کرونا کے مریضوں کا دوسرے لوگوں کے ساتھ میل جول حرام ہے : مفتی اعظم

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
کرونا کے مریضوں کا دوسرے لوگوں کے ساتھ میل جول حرام ہے : مفتی اعظم​

ریاض ۔۲۳ / اپریل ( ایجنسی ) سعودی عرب کے مفتی اعظم اور کبار علما کونسل کے چیئر مین الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل شیخ نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کے شکارافراد کا دوسروں کے ساتھ میل جول رکھا حرام ہے
انہوں نے شہریوں اور غیر ملکیوں پر زور دیا ہے کہ وبا کی روک تھام کے لیے حکومت اور سرکاری اداروں کی طرف سے وضع کردہ شرائط اور ضوابط پر سختی کے ساتھ عمل کریں ۔ایک مفصل بیان میں مفتی اعظم سعودی عرب نے انسانی صھت کے تحفظ کے لیے دین اسلام کی تعلیمات اور ہدایات پر روشنی ڈالی ۔ ان ا کہنا تھا کہ صحت اللہ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک گراں قدر نعمت ہے ۔ ہر انسان اکو اس کی قدر کرنی چاہئے ، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ دو نعمتیں لوگوں کو بے حد مر غوب ہیں ۔ایک صحت اور دوسری فراغت ۔ جسمانی صحت عظیم نعمت ہے اور ہر انسان کو اس کی عظمت کا ادراک ہو نا چاہئے۔
اس لیے وباکے دنوں میں لوگوں کو چاہئے کہ وہ بیماری پھیلنے سے بچنے خود کو بچائے اور دوسروں کو بھی اس سےتحفظ دینے کی کو ششش کرے۔ اسلام وبا کے شکار افراد سے صحت مند افراد کی جانوں کی تحفظ پر زور دیتاہے ۔اس لیے شہریوں کو چاہئے کہ وہ اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہو ئے اپنی اور دوسروں کی حفاظت کرے ۔ وبا سے بچنے کے لے جسمانی صفائی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے ۔حضرت محمد ﷺ کا اس حوالے سے ارشاد گرامی ہے کہ صفائی ایمان کا حصہ ے ۔اس کے ساتھ ساتھ بیماری کے شکار افراد دوسرے لوگوں سے دور رہیں ۔اگر کوئی شخص مصدقہ طور پر وبا کا شکار ہو چکا ہے تو اسے چاہئے کہ کہ وہ " خود کو ہلاکت میں نہ دالو " کے قرآنی فرمان پر عمل کرے۔ (سالار)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2143

حدثنا بندار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن عمارة بن القعقاع، حدثنا ابو زرعة بن عمرو بن جرير، قال: حدثنا صاحب لنا، عن ابن مسعود، قال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " لا يعدي شيء شيئا "، فقال اعرابي: يا رسول الله، البعير الجرب الحشفة ندبنه فيجرب الإبل كلها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فمن اجرب الاول، لا عدوى ولا صفر، خلق الله كل نفس وكتب حياتها ورزقها ومصائبها "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي هريرة، وابن عباس، وانس، قال: وسمعت محمد بن عمرو بن صفوان الثقفي البصري، قال: سمعت علي بن المديني، يقول: لو حلفت بين الركن والمقام، لحلفت اني لم ار احدا اعلم من عبد الرحمن بن مهدي۔

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”کسی کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی“، ایک اعرابی (بدوی) نے عرض کیا: اللہ کے رسول! خارشتی شرمگاہ والے اونٹ سے (جب اسے باڑہ میں لاتے ہیں) تو تمام اونٹ (کھجلی والے) ہو جاتے ہیں“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر پہلے کو کس نے کھجلی دی؟ کسی کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی ہے اور نہ ماہ صفر کی نحوست کی کوئی حقیقت ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر نفس کو پیدا کیا ہے اور اس کی زندگی، رزق اور مصیبتوں کو لکھ دیا ہے“ ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں ابوہریرہ، ابن عباس اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9640)، وانظر مسند احمد (1/440) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، سند میں ایک راوی ”صاحب لنا“ مبہم ہے، اور ہو سکتا ہے کہ یہ ابوہریرہ رضی الله عنہ ہوں، ابو زرعہ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں، نیز مسند احمد (2/327) میں یہ حدیث بواسطہ ابو زرعہ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے موجود ہے)»

وضاحت: ۱؎: اس باب میں زمانہ جاہلیت کی تین باتوں کی نفی کی گئی ہے، اور اس حدیث میں متعدی مرض اور صفر کے سلسلے میں موجود بداعتقادی پر نکیر ہے، اہل جاہلیت کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور فیصلے کے بغیر بیماری خود سے متعدی ہوتی ہے، یعنی خود سے پھیل جاتی ہے، اسلام نے ان کے اس اعتقاد باطل کو غلط ٹھہرایا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لاعدوى» یعنی ”بیماری خود سے متعدی نہیں ہوتی“، اور اس کے لیے سب سے پہلے اونٹ کو کھجلی کی بیماری کیسے لگی، کی بات کہہ کر سمجھایا اور بتایا کہ کسی بیماری کا لاحق ہونا اور اس بیماری سے شفاء دینا یہ سب اللہ رب العالمین کے حکم سے ہے وہی مسبب الاسباب ہے۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر سے ہوتا ہے، البتہ بیماریوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اسباب کو اپنانا مستحب ہے، «ھامہ» یعنی الو کا ذکر باب میں ہے، اس حدیث میں نہیں ہے، بلکہ دوسری احادیث میں ہے آیا ہے، الو کو دن میں دکھائی نہیں دیتا ہے، تو وہ رات کو نکلتا ہے، اور اکثر ویرانوں میں رہتا ہے، عرب لوگ اس کو منحوس جانتے تھے، اور بعض یہ سمجھتے تھے کہ مقتول کی روح الو بن کر پکارتی پھرتی ہے، جب اس کا بدلہ لے لیا جاتا ہے تو وہ اڑ جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال کو باطل قرار دیا، اور فرمایا: «و ولاهامة»، آج بھی الو کی نحوست کا اعتقاد باطل بہت سے لوگوں کے یہاں پایا جاتا ہے، جو جاہلیت کی بداعتقادی ہے، اسی طرح صفر کے مہینے کو جاہلیت کے زمانے میں لوگ منحوس قرار دیتے تھے، اور جاہل عوام اب تک اسے منحوس جانتے ہیں، صفر کے مہینے کے پہلے تیرہ دن جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تھے ان ایام کو تیرہ تیزی کہتے ہیں، ان میں عورتیں کوئی بڑا کام جیسے شادی بیاہ وغیرہ کرنے نہیں دیتیں، یہ بھی لغو ہے، صفر کا مہینہ اور مہینوں کی طرح ہے، کچھ فرق نہیں ہے۔ یہ بھی آتا ہے کہ عرب ماہ محرم کی جگہ صفر کو حرمت والا مہینہ بنا لیتے تھے، اسلام میں یہ بھی باطل، اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ عربوں کے اعتقاد میں پیٹ میں ایک سانپ ہوتا تھا جس کو صفر کہا جاتا ہے، بھوک کے وقت وہ پیدا ہوتا ہے اور آدمی کو ایذا پہنچاتا ہے، اور ان کے اعتقاد میں یہ متعدی مرض تھا، تو اسلام نے اس کو باطل قرار دیا
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جناب ہر طرح کی خواتین کے احوال پر روشنی ڈالنا آپ ہی پر جچتا ہے۔
اسلام نے مردوں کو عورتوں سے پردے کی اوٹ سے بات کرنے کا حکم دیا تاکہ عورتوں کو تحفظ فراہم ہو اور مردوں کے دل میں غلط خیال نہ پیداہو۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وإذا سألتموهن متاعاً فاسألوهن من وراء حجاب ذلكم أطهر لقلوبكم وقلوبهن.(الأحزاب 53)
ترجمہ: اور جب تمہیں ازواج نبی سے کوئی چیز مانگنا ہو تو پردہ کے پیچھے رہ کر مانگو۔ یہ بات تمہارے دلوں کے لئے بھی پاکیزہ تر ہے اور ان کے دلوں کے لئے بھی۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2143

حدثنا بندار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن عمارة بن القعقاع، حدثنا ابو زرعة بن عمرو بن جرير، قال: حدثنا صاحب لنا، عن ابن مسعود، قال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " لا يعدي شيء شيئا "، فقال اعرابي: يا رسول الله، البعير الجرب الحشفة ندبنه فيجرب الإبل كلها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فمن اجرب الاول، لا عدوى ولا صفر، خلق الله كل نفس وكتب حياتها ورزقها ومصائبها "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي هريرة، وابن عباس، وانس، قال: وسمعت محمد بن عمرو بن صفوان الثقفي البصري، قال: سمعت علي بن المديني، يقول: لو حلفت بين الركن والمقام، لحلفت اني لم ار احدا اعلم من عبد الرحمن بن مهدي۔

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”کسی کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی“، ایک اعرابی (بدوی) نے عرض کیا: اللہ کے رسول! خارشتی شرمگاہ والے اونٹ سے (جب اسے باڑہ میں لاتے ہیں) تو تمام اونٹ (کھجلی والے) ہو جاتے ہیں“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر پہلے کو کس نے کھجلی دی؟ کسی کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی ہے اور نہ ماہ صفر کی نحوست کی کوئی حقیقت ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر نفس کو پیدا کیا ہے اور اس کی زندگی، رزق اور مصیبتوں کو لکھ دیا ہے“ ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں ابوہریرہ، ابن عباس اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9640)، وانظر مسند احمد (1/440) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، سند میں ایک راوی ”صاحب لنا“ مبہم ہے، اور ہو سکتا ہے کہ یہ ابوہریرہ رضی الله عنہ ہوں، ابو زرعہ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں، نیز مسند احمد (2/327) میں یہ حدیث بواسطہ ابو زرعہ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے موجود ہے)»

وضاحت: ۱؎: اس باب میں زمانہ جاہلیت کی تین باتوں کی نفی کی گئی ہے، اور اس حدیث میں متعدی مرض اور صفر کے سلسلے میں موجود بداعتقادی پر نکیر ہے، اہل جاہلیت کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور فیصلے کے بغیر بیماری خود سے متعدی ہوتی ہے، یعنی خود سے پھیل جاتی ہے، اسلام نے ان کے اس اعتقاد باطل کو غلط ٹھہرایا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لاعدوى» یعنی ”بیماری خود سے متعدی نہیں ہوتی“، اور اس کے لیے سب سے پہلے اونٹ کو کھجلی کی بیماری کیسے لگی، کی بات کہہ کر سمجھایا اور بتایا کہ کسی بیماری کا لاحق ہونا اور اس بیماری سے شفاء دینا یہ سب اللہ رب العالمین کے حکم سے ہے وہی مسبب الاسباب ہے۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر سے ہوتا ہے، البتہ بیماریوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اسباب کو اپنانا مستحب ہے، «ھامہ» یعنی الو کا ذکر باب میں ہے، اس حدیث میں نہیں ہے، بلکہ دوسری احادیث میں ہے آیا ہے، الو کو دن میں دکھائی نہیں دیتا ہے، تو وہ رات کو نکلتا ہے، اور اکثر ویرانوں میں رہتا ہے، عرب لوگ اس کو منحوس جانتے تھے، اور بعض یہ سمجھتے تھے کہ مقتول کی روح الو بن کر پکارتی پھرتی ہے، جب اس کا بدلہ لے لیا جاتا ہے تو وہ اڑ جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال کو باطل قرار دیا، اور فرمایا: «و ولاهامة»، آج بھی الو کی نحوست کا اعتقاد باطل بہت سے لوگوں کے یہاں پایا جاتا ہے، جو جاہلیت کی بداعتقادی ہے، اسی طرح صفر کے مہینے کو جاہلیت کے زمانے میں لوگ منحوس قرار دیتے تھے، اور جاہل عوام اب تک اسے منحوس جانتے ہیں، صفر کے مہینے کے پہلے تیرہ دن جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تھے ان ایام کو تیرہ تیزی کہتے ہیں، ان میں عورتیں کوئی بڑا کام جیسے شادی بیاہ وغیرہ کرنے نہیں دیتیں، یہ بھی لغو ہے، صفر کا مہینہ اور مہینوں کی طرح ہے، کچھ فرق نہیں ہے۔ یہ بھی آتا ہے کہ عرب ماہ محرم کی جگہ صفر کو حرمت والا مہینہ بنا لیتے تھے، اسلام میں یہ بھی باطل، اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ عربوں کے اعتقاد میں پیٹ میں ایک سانپ ہوتا تھا جس کو صفر کہا جاتا ہے، بھوک کے وقت وہ پیدا ہوتا ہے اور آدمی کو ایذا پہنچاتا ہے، اور ان کے اعتقاد میں یہ متعدی مرض تھا، تو اسلام نے اس کو باطل قرار دیا

مولانا محترم صاحب معارف الحدیث حضرت مولانا منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے ہیں۔قابل ہیں۔علمائے دیوبند میں مستند ہیں۔یہ ویڈیو پوری سننے کی زحمت اٹھائیے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
یعنی سب نے ٹال مٹول شروع کر دی ہے اور کوئی مجھے بیان کی تشریح تک نہیں بتائےگا
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

مولانا محترم صاحب معارف الحدیث حضرت مولانا منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے ہیں۔قابل ہیں۔علمائے دیوبند میں مستند ہیں۔یہ ویڈیو پوری سننے کی زحمت اٹھائیے۔
کیا اس درج بالا حدیث کا رد یا نفی ہے ؟
 
Top