حضرت مولاناعلامہ محمدعثمان غنی قاسمی
نامورمحدث۔مشہورشارح۔کامیاب استاذ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نامورمحدث۔مشہورشارح۔کامیاب استاذ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حرف آغاز
موت وحیات کی باگ وڈورجس کے قبضہ میں ہے اسی کاارشادگرامی ہے اَیْنَمَاتَکُوْنُوایُدْرِکْکُمُ الْمَوتُ وَلَوْکُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ اسی طرح ایک جگہ ارشادہے کہ لَایَسْتَاخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَایَسْتَقْدِمُوْنَ،ان واضح ارشادات کودھیان میں رکھئے اورکارگہہ حیات پر نظرکیجئے ،ہرچیزلگے بندھے وقت کے مطابق پیداہوتی اوروقت مقررہ پرفناہوجاتی ہے،ملائک سے لے کرخلائق تک،جمادات سے لے کرنباتات تک کیاچیزہے جس کودوام اوراستمرارحاصل ہو؟ روئے زمین پر بلکہ آسمان کے نیچے رہنے،بسنے اورپیداہونے والی ہرچیزپر توفنائیت طاری ہونی ہے گویاجب جس چیزکاوقت پوراہ وجاتاہے،جب مستعار ساعتیں پوری ہوجاتی ہیں،جب کسی چیزکی ضرورت کی تکمیل ہوجاتی ہے توپھر فنائیت طاری ہوجاتی ہے۔
مشیت ایزدی:
اسلام کی تکمیل شارع اسلام کے عہدمیمون میں ہوئی اورآیت کریمہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناًنازل ہوئی توایمانی فراست سے مالامال اصحاب رسول ﷺ سمجھ گئے کہ اب سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کاگویاوقت آچکاہے۔اس لئے اس دنیامیں بسنے والی کسی ذات ، کسی شخصیت اورکسی ہستی کیلئے ایسے الفاظ کااستعمال یقیناغلط ہے جواصول الٰہی سے مزاحم ومتصادم ہوں مثلاً یہ کہناکہ ’’فلاں صاحب ایسے وقت میں پردہ فرماگئے جب ان کی سخت ضرورت تھی‘‘یایہ لکھناکہ’’ موت کے بے رحم پنجوں نے آپ کی روح قبض کرلی‘‘، یایہ لکھناکہ’’ اب فلاں صاحب کے خلاکاپُرہوناناممکن ہے ‘‘اپنی عقیدت ومحبت کا اظہارکرنے کیلئے اس قسم کے دوسرے جملوں اورتعبیرات کاسہارا لیناشرعاًاورعقیدۃً غلط ہے کیونکہ کب کس چیزکی ضرورت ہے،کس کوکب جانااورمرناہے،کب کس کاوقت پورااورضرورت ختم ہوئی ان تمام باتوں کاعلم صرف اورصرف احکم الحاکمین کوہے جس کے آگے داناؤں کی دانائی،حکماء کی حکمت اوردانشوروں کی دانش مندی سب ہیچ ہے،یہ اسلام کی تعلیمات میں سے ہے کہ انسان کو ہرحال میں اللہ کی رضاکوپیش نظررکھناہے۔
ان سچائیوں اورصداقتوں کے بعدیہ بھی ایک فطری عمل ہے کہ انسان اپنی کسی متاع گرانمایہ کے زیاں پراپنی حرماں نصیبی کااظہارواعتراف کرے اورایسی متاع کے کھوجانے سے قلب ودماغ کی بے چینی وبے قراری ہرفردبشر کی مجبوری بن جاتی ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح حضرت ابراہیمؓ کے وصال پرسرورکائنات کی چشمان مبارک آنسوؤں سے ترہوگئیں تھیں اوردرد کے ساتھ فرمایاتھاکہ ان العین تدمع والقلب یحزن ولانقول الاما یرضی ربنا وانا بفراقک یاابراہیم لمحزونونآنکھیں رورہی ہیں ،دل پریشان ہے اورہم وہ باتیں کریںگے جن سے اللہ راضی ہو اے ابراہیم!تیری فرقت سے ہم غمزدہ ہیں۔
غروب آفتاب:
ایسی ہی ایک عظیم ہستی آج ہمارے درمیان سے اٹھ گئی ہے جس کے گھنے سایہ میں بیٹھنااورجن کی مجلسوں میں شرکت کرناطلبہ وعلماء اپنے لئے باعث افتخارتصورکرتے تھے،جن کے اسباق کی مقبولیت، تقریرکی لذت، حضوراکرم ﷺ سے عشق ومحبت،اپنے اساتذہ واکابرسے تعلق وعقیدت، گفتگوکی حلاوت، تلقین وہدایت اوراصلاح کے ہمہ جہت پہلوؤں کوبھلادیناناممکن ہے۔میری مرادہے شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدحسین احمدمدنیؒ کے شاگردرشید،فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کے خلیفۂ اجل، مظاہرعلوم (وقف) سہارنپور کے شیخ الحدیث اورنامورشارح بخاری حضرت مولاناعلامہ محمدعثمان غنی قاسمی ؒجوطویل علالت کے بعد سہارنپورکے’’ سکشم‘‘ہوسپٹل میں ۱۳؍جنوری ۲۰۱۱ء کی رات تقریباً ساڑھے تین بجے انتقال فرماگئے۔اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔
ابتدائی حالات:
حضرت مولانا علامہ محمد عثمان غنی ؒکے والدماجدکانام مولوی محمدعبداللہ(متوفی ۱۹۷۱ئ) تھا،علامہ صاحبؒ اپنے وطن چلمل بیگوسرائے (جواس وقت مونگیر(بہار) کاایک حصہ تھالیکن ۱۹۷۵ء میں باقاعدہ ضلع بن گیا) میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم علاقے کے بعض مدارس میں حاصل کرکے بنگلہ دیش چلے گئے جہاں آپ کے والد بزرگوار کاروباری سلسلے میں مقیم تھے ،بنگلہ دیش میں آپ نے تعلیم بھی حاصل کی اوروالد صاحب کے کاروبار میں ہاتھ بھی بٹایا۔
تعلیم کاشوق:
حصول تعلیم کاشوق آپ کوبچپن ہی سے تھالیکن گھریلومعاشی مجبوریاں آپ کی اس تمنا کوپوراکرنے میں حارج تھیں،والدصاحب کاکاروباربھی اس معیارکانہیں تھاکہ اپنے صاحب زادے کی قلبی تمناپوری کرسکتے۔
تعلیم کیلئے بیوی کازیورفروخت کردیا:
اُسی دوران آپ کی شادی بھی کردی گئی،آپ کی وفاشعاربیوی نے اپنے شوہرنامدارکی علمی لگن اورتڑپ کومحسوس کیاتواپنازیورفروخت کردیااوراس رقم سے آپ کوحصول تعلیم کے لئے دیوبندبھیجا۔
دارالعلوم دیوبندمیںداخلہ:
۱۹۴۶ء میں آپ اپنے نوساتھیوں کے ساتھ دارالعلوم دیوبندپہنچے، حضرت مولانا حبیب اللہ صاحبؒ نے امتحان داخلہ لیا، اپنے تمام ساتھیوں میں صرف آپ کامیاب ہوئے ۔
ام المدارس دارالعلوم دیوبند میں پانچ سال تک تعلیم حاصل کرکے ۱۹۵۰ء میں فارغ ہوئے۔
دارالعلوم دیوبندکے چندجلیل القدرعلماء جن کے سامنے حضرت ؒنے زانوے تلمذتہہ کیااوردرس نظامی کی اہم کتابیں پڑھیں۔
شیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنیؒ
بخاری شریف ۔ترمذی اول
شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی ؒ
ترمذی ثانی،ابوداؤد،شمائل،ہدایہ ثالث
حضرت علامہ محمدابراہیم بلیاویؒ
مسلم شریف، ہدایہ رابع
حضرت مولانا عبدالجلیل ؒ
میبذی اورمیر قطبی
حضرت مولانا عبد الخالق ؒ
مشکوۃ ،حسامی ،توضیح وتلویح
سندحدیث:
میں نے پوچھاکہ آپ کی سندحدیث کیاہے؟فرمایاکہ نصرالباری کی پہلی جلدمیں لکھی ہوئی ہے ،اس موقع پرمناسب سمجھتاہوں کہ نصرالباری سے آپؒکی سندحدیث نقل کردوں تاکہ حضرتؒکے جملہ شاگردوں کیلئے اپنی سندکاحصول آسان ہوجائے۔
’’قال العبدالضعیف محمدعثمان غنی بن مولوی عبداللہ الصدیقی حدثناشیخ الاسلام السیدحسین احمدالمدنی،قال حدثناشیخ الہندمحمودحسن الدیوبندی عن شیخہ الحجۃ العارف محمدقاسم النانوتوی وعن شیخہ المحدث الفقیہ الشیخ رشیداحمدالکنکوہی کلاہماعن المحدث الشیخ عبدالغنی المجددی الدھلوی وعن الشیخ احمدعلی السہارنفوری وعن الشیخ محمد مظہرالنانوتوی وعن الشیخ القاری عبدالرحمن الفافیفتی وہولاء الاربع عن الشیخ المحدث محمداسحق الدہلوی عن جدہ لامہ المحدث الحجۃ الشاہ عبدالعزیزالدہلوی عن والدہ الامام الشاہ ولی اللہ الدہلوی واسانیدہ الی اصحاب السنن مذکورۃ فی رسالتہ’’الارشادالی مہمات علم الاسناد
(جاری)
موت وحیات کی باگ وڈورجس کے قبضہ میں ہے اسی کاارشادگرامی ہے اَیْنَمَاتَکُوْنُوایُدْرِکْکُمُ الْمَوتُ وَلَوْکُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ اسی طرح ایک جگہ ارشادہے کہ لَایَسْتَاخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَایَسْتَقْدِمُوْنَ،ان واضح ارشادات کودھیان میں رکھئے اورکارگہہ حیات پر نظرکیجئے ،ہرچیزلگے بندھے وقت کے مطابق پیداہوتی اوروقت مقررہ پرفناہوجاتی ہے،ملائک سے لے کرخلائق تک،جمادات سے لے کرنباتات تک کیاچیزہے جس کودوام اوراستمرارحاصل ہو؟ روئے زمین پر بلکہ آسمان کے نیچے رہنے،بسنے اورپیداہونے والی ہرچیزپر توفنائیت طاری ہونی ہے گویاجب جس چیزکاوقت پوراہ وجاتاہے،جب مستعار ساعتیں پوری ہوجاتی ہیں،جب کسی چیزکی ضرورت کی تکمیل ہوجاتی ہے توپھر فنائیت طاری ہوجاتی ہے۔
مشیت ایزدی:
اسلام کی تکمیل شارع اسلام کے عہدمیمون میں ہوئی اورآیت کریمہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناًنازل ہوئی توایمانی فراست سے مالامال اصحاب رسول ﷺ سمجھ گئے کہ اب سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کاگویاوقت آچکاہے۔اس لئے اس دنیامیں بسنے والی کسی ذات ، کسی شخصیت اورکسی ہستی کیلئے ایسے الفاظ کااستعمال یقیناغلط ہے جواصول الٰہی سے مزاحم ومتصادم ہوں مثلاً یہ کہناکہ ’’فلاں صاحب ایسے وقت میں پردہ فرماگئے جب ان کی سخت ضرورت تھی‘‘یایہ لکھناکہ’’ موت کے بے رحم پنجوں نے آپ کی روح قبض کرلی‘‘، یایہ لکھناکہ’’ اب فلاں صاحب کے خلاکاپُرہوناناممکن ہے ‘‘اپنی عقیدت ومحبت کا اظہارکرنے کیلئے اس قسم کے دوسرے جملوں اورتعبیرات کاسہارا لیناشرعاًاورعقیدۃً غلط ہے کیونکہ کب کس چیزکی ضرورت ہے،کس کوکب جانااورمرناہے،کب کس کاوقت پورااورضرورت ختم ہوئی ان تمام باتوں کاعلم صرف اورصرف احکم الحاکمین کوہے جس کے آگے داناؤں کی دانائی،حکماء کی حکمت اوردانشوروں کی دانش مندی سب ہیچ ہے،یہ اسلام کی تعلیمات میں سے ہے کہ انسان کو ہرحال میں اللہ کی رضاکوپیش نظررکھناہے۔
ان سچائیوں اورصداقتوں کے بعدیہ بھی ایک فطری عمل ہے کہ انسان اپنی کسی متاع گرانمایہ کے زیاں پراپنی حرماں نصیبی کااظہارواعتراف کرے اورایسی متاع کے کھوجانے سے قلب ودماغ کی بے چینی وبے قراری ہرفردبشر کی مجبوری بن جاتی ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح حضرت ابراہیمؓ کے وصال پرسرورکائنات کی چشمان مبارک آنسوؤں سے ترہوگئیں تھیں اوردرد کے ساتھ فرمایاتھاکہ ان العین تدمع والقلب یحزن ولانقول الاما یرضی ربنا وانا بفراقک یاابراہیم لمحزونونآنکھیں رورہی ہیں ،دل پریشان ہے اورہم وہ باتیں کریںگے جن سے اللہ راضی ہو اے ابراہیم!تیری فرقت سے ہم غمزدہ ہیں۔
غروب آفتاب:
ایسی ہی ایک عظیم ہستی آج ہمارے درمیان سے اٹھ گئی ہے جس کے گھنے سایہ میں بیٹھنااورجن کی مجلسوں میں شرکت کرناطلبہ وعلماء اپنے لئے باعث افتخارتصورکرتے تھے،جن کے اسباق کی مقبولیت، تقریرکی لذت، حضوراکرم ﷺ سے عشق ومحبت،اپنے اساتذہ واکابرسے تعلق وعقیدت، گفتگوکی حلاوت، تلقین وہدایت اوراصلاح کے ہمہ جہت پہلوؤں کوبھلادیناناممکن ہے۔میری مرادہے شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدحسین احمدمدنیؒ کے شاگردرشید،فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کے خلیفۂ اجل، مظاہرعلوم (وقف) سہارنپور کے شیخ الحدیث اورنامورشارح بخاری حضرت مولاناعلامہ محمدعثمان غنی قاسمی ؒجوطویل علالت کے بعد سہارنپورکے’’ سکشم‘‘ہوسپٹل میں ۱۳؍جنوری ۲۰۱۱ء کی رات تقریباً ساڑھے تین بجے انتقال فرماگئے۔اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔
ابتدائی حالات:
حضرت مولانا علامہ محمد عثمان غنی ؒکے والدماجدکانام مولوی محمدعبداللہ(متوفی ۱۹۷۱ئ) تھا،علامہ صاحبؒ اپنے وطن چلمل بیگوسرائے (جواس وقت مونگیر(بہار) کاایک حصہ تھالیکن ۱۹۷۵ء میں باقاعدہ ضلع بن گیا) میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم علاقے کے بعض مدارس میں حاصل کرکے بنگلہ دیش چلے گئے جہاں آپ کے والد بزرگوار کاروباری سلسلے میں مقیم تھے ،بنگلہ دیش میں آپ نے تعلیم بھی حاصل کی اوروالد صاحب کے کاروبار میں ہاتھ بھی بٹایا۔
تعلیم کاشوق:
حصول تعلیم کاشوق آپ کوبچپن ہی سے تھالیکن گھریلومعاشی مجبوریاں آپ کی اس تمنا کوپوراکرنے میں حارج تھیں،والدصاحب کاکاروباربھی اس معیارکانہیں تھاکہ اپنے صاحب زادے کی قلبی تمناپوری کرسکتے۔
تعلیم کیلئے بیوی کازیورفروخت کردیا:
اُسی دوران آپ کی شادی بھی کردی گئی،آپ کی وفاشعاربیوی نے اپنے شوہرنامدارکی علمی لگن اورتڑپ کومحسوس کیاتواپنازیورفروخت کردیااوراس رقم سے آپ کوحصول تعلیم کے لئے دیوبندبھیجا۔
دارالعلوم دیوبندمیںداخلہ:
۱۹۴۶ء میں آپ اپنے نوساتھیوں کے ساتھ دارالعلوم دیوبندپہنچے، حضرت مولانا حبیب اللہ صاحبؒ نے امتحان داخلہ لیا، اپنے تمام ساتھیوں میں صرف آپ کامیاب ہوئے ۔
ام المدارس دارالعلوم دیوبند میں پانچ سال تک تعلیم حاصل کرکے ۱۹۵۰ء میں فارغ ہوئے۔
دارالعلوم دیوبندکے چندجلیل القدرعلماء جن کے سامنے حضرت ؒنے زانوے تلمذتہہ کیااوردرس نظامی کی اہم کتابیں پڑھیں۔
شیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنیؒ
بخاری شریف ۔ترمذی اول
شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی ؒ
ترمذی ثانی،ابوداؤد،شمائل،ہدایہ ثالث
حضرت علامہ محمدابراہیم بلیاویؒ
مسلم شریف، ہدایہ رابع
حضرت مولانا عبدالجلیل ؒ
میبذی اورمیر قطبی
حضرت مولانا عبد الخالق ؒ
مشکوۃ ،حسامی ،توضیح وتلویح
سندحدیث:
میں نے پوچھاکہ آپ کی سندحدیث کیاہے؟فرمایاکہ نصرالباری کی پہلی جلدمیں لکھی ہوئی ہے ،اس موقع پرمناسب سمجھتاہوں کہ نصرالباری سے آپؒکی سندحدیث نقل کردوں تاکہ حضرتؒکے جملہ شاگردوں کیلئے اپنی سندکاحصول آسان ہوجائے۔
’’قال العبدالضعیف محمدعثمان غنی بن مولوی عبداللہ الصدیقی حدثناشیخ الاسلام السیدحسین احمدالمدنی،قال حدثناشیخ الہندمحمودحسن الدیوبندی عن شیخہ الحجۃ العارف محمدقاسم النانوتوی وعن شیخہ المحدث الفقیہ الشیخ رشیداحمدالکنکوہی کلاہماعن المحدث الشیخ عبدالغنی المجددی الدھلوی وعن الشیخ احمدعلی السہارنفوری وعن الشیخ محمد مظہرالنانوتوی وعن الشیخ القاری عبدالرحمن الفافیفتی وہولاء الاربع عن الشیخ المحدث محمداسحق الدہلوی عن جدہ لامہ المحدث الحجۃ الشاہ عبدالعزیزالدہلوی عن والدہ الامام الشاہ ولی اللہ الدہلوی واسانیدہ الی اصحاب السنن مذکورۃ فی رسالتہ’’الارشادالی مہمات علم الاسناد
(جاری)
Last edited by a moderator: