناکر اوڑھے رہتاہوں۔
وبینی وبین المال شتان حرما
علی الغنی الابیۃ والدھر
مجھ میں اورمال میں بہت بڑافاصلہ ہے ،میرے خوددارنفس اورزمانے نے مجھ کودولت مندی سے محروم کردیا۔
شہرت ومقبولیت:
ایک عربی شاعرکاقول ہے
’’ بلندرتبہ شخص کیلئے گمنامی کوئی عارنہیں ہے‘‘۔
آپ عموماًتقریری پروگراموں میں تشریف نہ لے جاتے تھے کیونکہ اس سے آپ کے تحریری کاموں میں حرج ہوتاتھا،شہرت وناموری سے بھی دور بھاگتے تھے کیونکہ مریدین ومتعلقین کے باربارآنے سے بھی آپ کے تحریری کام میں خلل ہوتاتھاپھربھی دوآبہ کے علاوہ آپ ہندوستان اورہندوستان سے باہر نیک نامی کے ساتھ شہرت ومقبولیت رکھتے تھے ،جس طرح جاہ سے آپ کونفرت تھی اسی طرح مال سے بھی رغبت ودلچسپی نہ تھی۔
جنہیں احساس خودداری تھاجن کے دل میں غیرت تھی
یہ دنیاایسے انسانوں سے خالی ہوتی جاتی ہے
تصحیح وپروف ریڈنگ:
کتابت کی اغلاط اوران کی تصحیح کافن بھی حضرت کوبخوبی معلوم تھایہی وجہ ہے کہ آپ کی کتابوں میں اغلاط بہت کم ہیں،نصرالباری کے ناشرنے حضرت علامہ صاحب کی سہولت اورآسانی کے لئے فل اسکیپ سائزکے صفحات ایسے اندازمیں پرنٹ کرائے کہ اوپربخاری شریف کی حدیث لکھی گئی اورنیچے اس کے ترجمہ وتشریح کے لئے جگہ چھوڑدی گئی ،علامہ صاحبؒنے مجھے وہ کاغذات دکھائے اورفرمایاکہ کمپیوٹرآنے سے کام کی رفتارمیں بھی خاصی تیزی آگئی ہے،میں نے نصرالباری کی کتاب المغازی جب کاتب سے لکھوائی تھی تواس اللہ کے بندے نے کافی عرصہ کتابت میں لگادیاتھااورجب کتابت مکمل ہوگئی تومیرے پاس اس کودینے کیلئے جورقم تھی و ہ خرچ ہوگئی ،بڑی شرمندگی محسوس ہوئی کہ اب کیاہوگا۔
اللہ تعالیٰ جزائے خیرعطافرمائے میرے محسن ومشفق حضرت مولانا عبدالاحد تاراپوریؒ، میرے مربی فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ، حضرت مولانا محمدالیاس سورتی مدظلہ اورمحترم مولاناعبدالرحمن گلاؤٹھی کوجنہوں نے نہ صرف اُس مشکل وقت میں میری مالی معاونت فرمائی بلکہ نصرالباری کی اشاعت کابنیادی ذریعہ بھی بنے۔
نصرالباری کے ناشرنے راقم سے بتایاکہ نصرالباری کے جوصفحات کمپیوٹرائز کراکرحضرت علامہ صاحب کے پاس بھیجتاتھا،حضرتؒان صفحات کونہ صرف بغورپڑھتے تھے بلکہ اس میں بھی کتابت اوراعراب کی غلطیوں کی نشاندہی بھی فرماتے تھے۔
شرائط مناظرہ :مخالفین کی شکست کی خشت اول
علامہ صاحب اپنی حاضرجوابی اورمظان پرگہری نظررکھنے میں بھی اپنی مثال آپ تھے،آپ کوکئی بارمناظرہ کی نوبت بھی آئی لیکن آپ کی دانائی اورہوشمندی سے کئی معرکے بغیرمناظرے کے سرہوگئے۔
فرمایاکرتے تھے کہمخالفین سے کبھی بھی مناظرہ ہوتواصول مناظرہ تحریری طورپرپہلے طے کرلیا کروکیونکہ پھرمخالف ادھرادھرکی ہانکنے میں ناکام ہوجائے گااورمخالفین کی شکست کی خشت اول یہی ہے۔
فقہ البخاری فی تراجمہ:
ایک مرتبہ کسی غیر مقلد سے آپ کا مناظرہ طے ہوا ،مجلس مناظرہ سے قبل ناشتہ پر فریقین موجود تھے ، علامہ صاحب ؒنے فریق مخالف سے کہا کہ شرائط مناظرہ طے کرلئے جائیں ۔فریق مخالف نے کاغذا ور قلم سنبھالااورشرائط مناظرہ لکھنے شروع کئے ، سب سے پہلے لکھا کہ دلائل میں کتاب اللہ دوسرے نمبر پربخاری شریف ۔
علامہ صاحب نے فرمایا کہ بخاری تو حدیث کی کتاب نہیں ہے؟ اس نے تعجب سے کہا حضور! آپ تو خودبخاری شریف پڑھاتے ہیں؟فرمایاکہ جی ہاں بے شک میں پڑھاتا ہوں ۔کئی منٹ تک فریق مخالف شش وپنج میں مبتلا رہا ،پھر علامہ صاحب نے خودہی فرمایاکہ امام بخاری نے اپنی کتاب میں جو ابواب قائم فرمائے ہیں وہ حدیث نہیں ہیں،پھر علماء نے لکھا ہے کہ فقہ البخاری فی تراجمہگویا یہ تو امام بخاری کا فقہ ہے ،فریق مخالف نے یہ بات سنی توراہ ِفرار اختیارکی،گویا بغیر مناظرہ ہوئے ہی اللہ تعالیٰ نے علامہ صاحب کو فتح نصیب فرمائی ۔
اورمخالف فرارہوگیا:
علامہ صاحب ؒنے کئی سال تک مغربی بنگال کی راجدھانی کلکتہ میں علمی وتدریسی خدمات انجام دی ہیں وہیں قیام کے دوران ایک مرتبہ فرق ضالہ میں سے کوئی شخص اسٹیج پر بیٹھا علماء دیوبندکوچیلنج کررہا تھا ،چندنوجوان علامہ صاحب کے پاس حاضرہوئے اورعرض کیا کہ حضور ! ایک شخص اسٹیج پر بیٹھا دیوبندیت کو چیلنج کررہا ہے، آپ تشریف لے چلیںاوراس کے چیلنج کا جواب دیں ۔حضرت علامہ صاحب ؒنے ان نوجوانوں سے فرمایا کہ ایک ٹیپ ریکارڈ بھی لے لو چنانچہ علامہ صاحب ؒ بغل میںبخاری شریف دبائے اسٹیج پر تشریف لے گئے ،اسٹیج پر بیٹھامقرر دھواں دھارتقریر کررہاتھا،علامہ صاحب نے اس مقررسے فرمایا کہ’’ یہ ہے بخاری شریف ! اگراس کا صرف ایک صفحہ تم صحیح پڑھ دو تو میں تمہارے ساتھ ہوجاؤ ں گا‘‘۔
علامہ صاحب نے بخاری شریف اس کے سامنے رکھی اورٹیپ ریکارڈ کھول دیا ،دھواں دھارمقرر نے جب یہ معاملہ دیکھا تو فوراً راہِ فرار اختیار کی اورگویا یہاں بھی حضرت علامہ صاحب ؒکو فتح حاصل ہوئی ۔
علامہ صاحب ہمیشہ فرمایاکرتے تھے کہ مخالف کتناہی بڑاعلامہ فہامہ ہواس سے مرعوب نہیںہوناچاہئے، مرعوبیت کااحساس انسان کی صلاحیتوں پرتالالگادیتاہے پھرقابل وفاضل انسان بھی کچھ بولنے پرقدرت نہیں رکھتااور بالآخرشکست ہوجاتی ہے،مولانامحمدمرتضیٰؒچاندپوری کواس سلسلہ میں بڑی مہارت حاصل تھی۔
سلسلۂ تھانوی،رشیدی،خلیلی اورمدنی کی خوبی یہ ہے کہ مسترشدین اپنے تعلق کوپردہ بلکہ صیغۂ رازمیں رکھتے ہیں سوحضرت علامہ صاحبؒبھی عموماًیہ رازظاہرنہ فرماتے تھے ۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مدنیؒ:
[align=justify]شروع شروع میں حضرت علامہ صاحب ؒنے بیعت واصلاح کاتعلق شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒسے قائم کیاتھا۔
حضرت فقیہ الاسلامؒ:
۱۱؍شعبان ۱۴۰۶ھدوشنبہ بعد نمازعشاء فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسینؒ نے آپ کو خلعت خلافت عطا فرمائی ۔
فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسینؒنے آپ کوجوخلافت نامہ عطا فرمایا تھا اس کامتن درج ذیل ہے۔
’’محترمی جناب مولانامولوی محمدعثمان صاحب زیدکرمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے تمام احوال وکوائف ماشاء اللہ امیدافزاء اورقابل مسرت ہیں ،اللہ تعالیٰ آپ کو مزیدتوفیق وترقیات عطافرمائے (آمین)
آپ کی صحبت لوگوں کے لئے ان شاء اللہ مفیدومؤثرہوگی،جولوگ آپ کے پاس آئیں ان کے مناسب حال مفیدباتیں نہایت خوش خلقی محبت اورنرمی سے بتاتے رہیں،لہٰذاحق تعالیٰ پراعتمادکرکے آج مؤرخہ ۱۱؍ شعبان المعظم ۱۴۰۶ ھ یوم دو شنبہ بعد نماز عشاء آپ کواجازت بیعت وخلافت دیتا ہوں جو لوگ آپ کے پاس اصلاح وتربیت کے لئے آئیں ان کو سلسلہ میں شامل فرمائیں اورصحیح طریق سے ان کی تربیت واصلاح فرماتے رہیں ، چند امور کا انجام دینا لازم وضروری ہے ۔۔
(۱)معاملات کی صفائی کا خاص خیال رکھیں ۔عام طورسے اس کے اندر بہت کوتاہی ہوتی ہے ۔
(۲)گناہوں سے اجتناب :یہ سب سے زیادہ مضر چیز ہے ۔
(۳)معمولات کی پوری پابندی بالخصوص فرائض کا اہتمام ، نماز تکبیر اولیٰ سے پڑھنے کی کوشش کی جائے ۔
(۴)تمام امورمیں اتباع سنت نبوی کی کوشش رکھی جائے ورنہ کم از کم شریعت کے خلاف تو کوئی کام نہ ہو ۔
(۵)پاکیزہ اخلاق پیدا کرنے اوررذائل کے ازالہ کی فکر دائمی طورپر کی جائے ۔
اپنے متعلق استحسان وتکمیل اوردوسروں کی تحقیر ذہن سے نکالدیں کہ یہی عجب ہے جو اس راہ میں سب سے زیادہ مہلک ہے اسی کے ساتھ اگر استحقارناس بھی ہو توتکبر ہے جس کی مذمت سے قرآن وحدیث لبریز ہے ۔
اس اجازت پر بھروسہ کرکے ہر گز ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ میں کچھ ہوگیا ہوں بلکہ اپنے کو بے حقیقت تصور کرکے مزید ترقی کی فکر میں لگے رہیں ۔ ؎
اندریں رہ می تراش می خراش
تادم آخر دمے فارغ مباش
رُوحانی امراض کے علاج کافکر ہر وقت رکھنا بہتر ہے ،حضرت اقدس تھانویؒ کی کتابوں کا عموماً اورتربیت السالک انفاس عیسیٰ،الرفیق فی سواء الطریق ،ضیاء القلوب،قصد السبیل کا خصوصاً بغورمطالعہ کرتے رہیں ، مجھے دعا میں فراموش نہ کریں اورمیری حیات تک آنا جانا برقرار رکھیں،یہ نہ ہو تو خط وکتابت ہی کرتے رہیں ،میرے حسن خاتمہ کی دعا اور کم از کم تین مرتبہ قل ھو اللّٰہ شریف نماز کے بعد پڑھ کر ثواب پہنچادیا کریں ‘‘۔
مظفر حسین المظاہری
۱۱؍شوال ۱۴۰۶ھ
حضرت مفتی عزیزالرحمن بجنوریؒ:
اسی طرح حضرت مولانامفتی عزیزالرحمن بجنوریؒنے بھی ۶؍ذی قعدہ ۱۴۲۳ھ بروزجمعہ درج ذیل خلافت نامہ حضرت علامہ صاحبؒکوتحریری طورپرعنایت فرمایا تھا ۔
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم
حامداً ومصلیاً اما بعد !
چونکہ طریقہ ٔ بیعت ،طریقت متواثراور عندالصوفیاء متوارث ہے ۔ اوراس طریقہ کا ثبوت قرآن پاک اورسنت شریفہ سے ہے ،اس وجہ سے اربابِ طریقت اپنے اپنے سلاسل سے اجازت بیعت ،طریقت دیتے آئے ہیں ، ولہٰذاحضرت علامہ محمدعثمان غنی المعروف بالعلامہ شیخ الحدیث مظاہر علوم وقف سہارنپورجو کہ سلسلہ رشیدیہ خلیلیہ سے منسلک ہیں اورسلسلہ رشیدیہ نہایت اقوم واصوب ،طریقہ ہے میں موصوف وممدوح کو اپنے مشائخ کی شرائط کے مطابق سلسلہ چشتیہ قادریہ نقشبندیہ سہروردیہ میں بیعت لینے اورطالبین کی اصلاح کی اجازت دیتا ہوں ،اللہ تعالیٰ میری مدد فرمائے ،ممدوح سے امید وار ہوں کہ اپنے دعوات الصالحات میں اس حقیر فقیر کو فراموش نہ فرمائیں گے ۔ فقط والسلام
عزیز الرحمن غفرلہ
مدنی دار المطالعہ مدرسہ عربیہ مدینۃ العلوم بجنور
۶؍ذی قعدہ یوم الجمعہ ۱۴۲۳ھ ‘‘
گویا حضرت والا سلسلہ ٔمدنی وتھانوی کے حسین روحانی سنگم بن گئے ۔
اندازتربیت:
اصلاح کااندازبھی بڑاپیاراتھا،اپنے مسترشدین کودینی کتب بالخصوص کتب حدیث کے مطالعہ کاحکم دیتے تھے،عجب وتکبر،ریاوسمعہ اور بداخلاقی سے بچنے کی تلقین وہدایت فرماتے تھے،نمازباجماعت اور اوراد واذکارکی نصیحت بھی فرماتے تھے۔احقرکوفقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒکی وفات کے بعدحدیث کے سلسلہ میں جب بھی مراجعت کی ضرورت پڑی تو دوحضرات سے کافی فائدہ پہنچاہے جن میں سے ایک توخودحضرت اقدس علامہ محمدعثمان غنی صاحب ؒ ؒتھے دوسرے شعبۂ تخصص فی الحدیث دارجدیدکے نگراں اعلیٰ حضرت مولانا زین العابدین مدظلہ العالی ہیں، اللہ تعالیٰ صحت وقوت کے ساتھ آپ کاسایہ دراز فرمائے۔
معمولات:
صبح فجرسے کافی پہلے اٹھنااورتہجدکی نمازکے بعدنصرالباری کی تصنیف میں مصروف ہوجانا،نمازفجرتک اس مبارک مشغلہ کے بعدفجرکی ادائیگی، پھراوراد وظائف اورمختصرناشتہ کے بعدبخاری شریف کے درس کی تیاری ومطالعہ،خالی گھنٹوں میں اگلے اسباق کی تیاری ،دوپہرکوکھانا اورپھر نصرالباری کاکام شروع،مختصروقت کیلئے قیلولہ ،پھرنمازظہر اورنماز کے بعدپھروہی نمازعصرتک تدریسی ِشغل،عصرکے بعدسے مغرب تک نصرالباری کی ترتیب ،مغرب کے بعدپھر نصرالباری اورعشاء کے بعدبخاری یامسلم کادرس جوعموماًرات گیارہ بجے تک جاری رہتا،پھر مختصرکھانا اورکھانا کھانے کے فوراًبعدنصرالباری کامشغلہ جوتہجدکے کچھ پہلے تک جاری رہتا، پھرآرام کے لئے اسی مسندپر لیٹ جاتے جس پربیٹھ کرنصرالباری وغیرہ تصنیف فرماتے تھے۔کل ملاکرآپ اپنے استاذ ومرشد اول حضرت شیخ الاسلام کے نقش قدم پرچلتے ہوئے دویاتین گھنٹوں سے زیادہ آرام نہ فرماتے تھے۔آپ اپنی شبانہ روزمصروفیات اورتصنیفی وتالیفی مشاغل ،تدریسی وتحقیقی امورہرمیدان میں وقت کوبطورخاص ملحوظ رکھتے تھے۔اکل وشرب، نمازو عبادت،آرام واستراحت ہرچیزکیلئے آپ کانظام الاوقات مرتب اورمتعین تھا۔
خوبیوں کامجموعہ :
صبروعزیمت کے پیکر،عزم وحوصلہ کے کوہِ گراں، استقامت وپامردی کے شاہین صفت انسان،حق گوئی اوربے باکی کی تصویرمجسم،علم وروحانیت کے بے آب وگیاہ سمندر،تواضع وخاکساری اورعجزونیازمندی کابے مثال نمونہ تھے۔
بہرحال علامہ صاحب مختلف النوع خوبیوں کے مالک تھے،آپ اپنی بیماری،ضعف ونقاہت، پیروں سے معذوری کے باوجودگرجدارآواز اور رعب دارلہجے میں اسباق پڑھاتے تھے،آپ کی تقریراوردرس سے اندازہ لگانامشکل تھاکہ آپ طویل مدت سے مختلف بیماریوں کاشکارہیں،کبھی کبھی بے تکلفی کے ساتھ فرماتے تھے کہ لگتاہے اب بڑھاپاآگیاہے،کمزوری محسوس کرنے لگاہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ کی علمی امنگوں،دینی آرزؤں،تصنیفی مشاغل اور روحانی سلسلہ کوتاب وتواں کرنے اورنیاعزم وحوصلہ اورنئی اسپرٹ واسپیڈ پیدا کرنے والی ذات گرامی آپ کے استاذشیخ الاسلام حضرت مولاناسیدحسین احمدمدنیؒ سے تلمذاور خوشہ چینی کافیض تھا،آپ اپنے والدین کی دعاؤں سے پورے طورپرمالامال رہے کیونکہ آپ نے طبعی عمرسے زیادہ عمرپائی جووالدین کی دعاؤں کاطفیل ہوتاہے،اسی طرح آپ اپنے اساتذہ کی مستجاب دعاؤں سے بھی مالامال رہے کیونکہ علم میں برکت،قلم میں پختگی،تصنیفات وتالیفات کی مقبولیت اورعوام وخواص میں آپ کی محبوبیت اساتذہ کی دعاؤں ہی کے طفیل میں ممکن ہے۔
ایک بارعرض کیاکہ حضرت اتنے بڑھاپے اورعمرمیں بھی آپ کی آوازبہت بلندہے اس کاکیا رازہے؟فرمایاکہ رازتوکوئی نہیں ہے ،زندگی قال اللہ وقال الرسول میں گزرگئی ہے،دونوں عالم میں ان دونوں سے بڑھ کرکوئی کلام نہیں ہے،کلام کی اپنی تأثیرہوتی ہے،اسی کلام کی برکت ہے کہ الحمدللہ نہ توذہن متأثرہواہے نہ ہی بینائی ،یہ دونوں علوم پڑھانے والا دماغی بیماریوں سے بھی محفوظ رہتاہے۔
حضرت والانے تاحیات علمی وتصنیفی کارنامے انجام دئے،قلمی خدمات کے جلی نقوش ان کی کتابوں کی شکل میں ہمارے درمیان موجودہیں۔
تربیت کاایک اورانداز:
حضرت تھانویؒ اورحضرت مدنیؒ:
میں نے ایک دفعہ عرض کیاکہ کیاحضرت تھانویؒاورحضرت مدنیؒایک دوسرے کے مخالف تھے؟فرمایامتعصب اورمتشددلوگوں نے خواہ مخواہ پروپیگنڈہ کیاہے ورنہ نہ توحضرت مدنیؒحضرت تھانویؒ کے مخالف تھے اورنہ ہی حضرت تھانویؒ حضرت مدنیؒ کے۔پھرفرمایاکہ حضرت مدنیؒایک دفعہ حضرت تھانویؒ کے پاس پہنچے تورات ہوچکی تھی ،وہاں کاگیٹ حسب معمول وقت مقررہ پربندہوچکاتھاتوحضرت مدنیؒنے نہ تودروازہ کھٹکھٹایانہ ہی کسی اورذریعہ سے اطلاع کرائی بلکہ باہرایک چبوترہ تھاحضرت مدنیؒ اپنے خدام کے ساتھ اسی چبوترہ پرلیٹ گئے صبح حضرت تھانویؒجب بیدارہوئے اورحسب معمول باہرنکلے توحضرت مدنیؒکوچبوترہ پرآرام کرتے ہوئے پایا،حضرت تھانویؒ نے فرمایاکہ حضرت!اطلاع کرادی ہوتی ،حضرت مدنیؒ نے فرمایاکہ نہیں نظام الاوقات میں دخل اندازہونااچھانہ تھااس لئے اطلاع نہ کرائی،چنانچہ حضرت تھانویؒ نے اس کے بعدباقاعدہ تحریرلکھواکرحضرت مدنیؒ کواس سلسلہ میں تمام اصول وقواعدسے مستثنیٰ فرمادیا،اس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ یہ دونوں بزرگ ایک دوسرے کے مخالف قطعاًنہ تھے البتہ سیاسی معاملہ میں حضرت تھانویؒذہنی طورپرمسلم لیگ سے قریب تھے جب کہ حضرت مدنیؒکانگریس سے ۔
حضرت مولانامحمدالیاسؒ اورحضرت مدنیؒ:
فرمایاکہ میاں!ان بزرگوں نے اپنے کرداروعمل سے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جن پرعمل کرکے انسان اللہ کاولی بن سکتاہے ،چنانچہ مظفرنگرکے ایک گاؤں کھتولی میں تبلیغ کاجلسہ تھاجس میں حضرت مولانا محمدالیاسؒمدعوتھے،اسی گاؤں میں ایک اورجگہ پروگرام تھاجس میں حضرت مدنیؒمدعوتھے،حقیقت یہ تھی کہ منتظمین نے ایک دوسرے کی مخالفت میں ان بزرگوں کومدعوکیاہواتھااوریہ دونوں بزرگ ایک دوسرے کی تشریف آوری سے لاعلم رکھے گئے،چنانچہ جب حضرت مولانامحمدالیاسؒکھتولی پہنچے اوروہاں پہنچ کرمعلوم ہواکہ اسی گاؤں میں ایک دوسری جگہ پروگرام ہے جس میں حضرت مدنیؒتشریف لائے ہوئے ہیں توحضرت مولانامحمدالیاسؒ نے فرمایاکہ حضرت مدنیؒکااسی گاؤں میں تقریری پروگرام ہے اس لئے یہ پروگرام کینسل کیاجاتاہے سبھی لوگ حضرت مدنیؒکے بیان سے استفادہ کے لئے وہاں تشریف لے جائیں۔ادھرحضرت مدنیؒکوپتہ چلاکہ اسی گاؤں میں حضرت مولانا محمدالیاسؒ کاتقریری پروگرام ہے توحضرت مدنیؒنے حاضرین سے فرمایاکہ مجھے معلوم ہواہے کہ حضرت مولانامحمدالیاس ؒکااسی گاؤں میں تقریری پروگرام ہے اس لئے سبھی لوگ اس میں شرکت کے لئے پہنچیں ۔
نتیجہ یہ ہواکہ جلسہ نہ توادھرہوااورنہ ہی ادھرہوالیکن ان دونوں بزرگوں نے اپنے عدیم النظیرکرداروعمل سے بعدوالوں کے لئے ایسے رہنمااصول چھوڑدئے جن کواختیارکرکے ہم لوگ دین اوردنیادونوں جہاں میں فلاح وکامرانی سے ہمکنارہوسکتے ہیں۔
دلچسپ لطیفہ:
مسلم شریف کے سبق میں خلیفہ ہارون رشیدکاایک دلچسپ واقعہ سناتے تھے جس سے کچھ دیرکے لئے طلبہ لوٹ پوٹ ہوجاتے،ہنسی پرقابو رکھنامشکل ہوجاتااورطلبہ کے ساتھ حضرتؒبھی ہنسنے لگتے ،وہ پرلطف واقعہ حدیث نبوی آیۃ المنافق ثلٰث وان صام وصلی وزعم انہ مسلم اذاحدث کذب واذااؤتمن خان‘‘کے تحت سناتے تھے،لطیفہ یہ ہے۔
خلیفہ ہارون رشیدکے زمانہ میں ایک قتل ہوگیاتھا ،قاتل کاپتہ نہیں چل رہاتھا،ایک دن ہارون رشیدنے قصدکیاکہ وہ خودہی چل پھرکرپتہ لگانے کی کوشش کرے گا،چنانچہ اس نے عام لباس پہنااوررات کو شہرمیں گشت لگانے لگا،خلیفہ ایک مکان کے پاس سے گزررہاتھاکہ اس کی سماعتوں سے چندعورتوں کی عجیب وغریب سرگوشیاں سنائی دیں،ان عورتوں میں سے ایک بولی ’’وہ چلا‘‘دوسری بولی’’وہ نہیں ہے‘‘تیسری بولی’’وہ چلاگیا‘‘خلیفہ نے دیوارکے پیچھے سے ان عورتوں کی گفتگوسنی اورخوش ہوگیاکہ آج پہلی ہی رات میں قاتل کاسراغ لگالیا،ان عورتوں کی گفتگوسے صاف ظاہرہے کہ قاتل یہیں کہیں چھپاہواتھاجومجھے دیکھ کرنکل بھاگا۔
خلیفہ نے اس مکان پرنشان لگایااوراپنے محل واپس آگیاکہ صبح پولیس کوبھیج کران عورتوں کوگرفتارکرکے قاتل کاصحیح پتہ معلوم کیاجائے گا۔
چنانچہ صبح پولیس پہنچی اوران عورتوں کوگرفتارکرلائی۔خلیفہ نے ان عورتوںسے کہاکہ کل رات تم سب آپس میں فلاں مکان میں کیاگفتگو کررہی تھیں؟
ایک عورت نے اپنی ساتھوں کومخاطب کرکے کہاکہ’’یہ بھی وہی ہے‘‘دوسری نے کہاکہ’’اگروہ ہوتاتووہ ہوتے‘‘تیسری نے کہاکہ’’وہ نہیں تووہ ضرورہے‘‘۔
اب خلیفہ اوربھی حیران ہواکہ ابھی تک پہلامعمہ حل نہیں ہوپایاہے کہ اب یہ ایک نئی مصیبت سننے کوملی ہے۔
خلیفہ نے کہاکہ ان دونوں باتوں کی وضاحت صاف صاف کرو! عورتوں نے عرض کیاکہ بادشاہ سلامت!آپ نے رات کی بات کیلئے طلب کیاتھا اسے بتادیاجائے گالیکن اس وقت کی گفتگوکیلئے معاف فرمائیں۔بادشاہ نے اصرارکیااورکہاتمہیں ہرحال میں بتاناپڑے گا، توانہوں نے عرض کیاکہ اگر ہماری جان بخشی کاوعدہ کیاجائے توبتلادیا جائے گا،بادشاہ ہارون رشیدنے منظورکرلیاکہ جان بحشی گئی اب بتاؤ۔
انہوں نے کہاکہ رات جب ہم آپس میں باتیں کررہی تھیں توچراغ گل ہونے لگاتوہم میں سے ایک نے کہاکہ’’ وہ چلا‘‘یعنی چراغ گل ہونے لگا۔دوسری نے پہلی کی گفتگوسن کرکہاکہ’’ وہ نہیں ہے‘‘ یعنی تیل نہیں ہے،اتنے میں چراغ گل ہوگیاتوتیسری نے کہاکہ’’ وہ چلاگیا‘‘یعنی چراغ بجھ گیا۔
خلیفہ اپنے دل میں بہت شرمندہ ہواکہ اس کوتوخیال پیداہواتھاکہ جوکام کسی سے نہ ہواوہ میں نے کرلیایعنی قاتل کاپتہ چلالیا۔پھراس کے بعدخلیفہ نے کہاکہ اب اس وقت تمہارے درمیان جوباتیں ہوئی ہیں اُن کامطلب بھی بتاؤ!
انہوں نے جواب دیاکہ جب آپ نے صرف اتنی بات کیلئے دربار عالی میں بلایاتوہم میں سے ایک بولی کہ ’’یہ بھی وہی ہے‘‘یعنی بیل ہے کہ اتنی بات بھی نہ سمجھ سکااوردربارمیں بلالیا،اس پردوسری نے کہاکہ’’ وہ ہوتا تووہ ہوتے‘‘ یعنی اگربادشاہ بیل ہوتا توسینگ بھی ہوتے،توتیسری نے کہاکہ’’ وہ نہیں تووہ ضرورہے‘‘ یعنی اگربیل نہیں ہے توگدھاضرورہے۔ خلیفہ اس گفتگوسے بہت شرمندہ ہواکہ میری تمام امیدوں پرپانی پھرگیا اورگدھا الگ ہوا،پھران عورتوں کومعاف کردیا۔(نصرالمنعم:ص ۱۶۲)
ایکسیڈنٹ:
۲۰ ؍اپریل ۲۰۰۰ء کو حضرت علامہ صاحبؒ بہارکے ایک جلسہ میں شرکت کیلئے تشریف لے گئے وہاں گاڑی کاایکسیڈنٹ ہوگیااورحضرت والادنوں پیروں سے معذورہوگئے، چلنے پھرنے پرقدرت نہ رہی،ہرممکن علاج کرایا مگربے سود،حضرت فقیہ الاسلامؒ ؒاس وقت حیات تھے،آپ کے پاس تشریف لے گئے اورمزاحاً مسکراتے ہوئے فرمایاکہ علامہ صاحب!یہ جوآپ کے ساتھ حادثہ ہواہے، اورآپ جودونوں پیروں سے معذورہوگئے ہیں اس کی وجہ اور مصلحت پربھی غورکیاکہ نہیں؟علامہ صاحب نے فرمایاکہ حضرت آپ ہی بتلادیں؟فرمایا تاکہ پھرآپ کہیں اِدھراُدھرنہ جائیں اورآرام سے بیٹھ کر ’’نصرالباری‘‘مکمل فرمائیں۔
بہرحال یہ تودوصاحب علم و رُوحانیت بزرگوں کی آپسی گفتگوتھی ،لیکن اگرغورکیاجائے توصاف پتہ چلتاہے کہ اس حادثہ کے بعدنصرالباری کی اگلی جِلدیں جلدجلدشائع ہوئی ہیں ۔
بیماریوں پرصبر:
بیماریاں گناہوں کودھلتی ہیں توبیماریوں پرصبرحسنات میں اضافہ کاباعث ہوتاہے سوالحمدللہ علامہ صاحبؒاتنے دن بیماررہے جتنے دن اللہ کومنظورتھا اور پھرہمارے درمیان سے چلے گئے کیونکہ دنیامیں ان کاکام اورسانسیں پوری ہوچکی تھیں۔اس لئے میں آپ کی رحلت پراتناضرورکہوں گاکہ آپ کے علمی وتصنیفی کارناموں اورشاگردان رشیدکی اتنی بڑی تعدادہے جوان شاء اللہ صدقہ جاریہ کے طورپرآپ کی ترقی درجات کاباعث بنی رہے گی۔
۱۳؍جنوری۲۰۱۱ء مطابق۸؍صفرالمظفر۱۴۳۲ ھ کی رات چار بجے موبائل کی چیخ سن کربیدارہوااورجب کان لگایاتوحضرت علامہ صاحب ؒکے خلیفہ ومجازجناب مفتی محمودعالم مظاہری کوکلمات ترجیع پڑھتے سن کردل کی دھڑکنیں تیزہوگئیں، مفتی صاحب نے رقت آمیزآوازمیں یہ خبرکلفت اثرسنائی کہ ابھی ابھی حضرت علامہ صاحب سکشم ہوسپٹل میں انتقال فرماگئے۔اناللّٰہ واناالیہ راجعون
موت توبہرحال سبھی کوآنی ہے لیکن علامہ صاحب کی موت اس معنی کرہمارے لئے نہایت ہی المناک تھی کہ اِس وقت مظاہرعلوم میں آپ میرے اساتذہ میں سب سے بڑے اورسب سے قابل احترام تھے۔موت سے کسی کورستگاری نہیں نہ ہی راہ فرارممکن ہے۔
قوی شدیم چہ شد ناتواں شدیم چہ شد
چنیں شدیم چہ شد یا چناں شدیم چوں شد
بہیچ گونہ دریں گلستاں قرارے نیست
تو بہار شدی چہ شد ما خزاں شدیم چہ شد
علامہ محمدعثمان غنیؒعلوم واعمال میں بھی قابل رشک تھے اورروحانی وعرفانی کمالات میں بھی بلندترلیکن میری نظروں میں آپ کاایک وصف سب سے نمایاں اورفزوں ترہے کہ اتنے بڑے عالم ومحدث کے عموماًکچھ نہ کچھ براچاہنے والے مخالفین اورترقی دیکھ کرسیخ کباب ہونے والے حاسدین ضرورہوتے ہیں لیکن حضرت علامہ صاحبؒکاکوئی مخالف الحمدللہ میری نظروں میں نہیں ہے، امید ہے کہ جس طرح آپ عندالناس مقبول تھے اسی طرح عنداللہ بھی محبوب ہوں گے۔
خواب میں ملک الموت کی زیارت:
بیمارتوکافی دنوں سے تھے لیکن انتقال سے پہلے ایک باررات میں اٹیک کاحملہ ہوافوری طورپرطلبہ وخدام نے سہارنپورکے ضلع اسپتال کے ایمرجنسی وارڈمیں داخل کرایا افاقہ نہ ہواتومیرٹھ کے ایک معیاری ہوسپٹل ’’دھنونتری‘‘میں داخل کئے گئے افاقہ ہواتومدرسہ تشریف لے آئے ،چنددنوں کے بعدایک رات کوتینے اپنے صاحب زادے مولانامحمدعمران قاسمی کوبلایا اورفرمایاکہ مجھے کچھ ایسامحسوس ہوتاہے کہ میں مرچکاہوں ،چنانچہ اسی وقت وصیت لکھنی شروع کردی اورفرمایاکہ ویسے تونمازجنازہ پڑھانے کاحق تمہاراہے لیکن تم اپنایہ حق ناظم صاحب کودے دینا۔پھرکتابوں کے متعلق فرمایاکہ میری ذاتی کتابیں اورالماریاں جامعہ عثمانیہ بیگوسرائے کے لئے وقف ہیں۔
صبح ہوئی تونہایت ہشاش بشاس تھے،غسل وغیرہ کے بعداچھے سے کپڑے زیب تن فرمائے، خوشی آپ کے چہرے بشرے سے ہویداتھی،ہم لوگ حضرت ناظم صاحب مدظلہ کے ہمراہ حاضرخدمت ہوئے توفرمایاکہ رات میں نے خواب میں ملک الموت کودیکھاجومجھ سے فرمارہے ہیں کہ تمہاری جگہ اب یہ نہیں وہ ہے،اس لئے اب میں مرنے کے لئے پوری طرح تیارہوں،میرے دل میں جودردتھاوہ اب نہیں رہا،خودکوپوری طرح صحت مندمحسوس کررہاہوں۔
حضرت مولانانسیم احمدغازی مظاہری شیخ الحدیث دارالعلوم جامع الہدی مرادآبادبھی ان ہی ایام میں سہارنپورمجلس شوری کے سلسلہ میں تشریف لائے ہوئے تھے ،علامہ صاحب سے ملاقات کیلئے حسب معمول تشریف لے گئے احقرساتھ تھاان سے بھی ملک الموت کی زیارت وملاقات کاتذکرہ کیا۔
واپسی میں حضرت مولانانسیم احمدغازی مدظلہ نے احقرسے فرمایاکہ اب اندازہ یہ ہے کہ حضرت علامہ صاحب زیادہ دنوں تک حیات نہیں رہیں گے اس طرح اچانک صحت مندہوجانے کو’’سنبھالا‘‘کہتے ہیں۔
نے حسرت تسلی ،نہ ذوق بے قراری
یک درد و صددواہے یک دست و صددعاہے
آخری غذاآخری مشروب:
وفات سے پہلے کھانے کی کوئی بھی چیزپیش کی جاتی توسختی کے ساتھ منع کردیتے اورفرماتے کہ خواہش نہیں ہے لیکن اسی اثنامیں جناب مولانامفتی ابوالکلام قاسمی استاذحدیث مظاہرعلوم(وقف)سہارنپورخدمت میں پہنچے اور عرض کیاکہ حضرت !میں آپ کے لئے مدینہ طیبہ کی عجوہ کھجوریں لایاہوں تناول فرمائیں گے؟فرمایاکہ ہاں مدینہ طیبہ کی کھجوریں کھاؤں گا،مفتی ابوالکلام نے کھجوریں پیش کیں جوتعدادمیں پانچ تھیں ،حضرت نے پانچوں کھجوریں کھائیں۔پانی پیناپہلے سے چھوڑرکھاتھالیکن جب مفتی صاحب نے عرض کیاکہ حضرت میں آپ کیلئے زمزم بھی لے کرآیاہوں،خوش ہوگئے اورفرمایاکہ ہاں زمزم بھی پیوں گا۔چنانچہ آپ نے برضاورغبت زمزم نوش فرمایا۔
بہارآخرشد:
حضرت مولانانسیم احمدغازی مظاہری مدظلہ کی بات حرف حرف صحیح ثابت ہوئی ،کچھ ہی دنوں کے بعدپھراچانک طبیعت خراب ہوگئی توفوری طورپر دہلی روڈسہارنپورکے سکشم ہوسپٹل میں داخل کئے گئے ۔
ڈاکٹروںنے ہرممکن کوششیں کیں کہ آپ کامرض کنٹرول میں آجائے لیکن ’’مرض بڑھتاگیاجوں جوں دواکی‘‘حضرت کوافاقہ نہ ہوا،ایک مرض پرکنٹرول ہوتاتودوسرامرض رونماہوجاتا،بلڈپریشرکبھی اتناکم ہوجاتاکہ زندگی سے مایوسی ہونے لگتی اورکبھی اتنازیادہ ہوتاکہ زندہ رہنے کاامکان ختم ہوجاتا۔
بخاراس قدرتھاکہ ڈاکٹروں کوبھی حیرت تھی،بخارکی شدت کی وجہ سے حضرت پرغشی طاری ہوجاتی، جب ہوش میں آتے توکلمۂ طیبہ لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ پڑھنے لگتے اوروہاں موجوداپنے خدام ومتعلقین سے فرماتے کہ گواہ رہنامیں بہ ہوش وحواس کلمہ پڑھ رہاہوں۔پھرپڑھتے من قال لاالہ الااللّٰہ دخل الجنۃ۔
کبھی کبھی ہوش میں آتے تووہ دعاجوسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بوقت وفات مانگی تھی آپ بھی وہی دعاشروع کردیتے اللہم الرفیق الاعلیٰ ،اللہم الرفیق الاعلیٰ ۔
دنیا میں ہوا سب کو تری موت کاصدمہ
پہروں ملک الموت نے بھی ہاتھ ملے ہیں
آخری کلمات:
زمزم نوش فرمانے کے بعدپھرکلمہ طیبہ پڑھنے لگے اس کے بعداللّٰہم الرفیق الاعلیٰ پڑھااورجان جان آفریں کے سپردکردی۔
قیدحیات و بندغم،اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
چندمؤقرواردین :
انتقال کی خبرکلفت اثربہت جلدملک اورملک سے باہرکانوں کان پہنچ گئی،دوردرازسے فون آنے لگے،نمازجنازہ میں حضرتؒ کی منشاء کے مطابق تعجیل پیش نظررہی ۔
نمازجنازہ میں شرکت کیلئے دارالعلوم دیوبند سے حضرت مولانا عبدالخالق سنبھلی نائب مہتمم،مولانامحمدعبداللہ معروفی،مفتی محمدراشدا عظمی، وقف دارالعلوم دیوبندسے حضرت مولانامفتی فریدالدین قاسمی وغیرہ،گنگوہ سے مفتی خالدسیف اللہ،میرٹھ سے مولاناشاہین جمالی وغیرہ تشریف لے آئے ۔
تجہیزوتکفین:
اتفاق کی بات تھی کہ حضرت ناظم صاحب مدظلہ علامہ صاحبؒ کے انتقال سے چندگھنٹے پیشترگجرات کے سفرپرروانہ ہوچکے تھے ،حضرت علامہ صاحب کے لائق فائق فرزندجناب مولانامحمدعمران قاسمی صاحب ان دنوں والدماجدکی خدمت اورہرممکن علاج ومعالجہ کے لئے یہیں موجودتھے ، حضرت ناظم صاحب کے سفرپرہونے کی وجہ سے مدرسہ کے احاطہ دارالطلبہ قدیم میںبعدنمازظہر جناب مولانامحمدعمران قاسمی نے نمازجنازہ پڑھائی، کثیرتعدادمیں طلبہ وعلمائ، قرب وجوارکے دینی مدارس کے ذمہ داران اورہمدردان مظاہرعلوم اوردارجدید کے طلبہ اوربعض اساتذہ نے شرکت کی۔
قبرستان حاجی شاہ کمال میں اپنے پیرومرشدحضرت فقیہ الاسلامؒ کے پہلومیں تدفین عمل میں آئی۔
اللہ تعالیٰ حضرت علامہ صاحبؒکی قبرمبارک کونورسے منورفرمائے، ان کی تمام روحانی وجسمانی اولاداورمتعلقین کوحضرت کے لگائے ہوئے علمی کاموں اور بتائے ہوئے رہنماطریقوں پرچلنے کی توفیق عطافرمائے۔
[/align]
 
Top