صحیح بخاری میں شعیہ راوی

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
احادیث کی کتب میں شعیہ راوی کثیر تعداد میں موجود ہیں اسی طرح بخاری میں بھی شعیہ راوی ہیں اسوقت شعیہ کو ایک سیاسی جماعت سمجھا جاتا رہا چنانچہ متقدمین کےنزدیک شیعہ اورروافض میں بہت فرق ہے ۔ ان کامعاملہ آج کل کےشیعہ حضرات کی طرح نہ تھاکہ ان کے روافض کے مابین کچھ فرق وامتیاز نہیں رہا ۔ متقدمین کےنزدیک شیعہ سےمرادوہ لوگ تھے جوصرف تفضیل کے قائل تھے یعنی علی رضی اللہ عنہ کوعثمان رضی اللہ عنہ سےافضل جانتےتھے،اگرچہ عثمان رضی اللہ عنہ کوبرحق امام اورصحابی سمجھتے تھے۔اس طرح کے کچھ لوگ اہل سنت میں بھی گذرے ہیں جو علی رضی اللہ عنہ کوعثمان رضی اللہ عنہ سےافضل قراردیتےتھےلہذایہ ایسی بات نہیں جوبہت بڑی قابل اعتراض ہو۔ہاں کچھ غالی شیعہ شیخین ابوبکروعمررضی اللہ عنہما سےعلی رضی اللہ عنہ کوافضل سمجھتےتھےاگرچہ وہ شیخین رضی اللہ عنہماکےمتعلق اس عقیدہ کے حامل بھی تھے کہ وہ برحق امام اورصحابی رضی اللہ عنہم تھےلیکن علی رضی اللہ عنہ کوافضل قراردیتے تھے اوران کی بات زیادہ سےزیادہ بدعت کےزمرہ میں آتی ہے ۔اب آپ کتاب الایمان بخاری باب الایمان۔ وقول النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی الاسلام علی خمس حدثنا عبید اللہ بن۔موسی میرے سامنے کشف الباری مولانا سلیم اللہ خان رحمۃ اللہ کی جلد اول 636 یہ عبیداللہ ثقہ تھے البتہ کچھ اس میں تشیع تھا کہ ہی بات ابن حجر عسقلانی رحمہ اللّٰہ نے تقریب التہذیب جو میرے پاس ہے قدیمی کتخانے والی اسکی جلد اول صفحہ 640 ثقہ کان یتشیع اور میزان الاعتدال جلد5صفحی 20 ثقہ لکن شیعی یہ میرے پاس مکتبہ رحمانیہ والی ہے
صحیح مسلم (کتاب الایمان)
صحیح ترمذی (کتاب الصلاۃ)
سنن نسائی (کتاب السہو)
سنن ابو داؤد (کتاب الطہارۃ)
سنن ابن ماجہ (کتاب المقدمہ) ان کتب میں بھی اسکی روایات موجود ہیں عبد الملک بن اعین کوفی

حدثنا الحميدي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا سفيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا عبد الملك بن أعين،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وجامع بن أبي راشد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي وائل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من اقتطع مال امرئ مسلم بيمين كاذبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لقي الله وهو عليه غضبان ‏"‏‏.‏ قال عبد الله ثم قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم مصداقه من كتاب الله جل ذكره ‏ {‏ إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا أولئك لا خلاق لهم في الآخرة ولا يكلمهم الله‏}‏ الآية‏.‏ کتاب التوحید۔والرد علی الجہیمہ تقریب میں علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں صدوق شیعہ 613جلد1)صحیح مسلم (کتاب الایمان)
صحیح ترمذی (کتاب تفسیر القران)
سنن نسائی (کتاب الایمان و النذور)
سنن ابن ماجہ (کتاب الزکوۃ) دیگر کتب مذکورہ میں بھی اسکی روایات موجود ہیں میرے خیال میں اتنے ہی کافی ہیں باقی اور بھی شعیہ راوی موجود ہیں
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
احادیث کی کتب میں شعیہ راوی کثیر تعداد میں موجود ہیں اسی طرح بخاری میں بھی شعیہ راوی ہیں اسوقت شعیہ کو ایک سیاسی جماعت سمجھا جاتا رہا چنانچہ متقدمین کےنزدیک شیعہ اورروافض میں بہت فرق ہے ۔ ان کامعاملہ آج کل کےشیعہ حضرات کی طرح نہ تھاکہ ان کے روافض کے مابین کچھ فرق وامتیاز نہیں رہا ۔ متقدمین کےنزدیک شیعہ سےمرادوہ لوگ تھے جوصرف تفضیل کے قائل تھے یعنی علی رضی اللہ عنہ کوعثمان رضی اللہ عنہ سےافضل جانتےتھے،اگرچہ عثمان رضی اللہ عنہ کوبرحق امام اورصحابی سمجھتے تھے۔اس طرح کے کچھ لوگ اہل سنت میں بھی گذرے ہیں جو علی رضی اللہ عنہ کوعثمان رضی اللہ عنہ سےافضل قراردیتےتھےلہذایہ ایسی بات نہیں جوبہت بڑی قابل اعتراض ہو۔ہاں کچھ غالی شیعہ شیخین ابوبکروعمررضی اللہ عنہما سےعلی رضی اللہ عنہ کوافضل سمجھتےتھےاگرچہ وہ شیخین رضی اللہ عنہماکےمتعلق اس عقیدہ کے حامل بھی تھے کہ وہ برحق امام اورصحابی رضی اللہ عنہم تھےلیکن علی رضی اللہ عنہ کوافضل قراردیتے تھے اوران کی بات زیادہ سےزیادہ بدعت کےزمرہ میں آتی ہے ۔اب آپ کتاب الایمان بخاری باب الایمان۔ وقول النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی الاسلام علی خمس حدثنا عبید اللہ بن۔موسی میرے سامنے کشف الباری مولانا سلیم اللہ خان رحمۃ اللہ کی جلد اول 636 یہ عبیداللہ ثقہ تھے البتہ کچھ اس میں تشیع تھا کہ ہی بات ابن حجر عسقلانی رحمہ اللّٰہ نے تقریب التہذیب جو میرے پاس ہے قدیمی کتخانے والی اسکی جلد اول صفحہ 640 ثقہ کان یتشیع اور میزان الاعتدال جلد5صفحی 20 ثقہ لکن شیعی یہ میرے پاس مکتبہ رحمانیہ والی ہے
صحیح مسلم (کتاب الایمان)
صحیح ترمذی (کتاب الصلاۃ)
سنن نسائی (کتاب السہو)
سنن ابو داؤد (کتاب الطہارۃ)
سنن ابن ماجہ (کتاب المقدمہ) ان کتب میں بھی اسکی روایات موجود ہیں عبد الملک بن اعین کوفی

حدثنا الحميدي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا سفيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا عبد الملك بن أعين،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وجامع بن أبي راشد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي وائل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من اقتطع مال امرئ مسلم بيمين كاذبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لقي الله وهو عليه غضبان ‏"‏‏.‏ قال عبد الله ثم قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم مصداقه من كتاب الله جل ذكره ‏ {‏ إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا أولئك لا خلاق لهم في الآخرة ولا يكلمهم الله‏}‏ الآية‏.‏ کتاب التوحید۔والرد علی الجہیمہ تقریب میں علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں صدوق شیعہ 613جلد1)صحیح مسلم (کتاب الایمان)
صحیح ترمذی (کتاب تفسیر القران)
سنن نسائی (کتاب الایمان و النذور)
سنن ابن ماجہ (کتاب الزکوۃ) دیگر کتب مذکورہ میں بھی اسکی روایات موجود ہیں میرے خیال میں اتنے ہی کافی ہیں باقی اور بھی شعیہ راوی موجود ہیں

حضور عالی قدر لیکن رافضی اور شیعہ کی تقسیم کہان سے ملے گی؟ حوالہ درکار ہے۔۔
ثانیا رافضی اور شیعہ کی تعریف تو یہ ہی کرتےہیں کہ جو حضرت علی کو پہلے خلفاء
سے افضل مانتا ہو۔۔کیا تفضیل حضرت علی کا عقیدہ نصوص سے متصادم نہین؟؟
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
حضور عالی قدر لیکن رافضی اور شیعہ کی تقسیم کہان سے ملے گی؟ حوالہ درکار ہے۔۔
ثانیا رافضی اور شیعہ کی تعریف تو یہ ہی کرتےہیں کہ جو حضرت علی کو پہلے خلفاء
سے افضل مانتا ہو۔۔کیا تفضیل حضرت علی کا عقیدہ نصوص سے متصادم نہین؟؟
آجکل یہ دونوں ایک ہی ہیں وہ پہلے دور والی بات اب نہیں رہی بلکہ خباثت میں بڑھے ہوئے ہیں
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
شیعہ راویسوال:کیا صحیح بخاری میں شیعہ راوی موجودہیں اوریہ بھی وضاحت فرمائیں کہ کیا امام نسائی اورامام حاکم رحمہم اللہ بھی شیعہ تھے؟الجواب بعون الوھاب:ہاں واقعتاًصحیح بخاری میں کچھ شیعہ راوی ہیں لیکن متقدمین کےنزدیک شیعہ اورروافض میں بہت فرق ہے ان کامعاملہ آج کل کےشیعہ حضرات کی طرح نہ تھاکہ ان کے اور روافض کے مابین کچھ فرق وامتیاز نہیں بلکہ متقدمین کےنزدیک شیعہ سےمرادوہ لوگ تھے جوصرف تفضیل کے قائل تھے یعنی علی رضی اللہ عنہ کوعثمان رضی اللہ عنہ سےافضل جانتےتھے، اگرچہ عثمان رضی اللہ عنہ کوبرحق امام اورصحابی سمجھتے تھےمگراس طرح کے کچھ لوگ اہل سنت میں بھی گزرے ہیں جو علی رضی اللہ عنہ کوعثمان رضی اللہ عنہ سےافضل قراردیتےتھے لہٰذا یہ ایسی بات نہیں جوبہت بڑی قابل اعتراض ہوہاں کچھ شیعہ شیخین ابوبکروعمررضی اللہ عنہما سےعلی رضی اللہ عنہ کوافضل سمجھتےتھےاگرچہ وہ شیخین رضی اللہ عنہماکےمتعلق اس عقیدہ کے حامل بھی تھے کہ وہ برحق امام اورصحابی رضی اللہ عنہم تھےلیکن علی رضی اللہ عنہ کوافضل قراردیتے تھے اوران کی بات زیادہ سےزیادہ بدعت کےزمرہ میں آتی ہےاوراصول حدیث میں مبتدعین کی روایت کودرج ذیل شرائط سےقبول کیاگیا ہے:(1)وہ صدوق ہومتہم بالکذب نہ ہو، عادل ہو۔(2)وہ اپنی بدعت کی طرف داعی نہ ہو۔(3)اس کی روایت اس کی بدعت کی مؤیدنہ ہو۔باقی روافض وہ تومتقدمین کے نزدیک وہ تھے جوعلی رضی اللہ عنہ اورکچھ دیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ دیگرتمام صحابہ کومعاذاللہ بےدین اورغاصب وغیرہ کہتے رہتے ہیں گویاان لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ دیگرکوترک کردیاہےاس طرح کےشخص کی روایت قطعاًغیرمقبول ہے۔شیعیت اوررافضیت کی یہ تحقیق علامہ امیرعلی نے اپنی کتاب تقریب التہذیب کے حاشیہ کےمتصل بعدیعنی تقریب کے ساتھ متصل شامل کردیاہے، اس میں اس کے متعلق دوسرے کئی
فتاوی رشیدیہ 539
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
کتب احادیث میں شیعہ روایوں سے روایت
-------------------------------------
احادیث کی اکثر کتابوں میں شیعہ راویوں سے بھی روایت لی گئی ہے اور منکرین حدیث کا حدیث پر ایک بڑا اعتراض یہ بھی ہے کہ شیعہ راویوں سے روایت کیوں؟ مثلا صحیح بخاری ہی کو لے لیں کہ اس کی تدوین تیسری صدی ہجری کے نصف اول میں ہوئی ہے۔ اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تیسری صدی ہجری کے نصف اول میں جو تشیع تھا، کیا وہ یہی تھا جو آج چودھویں صدی ہجری میں ہے؟

محدثین نے شیعہ راویوں سے روایت اس لیے لی ہے کہ شروع میں تشیع محض ایک سیاسی رجحان تھا جو بنو امیہ کے مقابلے میں اہل بیت کے لیے مسلمانوں کے بعض گروہوں میں موجود تھا۔ اور اس رجحان نے بہت بعد میں غلو کی صورت میں رافضیت کی شکل اختیار کی ہے۔

پس شروع میں تشیع دو قسم کا تھا۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ترجیح دیتے تھے لیکن یہ شیخین ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل مانتے تھے۔ اور دوسرا غالی گروہ وہ تھا کہ جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مطلق فضیلت کے قائل تھے۔

لیکن ان دونوں گروہوں میں سے کوئی بھی شیخین یعنی ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما یا ازواج مطہرات یا صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعن کو سب وشتم نہیں کرتے تھے۔ پس بخاری ومسلم میں کسی ایسے شیعہ راوی کی روایت نہیں ہے کہ جو رافضی ہو یا شیخین اور ازواج مطہرات پر لعن طعن کرتا ہو وغیرہ۔ اور محدثین نے تو یہ بھی اہتمام کیا ہے کہ مذکورہ بالا دو گروہوں میں سے اس شیعہ روای سے بھی روایت نہیں لی ہے کہ جو اپنے عقیدے کا داعی اور مبلغ ہو۔

شارح بخاری اور معروف محدث علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ فرماتے ہیں: التشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان، وأن عليا كان مصيبا في حروبه، وأن مخالفه مخطئ، مع تقديم الشيخين وتفضيلهما، وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا، لا سيما إن كان غير داعية. وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض ، فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة انتهى. "تهذيب التهذيب" (1/81)

مزید اگر کسی کو شیعہ راوی سے محدثین کے روایت کرنے کے اصولوں کے بارے جاننے کا اشتیاق ہو تو اس موضوع پر محمد خلیفہ الشرع کی کتاب "منهج الإمامين البخاري ومسلم في الرواية عن رجال الشيعة في صحيحيهما" اور کریمہ سودانی کی کتاب "منهج الإمام البخاري في الرواية عن المبتدعة من خلال الجامع الصحيح : الشيعة أنموذجا" کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
رافضی کے معنی تتر بتر ہونا، بکھر جانا، منتشر ہونا اور تعصب برتنا ہے۔(القاموس الوحید )
انہی معنوں میں اہل تشیع میں سے جو لوگ اپنے امام کو چھوڑ دیں اور منتشر ہوں انہیں رافضی کہا جاتا ہے۔

  • قاضی سلیمان منصورپوری لکھتے ہیں جب زید الشہید کے مقابلے میں یوسف ثقفی لشکر لایا تو یہ سب لوگ امام کو چھوڑ کر بھاگ گئے تو زید شہید نے فرمایا رفضونا الیوم تو اس دن سے شیعہ کا نام رافضی پڑا[2](رحمۃ للعالمین جلد دوم قاضی محمد سلیمان منصور پوری صفحہ 375مرکز الحرمین الاسلامی فیصل آباد)
  • جب اہل عراق نے زین العابدین کے صاحبزادے امام زید شہید سے ابوبکر و عمر کی تعریف سنی تو کہنے لگے آپ ہمارے امام نہیں ہیں امام بھی ہمارے ہاتھ سے گیا جس پر امام زیدشہید نے کہارفضونا الیوم ہمیں آج کے دن سے ان لوگوں نے چھوڑ دیا(آج سے یہ رافضی بن گئے) اس دن سے اس جماعت کو رافضی کہا جاتا ہے۔[3]( ناسخ التواريخ۔ مرزه تقی خان ،ج 2 ،ص 590.
 
Top