حضرت ابو طالب کا ایمان (اہل تشیع کی صحیح روایت کی روشنی میں)

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مکتبہ دیوبند کے علماء کرام کا فتویٰ ہے کہ آپ ﷺ کے چچا ابوطالب کا ایمان لانا ثابت نہیں، لہٰذا رحمة اللہ علیہ یا رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کہ مخصوص ہے مومنین کے لیے‏، کہنا جائز نہیں۔

وقت وفات جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر ایمان کا کلمہ پیش کیا تو انھوں نے انکار کردیا جیسا کہ مسلم شریف میں کتاب الایمان کی روایت سے ظاہر ہے، نیز اِنَّکَ لاَ تَہْدِيْ مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ آیت کا شان نزول ابوطالب ہیں، جس سے ان کا عدم ایمان ثابت ہے۔ قال في فتح الملہم في الحدیث المشار إلیہ سابقًا تحت قولہ اِنَّکَ لاَ تَہْدِيْ مَنْ أَحْبَبْتَ الآیة قال الشارح قد اجمع المفسرون علی أنہا نزلت في أبي طالب قال الحافظ وہذا کلمہ ظاہر في أنہ مات علی غیر الإسلام (مسلم شریف مع فتح الملہم: ۱/۱۹۷) عن أبي ہریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعمّہ عند الموت قل لا إلہ إلا اللہ أشہد لک بہا یوم القیامة فأبی قال فأنزل اللہ اِنَّکَ لاَ تَہْدِيْ مَنْ أَحْبَبْتَ الآیة۔

حضرت ابو طالب کا ایمان (اہل تشیع کی صحیح روایت کی روشنی میں)
تعجب کی بات ہے کہ ایمان ابو طالب پر شیعہ کتب میں ایک ضعیف ترین روایت بھی موجود نہیں ہے۔
تاریخ اسلام، اہلسنت کتب حتی کہ شیعہ کتب کی کسی بھی روایت میں وہ اہم واقعہ بیان ہی نہیں ہوا کہ ۔۔۔
حضرت ابوطالب نے فلاں موقعہ پر توحید و رسالت کی گواہی دی۔
حضرت ابوطالب دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔
حضرت ابوطالب نے اسلامی شریعت پر عمل کیا۔
حضرت ابوطالب نے اپنے ایمان کا اعلان کیا۔

جن آیات قرآنی سے شیعہ استدلال کرتے ہیں ان سے حضرت ابو طالب کا ایمان ثابت ہی نہیں ہوتا اور کچھ احکامات تو حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد نازل ہوئے۔
شیعوں کے ہاں کھینچ کھانچ کے اقوال معصومین پر ایمان ابوطالب تسلیم کیا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شیعہ کی اصول اربعہ کی اوّل نمبر کتاب اصول کافی میں ایک صحیح السند قول حضرت امام جعفر صادقؒ کا موجود ہے جو ان تمام اقوال معصومین کی نفی بیان کرتا ہے، جو شیعہ حضرت ابوطالب کے ایمان کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔
شیخ الکینی نے اپنی کتاب الکافی میں ایک روایت نقل کی ہے جو اس طرح ہے :

علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن أبي عمير، عن هشام بن سالم، عن ابي عبدالله (عليه السلام) قال: إن مثل أبي طالب مثل أصحاب الكهف أسروا الايمان وأظهروا الشرك فآتاهم الله أجرهم مرتين۔

ترجمہ : حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ابو طالب علیہ السلام کی مثال اصحاب کہف کی سی ہے ، انہوں نے ایمان کو چھپایا اور شرک کو ظاھر کیا ، پس خدا نے انکو دو اجر دئے
الاصول الكافي – شیخ یعقوب الکینی ( اردو ترجمہ ) / جلد٣ / کتاب الحجت / باب :مولد النبي (صلى الله عليه وآله) ووفاته/ صفحہ: ٢٢ / رقم ٢٨ / طبع الھند

k8aiy0a72guxzw16g.jpg


تحقیق السند :
علي بن إبراهيم : یہ بالاتفاق ثقہ ہے
شیخ نجاشی نے فرمایا : ” علي بن إبراهيم بن هاشم أبو الحسن القمي، ثقة
انکی توثیق اس لنک پر ملاخطہ فرمائیں

http://qadatona.org/عربي/الرجال/7830


ابراهيم بن هاشم :
سيد الخوئی انکے بارے میں کہتے ہے : إبراهيم بن هاشم أبو إسحاق القمّى، أصله كوفي انتقل إلى قم، قال أبو عمرو الكشّى: تلميذ يونس بن عبدالرحمان، من أصحاب الرضا عليه السلام، وهذا قول الكشّى، وفيه نظر، …۔۔ تنظّر النجاشي في محلّه، بل لايبعد دعوى الجزم بعدم صحّة ماذكره الكشّي والشيخ۔ والوجه في ذلك إن إبراهيم بن هاشم مع كثرة رواياته،أقول: لاينبغي الشكّ في وثاقة إبراهيم بن هاشم، ويدلّ على ذلك عدّة أمور: : أنّ السيّد ابن طاووس إدّعى الاتفاق على وثاقته، حيث قال عند ذكره رواية عن أمالي الصدوق في سندها إبراهيم بن هاشم: (ورواة الحديث ثقات بالاتفاق)۔
انکی توثیق اس لنک پر پڑھیں

http://www.al-khoei.us/books/index.php?id=7075


ابن أبي عمیر : یہ بھی ثقہ الامامی ہے،انکی توثیق اس لنک پر پڑھیں

https://files.rafed.net

هشام بن سالم : یہ بھی ثقہ الامامی ہی ہے
اس لنک پر انکی توثیق پڑھیں

http://qadatona.org/عربي/الرجال/13361

لہذا یہ روایت بلکل صحیح ہے ، اس میں کسی باشعور اہل علم شخص کو شک نہیں ہونا چاھیے۔

t1vmp35ijqlcym86g.jpg

44y4z1f0jd8jv516g.jpg

idy3tfmvn5nerjd6g.jpg


اس روایت کو ان علماء نے بھی صحیح یا حسن قرار دیا ہے :

الشيخ هادي النجفي نے اپنی کتاب موسوعته ج٥ ص٣٢١ میں اس کے بارے میں فرمایا : الرواية صحيحة الإسناد (اس روایت کی سند صحیح ہے )

السيد محمد علي الابطحي نے تهذيب المقال ج٥- ص٤٥٢ میں کہا : صحيح ۔

العلامة المجلسي نے الکافی کی شرح مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، جلد 5، ص: 253 میں اس روایت کے بارے میں فرمایا : الحديث حسن ( یہ حسن حدیث ہے )

u3xx113qdekes736g.jpg


کم و بیش یہی روایت کئی اور شیعہ کتب میں بھی موجود ہے۔ مثال کے طور پر
البرهان في تفسير القرآن الجزء الثاني (تأليف السيد هاشم بن سليمان البحراني)

x2pw82rz7wan9ix6g.jpg

وسائل الشیعہ جلد 16 صفحہ نمبر 225 ۔
khjtvg08l1tt10c6g.jpg
zf9wd8cotlbfw6l6g.jpg


طرز استدلال :
حضرت امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب یہ روایت اہل تشیع کے اصولوں کے مطابق ایک صحیح السند روایت ہے۔
اس روایت میں دو نکات غور طلب ہیں۔
حضرت ابوطالب کی مثال اصحاب کہف جیسی ہے۔
حضرت ابوطالب نے ایمان کو چھپایا اور شرک کو ظاہر کیا ۔

emw1cm8zaoe5b946g.jpg


قرآن کریم میں اصحاب کہف کا قصہ سورت الکھف میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ نَبَاَہُمۡ بِالۡحَقِّ ؕ اِنَّہُمۡ فِتۡیَۃٌ اٰمَنُوۡا بِرَبِّہِمۡ وَ زِدۡنٰہُمۡ ہُدًی (13)
وَّ رَبَطۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اِذۡ قَامُوۡا فَقَالُوۡا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ لَنۡ نَّدۡعُوَا۠ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِلٰـہًا لَّقَدۡ قُلۡنَاۤ اِذًا شَطَطًا (14)
ہٰۤؤُلَآءِ قَوۡمُنَا اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً ؕ لَوۡ لَا یَاۡتُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ بِسُلۡطٰنٍۭ بَیِّنٍ ؕ فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ؕ(15)

ہم اُن کے حالات تم سے صحیح صحیح بیان کرتے ہیں۔ وہ کئی جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کو اور زیادہ ہدایت دی تھی۔(13)
اور ان کے دلوں کو مربوط (یعنی مضبوط) کردیا۔ جب وہ (اُٹھ) کھڑے ہوئے تو کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ ہم اس کے سوا کسی کو معبود (سمجھ کر) نہ پکاریں گے (اگر ایسا کیا) تو اس وقت ہم نے بعید از عقل بات کہی۔(14)
ان ہماری قوم کے لوگوں نے اس کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں۔ بھلا یہ ان (کے خدا ہونے) پر کوئی کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے۔ تو اس سے زیادہ کون ظالم ہے جو خدا پر جھوٹ افتراء کرے۔
(15)

ان آیات کے مطابق اصحاب کہف نے اپنے ایمان کو ہرگز نہیں چھپایا تھا بلکہ اللہ عزوجل پر ایمان کا برملا اظہار کرتے ہوئے بتوں سے بیزاری ظاہر کی تھی۔
اسی لئے تو بادشاہ دقیانوس کے خوف سے غار میں چھپ گئے تھے۔ اگر اصحاب کھف اپنا ایمان ظاہر نہ کرتے تو پھر انہیں غار میں چھپنے کی ضرورت کیوں پیش آتی؟

حضرت ابوطالب نے بھی اگر اصحاب کہف کی طرح ایمان کا اظہار کیا ہوتا اور بتوں سے بیزاری ظاہر کی ہوتی تو اس روایت میں ان کے ایمان کو ظاہر کرنا ضرور بیان کیا گیا ہوتا ، لیکن اس کے بجائے روایت میں واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابوطالب نے ایمان کو چھپایا اور شرک کو ظاہر کیا!!

یعنی روایت کے دونوں حصے نہ صرف ایک دوسرے سے متعارض ہیں بلکہ شیعہ کے عقیدے ایمان ابو طالب کو بھی جڑ سے اکھاڑ دیتے ہیں۔
اہلسنت کے نزدیک یہ جھوٹی روایت ہے اور اس سے شان حضرت امام جعفر صادقؒ بھی بری طرح مجروح ہوتی ہے۔کیا حضرت امام جعفر صادق کو اتنا علم بھی نہ تھا کہ اصحاب کہف نے اپنا ایمان ظاہر کیا تھا اور اسی وجہ سے غار میں چھپ گئے تھے، اور یہ مثال حضرت ابو طالب کی زندگی سے مطابقت نہیں رکھتی۔

روایت کے دوسرے حصے کے مطابق اہل تشیع کے ہاں حضرت ابو طالب پوری زندگی شرک کرتے رہے یعنی بت پرستی کرتے رہے جبکہ اہلسنت کے ہاں حضرت ابو طالب کو مشرک نہیں بیان کیا گیا بلکہ ان کا آخری گھڑی تک دین ابراہیمی پر قائم رہنا بیان ہوا ہے۔

ایک طرف شیعہ اہلسنت پر حضرت ابو طالب کی توہین کا الزام لگاتے ہیں تو دوسری طرف خود ان کی اوّل درجہ کی کتاب میں امام کے نام سے ایسی روایت موجود ہے جو حضرت ابوطالب کو پوری زندگی شرک اور بت پرستی کرتے رہنا بیان کر رہی ہے!!
حد تو یہ بھی ہے کہ شیعہ جیّد علماء امام جعفر صادقؒ کی طرف منسوب اس جھوٹی روایت کو صحیح تسلیم کرتے ہیں اور اس کی توثیق کر کے نہ صرف حضرت امام جعفر صادقؒ بلکہ حضرت ابو طالب کی بھی توہین کرتے آ رہے ہیں!!

آخری اہم بات : اہل تشیع کی صحیح السند روایت سے اہل سنت کا مؤقف ثابت ہوتا ہے کہ
حضرت ابو طالب کا اسلام قبول کرنا، اعلان کرنا، اسلامی شریعت پر عمل کرنا وغیرہ کسی صحیح السند روایت سے ثابت نہیں ہے۔

اس روایت میں اصحاب کہف کی مثال غلط دی گئی ہے، کیونکہ قرآن سے متعارض ہے۔

اب اہل تشیع کے پاس دو راستے ہیں۔
اصحاب کہف کی طرح حضرت ابوطالب کا ایمان قبول کرنا اور بتوں سے بیزاری ظاہر کرنا ثابت کرے۔
روایت کے دوسرے حصہ کو تسلیم کرے کہ حضرت ابوطالب نے پوری زندگی اسلام قبول نہیں کیا تھا جوکہ اہلسنت کا مؤقف ہے۔
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
مکتبہ دیوبند کے علماء کرام کا فتویٰ ہے کہ آپ ﷺ کے چچا ابوطالب کا ایمان لانا ثابت نہیں، لہٰذا رحمة اللہ علیہ یا رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کہ مخصوص ہے مومنین کے لیے‏، کہنا جائز نہیں۔

وقت وفات جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر ایمان کا کلمہ پیش کیا تو انھوں نے انکار کردیا جیسا کہ مسلم شریف میں کتاب الایمان کی روایت سے ظاہر ہے، نیز اِنَّکَ لاَ تَہْدِيْ مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ آیت کا شان نزول ابوطالب ہیں، جس سے ان کا عدم ایمان ثابت ہے۔ قال في فتح الملہم في الحدیث المشار إلیہ سابقًا تحت قولہ اِنَّکَ لاَ تَہْدِيْ مَنْ أَحْبَبْتَ الآیة قال الشارح قد اجمع المفسرون علی أنہا نزلت في أبي طالب قال الحافظ وہذا کلمہ ظاہر في أنہ مات علی غیر الإسلام (مسلم شریف مع فتح الملہم: ۱/۱۹۷) عن أبي ہریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعمّہ عند الموت قل لا إلہ إلا اللہ أشہد لک بہا یوم القیامة فأبی قال فأنزل اللہ اِنَّکَ لاَ تَہْدِيْ مَنْ أَحْبَبْتَ الآیة۔

حضرت ابو طالب کا ایمان (اہل تشیع کی صحیح روایت کی روشنی میں)
تعجب کی بات ہے کہ ایمان ابو طالب پر شیعہ کتب میں ایک ضعیف ترین روایت بھی موجود نہیں ہے۔
تاریخ اسلام، اہلسنت کتب حتی کہ شیعہ کتب کی کسی بھی روایت میں وہ اہم واقعہ بیان ہی نہیں ہوا کہ ۔۔۔
حضرت ابوطالب نے فلاں موقعہ پر توحید و رسالت کی گواہی دی۔
حضرت ابوطالب دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔
حضرت ابوطالب نے اسلامی شریعت پر عمل کیا۔
حضرت ابوطالب نے اپنے ایمان کا اعلان کیا۔

جن آیات قرآنی سے شیعہ استدلال کرتے ہیں ان سے حضرت ابو طالب کا ایمان ثابت ہی نہیں ہوتا اور کچھ احکامات تو حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد نازل ہوئے۔
شیعوں کے ہاں کھینچ کھانچ کے اقوال معصومین پر ایمان ابوطالب تسلیم کیا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شیعہ کی اصول اربعہ کی اوّل نمبر کتاب اصول کافی میں ایک صحیح السند قول حضرت امام جعفر صادقؒ کا موجود ہے جو ان تمام اقوال معصومین کی نفی بیان کرتا ہے، جو شیعہ حضرت ابوطالب کے ایمان کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔
شیخ الکینی نے اپنی کتاب الکافی میں ایک روایت نقل کی ہے جو اس طرح ہے :

علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن أبي عمير، عن هشام بن سالم، عن ابي عبدالله (عليه السلام) قال: إن مثل أبي طالب مثل أصحاب الكهف أسروا الايمان وأظهروا الشرك فآتاهم الله أجرهم مرتين۔

ترجمہ : حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ابو طالب علیہ السلام کی مثال اصحاب کہف کی سی ہے ، انہوں نے ایمان کو چھپایا اور شرک کو ظاھر کیا ، پس خدا نے انکو دو اجر دئے
الاصول الكافي – شیخ یعقوب الکینی ( اردو ترجمہ ) / جلد٣ / کتاب الحجت / باب :مولد النبي (صلى الله عليه وآله) ووفاته/ صفحہ: ٢٢ / رقم ٢٨ / طبع الھند

k8aiy0a72guxzw16g.jpg


تحقیق السند :
علي بن إبراهيم : یہ بالاتفاق ثقہ ہے
شیخ نجاشی نے فرمایا : ” علي بن إبراهيم بن هاشم أبو الحسن القمي، ثقة
انکی توثیق اس لنک پر ملاخطہ فرمائیں

http://qadatona.org/عربي/الرجال/7830


ابراهيم بن هاشم :
سيد الخوئی انکے بارے میں کہتے ہے : إبراهيم بن هاشم أبو إسحاق القمّى، أصله كوفي انتقل إلى قم، قال أبو عمرو الكشّى: تلميذ يونس بن عبدالرحمان، من أصحاب الرضا عليه السلام، وهذا قول الكشّى، وفيه نظر، …۔۔ تنظّر النجاشي في محلّه، بل لايبعد دعوى الجزم بعدم صحّة ماذكره الكشّي والشيخ۔ والوجه في ذلك إن إبراهيم بن هاشم مع كثرة رواياته،أقول: لاينبغي الشكّ في وثاقة إبراهيم بن هاشم، ويدلّ على ذلك عدّة أمور: : أنّ السيّد ابن طاووس إدّعى الاتفاق على وثاقته، حيث قال عند ذكره رواية عن أمالي الصدوق في سندها إبراهيم بن هاشم: (ورواة الحديث ثقات بالاتفاق)۔
انکی توثیق اس لنک پر پڑھیں

http://www.al-khoei.us/books/index.php?id=7075


ابن أبي عمیر : یہ بھی ثقہ الامامی ہے،انکی توثیق اس لنک پر پڑھیں

https://files.rafed.net

هشام بن سالم : یہ بھی ثقہ الامامی ہی ہے
اس لنک پر انکی توثیق پڑھیں

http://qadatona.org/عربي/الرجال/13361

لہذا یہ روایت بلکل صحیح ہے ، اس میں کسی باشعور اہل علم شخص کو شک نہیں ہونا چاھیے۔

t1vmp35ijqlcym86g.jpg

44y4z1f0jd8jv516g.jpg

idy3tfmvn5nerjd6g.jpg


اس روایت کو ان علماء نے بھی صحیح یا حسن قرار دیا ہے :

الشيخ هادي النجفي نے اپنی کتاب موسوعته ج٥ ص٣٢١ میں اس کے بارے میں فرمایا : الرواية صحيحة الإسناد (اس روایت کی سند صحیح ہے )

السيد محمد علي الابطحي نے تهذيب المقال ج٥- ص٤٥٢ میں کہا : صحيح ۔

العلامة المجلسي نے الکافی کی شرح مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، جلد 5، ص: 253 میں اس روایت کے بارے میں فرمایا : الحديث حسن ( یہ حسن حدیث ہے )

u3xx113qdekes736g.jpg


کم و بیش یہی روایت کئی اور شیعہ کتب میں بھی موجود ہے۔ مثال کے طور پر
البرهان في تفسير القرآن الجزء الثاني (تأليف السيد هاشم بن سليمان البحراني)

x2pw82rz7wan9ix6g.jpg

وسائل الشیعہ جلد 16 صفحہ نمبر 225 ۔
khjtvg08l1tt10c6g.jpg
zf9wd8cotlbfw6l6g.jpg


طرز استدلال :
حضرت امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب یہ روایت اہل تشیع کے اصولوں کے مطابق ایک صحیح السند روایت ہے۔
اس روایت میں دو نکات غور طلب ہیں۔
حضرت ابوطالب کی مثال اصحاب کہف جیسی ہے۔
حضرت ابوطالب نے ایمان کو چھپایا اور شرک کو ظاہر کیا ۔

emw1cm8zaoe5b946g.jpg


قرآن کریم میں اصحاب کہف کا قصہ سورت الکھف میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ نَبَاَہُمۡ بِالۡحَقِّ ؕ اِنَّہُمۡ فِتۡیَۃٌ اٰمَنُوۡا بِرَبِّہِمۡ وَ زِدۡنٰہُمۡ ہُدًی (13)
وَّ رَبَطۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اِذۡ قَامُوۡا فَقَالُوۡا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ لَنۡ نَّدۡعُوَا۠ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِلٰـہًا لَّقَدۡ قُلۡنَاۤ اِذًا شَطَطًا (14)
ہٰۤؤُلَآءِ قَوۡمُنَا اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً ؕ لَوۡ لَا یَاۡتُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ بِسُلۡطٰنٍۭ بَیِّنٍ ؕ فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ؕ(15)

ہم اُن کے حالات تم سے صحیح صحیح بیان کرتے ہیں۔ وہ کئی جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کو اور زیادہ ہدایت دی تھی۔(13)
اور ان کے دلوں کو مربوط (یعنی مضبوط) کردیا۔ جب وہ (اُٹھ) کھڑے ہوئے تو کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ ہم اس کے سوا کسی کو معبود (سمجھ کر) نہ پکاریں گے (اگر ایسا کیا) تو اس وقت ہم نے بعید از عقل بات کہی۔(14)
ان ہماری قوم کے لوگوں نے اس کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں۔ بھلا یہ ان (کے خدا ہونے) پر کوئی کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے۔ تو اس سے زیادہ کون ظالم ہے جو خدا پر جھوٹ افتراء کرے۔
(15)

ان آیات کے مطابق اصحاب کہف نے اپنے ایمان کو ہرگز نہیں چھپایا تھا بلکہ اللہ عزوجل پر ایمان کا برملا اظہار کرتے ہوئے بتوں سے بیزاری ظاہر کی تھی۔
اسی لئے تو بادشاہ دقیانوس کے خوف سے غار میں چھپ گئے تھے۔ اگر اصحاب کھف اپنا ایمان ظاہر نہ کرتے تو پھر انہیں غار میں چھپنے کی ضرورت کیوں پیش آتی؟

حضرت ابوطالب نے بھی اگر اصحاب کہف کی طرح ایمان کا اظہار کیا ہوتا اور بتوں سے بیزاری ظاہر کی ہوتی تو اس روایت میں ان کے ایمان کو ظاہر کرنا ضرور بیان کیا گیا ہوتا ، لیکن اس کے بجائے روایت میں واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابوطالب نے ایمان کو چھپایا اور شرک کو ظاہر کیا!!

یعنی روایت کے دونوں حصے نہ صرف ایک دوسرے سے متعارض ہیں بلکہ شیعہ کے عقیدے ایمان ابو طالب کو بھی جڑ سے اکھاڑ دیتے ہیں۔
اہلسنت کے نزدیک یہ جھوٹی روایت ہے اور اس سے شان حضرت امام جعفر صادقؒ بھی بری طرح مجروح ہوتی ہے۔کیا حضرت امام جعفر صادق کو اتنا علم بھی نہ تھا کہ اصحاب کہف نے اپنا ایمان ظاہر کیا تھا اور اسی وجہ سے غار میں چھپ گئے تھے، اور یہ مثال حضرت ابو طالب کی زندگی سے مطابقت نہیں رکھتی۔

روایت کے دوسرے حصے کے مطابق اہل تشیع کے ہاں حضرت ابو طالب پوری زندگی شرک کرتے رہے یعنی بت پرستی کرتے رہے جبکہ اہلسنت کے ہاں حضرت ابو طالب کو مشرک نہیں بیان کیا گیا بلکہ ان کا آخری گھڑی تک دین ابراہیمی پر قائم رہنا بیان ہوا ہے۔

ایک طرف شیعہ اہلسنت پر حضرت ابو طالب کی توہین کا الزام لگاتے ہیں تو دوسری طرف خود ان کی اوّل درجہ کی کتاب میں امام کے نام سے ایسی روایت موجود ہے جو حضرت ابوطالب کو پوری زندگی شرک اور بت پرستی کرتے رہنا بیان کر رہی ہے!!
حد تو یہ بھی ہے کہ شیعہ جیّد علماء امام جعفر صادقؒ کی طرف منسوب اس جھوٹی روایت کو صحیح تسلیم کرتے ہیں اور اس کی توثیق کر کے نہ صرف حضرت امام جعفر صادقؒ بلکہ حضرت ابو طالب کی بھی توہین کرتے آ رہے ہیں!!

آخری اہم بات : اہل تشیع کی صحیح السند روایت سے اہل سنت کا مؤقف ثابت ہوتا ہے کہ
حضرت ابو طالب کا اسلام قبول کرنا، اعلان کرنا، اسلامی شریعت پر عمل کرنا وغیرہ کسی صحیح السند روایت سے ثابت نہیں ہے۔

اس روایت میں اصحاب کہف کی مثال غلط دی گئی ہے، کیونکہ قرآن سے متعارض ہے۔

اب اہل تشیع کے پاس دو راستے ہیں۔
اصحاب کہف کی طرح حضرت ابوطالب کا ایمان قبول کرنا اور بتوں سے بیزاری ظاہر کرنا ثابت کرے۔
روایت کے دوسرے حصہ کو تسلیم کرے کہ حضرت ابوطالب نے پوری زندگی اسلام قبول نہیں کیا تھا جوکہ اہلسنت کا مؤقف ہے۔
ماشاء اللہ۔۔بہت عمدہ دلائل و براہین سے مزین۔۔۔جزاک اللہ خیر
 
Top