حضرت الاستاذکی کچھ یادیں

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت الاستاذکی کچھ یادیںسینہ کی چھپی باتیں
مولانامحمد ارشادمدرسہ ریاض العلوم پوسٹ گورینی کھیتا سرائے جون پور​
عاجز کے ان اساتذہ کرام کا جن کی دامن تعلیم تربیت سے ابتداًوابستہ رہا اورجن کا معتدبہ اثر زندگی پڑا ہے ان میں صاحب تذکرہ حضرت مولانا اطہر حسین نوراللہ مرقدہ وبردمصجعہ سرفہرست ہیں۔
مدرسہ خلیلیہ شاخ مظاہر علوم کورٹ روڈمیں قریب ۷۳۸۳سال کے قبل جن دنوں وتدریسی خدمات پر مامور تھے شرف تلمذ حاصل رہاہے ۔
]حضرت الاستاذاپنے عہدے کے بڑے ہی جامع ترین شخصیت میں تھے جس پرعلمی ،درسی دنیا کو ناز ہی۔ جن کے ہزارہزار تلامذہ ہند وبرون ہندمیں پھیلے ہوئے ہیں۔وہ بیک وقت تمام علوم وفنون نحو،صرف لغت خصوصاً ادبی عربی میں فائق اور ممتاز زمانہ تھی،حضرت الاستاذ کو علم ظاہر کے ساتھ علم باطن معرفت وطریقت میں بھی درک تام تھا،جس طرح ظاہری علوم میں ید مولی رکھتے تھے ۔وہ علوم باطنی میں بھی مشائخ کبار کے مرتبہ پر فائز تھی۔گو لوگوں میں اس کا شہرہ نہیں تھا،چونکہ مزاج میں مد درجہ اخفا کا غلبہ تھا۔وہ صرف شیخ الادب ہی کیئے جانے کے لائق نہیں بلکہ شیخ العارفین والسالکین کے مصداق اتم تھی۔
حقیقت وطریقت سے وہ ایسے آشنا تھے جیسے علومکسبی کی۔
وہ اوصاف جمیلہ کے حامل زہد وتقویٰ کے پیکر ،علوم کسبی سے زاید علوم وہبی کے حامل تھی،بحر معرفت کے پینے والے مگر ڈکار نہیں ،سلوک ومعرفت میں مقام جذب پر تھی۔
درس کے علاوہ زبان ذکرتلاوت سے معمور ،تلاوت قرآن کاوالہانہ جذبہ کہ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے زبان تلاوت سے رطب اللسان،قلت اختلاط مع الانام کے ساتھ نہایت ہی قلیل الکلام ،کم گو،خاموش ،غوطہ بحرمعرفت میں محو جبرت،جوبولیں تو معارف دقائق کے دریا بہادیں،خاموش رہیں،تو گردن جھکاکہ تصویرحاناںمیں محو،رعب وقار کا یہ حال کہ برسوں پڑھنے والوں ہمہ وقت کے مصاحب وہم نشیں کو گفتگوکی ہمت نہ ہو،نصرت بالرعب مسیرشہرکے مصداق زمانہ حسن باطن کیساتھ حسن ظاہر میں بھی دوبالا،کتابی ذرالمیا بہ لئے چہرہ آنکھوں میں ولایت وخشیت الٰہی عشق جذب کاخمارسکرمستی معرفت کا ترجمان ،جلال وچشم سے پر کسکی جمال کے آنکھوں سے آنکھ کوئی ملائے ،زبان سے درس ،قلب سے معرفت کی بوچھار،ظاہر کی شیرن کے ساتھ باطن کی حلاوت ؎
ایسا جامع و کامل شخص جس پر کمال خود شیدا
بھلا ایسی نرالی ذات ،جس کی ایک نگاہ،جس کی ایک گفتگوجس کا ایک درس قابل فخر رشک جس پر اہل عقیدت کوناز،اس آفناء روشن پر کوئی لب کشائی کری۔اور صفحہ قرطاس پر لائی،ایسے جیسے ؎
سورج کو دکھاوے چراغ سی
’’مگر خوشہ چیں وابستہ دامن ‘‘گرفتہ قدم کو حق ہے کہ اس کی یاد سے سعادت حاصل کری،’’رفتید ولکن ما ازدلِ ما‘‘سینہ کی باتوں سے دلی مضطر تسکیں دے اور یاد ماضی سے اپنے رنجیدہدل کو مطمئن کرے۔
رات کی یادوں سے سکون آتا ہے مجھی
یہ عاجز ناکارہ بدنام زمانہ اپنی بیماریوں اور ملازمتی معرفتیوںاور جب فرصت کچھ کھلنے کے شغل سے اں فرصت کہ کوئی کام کرسکی۔پھربڑوں پربڑوں کا کلام تو حق منجانب کسی چھوٹے بے بضاعت کاکچھ کلام وتبصرہشرمندگی کا باعث ؎
ناہم ان کی یادوں میں ہے غذا مرے دل کی
ماضی کی یاد یںجواس عہد کی صفحہ سینہ دل میں مصور ومنقش میں ان کا ذکر باعث سعادت سمجھتے ہوئے چند سطور حلقہ احباب جوپیش خدمت ہی۔
شرف تلمذ
حضرت الاستاذ آج سے قریب ۷۳ـ۸۳سال قبل جب مدرسہ خلیلہ کورٹ روڈشاخ مظاہرعلوم میں ابتدائی عربی درجات کی تدریسی خدمات سے تعلق تھی۔
جو اس وقت حضرت مولانا استاذی جمیل الرحمن صاحب سہارنپور ی نور اللہ مرقدہ کی نظامت سے وابستہ تھا ۔مفیدالطالبین ،نفحۃالعرب،مراح الارواح ،وغیرہ کے پڑھنے کاشرف ملا۔
یہ مدرسہ شاخ مرکزمظاہر علوم سے کافی فاصلہ پرہے ،حضرت الاستاذ کامکان مظاہرعلوم کے قریب تھا یہ طویل فاصلہ گرمی ،سردی،برسات میں طے کرکے تشریف لاتے تھے ۔
موسم گرماںمیںظہر کے بعد دوپہر کی شدید چلچلاتی گرمی میں مرکز سے شاخ کی طویل مسافت طے کرتے سر پر ایک کپڑا ہوتا آکر سیدھے درسگاہ میں تشریف فرماتے ۔پانی کا اشارہ کرتے ایک صاف شفاف بلوری گلاس میں ہیڈ پائپ کا پانی استعمال کیا جاتا۔
کیفیت درس
عاجز کوعربی درجوں کی کتابوں شاگرد کا موقع مل،شاخ خلیلہ میں اس زمانہ میں تعلیم ہوتی تھی پھر بعد میں اس درجہ کی تعلیم بھی مرکز مظاہر علوم میںمنتقل ہوگئی۔چنانچہ عاجز کو درجہ کافیہ کی تعلیم کا شرف مرکز مظاہرمیںحاصل ہوا۔
حضرت الاستاذکو ابتدائی درس ،بڑاہی بہتر تجربہ تھا،لمبی چوڑی تقریر،اعتراض جواب کا حشو نہ ہونا۔اہل بصیرت پریہ بات مخفی نہیں کہ فن کا ماہر اگر فنی کتاب کا ترجمہ بھی کرادے تو وہ غیر ماہر کی تطویل سے بدرجہابہتر ہوتاہی۔اس لئے عہد ماضی میں اس امر کاخیال کیا جاتا تھاکہ فن کے لگاؤاورذوق رکھنے والوں کو ہی اس فن سے متعلق کتابیںدی جاتی تھیں۔اب یہ ذہن نہیں ،جس کا نتیجہ فن کے فقدان صلاحیت کی شکل میں نمایا ہورہا ہی۔ حضرت الاستاذ کو ادب عربی سے بڑی مناسبت تھی ،جس کا بیان آگے آرہا ہی۔
اسی ذوق کی رعایت کرتے ہوئے ادب عربی کی کتابیں زیر درس رہتی تھیں ،جس میں اس عہد کی کتابوں میںمفید الطالبین ،نفحۃالیمن وغیرہ تھیں۔حضرت الاستاذ کا درس اولاً عبارت کے بعد تحت اللفظ ترجمہ پھر لغوی صرفی تحقیق ،ترکیبی اشارات پر مختصر بیان ہوتا۔
سبق میں خارجی امورسے بالکلیہ گریز ہوتا،ضمناً ومنابستاً کچھ بیان نہ کرتے اسی وجہ سے نصاب کی تکمیل میں ان کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی،جس طرح ابتداء میں درس کی کیفیت ہوتی وہی طرز آخر سال تک باقی رہتا ،دور حاضر میں طرز تدریس کی مختلف خامیوں میں ایک اہم خامی یہ بھی ہے ،سبق عموماً خارجی باتوں سے اور سفری احوال سے اور سیاسی تبصروں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے نصاب کی تکمیل نہیں ہوپاتی،پھرنصاب پر انگلی اٹھائی جاتی،،جو سراسر بصیرت کے خلاف ہی۔کیفیت درس کی اصلاح ہونی چاہئے نہ کہ نصاب اور مقدار نصاب کی۔
حضرت الاستاذ کی عبارت کی تصحیح پر بڑی نظر رہتی،مجال نہیں کہ غلط عبارت پڑھ کر کوئی گذرجائی،جہاں کوئی جملہ نحو،صرف کے خلاف ہوتا ’’ہوں‘‘کی آوازآتی پڑھنے والا سہم جاتا ،اعراب مع الوجہ کا استحضار ہوجاتا اور عبارت کی تصحیح ہوجاتی ،خود جلدعبارت نہ بتاتے بلکہ طلباء ہی سے اس کی تصحیح کراتے غلطی پر نہ طعنہ دیتے اور نہ زجر تو بیخ فرماتے ،رعب اور وقاردبدبہ ایسا تھا کہ کیوں اور ہوں اور پرتش پرپسینہ اترجاتا ۔نہ مارنے اور سزادینے کی عادت تھی ،جیساکہ بعض اساتذہ کا مزاج زدکوب ،ماردھاڑ،ا ٹھابیٹھک کا ہوتاہے ،حضرت الاستاذ کا مزاج ایسا نہ تھا،البتہ بہت سے بہت مسلسل یاشدید غلطی پر کان حسب اکابر پکڑ لیا کرتے تھی،بچوںکے مواخذہ میں یہ امر مسنون ہی۔
آمد ورفت کا یومیہ مجاہدہ
مرکزمظاہرسے خلیلہ شاخ کافی فاصلے پر ہے ۔موسم گرما اور موسم بارش میں یہ فاصلہ صعب ترین ہوجاتا ہی۔گرمی شدت ،بارش کی زحمت میں بھی حضرت الاستاذ وقت پر تشریف آتے تھے جویقیناایک نفس کش مجاہدہ تھا۔
وقت کی پابندی
حضرت الاستاذوقت کے بے انتہاء پابند تھی،صرف اعذار شدیدہ میں رخصت پڑھتی،مزید یہ کہ تاخیر سے بھی کبھی تشریف نہیں لاتی،اسی وجہ سے اگر تھوڑی دیر ہوجاتی تو سمجھا جاتا کہ آج رخصت پر ہیں ۔
تلاوت
حضرت الاستاذ کوحفظ قرآن بڑا اچھا تھا،اور تلاوت کلام سے والہانہ تعلق تھا،کثرت وہمہ وقت تلاوت میں وہ عہد ماضی کے یادگارتھی،تلاوت کے حریص وعاشق ایسا میری آنکھوںنے نہیں دیکھا ۔ان کے ہونٹ تلاوت سے متحرک ،زبان تلاوت سے رطب اللسان ، راستہ چلنے تلاوت کے عادی تھی۔ہم لوگوں کے درمیان یہ بات مشہورورائج تھی کہ گھر سے مدرسہ خلیلیہ شاخ راستہ میں آتے جاتے ایک ختم قرآن پاک کرلیا کرتے تھی،خدا کے کلام سے ایسا والہانہ شغف زبانی تلاوت کا ایسا ماہراہل خانہ کے لئے قابل رشک جو لاکھوںمیں شاید کسی کونصیب ،چونکہ حضرت الاستاذنام ونمودشہرت بالکلیہ دورتھی،ان امورکا ذکر اپنی زبان سے تذکرۃًبھی کیا کرتے تھے مگر اہل بصیرت کوان امورکی معرفت ہوجاتی تھی۔
’’مرد حقانی کا نور،کب چھیا رہتا ہے پیش ذی شعور‘‘
معرفت سلوک
حضرت الاستاذ ابتدائی زمانہ میں جبکہ وہ مدرسہ خلیلیہ شاخ میں خدمت تدریس پر مامور تھی،عاجز کے علم اور ان کے اشارے کے مطابق کسی سے بیعت کا شرف نہیںرکھتے تھے ،نہ ہم جیسے ان طلباء کے سامنے جو حضرت والا سے متعلق تھی،اوراپنی بعض باتیں ازراہ محبت بیان کردیا کرتے تھی،ظاہر نہیں کیا،تاہم یہ بات اہل تعلق اور مصاحبین پر ڈھکی چھپی نہیں تھی،کہ ان کا ذوق ان کا مزاج ان کی خلقی طبیعت حضرت اقدس تھانوی قدس سرہ سے مناسبت رکھتی تھی ۔قریبی اور موجوددور کے اکابر ین میں انہیں سے غایت درجہ عقیدت ومحبت کی بات سنتا تھا۔بارہاحضرت تھانوی نوراللہ مرقدہ کاوالہانہ تذکرہ غائبانہ تعلق والیکی زبان سے سنتاتھا۔انہیں کی کتابوں کا اورملفوظات کے مطالعہ کا مشورہ دیا کرتے تھی۔
عاجز کو ذوق تھانوی انہیں کی برکت سے حاصل ہوئی،’’الناس علی دین ملوکہم‘‘ انہیں کے محض صحبت کا اثر ہوا کہ حضرت تھانوی ؒکی بہتر کتابیں زیر مطالعہ رہتی تھیں ۔
اے باکپن یہ دولت از گفتار خیزد
خود حضرت موصوف کے اصول وضوابط،طرز معاشرت وحیات رفتار گفتار ،خلوت وحلوت میں ذوق تھانوی اوران کااصول نمایاںتھا،حضرت الاستاذ ہی کی برکت صحبت کیمیاسے اس عاجزکومشرب تھانوی ادیسیہ نسبت حاصل ہی،گوانہوں نے حضرت اقدس تھانوی کی صحبت اور مجالسیت نہیں پائی تھی مگردیکھنے والا صاف یہ محسوس کرتا کہ ان کے حلقہ آداب اور فیض یافتہ ہی ہیں۔اسی قلبی مناسبت کی وجہ سے کبھی انہوں نے یہ ظاہر کرتے ہوئے کہا تھاکہ اگر یہی ان کو پاتا توان سے ہی بیعت کا تعلق ہوتا،پھر بھی وہ ظاہراً بیعت نہ تھی،مگر وہ ظاہراً بیعت ہونے والے سے بہتراحوال پرفائزتھی،اورنسبت تھانوی کے اوج کمال پر پہونچے ہوئے تھی۔اورکسی خلیفہ سے حقیقۃًکم مقام نہیں رکھتے تھی۔اوربیعت کا مقصود نسبت اورمعرفت ان کوبدرجہ اتم حاصل ہی۔ طریقت ومعرفت کیامور سے وہبی اورجذبی طور پرواقف تھی،تصوف کے مقاصد زہدوتقویٰ انائب الی اللہ ،نسبت مع اللہ،فکرمراقبہ،خشیت بکا،قلت کلام ،قلت اختلاط کی بیش بہا دولت سے وہ سرفرازتھی۔
طہارت ونظافت
حضرت الاستاذ نمازمیں خصوصاًطہارت کا بڑااہتمام فرمایا کرتے تھی۔وہ جس کپڑے میں عموماً رہا کرتے تھی،اسے بدل کر نمازپڑھاکرتے تھی۔پائجامہ کے عادی تھی۔دفتر کے احاطہ میں ایک جانب لنگی لٹکی رہتی تھی۔استنجاء اور وضوء سے فارغ ہونے کے بعدلنگی پہن لیتے تھی،پھرنمازپڑھتے تھی،نماز سے فارغ پائجامہ پہن لیاکرتے تھی۔تاکہ نماز کی ادائیگی میںطہارۃ ًکوئی شبہ باقی نہ رہ جائی۔ظاہر ہے پانچوں نمازمیں اس کا اہتمام کس قدر دنت وکلفت کی بات تھی۔مگر حضرت الاستاذ کے نزدیک اکمال نماز کے لئے معمولی بات تھی۔
مجلس اور مجلسیانہ گفتگوسے احتیاط
حضرت الاستاذ قلت اختلاط کے ساتھ قلت کلام سے بھی متصف تھی،حد درجہ کم گوتھی،بلاشدید ضرورت کے وہ بھی نہایت ہی مختصر کلام ان کی زبان سے نکلتا ،قلت کلام کا ایسا ملکہ بہت لوگوں کو نصیب،ظاہر ہے کہ جسے انابت،فکر ،ذکر جلوت وخلوت کا مقام حاصل ہو،اسے کہاں فرصت سے کلام گفتگو بے جاکی نوبت آئی۔پھر کمال عقل یہ ہے کہ آدمی مجلسی اور گفتگو بی آزادنہ ہو۔مشہور ہے ازداد العقل قبل الکلام ،چنانچہ ارباب کمال اقطاب وعارفین کا یہی طریقہ رہا ہی۔
پرلطف باتیں
#حضرت الاستاذ اولاً تو خاموش مزاج تھی۔باتیں بہت کم کیا کرتے تھی۔لیکن کبھی کبھی بات ایسی پر لطف کرتے کہ اہل مجلس محظوظ ہی ہمیشہ ہمیش رہتے ۔حضرت مفتی صاحب بڑے بھائی کے قریب بیٹھاکرتے تھی،اور احباب بھی تشریییف فرماتے تھے ،احباب کی گفتگو پر کوئی ایسا لطیفہ چھوڑدیتے تھی،یابعضوںکے کلام پر پر لطف نکتہ لگادیتے تھی، جس سے احباب ہنس دیتے تھی، مگر دوسروں کو تو ہنسا دیتے تھے مگرخود مسکراہٹ سے آگے نہیں پڑھتے تھے ،حتی کہ آپ کے اضحوکہ سے حضرت مفتی صاحب نوراللہ مرقدہ بھی ہنس دیا کردیتے تھی،باوجودیکہ حضرت کچھ لکھنے میں مشغول رہا کرتے تھی۔
بڑے بھائی سے حد درجہ محبت وغایت درجہ اکرام
چونکہ اس عاجز کا بھی قیام دفتر ہی میں تھا،مری آنکھوں نے تو کیا دنیا نے دوبھائیوں میں ایسی محبت غایت درجہ تعلق بے انتہاء عقیدت نہیں دیکھی ہوگی۔
حضرت الاستاذدرسی معروفیت اورنمازکی مشغولیت کے علاوہ تمام اوقات بڑے بھائی حضرت اقدس مفتی مظفر حسین کے پاس گذارتی۔حضرت مفتی صاحب اپنے امور میں مصروف رہتے ،کبھی انتظامی کام میں اورکبھی تالیفی امور میں،اور حضرت الاستاذ وہیںسامنے بیٹھے رہا کرتے تھی۔ایساجیسے کوئی خادم مخدوم کے سامنے کوئی غلام اپنے آقاء کے سامنے ۔اس عاجز نے اپنے قیام مظاہرکے زمانہ میں ا پنی مجلس کے علاوہ کہیں بیٹھے اٹھتے جاتے آتے نہیں دیکھا۔
اپنی مدت قیام کے زمانہ میں کبھی جامع مسجد یااورکوئی کسی بھی دوسری مسجد میں،اور نہ کسی مقام پر آپ کودیکھا۔مسجد دارجدید اورقدیم میں بھی کبھی نماز پڑھتے ہیں پایا۔تمام نمازیں اسی دفتر کی مسجد ہی میں اداکرتے اورفارغ ہوتے ہی حضرت مفتی صاحب کے قریب تشریف فرماہوجاتی۔
عموماً عوام تو کیا شرفامیں بھی دیکھاگیا ہے کہ بھائیوں میں بھی کچھ آپسی اور زندگی معاملات کی وجہ سے کچھ نہ کچھ نفرت نہیں تو عدم عقیدت اور بدگرمی پید اہوجاتی ہی۔اختلافی ذہن رونما ہوجاتا ہی،ربط میں قلت پید اہوجاتی ہی،مگر یہاںسوال ہی پیدا نہیںہوتا کہ عقیدت ومحبت کے درمیان کوئی تیسری چیز مائل ہو،وارثین علوم نبوت عارفین معرفت کی یہی شان ہوتی ہی۔
ادب عربی میں
حضرت الاستاذتوتمام علوم فنون مروجہ میں فائق اور یدطولیٰ رکھتے تھی،لغت صرف نحومیں بلند پایہ مقام حاصل تھامگرادب عربی میں مہارت تام مناسبت وافراہل زمانہ واحباب عصرمیں فائق وممتاز تھی،اس عاجز کا بھی ابتدائی زمانہ اورحضرت الاستاذو کا بھی ابتدائی تدریسی عصراس لئیاس سلسلہ میں عاجز کی معلومات کوتاہ اورناقص ہی۔یقینا اس پر اہل قلم کا بط سے تبصرہ ہوگا۔یہاں توابتدائی حاشی کاذکرہی۔
اسی عربی ادب عربی کی ذوق کی وجہ سے ابتدائی درجات کی کتابوں میںجو شاخ میںپڑھائی جاتی تھیں۔
مفید الطالین
نفحۃالیمن وغیرہ آپ ہی کے زیر درس رہتیں،بعد میںجب مظاہرعلوم منتقل ہوگئی تو درس نظامی کی مشہور رائج کتاب مقامات حریری زیر درس رہی،جس کا شہرۃدرس نام عروج پرپہنچ گیاہی۔ادب کربی ولغات میں آپ کاآفتاب نصف النہار پرآگیا ،علمی دنیا نے آپ کو شیخ الادب سے ملقب کیا۔ادب عربی کاذوق آپکا یہ وہبی تھا،قدرت نے آپ کے سینہ میں یہ سمندر کی طرح بہادیا تھا۔آپ لغات کے تعدد،اشتراک ،کثرت معانی صلاحیت ،واختلاف استعمال اصل عرف وغیرہ کا بے پایاں علم رکھتے تھی،اور فی اللہ بہہ عربی اشعار پر قادرتھے اور ادب عربی کے دقیق وغامض سیکڑوں اشعار ازبر تھی۔جس پر حضرت ناظم صاحب کے مرقدپر کتبہ بین شاہدہی۔
چونکہ اس بندہ کاتعلق ابتدائی دور سے رہا اس لئے اس سلسلے میں اس دور کے بعد کمالات وامتاز ات ادب عربی بیان نہیں کرسکتا ہی۔دوسرے اصحاب قلم کا اس پر یقیناتبصرہ ہوگا،اہل ذوق اس سے اپنی پیاس بجھاسکتے ہیں۔
عاجز کا حضرت الاستاذ سے محبت وتعلق
)حضرت الاستاذ بس درس کے علاوہ کسی بھی طالب علم سے کوئی تعلق خدمت وربط نہیں رکھتے تھی،بسااوقات تونام سے بھی واقف نہیںہوتے تھی،اورحد درجہ اختلاط سے اختیاط فرماتے تھی،اس لئے درس کے علاوہ شاذونادرہی کوئی آپ سے مربوط وتعلق ہوتا،گفتگو اور مجلس تو دورکی بات آپ سے مصافحہ بھی مشکل تھا،ہم طلباء کے درمیان آپ کا یہ پر لطف سوال مصافحہ کرنے پر ’’کیوں‘‘کیامصافحہ کرناضروری ہی،بسااوقات تو سلام کرنے پر بھی فرماتے کیوںسلام کیا؟کیا سلام واجب ہی،طلباء کیاکہتے کہ جواب دینا بھی احترام کے خلاف تصورکرتی،بلکہ اسے حضرت الاستاذ کے منفردات میں ڈال دیتی۔
حضرت الاستاذ کسی بھی طالب علم سے کوئی کام اورخدمت نہیںلیتے اورنہ کسی سے ہدیہ قبول فرماتی۔
استغنا کامل حاصل تھا
اگرکوئی طالب علم کچھ دیتا تو فرماتے کیوں دیا؟اورواپس فرمادیتے اگرکوئی جواب کسی بھی مسئلہ میں دیتاہوں تو اس پر سوال وجواب کا تسلسل چلتا،نتیجہ میں حضرت الاستاذکو فتح اور مخاطب کو سکوت اورشکست۔
مگر ’’مامن عامٍ الاّخاص‘‘سے کون واقف نہیں،اس قاعدہ سے اس وقت دوطالب علم مستثنیٰ تھی،ایک یہ عاجز عبد ضعیف ،دوسرے قاری اطیع اللہ صاحب ،جو بعد میں حضرت ناظم صاحب کے خلفاء میں ہوئے ،اس عاجز کو حضرت الاستاذ سے غایت درجہ والہانہ تعلق تھا۔اورعاجز کی جانب سے کسی چیز کا قبول کرلینا مسرت ہی نہیں حیات اور قلب کے مضطرکے سکون کا باعث تھا۔
چنانچہ اس عہد میں مدرسہ میں کبھی بریانی پکی تو پورا کھانا حضرت والا کے گھر ڈرتے خوف کرتے کہ کہیں ڈانٹ کر واپس کردیں،پیش کرتا،چنانچہ حضرت قبول فرمالیتے اور برتن واپس فرمادیتے توجان میں جان آجاتی ،حضرت الاستاذ کی عادت تھی کچھ نہ کچھ تالیفی کام کیا کرتے رہتے تھی،جومسودہ مرتب فرماتے توکبھی اس کی تبییض عاجز سے کراتے جس پر اس عاجز کو بڑی مسرت ہوتی،اس مسودہ کو صاف کرکے حضرت کی خدمت میں پیش کرتا،اس میں حضرت سے رجوع کرنے اوربولنے کا بھی موقعہ لتا جو عاجز کے لئے ایک خوش نصیبی کی بات تھی،
’’عاجز کا قیام بھی کچھ دنوں دفتر میں تھا ‘‘
سبق اورضروریات کے علاوہ اکثر عاجز دفتر ہی میں پڑارہتا تھا۔
حضرت الاستاذ بھی دفترمیں حضرت مفتی صاحب کے قریب بیٹھے اورپڑے رہا کرتے تھی،حضرت الاستاذ کے تمام مشاغل اورتمام معرفیت سامنے ہوتی،اسے یہ عاجز عاشق کی طرح دیکھتا رہتا،اوراپنیدل پر جماتا رہتا، جس کی چھاپ آج تک دل پرہی،اور لوگوں سے برتاؤاور معاملہ میں حضرت الاستاذ ہی کے مثل مزاج رکھتا ہی۔اورتالیف کاذوق حضرت الاستاذ کی ہی دین ہی،انہیں کی خدمت اورصحبت کی برکت ہی۔
حضرت الاستاذ کی ایک خواہش جو اس وقت پوری نہ ہوئی
حضرت والا جب شاخ میں تدریسی خدمات پر مامور تھی،بڑی مشقت غربت وپریشانی کی زندگی میں تھی،چونکہ حضرت الاستاذ کے مزاج میں صبروتحمل ،اخفاسنجید گی کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی۔اس لئے اپنی مشقت خیر باتوں کوکسی سے نہ بیان کرتے نہ حالات سے ظاہر ہونے دیتے اورکڑوی گھونٹ کوشراب طہور سمجھ کرپیتے رہتے لیکن بھلا ان لوگوں پر جو ولی محبت رکھتے ہیں بصیرت کی آنکھ رکھتے ہیں کہاں چھپی رو سکتی ہی۔
cحضرت کا جو ذون اورمزاج ادب عربی کا تھا،اورجس قدرمحنت اورجدوجہد سے اس علم فن پر حضرت نے امتیاز ی مقام پایاتھا۔ادب عربی میں جس کا بلند پایہ مقام آسمان کی بلندی کو چھورہا ہوں جسے لغات عرب میں عبور حاصل ہو کہ کلام کرنے تو سمندر بہادی، سینکڑوں اشعارادب عربی کے یاد ہوں ۔فی البدیع نشر ونظم پر قادر ہو،جس نے ادب لغات کاوسیع مطالعہ کیاہو۔بھلااسے مفید الطالبین نفحۃ الیمن سے سیرابی اور اس کے علمی ادبی ذوق کو تسکین ہوگی۔اسکی نگاہ توارج بلندی پر ہوگی ،اس کی منزل تو آسمان ادب ہوگی ،تمنا اورخواہش تھی کہ اس عہد کی ادب عربی کی آخری اور معیاری کتاب مقامات حریری مل جائی۔
حضرت الاستاذ نے اس کا اظہار بھی کیا،
ما کل مایتمنیالمرئیدرکہ
یہ خواہش وتمنا پوری نہ ہوئی، جس کااثر اس وقت حضرت کے قلب پر تھا،اورہم جیسے اہل محبت پر کبھی اشارہ اظہار بھی فرمایا کرتے تھی، پھرجب آپ مظاہر علوم منتقل ہوگئے توکچھ عرصہ کے بعد آپ کی یہ تمنا پوری ہوئی،تمنا وطلب تھی اس وقت تو دیا نہیں گیا،اور اب جب کہ محنت اورقوت کازمانہ ختم ہوگیا ،محنت وریاضت کی صلاحیت جاتی رہی ذوق شوق کاکافورہوگیا تب ہی کتاب ملی۔
پھر بھی اس قلت اشتیاق کے زمانہ میں درس دیا دبی چنگاری شعلہ بن گئی اور ٹمٹماتا چراغ آفتاب نصف النہاربن گیا،اور علمی دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔اور طلباء نے اس کتاب کے شرف تلمذ کو باعث فخر محسوس کرتے گئی۔
حضرت الاستاذ کوادبی ذوق وہبی تھا،کسب سے زیادہ اس میں وہب کودخل تھاجس پرآپ کاوہ کتبہ شاہدہے ،جو آپ نے حضرت ناظم مولانااسعد اللہ صاحب ؒکے مرقدمبارک پر لگا ہوا ہی۔بے مثل ادب عربی کا شاہ کار نمونہ ہی، ایسے بلیغ وفصیح کلمات میں جسے پڑھنے والا محوحیرت ہوجاتاہی،اسی طرح دیگر کے لئے اور کلام منظوم آپ کے کمال ذوق انتہاء مرتبہ کی غمازی کرتے ہیں۔
مہا منہا علیہا مشاہدا
چونکہ یہ عاجز ابتدائی دور کے علاوہ کی زندگی سے ناواقف ہے بعدکی صحت سے محروم اس لئے اس دور کے بعد کے کمالات اور بلند پایہ خدمات وصفات سے نا عالم ہونے کی وجہ سے بیان کرنے سے قاصر ہی۔ہم جیسے ناکارہ کا حضرت الاستاذپر لکھنا تعارف آفتاب از چراغ کے مانند ہے ،یہ تو حضرت صاحبزادۂ مولانا محمد سعیدی دامت برکاتہم کا اصرار ہوا جس کی وجہ سے پریشان کن ہماری اوروقتی مصروفیات کے باوجود چند سطورلکھنے کی ہمت ہوگی،جو دراصل ان کی ہی خلوص کا ثمرہ ہی۔دعاء ہے وحدہ لاشریک ،حضرت الاستاذ کے فیض ظاہری وباطنی حسی اور معنوی کوتاقیامت ترقی کے ساتھ باقی رکھے اور ان کے فیض سے عوام وخواص کو مستفیض فرمائی۔اور کروٹ کروٹ انہیں جنت میں مقربات عالیہ میں بلند بالا درجات سے نوازی۔
اور ہم سب کی جانب سے ان کو خدائے پاک پامال اجر خیر ممنون سے سرفراز فرمائے ۔آمین
 
Last edited by a moderator:

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
احقر نے حضرت مولانامحمد ارشاد صاحب قاسمی بھاگلپوری رحمۃ اللہ علیہ سےمدرسہ ریاض العلوم پوسٹ گورینی کھیتا سرائے جون پور میں عربی سوم سے عربی پنجم تک کتابیں پڑھی ہیں۔بڑی باغ وبہار طبیعت کے مالک تھے۔کیا خوب آدمی تھے خدا مغفرت کرے۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
اگرآپ نے حضرت مولانامحمدارشادقاسمی بھاگلپوری علیہ الرحمۃ والرضوان سے اتنی کتابیں پڑھی ہیں توکم ازکم تحریری طورپران صفحات میں مولاناکی سیرت اورشخصیت سے روشناس فرمائیں کیونکہ عندذکرالصلحین تنزل الرحمۃ ،تواٹھائیں قلم اورلکھ دیں اورمقالہ حضرت مولانامحمدارشادکی شخصیت پر۔امیدکہ میری درخواست صدابصحراثابت نہ ہوگی۔
 
Top