استاذالاساتذہ،حضرت مولانا محمد حسین ملا بہاری رحمۃ اللہ علیہ1323

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
استاذ الاساتذہ
حضرت مولانا محمد حسین ملا بہاری رحمۃ اللہ علیہ1323ھ/1905ء------1412ھ،/1992ء

اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
ا اس کی ادا دلفریب، اس کی نگہ دل نواز​

ولادت اور تعلیم
مولانا محمد حسین بہاری، ضلع مظفر پور بہار (حال سیتامڑھی )کے ایک دور افتادہ گاؤں "شیخ بسیھا" میں ،13/شوال۱۳۲۳ھ بمطابق ۱۳/ نومبر۱۹۰۵ کو ایک مفلوک الحال خاندان میں پیدا ہوئے ۔معمولی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں ہی میں اپنے برادر بزرگ ابوبکر صاحب سے حاصل کی، اس کے بعد وہ کئی ایک مدرسوںمیں زیر تعلیم رہے ،جن میں سرفہرست دارالعلوم مؤنا تھ بھنجن ہے، جہاں انہوں نے شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ ( متوفی ۱۳۳۹ھ مطابق 1921ء) کے ایک ہونہار ترین اور مشہور صاحب درس شاگرد مولانا کریم بخش سنبھلیؒ (متوفی۱۳۶۲ھ مطابق ۱۹۴۴ء) سے استفادہ کی سعادت حاصل کی اور ان سے مروجہ علوم و فنون کی متعدد کتابیں پڑھیں ۔ مولانا کریم بکژ سنبھلیؒ محدث کبیر مولانا حبیب الرحمن 14 اعظمی( متوفی ۱۱/رمضان المبارک ۱۴۱۲ھ بمطابق ۱۷ / مارچ ۱۹۹۲ عیسوی ) اور مشہور اسلامی اہل قلم وداعی الی اللہ مولانا محمد منظور نعمانی مدظلہم کے بھی مربی اور استاذ تھے۔

مولانا بہاری ؒنے کئی سال مظاہر علوم سہارنپور میں بھی گزارے، وہاں انہوں نے موقوف علیہ تک پڑھنے کے بعد ۱۳/ شوال ۱۳۴۵ھ مطابق ۱۶/ اپریل ۱۹۲۳ عیسوی کو دارالعلوم دیوبند میں دورہ حدیث شریف میں داخلہ لیا اور دوسرے سال یعنی ۱۳۴۶ ھ مطابق ۱۹۲۸ء میں دارالعلوم سے فارغ ہوئے ک۔ حدیث پاک کی اکثر کتابیں شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی (متوفی ۱۳۷۷ھ مطابق ۱۹۹۷ء)سےپڑھیں۔وہ حضرت مدنی ؒ سے دورہ ٔحدیث مکمل کرنے والی پہلی کھیپ کے فضلا

میں تھے، اس لئے کہ مولانا مدنی کا دارالعلوم میں تقرر و ر ۱۳۴۶ھ میں ہوا ۔جب علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ ( متوفی ۱۳۵۲ھ مطابق ۱۹۳۳ء) دارالعلوم سے مستعفی ہوگئے تھے ۔ دارالعلوم روم میں مولانا بہاری کے دیگر قابل ذکر اساتذہ میں علامہ محمد ابراہیم بلیاوی (متوفی ۱۳۸۷ھ مطابق c۱۹۶۷ء) اور شیخ الادب والفقہ مولانا محمد اعزاز علی امروہی( متوفی ۱۳۷۴ھ مطابق ۱۹۵۴۴ء) تھے۔دارالعلوم کے صدر مدرس مولانا فخر الحسن صاحب مرا دا آباد( متوفی ۱۴۰۰ھ مطابق ۱۹۸۰ء) اور مدرسہ عالیہ فتحپوری دہلی کے سابق صدر مدرس وشیخ ا لحدیث مولانا قاضی سجاد حسین ؒ ( متوفی ۱۴۱۰ھ مطابق ۱۹۹۰ء) دارالعلوم میں مولانا رفقائے درس میں تھے۔

درس وافادہ
دارالعلوم سے فراغت کے بعد انہوں نے متعدد مدرسوں میں درس و تدریس کی خدمات انجام دیں، ایک عرصے تک رندھیر ( گجرات )کے مدرسے سے وابستہ رہے، وہاں سے واپس آئے تو سہارنپور کے شاہ بہلول کے مدرسہ میں صدر مدرس ہو گیے، کچھ عرصہ بعد پھاٹک حبش خان (دہلی ) کے مدرسہ صدیقیہ والوں نے انھیں با اصرار اپنے وہاں بلو الیا ۔ (۱۹۴۷ء میں آزادی ہند کے پُر آشوب وخوں ریز موقع پر وہ اسی مدرسہ میں موجود تھے اور دہلی اور اس کے اطراف میں خصوصا اور پورے ہندوستان میں عموما اس وقت م بپا ہو نے والے ہمہ گیر ودل دوز ہندو مسلم فسادات میں کسی نہ کسی طرح جان بچا کر وہ اپنے وطن مالوف"شیخ بسہیا" ضلع مظفر پور ( حال ضلع سیتا مڑھی)بہار آگیے۔ اس موقع پر ان کے ذہن میں خدا نے ایک مبارک خیال یہ ڈالا کہ اپنے گا ؤں میں مسلمان بچوں بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک تعلیم گاہ قائم کریں ،کہ اس علاقے کے مسلمان اقتصادی و تعلیمی اعتبار سے بطور خاص پسماندہ ہےیں ۔ چنا نچہ انہوں نے اپنے استاد ومربی مولانا مدنی ؒکے دست مبارک "مدرسہ مدنیہ" کے نام سے ۱۹۴۸ء میں اس تعلیم گاہ کا آغاز کیا ۔مولانا کے فرزندوں میں سے معلوم ہوا کہ مذکورہ مدرسہ ہنوزکسی نہ کسی صورت میںباقی ہے اور علاقے کے نونہالان توحید کوروشنی علم و ہنر سے مستفید ہونے میں مدد درہا ہے ۔

،مولانا کے شاگردوں کو ان سے جو محبت و عقیدت تھی وہ گنے چنے اساتذہ ہی کے ساتھ ہوا کرتی ہے ،جن کی نفع بخشی وفیض رسانی کی مخلصانہ کوشش وصلاحیت کی محسوس برکتیں وادنی فہم کے طالب علم کو بھی متاثر کئے بغیر نہیں رہتیں۔ مولانا کے باکمال تلامذہ کو ان کی شاگردی پرجس فخر واعزازکا اظہار کرتے دیکھا ہے ،وہ دارالعلوم کے اساتذہ ٔ سلف ہی کا خاصہ ہوا کرتا تھا ۔
مروجہ علوم و فنون سے ہمہ گیر مناسبت کی سب سے واضح دلیل یہ ہے کہ انہوں نے دارالعلوم دیوبند ایسی عظیم درسگاہ میں اس کی درسیات کی اکثر کتابوں اور فنون کو لیاقت اعتماد اور قابل ذکر خوش اسلوبی کے ساتھ تقریبا ساڑھے چار دہائیوں تک پپڑھایا۔
مولا نا دارالعلوم کے اُن چند ہما نصیب اساتذہ ٔ کرامی قدر میں تھے، جنہوں نے وہاں کی درسیات کی اتنی ساری کتاب، اس وقار سے پڑھائیں کہ دارالعلوم کے انتظامیہ اور ان کے شب بیدار وخوش اقارب با ذوق طلبہ کے دل ودماغ میں ، ان کے لیے اعتقاد اور محبت کا جذبہ بے پناہ پیدا ہو گیا تھا۔ وفات والے دن عصر کے بعد احاطۂ مولسری میں ان کی نماز جنازہ میں اور ممقبرہ قاسمیہ ی تک مشایعت اور سپرد خاک کرنے کے موقع پر مجو اشک افزا بھیڑ میں نے دیکھی ، وہ فضلائے دارالعلوم اور ان کے تلامذہ کی ان سے بے پا یاں عقیدت و محبت کی واضح علامت تھی۔

مولانا کی قابل ذکر خصوصیتیں
دارالعلوم کے طلبہ اور اساتذہ میں اس بات پر اتفاق تھا کہ مولانا دو باتوں میں امتیازی شان کے مالک ہیں: نماز باجماعت کی مواظبت اور درس کی پابندی۔ کڑاکے کی سردی ہو یا گرمی میں لو کی تپش یا برسات کی جھڑی، کوئی چیز مولانا کے لیے دارالعلوم کے وسط میں واقع مسجد میں باجماعت پنجگانہ کی ادائیگی سے روک نہیں سکتی تھی۔ وفات سے کچھ ہفتے پہلے چلتے پھرتے سے بالکلیہ معذوری سےقبل تک ان کی مسجد کی حاضری میں کوئی خلل کبھی نہ ہوا۔ وہ اذان سے قبل وضو سے فارغ ہو جاتے اور اذان کے فورا بعد ایک دو طالب علم کے سہارے اپنی چھڑی ٹیکتے ہوئے مسجد پہنچ جاتے۔ پیرانہ سالی اور کمزوری کی وجہ سے وہ خاصی دھیمی رفتار سے چلتے ،بعض دفعہ آگے کے صفیں پرُ ہو جاتیں، لیکن وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتے جاتے اور طلباء انہیں دیکھ کر از خود ان کے صفوں سے گزرنے اور آگے بڑھنے کے لیے جگہ خالی کر دیتے۔ بعض دفعہ وہ اپنی خاص آواز اور شفقت آمیز لہجے میں ان طلبہ کو ڈانٹتے جو نو وارد ہونے کی وجہ سے ان کو نہ جانتےاور اپنی جگہ سے نہ ہٹتے ،طلباء ان کی دیگر ڈانٹوں کی طرح اسے ڈانٹ سے بھی مزہ لیتے اور مسکراتے ہوئے پہلی صف میں پہنچ جاتے۔

ان کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل
وہ درمیانہ قد تھے، داڑھی اور سر کے بال گھنیرے تھے، جسم متوسط اورنگاہ تیز تھی، پیشانی درمیانہ ناک اونچی اور رنگ گہرا گندمی تھا ،صاف ستھری بات کرتے اور خوشی یا ناراضگی کا برملا اظہار کردیتے تھے ان کی دنیاوی تمنائیں قلیل اور اخروی مقاصد جلیل تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی زندگی مومنانہ تھی ۔

ان کی زندگی کی سب سے بڑی تمنا یہ تھی کہ ان کا آخری وقت جب بھی آئے دالرالعلوم ہی میں آئے اساتذہ وطلبا ئے دارالعلوم ہی اپنے ہا تھوں مقبرہ قاسمیہ میں سپرد خاک کریں، اس لیے وہ اپنے وطن بہت کم جایا کرتے تھے اور بہت تھوڑے دنوں کے لیے ، سکون وآرام کی جو دولت وہ یہاں محسوس کر تے تھے ان کو وطن میں میسر نہ تھی۔ خدا شکر ہے کہ ان کی یہ مخلصانہ بلکہ عاشقانہ آرزو پوری اور طلبہ اساتذۂ دارالعلوم اور پڑوس کے اضلاع کے مدرسے میں پھیلے ہو ئے سیکنڑوں بلکہ ہزاروں شاگردوں نے انہیں انتہائی عقیدت و محبت سےمقبرۂ قاسمیہ میں عظیم ترین علمائے دیوبند کے جوار میں ، ان کی آخری آرام گاہ میں اتار دیا۔ع

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے​

علامہ بہارؒی وجہ تسمیہ
وہ معقولات میں اپنی غیرمعمولی دلچسپی اورمہارت کی وجہ سے دارالعلوم میں اس وقت علامہ "علامہ بہاری" کے نام سے جانے جاتے تھے۔ بعد میں" مولانابہاری " یا" ملا بہاری" ہمیشہ کے لئے ان کے نام کا قائم مقام بن گیا ،حتی کہ بعض طلباء سالوں دارالعلوم میں گزارنے کے بعد واپس چلے جاتے اور انہیں یہ نہیں معلوم ہوپاتا کہ ان کا اصلی نام مولانا "محمد حسین "ہے۔ گویا منطق کی شہرہ ٔ آفاق کتاب" سلم العلوم" کے جلیل القدر مصنف ملا محب اللہ بن عبد الشکور بہاری ( متوفی ۱۱۱۹ھ مطابق ۱۷۰۷ء) سے تشبیہ دینے کے لیے انہیں "ملا بہاری" کہا جاتا تھا۔

وفات
وفات سے چند ماہ قبل تک مولانا ؒکی عمومی صحت اچھی تھی اور بڑھاپے کے اعذارکے سوا الحمدللہ کوئی انھیں کوئی تکلیف نہیں تھی لیکن 8 اکتوبر 1991 کو ان پر لقوی کا حملہ ہوا اور وہ جدید قدیم طریقہ علاج سے شفایاب ہو چکے تھے کہ 12 دسمبر ۱۹۹۱ءجمعرات کے روز مغرب کی نماز کے لیے کھڑا ہونا چاہتے تھے کہ یکا یک گر گئے اور کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ ایک دو روز بعد مظفرنگرکے ایک ہڈی کے پرائیویٹ ہسپتال میں داخل کیا گیا لیکن وہ اکثر اوقات بے ہوش رہے، کچھ افاقہ کے بعد 27/ دسمبر کو ان کے صاحبزدگان،جو ان کی تیمارداری کے لئے آئے ہوئے تھے، انہیں دیو بند واپس لے آئے۔ وفات سے 3 روز قبل سے ان پر پھر بیہوشی کی کیفیت طاری ہوگئی اور موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد بالآخر یک شنبہ ۶/رجب ۱۴۱۲ھ مطابق ۱۲/جنوری ۱۹۹۲ ء کو ٹھیک کو ٹھیک گیارہ بجکر پانچ منٹ پر اس گنجینۂ علم وحکمت نے جان ،جان آفریں کے سپرد کر دی۔ موت کے وقت وہ تقریبا 90 سال کے تھے۔ انہوں نے چالیس سال سے زائد عرصے تک مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دی۔ دارالعلوم بحیثیت مدرس ان کا تقرر ۳/ذی الحجہ ۱۳۶۷ھ مطابق 7 اکتوبر 1948 کو ہوا تھا ۔انہوں نے اس طویل عرصےمیں سینکڑوں شاگرد پیدا کیے، جن میں بعض عالمی شہرت یافتہ علمائے باکمال بھی ہیں۔
خدا کریم ان کے درجات بلند فرمائے، ان کے پسماندگان اور تمام شاگردوں اور اہل تعلق کو صبر جمیل و اجر عظیم عطا فرمائے ۔آمین

حیات انساں ہے شمع صورت ،ابھی ہے روشن ابھی فسردہ
نہ جانے کتنے چراغ یو نہی جلا کریں گے، بجھا کریں گے
تلخیص (پس مرگ زندہ)​
 
Last edited:
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top