اللہ پر ایمان لانا

اسرار حسین الوھابی

وفقہ اللہ
رکن
اللہ پر ایمان لانا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

‏ٱللَّهُ لَآ إِلَهَ إِلَّا هُوَ ٱلْحَىُّ ٱلْقَيُّومُ……وَهُوَ ٱلْعَلِىُّ ٱلْعَظِيمُ
(البقرہ: ۲۵۵)


اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ زندہ ہے ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند، جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اسی کی ملک ہے، کون ایسا ہے جو اس کے سامنے اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہو چکا ہے وہ سب کو جانتا ہے۔ اور وہ (لوگ) اس کے علم میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے، ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے، اس کی کرسی آسمانوں اور زمین پر حاوی ہے۔ اور اسے ان کی نگرانی ذرا بھی نہیں تھکاتی، اور وہ بہت عالی شان اور نہایت عظیم الشان ہے۔

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:

هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ……وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ۔
(الحشر: ۶۳-۶۴)


وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والا ہے وہ بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بادشاہ (حقیقی) پاک (ذات) سلامتی والا، امن دینے والا نگہبان، غالب، زبردست اور بڑائی والا ہے۔ وہ ان لوگوں کے شرک سے بہت پاک ہے وہی اللہ (تمام مخلوقات کا) خالق، ایجاد واختراع کرنے والا اور صورتیں بنانے والا ہے، اسی کے سب اچھے اچھے نام ہیں، آسمانوں اور زمین میں جتنی چیزیں ہیں سب اسی کی تسبیح کرتی ہیں اور وہ بہت غالب اور حکمت والا ہے۔

ان آیات سے اللہ پر ایمان کا علم ہوتا ہے:
  • کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے تھا اس کے ساتھ یا اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی۔
  • اللہ تعالیٰ اونگھ، نیند، ظلم، غفلت، عاجزی اور تھکاوٹ سے پاک ہے۔
  • اللہ تعالیٰ اپنی صفات ربوبیت، خالق، مالک، رازق، اور متصرف الامور ہونے میں اکیلاہے۔
  • اس طرح الوہیت وعبادت کی تمام اقسام نماز، رکوع، سجدہ، قربانی، نزرو نیاز، استغاثہ، دعا، پکار، حاجت روائی، مشکل کشائی، تحلیل وتحریم، قانون سازی، حاکمیت واطاعت صرف اللہ کیلئے خاص ہے۔
  • اس طرح اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات صرف اس کے لیے خاص ہیں وہی سمیع وعلیم اور عالم الغیب ہے۔
  • اللہ تعالیٰ کی صفات مثلاً صفت کلام، صفت علو، صفت استوا، صفت محبت، خوشنودی، ناگواری وغضب، اللہ کی عین (آنکھ)، ید (ہاتھ)، وجہ (چہرہ)، ساق(پنڈلی) اور آخرت میں دیدار وغیرہ پر جس کا ذکر اللہ نے اپنے کلام میں کیا ہے اس پر اسی طرح ایمان لانا واجب ہے۔ جس طرح کہ وہ مذکور ہیں۔اور ان صفات کے متعلق تشبیہ وتمثیل، تکیف وتاویل اور تعطیل جائز نہیں۔ یہ صفات اسی طرح ہیں جیسے اس کی شان وعظمت کے لائق ہیں۔
  • ایمان باللہ، توحید کی سات شروط ہیں جن کو ایمان باللہ کے اقرار سے پہلے پورا کرنا ضروری ہے یہ سات شروط یہ ہیں: علم، تسلیم، یقین، اخلاص، صدق، محبت اور انقیاد۔
  • ایمان باللہ کے چھے ارکان ہیں: اللہ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، کتابوں پر ایمان، رسولوں پر ایمان، آخرت پر ایمان اور تقدیر پر ایمان۔ اللہ پر ایمان لانا توحید کہلاتا ہے اور توحید کے ارکان میں شرک اور طاغوت کا انکار اور اللہ واحد کی عبادت پر ایمان لانا شامل ہے۔
  1. پہلا رکن: طاغوت کا انکار
  2. دوسرا رکن: اللہ واحد پر ایمان
ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ۔ (البقرہ: ۲۵۶)

پس جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا پس اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو ٹوٹنے والا نہیں۔

  • اللہ کی توحید کو نہ ماننا یا اس میں شرک کرنا ایمان سے خارج کرد یتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی ربوبیت، الوہیت اور اسماء وصفات میں شرک کرنا ایمان باللہ کے نواقض میں سے ہے۔ اللہ کے ساتھ اتحاد و حلول کا نظریہ رکھنا اور غیراللہ سے تصرف واستغاثہ کی امید رکھنا، سجدہ، قربانی اور نذر کو ان کے لئے ادا کرنا ایمان باللہ اور توحید سے خارج کرنے والے امور ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات میں غیراللہ کو شریک کرنا یا ان کا انکار کرنا بھی ناقص ایمان اور کفر ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ۔
(النساء: ۱۱۶)

بے شک اللہ یہ گناہ ہرگز نہیں بخشتا کے اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور وہ اس کے سوا جسے چاہے معاف کر دیتا ہے۔


فرشتوں پر ایمان
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
آنکھ)، ید (ہاتھ)، وجہ (چہرہ)، ساق(پنڈلی) اور آخرت میں دیدار وغیرہ پر جس کا ذکر اللہ نے اپنے کلام میں کیا ہے اس پر اسی طرح ایمان لانا واجب ہے۔ جس طرح کہ وہ مذکور ہیں۔اور ان صفات کے متعلق تشبیہ وتمثیل، تکیف وتاویل اور تعطیل جائز نہیں۔
ہم اہلسنت کے نزدیک اللہ ان اعضاء سے منزہ ہے ان کا ظاہری معنی مراد نہیں بس اتنا ایمان کافی ہے ان سے جو مراد اللہ تعالیٰ کی ہے وہ حق ہے(شرح المقاصد229ج3
 

اسرار حسین الوھابی

وفقہ اللہ
رکن
آنکھ)، ید (ہاتھ)، وجہ (چہرہ)، ساق(پنڈلی) اور آخرت میں دیدار وغیرہ پر جس کا ذکر اللہ نے اپنے کلام میں کیا ہے اس پر اسی طرح ایمان لانا واجب ہے۔ جس طرح کہ وہ مذکور ہیں۔اور ان صفات کے متعلق تشبیہ وتمثیل، تکیف وتاویل اور تعطیل جائز نہیں۔
ہم اہلسنت کے نزدیک اللہ ان اعضاء سے منزہ ہے ان کا ظاہری معنی مراد نہیں بس اتنا ایمان کافی ہے ان سے جو مراد اللہ تعالیٰ کی ہے وہ حق ہے(شرح المقاصد229ج3


امام اہل سنت عثمان بن سعید الدارمی رحمہ اللہ (متوفی ۲۸۰ ھ) اپنی کتاب 'الرد على الجهمية' میں فرماتے ہیں:

وَنُكَفِّرُهُمْ أَيْضًا بِالْمَشْهُورِ مِنْ كُفْرِهِمْ أَنَّهُمْ لَا يُثْبِتُونَ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَجْهًا وَلَا سَمْعًا وَلَا بَصَرًا وَلَا عِلْمًا وَلَا كَلَامًا وَلَا صِفَةً إِلَّا بِتَأْوِيلِ ضُلَّالٍ۔

"اور ہم جہمیہ کی ان وجوہات کے باعث بھی تکفیر کرتے ہیں جو ان کی کفریات میں سے مشہور ہیں کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے چہرہ، سمع، بصر، علم، کلام اور کسی بھی صفت کا اثبات نہیں کرتے اِلا کہ وہ اس کی غلط تاویل کرتے ہیں۔"

وقال أَبُو القاسم بن منده في كتاب الرد على الجهمية : التأويل عند أصحاب الحديث : نوع من التكذيب

اہل سنت کے ایک امام ابن مندہ رحمہ اللہ جہمیہ کے رد میں لکھی گئی اپنی کتاب میں فرماتے ہیں کہ " (غلط) تاویل اصحاب الحدیث کے ہاں تکذیب ہی کی ایک قسم ہے۔"

ابو نصر سجزی( متوفی ۴۴۴ ھ) نےکہا :

"ومنكر الصفة كمنكر الذات، فكفره كفر جحود لا غير"

اور منکرِ صفت كا حكم منكرِ ذات ہے، اس کا کفر، کفر جحود ہی ہے اور کچھ نہیں۔


(رسالة السجزي إلى أهل زبيد في الرد على أنكر الحرف والصوت، ص:۱۵۳)

قال الإمام الترمذي : وقَدْ ذَكَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كِتَابهِ الْيَدَ وَالسَّمْعَ وَالْبَصَرَ ، فَتَأَوَّلَتْ الْجَهْمِيَّةُ هَذِهِ الْآيَاتِ فَفَسَّرُوهَا عَلَى غَيْرِ مَا فَسَّرَ أَهْلُ الْعِلْمِ ، وَقَالُوا : إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَخْلُقْ آدَمَ بِيَدِهِ ، وَقَالُوا : إِنَّ مَعْنَى الْيَدِ هَاهُنَا الْقُوَّةُ.

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے کئی مقامات پر ”ہاتھ، کان، آنکھ“ کا ذکر کیا ہے۔ جہمیہ نے ان آیات کی تاویل کی ہے اور ان کی ایسی تشریح کی ہے جو اہل علم کی تفسیر کے خلاف ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے آدم (علیہ الصلوۃ والسلام) کو اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا، اور وہ کہتے ہیں کہ دراصل ہاتھ کے معنی یہاں قوت کے ہیں۔ (سنن الترمذي)
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اور ہم جہمیہ کی ان وجوہات کے باعث بھی تکفیر کرتے ہیں جو ان کی کفریات میں سے مشہور ہیں کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے چہرہ، سمع، بصر، علم، کلام اور کسی بھی صفت کا اثبات نہیں کرتے اِلا کہ وہ اس کی غلط تاویل کرتے ہیں۔"
شکریہ اچھی پوسٹ ہے
مختصر فرقہ جہمیہ کا تعارف بھی لکھدیتے۔
 
Top