حضرت مولانا احمد حسن امروہی رحمۃ اللہ علیہ

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت مولانا احمد حسن امروہی رحمۃ اللہ علیہ​
حضرت مولانا احمد حسن امروہی رحمۃ اللہ علیہ امروہہ کی ایک عظیم المرتبت ،ذی وقار وذی اعتبار شخصیت تھے۔آپ بر صغیر ہند وپاک کے نا مور محدث اور دارالعلوم دیوبند کے نامور اکابر علماء میں سے تھے۔جن پر بجا طور پر قوم وطن کو فخر وناز ہو تا ہے ۔آپ امروہہ کے مشہور ومعزز خاندان رضویہ کے چشم وچراغ تھے۔ امروہہ میں آپ کے مورث اعلیٰ ابو الفتح حضرت شاہ ابن بدر چستؒ ہیں جو عہد اکبری کے ایک ممتاز ومنفرد بزرگ عہد تھے۔ آپ کے بارے میں پروفیسر خلیق احمد نظامی نے لکھا ہے ۔
"دسویں صدی ہجری میں امروہہ کے علمی اور روحانی مطلع پر حضرت شاہ بن بدر چشتی بدرمنیر کی طرح نمودار ہو ئے اور
ساری فضا میں پھر روشنی اور توانا ئی پیدا ہو گئی ۔ان کے آستانۂ فیض پر دور ور سےتشنگان معرفت کھنچ آئے "۔
حضرت شاہ ابن بدر چشتی کے واسطہ سے حضرت مولانا احمد حسن امروہی کا سلسلۂ نسب حضرت امام علی مو سیٰ رضا سے متصل ہو تا ہے جو اس طرح ہے ۔
"حضرت سید مولانا احمد حسن محدث امروہی ابن مولوی اکبر حسین ابن سید نبی بخش ابن سید محمد حسین ابن پیر سید محمد حسن ابن سیف اللہ ابن ابو المعالی ابن ابو المکارم ابن حضرت شاہ ابو االقاسم ابن حضرت شاہ ابن بدر چست ابن سید احمد گنج رواں ابن سید محمد ابن سید طیفور ابن سید شہاب الدین ابن امیر سید محمد ابن سید محمود ابن سید احمد ابن سید عبد الخالق ابن سید محمد ابن سید احمد زاہد ابن سید عبد اللہ محمد ابن سید محمود ابن سید جنید ابن سید علی ابن سید معروف ابن سید ابو الشکر عبد العزیز ابن سید عبد الرحمن ابن سید عبد اللہ ابن سید مو سیٰ ابن سید ابرا ہیم ابن حضرت امام علی رضا "۔
اس علمی اور بزرگ خانوادے میں مولوی سید اکبر حسین کے دولت خانہ پر ۱۲۶۷ھ / ۱۸۵۰ء کو حضرت مولانا احمد حسن محدث امروہی نے آنکھیں کھولیں۔ ابتداً مولوی سید رافت حسین حسینی ساکن دربار کلاں ، مولوی کریم بخش نخشبی ، مولوی سید محمد حسین جعفری ساکن محلہ چاہ شوروغیرہ عربی وفارسی ادبیات کی تحصیل کی ۔اس کےبعد دارا لعلوم دیوبند جا کر حضرت مولانا محمد قاسم صاحب صدیقی نانوتویؒ سے علم وفن کی تکمیل وتحصیل کی ۔جب حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ زیارت حرمین شریفن کو تشریف لے گئے تو آپ امروہہ آگیے اور یہاں مولانا حکیم علی خان سے فن طب کی تحصیل کی ، جب مولانا قاسم صاحب نا نو تویؒ حج کی سعادت سے بہررہ ور ہو کر وطن واپس ہندوستان تشریف لائےتو آپ پھر حضرت مولاانا قاسم صاحب نا نو توی کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور دورۂ حدیث کی تکمیل کے بعد سند حدیث حاصل کی ،اور اس فن میں وہ کمال وامتیاز حاصل کیا کہ آپ کے اساتذہ بھی آپ پر فخر کرتے تھے۔
مؤرخ امروہہ محمود احمد عباسی لکتے ہیں:
" کمالات وفضائل کا ذخیرہ وافر فراہم کرکے تبحر علمی میں وہ درجہ پایا کہ محترم استاد کو اپنے شاگرد رشید بلکہ مرید وجانشین کی ذات گرامی پر بجا طور پر فخر وناز تھا "
حضرت مولانا محمد قاسم نا نوتوی صدیقی کے علاوہ آپ ک اساتذہ میں مولانا احمدعلی سہارن پوری ؒ ،قاری عبد الرحمن پا نی پتیؒ ،اور موانا عبد القیوم صاحب دہلویؒ جیسے با کمال اور جید علماء کرام شامل ہیں جب آپ حج کو تشریف لے گیے تو وہاں حضرت مولانا حاجی امدا داللہ مہا جر مکیؒ سے شرف بیعت کی سعادت حاصل کی اورحضرت مولانا شاہ عبد الغنی دہلوی مجددی مہاجر مدنی ؒ سے حدیث کی سند حاصل کی ۔
علوم ومعارف اور تمام فنون میں کمالات حاصل کر نے کے بعد درس وتدریس کا مشغلہ اختیار کی اور خورجہ ، سنبھل ، مراد آباد وغیرہ سے تدریسی خدمات کا سلسلہ شروع کیا، پھر مدرسہ شاہی مرادآباد میں ایک طویل عرصہ تک تشنگان علوم حدیث وقرآن کو فیضیاب وسیراب کیا ۔۱۳۰۱ھ میں اپنے وطن امروہہ تشریف لائے اور مدرسہ اسلامیہ عربیہ واقع جامع مسجد امروہہ میں تا زیست حدیث وقرآن کی خدمات انجام دیں ۔ اس مدرسہ کی بنیاد آپ ے استاد محترمحضرت مولانا محمد قاسم صاحب صدیقی نا نو تویؒ کے دست مبارک سے رکھی گئی تھی۔
مولانا احمد حسن محدث امروہیؒ کی ذات والا صفات نے مدرسہ کو وہ ترقی اور عروج عطا کیا جس کا فیض ایک عالم کو سیراب کر گیا ۔اس مدرسہ میں مولانا احمد حسن محدث امروہؒی کے درس میں شامل ہو نے کے لیے سر حد افغانستان بلک بخارا وترکستان ، بہار وبنگال ، سلہٹ اور آسام ، بر ما ،دکن ومدراس وغیرہ سے تشنگابن علم حدیث آئے اور سال وسال؛ مولانا احمد حسن محدث امروہیؒ کے فیوض سے فیضیاب ہو کر اپنے وطن واپس آکر علم حدیث وقرآن کی خدمات انجام دیتے۔ الحمد للہ ! حضرت مولانا احمد حسن محدث امروہی ؒ کا یہ با برکت فیض آج بھی پوری آب وتاب کے ساتھ جاری ہے
حضرت حافظ عبد الرحمن صاحب صدیقی مفسر امروہی ؒ ، حضرت مولانا عبد الغنی پھلاودی متخلص بہ حافظؒ ، مولانا سید رضا حسن رضوی امروہی ؒ ، مولانا حکیم امین الدیں خاں شاہ آبادیؒ پرنسپل طبیہ کالج دہلی، بابائے طب حکیم فرید احمد عباسی ، مولانا حکیم مختار احمد سدیقی امروہی ساکن بریلی ، مولانا حکیم ظہور الحق صدیقیؒ ، مولانا انورا لحق عباسیؒ ، حکیم سید حامد حسن رضوی افسر الاطباء حیدر آباد، مولانا غلام یحیی صاحب ؒ سابق صدر مدرس مدرسہ ال الہیہات کان پور ، مولانا محمود حسن سہسوانیؒ سابق صدر مدرس مدرسہ شاہی مرادآباد وغیرہ ۔
افسوس صد افسوس ! ۲۹/ ربیع الاول ۱۳۳۰ھ / ۱۸/ مارچ ۱۹۱۲ء کو سرزمین امروہہ کا یہ دریائے علم وعرفان اپنے تمام عقید مندوں شاگردوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔ جس کا با برکت وجود مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم رحمت تھا۔
حضرت مولانا احمد حسن محدث امروہی ؒ کی اولاد میں ایک فرزند مولانا سد محمد عرف بننے میاں تھے اور دو لڑکیا ں تھیں ۔ مولانا سید محمد عرف بننے میاں بھی اپنے وقت کے بڑے علماء میں سے تھے۔ مدرسہ اسلامیہ عربیہ دار العلوم چلہ کے با نیین میں سے تھے۔ مولانا سید محمد عرف بننے میاں صاحب کے آٹھ فرزند ہو ئے جن کے نام اس طرح ہیں :
سید احمد؛ آل احمد م سردار احمد، پروفیسر سید وقار رضوی، زبیر رضوی ، آفتاب احمد، سلطان احمد اور مسعود احمد،ان میں پروفیسر سید وقار ضوی پا کستان میں اپنے وقت کے ذی علم ادیب ونقاد ہیں ، کئی اہم کتابوں کے مصنف ہیں ۔ اور زبیر رضوی صاحب عالمی شہرت یا فتہ شاعر اور نقاد ادیب ہیں ۔ اردو زبان کے کئی اہم علمی اداروں کے سر پرست اور عہدہدار رہے ہیں ۔ آج اردو دنیا میں آپ کی ذات گرامی سے امروہہ کا نام شعری میدان میں روشن وتا بندہ ہے ۔
آخر میں حضرت مولانا احمد حسن محدث امروہی ؒ کے ایک شاگر رشید شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن نے جو آپ کی وفات حسر آیات پر تعزیتی قطعہ تاریخ لکھا ہے ۔ وہ یہاں نقل کیا جاتا ہے ۔

گم ہوئی ہے آج صد حسرت ہمارے ہا تھ سے
حضرت قاسم نشانی دے گئے تھے اپنی جو

سید العلماء امام اہل عقل واہل نقل
پاک صورت ، پاک سیرت ، صاحب خلق نکو

معدم علم وحکم سرِ دفتر اہل کمال
عازم خلدِ بریں ہے جس کو چلنا ہے چلو

جب شبیہ قاسمی سے بھی ہوئے محروم ہم
تمھیں بتلادو کہ پھر ہم کیا کریں اے دوستو

درد یہ پہنچا ہے سب کو اس کا منکر کون ہے
ہاں مگر ایک فرق ہے تھوڑا سا گر میرے سنو

لوگ کہتے ہیں چلے علامۂ احمد حسن
اورمیں کہتا ہوں وفات قاسمی ہے ہو نہ ہو

کا مل واکمل سبھی موجود ہیں پر اس کو کیا
جو کہ مشتاقِ ادائے قاسم خیرات ہو

اپنی اپنی جائے پر قائم ہیں سب اہل کمال
پر جگہ استاد کی خالی پڑی ہے دیکھ لو

ہاں جنونِ اتحادِ قاسم میں با رہا
تم کو ہم کہتے تھے من اور آپ کو کہتے تھے تو

مجمعِ حسرت قرین درد وغم میں میں بھی تھا
فکر میں تاریخ کے سب نے کیا جب سر فرو

بادلِ پُریاس آئی کان میں میرے صدا
حک ہو ئی تصویر قاسم صفحۂ دنیا سے لو
۱۳۳۰ھ؁
مشاہیر امروہہ​
 
Top