سورة الکہف مفتی تقی عثمانی تفسیر آسان قرآن

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
تعارف
حافظ ابن جریر طبری نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے اس سورت کا شان نزول یہ نقل کیا ہے کہ مکہ مکرمہ کے کچھ سرداروں نے دو آدمی مدینہ منورہ کے یہودی علماء کے پاس یہ معلوم کرنے کے لیے بھیجے کہ تورات اور انجیل کے یہ علماء آنحضرتﷺ کے دعوائے نبوت کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ یہودی علماء نے ان سے کہا کہ آپ حضرت محمد مصطفیٰﷺ سے تین سوالات کیجیے۔ اگر وہ ان کا صحیح جواب دے دیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ واقعی اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اور اگر وہ صحیح جواب نہ دے سکے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کا نبوت کا دعوی صحیح نہیں ہے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ ان نوجواں کا وہ عجیب واقعہ بیان کریں جو کسی زمانے میں شرک سے بچنے کے لیے اپنے شہر سے نکل کر کسی غار میں چھپ گئے تھے۔ دوسرے اس شخص کا حال بتائیں جس نے مشرق سے مغرب تک پوری دنیا کا سفر کیا تھا۔ تیسرے ان سے پوچھیں کہ روح کی حقیقت کیا ہے۔ چنانچہ یہ دونوں شخص مکہ مکرمہ واپس آئے، اور اپنی برادری کے لوگوں کو ساتھ لے کر انہوں نے آنحضرتﷺ سے یہ تین سوال پوچھے۔ تیسرے سوال کا جواب تو پچھلی سورت (۸۵۔ ۱۷) میں آ چکا ہے۔ اور پہلے دو سوالات کے جواب میں یہ سوورت نازل ہوئی جس میں غار میں چھپنے والے نوجوانوں کا واقعہ تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے، انہی کو اصحاب کہف کہا جاتا ہے۔ کہف عربی میں غار کو کہتے ہیں، اصحاب کہف کے معنی ہوئے غار والے اور اسی غار کے نام پر سورت کو سورة الکہف کہا جاتا ہے۔ دوسرے سوال کے جواب میں سورت کے آخر میں ذوالقرنین کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے جنہوں نے مشرق و مغرب کا سفر کیا تھا۔
اس کے علاوہ اسی سورت میں حضرت موسیٰؑ کا وہ واقعہ بھی بیان فرمایا گیا ہے جس میں وہ حضرت خضرؑ کے پاس تشریف لے گئے تھے، اور کچھ عرصہ ان کی معیت میں سفر کیا تھا۔ یہ تین واقعات تو اس سورت کا مرکزی موضوع ہیں۔ ان کے علاوہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰؑ کو جو خدا کا بیٹا قرار دے رکھا تھا، اس سورت میں بطور خاص اس کی تردید بھی ہے اور حق کا انکار کرنے والوں کو وعیدیں بھی سنائی گئی ہیں، اور حق کے ماننے والوں کو نیک انجام کی خوشخبری بھی دی گئی ہے۔
سورة کہف کی تلاوت کے فضائل احادیث میں آئے ہیں۔ خاص طور پر جمعہ کے دن اس کی تلاوت کی بڑی فضیلت آئی ہے، اور اسی لیے بزرگان دین کا معمول رہا ہے کہ وہ جمعہ کے دن اس کی تلاوت کا خاص اہتمام کرتے تھے۔

آیت ۱

ترجمہ

تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی، اور اس میں کسی قسم کی کوئی خاص خامی نہیں رکھی۔
ایک سیدھی سیدھی کتاب جو اس نے اس لیے نازل کی ہے کہ لوگوں کو اپنی طرف سے ایک سخت عذاب سے آگاہ کرے اور جو مومن نیک عمل کرتے ہیں ان کو خوشخبری دے کہ ان کو بہترین اجر ملنے والا ہے۔
جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
اور تاکہ ان لوگوں کو متنبہ کرے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے کوئی بیٹا بنا رکھا ہے۔
اس بات کا کوئی علمی ثبوت نہ خود ان کے پاس ہے، نہ ان کے باپ دادوں کے پاس تھا۔ بڑی سنگین بات ہے جو ان کے منہ سے نکل رہی ہے۔ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں، وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔
اب (اے پیغمبر) اگر لوگ (قرآن کی) اس بات پر ایمان نہ لائیں تو ایسا لگتا ہے جیسے تم افسوس کر کر کے ان کے پیچھے اپنی جان کو گھلا بیٹھو گے۔
یقین جانو کہ روئے زمین پر جتنی چیزیں ہیں ہم نے انہیں زمین کی سجاوٹ کا ذریعہ اس لیے بنایا ہے تاکہ لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں کون زیادہ اچھا عمل کرتا ہے۔ (۱)

تفسیر

۱۔ آنحضرتﷺ کو مشرکین کے کفر اور معاندانہ طرز عمل سے سخت صدمہ ہوتا تھا، ان آیات میں آپﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ دنیا تو لوگوں کے امتحان کے لیے بنائی گئی ہے، تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کون ہے جو دنیا کی سجاوٹ میں محو ہو کر اللہ تعالیٰ کو بھول جاتا ہے، اور کون ہے جو اس کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق استعمال کر کے اپنے لیے آخرت کا ذخیرہ بناتا ہے۔ اور جب یہ امتحان گاہ ہے تو اس میں وہ لوگ بھی ہوں گے جو امتحان میں کامیاب ہوں گے اور وہ بھی جو ناکام ہوں گے۔ لہذا اگر یہ لوگ کفر و شرک کا ارتکاب کر کے امتحان میں ناکام ہو رہے ہیں تو اس میں نہ کوئی تعجب کی بات ہے اور نہ اس پر آپ کو اتنا افسوس کرنا چاہئے کہ آپ اپنی جان کو گھلا بیٹھیں۔

آیت ۸

ترجمہ

اور یہ بھی یقین رکھو کہ روئے زمین پر جو کچھ ہے ایک دن ہم اسے ایک سپاٹ میدان بنا دیں گے۔ (۲)

تفسیر

۲۔ یعنی جتنی چیزوں سے یہ زمین سجی ہوئی اور بارونق نظر آتی ہے ایک دن وہ سب فنا ہو جائیں گی، نہ کوئی عمارت باقی رہے گی، نہ پہاڑ اور درخت، بلکہ وہ چٹیل اور سپاٹ میدان میں تبدیل ہو جائے گی، اس وقت یہ حقیقت واضح ہو گی کہ دنیا کی ظاہری خوبصورتی بڑی ناپائیدار تھی۔ اور یہی وہ وقت ہو گا جب آپ کے ساتھ ضد اور دشمنی کا معاملہ کرنے والے اپنے برے انجام کو پہنچیں گے۔ لہذا اگر ان لوگوں کو دنیا میں ڈھیل دی جا رہی ہے۔ تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں بد عملی کے باوجود آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ لہذا نہ آپ کو زیادہ رنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے اور نہ ان کے انجام پر فکر مند ہونے کی۔ آپ کا کام تبلیغ ہے، بس اسی میں اپنے آپ کو مصروف رکھیے۔

آیت ۹

ترجمہ

کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ غار اور رقیم والے لوگ (۳) ہماری نشانیوں میں سے کچھ (زیادہ) عجیب چیز تھے؟ (۴)

تفسیر

۳۔ ان حضرات کے واقعے کا خلاصہ قرآن کریم کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ یہ کچھ نوجوان تھے جو ایک مشرک بادشاہ کے عہد حکومت میں توحید کے قائل تھے۔ بادشاہ نے ان کو توحید پر ایمان رکھنے کی بنا پر پریشان کیا تو یہ حضرات شہر سے نکل کر ایک غار میں چھپ گئے تھے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے ان پر گہری نیند طاری فرما دی، اور یہ تین سو نو سال تک اسی غار میں پڑے سوتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نیند کے دوران اپنی قدرت کاملہ سے ان کی زندگی کو بھی سلامت رکھا، اور ان کے جسم بھی گلنے سڑنے سے محفوظ رہے، تین سو نو سال بعد ان کی آنکھ کھلی تو انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی لمبی مدت تک سوتے رہے ہیں۔ لہذا ان کو بھوک محسوس ہوئی تو اپنے میں سے ایک صاحب کو کچھ کھانا خرید کر لانے کے لیے شہر بھیجا، اور یہ دہایت کی کہ احیتاط کے ساتھ شہر میں جائیں، تاکہ ظالم بادشاہ کو پتہ نہ چل سکے۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا یسا ہوا کہ اس تین سو ال کے عرصے میں وہ ظالم بادشاہ مرکھپ گیا تھا، اور ایک نیک اور صحیح العقیدہ شخص بادشاہ بن چکا تھا۔ یہ صاحب جب شہر میں پہنچے تو کھانا خریدنے کے لیے وہی پرانا سکہ پیش کیا جو تین سو سال پہلے اس ملک میں چلا کرتا تھا، دکان دار نے وہ پرانا سکہ دیکھا تو اس طرح یہ بات سامنے آئی کہ یہ حضرات صدیوں تک سوتے رہے تھے۔ بادشاہ کو پتہ چلا تو اس نے ان لوگوں کو بڑی عزت اور اکرام کے ساتھ اپنے پاس بلایا، اور بالآخر جب ان حضرات کی وفات ہوئی تو ان کی یادگار میں ایک مسجد تعمیر کی۔ عیسائیوں کے یہاں یہ واقعہ ’’سات سونے والوں‘‘ (Seven Sleepers) کے نام سے مشہور ہے۔ معروف مورخ ایڈورڈ گبن نے اپنی مشہور کتاب ’’زوال و سقوط سلطنت روم‘‘ میں بیان کیا ہے کہ وہ ظالم بادشاہ ڈوسیس تھا جو حضرت عیسیٰؑ کے پیرو وں پر ظلم ڈھانے میں بہت مشہور ہے۔ اور یہ واقعہ ترکی کے شہر افسس میں پیش آیا تھا۔ جس بادشاہ کے زمانے میں یہ حضرت بیدار ہوئے۔ گبن کے بیان کے مطابق وہ تھیوڈوسیس تھا۔ مسلمان مورخین اور مفسرین نے بھی اس سے ملتی جلتی تفصیلات بیان فرمائی ہیں اور ظالم بادشاہ کا نام دقیانوس ذکر کیا ہے۔ ہمارے دور کے بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ اردن کے شہر عمان کے قریب پیش آیا تھا جہاں ایک غار میں کچھ لاشیں اب تک موجود ہیں۔ یہ تحقیق میں نے تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ’’جہان دیدہ‘‘ میں بیان کر دی ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی بات بھی اتنی مستند نہیں ہے کہ اس پر بھروسہ کیا جا سکے۔ قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ وہ کسی واقعے کی اتنی ہی تفصیل بیان فرماتا ہے جو فائدہ مند ہو۔ اس سے زیادہ تفصیلات میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان حضرات کو ’’اصحاب الکہف‘‘ (غار والے) کہنے کی وجہ تو ظاہر ہے کہ انہوں نے غار میں پناہ لی تھی۔ لیکن ان کو ’’رقیم والے‘‘ کیوں کہتے ہیں؟ اس کے بارے میں مفسرین کی رائیں مختلف ہیں۔ بعض حضرات کا کہنا یہ ہے کہ ’’رقیم‘‘ اس غار کے نیچے والی وادی کا نام ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ’’رقیم‘‘ تختی پر لکھے ہوئے کتبے کو کہتے ہیں۔ اور ان حضرات کے انتقال کے بعد ان کے نام ایک تختی پر کتبے کی صورت میں لکھوا دئیے گئے تھے۔ اس لیے ان کو ’’اصحاب الرقیم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ تیسرے بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ اس پہاڑ کا نام ہے جس پر وہ غار واقع تھا۔ واللہ سبحانہ اعلم۔
۴۔ جن لوگوں نے آنحضرتﷺ سے ان نوجوانوں کے بارے میں سوال کیا تھا، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کا واقعہ بڑا عجیب ہے۔ اس آیت میں انہی کے حوالے سے فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ قدرت کے پیش نظر یہ واقعہ کوئی بہت عجیب نہیں ہے، کیونکہ اس کی قدرت کے کرشمے تو بیشمار ہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۱۰، ۱۱

ترجمہ

یہ اس وقت کا ذکر ہے جب ان نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تھی اور (اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے) کہا تھا کہ اے ہمارے پروردگار ہم پر خاص اپنے پاس سے رحمت نازل فرمایے، اور ہماری اس صورت حال میں ہمارے لیے بھلائی کا راستہ مہیا فرما دیجیے۔
چنانچہ ہم نے ان کے کانوں کو تھپکی دے کر کئی سال تک ان کو غار میں سلائے رکھا۔ (۵)

تفسیر

۵۔ کانوں پر تھپکی دینا عربی کا ایک محاورہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ گہری نیند طاری کر دی۔ وجہ یہ ہے کہ نیند کے شروع میں کان آوازیں سنتے رہتے ہیں، اور ان کا سننا اسی وقت بند ہوتا ہے جب نیند گہری ہو گئی ہو۔

آیت ۱۲

ترجمہ

پھر ہم نے ان کو جگایا تاکہ یہ دیکھیں کہ ان کے دو گروہوں میں سے کون سا گروہ اپنے سوئے رہنے کی مدت کا زیادہ صحیح شمار کرتا ہے۔ (۶)

تفسیر

۶۔ آگے آ رہا ہے کہ جب یہ لوگ بیدار ہوئے تو آپس میں گفتگو کرنے لگے کہ وہ کتنی دیر سوئے ہیں۔ اسی کی طرف اشارہ ہے۔

آیت ۱۳، ۱۴

ترجمہ

ہم تمہارے سامنے ان کا واقعہ ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں۔ یہ کچھ نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے، اور ہم نے ان کو ہدایت میں خوب ترقی دی تھی۔
اور ہم نے ان کے دل خوب مضبوط کر دیے تھے۔ (۷) یہ اس وقت کا ذکر ہے جب وہ اٹھے، اور انہوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار وہ ہے جو تمام آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ ہم اس کے سوا کسی کو معبود بنا کر ہرگز نہیں پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم یقیناً انتہائی لغو بات کہیں گے۔

تفسیر

۷۔ ابن کثیر کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بادشاہ کو ان کے عقیدے کا پتہ لگا تو اس نے انہیں اپنے دربار میں طلب کر لیا، اور ان سے ان کے عقیدے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بڑی بے باکی سے توحید کا عقیدہ بیان کیا جس کا آگے ذکر آ رہا ہے دل کی اسی مضبوطی کا حوالہ اس آیت میں دیا گیا ہے۔

آیت ۱۵، ۱۶

ترجمہ

یہ ہماری قوم کے لوگ ہیں جنہوں نے اس پروردگار کو چھوڑ کر دوسرے معبود بنا رکھے ہیں۔ (اگر ان کا عقیدہ صحیح ہے تو) وہ اپنے معبودوں کے ثبوت میں کوئی واضح دلیل کیوں پیش نہیں کرتے؟ بھلا اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے؟
اور (ساتھیو) جب تم نے ان لوگوں سے بھی علیحدگی اختیار کر لی ہے اور ان سے بھی جن کی یہ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں تو چلو اب تم اس غار میں پناہ لے لو، (۸) تمہارا پروردگار تمہارے لیے اپنا دامن رحمت پھیلا دے گا، اور تمہارے کام میں آسانی کے اسباب مہیا فرمائے گا۔

تفسیر

۸۔ یعنی جب تم دین حق اختیار کر لیا ہے، اور تمہارے شہر کے لوگ تمہارے مخالف ہو گئے ہیں، تو اب اس دین کے مطابق عیادت کرنے کی یہی صورت ہے کہ شہر سے باہر پہاڑ پر جو غار ہے اس میں جا بیٹھو کہ کسی کو تمہارا پتہ نہ چلے۔

آیت ۱۷

ترجمہ

اور (وہ غار ایسا تھا کہ) تم سورج کو نکلتے وقت دیکھتے تو وہ ان کے غار سے دائیں طرف ہٹ کر نکل جاتا، اور جب غروب ہوتا تو ان سے بائیں طرف کترا کر چلا جاتا، (۹) اور وہ اس غار کے ایک کشادہ حصے میں (سوئے ہوئے) تھے۔ یہ سب کچھ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ (۱۰) جسے اللہ ہدایت دیدے، وہی ہدایت پاتا ہے، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا تمہیں ہرگز کوئی مددگار نہیں مل سکتا جو اسے راستے پر لائے۔

تفسیر

۹۔ اس غار کا محل وقوع کچھ ایسا تھا کہ اس میں دھوپ نہیں آتی تھی۔ طلوع آفتاب کے وقت سورج اس کی دائیں جانب ہٹ کر نکل جاتا تھا اور غروب کے وقت بائیں جانب اور اس طرح یہ لوگ دھوپ کی تپش سے محفوظ بھی رہے اور اس سے ان کے جسم اور کپڑے بھی خراب نہیں ہوئے اور دھوپ کے قریب سے گذرنے کی وجہ سے گرمی کے فوائد بھی حاصل ہوتے رہے۔
۱۰۔ یعنی ان لوگوں کا اس غار میں پناہ لینا، اتنے لمبے عرصے تک سوتے رہنا اور دھوپ سے محفوظ رہنا، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کی نشانی تھی۔

آیت ۱۸

ترجمہ

تم انہیں (دیکھ کر) یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں، حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے، (۱۱) اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے، اور ان کا کتا دہلیز پر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے (بیٹھا) تھا۔ اگر تم انہیں جھانک کر دیکھتے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے، اور تمہارے اندر ان کی دہشت سما جاتی۔

تفسیر

۱۱۔ یعنی سونے والے پر نیند کی جو علامتیں دیکھنے والوں کو نظر آتی ہیں۔ وہ ان میں نظر نہیں آتی تھیں، اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ لیٹے ہوئے جاگ رہے ہیں

آیت ۱۹

ترجمہ

اور (جیسے ہم نے انہیں سلایا تھا) اسی طرح ہم نے انہیں اٹھا دیا تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ گچھ کریں۔ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا۔ تم اس حالت میں کتنی دیر رہے ہو گے؟ کچھ لوگوں نے کہا۔ ہم ایک دن یا ایک دن سے کچھ کم (نیند میں) رہے ہوں گے۔ دوسروں نے کہا۔ تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ تم کتنی دیر اس حالت میں رہے ہو۔ اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سکہ دے کر شہر کی طرف بھیجو، وہ جا کر دیکھ بھال کرے کہ اس کے کون سے علاقے میں زیادہ پاکیزہ کھانا (مل سکتا) ہے۔ (۱۲) پھر تمہارے پاس وہاں سے کچھ کھانے کو لے آئے، اور اسے چاہیے کہ ہوشیاری سے کام کرے، اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے۔

تفسیر

۱۲۔ پاکیزہ کھانے سے مراد بظاہر حلال کھانا ہے ان حضرات کو فکر یہ تھی کہ بت پرستوں کے شہر میں حلال کھانا ملنا آسان نہیں۔ اس لیے جانے والے کو یہ تاکید کی کہ وہ ایسی جگہ سے کھانا لائے جہاں حلال کھانا میسر ہو۔ نیز چونکہ ان کے خیال میں ابھی تک اسی بت پرست بادشاہ کی حکومت تھی، اس لیے انہیں دوسری فکر یہ تھی کہ کہیں کسی کو ان کے غار میں چھپنے کا پتہ نہ لگ جائے۔ اس لیے جانے والے کو دوسری تاکید یہ کی کہ ہوشیاری سے جا کر کھانا لائے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۲۰، ۲۱

ترجمہ

کیونکہ اگر ان (شہر کے) لوگوں کو تمہاری خبر مل گئی تو یہ تمہیں پتھراؤ کر کے ہلاک کر ڈالیں گے، یا تمہیں اپنے دین میں واپس آنے کے لیے مجبور کریں گے، اور ایسا ہوا تو تمہیں کبھی فلاح نہیں مل سکے گی۔
اور یوں ہم نے ان کی خبر لوگوں تک پہنچا دی، (۱۳) تاکہ وہ یقین سے جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، نیز یہ کہ قیامت کی گھڑی آنے والی ہے، (۱۴) اس میں کوئی شک نہیں۔ (پھر وہ وقت بھی آیا) جب لوگ ان کے بارے میں میں آپس میں جھگڑ رہے تھے، (۱۵) چنانچہ کچھ لوگوں نے کہا کہ ان پر ایک عمارت بنا دو۔ ان کا رب ہی ان کے معاملے کو بہتر جانتا ہے۔ (۱۶) (آخر کار) جن لوگوں کو ان کے معاملات پر غلبہ حاصل تھا انہوں نے کہا کہ ہم تو ان کے اوپر ایک مسجد ضرور بنائیں گے۔

تفسیر

۱۳۔ جب وہ صاحب جن کا نام بعض روایتوں میں ’’تملیخا‘‘ بتایا گیا ہے کھانا لینے کے لیے شہر پہنچے، اور دکان دار کو وہ سکہ پیش کیا جو تین سو سال پرانا تھا، اور اس پر پرانے بادشاہ کی علامتیں تھیں و دکان دار بڑا حیران ہوا، اور ان کو لے کر اس وقت کے بادشاہ کے پاس پہنچا۔ یہ بادشاہ نیک تھا، اور اس نے یہ قصہ سن رکھا تھا کہ کچھ نوجوان دقیانوس کے ظلم سے تنگ آ کر کہیں غائب ہو گئے تھے۔ اس نے معاملے کی مزید تحقیق کی تو پتہ چل گیا کہ یہ وہی نوجوان ہیں۔ اس پر بادشاہ نے ان کا خوب اکرام کیا، لیکن یہ حضرات دوبارہ اسی غار میں چلے گئے اور وہیں پر اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دے دی۔
۱۴۔ ان اصحاب کہف کا اتنی لمبی مدت تک سوتے رہنا اور پھر زندہ جاگ اٹھنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی واضح دلیل تھی، اور اس واقعے کو دیکھ کر ہر شخص بآسانی اس نتیجے تک پہنچ سکتا تھا کہ جو ذات اتنے عرصے تک سونے کے بعد ان نوجوانوں کو زندہ اٹھا سکتی ہے، یقیناً وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ تمام انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دے۔ بعض روایات میں ہے کہ اس وقت کا بادشاہ تو قیامت اور آخرت پر ایمان رکھتا تھا، لیکن کچھ لوگ آخرت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے تھے، اور بادشاہ نے یہ دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کو کوئی ایسا واقعہ دکھا دے جس سے آخرت پر ان کا ایمان مضبوط ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی وقت ان نوجوانوں کو جگا کر اپنی قدرت کا یہ کرشمہ دکھا دیا۔
۱۵۔ جیسا کہ پیچھے عرض کیا گیا، یہ حضرات جاگنے کے بعد جلد ہی اسی غار میں وفات پا گئے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ کرشمہ سامنے آیا کہ جن نوجوانوں کو کبھی اس شہر میں اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے، اب اسی شہر میں ان کی ایسی عزت ہوئی کہ لوگ ان کی یاد گار میں کوئی عمارت بنانے کی فکر میں پڑ گئے۔ اور آخر کار جن لوگوں کو اقتدار حاصل تھا، انہوں نے یہ طے کیا کہ جس غار میں ان کی وفات ہوئی ہے اس پر ایک مسجد بنا دیں۔ واضح رہے کہ عمان کے پاس جو غار دریافت ہوا ہے اس میں کھدائی کرنے سے غار کے اوپر بنی ہوئی ایک مسجد بھی بر آمد ہوئی ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ ان کی وفات کی جگہ پر مسجد بنانے کی یہ تجویز اس زمانے کے اصحاب اقتدار نے دی تھی، قرآن کریم نے اس تجویز کی تائید نہیں فرمائی۔ لہذا اس آیت سے مقبرے بنانے یا قبروں کو عبادت گاہ میں تبدیل کرنے کا کوئی جواز نہیں نکلتا۔ بلکہ آنحضرتﷺ نے کئی احادیث میں اس عمل سے منع فرمایا ہے۔
۱۶۔ روایات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب ان حضرات کی یادگار تعمیر کرنے کی تجویز آئی تو لوگوں نے یہ بھی سوچا کہ ان کے صحیح صحیح نام اور ان کا نسب اور مذہب وغیرہ بھی اس یادگار پر لکھا جائے لیکن چونکہ کسی کو ان کے پورے حالات معلوم نہیں تھے۔ اس لیے پھر لوگوں نے کہا کہ ان کے ٹھیک ٹھیک حالات تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن ہم ان کے نسب وغیرہ کی تحقیق میں پڑے بغیر ہی ان کی یاد گار بنا دیتے ہیں۔

آیت ۲۲

ترجمہ

کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین آدمی تھے، اور چوتھا ان کا کتا تھا، اور کچھ کہیں گے کہ وہ پانچ تھے، اور چھٹا ان کا کتا تھا۔ یہ سب اٹکل کے تیر چلانے کی باتیں ہیں۔ اور کچھ کہیں گے کہ وہ سات تھے، اور آٹھواں ان کا کتا تھا، کہہ دو کہ میرا رب ہی ان کی صحیح تعداد کو جانتا ہے۔ تھوڑے سے لوگوں کے سوا کسی کو ان کا پورا علم نہیں۔ لہذا ان کے بارے میں سرسری گفتگو سے آگے بڑھ کر کوئی بحث نہ کرو، اور نہ ان کے بارے میں کسی سے پوچھ گچھ کرو۔ (۱۷)

تفسیر

۱۷۔ اس آیت نے یہ مستقل سبق دے دیا ہے کہ جس معاملے پر انسان کا کوئی عملی مسئلہ موقوف نہ ہو، اس کے بارے میں خواہ مخواہ بحثیں نہیں کرنی چاہئیں۔ اصحاب کہف کے واقعے میں اصل سبق لینے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے کس طرح ناموافق حالات میں حق پر ثابت قدم رہنے کا مظاہرہ کیا، اور پھر اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان کی مدد فرمائی۔ رہا یہ کہ ان کی صحیح تعداد کیا تھی؟ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر بحث کا بازار گرم کیا جائے۔ لہذا اس میں الجھنے کے بجائے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اگر کوئی اس معاملے میں بحث کرنا بھی چاہے تو اسے سرسری گفتگو کر کے ٹال دو، اور اپنا وقت ضائع نہ کرو۔

آیت ۲۳، ۲۴

ترجمہ

اور (اے پیغمبر) کسی بھی کام کے بارے میں کبھی یہ نہ کہو کہ میں یہ کام کل کر لوں گا۔
ہاں (یہ کہو کہ) اللہ چاہے گا تو (کر لوں گا) (۱۸) اور جب کبھی بھول جاؤ تو اپنے رب کو یاد کر لو، اور کہو۔ مجھے امید ہے کہ میرا رب کسی ایسی بات کی طرف رہنمائی کر دے جو ہدایت میں اس سے بھی زیادہ قریب ہو۔ (۱۹)

تفسیر

۱۸۔ جب آنحضرتﷺ سے اصحاب کہف اور ذو القرنین کے بارے میں سوال کیا گیا تھا، اس وقت آپﷺ نے سوال کرنے والوں سے ایک طرح کا وعدہ کر لیا تھا کہ میں اس سوال کا جواب کل دوں گا، اس وقت آپ انشاء اللہ کہنا بھول گئے تھے اور آپ کو یہ امید تھی کہ کل تک وحی کے ذریعے آپ کو ان واقعات سے باخبر کر دیا جائے گا، اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ مستقل ہدایت عطا فرمائی کہ کسی بھی مسلمان کو آئندہ کے بارے میں کوئی بات انشاء اللہ کہے بغیر نہیں کہنی چاہئے، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں چونکہ آپ نے انشاء اللہ نہیں فرمایا تھا اس لئے اگلے روز وہی نہیں آئی، بلکہ کئی روز کے بعد وحی آئی اور اس میں یہ ہدایت بھی دی گئی۔
۱۹۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کا واقعہ سوال کرنے والوں نے آنحضرتﷺ کی نبوت کی دلیل کے طور پر پوچھا تھا، اس آیت میں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت کے اور بھی دلائل عطا فرمائے ہیں جو اصحاب کہف کا واقعہ سنانے سے زیادہ واضح ہیں۔

آیت ۲۵، ۲۶

ترجمہ

اور وہ (اصحاب کہف) اپنے غار میں تین سو سال اور مزید نو سال (سوتے) رہے۔
(اگر کوئی اس میں بحث کرے تو) کہہ دو کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت (سوتے) رہے۔ (۲۰) آسمانوں اور زمین کے سارے بھید اسی کے علم میں ہیں۔ وہ کتنا دیکھنے والا، اور کتنا سننے والا ہے۔ اس کے سوا ان کا کوئی رکھوالا نہیں ہے، اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔

تفسیر

۲۰۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے بارے میں یہ بتلا دیا کہ وہ غار میں تین سو نو سال تک سوتے رہے، لیکن آگے پھر وہی بات ارشاد فرمائی کہ محض قیاسات کی بنیاد پر اس بحث میں بھی پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، اور اگر کوئی اس مدت سے اختلاف کرے تو یہ کہہ کر بحث کا دروازہ بند کر دو کہ اللہ تعالیٰ ہی اس مدت کو خوب جانتا ہے، اس نے جو مدت بتا دی ہے، وہی درست ہے۔

آیت ۲۷

ترجمہ

اور (اے پیغمبر) تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے وحی کے ذریعے جو کتاب بھیجی گئی ہے، اسے پڑھ کر سنادو۔ کوئی نہیں ہے جو اس کی باتوں کو بدل سکے، اور اسے چھوڑ کر تمہیں ہرگز پناہ کی جگہ نہیں مل سکتی۔ (۲۱)

تفسیر

۲۱۔ آنحضرتﷺ سے یہ خطاب در حقیقت ان کافروں کو سنانے کے لئے ہے جو آپﷺ سے یہ مطالبہ کیا کرتے تھے کہ آپ اس قرآن میں ہماری خواہش اور عقیدے کے مطابق تبدیلیاں کر لیں تو ہم آپﷺ کو ماننے کے لئے تیار ہیں، ان کا یہ مطالبہ پیچھے سورة یونس (۱۰۔ ۱۵) میں گزر چکا ہے، یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں تبدیلی کرنے کا کسی کو اختیار نہیں، اور اگر کوئی ایسا کرے تو اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کے لئے کوئی پناہ گاہ میسر نہیں آ سکتی۔

آیت ۲۸

ترجمہ

اور اپنے آپ کو استقامت سے ان لوگوں کے ساتھ رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو اس لیے پکارتے ہیں کہ وہ اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں۔ (۲۲) اور تمہاری آنکھیں دنیوی زندگی کی خوبصورتی کی تلاش میں ایسے لوگوں سے ہٹنے نہ پائیں۔ اور کسی ایسے شخص کا کہنا نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر رکھا ہے، اور جو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہوا، اور جس کا معاملہ حد سے گزر چکا ہے۔

تفسیر

۲۲۔ بعض کفار کا مطالبہ یہ بھی تھا کہ جو غریب اور کم حیثیت لوگ آنحضرتﷺ کے ساتھ رہتے ہیں، اگر آپ انہیں اپنے پاس سے ہٹا دیں تو ہم آپ کی بات سننے کو تیار ہوں گے، موجودہ حالت میں ہم ان غریبوں کے ساتھ بیٹھ کر آپ کی کوئی بات نہیں سن سکتے، یہ آیت اس مطالبے کو رد کر کے آنحضرتﷺ کو ہدایت دے رہی ہے کہ آپ اس مطالبے کو نہ مانیں اور اپنے غریب صحابہ کی رفاقت نہ چھوڑیں، اور اس ضمن میں ان غریب صحابہ کرام کی فضیلت اور ان کے مقابلے میں ان مالدار کافروں کی برائی بیان فرمائی گئی ہے۔ یہی مضمون سورة انعام (۶۔ ۵۲) میں بھی گزر چکا ہے۔

آیت ۲۹

ترجمہ

اور کہہ دو کہ حق تو تمہارے رب کی طرف سے آ چکا ہے۔ اب جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔ (۲۳) ہم نے بیشک (ایسے) ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں ان کو گھیرے میں لے لیں گی، اور اگر وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد کا جواب ایسے پانی سے دیا جائے گا جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہو گا، (اور) چہروں کو بھون کر رکھ دے گا۔ کیسا بدترین پانی، اور کیسی بری آرام گاہ!۔

تفسیر

۲۳۔ یعنی حق کے واضح ہو جانے کے بعد دنیا میں کسی کو ایمان لانے پر زبردستی مجبور نہیں کیا جا سکتا، البتہ جو شخص ایمان نہیں لائے گا، اس کو آخرت میں بیشک ایک خوفناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۳۰ ۔ ۳۲

ترجمہ

البتہ جو لوگ ایمان لائے، اور انہوں نے نیک عمل کیے، تو یقیناً ہم ایسے لوگوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتے جو اچھی طرح عمل کریں۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے ہمیشہ رہنے والے باغات ہیں، ان کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی، ان کو وہاں سونے کے کنگنوں سے مزین کیا جائے گا، وہ اونچی مسندوں پر تکیہ لگائے ہوئے باریک اور دبیز ریشم کے سبز کپڑے پہنے ہوں گے۔ کتنا بہترین اجر اور کیسی حسین آرام گاہ۔
اور (اے پیغمبر) ان لوگوں کے سامنے ان دو آدمیوں کی مثال پیش کرو۔ (۲۴) جن میں سے ایک کو ہم نے انگوروں کے دو باغ رے رکھے تھے، اور ان کو کھجور کے درختوں سے گھیرا ہوا تھا، اور ان دونوں باغوں کے درمیان کھیتی لگائی ہوئی تھی۔

تفسیر

۲۴۔ آیت نمبر ۲۸ میں کافر سرداروں کے اس تکبر کی طرف اشارہ کیا گیا جس کی وجہ سے وہ غریب مسلمانوں کے ساتھ بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ ایک ایسا واقعہ بیان فرما رہے ہیں جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مال و دولت کی زیادتی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر کوئی شخص اترائے۔ اگر اللہ تعالیٰ ساتھ رشتہ مضبوط نہ ہو تو بڑے بڑے مال دار لوگ انجام کار ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ صحیح ہو تو غریب لوگ ان سے کہیں آگے نکل جاتے ہیں۔ جن دو آدمیوں کا یہاں ذکر فرمایا گیا ہے ان کی کوئی تفصیل کسی مستند مرفوع روایت میں موجود نہیں ہے۔ البتہ بعض مفسرین نے کچھ روایتوں کی بنیاد پر یہ کہا ہے کہ یہ بنی اسرائیل میں سے تھے اور انہیں اپنے باپ سے وارثت میں بڑی دولت ہاتھ آئی تھی ان میں سے ایک نے کافر ہو کر اسی دولت سے دل لگا لیا۔ اور دوسرے نے اپنی دولت کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیا، اور اس کی وجہ سے اس کی دولت پہلے شخص کے مقابلے میں گنتی میں کم رہ گئی۔ لیکن آخر کار کافر شخص کی دولت پر آفت آ گئی، اور اسے حسرت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔

آیت ۳۳ ۔ ۴۵

ترجمہ

دونوں باغ پورا پورا پھل دیتے تھے، اور کوئی باغ پھل دینے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتا تھا، اور ان دونوں کے درمیان ہم نے ایک نہر جاری کر دی تھی۔
اور اس شخص کو خوب دولت حاصل ہوئی تو وہ اپنے ساتھی سے باتیں کرتے ہوئے کہنے لگا کہ میرا مال بھی تم سے زیادہ ہے، اور میرا جتھ بھی تم سے زیادہ مضبوط ہے۔
اور وہ اپنی جان پر ستم ڈھاتا ہوا اپنے باغ میں داخل ہو گا۔ کہنے لگا۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی بھی تباہ ہو گا۔
اور میرا خیال یہ ہے کہ قیامت کبھی نہیں آئے گی، اور اگر کبھی مجھے اپنے رب کے پاس واپس بھیجا بھی گیا، تب بھی مجھے یقین ہے کہ مجھے اس سے بھی اچھی جگہ ملے گی۔
اس کے ساتھی نے اس سے باتیں کرتے ہوئے کہا۔ کیا تم اس ذات کے ساتھ کفر کا معاملہ کر رہے رہو جس نے تمہیں مٹی سے، اور پھر نطفے سے پیدا کیا، پھر تمہیں ایک بھلا چنگا انسان بنا دیا؟
جہاں تک میرا تعلق ہے، میں تو یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ اللہ میرا پروردگار ہے، اور میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں مانتا۔
اور جب تم اپنے باغ میں داخل ہو رہے تھے، اس وقت تم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ! (جو اللہ چاہتا ہے، وہی ہوتا ہے، اللہ کی توفیق کے بغیر کسی میں کوئی طاقت نہیں)۔ اگر تمہیں یہ نظر آ رہا ہے کہ میری دولت اور اولاد تم سے کم ہے۔
تو میرے رب سے کچھ بعید نہیں ہے کہ وہ مجھے تمہارے باغ سے بہتر چیز عطا فرما دے، اور تمہارے اس باغ پر کوئی آسمانی آفت بھیج دے، جس سے وہ چکنے میدان میں تبدیل ہو کر رہ جائے۔
یا اس کا پانی زمین میں اتر جائے، پھر تم اسے تلاش بھی نہ کر سکو۔
اور (پھر ہوا یہ کہ) اس کی ساری دولت عذاب کے گھیرے میں آ گئی، اور صبح ہوئی تو اس حالت میں کہ اس نے باغ پر جو کچھ خرچ کیا تھا، وہ اس پر ہاتھ ملتا رہ گیا، جبکہ اس کا باغ اپنی ٹٹیوں پر گرا پڑا تھا، اور وہ کہہ رہا تھا۔ کاش! میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ مانا ہوتا۔
اور سے کوئی ایسا جتھ میسر نہ آیا جو اللہ کو چھوڑ کر اس کی مدد کرتا، اور نہ وہ خود اس قابل تھا کہ اپنا دفاع کر سکے۔
ایسے موقع پر (آدمی کو پتہ چلتا ہے کہ) مدد کا سارا اختیار سچے اللہ کو حاصل ہے۔ وہی ہے جو بہتر ثواب دیتا اور بہتر انجام دکھاتا ہے۔
اور ان لوگوں سے دنیوی زندگی کی یہ مثال بھی بیان کر دو کہ وہ ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا، تو اس سے زمین کا سبزہ خوب گھنا ہو گیا، پھر وہ ایسا ریزہ ریزہ ہوا کہ اسے ہوائیں اڑا لے جاتی ہیں۔ (۲۵) اور اللہ ہر چیز پر مکمل قدرت رکھتا ہے۔

تفسیر

۲۵۔ جس طرح یہ سبزہ نا پائیدار ہے کہ شروع میں اس کی خوب بہار نظر آتی ہے لیکن آخر کار وہ چورا چورا ہو کر ہوا میں بکھر جاتا ہے، اسی طرح دنیوی زندگی بھی شروع میں بڑی خوبصورت اور با رونق معلوم ہوتی ہے، لیکن انجام کار وہ فنا ہو جانے والی ہے۔

آیت ۴۶

ترجمہ

مال اور اولاد دنیوی زندگی کی زینت ہیں، اور جو نیکیاں پائیدار رہنے والی ہیں، وہ تمہارے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے بھی بہتر ہیں، اور امید وابستہ کرنے کے لیے بھی بہتر۔ (۲۶)

تفسیر

۲۶۔ دنیا کے مال و اسباب سے امیدیں لگا کر بیٹھو تو ایک وقت وہ دھوکا دے جاتے ہیں، لیکن نیک اعمال جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کیے جائیں، ان سے ثواب کی جو امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں۔ وہ پوری ہوتی ہیں۔

آیت ۴۷

ترجمہ

اور (اس دن کا دھیان رکھو) جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے۔ (۲۷) اور تم زمین کو دیکھو گے کہ وہ کھلی پڑی ہے، (۲۸) اور ہم ان سب کو گھیر کر اکٹھا کر دیں گے، اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔

تفسیر

۲۷۔ قرآن کریم کی آیات کو سامنے رکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ قیامت کے کے موقع پر پہاڑوں کو پہلے اپنی جگہ سے ہٹا کر چلایا جائے گا پھر ان کو کوٹ پیس کر غبار کی طرح ہوا میں اڑا دیا جائے گا۔ چلانے کا ذکر اس جگہ کے علاوہ سورة نمل آیت ۸۸ اور سورة تکویر آیت ۳ میں بھی آیا ہے۔ اور انہیں کوٹ پیس کر غبار میں تبدیل کر دینے کا ذکر سورة طٰہٰ آیت ۱۰، ۵سورة واقعہ آیت ۵۶ اور سورة مرسلات آیت ۱۰ میں موجود ہے
۲۸۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو چیزیں زمین کے اندر پوشیدہ ہیں۔ وہ سامنے آ جائیں گی جیسا کہ سورة انشقاق آیت ۴ میں بیان فرمایا گیا ہے اور یہ مطلب بھی ہے کہ پہاڑوں، درختوں اور عمارتوں کے فنا ہو جانے کے بعد زمین حد نظر تک سپاٹ نظر آئے گی جس میں کوئی نشیب و فراز نہیں ہو گا جیسا کہ سورة طٰہٰ آیت ۱۰۶، ۱۰۷ میں بیان فرمایا گیا ہے۔

آیت ۴۸ ۔ ۵۰

ترجمہ

اور سب کو تمہارے رب کے سامنے صف باندھ کر پیش کیا جائے گا۔ آخر تم ہمارے پاس اسی طرح آ گئے جس طرح ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا۔ اس کے برعکس تمہارا دعوی یہ تھا کہ ہم تمہارے لیے (یہ) مقرر وقت کبھی نہیں لائیں گے۔
اور (اعمال کی) کتاب سامنے رکھ دی جائے گی۔ چنانچہ تم مجرموں کو دیکھو گے کہ وہ اس کے مندرجات سے خوف زدہ ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ ہائے ہماری بربادی! یہ کیسی کتاب ہے جس نے ہمارا کوئی چھوٹا بڑا عمل ایسا نہیں چھوڑا جس کا پورا احاطہ نہ کر لیا ہو۔ اور وہ اپنا سارا کیا دھرا اپنے سامنے موجود پائیں گے۔ اور تمہارا پروردگار کسی پر کوئی ظلم نہیں کرے گا۔
اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو۔ چنانچہ سب نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے (۲۹) وہ جنات میں سے تھا، چنانچہ اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی۔ کیا پھر بھی تم میرے بجائے اسے اور اس کی ذریت کو اپنا رکھوالا بناتے ہو۔ حالانکہ وہ سب تمہارے دشمن ہیں؟ (اللہ تعالیٰ کا) کتنا برا متبادل ہے جو ظالموں کو ملا ہے۔ (۳۰)

تفسیر

۲۹۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورة بقرہ آیت ۳۱ تا ۳۶ اور ان آیات کے حواشی
۳۰۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے بدلے ان ظالموں نے کتنا برا رکھوالا چنا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۵۱

ترجمہ

میں نے نہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے وقت ان کو حاضر کیا تھا، نہ خود ان کو پیدا کرتے وقت، (۳۱) اور میں ایسا نہیں ہوں کہ گمراہ کرنے والوں کو دست و بازو بناؤں۔

تفسیر

۳۱۔ یعنی جن شیاطین کو ان کافروں نے اپنا سر پرست بنا رکھا ہے، ان کو میں نے تخلیق کائنات کا منظر دکھانے کے لیے یا ان سے مدد لینے کے لیے نہیں بلایا تھا کہ وہ تخلیق کے اسرار سے واقف ہوتے۔ لیکن کافروں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یہ شیاطین تمام حقائق کو جانتے ہیں، چنانچہ ان کے بہکائے میں آ کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کو یا جن کو وہ کہیں، خدائی کا شریک قرار دیتے ہیں۔

آیت ۵۲ ۔ ۵۵

ترجمہ

اور اس دن کا دھیان کرو جب اللہ (ان مشرکوں سے) کہے گا کہ ذرا پکارو ان کو جنہیں تم نے میری خدائی میں شریک سمجھ رکھا تھا۔ چنانچہ وہ پکاریں گے، لیکن وہ ان کو کوئی جواب نہیں دیں گے، اور ہم ان کے درمیان ایک مہلک آڑ حائل کر دیں گے۔
اور مجرم لوگ آگ کو دیکھیں گے تو سمجھ جائیں گے کہ انہیں اسی میں گرنا ہے، اور اس سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں پائیں گے۔
اور ہم نے لوگوں کے فائدے کے لیے اس طرح قرآن میں طرح طرح سے ہر قسم کے مضامین بیان کیے ہیں، اور انسان ہے کہ جھگڑا کرنے میں ہر چیز سے بڑھ گیا ہے۔
اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آ چکی تو اب انہیں ایمان لانے اور اپنے رب سے معافی مانگنے سے اس (مطالبے) کے سوا کوئی اور چیز نہیں روک رہی کہ ان کے ساتھ بھی پچھلے لوگوں جیسے واقعات پیش آ جائیں، یا عذاب ان کے بالکل سامنے آ کھڑا ہو۔ (۳۲)

تفسیر

۳۲۔ یعنی ان لوگوں پر ساری حجتیں تو تمام ہو چکیں۔ اب ان کے پاس اپنے کفر پر اس کے سوا کوئی دلیل باقی نہیں رہی کہ یہ پیغمبر سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جیسا عذاب پچھلی امتوں پر آیا تھا، اگر ہم باطل پر ہیں تو ویسا ہی عذاب ہم پر لا کر دکھاؤ۔ آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ پیغمبروں کا کام اپنے اختیار سے عذاب نازل کرنا نہیں ہوتا۔ وہ تو لوگوں کو عذاب سے متنبہ کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ نافرمانوں پر فوراً عذاب نہیں بھیجتا، بلکہ اپنی رحمت کی وجہ سے انہیں مہلت دیتا ہے تاکہ اس مہلت کے دوران جن کو ایمان لانا ہو، وہ ایمان لے آئیں، البتہ اس کی طرف سے نافرمانوں کو عذاب دینے کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ وقت آئے گا تو کوئی اس عذاب کو ٹلا نہیں سکے گا۔

آیت ۵۶ ۔ ۶۰

ترجمہ

اور ہم پیغمبروں کو صرف اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہ (مومنوں کو) خوشخبری دیں، اور (کافروں کو عذاب سے) متنبہ کریں۔ اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ باطل کا سہارا لے کر جھگڑا کرتے ہیں، تاکہ اس کے ذریعے حق کو ڈگمگا دیں، اور انہوں نے میری آیتوں کو اور انہیں جو تنبیہ کی گئی تھی اس کو مذاق بنا رکھا ہے۔
اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جسے اس کے رب کی آیتوں کے حوالے سے نصیحت کی جائے، تو وہ ان سے منہ موڑ لے، اور اپنے ہاتھوں کے کرتوت کو بھلا بیٹھے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے (ان لوگوں کے کرتوت کی وجہ سے) ان کے دلوں پر غلاف چڑھا دیے ہیں جن کی وجہ سے وہ اس (قرآن) کو نہیں سمجھتے، اور ان کے کانوں میں ڈاٹ لگا دی ہے۔ اور اگر تم انہیں ہدایت کی طرف بلاؤ، تب بھی وہ صحیح راستے پر ہرگز نہیں آئیں گے۔
اور تمہارا پروردگار بہت بخشنے والا، بڑا رحمت والا ہے۔ جو کمائی انہوں نے کی ہے، اگر وہ اس کی وجہ سے انہیں پکڑنے پر آتا تو ان کو جلد ہی عذاب دے دیتا، لیکن ان کے لیے ایک وقت مقرر ہے، جس سے بچنے کے لیے انہیں کوئی پناہ گاہ نہیں ملے گی۔
یہ ساری بستیاں (تمہارے سامنے) ہیں، جب انہوں نے ظلم کی روش اپنائی تو ہم نے ان کو ہلاک کر ڈالا، اور ان کی ہلاکت کے لیے (بھی) ہم نے ایک وقت مقرر کیا ہوا تھا۔
اور (اس وقت کا ذکر سنو) جب موسیٰ نے اپنے نوجوان (شاگرد) سے کہا تھا کہ میں اس وقت تک اپنا سفر جاری رکھوں گا جب تک دو سمندروں کے سنگھم پر نہ پہنچ جاؤں، ورنہ برسوں چلتا رہوں گا۔ (۳۳)

تفسیر

۳۳۔ یہاں سے آیت نمبر ۸۲ تک اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کا وہ واقعہ بیان فرمایا ہے جو حضرت خضرؑ کے ساتھ پیش آیا۔ حضور سرور دو عالمﷺ نے اس واقعے کی تفصیل ایک طویل حدیث میں بیان فرمائی ہے جو صحیح بخاری میں کئی سندوں سے منقول ہے۔ اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰؑ سے کسی نے یہ سوال کیا کہ اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑا عالم کون ہے؟ چونکہ ہر پیغمبر اپنے وقت میں دین کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے۔ اس لیے حضرت موسیٰؑ نے جواب میں یہی فرما دیا ہے کہ میں ہی سب سے بڑا عالم ہوں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں آئی اور حضرت موسیٰؑ کو یہ ہدایت دی گئی کہ اس سوال کا صحیح جواب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ سب سے بڑا عالم کون ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ حضرت موسیٰؑ کو علم کے کچھ ایسے گوشوں سے روشناس کرائیں جو ان کی واقفیت کے دائرے سے باہر تھے۔ چنانچہ انہیں حکم دیا کہ وہ حضرت خضرؑ کے پاس جائیں۔ ان کو پتہ یہ بتایا گیا کہ جہاں دو دریا ملتے ہیں۔ وہاں تک سفر کریں، اور اپنے ساتھ ایک مچھلی لے جائیں۔ ایک موقع ایسا آئے گا کہ وہ مچھلی گم ہو جائے گی۔ بس اسی جگہ انہیں احضرت خضرؑ مل جائیں گے۔ چنانچہ حضرت موسیٰؑ اپنے نوجوان شاگرد حضرت یوشعؑ کو ساتھ لے کر اس سفر پر روانہ ہوئے۔ جو بعد میں خود پیغمبر بننے والے تھے۔ آگے کا واقعہ خود قرا ان کریم میں آ رہا ہے۔ البتہ یہاں اتنا سمجھ لینا چاہئے کہ حضرت موسیٰؑ کو جو یہ سفر کرایا گیا۔ اس کا ایک مقصد تو یہ ادب سکھانا تھا کہ اپنے آپ کو سب سے بڑا عالم کہنا کسی کو بھی زیب نہیں دیتا۔ علم تو ایک ناپید اکنار سمندر ہے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کونسا علم کس کے پاس زیادہ ہے۔ اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ حضرت موسیٰؑ خود آنکھوں سے اس بات کی ایک جھلک دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور علم سے اس کائنات کا نظام کس طرح چلا رہا ہے۔ اس کائنات میں بہت سے ایسے واقعات روز مرہ انسان کے سامنے آتے رہتے ہیں جن کا مقصد اس کی سمجھ میں نہیں آتا، حالانکہ کوئی واقعہ تو اللہ تعالیٰ کی کسی نہ کسی حکمت کے بغیر نہیں ہوتا۔ انسان کی نظر چونکہ محدود ہے، اس لیے وہ اس حکمت کو بسا اوقات نہیں سمجھتا، لیکن جس قادر مطلق کے ہاتھ میں پوری کائنات کی باگ ڈور ہے، وہی جانتا ہے کہ کس وقت کیا واقعہ پیش آنا چاہئے۔ اس بات کی مزید وضاحت انشاء اللہ اسی واقعے کے آخر میں آئے گی (دیکھئے ذیل میں حاشیہ نمبر ۴۱)

آیت ۶۱

ترجمہ

چنانچہ جب وہ ان کے سنگھم پر پہنچے تو دونوں اپنی مچھلی کو بھول گئے، اور اس نے سمندر میں ایک سرنگ کی طرح کا راستہ بنا لیا۔ (۳۴)

تفسیر

۳۴۔ حضرت موسیٰؑ ایک چٹان پر پہنچ کر کچھ دیر کے لیے سوگئے تھے۔ اسی دوران وہ مچھلی جو ایک زنبیل میں تھی، وہاں سے کھسک کر دریا میں جا گری، اور جس جگہ گری وہاں پانی میں سرنگ سی بن گئی جس میں جا کر مچھلی غائب ہو گئی۔ حضرت یوشعؑ اس وقت جاگ رہے تھے۔ اور انہوں نے یہ عجیب واقعہ دیکھا، مگر چونکہ حضرت موسیٰؑ سوئے ہوئے تھے، اس لیے ان کو جگانا مناسب نہیں سمجھا۔ بعد میں جب حضرت موسیٰؑ جاگ کر آگے روانہ ہوئے تو حضرت یوشعؑ ان کو یہ بات بتانا بھول گئے۔ اور یاد اس وقت آیا جب حضرت موسیٰؑ نے آگے چل کر ناشتہ مانگا

آیت ۶۲ ۔ ۶۴

ترجمہ

پھر جب دونوں آگے نکل گئے، تو موسیٰ نے اپنے نوجوان سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ، سچی بات یہ ہے کہ ہمیں اس سفر میں بڑی تھکاوٹ لاحق ہو گئی ہے۔
اس نے کہا۔ بھلا بتائیے! (عجیب قصہ ہو گیا) جب ہم اس چٹان پر ٹھہرے تھے تو میں مچھلی (کا آپ سے ذکر کرنا) بھول گیا۔ اور شیطان کے سوا کوئی نہیں ہے جس نے مجھ سے اس کا تذکرہ کرنا بھلا یا ہو، اور اس (مچھلی) نے تو بڑے عجیب طریقے پر دریا میں اپنی راہ لے لی تھی۔
موسیٰ نے کہا۔ اسی بات کی تو ہمیں تلاش تھی۔ (۳۵) چنانچہ دونوں اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے واپس لوٹے۔

تفسیر

۳۵۔ حضرت موسیٰؑ کو یہی علامت بتائی گئی تھی کہ جس جگہ پر مچھلی گم ہو گی وہیں حضرت خضرؑ سے ملاقات ہو گی، اس لئے حضرت یوشعؑ نے تو ڈرتے ڈرتے یہ واقعہ ذکر کیا تھا، لیکن حضرت موسیٰؑ اسے سن کر خوش ہوئے کہ منزل مقصود کا پتہ لگ گیا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۶۵

ترجمہ

تب انہیں ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ ملا جس کو ہم نے اپنی خصوصی رحمت سے نوازا تھا، اور خاص اپنی طرف سے ایک علم سکھایا تھا۔ (۳۶)

تفسیر

۳۶۔ صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق یہ حضرت خضرؑ تھے، جب حضرت موسیٰؑ اس چٹان کے پاس واپس پہنچے تو وہاں وہ چادر اوڑھے ہوئے لیٹے نظر آئے۔ اور ان کو جس خصوصی علم کے سکھانے کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس سے مراد تکوینیات کا علم ہے جس کی تشریح اس واقعے کے آخر میں آ رہی ہے۔

آیت ۶۶ ۔ ۶۸

ترجمہ

موسیٰ نے ان سے کہا۔ کیا میں آپ کے ساتھ اس غرض سے رہ سکتا ہوں کہ آپ کو بھلائی کا جو علم عطا ہوا ہے، اس کا کچھ حصہ مجھے بھی سکھا دیں؟
انہوں نے کہا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ میرے ساتھ رہنے پر صبر نہیں کر سکیں گے۔
اور جن باتوں کی آپ کو پوری پوری واقفیت نہیں ہے، ان پر آپ صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں؟ (۳۷)

تفسیر

۳۷۔ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ حضرت خضرؑ نے حضرت موسیٰؑ سے یہ بھی کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک ایسا علم دیا ہے جو آپ کے پاس نہیں (یعنی تکوینیات کا علم) اور آپ کو ایسا علم دیا ہے جو میرے پاس نہیں (یعنی شریعت کا علم)

آیت ۶۹ ۔ ۷۱

ترجمہ

موسیٰ نے کہا۔ انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے، اور میں آپ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔
انہوں نے کہا۔ اچھا! اگر آپ میرے ساتھ چلتے ہیں تو جب تک میں خود ہی آپ سے کسی بات کا تذکرہ شروع نہ کروں، آپ مجھ سے کسی بھی چیز کے بارے میں سوال نہ کریں۔
چنانچہ دونوں روانہ ہو گئے، یہاں تک کہ جب دونوں ایک کشتی میں سوار ہوئے تو ان صاحب نے کشتی میں چھید کر دیا۔ (۳۸) موسیٰ بولے۔ ارے کیا آپ نے اس میں چھید کر دیا تاکہ سارے کشتی والوں کو ڈبو ڈالیں؟ یہ تو آپ نے بڑا خوفناک کام کیا۔

تفسیر

۳۸۔ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ انہوں نے کشتی کا ایک تختہ نکال کر اس میں سوراخ کر دیا تھا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۷۲ ۔ ۷۴

ترجمہ

انہوں نے کہا۔ کیا میں نے کہا نہیں تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے؟
موسیٰ نے کہا۔ مجھ سے جو بھول ہو گئی، اس پر میری گرفت نہ کیجیے، اور میرے کام کو زیادہ مشکل نہ بنائے۔
وہ دونوں پھر روانہ ہو گئے، یہاں تک کہ ان کی ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی تو ان صاحب نے اسے قتل کر ڈالا۔ (۳۹) موسیٰ بول اٹھے۔ ارے کیا آپ نے ایک پاکیزہ جان کو ہلاک کر دیا، جبکہ اس نے کسی کی جان نہیں لی تھی، جس کا بدلہ اس سے لیا جائے؟ یہ تو آپ نے بہت ہی برا کام کیا۔

تفسیر

۳۹۔ مذکورہ حدیث میں ہے کہ وہ لڑکا دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ حضرت خضرؑ نے اس کا سر دھڑ سے الگ کر دیا۔

آیت ۷۵ ۔ ۷۷

ترجمہ

انہوں نے کہا۔ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہنے پر صبر نہیں کر سکیں گے؟
موسیٰ بولے۔ اگر اب میں آپ سے کوئی بات پوچھوں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیے۔ یقیناً آپ میری طرف سے عذر کی حد کو پہنچ گئے ہیں۔
چنانچہ وہ دونوں پھر روانہ ہو گئے، یہاں تک کہ جب ایک بستی والوں کے پاس پہنچے تو اس کے باشندوں سے کھانا مانگا تو ان لوگوں نے ان کی مہمانی کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر انہیں وہاں ایک دیوار ملی جو گرا ہی چاہتی تھی، ان صاحب نے اسے کھڑا کر دیا۔ موسیٰ نے کہا۔ اگر آپ چاہتے تو اس کام پر کچھ اجرت لے لیتے۔ (۴۰)

تفسیر

۴۰۔ مطلب یہ ہے کہ بستی والوں نے مہمانی سے تو انکار کر دیا تھا، لیکن اس دیوار کی مرمت پر ان سے جائز اجرت وصول کی جا سکتی تھی، جس سے ہمارے کھانے کا بھی انتظام ہو سکتا تھا۔

آیت ۷۸ ۔ ۸۲

ترجمہ

انہوں نے کہا۔ لیجیے میرے اور آپ کے درمیان جدائی کا وقت آ گیا۔ اب میں آپ کو ان باتوں کا مقصد بتائے دیتا ہوں جن پر آپ سے صبر نہیں ہو سکا۔
جہاں تک کشتی کا تعلق ہے وہ کچھ غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں مزدوری کرتے تھے، میں نے چاہا کہ اس میں کوئی عیب پیدا کر دوں، (کیونکہ) ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر (اچھی) کشتی کو زبردستی چھین کر رکھ لیا کرتا تھا۔
اور لڑکے کا معاملہ یہ تھا کہ اس کے ماں باپ مومن تھے، اور ہمیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ یہ لڑکا ان دونوں کو سرکشی اور کفر میں نہ پھنسا دے۔
چنانچہ ہم نے یہ چاہا کہ ان کا پروردگار انہیں اس لڑکے کے بدلے ایسی اولاد دے جو پاکیزگی میں بھی اس سے بہتر ہو، اور حسن سلوک میں بھی اس سے بڑھی ہوئی ہو۔
رہی یہ دیوار، تو وہ اس شہر میں رہنے والے دو یتیم لڑکوں کی تھی، اور اس کے نیچے ان کا ایک خزانہ گڑا ہوا تھا، اور ان دونوں کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔ اس لیے آپ کے پروردگار نے یہ چاہا کہ یہ دونوں لڑکے اپنی جوانی کی عمر کو پہنچیں، اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ یہ سب کچھ آپ کے رب کی رحمت کی بنا پر ہوا ہے، اور میں نے کوئی کام اپنی رائے سے نہیں کیا۔ یہ تھا مقصد ان باتوں کا جن پر آپ سے صبر نہیں ہو سکا۔ (۴۱)

تفسیر

۴۱۔ حضرت موسیٰؑ کو حضرت خضرؑ سے ملوانے اور یہ واقعات دکھانے کا اصل مقصد ایک اہم حقیقت کا مشاہدہ کرانا تھا اور اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے قرآن کریم نے یہ واقعہ ہمارے لئے بیان فرمایا ہے، اسلامی شریعت کی رو سے کسی کے لئے یہ بالکل جائز نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کی ملکیت میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی تصرف کرے، خاص طور پر اس کی تو ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی کے اس کی ملکیت کو کوئی نقصان پہنچا دے، چاہے وہ نقصان خود مالک کے فائدے کی نیت ہی سے پہنچایا گیا ہو لیکن حضرت خضرؑ نے کشتی والوں کی اجازت کے بغیر اس کا تختہ نکال دیا، اسی طرح کسی بے گناہ کو قتل کرنا شریعت میں انتہائی سنگین جرم ہے خاص طور پر کسی نابالغ لڑکے کو قتل کرنا تو حالت جنگ میں بھی جائز نہیں ہے، یہاں تک کہ اگر یہ معلوم ہو کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر کوئی فساد مچائے گا، تب بھی اس وقت اسے قتل کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا، اس لئے حضرت موسیٰؑ ان پر خاموش نہیں رہ سکے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت خضرؑ نے شریعت کے بالکل خلاف یہ کام کیسے کئے، اس سوال کا جواب جاننے کے لئے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس کائنات میں جتنے واقعات ہوتے ہیں چاہے وہ ہماری نظر میں اچھے معلوم ہوتے ہوں یا برے ان کا تعلق ایک ایسے جہاں سے ہے جو ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہے، اور جسے اصطلاح میں عالم تکوین کہا جاتا ہے جو براہ راست اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے تکوینی احکام کے ذری کنٹرول ہو رہا ہے، کس شخص کو کتنے عرصے زندہ رہنا ہے؟ اور کب اس کی موت واقع ہو گی، وہ کتنے عرصے صحت مند رہے گا اور کب بیمار ہو جائے گا، اسے کب کونسا روز گار نصیب ہو گا؟ اور اس کے ذری وہ کتنی روزی کماسکے گا؟ اس قسم کے سارے معاملات اللہ تعالیٰ براہ راست طے فرماتے ہیں اور ان فیصلوں کو نافذ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کچھ کارندے مقرر فرما رکھے ہیں جو ہماری نگاہوں سے پوشیدہ رہ کر اللہ تعالیٰ کے ان تکوینی احکام کی تعمیل کرتے ہیں، مثلاً جب اللہ تعالیٰ نے یہ طے فرما لیا کہ فلاں شخص کی موت کا وقت آ گیا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے موت کا فرشتہ اس شخص کی روح قبض کرنے کے لئے پہنچ جاتا ہے، جب وہ اللہ تعالیٰ کے تکوینی حکم کی تعمیل میں کسی کی موت واقع کر رہا ہوتا ہے تو وہ کسی جرم کا ارتکاب نہیں کرتا، بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے، کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے کی جان لے، لیکن جس فرشتے کو اللہ تعالیٰ نے اسی کام پر مقرر فرمایا ہے اس کے لئے یہ کوئی جرم نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے تکوینی احکام کو نافذ کرنے کے لئے عام طور سے فرشتے مقرر ہوتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں یہ فریضہ سونپ سکتے ہیں، حضرت خضرؑ اگرچہ انسان تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو فرشتوں کی طرح عالم تکوین کا پیغمبر بنا دیا تھا، انہوں نے جو کچھ کیا اللہ تعالیٰ کے تکوینی حکم کے ذریعے کیا، لہذا جس طرح موت کے فرشتے پر یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے ایک بے گناہ کی جان لے کر گناہ کا ارتکاب کیا ہے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی بات کے لئے مامور تھا، اسی طرح حضرت خضرؑ بھی اس کشتی کو عیب لگانے اور اس لڑکے کو قتل کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تکوینی طور پر مامور تھے، اس لئے ان کا یہ عمل کوئی جرم نہیں تھا، البتہ ہم لوگ دنیا میں رہتے ہوئے شریعت کے احکام کے پابند ہیں اور ہمیں عالم تکوین کا نہ علم عطا کیا گیا ہے اور نہ اس عالم سے متعلق ہمیں کوئی ذمہ داری سونپی گئی ہے، اس لئے ہم انہی احکام کے مکلف ہیں جو اس جیتی جاگتی زندگی میں ہمیں آنکھوں سے نظر آتے ہیں، چنانچہ حضرت موسیٰؑ جو اسی جیتی جاگتی دنیا کے پیغمبر تھے، اور جو شریعت ان کو دی گئی تھی، اسی کے پابند تھے، اس لئے وہ نہ حضرت خضرؑ کی ان باتوں پر خاموش رہ سکے اور نہ آئندہ ان کے ساتھ چل سکے، ان تین واقعات کے بعد وہ سمجھ گئے کہ ان صاحب کا دائرے کار میرے دائرہ کار سے بالکل الگ ہے اور میں ان کے ساتھ نہیں چل سکتا، البتہ اس طرح انہیں یہ حقیقت کھلی آنکھوں دکھا دی گئی کہ اس کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی لا محدود حکمت کار فرما ہے، اگر ہمیں کسی واقعہ کی وجہ سمجھ میں نہ آئے تو اس کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر کسی اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ جس عالم تکوین میں اس کی حکمت واضح ہو سکتی ہے وہ ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہے، روز مرہ کی زندگی میں ہمیں بہت سے منظر ایسے نظر آتے ہیں جن پر ہمارا دل دکھتا ہے بہت سے انسانوں کی مظلومیت کو دیکھ کر بعض اوقات دل میں شکوک و شبہات پیدا ہونے لگتے ہیں، حضرت خضرؑ کے ذریعے عالم تکوین کی ایک جھلک دکھا کر ایک مومن کے لئے ایسے شکوک و شبہات کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، البتہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ عالم تکوین اور اس کے کارندے ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہیں، حضرت خضرؑ بھی اس طرح پوشیدہ تھے، لیکن حضرت موسیٰؑ کو عالم تکوین کی ایک جھلک دکھانے کے لئے وحی کے ذریعے ان کا پتہ بتا دیا گیا، اب جبکہ وحی کا دروازہ بند ہو چکا ہے کسی کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ یقینی طور پر تکوین کے کسی کارندے تک رسائی حاصل کر سکے، اور نہ نظر آنے والی دنیا میں کوئی شخص یہ دعوی کر سکتا ہے کہ وہ تکوین کا کارندہ ہے، اور اسے تکوینی اختیارات حاصل ہیں، لہذا جن لوگوں نے حضرت خضرؑ کے واقعے کی بنیاد پر شریعت کے ظاہری احکام کی خلاف ورزی کو جائز قرار دینے کی کوشش کی ہے انہوں نے سراسر گمراہی پھیلائی ہے، مثلاً بعض نام نہاد درویشوں کا تصوف وغیرہ کے نام لے کر یہ کہنا کہ شریعت کے احکام ظاہر بیں لوگوں کے لئے ہیں، اور ہم ان سے مستثنی ہیں، پر لے درجے کی گمراہی ہے، آج کسی کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے جس سے وہ شریعت کے احکام سے مستثنی ہو سکے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۸۳

ترجمہ

اور یہ لوگ تم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ (۴۲) کہہ دو کہ میں ان کا کچھ حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں۔

تفسیر

۴۲۔ اس سورت کے تعارف میں گزر چکا ہے کہ مشرکین نے حضور سرور دو عالمﷺ سے تین سوالات کئے تھے، ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ اس شخص کا حال بتائیں جس نے مشرق سے مغرب تک پوری دنیا کا سفر کیا تھا، یہاں سے اس سوال کا جواب دیا جا رہا ہے، قرآن کریم نے بتایا ہے کہ اس شخص کا نام ذوالقرنین تھا، ذوالقرنین کے لفظی معنی ہیں دو سینگوں والا، یہ کسی نامعلوم وجہ سے ایک بادشاہ کا لقب تھا، قرآن کریم نے اس بادشاہ کی تفصیلات نہیں بتائیں کہ وہ کون تھا اور کس زمانے میں تھا البتہ ہمارے زمانے کے بیشتر محققین کا رجحان یہ ہے کہ وہ ایران کا بادشاہ سائرس تھا، جس نے بنی اسرائیل کو بابل کی جلا وطنی سے نجات دلا کر انہیں دوبارہ فلسطین میں آباد کیا تھا، قرآن کریم نے اتنا بتایا ہے کہ انہوں نے تین لمبے سفر کئے تھے، پہلا دنیا کی انتہائی مغربی آبادی تک، دوسرا انتہائی مشرقی آبادی تک، اور تیسرا انتہائی شمالی علاقے تک، جہاں انہوں نے یاجوج ماجوج کے وحشیانہ حملوں سے لوگوں کو بچانے کے لئے ایک دیوار تعمیر کی تھی۔

آیت ۸۴ ۔ ۸۶

ترجمہ

واقعہ یہ ہے کہ ہم نے ان کو زمین میں اقتدار بخشا تھا، اور انہیں ہر کام کے وسائل عطا کیے تھے۔
جس کے نتیجے میں وہ ایک راستے کے پیچھے چل پڑے۔
یہاں تک کہ جب وہ سورج کے ڈوبنے کی جگہ پہنچے تو انہیں دکھائی دیا کہ وہ ایک دلدل جیسے (سیاہ) چشمے میں ڈوب رہا ہے۔ (۴۳) اور وہاں انہیں ایک قوم ملی۔ ہم نے (ان سے) کہا۔ اے ذوالقرنین! (تمہارے پاس دو راستے ہیں) یا تو ان لوگوں کو سزا دو، یا پھر ان کے معاملے میں اچھا رویہ اختیار کرو۔ (۴۴)

تفسیر

۴۳۔ یہ ان کے پہلے سفر کا ذکر ہے، اور مطلب یہ ہے کہ اس وقت مغرب میں دنیا کی جو آخری آبادی تھی، ذوالقرنین وہاں تک پہنچے، وہ ایسی جگہ تھی کہ اس کے بعد کوئی آبادی نہیں تھی، اور حد نظر تک سمندر پھیلا ہوا تھا، اور سمندر کی شکل بھی ایک سیاہ رنگ کی دلدل جیسی تھی اور شام کے وقت جب سورج غروب ہوتا تو دیکھنے والے کو ایسا لگتا تھا جیسے وہ ایک دلدل نما چشمے میں ڈدب رہا ہے۔
۴۴۔ اس علاقے میں کافر لوگ آباد تھے، اور حضرت ذوالقرنین نے اسے فتح کر لیا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو دوسرے فاتحوں کی طرح تم بھی ان لوگوں کو قتل عام کر کے تکلیف میں مبتلا کر سکتے ہو، اور اگر چاہو تو ان کے ساتھ اچھا رویہ اختیار کر سکتے ہو، دوسری صورت کو اچھا رویہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرما دیا کہ یہ صورت بہتر ہے۔
ذوالقرنین کے بارے میں یہ بات یقینی نہیں ہے کہ وہ پیغمبر تھے یا نہیں، اگر وہ پیغمبر تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ بات ان سے براہ راست وحی کے ذریعے فرمائی ہو گی، اور وہ پیغمبر نہیں تھے، تو ان کو اس زمانے کے کسی پیغمبر کے ذریعے یہ بات پہنچائی ہو گی، اور یہ بھی ممکن ہے کہ وحی کے بجائے الہام کے ذریعے ان کے دل میں یہ بات ڈالی ہو گی واللہ اعلم۔

آیت ۸۷ ، ۸۸

ترجمہ

انہوں نے کہا۔ ان میں سے جو کوئی ظلم کا راستہ اختیار کرے گا، اسے تو ہم سزا دیں گے، پھر اسے اپنے رب کے پاس پہنچا دیا جائے گا، اور وہ اسے سخت عذاب دے گا۔
البتہ جو کوئی ایمان لائے گا، اور نیک عمل کرے گا تو وہ بدلے کے طور پر اچھے انجام کا مستحق ہو گا، اور ہم بھی اس کو اپنا حکم دیتے وقت آسانی کی بات کہیں گے۔ (۴۵)

تفسیر

۴۵۔ ذوالقرنین کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ میں انہیں راہ راست پر آنے کی دعوت دوں گا جو لوگ اس دعوت کو قبول نہ کر کے ظلم کا ارتکاب کریں گے انہیں تو میں سزا دوں گا اور جو لوگ دعوت قبول کر کے ایمان عمل صالح اختیار کر لیں گے ان کے ساتھ میں آسانی کا معاملہ کروں گا۔

آیت ۸۹، ۹۰

ترجمہ

اس کے بعد وہ ایک اور راستے کے پیچھے چل پڑے۔
یہاں تک کہ جب وہ سورج کے طلوع ہونے کی جگہ پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ وہ ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے جسے ہم نے اس (کی دھوپ) سے بچنے کے لیے کوئی اوٹ مہیا نہیں کی تھی۔ (۴۶)

تفسیر

۴۶۔ یہ ذوالقرنین کے دوسرے سفر کا ذکر ہے، اس سفر میں وہ دنیا کی انتہائی مشرقی آبادی تک جا پہنچے تھے، یہاں کچھ غیر متمدن لوگ رہتے تھے، ان میں مکان بنانے اور چھتیں ڈالنے کا دستور نہیں تھا، سب کھلے میدان میں رہتے تھے، اس لئے دھوپ سے بچاؤ کے لئے کوئی اوٹ نہیں تھی، بلکہ سورج کی کرنیں ان پر براہ راست پڑتی تھیں۔

آیت ۹۱ ۔ ۹۳

ترجمہ

واقعہ اسی طرح ہوا، اور ذوالقرنین کے پاس جو کچھ (سازوسامان) تھا، ہمیں اس کی پوری پوری خبر تھی۔
اس کے بعد وہ ایک اور راستے کے پیچھے چل پڑے۔
یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچے تو انہیں ان پہاڑوں سے پہلے کچھ لوگ ملے جن کے بارے میں ایسا لگتا تھا کہ وہ کوئی بات نہیں سمجھتے۔ (۴۷)

تفسیر

۴۷۔ یہ ذوالقرنین کا تیسرا سفر ہے، قرآن کریم نے اس سفر کی سمت متعین نہیں فرمائی، لیکن بیشتر مفسرین کا خیال یہ ہے کہ یہ سفر شمال میں دنیا کی انتہائی آبادی کی طرف ہوا تھا، یہاں کے لوگوں کی زبان بالکل مختلف تھی، اور شاید حلیہ بھی ایسا ہو کہ ان میں سمجھ کے آثار نظر نہ آتے ہوں، اور آگے ان سے جو گفتگو ہوئی ہے وہ یا تو کسی ترجمان کے ذریعے ہوئی ہو گی یا اشاروں سے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۹۴

ترجمہ

انہوں نے کہا۔ اے ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج اس زمین میں فساد پھیلانے والے لوگ ہیں۔ تو کیا ہم آپ کو کچھ مال کی پیش کش کر سکتے ہیں، جس کے بدلے آپ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی دیوار بنا دیں؟ (۴۸)

تفسیر

۴۸۔ یا جوج ماجوج دو وحشی قبیلے تھے جو ان پہاڑوں کے پیچھے رہتے تھے اور تھوڑے تھوڑے وقفوں سے وہ پہاڑوں کے درمیان درے سے اس علاقے میں آ کر قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیتے تھے، علاقے کے لوگ ان سے پریشان تھے، اس لئے انہوں نے ذوالقرنین کو دیکھا کہ وہ بڑے وسائل کے مالک ہیں تو ان سے درخواست کی کہ پہاڑوں کے درمیان جو درہ ہے اسے ایک دیوار بنا کر بند کر دیں، تاکہ یاجوج ماجوج کا راستہ بند ہو جائے، اور وہ یہاں آ کر فساد نہ پھیلا سکیں، اس کام کے لئے انہوں نے کچھ مال کی بھی پیش کش کی۔ لیکن حضرت ذو القرنین نے کوئی معاوضہ لینے سے انکار کر دیا، البتہ یہ کہا کہ تم اپنی افرادی طاقت سے میری مدد کرو تو میں یہ دیوار بلا معاوضہ بنا دوں گا۔

آیت ۹۵، ۹۶

ترجمہ

ذو القرنین نے کہا۔ اللہ نے مجھے جو اقتدار عطا فرمایا ہے، وہی (میرے لیے) بہتر ہے۔ لہذا تم لوگ (ہاتھ پاؤں کی) طاقت سے میری مدد کرو، تو میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں گا۔
مجھے لوہے کی چادریں لادو، یہاں تک کہ جب انہوں نے (درمیانی خلا کو پاٹ کر) دونوں پہاڑی سروں کو ایک دوسرے سے ملا دیا تو کہا کہ اب آگ دہکاؤ، (۴۹) یہاں تک کہ جب اس (دیوار) کو لال انگارا کر دیا تو کہا کہ پگھلا ہوا تانبا لاؤ، اب میں اس پر انڈیلوں گا۔

تفسیر

۴۹۔ ذوالقرنین نے پہلے لوہے کی بڑی بڑی چادریں پہاڑوں کے درمیان رکھ کر درے کو پاٹ دیا، پھر ان چادروں کو آگ سے گرم کر کے ان پر پگھلا ہوا تانبہ ڈالا، تاکہ وہ چادروں کی درمیانی درازوں میں جا کر بیٹھ جائے اور اس طرح یہ دیوار نہایت مضبوط بن گئی۔

آیت ۹۷، ۹۸

ترجمہ

چنانچہ (وہ دیوار ایسی بن گئی کہ) یاجوج ماجوج نہ اس پر چڑھنے کی طاقت رکھتے تھے، اور نہ اس میں کوئی سوراخ بنا سکتے تھے۔
ذوالقرنین نے کہا۔ یہ میرے رب کی رحمت ہے (کہ اس نے ایسی دیوار بنانے کی توفیق دی) پھر میرے رب نے جس وقت کا وعدہ کیا ہے جب وہ وقت آئے گا تو وہ اس (دیوار) کو ڈھا کر زمین کے برابر کر دے گا، (۵۰) اور میرے رب کا وعدہ بالکل سچا ہے۔

تفسیر

۵۰۔ ذوالقرنین نے اتنا بڑا کارنامہ انجام دینے کے بعد دو حقیقتوں کو واضح کیا، ایک یہ کہ یہ سارا کارنامہ میرے قوت بازو کا کرشمہ نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مجھے اس کی توفیق ہوئی ہے، اور دوسرے یہ کہ اگرچہ اس وقت یہ دیوار بہت مستحکم بن گئی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے اسے توڑنا کچھ مشکل نہیں ہے، جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا یہ قائم رہے گی، اور جب وہ وقت آ جائے گا جس میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ٹوٹنا مقرر کر رکھا ہے تو یہ ٹوٹ کر زمین کے برابر ہو جائے گی، اس طرح قرآن کریم سے یہ بات یقینی طور پر معلوم نہیں ہوتی کہ یہ دیوار قیامت تک قائم رہے گی، بلکہ اس کا قیامت سے پہلے ٹوٹنا بھی ممکن ہے، چنانچہ بعض محققین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ دیوار روس کے علاقے داغستان میں در بند کے مقام پر بنائی گئی تھی، اور اب وہ ٹوٹ چکی ہے، یاجوج ماجوج کے مختلف ریلے تاریخ کے مختلف زمانوں میں متمدن آبادیوں پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں، اور پھر وہ ان متمدن علاقوں میں پہنچ کر خود بھی متمدن ہوتے رہے ہیں، البتہ ان کا آخری ریلا قیامت کے کچھ پہلے نکلے گا، اس موضوع کی مفصل تحقیق حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحبؒ کی کتاب قصص القرآن اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ کی تفسیر معارف القرآن میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اور آگے ذوالقرنین نے جو یہ فرمایا کہ میرے رب کا وعدہ بالکل سچا ہے، اس سے مراد قیامت کا وعدہ ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ تو ابھی معلوم نہیں ہے کہ اس دیوار کے ٹوٹنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کونسا وقت مقرر فرمایا ہے، لیکن ایک وعدہ واضح طور پر معلوم ہے کہ ایک وقت قیامت آنے والی ہے، اور جب وہ آئے گی تو ہر مضبوط سے مضبوط چیز بھی ٹوٹ پھوٹ کر فنا ہو جائے گی، ذوالقرنین نے اس پر قیامت کا جو حوالہ دیا اس کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے آگے قیامت کے کچھ حالات بیان فرمائے ہیں۔

آیت ۹۹

ترجمہ

اور اس دن ہم ان کی یہ حالت کر دیں گے کہ وہ موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں گے، (۵۱) اور صور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو ایک ساتھ جمع کر لیں گے۔

تفسیر

۵۱۔ اس سے مراد یاجوج ماجوج کا وہ ریلا بھی ہو سکتا ہے جو قیامت کے قریب نکلے گا اور مطلب یہ ہے کہ جب وہ قیامت کے قریب نکلیں گے تو ایک غیر منظم بھیڑ کی شکل میں نکلیں گے اور موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں گے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ قیامت کے وقت عام لوگوں کی بد حواسی کا بیان ہو کہ قیامت کے ہولناک مناظر دیکھ کر لوگ بدحواسی میں ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں گے۔

آیت ۱۰۰ ۔ ۱۰۴

ترجمہ

اور اس دن ہم دوزخ کو ان کافروں کے سامنے کھلی آنکھوں لے آئیں گے۔
جن کی آنکھوں پر (دنیا میں) میری نصیحت کی طرف سے پردہ پڑا ہوا تھا، اور جو سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔
جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے، کیا وہ پھر بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مجھے چھوڑ کر میرے ہی بندوں کو اپنا رکھوالا بنا لیں گے؟ یقین رکھو کہ ہم نے ایسے کافروں کی مہمانی کے لیے دوزخ تیار کر رکھی ہے۔
کہہ دو کہ کیا ہم تمہیں بتائیں کہ کون لوگ ہیں جو اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام ہیں؟
یہ وہ لوگ ہیں کہ دنیوی زندگی میں ان کی ساری دوڑ دھوپ سیدھے راستے سے بھٹکی رہی، اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ (۵۲)

تفسیر

۵۲۔ اس آیت کریمہ نے یہ بڑی حقیقت واضح فرمائی ہے کہ کسی عمل کے مقبول ہونے کے لئے صرف خلوص نیت کافی نہیں ہے، بلکہ راستے کا سیدھا ہونا بھی ضروری ہے، بہت سے کافر خلوص کے ساتھ ایک کام کو اچھا سمجھ کر کرتے ہیں، لیکن چونکہ وہ کام انہوں نے خود اپنی طرف سے گھڑا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ یا اس کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کی طرف اس کام کی کوئی سند نہیں ہوتی، اس لئے وہ ساری محنت اکارت ہو کر رہ جاتی ہے۔

آیت ۱۰۵ ۔ ۱۰۹

ترجمہ

یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے مالک کی آیتوں کا اور اس کے سامنے پیش ہونے کا انکار کیا، اس لیے ان کا سارا کیا دھرا غارت ہو گیا۔ چنانچہ قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن شمار نہیں کریں گے۔
یہ ہے جہنم کی شکل میں ان کی سزا، کیونکہ انہوں نے کفر کی روش اختیار کی تھی، اور میری آیتوں اور میرے پیغمبروں کا مذاق بنایا تھا۔
(دوسری طرف) جو لوگ ایمان لائے ہیں، اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان کی مہمانی کے لیے بیشک فردوس کے باغ ہوں گے۔
جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے (اور) وہ وہاں سے کہیں اور جانا نہیں چاہیں گے۔
(اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے سمندر روشنائی بن جائے، تو میرے رب کی باتیں ختم نہیں ہوں گی کہ اس سے پہلے سمندر خشک ہو چکا ہو گا، چاہے اس سمندر کی کمی پوری کرنے کے لیے ہم ویسا ہی ایک اور سمندر کیوں نہ لے آئیں۔ (۵۳)

تفسیر

۵۳۔ اللہ تعالیٰ کی باتوں سے مراد اللہ تعالیٰ کی صفات اور کمالات کا تذکرہ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت اس کی حکمت اور اس کے کمالات اتنے زیادہ ہیں کہ اگر ان کو قلم بند کیا جائے تو بڑے بڑے سمندروں کو روشنائی بنا کر لکھا جائے، تو سمندر کے سمندر خشک ہو جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی صفات اور کمالات کا بیان ختم نہیں ہو گا۔

آیت ۱۱۰

ترجمہ

کہہ دو کہ میں تو تمہی جیسا ایک انسان ہوں (البتہ) مجھ پر یہ وحی آتی ہے کہ تم سب کا خدا بس ایک خدا ہے۔ لہذا جس کسی کو اپنے مالک سے جا ملنے کی امید ہو، اسے چاہیے کہ وہ نیک عمل کرے، اور اپنے مالک کی عبادت میں کسی اور کو شریک نہ ٹھہرائے۔
٭٭٭
 
Top