سورة طٰہٰ مفتی تقی عثمانی تفسیر آسان قرآن

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
تعارف
یہ سورت مکہ مکرمہ کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی۔ مستند روایات سے ثابت ہے کہ حضرت عمرؓ اسی سورت کو سن کر اسلام لائے تھے۔ ان کی بہن حضرت فاطمہ اور ان کے بہنوئی حضرت سعید بن زیدؓ ان سے پہلے خفیہ طور پر اسلام لا چکے تھے جس کا انہیں پتہ نہیں تھا۔ ایک روز وہ گھر سے آنحضرتﷺ کو قتل کرنے کے ارادے سے نکلے۔ راستے میں نعیم بن عبداللہ نامی ایک صاحب انہیں ملے، انہوں نے حضرت عمر سے کہا کہ آپ پہلے اپنے گھر کی خبر لیں جہاں آپ کی بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں۔ حضرت عمر غصے کے عالم میں واپس آئے تو بہن اور بہنوئی حضرت خباب بن ارتؓ سے سورة طہ پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر کو آتے دیکھا تو انہوں نے وہ صحیفہ جس پر سورة طہ لکھی ہوئی تھی، کہیں چھپا دیا، لیکن حضرت عمر پڑھنے کی آواز سن چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تم مسلمان ہو چکے ہو، اور یہ کہہ کر بہن اور بہنوئی دونوں کو بہت مارا۔ اس وقت ان دونوں نے کہا کہ آپ ہمیں کوئی بھی سزا دیں، ہم مسلمان ہو چکے ہیں، اور حضرت محمدﷺ پر جو کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے، وہ پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر نے کہا کہ اچھا مجھے بھی دکھاؤ، وہ کیسا کلام ہے۔ بہن نے ان سے غسل کروا کر صحیفہ ان کو دکھایا جس میں سورة طہ لکھی ہوئی تھی۔ اسے پڑھ کر حضرت عمرؓ مبہوت رہ گئے، اور انہیں یقین ہو گیا کہ یہ کسی انسان کا نہیں، اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ حضرت خبابؓ نے بھی انہیں اسلام لانے کی ترغیب دی، اور بتایا کہ آنحضرتﷺ نے یہ دعا فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ ابو جہل یا عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کو اسلام کی توفیق دے کر اسلام کی قوت کا سامان پیدا فرما دے۔ چنانچہ اسی وقت وہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اسلام قبول کر لیا۔
جس زمانے میں یہ سورت نازل ہوئی، وہ مسلمانوں کے لیے بڑی آزمائش اور تکلیفوں کا زمانہ تھا۔ کفار مکہ نے ان پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ اس لیے اس سورت کا بنیادی مقصد ان کو تسلی دینا تھا کہ اس قسم کی آزمائشیں حق کے علمبرداروں کو ہر زمانے میں پیش آئی ہیں، لیکن آخری انجام انہی کے حق میں ہوا ہے۔ چنانچہ اسی سلسلہ میں حضرت موسیٰؑ کا واقعہ نہایت تفصیل کے ساتھ اسی سورت میں بیان ہوا ہے جس سے دونوں باتیں ثابت ہوتی ہیں، یہ بھی کہ ایمان والوں کو آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور یہ بھی کہ آخری فتح انہی کی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ثابت کرنا مقصود ہے کہ تمام انبیائے کرام کی بنیادی دعوت ایک ہی ہوتی ہے کہ انسان خدائے واحد پر ایمان لائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔

آیت ۱

ترجمہ

طہ (۱)۔
تفسیر

۱۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ طٰہٰ رسول کریمﷺ کے اسمائے گرامی میں سے ایک نام ہے۔ اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ ان حروف مقطعات میں سے ہے جو مختلف سورتوں کے شروع میں آئے ہیں اور ان کے ٹھیک ٹھیک معنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا

آیت ۲

ترجمہ

ہم نے تم پر قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ تم تکلیف اٹھاؤ (۲)

تفسیر

۲۔ اس تکلیف سے مراد وہ تکلیفیں بھی ہو سکتی ہیں جو آنحضرتﷺ کو کفار کی طرف سے پہنچ رہی تھیں، اس صورت میں مطلب یہ ہے کہ یہ تکلیفیں ہمیشہ باقی رہنے والی نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو دور فرما کر آپ کو فتح عطا فرمائے گا۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ شروع میں ساری ساری رات جاگ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت فرماتے تھے، یہاں تک کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے تھے۔ اس آیت نے ارشاد فرمایا کہ آپ کو اتنی تکلیف اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ اس آیت کے نزول کے بعد آپ نے رات کے شروع حصے میں سونا اور آخری حصے میں عبادت کرنا شروع کر دیا۔

آیت ۳

ترجمہ

البتہ یہ اس شخص کے لیے ایک نصیحت ہے جو ڈرتا ہو۔ (۳)

تفسیر

۳۔ یہ نصیحت اس کے لیے کار آمد ہے جو ڈرتا رہتا ہو کہ میرا طرز عمل صحیح ہے یا نہیں، دوسرے الفاظ میں جس کے دل میں حق کی طلب ہو اور جو ہٹ دھرمی یا لاپروائی کی روش اختیار کرنے کے بعد بے فکر ہو کر نہ بیٹھ گیا ہو۔

آیت ۴، ۵

ترجمہ

اسے اس ذات کی طرف سے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا جا رہا ہے جس نے زمین اور اونچے اونچے آسمان پیدا کیے ہیں۔
وہ بڑی رحمت والا عرش پر استوا فرمائے ہوئے ہے۔ (۴)

تفسیر

۴۔ اس کی تشریح پیچھے سورة اعراف۔ ۵۴ کے حاشیے میں گذر چکی ہے۔

آیت ۶، ۷

ترجمہ

آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اور ان کے درمیان جو کچھ ہے وہ سب بھی اسی کی ملکیت ہے، اور زمین کی تہوں کے نیچے جو کچھ ہے وہ بھی۔
اگر تم کوئی بات بلند آواز سے کہو (یا آہستہ) تو وہ چپکے سے کہی ہوئی باتوں کو، بلکہ اور زیادہ چھپی ہوئی باتوں کو بھی جانتا ہے۔ (۵)

تفسیر

۵۔ اور زیادہ چھپی ہوئی باتیں وہ ہیں جو زبان سے کہی ہی نہیں گئیں، بلکہ جن کا صرف خیال دل میں آیا۔ اللہ تعالیٰ ان باتوں سے بھی باخبر ہے۔

آیت ۸ ۔ ۱۰

ترجمہ

اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کے اچھے اچھے نام ہیں۔
اور (اے پیغمبر) کیا تم تک موسیٰ کا واقعہ پہنچا ہے؟
یہ اس وقت کی بات ہے جب ان کو ایک آگ نظر آئی تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا۔ تم یہیں ٹھہرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے۔ شاید میں اس میں سے کوئی شعلہ تمہارے پاس لے آؤں، یا اس آگ کے پاس مجھے راستے کا پتہ مل جائے۔ (۶)

تفسیر

۶۔ سورة قصص میں آگے اس واقعے کی تفصیل آنے والی ہے کہ حضرت موسیٰؑ مدین میں ایک عرصہ دراز گذارنے کے بعد اپنی اہلیہ کو لے کر مصر کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ جب صحرائے سینا میں پہنچے تو راستہ بھول گئے۔ اور سخت سردی کا بھی احساس ہوا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آگ کی سی شکل نظر آئی جو در حقیقت ایک نور تھا۔ اس وقت انہوں نے اپنی اہلیہ کو وہاں رکنے کی ہدایت دی۔ اور خود آگ کی طرف چلے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۱۱، ۱۲

ترجمہ

چنانچہ جب وہ آگ کے پاس پہنچے تو انہیں آواز دی گئی کہ اے موسی۔
یقین سے جان لو کہ میں ہی تمہارا رب ہوں۔ (۷)ب تم اپنے جوتے اتار دو، تم اس وقت طوی کی مقدس وادی میں ہو۔ (۸)

تفسیر

۷۔ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ کو یہ یقین کیسے آیا کہ یہ آواز اللہ تعالیٰ کی طرف سے آ رہی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کو یہ اطمینان عطا فرما دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی سے ہم کلام ہیں۔ اور حالات بھی ایسے پیدا کر دئیے گئے کہ انہیں یہ یقین آ جائے۔ مثلاً بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ آگ کے پاس پہنچے تو یہ عجیب منظر نظر آیا کہ وہ آگ ایک درخت کے اوپر شعلے مار رہی ہے۔ مگر درخت کا کوئی پتہ جلتا نہیں ہے۔ انہوں نے انتظار کیا کہ شاید کوئی چنگاری اڑ کر ان کے پاس آ جائے۔ مگر وہ بھی نہ آئی۔ پھر انہوں نے کچھ گھاس پھونس لے کر اسے آگ کے قریب کیا، تاکہ اس میں آگ لگ جائے تو وہ آگ پیچھے ہٹ گئی۔ اس وقت یہ آواز سنائی دی اور آواز کسی ایک جہت سے نہیں، بلکہ چاروں طرف سے آتی محسوس ہو رہی تھی، اور موسیٰؑ صرف کان سے نہیں، بلکہ تمام اعضاء سے یہ آواز سن رہے تھے
۸۔ کوہ طور کے دامن میں جو وادی ہے اس کا نام طوی ہے، اور یہ ان مقامات میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے خصوصی تقدس عطا فرمایا ہے، اور جوتے اتارنے کا حکم ایک تو اس وادی کے تقدس کی وجہ سے تھا اور دوسرے یہ موقع جب کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہم کلامی کا شرف مل رہا تھا، ادب اور عجز و نیاز کے اظہار کا موقع تھا، اس لئے بھی جوتے اتار دینا مناسب تھا۔

آیت ۱۳ ۔ ۲۲

ترجمہ

اور میں نے تمہیں (نبوت کے لیے) منتخب کیا ہے۔ لہذا جو بات وحی کے ذریعے کہی جا رہی ہے اسے غور سے سنو۔
حقیقت یہ ہے کہ میں ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اس لیے میری عبادت کرو، اور مجھے یاد رکھنے کے لیے نماز قائم کرو۔
یقین رکھو کہ قیامت کی گھڑی آنے والی ہے، میں اس (کے وقت) کو خفیہ رکھنا چاہتا ہوں، تاکہ ہر شخص کو اس کے کیے کا بدلہ ملے۔
لہذا کوئی شخص تمہیں اس سے ہرگز غافل نہ کرنے پائے جو اس پر ایمان نہ رکھتا ہو، اور اپنی خواہشات کے پیچھے چلتا ہو، ورنہ تم ہلاکت میں پڑ جاؤ گے۔
اور موسیٰ یہ تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟
موسیٰ نے کہا۔ یہ میری لاٹھی ہے، میں اس کا سہارا لیتا ہوں، اور اس سے اپنی بکریوں پر (درخت سے) پتے جھاڑتا ہوں، اور اس سے میری دوسری ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں۔
فرمایا۔ موسیٰ! اسے نیچے پھینک دو۔
چنانچہ انہوں نے اسے پھینک دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ وہ اچانک ایک دوڑتا ہوا سانپ بن گئی۔
اللہ نے فرمایا۔ اسے پکڑ لو، اور ڈرو نہیں۔ ہم ابھی اسے اس کی پچھلی حالت پر لوٹا دیں گے۔
اور اپنے ہاتھ کو اپنی بغل میں دباؤ، وہ کسی بیماری کے بغیر سفید ہو کر نکلے گا۔ (۹) یہ (تمہاری نبوت کی) ایک اور نشانی ہو گی۔

تفسیر

۹۔ یعنی جب ہاتھ کو بغل سے نکالو گے تو سفیدی سے چمک رہا ہو گا، اور یہ سفید برص وغیرہ کی کسی بیماری کی وجہ سے نہیں ہو گی

آیت ۲۳ ۔ ۲۷

ترجمہ

(یہ ہم اس لیے کر رہے ہیں) تاکہ اپنی بڑی نشانیوں میں سے کچھ تمہیں دکھائیں۔
(اب) فرعون کے پاس جاؤ۔ وہ سرکشی میں حد سے نکل گیا ہے۔
موسیٰ نے کہا۔ پروردگار! میری خاطر میرا سینہ کھول دیجیے۔
اور میرے لیے میرا کام آسان بنا دیجیے۔
اور میری زبان میں جو گرہ ہے اسے دور کر دیجیے (۱۰)

تفسیر

۱۰۔ بچپن میں حضرت موسیٰؑ نے ایک انگارا زبان پر رکھ لیا تھا جس کی وجہ سے ان کی زبان میں تھوڑی سی لکنت پیدا ہو گئی تھی۔ اسی لکنت کو یہاں ’’گرہ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے

آیت ۲۸ ۔ ۳۴

ترجمہ

تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔
اور میرے لیے میرے خاندان ہی کے ایک فرد کو مددگار مقرر کر دیجیے۔
یعنی ہارون کو جو میرے بھائی ہیں۔
ان کے ذریعے میری طاقت مضبوط کر دیجیے۔
اور ان کو میرا شریک کار بنا دیجیے۔
تاکہ ہم کثرت سے آپ کی تسبیح کریں۔
اور کثرت سے آپ کا ذکر کریں۔ (۱۱)

تفسیر

۱۱۔ اگرچہ تسبیح اور ذکر تنہا بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر اچھے رفقاء میسر ہوں، اور ماحول ساز گار ہو تو یہ رفاقت خود بخود اس تسبیح اور ذکر کا داعیہ بن جاتی ہے

آیت ۳۵ ۔ ۳۹

ترجمہ

بیشک آپ ہمیں اچھی طرح دیکھنے والے ہیں۔
اللہ نے فرمایا۔ موسیٰ! تم نے جو کچھ مانگا ہے تمہیں دے دیا گیا۔
اور ہم نے تم پر ایک اور مرتبہ بھی احسان کیا تھا۔
جب ہم نے تمہاری ماں سے وحی کے ذریعے وہ بات کہی تھی جو اب وحی کے ذریعے (تمہیں) بتائی جا رہی ہے۔
کہ اس (بچے) کو صندوق میں رکھو، پھر اس صندوق کو دریا میں ڈال دو۔ (۱۲) پھر دریا کو چھوڑ دو کہ وہ اسے ساحل کے پاس لا کر ڈال دے، جس کے نتیجے میں ایک ایسا شخص اس (بچے) کو اٹھا لے گا جو میرا بھی دشمن ہو گا، اور اس کا بھی دشمن۔ (۱۳) اور میں نے اپنی طرف سے تم پر ایک محبوبیت نازل کر دی تھی۔ (۱۴) اور یہ سب اس لیے کیا تھا کہ تم میری نگرانی میں پرورش پاؤ۔ (۱۵)

تفسیر

۱۲۔ فرعون کو کسی نجومی نے یہ کہہ دیا تھا کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص تمہاری سلطنت کو ختم کرے گا۔ اس لیے اس نے یہ حکم جاری کر دیا تھا کہ بنی اسرائیل میں جو کوئی بچہ پیدا ہو اسے قتل کر دیا جائے۔ جب حضرت موسیٰؑ پیدا ہوئے تو ان کی والدہ کو فکر ہوئی کہ ان کو بھی فرعون کے آدمی قتل کر ڈالیں گے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ان کے دل پر الہام فرمایا کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ کر دریائے نیل میں ڈال دو۔
۱۳۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ وہ صندوق بہتا ہوا فرعون کے محل کے پاس پہنچ گیا، اور فرعون کے کارندوں نے بچے کو اٹھا کر فرعون کے پاس پیش کیا، اور اس کی بیوی حضرت آسیہ نے اسے آمادہ کر لیا کہ اسے اپنا بیٹا بنا کر پالیں۔
۱۴۔ حضرت موسیٰؑ کی شکل و صورت میں اللہ تعالیٰ نے ایسی معصومیت رکھ دی تھی کہ جو بھی آپ کو دیکھتا، آپ سے محبت کرتا تھا، اسی وجہ سے فرعون بھی انہیں اپنے گھر میں رکھنے پر راضی ہو گیا
۱۵۔ یوں تو ہر شخص کی پرورش اللہ تعالیٰ ہی کی نگرانی میں ہوتی ہے، مگر یہاں مطلب یہ ہے کہ عام طور سے پرورش کے جو اسباب ہوتے ہیں کہ ماں باپ اپنے کرچ اور ذمہ داری پر بچے کی پرورش کرتے ہیں، وہ حضرت موسیٰؑ کے معاملے میں اختیار نہیں فرمائے گئے۔ اس کے بجائے اللہ تعالیٰ نے براہ راست ان کی پرورش ان کے دشمن سے کرائی۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۴۰

ترجمہ

اس وقت کا تصور کرو جب تمہاری بہن گھر سے چلتی ہے، اور (فرعون کے کارندوں سے) یہ کہتی ہے کہ کیا میں تمہیں اس (عورت) کا پتہ بتاؤں جو اس (بچے) کو پالے؟ (۱۶) اس طرح ہم نے تمہیں تمہاری ماں کے پاس لوٹا دیا، تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی رہے، اور وہ غمگین نہ ہو۔ اور تم نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا، (۱۷) پھر ہم نے تمہیں اس گھٹن سے نجات دی، اور تمہیں کئی آزمائشوں سے گزارا۔ (۱۸) پھر تم کئی سال مدین والوں میں رہے، اس کے بعد اے موسیٰ! تم ایک ایسے وقت پر یہاں آئے ہو جو پہلے سے مقدر تھا۔

تفسیر

۱۶۔ فرعون کی اہلیہ نے جب بچے کو پالنے کا ارادہ کر لیا تو ان کو دودھ پلانے والی کی تلاش شروع ہوئی، لیکن حضرت موسیٰؑ کسی بھی عورت کا دودھ منہ میں نہیں لیتے تھے۔ حضرت آسیہ نے اپنی کنیزیں بھیجیں کہ وہ کوئی ایسی عورت تلاش کریں جس کا دودھ یہ قبول کر لیں۔ ادھر حضرت موسیٰؑ کی والدہ بچے کو دریا میں ڈالنے کے بعد بے چین تھیں۔ انہوں نے حضرت موسیٰؑ کی بہن کو دیکھنے کے لیے بھیجا کہ بچہ کا انجام کیا ہوا۔ یہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے اسی جگہ پہنچ گئیں جہاں فرعون کی کنیزیں پریشانی کے عالم میں دودھ پلانے والی عورتوں کو تلاش کر رہی تھیں۔ ان کو موقع مل گیا، اور انہوں نے اپنی والدہ کو یہ خدمت سونپنے کی تجویز پر پیش کی، اور انہیں وہاں لے بھی آئیں، جب انہوں نے بچے کو دودھ پلانا چاہا تو بچے نے آرام سے دودھ پی لیا، اور پھر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق بچہ دوبارہ ان کے پاس آ گیا۔
۱۷۔ یہ سارے واقعات تفصیل سے سورة قصص میں آنے والے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ آپ نے مظلوم اسرائیلی کو ایک ظالم سے بچانے کے لیے اسے ایک مکا مارا تھا۔ ان کا مقصد اسے ظلم سے باز رکھنا تھا، قتل کرنا مقصود نہیں تھا، لیکن وہ مکہ ہی سے مرگیا۔
۱۸۔ ان آزمائشوں کی تفصیل حضرت عبداللہ بن عباس نے ایک طویل روایت میں بتائی ہے جو تفسیر ابن کثیر میں مروی ہے اور اس کا مکمل ترجمہ معارف القرآن جلد ۶ ص ۸۴ تا ۱۰۳ میں موجود ہے

آیت ۴۱ ۴۲

ترجمہ

اور میں نے تمہیں خاص اپنے لیے بنایا ہے۔
تم اور تمہارا بھائی دونوں میری نشانیاں لے کر جاؤ، اور میرا ذکر کرنے میں سستی نہ کرنا۔ (۱۹)

تفسیر

۱۹۔ یہاں یہ سبق دینا مقصود ہے کہ ایک داعی حق کو ہر وقت اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھنا چاہئے اور ہر مشکل میں اسی سے مدد مانگنی چاہئے۔

آیت ۴۳ ۔ ۵۰

ترجمہ

دونوں فرعون کے پاس جاؤ، وہ حد سے آگے نکل چکا ہے۔
جا کر دونوں اس سے نرمی سے بات کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کرے، یا (اللہ سے) ڈر جائے۔
دونوں نے کہا۔ ہمارے پروردگار! ہمیں اندیشہ ہے کہ کہیں وہ ہم پر زیادتی نہ کرے، یا کہیں سرکشی پر آمادہ نہ ہو جائے۔
اللہ نے فرمایا۔ ڈرو نہیں، میں تمہارے ساتھ ہوں، سن بھی رہا ہوں، اور دیکھ بھی رہا ہوں۔
اب اس کے پاس جاؤ، اور کہو کہ ہم دونوں تمہارے رب کے پیغمبر ہیں، اس لیے بنو اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دو، اور انہیں تکلیفیں نہ پہنچاؤ، ہم تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر آئے ہیں، اور سلامتی اسی کے لیے جو ہدایت کی پیروی کرے۔
ہم پر یہ وحی نازل کی گئی ہے کہ عذاب اس کو ہو گا جو (حق کو) جھٹلائے، اور منہ موڑے۔
(یہ ساری باتیں سن کر) فرعون نے کہا۔ موسیٰ تم دونوں کا رب کون؟
موسیٰ نے کہا۔ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو وہ بناوٹ عطا کی جو اس کے مناسب تھی، پھر (اس کی) رہنمائی بھی فرمائی۔ (۲۰)

تفسیر

۲۰۔ یعنی یہ اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت اور حکمت ہے کہ جس مخلوق کے لیے جو بناوٹ مقرر کر دی۔ اس کو اسی کے مطابق کائنات میں اپنی ڈیوٹی بجا لانے کا طریقہ بھی سکھا دیا۔ مثلاً سورج کو کائنات میں روشنی اور حرارت پیدا کرنے کے لیے ایک خاص بناوٹ عطا فرمائی تو اسے یہ طریقہ بھی سکھا دیا کہ وہ کس طرح اپنے نظام شمسی کے ساتھ گردش کرے، اسی طرح ہر جان دار کو یہ سکھا دیا کہ وہ کس طرح چلے، اور کس طرح اپنی غذا حاصل کرے۔ مچھلی کا بچہ پانی میں پیدا ہوتا ہے، اور کسی کے سکھائے بغیر تیرنا شروع کر دیتا ہے۔ پرندے ہوا میں اڑنا خود بخود سیکھ لیتے ہیں غرض ہر مخلوق کو اس کی ساخت کے مناسب زندہ رہنے کا طریقہ اللہ تعالیٰ ہی سکھاتے ہیں

آیت ۵۱

ترجمہ

فرعون بولا۔ اچھا پھر ان قوموں کا کیا معاملہ ہوا جو پہلے گزر چکی ہیں؟ (۲۱)

تفسیر

۲۱۔ اس سوال سے فرعون کا مقصد یہ تھا کہ مجھ سے پہلے بہت سی قومیں گذر چکی ہیں جو توحید کی قائل نہیں تھیں، اس کے باوجود وہ زندہ رہیں، اور ان پر کوئی عذاب نازل نہیں ہوا۔ اگر توحید کے انکار سے انسان عذاب الٰہی کا مستحق ہو جاتا ہے تو ان قوموں پر عذاب کیوں نہیں آیا؟ حضرت موسیٰؑ نے اس سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر ہر شخص کا اور اس کے کیے ہوئے کاموں کا پورا پورا حال معلوم ہے۔ وہ اپنی حکمت ہی سے فیصلہ فرماتا ہے کہ حق کا انکار کرنے والوں میں سے کس کو اسی دنیا میں سزا دینی ہے، اور کس کی سزا آخرت تک موخر کرنی ہے۔ اگر کسی کافر قوم کو دنیا میں کسی عذاب کا سامنا نہیں ہوا۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے معاذ اللہ کوئی بھول چوک ہو گئی ہے بلکہ یہ اس کی حکمت کا فیصلہ ہے کہ اس کو دنیا کے بجائے آخرت میں عذاب دیا جائے۔

آیت ۵۲ ۔ ۵۹

ترجمہ

موسیٰ نے کہا۔ ان کا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب میں محفوظ ہے۔ میرے رب کو نہ کوئی غلطی لگتی ہے، نہ وہ بھولتا ہے
یہ وہ ذات ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے فرش بنا دیا، اور اس میں تمہارے لیے راستے بنائے، اور آسمان سے پانی برسایا، پھر ہم نے اس کے ذریعے طرح طرح کی مختلف نباتات نکالیں۔
خود بھی کھاؤ، اور اپنے مویشیوں کو بھی چراؤ، یقیناً ان سب باتوں میں عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔
اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا تھا، اسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے، اور اسی سے ایک مرتبہ پھر تمہیں نکال لائیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس (فرعون) کو اپنی ساری نشانیاں دکھائیں، مگر وہ جھٹلاتا ہی رہا، اور مان کر نہیں دیا۔
کہنے لگا۔ موسیٰ! کیا تم اس لیے آئے ہو کہ اپنے جادو کے ذریعے ہمیں اپنی زمین سے نکال باہر کرو؟
اچھا تو ہم بھی تمہارے سامنے ایسا ہی جادو لا کر رہیں گے۔ اب تم کسی کھلے میدان میں ہمارے اور اپنے درمیان مقابلے کا ایسا وقت طے کر لو جس کی خلاف ورزی نہ ہم کریں، نہ تم کرو۔
موسیٰ نے کہا۔ تم سے وہ دن طے ہے جس میں جشن منایا جاتا ہے۔ (۲۲) اور یہ بھی طے ہے کہ دن چڑھے ہی لوگوں کو جمع کر لیا جائے۔

تفسیر

۲۲۔ یہ کوئی تہوار تھا جس میں فرعون کی قوم جشن منایا کرتی تھی۔ حضرت موسیٰؑ نے اس دن کا انتخاب اس لیے فرمایا تاکہ ایک بڑا مجمع موجود ہو اور اس کے سامنے حق کی فتح کا مظاہرہ ہو سکے
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۶۰، ۶۱

ترجمہ

چنانچہ فرعون (اپنی جگہ) واپس چلا گیا، اور اس نے اپنی ساری تدبیریں اکٹھی کیں، پھر (مقابلے کے لیے) آ گیا۔
موسیٰ نے ان (جادوگروں سے) کہا۔ افسوس ہے تم پر! اللہ پر بہتان نہ باندھو (۲۳) ورنہ وہ ایک سخت عذاب سے تمہیں مل یا میٹ کر دے گا، اور جو کوئی بہتان باندھتا ہے، نامراد ہوتا ہے۔

تفسیر

۲۳۔ یعنی کفر کی راہ اختیار نہ کرو۔ کیونکہ کفر کا ہر باطل عقیدہ اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھنے کے مردف ہے

آیت ۶۲ ۔ ۶۷

ترجمہ

اس پر ان کے درمیان اپنی رائے قائم کرنے میں اختلاف ہو گیا، اور وہ چپکے چپکے سرگوشیاں کرنے لگے۔
( آخر کار) انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر یہ دونوں (یعنی موسیٰ اور ہارون) جادوگر ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور پر تم لوگوں کو تمہاری سرزمین سے نکال باہر کریں، اور تمہارے بہترین (دینی) طریقے کا خاتمہ ہی کر ڈالیں۔
لہذا اپنی ساری تدبیریں پختہ کر لو، پھر صف باندھ کر آؤ، اور یقین رکھو کہ آج جو غالب آ جائے گا، فلاح اسی کو حاصل ہو گی۔
جادوگر بولے۔ موسیٰ! یا تو تم (اپنی لاٹھی پہلے) ڈال دو، یا پھر ہم ڈالنے میں پہل کریں؟
موسیٰ نے کہا۔ نہیں، تم ہی ڈالو۔ بس پھر اچانک ان کی (ڈالی ہوئی) رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کے نتیجے میں موسیٰ کو ایسی محسوس ہونے لگیں جیسے دوڑ رہی ہیں۔
اس پر موسیٰ کو اپنے دل میں کچھ خوف محسوس ہوا۔ (۲۴)

تفسیر

۲۴۔ یہ طبعی خوف تھا، اور اس لیے تھا کہ جو شعبدہ ان جادوگروں نے دکھایا، وہ بظاہر اس معجزے سے ملتا جلتا تھا۔ جو حضرت موسیٰؑ دکھا چکے تھے۔ لہذا خوف یہ تھا کہ لوگ حضرت موسیٰؑ کے معجزے کو بھی کہیں جادو ہی نہ سمجھ بیٹھیں۔

آیت ۶۸ ۔ ۷۰

ترجمہ

ہم نے کہا۔ ڈرو نہیں، یقین رکھو تم ہی تم سربلند رہو گے۔
اور جو (لاٹھی) تمہارے دائیں ہاتھ میں ہے، اسے (زمین پر) ڈال دو، ان لوگوں نے جو کاریگری کی ہے، وہ اس سب کو نگل جائے گی، ان کی ساری کاریگری ایک جادوگر کے کرتب کے سوا کچھ نہیں، اور جادوگر چاہے کہیں چلا جائے، اسے فلاح نصیب نہیں ہوتی۔
چنانچہ (یہی ہوا اور) سارے جادوگر سجدے میں گرا دیے گئے۔ (۲۵) کہنے لگے کہ ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لے آئے۔

تفسیر

۲۵۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق جب حضرت موسیٰؑ نے اپنا عصا زمین پر پھینکا تو اس نے ایک اژدہا بن کر جادوگروں کے بنائے ہوئے جعلی سانپوں کو ایک ایک کر کے نگل لیا۔ اس پر جادوگروں کو یقین ہو گیا کہ یہ جادو نہیں، بلکہ حضرت موسیٰؑ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ چنانچہ وہ سجدے میں گر پڑے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم نے ان کے لیے سجدے میں گر گئے کے بجائے سجدے میں گرا دئیے گئے۔ فرمایا ہے۔ اس میں اشارہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰؑ نے جو معجزہ دکھلایا وہ اس درجہ مؤثر تھا کہ اس نے انہیں بے ساختہ سجدے میں گرا دیا۔

آیت ۷۱، ۷۳

ترجمہ

فرعون بولا۔ تم ان پر میرے اجازت دینے سے پہلے ہی ایمان لے آئے، مجھے یقین ہے کہ یہ (موسی) تم سب کا سرغنہ ہے جس نے تمہیں جادو سکھلایا ہے۔ اب میں نے بھی پکا ارادہ کر لیا ہے کہ تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹوں گا، اور تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی چڑھاؤں گا۔ اور تمہیں یقیناً پتہ لگ جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے۔
جادوگروں نے کہا۔ قسم اس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ ہمارے سامنے جو روشن نشانیاں آ گئی ہیں ان پر ہم تمہیں ہرگز ترجیح نہیں دے سکتے۔ اب تمہیں جو کچھ کرنا ہو، کر لو۔ تم جو کچھ بھی کرو گے اسی دنیوی زندگی کے لیے ہو گا۔
ہم تو اپنے رب پر ایمان لا چکے ہیں، تاکہ وہ ہمارے گناہوں کو بھی بخش دے، اور جادو کے اس کام کو بھی جس پر تم نے ہمیں مجبور کیا۔ (۲۶) اور اللہ ہی سب سے اچھا اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔

تفسیر

۲۶۔ اندازہ لگائیے کہ جب ایمان دل میں گھر کر جاتا ہے تو وہ انسان کی سوچ اور اس کے ارادوں میں کتنا بڑا انقلاب پیدا کر دیتا ہے۔ یہ وہ جادوگر تھے جن کی سب سے بڑی معراج یہ تھی کہ فرعون ان کو انعام و اکرام سے نواز کر اپنی خوشنودی اور تقرب عطا کر دے۔ چنانچہ مقابلے پر آنے کے وقت فرعون سے ان کا سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ اگر ہم غالب آ گئے تو ہمیں کوئی اجرت بھی ملے گی؟ (دیکھئے سورة اعراف۔ ۱۳ لیکن جب حق کھل کر ان کے سامنے آ گیا اور اس پر ایمان و یقین دل میں گھر کر گیا تو انہیں نہ فرعون کی ناراضی کا خوف رہا، نہ اپنے ہاتھ پاؤں کٹوانے یا سولی پر لٹکنے کا۔ اللہ اکبر!

آیت ۷۴

ترجمہ

حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اپنے پروردگار کے پاس مجرم بن کر آئے گا، اس کے لیے جہنم ہے جس میں نہ وہ مرے گا اور نہ کیے گا۔ (۲۷)

تفسیر

۲۷۔ مرے گا تو اس لیے نہیں کہ وہاں کسی کو موت نہیں آئے گی۔ اور جینے کی جو نفی کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جینا چونکہ موت سے بھی بد تر ہو گا۔ اس لیے وہ جینے میں شمار کرنے کے لائق نہیں ہو گا۔ اعاذنا اللہ من ذلک۔

آیت ۷۵ ۔ ۷۷

ترجمہ

اور جو شخص اس کے پاس مومن بن کر آئے گا جس نے نیک عمل بھی کیے ہوں گے، تو ایسے ہی لوگوں کے لیے بلند درجات ہیں۔
وہ ہمیشہ رہنے والے باغات جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور یہ صلہ ہے اس کا جس نے پاکیزگی اختیار کی۔
اور ہم نے موسیٰ پر وحی بھیجی کہ تم میرے بندوں کو لے کر راتوں رات روانہ ہو جاؤ (۲۸) پھر ان کے لیے سمندر میں ایک خشک راستہ اس طرح نکال لینا کہ نہ تمہیں (دشمن کے) آ پکڑنے کا اندیشہ رہے، اور نہ کوئی اور خوف ہو (۲۹)

تفسیر

۲۸۔ جادوگروں سے مقابلے میں فتح پانے کے بعد بھی حضرت موسیٰؑ کافی عرصے مصر میں رہے۔ اور اس دوران فرعون کو ان کی تبلیغ بھی جاری رہی، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعدد نشانیاں بھی دکھائی جاتی رہیں، جن کا ذکر سورة اعراف میں گذرا ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو یہ حکم دیا کہ تمام بنی اسرائیل کو لے کر راتوں رات مصر سے نکل جائیں
۲۹۔ یعنی تمہارے راستے میں سمندر آئے گا، تم اپنا عصا اس پر مارو گے تو اس میں تمہاری قوم کے گذرنے کے لیے خشک راستہ بن جائے گا۔ اس کی تفصیل سورة یونس۔ ۸۹ تا ۹۲ میں بھی گذری ہے، اور سورة شعراء۔ ۶۰ تا ۶۶ میں بھی آئے گی۔ چونکہ یہ راستہ اللہ تعالیٰ نے صرف تمہارے لیے پیدا کیا ہو گا۔ اس لیے فرعون کا لشکر اس سے گذر کر تمہیں نہیں پکڑ سکے گا۔ لہذا نہ تمہیں پکڑے جانے کا خوف ہو گا، نہ ڈوب جانے کا

آیت ۷۸

ترجمہ

چنانچہ فرعون نے اپنے لشکروں سمیت ان کا پیچھا کیا تو سمندر کی جس (خوفناک) چیز نے انہیں ڈھانپا، وہ انہیں ڈھانپ کر ہی رہی۔ (۳۰)

تفسیر

۳۰۔ عربی محاورے کے مطابق ’’وہ چیز‘‘ کہہ کر اس کے ناقابل بیان حد تک خوفناک ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۷۹ ۔ ۸۳

ترجمہ

اور فرعون نے اپنی قوم کو برے راستے پر لگایا، اور انہیں صحیح راستہ نہ دکھایا۔
اے بنی اسرائیل! ہم نے تمہیں تمہارے دشمن سے نجات دی، اور تم سے کوہ طور کے دائیں جانب آنے کا وعدہ ٹھہرایا، اور تم پر من وسلوی نازل کیا۔
جو پاکیزہ رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے کھاؤ، اور اس میں سرکشی نہ کرو جس کے نتیجے میں تم پر میرا غضب نازل ہو جائے۔ اور جس کسی پر میرا غضب نازل ہو جاتا ہے وہ تباہی میں گر کر رہتا ہے۔
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے، اور نیک عمل کرے، پھر سیدھے راستے پر قائم رہے تو میں اس کے لیے بہت بخشنے والا ہوں۔
اور (جب موسیٰ کوہ طور پر اپنے لوگوں سے پہلے چلے آئے تو اللہ نے ان سے کہا) موسیٰ! تم اپنی قوم سے پہلے جلدی کیوں آ گئے؟ (۳۱)

تفسیر

۳۱۔ صحرائے سینا میں قیام کے دوران اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو کوہ طور پر بلایا تھا، تاکہ وہ وہاں چالیس دن تک اعتکاف کریں تو انہیں تورات عطا کی جائے گی۔ شروع میں بنی اسرائیل کے کچھ منتخب لوگوں کے بارے میں بھی یہ طے ہوا تھا کہ وہ بھی آپ کے ساتھ جائیں گے۔ لیکن حضرت موسیٰؑ جلدی روانہ ہو گئے، اور ان کا خیال تھا کہ باقی ساتھی بھی پیچھے آ رہے ہوں گے۔ لیکن وہ لوگ نہیں آئے۔

آیت ۸۴، ۸۵

ترجمہ

انہوں نے کہا۔ وہ میرے پیچھے پیچھے آیا ہی چاہتے ہیں، اور پروردگار! میں آپ کے پاس اس لیے جلدی آ گیا تاکہ آپ خوش ہوں۔
اللہ نے فرمایا۔ پھر تمہارے آنے کے بعد ہم نے تمہاری قوم کو فتنے میں مبتلا کر دیا ہے، اور انہیں سامری نے گمراہ کر ڈالا ہے۔ (۳۲)

تفسیر

۳۲۔ سامری ایک جادوگر تھا جو بظاہر حضرت موسیٰ پر ایمان لے آیا تھا۔ اور اسی لیے ان کے ساتھ لگ گیا تھا، مگر حقیقت میں وہ منافق تھا۔

آیت ۸۶

ترجمہ

چنانچہ موسیٰ غم و غصے میں بھرے ہوئے اپنی قوم کے پاس واپس لوٹے۔ کہنے لگے۔ میری قوم کے لوگو! کیا تمہارے پروردگار نے تم سے ایک اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ (۳۳) تو کیا تم پر کوئی بہت لمبی مدت گزر گئی تھی، (۳۴) یا تم چاہتے ہی یہ تھے کہ تم پر تمہارے رب کا غضب نازل ہو جائے، اور اس وجہ سے تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی؟

تفسیر

۳۳۔ اچھے وعدے سے مراد کوہ طور پر تورات دینے کا وعدہ ہے
۳۴۔ یعنی مجھے کوہ طور پر گئے ہوئے کوئی ایسی لمبی مدت تو نہیں گذری تھی کہ تم میرا انتظار کیے بغیر اس بچھڑے کو معبود بنا بیٹھو

آیت ۸۷

ترجمہ

کہنے لگے۔ ہم نے اپنے اختیار سے آپ کے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کی، بلکہ ہوا یہ کہ ہم پر لوگوں کے زیورات کے بوجھ لدے ہوئے تھے، اس لیے ہم نے انہیں پھینک دیا۔ (۳۵) پھر اسی طرح سامری نے کچھ ڈالا (۳۶)

تفسیر

۳۵۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ فرعون کے لشکر کا چھوڑا ہوا مال غنیمت تھا، اس دور میں مال غنیمت کو استعمال کرنا جائز نہیں تھا۔ اس کے بجائے اسے ایک میدان میں رکھ دیا جاتا تھا، اور آسمان سے ایک آگ آ کر اسے جلا دیتی تھی، شاید ان زیورات کو پھینکنے کا یہی مقصد ہو کہ آسمانی آگ انہیں آ کر جلا دے۔ اس کے برخلاف عام طور پر تفسیروں میں یہ روایت مذکور ہے کہ بنی اسرائیل جب مصر سے نکلے تھے تو نکلنے سے پہلے انہوں نے فرعون کی قوم کے لوگوں سے بہت سے زیورات عید کے موقع پر پہننے کے لیے مستعار لیے تھے وہ سارے زیورات مصر سے نکلتے ہوئے ان کے ساتھ تھے۔ چونکہ یہ زیورات دوسروں کی امانت تھی۔ اس لیے بنی اسرائیل کے لیے جائز نہیں تھا کہ وہ انہیں مالکوں کی اجازت کے بغیر استعمال کریں۔ دوسری طرف انہیں واپس کرنے کا بھی کوئی راستہ نہیں تھا اس لیے حضرت ہارونؑ نے ان سے کہا کہ یہ زیورات یہیں پھینک دو، اور ان کے ساتھ وہی معاملہ کرو، جو دشمن سے حاصل کیے ہوئے مال غنیمت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی روایت بہت مستند نہیں ہے۔ اور احتمال یہ بھی ہے کہ سامری نے اپنا شعبدہ دکھانے کے لیے لوگوں سے کہا ہو کہ تم اپنے زیور نیچے پھینکو، میں تمہیں ایک تماشا دکھاتا ہوں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عام لوگوں نے جو زیورات پھینکے، اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ’’قذف‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے، اور سامری نے جو کچھ پھینکا، اس کے لیے دوسرا لفظ ’’القاء‘‘ استعمال فرمایا ہے۔ اس میں یہ بھی امکان ہے کہ یہ صرف اسلوب کی تبدیلی ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ سامری کے پھینکنے سے مراد اس کی شعبدہ بازی کی کاریگری ہو، کیونکہ القاء کا لفظ جادوگروں کے کرتب کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
۳۶۔ جب سارے لوگوں نے اپنے زیورات پھینک دئیے تو سامری بھی کوئی چیز مٹھی میں دبا کر لایا، اور حضرت ہارونؑ سے کہا کہ کیا میں بھی پھینک دوں؟ حضرت ہارونؑ نے سمجھا کہ وہ بھی کوئی زیور ہو گا، اس لیے فرمایا کہ ڈال دو۔ اس پر سامری نے کہا کہ آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ جب میں ڈالوں تو جو کچھ میں چاہتا ہوں، وہ پورا ہو جائے۔ حضرت ہارونؑ کو اس کی منافقت معلوم نہیں تھی، اس لیے دعا فرما دی۔ حقیقت میں وہ مٹھی میں زیور کے بجائے مٹی لے کر آیا تھا۔ اور اس نے وہ مٹی ان زیورات پر ڈال کر انہیں پگھلایا۔ اور ان سے ایک بچھڑے کی سی مورت بنا لی جس میں سے آواز نکلتی تھی۔

آیت ۸۸ ۔ ۹۰

ترجمہ

اور لوگوں کے سامنے ایک بچھڑا بنا کر نکال لایا، ایک جسم تھا جس میں سے آواز نکلتی تھی۔ لوگ کہنے لگے کہ یہ تمہارا معبود ہے اور موسیٰ کا بھی معبود ہے، مگر موسیٰ بھول گئے ہیں۔
بھلا کیا انہیں یہ نظر نہیں آ رہا تھا کہ وہ نہ ان کی بات کا جواب دیتا تھا اور نہ ان کو کوئی نقصان یا نفع پہنچا سکتا تھا؟
اور ہارون نے ان سے پہلے ہی کہا تھا کہ میری قوم کے لوگو! تم اس (بچھڑے) کی وجہ سے فتنے میں مبتلا ہو گئے ہو، اور حقیقت میں تمہارا رب تو رحمن ہے، اس لیے تم میرے پیچھے چلو اور میری بات مانو (۳۷)

تفسیر

۳۷۔ قرآن کریم کی اس آیت نے بائبل کی اس روایت کی واضح طور پر تردید فرما دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حضرت ہارونؑ خود بھی (معاذ اللہ) بچھڑے کی پرستش میں مبتلا ہو گئے تھے (دیکھئے خروج ۱ تا ۶) یہ روایت اس لیے بھی قطعی طور پر لغو ہے کہ حضرت ہارونؑ نبی تھے، اور کسی نبی کے شرک میں ملوث ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۹۱ ۔ ۹۳

ترجمہ

وہ کہنے لگے کہ جب تک موسیٰ واپس نہ آ جائیں، ہم تو اسی کی عبادت پر جمے رہیں گے۔
موسیٰ نے (واپس آ کر) کہا۔ ہارون! جب تم نے دیکھ لیا تھا کہ یہ لوگ گمراہ ہو گئے ہیں تو تمہیں کس چیز نے روکا تھا۔
کہ تم میرے پیچھے چلے آتے؟ بھلا کیا تم نے میری بات کی خلاف ورزی کی؟ (۳۸)

تفسیر

۳۸۔ جب حضرت موسیٰؑ کوہ طور پر جا رہے تھے تو حضرت ہارونؑ کو اپنا نائب بناتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا کہ اصلاح کرتے رہنا اور مفسدوں کے پیچھے نہ چلنا۔ یہاں اپنی اسی ہدایت کی طرف اشارہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب یہ لوگ گمراہی میں پڑ گئے تھے تو آپ کو چاہئے تھا کہ ان سے الگ ہو کر میرے پاس چلے آتے۔ اس طرح آپ مفسدوں کے ساتھی بھی نہ بنتے۔ اور میرے ذریعے ان کی اصلاح بھی کرتے۔

آیت ۹۴

ترجمہ

ہارون نے کہا۔ میرے ماں کے بیٹے! میری داڑھی نہ پکڑو، اور نہ میرا سر۔ حقیقت میں مجھے یہ اندیشہ تھا کہ تم یہ کہو گے کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا، اور میری بات کا پاس نہیں کیا۔ (۳۹)

تفسیر

۳۹۔ یعنی میرے چلے جانے سے قوم دو ٹکڑوں میں بٹ جاتی، کچھ لوگ میرا ساتھ دیتے، اور کچھ ان گمراہوں کا جو مجھے قتل تک کرنے کے درپے تھے جیسا کہ سورة اعراف آیت ۱۵۰ میں حضرت ہارونؑ کی زبانی بیان فرمایا گیا ہے۔ لہذا آپ نے جو فرمایا تھا کہ اصلاح کرتے رہنا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ ایسا کرنے سے آپ اس حکم کی خلاف ورزی ہو جاتی۔

آیت ۹۵، ۹۶

ترجمہ

موسیٰ نے کہا۔ اچھا تو سامری! تجھے کیا ہوا تھا؟
وہ بولا۔ میں نے ایک ایسی چیز دیکھ لی تھی جو دوسروں کو نظر نہیں آئی تھی۔ اس لیے میں نے رسول کے نقش قدم سے ایک مٹھی اٹھا لی، اور اسے (بچھڑے پر) ڈال دیا۔ (۴۰) اور میرے دل نے مجھے کچھ ایسا ہی سمجھایا۔

تفسیر

۴۰۔ رسول سے مراد حضرت جبرئیلؑ ہیں جو حضرت موسیٰؑ کے لشکر کے ساتھ تھے۔ عام طور سے مفسرین نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ حضرت جبرئیلؑ انسانی شکل میں ایک گھوڑے پر سوار تھے، اور سامری نے دیکھا کہ گھوڑے کا پاؤں جس جگہ پڑتا، وہاں زندگی کے کچھ آثار پیدا ہو جاتے تھے۔ سامری نے سمجھا کہ اس مٹی میں جو زندگی کے آثار پیدا ہو رہے ہیں، ان سے یہ کام بھی لیا جا سکتا ہے کہ کسی بے جان چیز پر ڈالنے سے اس میں زندگی کے کچھ خصوصیات پیدا ہو جائیں، چنانچہ اس نے ایک مٹھی اس مٹی کی لے کر بچھڑے پر ڈال دی جس سے آواز نکلنے لگی۔ لیکن بعض مفسرین مثلاً حضرت مولانا حقانی نے تفسیر حقانی جلد ۳ ص ۲۷۲، ۲۷۳ میں فرمایا ہے کہ یہ سامری کی طرف سے ایک جھوٹا بہانہ تھا، ورنہ بچھڑے میں آواز خلا میں ہوا کے گذرنے سے نکلتی تھی، چونکہ قرآن کریم نے نہ کوئی تفصیل خود بیان فرمائی، نہ کسی مضبوط حدیث سے ثابت ہے، اور نہ کوئی دینی ضرورت اس کے جاننے پر موقوف ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس تفصیل کو اللہ تعالیٰ ہی کے حوالے کیا جائے۔

آیت ۹۷

ترجمہ

موسیٰ نے کہا۔ اچھا تو جا، زب زندگی بھر تیرا کام یہ ہو گا کہ تو لوگوں سے یہ کہا کرے گا کہ مجھے نہ چھونا۔ (۴۱) اور (اس کے علاوہ) تیرے لیے ایک وعدے کا وقت مقرر ہے جو تجھ سے ٹلایا نہیں جا سکتا۔ (۴۲) اور دیکھ اپنے اس (جھوٹے) معبود کو جس پر تو جما بیٹھا تھا! ہم اسے جلا ڈالیں گے، اور پھر اس (کی راکھ) کو چورا چورا کر کے سمندر میں بکھیر دیں گے۔

تفسیر

۴۱۔ سامری کے جرم کی سزا اس کو یہ دی گئی کہ تمام لوگ اس کا بائیکاٹ کریں، نہ کوئی اسے چھوئے اور نہ وہ کسی کو ہاتھ لگائے۔ اب یہ بھی ممکن ہے کہ اس کو یہ سزا قانونی حکم کے ذریعے دی گئی ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے، جیسا کہ بعض روایات میں آیا بھی ہے، کہ اس کے جسم میں کوئی ایس بیماری پیدا ہو گئی تھی کہ کوئی شخص اسے ہاتھ لگاتا تو اس کو بھی اور ہاتھ لگانے والے کو بھی بخار پر چڑھ جاتا۔
۴۲۔ اس سے مراد آخرت کے عذاب کا وعدہ ہے۔

آیت ۹۸

ترجمہ

حقیقت میں تم سب کا معبود تو بس ایک ہی اللہ ہے، جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
(اے پیغمبر) ماضی میں جو حالات گزرے ہیں ان میں سے کچھ واقعات ہم اسی طرح تم کو سناتے ہیں، اور ہم نے تمہیں خاص اپنے پاس سے ایک نصیحت نامہ عطا کیا ہے۔ (۴۳)

تفسیر

۴۳۔ حضرت موسیٰؑ کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان فرمانے کے بعد اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ آنحضرتﷺ کی زبان مبارک پر اس جیسے واقعات کا جاری ہونا جبکہ آپ امی ہیں، اور آپ کے پاس ان معلومات کے حصول کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں، اور جو آیات آپ تلاوت کر رہے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی نازل فرمائی ہوئی ہیں۔

آیت ۱۰۰ ۔ ۱۰۳

ترجمہ

جو لوگ اس سے منہ موڑیں گے، تو وہ قیامت کے دن بڑا بھاری بوجھ لادے ہوں گے۔
جس (کے عذاب) میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور قیامت کے دن ان کے لیے یہ بدترین بوجھ ہو گا۔
جس دن صور پھونکا جائے گا، اور اس دن ہم سارے مجرموں کو گھیر کر اس طرح جمع کریں گے کہ وہ نیلے پڑے ہوں گے۔
آپس میں سرگوشیاں کر رہے ہوں گے کہ تم (قبروں میں یاد نیا میں) دس دن سے زیادہ نہیں ٹھہرے۔ (۴۴)

تفسیر

۴۴۔ قیامت کا دن ان کے لیے اتنا ہولناک ہو گا کہ وہ دنیا کی ساری زندگی کو ایسا سمجھیں گے جیسے وہ دس دن کی بات ہو۔

آیت ۱۰۴

ترجمہ

جس بارے میں وہ باتیں کریں گے اس کی حقیقت ہمیں خوب معلوم ہے۔ (۴۵) جبکہ ان میں سے جس کا طریقہ سے سب بہتر ہو گا، وہ کہے گا کہ تم ایک دن سے زیادہ نہیں ٹھہرے (۴۶)۔

تفسیر

۴۵۔ یعنی جن دنوں کا شمار وہ صرف دس دن سمجھ کر کر رہے تھے، ان کی صحیح تعداد ہم جانتے ہیں
۴۶۔ یعنی جس شخص کو زیادہ سمجھ دار سمجھا جاتا تھا، وہ تو کہے گا کہ ہمارے دنیا میں قیام کی مدت یا قبروں میں رہنے کی مدت صرف ایک ہی دن تھی۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۱۰۵ ۔ ۱۱۴

ترجمہ

اور لوگ تم سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں (کہ قیامت میں ان کا کیا بنے گا؟) جواب میں کہہ دو کہ میرا پروردگار ان کو دھول کی طرح اڑا دے گا۔
اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا کر چھوڑے گا۔
کہ اس میں تمہیں نہ کوئی بل نظر آئے گا، نہ کوئی ابھار۔
ان سن سب کے سب منادی کے پیچھے اس طرح چلے آئیں گے کہ اس کے سامنے کوئی ٹیڑھ نہیں دکھا سکیں گے۔ اور خدائے رحمن کے آگے تمام آوازیں دب کر رہ جائیں گی، چنانچہ تمہیں پاؤں کی سرسراہٹ کے سوا کچھ سنائی نہیں دے گا۔
اس دن کسی کی سفارش کام نہیں آئے گی، سوائے اس شخص (کی سفارش) کے جسے خدائے رحمن نے اجازت دے دی ہو، اور جس کے بولنے پر وہ راضی ہو۔
وہ لوگوں کی ساری اگلی پچھلی باتوں کو جانتا ہے، اور وہ اس کے علم کا احاطہ نہیں کر سکتے۔
اور سارے کے سارے چہرے حی و قیوم کے آگے جھکے ہوں گے، اور جو کوئی ظلم کا بوجھ لاد کر لایا ہو گا نامراد ہو گا۔
اور جس نے نیک عمل کیے ہوں گے جبکہ وہ مومن بھی ہو تو اسے نہ کسی زیادتی کا اندیشہ ہو گا، نہ کسی حق تلفی کا۔
اور ہم نے اسی طرح یہ وحی ایک عربی قرآن کی شکل میں نازل کی ہے، اور اس میں تنبیہات کو طرح طرح سے بیان کیا ہے، تاکہ لوگ پرہیزگاری اختیار کریں، یا یہ قرآن ان میں کچھ سوچ سمجھ پیدا کرے۔
ایسی ہی اونچی شان ہے اللہ کی، جو سلطنت کا حقیقی مالک ہے۔ اور (اے پیغمبر) جب قرآن وحی کے ذریعے نازل ہو رہا ہو تو اس کے مکمل ہونے سے پہلے قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا رکو۔ (۴۷) اور یہ دعا کرتے رہا کرو کہ میرے پروردگار! مجھے علم میں اور ترقی عطا فرما۔ (۴۸)

تفسیر

۴۷۔ جب حضرت جبرئیلؑ قرآن کریم کی آیتیں وحی کے آنحضرتﷺ پر نازل کرتے، تو آپ اس ڈر سے کہ کہیں بھول نہ جائیں، ساتھ ساتھ ان آیتوں کو دہراتے رہتے تھے جس سے ظاہر ہے کہ آپ کو سخت مشقت ہوتی تھی۔ اس آیت میں آپ سے فرمایا گیا ہے کہ آپ کو یہ محنت اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ خود ہی قرآن کریم کو آپ کے سینہ مبارک میں محفوظ فرما دے گا۔ یہی بات سورة قیامہ۔ ۱۶ تا ۱۸ میں بھی فرمائی گئی ہے۔
۴۸۔ آنحضرتﷺ کو اس دعا کی تلقین فرما کر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ علم ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں، اور انسان کو علم کے کسی بھی درجے پر قناعت کر کے نہیں بیٹھنا چاہئے، بلکہ ہر وقت علم میں ترقی کی کوشش اور دعا کرتے رہنا چاہئے۔ اس دعا میں یاد داشت کی قوت کی دعا بھی شامل ہے، اور معلومات کی زیادتی اور ان کی صحیح سمجھ کی بھی

آیت ۱۱۵

ترجمہ

اور ہم نے اس سے پہلے آدم کو ایک بات کی تاکید کی تھی، پھر ان سے بھول ہو گئی، اور ہم نے ان میں عزم نہیں پایا۔ (۴۹)

تفسیر

۴۹۔ جس تاکید کا یہاں ذکر ہے، اس سے مراد ایک خاص درخت کا پھل نہ کھانے کی تاکید ہے۔ اس واقعے کی تفصیل اور اس سے متعلق سوالات کا جواب سورة بقرہ۔ ۳۴ تا ۳۹ میں گذر چکا ہے۔ اور یہاں آدمؑ کے بارے میں جو فرمایا گیا ہے کہ ہم نے ان میں عزم نہیں پایا، اس کا ایک مطلب بعض مفسرین نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ان سے درخت کا پھل کھانے کے سلسلے میں جو غلطی ہوئی، اس میں ان کے عزم کو دخل نہیں تھا، یعنی انہوں نے نافرمانی کے ارادے سے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی، بلکہ ان سے بھول ہو گئی۔ اور دوسرے مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ ان میں ایسا پختہ عزم نہیں تھا کہ شیطان کے بہکائے میں نہ آتے۔ اس سے انسان کی اس سرشت کی طرف اشارہ ہے جس میں شیطان اور نفس کے بہکائے میں آنے کی صلاحیت موجود ہے۔ چونکہ قرآن کریم نے عزم کی نفی کو بھول ہو جانے کے ساتھ ملا کر ذکر کیا ہے، اس لیے یہاں پہلے معنی زیادہ بہتر معلوم ہوتے ہیں۔

آیت ۱۱۶

ترجمہ

یاد کرو وہ وقت جب ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو، چنانچہ سب نے سجدہ کیا، البتہ ابلیس تھا جس نے انکار کیا۔
چنانچہ ہم نے کہا کہ اے آدم! یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، لہذا ایسا نہ ہو کہ یہ تم دونوں کو جنت سے نکلوا دے، اور تم مشقت میں پڑ جاؤ۔ (۵۰)

تفسیر

۵۰۔ اس آیت کو اگلی آیت سے ملا کر پڑھا جائے تو مطلب یہ ہے کہ جنت میں تو تمہیں زندگی کی ساری ضروریات یعنی خوراک، کپڑا اور رہنے کے لیے گھر بغیر کسی محنت کے حاصل ہے، جنت سے نکل گئے تو ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے محنت اور مشقت اٹھانی پڑے گی۔

آیت ۱۱۸ ۔ ۱۲۰

ترجمہ

یہاں تو تمہیں یہ فائدہ ہے کہ نہ تم بھوکے ہو گے، نہ ننگے۔
اور نہ یہاں پیاسے رہو گے، نہ دھوپ میں تپو گے۔
پھر شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا۔ کہنے لگا۔ اے آدم! کیا میں تمہیں ایک ایسا درخت بتاؤں جس سے جاودانی زندگی اور وہ بادشاہی حاصل ہو جاتی ہے جو کبھی پرانی نہیں پڑتی؟ (۵۱)

تفسیر

۵۱۔ ساتھ ہی شیطان نے یہ تاویل بھی سجھائی کہ اس درخت کی جو ممانعت کی گئی تھی۔ وہ اس لیے تھی کہ تم میں اس وقت اس درخت کا پھل کھانے کی طاقت نہیں تھی۔ اب ایک عرصہ گذر جانے کے بعد یہ رکاوٹ باقی نہیں رہی

آیت ۱۲۱

ترجمہ

چنانچہ ان دونوں نے اس درخت میں سے کچھ کھا لیا جس سے ان دونوں کے شرم کے مقامات ان کے سامنے کھل گئے، اور وہ دونوں جنت کے پتوں کو اپنے اوپر گانٹھنے لگے۔ اور (اس طرح) آدم نے اپنے رب کا کہا ٹالا، اور بھٹک گئے۔ (۵۲)

تفسیر

۵۲۔ سورة بقرہ میں ہم لکھ چکے ہیں کہ یہ حضرت آدمؑ کی اجتہادی غلطی تھی جس کی حقیقت اوپر آیت نمبر ۱۱۵ میں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ ان سے بھول ہو گئی، اور اجتہادی غلطی اور بھول میں جو کام کیا جاتا ہے، وہ گناہ نہیں ہوتا، لیکن چونکہ پیغمبروں کی شان بہت بلند ہوتی ہے، اس لیے ان سے اس قسم کی اجتہادی غلطی کا سرزد ہونا بھی ان کے شایان شان نہیں ہوتا، اس لیے اسے حکم ٹالنے اور بھٹکنے سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس پر بھی توبہ کی تلقین فرمائی گئی ہے۔

آیت ۱۲۲، ۱۲۳

ترجمہ

پھر ان کے رب نے انہیں چن لیا، چنانچہ ان کی توبہ قبول فرمائی، اور انہیں ہدایت عطا فرمائی۔
اللہ نے فرمایا۔ تم دونوں کے دونوں یہاں سے نیچے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے (۵۳) پھر اگر تمہیں میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا، وہ نہ گمراہ ہو گا، اور نہ کسی مشکل میں گرفتار ہو گا۔

تفسیر

۵۳۔ یعنی انسان اور شیطان ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۱۲۴

ترجمہ

اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کو بڑی تنگ زندگی ملے گی، اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ (۵۴)

تفسیر

۵۴۔ جب قبر سے اٹھا کر حشر کی طرف لائے جائیں گے، اس وقت تو یہ لوگ اندھے ہوں گے، لیکن بعد میں انہیں بینائی دے دی جائے گی، جیسا کہ سورة کہف۔ ۵۳ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جہنم کی آگ کو دیکھیں گے۔

آیت ۱۲۵ ۔ ۱۲۹

ترجمہ

وہ کہے گا کہ یا رب! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا، حالانکہ میں تو آنکھوں والا تھا؟
اللہ کہے گا۔ اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آئی تھیں، مگر تو نے انہیں بھلا دیا۔ اور آج اسی طرح تجھے بھلا دیا جائے گا۔
اور جو شخص حد سے گزر جاتا ہے، اور اپنے پروردگار کی نشانیوں پر ایمان نہیں لاتا، اسے ہم اسی طرح سزا دیتے ہیں، اور آخرت کا عذاب واقعی زیادہ سخت اور زیادہ دیر رہنے والا ہے۔
پھر کیا ان لوگوں کو اس بات نے بھی کوئی ہدایت کا سبق نہیں دیا کہ ان سے پہلے کتنی نسلیں تھیں جنہیں ہم نے ہلاک کر دیا، جن کی بستیوں میں یہ لوگ چلتے پھرتے بھی ہیں؟ یقیناً جن لوگوں کے پاس عقل ہے، ان کے لیے اس بات میں عبرت کے بڑے سامان ہیں۔
اور اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک بات پہلے ہی طے نہ کر دی گئی ہوتی، اور (اس کے نتیجے میں عذاب کی) ایک میعاد مقرر نہ ہوتی، تو لازمی طور پر عذاب (ان کو) چمٹ چکا ہوتا۔ (۵۵)

تفسیر

۵۵۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے ان کافروں کو عذاب دینے کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے، اور یہ طے کر رکھا ہے کہ اس سے پہلے ان کو مہلت دی جائے گی۔ اس لیے ان کی نافرمانیوں کے باوجود ان پر عذاب نازل نہیں ہو رہا ہے۔ اگر یہ بات پہلے سے طے نہ ہوتی تو ان کے کرتوت ایسے تھے کہ ان کو فوری طور پر عذاب آ چمٹتا۔

آیت ۱۳۰

ترجمہ

لہذا (اے پیغمبر) یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں، تم ان پر صبر کرو، اور سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے غروب سے پہلے اپنے رب کی تسبیح اور حمد کرتے رہو، اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو، اور دن کے کناروں میں بھی، تاکہ تم خوش ہو جاؤ۔ (۵۶)

تفسیر

۵۶۔ نبی کریمﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ لوگ آپ کے خلاف جو بے ہودہ باتیں کرتے ہیں، ان کا جواب دینے کے بجائے ان پر صبر کرتے رہئے، اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس میں لگے رہئے جس کا بہترین طریقہ نماز پڑھنا ہے، چنانچہ سورج نکلنے سے پہلے فجر کی نماز اور غروب سے پہلے عصر کی نماز اور رات میں عشاء اور تہجد کی نماز اور دن کے کناروں پر مغرب کی نماز کا اہتمام کرتے رہئے۔ اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہو گا کہ بالآخر آپ خوش ہو جائیں گے، ایک تو اس لیے کہ اس پر آپ کو جو اجر ملنے والا ہے، وہ انتہائی عظیم الشان ہے، اور دوسرے یہی طرز عمل آخر کار دشمنوں پر آپ کی فتح کا ضامن ہے، اور تیسرے اس لیے کہ آپ کو امت کی شفاعت کا مقام حاصل ہو گا تو امت کی نجات سے آپ کو خوشی ہو گی۔

آیت ۱۳۱، ۱۳۲

ترجمہ

اور دنیوی زندگی کی اس بہار کی طرف آنکھیں اٹھا کر بھی نہ دیکھو جو ہم نے ان (کافروں) میں سے مختلف لوگوں کو مزے اڑانے کے لیے دے رکھی ہے، تاکہ ہم ان کو اس کے ذریعے آزمائیں۔ اور تمہارے رب کا رزق سب سے بہتر اور سب سے زیادہ دیرپا ہے۔
اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو، اور خود بھی اس پر ثابت قدم رہو۔ ہم تم سے رزق نہیں چاہتے (۵۷) رزق تو ہم تمہیں دیں گے اور بہتر انجام تقویٰ ہی کا ہے۔

تفسیر

۵۷۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح دنیا میں آقا اپنے غلاموں کو معاشی مشغلے میں لگا کر ان کی آمدنی سے رزق حاصل کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ تمہاری اس طرح کی بندگی سے بے نیاز ہے، اس کے بجائے وہ خود تمہیں رزق دینے کا وعدہ کر چکا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم نے تم پر یہ ذمہ داری عائد نہیں کی کہ تم اپنا رزق خود پیدا کرو۔ تم زیادہ سے زیادہ جو کچھ کرتے ہو، وہ یہ کہ اسباب کو اختیار کر لیتے ہو، مثلاً زمین میں بیج بو دیتے ہو، لیکن اس بیج سے دانہ اگانے کا کام ہم نے تم پر نہیں رکھا۔ بلکہ ہم خود اس سے وہ پیداوار پیدا کرتے ہیں جو تمہیں رزق مہیا کرتی ہے۔

آیت ۱۳۳

ترجمہ

اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ (نبی) ہمارے پاس اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں لے آتے؟ بھلا کیا ان کے پاس پچھلے (آسمانی) صحیفوں کے مضامین کی گواہی نہیں آ گئی؟ (۵۸)

تفسیر

۵۸۔ اس سے مراد قرآن کریم ہے اور آیت کی تشریح دو طرح کی جا سکتی ہے، ایک یہ کہ یہ قرآن وہ کتاب ہے جس کی پیشین گوئی پھچلے آسمانی صحیفوں میں موجود تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان صحیفوں نے قرآن کریم کی حقانیت کی گواہی دی تھی، اور دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ یہ قرآن کریم پچھلے آسمانی صحیفوں کے مضامین کی تصدیق کر کے ان کی گواہی دے رہا ہے، حالانکہ نبی کریمﷺ جن کی زبان مبارک پر یہ کلام جاری ہوا ہے وہ امی ہیں، اور ان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے، جس سے وہ پچھلی کتابوں کا علم حاصل کر سکتے۔ اب جو ان آسمانی کتابوں کے مضامین ان کی زبان پر جاری ہو رہے ہیں، اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ مضامین اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں، اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اس سے بڑھ کر آنحضرتﷺ کی نبوت کی اور کیا نشانی چاہتے ہو۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۱۳۴

ترجمہ

اور اگر ہم انہیں اس (قرآن) سے پہلے ان کو کسی عذاب سے ہلاک کر دیتے تو یہ لوگ کہتے کہ ہمارے پروردگار! آپ نے ہمارے پاس کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا، تاکہ ہم ذلیل اور رسوا ہونے سے پہلے آپ کی آیتوں کی پیروی کرتے؟
(اے پیغمبر ان سے) کہہ دو کہ (ہم) سب انتظار کر رہے ہیں، لہذا تم بھی انتظار کرو، (۵۹) کیونکہ عنقریب تمہیں پتہ چل جائے گا کہ سیدھے راستے والے لوگ کون ہیں، اور کون ہیں جو ہدایت پا گئے ہیں؟

تفسیر

۵۹۔ یعنی دلیلیں اور حجتیں تو ساری تمام ہو چکیں۔ اب اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا تم بھی انتظار کرو، اور ہم بھی انتظار کرتے ہیں، وہ وقت دور نہیں جب ہر شخص کے سامنے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو کر واضح ہو جائے گا۔
٭٭٭
 
Top