قرآن کلا م الٰہی ہے اور تو ریت وانجیل کتاب الٰہی

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قرآن کلام الٰہی ہے اور تو ریت وانجیل کتاب الٰہی​
الغرض ، معجزات علمی میں رسول اللہ ﷺ اور سب سے زیادہ ہیں ؛ کیوں کہ کلام ربانی اور کسی کے لیے نازل نہیں ہوا۔ چنا نچہ خود اہل کتاب اس بات کی معترف ہیں کہ الفاظ توریت وانجیل منزل من اللہ نہیں ، وہاں سے فقط الہام معا نی ہوا۔ اور یہاں اکثر انبیاء یا حواریوں نے ان کو اپنے الفاظ میں ادا کر دیا ۔
اور اپنا یہ اعتقاد ہے کہ الفاظ کتب سابقہ بھی اسی کی طرف سے ہیں
پر وہ مرتبۂ فصا حت وبلا غت ، جو مناسب شان خدا وندی ہے ، اور کتابوں میں اس لیے نہیں کہ ان کا مہبط خود صفت کلام ِ خدا وندی نہیں ؛ یا یوں کہوں کہ عبارت ملا ئکہ ہے ، گو مضامین خدا وندی ہیں ؛ اورشائد یہی وجہ ہے کہ توریت وانجیل کی نسبت قرآن وحدیث میں کتاب اللہ کا لفظ آتا ہے کلام اللہ کا لفظ نہیں آتا؛ اگر ہے تو ایک جا ہے ، مگر وہاں دو احتمال ہیں ؛ ایک تو یہی تو ریت ، دوسرے وہ کلام جو بعض بنی اسرائیل نے بہ معیت حضرت موسی علیہ السلام سنےتھے ؛ اگر وہ کلام تھے ، تو اس سے توریت کا عبارتِ خداوندی ثات نہیں ہو سکتا ، اور اگر خود توریت مراد ہے تو وہ کلام ایسے سمجھو جیسے بعض شاعر گنواروں سے انھیں کے محاوروں میں گفتگو کر لگتے ہیں ؛ مگر ظاہر ہے کہ اس وقت کلام شاعر مذکور اگر چہ بظاہر کلام شاعر ہی سمجھے جاٗئیں گے، مگر منشاء اس کلام کا اس کا وہ کمال نہ ہو گا جس کو کمال شاعرانہ اورقوت فصاحت وبلا غت کہتے ہیں ، ایسے ہی تورات کو بھی بہ نسبت خدا خیال فر ما لیجئے ، اور شائد یہی وجہ ہو ئی کہ دعوائے اعجاز تورات وانجیل نہ کیا گیا ؛ ورنہ ظاہر ہے کہ اس معجزے سے بڑھ کر اور کو ئی معجزہ نہ تھا چنا چہ اوپر مذکور ہو چکا ۔

صاحب اعجاز علمی صاحب اعجاز عملی سے افضل ہے :
اور یہ اس وجہ کہ علم تمام ان صفات سے اعلیٰ ہے جو جو( کذا) مربی عالم ہے یعنی ان صفات کو عالم سےتعلق ہے جیسے علم وقدرت ، ارادہ ، مشیت ، کلام ؛ کیونکہ علم کو معلوم اور قدرت کو مقدور اور ارادہ کو مراد ، اور مشیت کو مر غوب اور کلام کو مخاطب کی ضرورت ہے ؛ اس لیے وہ نبی جس کے پاس معجزۂ علمی ہو، تمام ان نبیوں سے اعلیٰ درجہ میں ہو گا جو معجزہ عملی رکھتے ہوں گے ؛ کیونکہ جس درجہ کا معجزہ ہو گا ، وہ معجزہ اس بات پر دلات کرے گا کہ صاحب معجزہ اس درجہ میں یکتا ئےروز گار ہے ، اور اس فن میں بڑا سردار ہے ؛ اسلیے ہمارے حضرت رسول اللہ ﷺ کی افضلیت کا اقرار بشرط فہم وانصاف ضرور ہے ۔
(مجموعہ افادات قاسمی)مَعدنُ الحقائق ، مخزن الدقائق ، مجمع المعارف ، مظہر اللطائف ، جامع الفیوض والبرکات قاسم العلوم والخیرات ، سیدی ومولائی حضرت مولانا مولوی محمد قاسم متعنا اللہ بعلومہ ومعارفہ
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
قرآن واقعی لاریب کتاب ہے۔۔۔ یہود تو آج تک یہ متیعن نہیں کر سکے کہ تورات اصل کتنی کتب کا مجموعہ تھی آج 39 کتب کو بائیبل کہا جاتا ہے ان میں سے ابتدائی 5 کتب کو تورات کہتے ہیں مگر۔۔۔۔۔ کتنی کتب کو نکالا کتنی شامل کی یہ سب علماء یہود کی سیاہ کاریوں کا نتیجہ ہے کتاب اللہ کو بھی م محفوظ نہیں رکھ سکے اللہ نے اسی لئے انکے رہبان اور علماء کے ذمہ یہ کتب لگائیں بماا ستحفظو من کتاب اللہ سورۃ مائدہ 44 اور یہاں قرآن کے متعلق فر مایا ہم نے اتارا ہم ہی حفاظت کرنے والے ہیں سورۃ حجر 9 ۔۔۔ پروٹسنٹ کے ہاں پرا نا عھد نامہ 39 کتب کھیتولک کے ہاں 48 کتب اب سچا کون جھوٹا کون مگر قرآن کی سدا ہے لاریب فیہ
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
قرآن کلام الٰہی ہے اور تو ریت وانجیل کتاب الٰہی​
الغرض ، معجزات علمی میں رسول اللہ ﷺ اور سب سے زیادہ ہیں ؛ کیوں کہ کلام ربانی اور کسی کے لیے نازل نہیں ہوا۔ چنا نچہ خود اہل کتاب اس بات کی معترف ہیں کہ الفاظ توریت وانجیل منزل من اللہ نہیں ، وہاں سے فقط الہام معا نی ہوا۔ اور یہاں اکثر انبیاء یا حواریوں نے ان کو اپنے الفاظ میں ادا کر دیا ۔
اور اپنا یہ اعتقاد ہے کہ الفاظ کتب سابقہ بھی اسی کی طرف سے ہیں
پر وہ مرتبۂ فصا حت وبلا غت ، جو مناسب شان خدا وندی ہے ، اور کتابوں میں اس لیے نہیں کہ ان کا مہبط خود صفت کلام ِ خدا وندی نہیں ؛ یا یوں کہوں کہ عبارت ملا ئکہ ہے ، گو مضامین خدا وندی ہیں ؛ اورشائد یہی وجہ ہے کہ توریت وانجیل کی نسبت قرآن وحدیث میں کتاب اللہ کا لفظ آتا ہے کلام اللہ کا لفظ نہیں آتا؛ اگر ہے تو ایک جا ہے ، مگر وہاں دو احتمال ہیں ؛ ایک تو یہی تو ریت ، دوسرے وہ کلام جو بعض بنی اسرائیل نے بہ معیت حضرت موسی علیہ السلام سنےتھے ؛ اگر وہ کلام تھے ، تو اس سے توریت کا عبارتِ خداوندی ثات نہیں ہو سکتا ، اور اگر خود توریت مراد ہے تو وہ کلام ایسے سمجھو جیسے بعض شاعر گنواروں سے انھیں کے محاوروں میں گفتگو کر لگتے ہیں ؛ مگر ظاہر ہے کہ اس وقت کلام شاعر مذکور اگر چہ بظاہر کلام شاعر ہی سمجھے جاٗئیں گے، مگر منشاء اس کلام کا اس کا وہ کمال نہ ہو گا جس کو کمال شاعرانہ اورقوت فصاحت وبلا غت کہتے ہیں ، ایسے ہی تورات کو بھی بہ نسبت خدا خیال فر ما لیجئے ، اور شائد یہی وجہ ہو ئی کہ دعوائے اعجاز تورات وانجیل نہ کیا گیا ؛ ورنہ ظاہر ہے کہ اس معجزے سے بڑھ کر اور کو ئی معجزہ نہ تھا چنا چہ اوپر مذکور ہو چکا ۔

صاحب اعجاز علمی صاحب اعجاز عملی سے افضل ہے :
اور یہ اس وجہ کہ علم تمام ان صفات سے اعلیٰ ہے جو جو( کذا) مربی عالم ہے یعنی ان صفات کو عالم سےتعلق ہے جیسے علم وقدرت ، ارادہ ، مشیت ، کلام ؛ کیونکہ علم کو معلوم اور قدرت کو مقدور اور ارادہ کو مراد ، اور مشیت کو مر غوب اور کلام کو مخاطب کی ضرورت ہے ؛ اس لیے وہ نبی جس کے پاس معجزۂ علمی ہو، تمام ان نبیوں سے اعلیٰ درجہ میں ہو گا جو معجزہ عملی رکھتے ہوں گے ؛ کیونکہ جس درجہ کا معجزہ ہو گا ، وہ معجزہ اس بات پر دلات کرے گا کہ صاحب معجزہ اس درجہ میں یکتا ئےروز گار ہے ، اور اس فن میں بڑا سردار ہے ؛ اسلیے ہمارے حضرت رسول اللہ ﷺ کی افضلیت کا اقرار بشرط فہم وانصاف ضرور ہے ۔
کیا علوم ومعارف ہیں حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ کے سبحان اللہ
(مجموعہ افادات قاسمی)مَعدنُ الحقائق ، مخزن الدقائق ، مجمع المعارف ، مظہر اللطائف ، جامع الفیوض والبرکات قاسم العلوم والخیرات ، سیدی ومولائی حضرت مولانا مولوی محمد قاسم متعنا اللہ بعلومہ ومعارفہ
 
Last edited by a moderator:

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
چنا نچہ خود اہل کتاب اس بات کی معترف ہیں کہ الفاظ توریت وانجیل منزل من اللہ نہیں ، وہاں سے فقط الہام معا نی ہوا۔ اور یہاں اکثر انبیاء یا حواریوں نے ان کو اپنے الفاظ میں ادا کر دیا ۔
اور اپنا یہ اعتقاد ہے کہ الفاظ کتب سابقہ بھی اسی کی طرف سے ہیں
ہمارا یہ اعتقاد غیر متحرف کتاب الٰہی اور کلام انبیا ء کے بارے میں ہے ۔اب کی موجودہ کتب میں سے زبور کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں ۔ ہم بحیثیت مسلمان ( اللہ کے رسول ﷺ کے امتی)اللہ کے پیغمبروں میں کسی بھی پیغمبر کے بارے میں ایسے واہیات کلام کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔استغفر اللہ ثم استغفر اللہ ثم استغفرا للہ

زبور​

زبور میں انبیا کا کلام ۔زبور کی دوسری کتاب میں میر مغنی کے لیے شو شنیم کے سر پر نبی کو راح کا یہ پیغام!

" تیری معزز خواتین میں شہزادیاں ہیں ۔ ملکہ تیرے داہنے ہا تھ ۔ "اومنیر" کے سونے سے آراستہ کھڑی ہے ۔ اے بیٹی ! سن غور کر اور کان لگا ۔اپنی قوم اور اپنے باپ کے گھر کو بھول جا اور بادشاہ تیرے حسن کا مشتاق ہو گا ۔ کیونکہ وہ تیرا خدا وند ہے تو اسے سجدہ کر اور " صور" کی بیٹی ہدیہ لے کر حاضر ہو گی ۔ قوم کے دولت مند تیری رضا جوئی کریں گے ۔ با دشاہ کی بیٹی محل میں سر تا پا حسن افروز ہے ۔اس کا لباس " زر بفت " کا ہے ۔ و ہ بیل بو ٹے دار لباس میں با دشاہ کے حضورپہچائی جائے گی ۔اس کی کنواری سہیلیاں جو اس کے پیچھے چلتی ہیں ۔ تیرے سامنے حاضر کی جا ئیں گی۔

اس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کی امثال میں درج ہے ۔
"اور تیرے لب علم کے نگہبان ہو ں گے ۔
کیونکہ بےگانہ عورت کے لبوں سے شہد ٹپکتا ہے ۔
اور اس کا منہ تیل سے زیادہ چکنا ہے۔
اور تو اپنی جوانی کی بیوی کے ساتھ شاد رہ۔
پیاری ہر نی اور دلفریب غزال کی ما نند اس کی چھا تیاں تجھے ہر وقت آسودہ کریں "
آگے چل کے حضرت سلیمان علیہ السلام کی " غزل الغزالات " میں یو ں تحریر ہے
وہ اپنے منہ کے چو موں سے مجھے چو مے
کیونکہ تیرا عشق مئے سے بہتر ہے
تیرے عطر کی خوشبو لطیف ہے
تریا عطر ریختہ ہے
میرا محبوب میرے لیے دستۂ مر ہے
جو رات بھر میری چھا تیوں کے درمیان پڑا رہتا ہے ۔
میرا محبوب میرے لیے عین جدی کے انگورستان سے مہندی کے پھولوں کا گچھا ہے
دیکھ تو خوبرو ہے اے میری پیاری !
دیکھ تو خوبصورت ہے ۔
تیری آنکھیں دو کبوتر ہیں
تمہارا پلنگ بھی سبز ہے
ویسی ہی میری محبوبہ کنواریوں میں ہے
جیسے سیب کے درخت بن کے درختوں میں
تیری دونوں چھا تیاں دو تو ام آہو بچے ہیں
اے دلہن ! تو لبنان سےے میرے ساتھ چلی آ
اے امیر زادی ! تیرے پا ؤں جو تیوں میں کیسے خوبصورت ہیں ،
تیری رانوں کی گو لائی ان پر زیوروں کی ما نند ہے
جن کو کسی استاد کاری گر نے بنایا ہو
تیری ناف گو ل پیالہ ہے
جس میں ملائی ہو ئی مٹی کی کمی نہیں
تیرا پیٹ گیہوں کا انبار ہے
جس کے گرد اگرد سوسن ہوں
تیری دونون چھا تیاں دو آہو بچے ہیں
جو تو ام پیدا ہوہو ئے
تیری گردن ہا تھی دانت کا برج ہیں
تیری آنکھیں بیت ربیم کےپاس اصبون کے چشمے ہیں
تیری ناک لبنان کے برج کی مثال ہے
اے محبوب! عیش وعشرت کے لیے تو کیسی جمیل اور جا نفزا ہے
تیری قامت کھجور کی ما نند ہے
اور تیری چھا تیاں انگور کے گچھے ہیں
اور میں ان کی شاخوں کو پکڑوں گا
میں نے کہا میں اس کھجور پر چڑھون گا
اور تیرے سانس کی خوشبو سیب کی سی ہو
اور تیرا منہ بہترین شراب کے ما نند ہو
آمیرے محبوب! کاش کہ تو میرے بھائی کے ما نند ہو تا
جس نے میری ماں کی چھا تیوں سے دودھ پیا
میں تجھے جب با ہر پا تی تو تیری مچھلیاں لیتی اور کو ئی مجھے حقیر نہ جا نتا
میں تجھے اپنی ماں کے گھر لے جاتی
وہ مجھے سکھاتی۔
میں انگوروں کے رس سے تجھے ممزوج پلاتی
اس کا با یاں ہاتھ میرے سر کے نیچے ہو تا
اور داہنا مجھے گلے لگاتا۔
ہماری ایک چھوٹی بہن ہے
ابھی اس کی چھا تیاں نہیں اٹھیں۔
جس روز اس کی بات چلے
ہم اپنی بہن کے لیے کیا کریں۔
اگر وہ دیوار ہو تو ہم اس پر چاند کا برج بنائیں گے
میں دیوار ہوں اور میری چھا تیاں برج ہیں"۔
یہ تھی حضرت سلیمان علیہ السلام کی غزل الغزلات " جسے سینکڑوں سال سے مہذب اقوام کی ایک بہت بڑی اخلاقی دستاویز کا درجہ حاصل ہے ۔(منقول)
 
Last edited:
Top